فرمانِ امام زین العابدین: غور و فکر ایک ایسا آئینہ ہے جو مؤمن کو اس کی اچھائیاں اور برائیاں دکھاتا
ہے۔ (تاریخ ابن عساکر، 41/408) لہٰذا آئیں ہم بھی اپنے اخلاق میں غور و فکر کرتے
ہیں کہ کہیں ہم بھی اس گناہ میں شامل تو نہیں! بداخلاق لوگوں سے انسان اتنا دور
ہوجاتے ہیں کہ اس شخص کو دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے، چاہے وہ شخص کتنا ہی کام کرنے
والا اور ہاتھ بٹانے والا کیوں نہ ہو، ایک بداخلاقی کی وجہ سے لوگ اس سے دور
ہوجاتے ہیں پھر وہ انسان اکیلا رہ جاتا ہے۔ امام زین العابدین رضی اللہ عنہ فرماتے
ہیں: سب سے بڑی غربت اپنے پیاروں کو کھو دینا اور دور ہوجانا ہے۔ (حلیۃ الاولیاء،
3/158، رقم: 3540)
بداخلاقی کرنے والے کو خود بھی اپنی بد اخلاقی اور برے رویے کا خیال بہت دیر
بعد ہوتا ہے، لہٰذا ہمیں بداخلاقی کے متعلق ضرور پڑھ لینا چاہیے۔
تعریف: لوگوں
سے بری اور نازیبا عادات کے ساتھ ملنا اور ہر وقت غصے میں رہنا اور صلہ رحمی اور عاجزی
نہ کرنا بداخلاقی کہلاتا ہے۔
حکم:
بداخلاقی جہنم میں لے جانے والے اعمال میں سے ہے اور یہ گناہ ہے۔
فرامینِ مصطفیٰ:
1۔ عمل کا برباد ہونا: بداخلاقی عمل کو اس طرح برباد کردیتی ہے جیسے سرکہ شہد کو خراب کر دیتا ہے۔
(کشف الخفا، ص 405، حدیث: 1496)
2۔ بداخلاق تنہا رہ جائے گا: جس کا اخلاق برا ہوگا وہ تنہا رہ جائے گا اور جس کے رنج زیادہ ہوں گے اس کا
بدن بیمار ہوجائے گا اور لوگوں کو ملامت کرے گا اس کی بزرگی جاتی رہے گی اور مروت
ختم ہوجائے گی۔ (کتاب البر و الصلۃ، 7/116، حدیث: 2602)
3۔ بداخلاق کی توبہ نہیں: بے شک ہر گناہ کی توبہ ہے مگر بداخلاق کی توبہ نہیں، کیونکہ جب وہ کسی ایک
گناہ سے توبہ کرتا ہے تو اس سے بڑے گناہ میں پڑ جاتا ہے۔(جامع الاحادیث للسیوطی،
2/375، حدیث: 6064)
4۔ جنت میں نہ جائے گا: بداخلاق آدمی جنت میں داخل نہ ہوگا۔ (ترمذی، ص 1847، حدیث: 1946)
اللہ اللہ! اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بداخلاقی سے دور رکھے کیونکہ اللہ کی
بارگاہ میں بداخلاقی کی توبہ قبول نہیں کی جاتی ہے۔ اپنی اصلاح کی کوشش جاری رکھیے
کیونکہ جو خود نیک ہو وہ دوسروں کے بارے میں بھی نیک گمان رکھتا ہے جبکہ جو خود
برا ہو اسے دوسرے بھی برے ہی دکھائی دیتے ہیں۔آخر میں اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں
اپنے ناپسندیدہ کاموں اور عادات سے ہمیشہ کے لیے دور رکھے اور ہمیشہ دعوت اسلامی
کا وفادار رکھے۔ آمین
حافظ وقاص احمد عطّاری (درجہ سابعہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ کنز الایمان رائے
ونڈ لاہور،پاکستان)
دینِ اسلام جہاں محبت و اخوت،
بھائی چارہ و برداشت ،احسان و قربانی ،سچائی و ایمانداری سکھاتا ہے وہی یہ پیارا
دینِ اسلام ہم کو دوسروں کی عزت و اکرام کرنا بھی سکھاتا ہے۔ کسی بھی چیز سے بچنے
اور بچانے کے لیے اس کے نقصانات کو پیش نظر رکھا جاتا ہے اور بد اخلاقی تو ایسی بری
صفت ہے کہ اس کے دنیوی اور اُخروی دونوں طرح کے نقصانات ہیں۔
بد اخلاقی کے نقصانات
بیان کرنے سے پہلے اخلاق کی تعریف ذہن نشین کرلیں۔ چنانچہ امام غزالی رحمۃُ اللہ
علیہ فرماتے ہیں: اگر نفس میں موجودہ کیفیت ایسی ہو کہ اس کے باعث اچھے افعال اس
طرح ادا ہوں کہ وہ کہ وہ عقلی اور شرعی طور پر پسندیدہ ہوں تو اسے حسنِ اخلاق کہتے
ہیں اور اگر اس سے برے افعال اس طرح ادا ہوں کہ وہ عقلی اور شرعی طور پر ناپسندیدہ
ہوں تو اسے بد اخلاقی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔(احیاء العلوم ، 3 / 165 ،مکتبۃ
المدینہ)
بد اخلاقی کی مذمت پر
احادیث کریمہ ملاحظہ فرمائیں : (1)حضرت سیدنا فضیل بن عِیاض رحمۃُ الله علیہ سے مروی ہے کہ
بارگاہِ رسالت میں عرض کی گئی: ایک عورت دن میں روزہ رکھتی اور رات میں قیام کرتی
ہے لیکن وہ بد اخلاق ہے ،اپنی زبان سے پڑوسیوں کو تکلیف پہنچاتی ہے۔ تو آپ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اس میں کوئی بھلائی نہیں وہ جہنمیوں میں
سے ہے۔ ( شعب الایمان ،باب فی اکرم الجار، 7/78، حدیث: 9545)
(2)اَوَّلُ مَایُوْضَعُ فِی الْمِیْزَانِ حُسْنُ الْخُلُقِ
وَالسَّخَآءُ یعنی میزان میں سب سے
پہلے حُسنِ اخلاق اور سخاوت کو رکھا جائے گا۔( المصنف لابن ابی شيبۃ)جب
اللہ پاک نے ایمان کو پیدا فرمایا تو اس نے عرض کی: اے رب! مجھے تقویت دے۔ تو اللہ
پاک نے اسے حُسن اَخلاق اور سخاوت کے ذریعےتَقْوِیَت دی اور جب اللہ پاک نے کفر کو
پیدا کیا تو اس نے کہا: اے رب! مجھے تقویت دے۔تو اللہ پاک نے اسے بخل اور بداخلاقی
کے ذریعے تقویت دی۔
(3)سُوْ ءُالْخُـلُقِ ذَنْبٌ لَّا یُغْفَرُ وَسُوْ ءُ
الظَّنِّ خَطِیْـئَةٌ تَـنُوْجُ یعنی بد اخلاقی ایک ایسا گناہ ہے جس کی مغفرت نہ ہوگی اور
بد گمانی ایسی خطا ہے جو دوسرے گناہوں کا سبب بنتی ہے۔ (مساویٔ الاخلاق للخرائطی،باب
ماجاء فی سوء الخلق من الکراهۃ،ص20، حدیث:7)
(4)اِنَّ الْعَبْدَ لَیَبْلُغُ مِنْ سُوْ ءِخُلُقِہٖ
اَسْفَلَ دَرْکَ جَھَنَّمَ یعنی انسان اپنے بُرے اخلاق کے سبَب جَہَنَّم کے سب سے
نچلے طبقے میں پہنچ جاتا ہے۔( مساویٔ الاخلاق للخرائطی،باب ماجاء فی
سوء الخلق من الکراهۃ، ص22، حدیث:12)
(5)بد اخلاقی عمل کو
خراب کر دیتی ہے : شعب الایمان میں ہے کہ بد اخلاقی عمل کو اس طرح خراب کر دیتی ہے۔ جس طرح سرکہ
شہد کو خراب کر دیتا ہے۔ (شعب الایمان،باب فی حسنِ اخلاق،6/247، حدیث:8036)
میراحسان الحق خورشیدی( دورة الحدیث شریف جامعۃُ المدينہ فیضان مہرعلی جی الیون
اسلام آباد،پاکستان)
پیارے پیارے اسلامی
بھائیو! حسنِ اخلاق ایمان کی اور بداخلاقی نفاق کی علامت ہے۔ بد اخلاقی کی مذمت پر
قراٰن و حدیث شاہد ہیں لیکن یہاں چند احادیث بیان کرنا ضروری ہے تاکہ اس نحوست سے
مسلمان محفوظ رہیں۔
(1)حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ
عبرت نشان ہے: انسان اپنے برے اخلاق کے سبب جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں پہنچ جاتا
ہے۔(مساوىٔ الاخلاق باب ما جاء فى سوء الخلق فی الكراهيۃ)( 2) حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بد اخلاقی ایک ایسا گناہ
ہے جس کی مغفرت نہ ہوگی۔
حضورِ اکرم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اس فرمان سے ہم سب کو عبرت حاصل کرنی چاہیے کہ
کہیں ہم بد اخلاقی کی وجہ سے مغفرت سے محروم نہ ہو جائیں۔ اللہ ہمیں حضورِ اکرم کے
حسن اخلاق میں سے کروڑواں حصہ عطا فرمائے۔ اٰمین
(3) حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بد
اخلاقی عمل کو اس طرح برباد کر دیتی ہے جس طرح سر کہ شہد کو خراب کر دیتا ہے ۔(شعب
الايمان باب فی حسن الخلق)
حدیث میں آیا ہے کہ
بداخلاقی عمل کو برباد کر دیتی ہے ہمیں عبرت حاصل کرنی چاہئے جیسے کہ ولید بن
مغیرہ کے عمل اکارت ہو گئے کیونکہ وہ بد زبان تھا جیسا کہ رب نے فرمایا: عُتُلٍّۭ بَعْدَ ذٰلِكَ زَنِیْمٍۙ(۱۳)یہاں پر عُتُلٍّ کا معنیٰ ہے سخت مزاج۔ اس آیت میں اس
کافر کے دو عیب بیان کئے گئے ہیں کہ وہ طبعی طور پر بد مزاج اور بد زبان ہے ،
کیونکہ ولید بن مغیرہ بد اخلاق تھا۔ اس کا بد اخلاق ہونا قراٰن نے بیان کیا اسی بداخلاقی
کی وجہ سے اس نے بارگاہ نبوی میں بے ادبی کی تو رب کائنات نے اس کی دس عیوب بیان کئے۔
الله ہمیں بد اخلاقی سے محفوظ رکھے۔ اٰمین
(4)حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس
شخص میں تین یا ان میں سے کوئی بات نہ ہو اس کے عمل کو کچھ بھی شمار نہ کرو:(1)تقوٰی جو اسے اللہ پاک کی نافرمانی سے
روکے۔(2)تَحَمُّلجس کے ذریعے وہ خود کو بیوقوف
سے دُور کرے۔ (3)اچھے اخلاق جن کے ذریعے لوگوں میں
زندگی گزارے ۔( المعجم الکبير،23/ 308، حديث:695)
(5) حضرت سیدنا انس بن مالک
سے مروی ہے انسان اپنے حسنِ اخلاق کے سبب جنت کے اعلیٰ درجات پا لیتا ہے حالانکہ
وہ کوئی عبادت گزار نہیں ہوتا اور انسان اپنے برے اخلاق کے سبب جہنم کے سب سے نچلے
طبقے تک پہنچ جاتا ہے باوجود یہ کہ وہ عبادت گزار ہوتا ہے ۔
پیارے پیارے اسلامی
بھائیو ! اچھے اخلاق بندے کو جنت کے اعلیٰ درجات پر فائز کرتے ہیں اگر چہ وہ عبادت
گزار نہ ہو لیکن بد اخلاقی بندے کو جہنم کے نچلے طبقے میں پہنچاتی ہے اگرچہ وہ
عبادت گزار ہو۔
اخلاق ہی ایک ایسی چیز ہے
جس میں جنت اور جہنم بھی ہے اگر ا خلاق اعلی و حسین اور لوگوں سے معاملات اور
کردار اچھا ئی ہوئی اور اس بارے اللہ پاک کا خوف ہو گا تو یہی خوبی جنت میں جانے
کا باعث بنے گی اور اگر خدا نخواستہ کردار میں اور اخلاق میں برائی ہوئی تو یہی
خصلت (Habit) دوزخ بن جائے
گی۔
برے اخلاق کی تباہ
کاریاں:۔ (1) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: بد اخلاقی عمل کو اس طرح برباد کر دیتی ہے جیسے
سرکہ شہد کو خراب کر دیتا ہے۔
(2) بد اخلاقی برا شگون ہے عورتوں کی اطاعت ندامت ہے اور درگزر
کرنا اچھی عادت ہے۔ (4) بے شک ہر گناہ کی توبہ ہے
مگر بدا خلاق کی توبہ نہیں، کیونکہ جب وہ کسی ایک گناہ سے توبہ کرتا ہے تو اس سے
بڑے گناہ میں پڑ جاتا ہے۔
(5)اللہ پاک کے نزدیک بد
اخلاقی کے علاوہ ہر گناہ کی توبہ ہے، کیونکہ بدا خلاق آدمی جب ایک گناہ سے توبہ
کرتا ہے تو اس سے بڑے گناہ کا مرتکب ہو جاتا ہے۔(6) برا شگون بد اخلاقی ہے۔(7) اگر بد اخلاقی انسان (کی
شکل میں )ہوتی تو وہ شخص سب سے بدصورت ہوتا اور بے شک اللہ پاک نے مجھے بد کلامی
کرنے والا نہیں بنایا۔(8) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان
مبارک ہے: جس کا اخلاق برا ہو گا وہ تنہا رہ جائے گا اور جس کے رنج زیادہ ہوں گے
اس کا بدن بیمار ہو جائے گا اور جو لوگوں کو ملامت کرے گا اس کی بزرگی جاتی رہے گی
اور مروت ختم ہو جائے گی۔
(9) بد اخلاق آدمی جنت میں
داخل نہ ہوگا۔(10) لوگ مختلف چیزوں کے سر
چشمے ہیں اور باپ دادا کی عادتیں اولاد میں ضرور منتقل ہوتی ہیں اور بے ادبی بہت
بری عادت کی طرح ہے۔(11) نبی کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نماز شروع کرتے وقت یہ دعا کیا کرتے تھے : اَللّٰھُمَّ اھْدِنِیْ لِاَحْسَنِ الْاَخْلَاقِ
لَایَھْدِیْ لِاَحْسَنِھَآاِلَّآ اَنْتَ وَاَصْرِفْ عَنِّیْ سَیِّئَھَالَایُصْرِف
سَیِّئَھَآ اِلَّآ اَنْتَ یعنی اے اللہ پاک! مجھے اچھے اخلاق کی رہنمائی فرما کیونکہ
اچھے اخلاق کی رہنمائی تو ہی فرماتا ہے اور مجھ سے بُرے اَخلاق دور رکھ کیونکہ برے
اخلاق سے تو ہی دور رکھتا ہے۔
(12)تاجدارِ کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:
کامل ترین مومن وہ ہے جس کے اخلاق سب سے بہتر ہوں اور جو اپنے گھڑ والوں پر سب سے
زیادہ نرمی کرنے والا ہو۔ (ترمذی) (13)حضرت سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نہ تو فحش گو
تھے اور نہ ہی بدکلامی کرنے والے تھے اور فرمایا کرتے تھے: تم میں سے بہترین شخص وہ
ہے جس کا اخلاق اچھا ہو۔(بخاری)
(14) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے لوگوں کی
کثرت سے جنت میں داخل کرنے والے عمل کے بارے میں سوال کیا گیا: تو ارشاد فرمایا:
خوفِ خدا اور حسن اخلاق ۔ پھر وہ عمل جو كثرت سے جَہَنَّم میں داخل کرے گا تو
ارشاد فرمایا: منہ اور شرم گاہ۔(15) جس نے اپنی دو داڑھوں کے درمیان والی چیز یعنی (زبان) اور
دو ٹانگوں کے درمیان والی چیز یعنی (شرم گاہ) کی حفاظت کی وہ جنت میں داخل ہوگا ۔
(المعجم الکبیر مسند عن ابی رافع )
(16)حضرت سیدنا فضیل بن عِیاض
رحمۃُ الله علیہ سے مروی ہے کہ بارگاہِ رسالت میں عرض کی گئی: ایک عورت دن میں
روزہ رکھتی اور رات میں قیام کرتی ہے لیکن وہ بد اخلاق ہے ،اپنی زبان سے پڑوسیوں
کو تکلیف پہنچاتی ہے۔ تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اس
میں کوئی بھلائی نہیں وہ جہنمیوں میں سے ہے۔ (17)حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے عرض کی گئی کہ کونسے مومن کا اِیمان
افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: جس کا خلق سب سے بہتر ہوگا۔(المعجم الکبیر)
(18) قیامت کے دن مجھے سب سے زیادہ
محبوب اور مجھ سے قریب تر وہ لوگ ہوں گے جو تم میں سے بہترین خلق رکھتے ہیں ۔ (ترمذی) (19)حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ
میں اس لئے مبعوث کیا گیا ہوں کہ عمدہ اَخلاق کو پایۂ تکمیل تک پہنچاؤں ۔ (سنن
الکبری للبیہقی) (20)تین خصلتیں ہیں جس شخص میں
وہ تینوں یا ان میں سے کوئی ایک نہ پائی جائے، اس کے کسی عمل کو شمار میں نہ لاؤ! پرہیزگاری
جو اسے اللہ پاک کی نافرمانی سے باز رکھتی ہے، حلم جس سے وہ بیوقوف کو روک دیتا
ہے، حسن خلق جس سے متصف ہو کر وہ زندگی بسر کرتا ہے۔ (مکا شفۃ القلوب،ص 568)
غلام نبی عطاری(درجہ دورة الحديث فیضان مدینہ آفندی ٹاؤن حیدر آباد پاکستان)
دین اسلام نے اچھے اخلاق
کی برکات اور برے اخلاق کے مذموم ہونے کو واضح انداز میں بیان فرمایا ہے چنانچہ اچھے
اخلاق بہت خوبصورت صفات میں سے ایک صفت ہے اور یہ نہایت بلند و بالا عظیم مرتبہ
والی صفت ہے اس کے ذریعے بندہ لوگوں کی دلوں پر حکومت کرتا ہے اور بہت سارے لوگ اس
سے محبت کرنے والے بن جاتے ہیں اس کے ذریعہ معاشرتی مسائل گھریلو جھگڑوں کو آسانی
سے حل کر لیتا ہے اور دینِ اسلام نے مسلمان شخص کے لئے اس صفت (اچھے اخلاق) کو
ضروری قرار دیا ہے اور بد اخلاقی کو برے افعال (کاموں) میں شمار فرمایا ہے۔ یہ بہت
بری مذموم صفت ہے اس سے ہمارا رب ہم سے ناراض ہوتا ہے۔ برے اخلاق والے شخص کو لوگ
ناپسند کرتے ہیں اور معاشرہ میں اس کی عزت نہیں کی جاتی اور اس سے گھر و معاشرہ
میں ناچاکی پیدا ہو جاتی ہے۔ اور بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اب موضوع کی
مناسبت سے احادیث ملاحظہ فرمائیے :
(1) مفلس شخص کون ہے:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کیا تم
جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ صحابۂ کرام نے عرض کیا: ہم میں مفلس وہ آدمی ہے جس کے
پاس درہم و مال اسباب نہیں۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: قیامت کے
دن میری امت کا مفلس وہ آدمی ہوگا کہ جو نماز ،روزہ ،زکوٰۃ وغیرہ سب کچھ لے کر آئے
گا لیکن اس آدمی نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا
مال کھایا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا اور کسی کو مارا ہوگا تو ان سب لوگوں کو اس
کی نیکیاں دے دی جائیں گی اور اگر اس کی نیکیاں ان کے حقوق کی ادائیگی سے پہلے ہی
ختم ہو گئیں تو ان لوگوں کے گناہ اس آدمی پر ڈال دئیے جائیں گے۔ پھر اس آدمی کو جہنم
میں ڈال دیا جائے گا۔ (صحیح مسلم، 2/402)
(2) حضرت ابوہریرہ رضی
اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
حیا ایمان سے ہے اور ایمان جنت میں لے جانے والا ہے، اور فحش گوئی بداخلاقی میں سے
ہے اور بداخلاقی جہنم میں لے جانے والی ہے۔(سنن الترمذی ،539/3، باب ما جاء في الحياء ، حديث:2009)
بد اخلاقی جہنم میں
داخل ہونے کا سبب ہے : حضرت سیدنا فضیل بن عِیاض رحمۃُ الله علیہ سے مروی ہے کہ بارگاہِ رسالت میں
عرض کی گئی: ایک عورت دن میں روزہ رکھتی اور رات میں قیام کرتی ہے لیکن وہ بد
اخلاق ہے ،اپنی زبان سے پڑوسیوں کو تکلیف پہنچاتی ہے۔ تو آپ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اس میں کوئی بھلائی نہیں وہ جہنمیوں میں سے
ہے۔(شعب الایمان ،باب فی اکرم الجار، 7/78، حدیث: 9545)
اسی طرح بد اخلاقی و بد
کرداری کی وجہ سے بندہ جہنم کا حقدار ہو جاتا ہے، اور بھی اس کی بہت ساری خرابیاں
انسانی پر مرتب ہوتی ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں: (1) بد اخلاقی و بد کرداری کی وجہ
سے بندہ اپنے رب اور گھر معاشرہ اور رشتہ داروں سے دور ہو جاتا ہے
(2) بد اخلاق و بد کردار
شخص ہمیشہ ندامت و شرمندگی والی زندگی بسر کرتا ہے (3) لوگ اس سے نفرت کرتے ہیں
اور مصیبت و آزمائش میں پڑ جاتا ہے۔
(4) خوشی سے محروم ہو کر
ڈپریشن کا مریض ہو جاتا ہے سب سے بری بات یہ ہے کہ اللہ پاک اس پر لعنت فرماتا ہے۔
الامان والحفیظ
میرے پیارے اسلامی
بھائیو! اگر ہم اپنی دنیوی واخروی زندگی آسان اور خوشگوار بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں
بد اخلاقی و بد کرداری جیسے برے کام سے بچ کر حسنِ اخلاق اور بہتر کردار بنانا ہوگا۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں بد اخلاق اور تمام برے کاموں سے بچائے اور حسنِ اخلاق
کا پیکر بنائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
جنید احمد (درجہ خامسہ مدنی مرکز فیضانِ مدینہ خان پور ضلع رحیم یارخان،پاکستان)
انسان کے اندر کچھ ایسی
خوبیاں ہوتی ہیں جن کی وجہ سے انسان میں نکھار پیدا ہوتا ہے اور انسان لوگوں میں
معزز بن جاتا ہے اب جس طرح انسان میں اچھی خوبیاں پائی جاتی ہیں اسی طرح انسان میں
بری صفات بھی ہوتی ہیں جو انسان کو لوگوں میں کم تر بنا دیتی ہیں اور لوگ اس انسان
کی نہ تو قدر کرتے ہیں اور نہ ہی کوئی اس کی عزت کرتا ہے انہی بری صفات میں سے ایک
صفت بد اخلاقی بھی ہے تو آئیے بداخلاقی کی مذمت احادیث کی روشنی میں سنتے ہیں تاکہ
ہم بد اخلاقی کی بری صفت سے نجات یا سکیں اور معاشرے کے اچھے انسان بن کر زندگی
گزار سکیں۔
حدیث(1) حضرت ابو ہریرہ
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ فلاں خاتون کے
نماز، روزے اور صدقہ کی کثرت کا خوب چرچا ہے مگر وہ اپنے پڑوسی کو اپنی زبان سے
تکلیف دیتی تھی۔ فرمایا وہ دوزخی ہے۔ عرض کیا یا رسول اللہ فلاں خاتون کے روزے ، نماز
اور صدقے میں کمی ہے اس نے پنیر کے کچھ ٹکڑے ہی صدقہ کیے لیکن اپنے پڑوسی کو زبان
سے تکلیف نہ دیتی تھی فرمایا: وہ جنتی ہے۔
حدیث(2) حضرت ابو مسعود
انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا : جب تو بے حیا ہو گیا تو جو چاہے کر۔(کتاب
جامع الاحاديث كتاب الادب، 4/ 147 ، حدیث: 2246 ،مکتبہ شبیر برادرز)
حدیث(3) حضرت عبداللہ بن
عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا: جنت ہر فحش بکنے والے پر حرام ہے۔(کتاب جامع الاحاديث كتاب الادب، 4/
148 ، حدیث: 2247 ،مکتبہ شبیر برادرز)
حدیث(4) حضرت انس رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا : فحش جب کسی چیز میں دخل پائے گا اسے عیب دار کر دے گا اور حیا جب کسی چیز
میں شامل ہوگی اس کا سنگار کر دے گی۔(کتاب جامع الاحاديث، كتاب الادب، 4/ 148 ،
حدیث: 2247 ،مکتبہ شبیر برادرز)
حدیث(5) حضرت ابو درداء
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا : فحش بکنا منحوس ہے۔( کتاب جامع الاحادیث ، کتاب الادب، 4/ 149 ،حدیث :
2249مکتبہ شبیر برادرز)
محمد جلیل نیاز (درجہ و خامسہ مدنی مرکز فیضان مدینہ خان پور ضلع رحیم یارخان،پاکستان)
انسان کے اندر کچھ ایسی
صفات اور خو بیاں ہوتی ہیں جو اسے باکمال بناتی ہیں اور لوگ اس کی دل سے عزت کرتے
ہیں تو جس طرح اچھی صفات انسان کو اچھا بناتی ہیں اسی طرح کچھ بری صفات بھی ہوتی
ہیں جو انسان کو برا بناتی ہیں اور لوگ اس شخص سے جان چھڑاتے ہیں اور اس کی عزت و
احترام بھی نہیں کرتے۔ اسی بری صفات میں سے ایک بد خلقی بھی ہے ۔ آئیے بد خلقی کی
مذمت کے بارے میں کچھ احادیث سنتے ہیں تاکہ ہم اس بری صفت کو ختم کر سکیں اور معاشرے
کے اچھے انسان بن کر زندگی گزاریں۔
(1)ایک شخص نے آپ علیہ السّلام
سے پو چھا کہ نحوست کیا چیز ہے؟ آپ علیہ السّلام نے فرمایا سوء الخلق یعنی بد خلقی۔(احیاء العلوم، 3/ 75)
حضرت حسن بصری رحمۃُ اللہ
علیہ فرماتے ہیں کہ : جو کوئی بد خلقی کرتا ہے وہ اپنی جان کو ستاتا ہے۔ حضرت یحیی
بن معاذ رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ :بد خلقی ایسی بلا ہے کہ اس کے ہوتے حسنات
کی کثرت سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ (احیاء العلوم، 2/79،78)
دوسری حدیث مبارکہ : حضرت
ابو هرین رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابوالقاسم صادق و مصدوق صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے
ہوئے سنا کہ : صفتِ رحمت سوائے بد بخت کے کسی اور سے نہیں چھینی جاتی۔( الادب
المفرد)
تیسری حدیث مبارکہ : حضرت
جریر بن عبد الله رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا : جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا اللہ پاک اس پر رحم نہیں فرماتا اور
جس پر اللہ پاک رحم نہ فرمائے وہ جہنم میں ہوگا ۔ (الادب المفرد )
چوتھی حدیث مبارکہ : حضرت
جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جو نرمی سے محروم ہوا تو وہ تمام
بھلائیوں سے محروم رہ گیا ۔ (سنن ابی داؤد ،مترجم، کتاب الادب، حدیث: 1382 ،ص 512 ،فرید
بک سٹال)
پانچویں حدیث مبارکہ : حضرت
ابو ہریرہ رضی اللہ سے مروی ہے کہ نبی کریم علیہ السّلام نے فرمایا : شرم و حیا ایمان
کا حصہ ہے اور ایمان والا جنت میں جائے گا اور بے حیائی و فحش گوئی برائی کا حصہ
ہے اور برائی والا دوزخ میں جائے گا ۔(انوار الحدیث ، حدیث : 3 ،ص 385)
چھٹی حدیث مبارکہ : حضرت
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم علیہ السّلام نے فرمایا: الله قسم
مومن وہ نہیں ، اللہ کی قسم مومن وہ نہیں، اللہ کی قسم مومن وہ نہیں (یعنی کہ کامل
مومن) آپ علیہ السّلام سے عرض کیا گیا یا رسولَ اللہ کون ؟ تو فرمایا : جس کا
پڑوسی اس کی شرارتوں سے امن میں نہ ہو ۔( اشعۃ اللمعات)
ساتویں حدیث مبارکہ :حضرت
ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم علیہ السّلام نے فرمایا : تم میں
سے سب سے محبوب اور قیامت کے دن میرے بہت قریب اچھے اخلاق والا ہو گا اور تم میں
سے مجھے بہت ناپسند اور مجھ سے دور برے اخلاق والا ہوگا جو منہ پھٹ، فراخ گو، متکبر
ہوگا۔(شرح مشكوٰة اشعة اللمعات مترجم)
آٹھویں حدیث مبارکہ :
حضرت فضیل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے
کسی نے ذکر کیا کہ فلاں عورت دن کو روزہ رکھتی ہے اور رات کو تہجد پڑھتی ہے مگر بد
خلق ہے۔ ہمسایوں کو اپنی زبان سے ایذا دینی ہے تو آپ علیہ السّلام نے فرمایا : لا خیر فیہا ہی من اهل النار یعنی اس میں کچھ خیر نہیں وہ دوزخیوں
میں سے ہے۔(احیاء العلوم)
اللہ پاک سے دعا ہے کہ
ہمیں برے اخلاق سے بچ کر اچھے اخلاق اپنانے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین بجاہ النبی
الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
اچھا خلق رسولوں کے سردار
محمد مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صفت ہے اور صدیقین کا افضل عمل ہے، اصل
میں یہ نصف دین ہے، صدیقین کی کوشش کا نتیجہ ہے اور عبادت گزار لوگوں کی ریاضت ہے۔
بد اخلاقی زہر قاتل ہے یہ وہی خبیث چیز ہے جو اللہ کے قرب سے انسان کو دور کر دیتی
ہے۔ اب آئیے آپ کے سامنے اس عظیم ہستی کے فرمان ذکر کرتا ہوں جس کو الله پاک نے حسنِ
اخلاق کا پیکر بنا کر بھیجا ہے۔
فرمانِ مصطفیٰ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : سُوْ ءُالْخُـلُقِ
ذَنْبٌ لَّا یُغْفَرُ وَسُوْ ءُ الظَّنِّ خَطِیْـئَةٌ تَـنُوْجُ یعنی بد
اخلاقی ایک ایسا گناہ ہے جس کی مغفرت نہ ہوگی اور بد گمانی ایسی خطا ہے جو دوسرے گناہوں
کا سبب بنتی ہے۔ بد اخلاقی ایسا گناہ ہے
جس کی بخشش نہ ہوگی۔ بدگمانی ایسی خطاء ہے کہ اس سے اور گناہ پیدا ہوتے ہیں۔(احیاء
العلوم )
فرمانِ مصطفی صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم: اِنَّ الْعَبْدَ لَیَبْلُغُ مِنْ
سُوْ ءِخُلُقِہٖ اَسْفَلَ دَرْکَ جَھَنَّمَ یعنی انسان اپنے بُرے اخلاق کے سبَب جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں پہنچ جاتا
ہے۔
حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نماز شروع
کرتے وقت یہ دعا کیا کرتے تھے : اَللّٰھُمَّ
اھْدِنِیْ لِاَحْسَنِ الْاَخْلَاقِ لَایَھْدِیْ لِاَحْسَنِھَآاِلَّآ اَنْتَ
وَاَصْرِفْ عَنِّیْ سَیِّئَھَالَایُصْرِف سَیِّئَھَآ اِلَّآ اَنْتَ یعنی اے اللہ پاک! مجھے
اچھے اخلاق کی رہنمائی فرما کیونکہ اچھے اخلاق کی رہنمائی تو ہی فرماتا ہے اور مجھ
سے بُرے اَخلاق دور رکھ کیونکہ برے اخلاق سے تو ہی دور رکھتا ہے۔
فرمانِ مصطفی صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم: اللھم انى اعوذ
بك من الشقاق والنفاق وسو الأخلاق ترجمہ : اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں عداوت سے نفاق سے
اور بد اخلاقی سے۔ (مشکوۃ شریف )
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ
کوفہ کی طرف تشریف لائے تو ابن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے انہوں نے آقا علیہ السّلام
کا ذکر کیا فرمایا۔ آقا علیہ السّلام نہ تو بد زبان تھے، نہ بد زبانی فرماتے تھے ،
آقا علیہ السّلام نے فرمایا تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جن کے اخلاق اچھے ہیں۔
(صحیح مسلم جلد سوم کتاب فضائل کا بیان)
جب بد اخلاقی کی اتنی
مذمت اور یہ اتنی بری چیز ہے تو اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اچھے اخلاق اختیار
کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور برے اخلاق سے بچنے اور ہمیشہ اچھے اخلاق پر عمل
کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین
محمد اریب (درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ کنز الایمان ، کراچی پاکستان،پاکستان)
اچھے اخلاق بندے کی سعادت
مندی کا پتہ دیتے ہیں اور برے اخلاق دین و دنیا کے نقصانات میں کوئی کسر نہیں
چھوڑتے۔ بد اخلاقی سے انسان کا وقار معاشرے میں ختم ہو کر رہ جاتا ہے۔
بد اخلاقی کی تعریف :
امام غزالی رحمۃُ اللہ
علیہ فرماتے ہیں: اگر نفس میں موجودہ کیفیت ایسی ہو کہ اس کے باعث اچھے افعال اس
طرح ادا ہوں کہ وہ کہ وہ عقلی اور شرعی طور پر پسندیدہ ہوں تو اسے حسنِ اخلاق کہتے
ہیں اور اگر اس سے برے افعال اس طرح ادا ہوں کہ وہ عقلی اور شرعی طور پر ناپسندیدہ
ہوں تو اسے بد اخلاقی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔(احیاء العلوم ، 3 / 165 ،مکتبۃ
المدینہ)
کسی بھی چیز سے بچنے اور
بچانے کے لیے اس کی مذمت اور نقصانات کو پیش نظر رکھا جاتا ہے اور احادیث میں بھی
بد اخلاقی کی مذمت اور نقصانات وارد ہوئے ہیں جن میں سے ذیل میں کچھ بیان کی جائیں
گی۔
(1) عمل کو برباد
کرنے والا: حضورِ اکرم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : بد اخلاقی عمل کو اس طرح برباد کر دیتی ہے جیسے
سرکہ شہد کو خراب کر دیتا ہے۔
(2) سب سے برا شخص : رسول کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :بداخلاقی برا شگون ہے اور تم میں بدترین
وہ ہے جس کا اخلاق سب سے برا ہے۔
(3) بد اخلاق کی توبہ
نہیں : حضور پر نور صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : بے شک ہر گناہ کی توبہ ہے مگر بداخلاق کی توبہ نہیں،
کیونکہ جب وہ کسی ایک گناہ سے توبہ کرتا ہے تو اس سے بڑے گناہ میں پڑ جاتا ہے۔
(4) بدصورت شخص: شفیع المذنبین صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :اگر بداخلاقی انسان (کی شکل میں )ہوتی
تو وہ شخص سب سے بدصورت ہوتا اور بے شک اللہ پاک نے مجھے بد کلامی کرنے والا نہیں
بنایا۔
(5) تنہا رہ جانے
والا شخص: جود و سخاوت کے پیکر صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جس کا اخلاق برا ہو گا وہ
تنہا رہ جائے گا اور جس کے رنج زیادہ ہوں گے اس کا بدن بیمار ہو جائے گا اور جو
لوگوں کو ملامت کریگا اس کی بزرگی جاتی رہے گی اور مروت ختم ہو جائے گی۔
(6)جنت میں داخل نہ
ہوگا : محسن انسانیت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : بد
اخلاق آدمی جنت میں داخل نہ ہوگا ۔ (جہنم میں لے جانے والے اعمال ، 1/266)
(7) بری عادت: محبوب رب العزت صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : لوگ مختلف چیزوں کے سرچشمے ہیں اور باپ دادا
کی عادتیں اولاد میں ضرور منتقل ہوتی ہیں اور بے ادبی بہت بری عادت کی طرح ہے۔
اللہ ہمیں بد اخلاقی جیسی
بری خصلت سے محفوظ فرمائے۔
محمد طلحٰہ خان عطاری (درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضان خلفائے راشدین راولپنڈی،پاکستان)
امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ بد اخلاقی کی تعریف کرتے ہوئے
فرماتے ہیں کہ : نفس میں ایسی کیفیت کا موجود ہونا جس سے باآسانی بغیر غور وفکر کے
ایسے بُرے افعال واقع ہوں جو عقلی اور شرعی طور پر نا پسندیدہ ہوں ، تو اسے
بداخلاقی کہتے ہیں۔ (احیا ءالعلوم مترجم،3 /165،ملخصاً)
ہمارے معاشرے میں ایک
بڑھتی ہوئی وبا بداخلاقی ہے جو اپنے ساتھ اور بہت سے ہلاکت خیز امراض جیسا کہ
نفرتیں، عداوتیں، بغض، کینہ اور طرح طرح کی باطنی بیماریوں کو جنم دیتی ہے۔ اس برائی
کے پھیلنے کی سب سے بڑی وجہ علمِ دین سے دوری ہے۔ کیونکہ جس شخص نے حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرت کا کبھی مطالعہ ہی نہ کیا تو اسے کیا پتہ کہ ہمیں
اپنے معاشرے میں لوگوں کے ساتھ کیا برتاؤ کرنا ہے؟ اسے کیا پتہ کہ حسنِ اخلاق پر
علمائے کرام نے کتنی اہم تعلیم ارشاد فرمائی ہے ؟ اسے کیا معلوم کہ ہم جس ہستی کو
چاہنے والے ہیں، جس ذات سے محبت کا بھرم بھرنے والے ہیں اس عظیم شخصیت کے اخلاق کے
بارے میں قراٰن مجید کتنے خوبصورت انداز میں فرما رہا کہ : وَ اِنَّكَ
لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک تم یقیناً عظیم اخلاق پر ہو ۔ (پ29،القلم:4)اسی
کمزوری کے سبب لوگ اخلاقیات کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور بد اخلاقی کا طوفان بہہ رہا
ہے۔ بد اخلاقی کی مذمت کے متعلق حسنِ اخلاق کے مالک کے چند فرامین پیش کیے جاتے
ہیں :
(1) رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں : بد
کلامی بد اخلاقی میں سے ہے، اور بد اخلاقی جہنم میں ( جانے کا سبب ) ہے ۔ (ابنِ
ماجہ، حدیث:4184)
(2) بارگاہِ رسالت میں عرض کی گئی: یا رسول اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نحوست کیا ہے؟ تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا: برے اخلاق۔(المسند للامام احمد بن حنبل ، مسند السیدۃ عائشۃ رضی
اللہ عنہا ، 9/ 369، حدیث : 24601)
(3) رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں
: بے شک اللہ پاک کریم ہے اور کرم کو پسند فرماتا ہے، اور حسنِ اخلاق کو پسند
فرماتا ہے اور بداخلاقی و کمینگی کو ناپسند کرتا ہے۔ ( المستدرک ، حدیث:151)
(4) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا
: بداخلاقی عمل کو اس طرح خراب کرتی ہے جیسے شرکہ شہد کو۔ (شعب الایمان، 6/247،
حدیث:8036)
(5) ایک مرتبہ بارگاہ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم میں عرض کی گئی: ایک عورت دن میں روزہ رکھتی اور رات میں قیام کرتی ہے لیکن
وہ بد اخلاق ہے، اپنی زبان سے پڑوسیوں کو تکلیف پہنچاتی ہے۔ تو آپ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اس میں کوئی بھلائی نہیں وہ جہنمیوں میں سے ہے۔ (شعب
الایمان ،باب فی اکرم الجار، 7/78، حدیث: 9545)
دورِ جدید میں سوشل میڈیا
کا استعمال بہت عروج پر ہے اور اس کے ذریعے بداخلاقی کی نئی صورتیں بھی متعارف ہوئیں
ہیں، مثلاً: (Pranks) کے نام پر
لوگوں کو اذیت پہنچانا اور انہیں سوشل میڈیا کے مختلف ذرائع پر لگا دینا اور انہیں
شرمندگی کا سامان بنانا ، کسی کی خفیہ طور پر ایسی خلافِ شرع تصویر یا ویڈیو بنا
کر لوگوں کو دکھانا جو شرمندگی اور بے عزتی کا باعث بنے ، کسی بھی مشہور شخصیت
خواہ دینی ہو یا دنیاوی انکی تصاویر کو خلافِ شرع طور پر تبدیل کر کے بگاڑنا اور
لوگوں کے لیے ہنسی مزاق کا سامان بنانا ، جالی و غلط شناخت کے ساتھ لوگوں کو تنگ
کرنا ، لوگوں کی ذاتی معلومات وغیرہ کو خلافِ شرع اور غیر قانونی طریقے سے چوری
کرنا اور پھر ان کا غلط استعمال کرنا، وغیرہ۔ اس طرح کی اور بے شمار بد اخلاقیاں
معاشرے میں پھیلتی جا رہی ہیں، جن سے ہمیں خود بھی بچنا ہے اور لوگوں کو بھی بچانا
ہے۔ لہذا بداخلاقی سے بچنے اور لوگوں کے ساتھ اچھا برتاؤ سیکھنے اور سکھانے کے
لیے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرت اور فرامینِ مبارکہ کے مطالعہ کی
اشد ضرورت ہے۔ اللہ پاک ہمیں بداخلاقی اور تمام تر باطنی امراض سے نجات عطا فرمائے۔
اٰمین
پیارے بھائیوں نبی کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تشریف آوری کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ لوگوں کے اخلاق
معاملات درست کریں برے اخلاق کا خاتمہ فرمائے اور معاشرے میں بہترین اخلاق پیدا
کریں مگر بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں بد اخلاقی عام ہوتی جا رہی ہے۔ پیارے
بھائیوں ! برے اخلاق میں رنج و غم کے سوا کچھ نہیں اور اچھے اخلاق میں حسن ہی حسن
ہے ۔
(1) ایک شخص نے بارگاہ رسالت صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں عرض کی یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
انسان کو دی گئی سب سے بہترین چیز کیا ہے؟ ارشاد فرمایا: اچھے اخلاق۔( معجم اوسط )
(2) حضرت علی رضی اللہ عنہ
فرماتے ہیں: حسنِ اخلاق 3 چیزوں کا نام ہے (1) حرام سے اجتناب (2) حلال کا حصول
اور (3) اہل عیال پر خرچ میں کشادگی کرنا ۔( احیاءالعلوم، جلد 3 )
پیارے بھائیوں ! بد
اخلاقی رشتے توڑنے کا سبب بنتی بد اخلاق بندے سے لوگ بات کرنا پسند نہیں کرتے بد
اخلاقی کی مذمت پر کئی احادیث مبارکہ موجود ہیں جن میں 2 پیش خدمت ہیں:
(1) حضرت سیدتنا ام سلمہ رضی
اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرمایا: جن میں 3
باتوں میں سے ایک بھی نہ پائی جائے تو وہ اپنے کسی بھی عمل کے ثواب کی امید نہ
رکھے (1) حرام کاموں سے روکنے والا تقویٰ (2) بےوقوفوں سے روکنے والا حلم (3) ایسا
حسنِ اخلاق جس کے ساتھ وہ معاشرے میں زندگی بسر کرے ۔( شعب الایمان )
(2) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان
عالیشان ہے : بے شک برا اخلاق عمل کو اس طرح خراب کرتا ہے جیسے سرکہ شہد کو خراب
کرتا ہے۔ ( المعجم اوسط )
پیارے بھائیوں ! برے
اخلاق انسان کو کسی قابل نہیں چھوڑتے، ہر شعبے میں انسان کو ذلیل و خوار کر دیتے
ہیں۔ ہمارے بزرگان دین ہمیشہ اچھے اخلاق کو اپناتے اور برے اخلاق کی ہمیشہ مذمت
فرماتے، برے اخلاق کی مذمت پر بزرگانِ دین کے کچھ اقوال پیش خدمت ہیں:۔
(1) حضرت حسن بصری رحمۃُ اللہ
علیہ فرماتے ہیں: جس انسان کا اخلاق برا ہوتا ہے وہ اپنے آپ کو عذاب میں مبتلا
کرتا ہے۔
(2) حضرت سیدنا وہب بن منبہ
فرماتے ہیں بد اخلاق انسان کی مثال اس ٹوٹے ہوئے گھڑے کی طرح جو قابل استعمال نہیں
رہتا ۔
(3) حضرت فضیل بن عیاض رحمۃُ
اللہ علیہ فرماتے ہیں : اگر کوئی اچھے اخلاق والا فاسق میرا رفیق سفر ہو یہ مجھے
اس سے زیادہ پسند ہے کہ کوئی بد اخلاق عابد میرا رفیق سفر ہو۔
(4) حضرت سیدنا عبد الله بن
مبارک کے ساتھ سفر میں ایک بد اخلاق آدمی شریک ہو گیا آپ اس کی بد اخلاقی پر صبر
کرتے اور اس کی خاطر مدارات کرتے وہ جب جدا ہو گیا تو آپ رونے لگ گئے کسی نے رونے
کا سبب پوچھا تو فرمایا: میں اس پر ترس کھا رہا ہوں کہ میں تو اس سے الگ ہو گیا
لیکن اس کی بد اخلاقی اس سے الگ نہ ہوئی۔ ( احیاء العلوم)
اللہ پاک نے انسان کو
پیدا فرمایا اور اس کو اشرف المخلوقات کا مرتبہ عطا فرمایا اس کو بےشمار خوبیوں سے
نوازا۔ ان میں سے ایک خوبی حسنِ اخلاق ہے۔ اللہ پاک نے یہ وصف اپنے محبوب صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو عطا فرمایا۔ اس کا تذکرہ قراٰن پاک میں فرمایا یہاں تک
کہ آپ کے اس وصف کا ذکر تورات و انجیل میں بھی ملتا ہے۔
حسنِ اخلاق انسان کی ذات
کو خوبصورت بناتا ہے اور اس کے سبب معاشرہ میں اس کا ایک بہترین مقام ہوتا ہے۔ لوگ
حسنِ اخلاق کے پیکر سے محبت کرتے ہیں اس کی بات سنتے اور مانتے ہیں۔حسنِ اخلاق کی
جس قدر اہمیت ہے اس کے برعکس بداخلاقی کو اتنا ہی برا سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ بد
اخلاقی کے دینی و دنیاوی دونوں طرح کے نقصانات ہیں۔
میاں بیوی میں بد اخلاقی
کے سبب طلاق تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔دوستوں میں لڑائیاں ہو جاتی ہیں۔ بہن بھائیوں
میں محبت ختم ہو جاتی ہے اور خاندانوں میں جدائیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ آئیے بد
اخلاقی کے متعلق نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ارشادات ملاحظہ کرتے
ہیں۔
چنانچہ نبی پاک صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: بد اخلاقی اگر انسانی شکل میں ہوتی تو
وہ بہت برا آدمی ہوتا۔(کنزالعمال،کتاب الاخلاق،الفصل الاول،حدیث: 7351)
ایک اور مقام پر نبی پاک صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک کے نزدیک سب سے بڑی بُرائی بُرے
اَخْلاق ہیں۔(جامع الاحادیث، 19/406،حدیث: 14922)
مزید فرمایا: بے شک بے
حیائی اور بد اخلاقی کا اسلام کی کسی چیز سے کوئی تعلق نہیں۔(مسند احمد حدیث ابی
عبد الرحمن، 7/431،حدیث: 20997)
بد اخلاق انسان اس صفتِ
بد کے سبب گناہوں میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اور اگر ایک گناہ سے توبہ کرتا ہے تو اس
صفت بد کے سبب اس سے بڑے گناہ میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرماتے ہیں: بداَخْلاق ایک گُناہ سے تَوبہ کرتا ہے تو
اُس سے بدتَر گُناہ میں گِرفتار ہوجاتا ہے۔(جامع الاحادیث للسیوطی، قسم الاقوال،2/
375، حدیث: 6064)
بد اخلاقی ایسی منحوس صفت
ہے کہ خود نبی کریم علیہ الصلوۃ والسّلام نے بھی اپنی دعا میں اس سے پناہ طلب
فرمائی ہے۔
چنانچہ ترمذی شریف کی
حدیث مبارکہ میں ہے: كَانَ
النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ
بِكَ مِنْ مُنْكَرَاتِ الأَخْلاَقِ، وَالأَعْمَالِ وَالأَهْوَاءِ ترجمہ۔ نبی پاک صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ اے اللہ میں برے اخلاق، برے
اعمال اور بری خواہشات سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔(الترمذی، محمد بن عيسى، سنن الترمذی
،ت بشار،5/467)
ایک حدیث مبارکہ میں تو
بداخلاق کو بدترین بندہ کہا گیا ہے۔ چنانچہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،
سیدُ المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں اللہ
پاک کے بد ترین بندے کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ وہ بد اخلاق اور متکبر ہے۔ (مسند
امام احمد، مسند الانصار، حدیث حذیفۃ بن الیمان عن النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم، 9/ 120، حدیث: 23517)
پیارے اسلامی بھائیو! ان
احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ بداخلاقی کتنی بری صفت ہے اور دنیا و آخرت میں
تباہی و بربادی کا سبب ہے۔ اللہ پاک تمام مسلمانوں کو اس کی نحوست سے محفوظ
فرمائے۔