پیارے اسلامی بھائیو اللہ پاک نے قران مجید فرقان حمید میں والدین کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور اس کے علاوہ نبی کریم رؤف الرحیم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی کئی احادیث طیبہ والدین کی فرمانبرداری کے بارے میں بھی آئی ہیں اور ان کے علاوہ نبی پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کئی فرامین والدین کے نافرمان کی وعیدوں پر مشتمل ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ پارہ 15 سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 23 میں ارشاد فرماتا ہے: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ۔اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(23) ترجمہ کنزالایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔ (پ 15، بنی اسرائیل: 23)

اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کا حکم دینے کے بعد اس کے ساتھ ہی ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا،اس میں حکمت یہ ہے کہ انسان کے وجود کا حقیقی سبب اللہ تعالیٰ کی تخلیق اور اِیجاد ہے جبکہ ظاہری سبب اس کے ماں باپ ہیں ا س لئے اللہ تعالیٰ نے پہلے انسانی وجود کے حقیقی سبب کی تعظیم کا حکم دیا،پھر اس کے ساتھ ظاہری سبب کی تعظیم کا حکم دیا۔ ا ٓیت کا معنی یہ ہے کہ تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ نے حکم فرمایا کہ تم اپنے والدین کے ساتھ انتہائی اچھے طریقے سے نیک سلوک کرو کیونکہ جس طرح والدین کا تم پر احسان بہت عظیم ہے تو تم پر لازم ہے کہ تم بھی ان کے ساتھ اسی طرح نیک سلوک کرو۔(تفسیرکبیر، الاسراء، تحت الآیۃ: 23، 7/321،323) اور نبی پاک صاحب لولاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی احادیث مبارکہ پیش کی جاتی ہیں۔

(1)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ ایک شخص نے عرض کی، یا رسولَ اللہ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، سب سے زیادہ حسنِ صحبت (یعنی احسان) کا مستحق کون ہے؟ ارشاد فرمایا: ’’تمہاری ماں (یعنی ماں کا حق سب سے زیادہ ہے۔) انہوں نے پوچھا، پھر کون؟ ارشاد فرمایا:’’تمہاری ماں۔ انہوں نے پوچھا، پھر کون؟ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پھر ماں کو بتایا۔ انہوں نے پھر پوچھا کہ پھر کون؟ ارشاد فرمایا: تمہارا والد۔(بخاری، کتاب الادب، باب من احقّ الناس بحسن الصحبۃ، 4/93، الحدیث:5971)

(2)ام المومنین حضرت سیدنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے عرض کی کہ یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم عورت پر سب سے بڑا حق کس کا ہے ؟ تو نبی کریم روف الرحیم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا شوہر کا پھر میں عرض کی یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور مرد پر سب سے بڑا حق کس کا ہے ؟ تو نبی کریم روف الرحیم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا اس کی ماں کا۔(المستدرک۔ کتاب البر والصلۃ۔ باب بر امک ثم اباک ثم الاقرب فالاقرب۔الحدیث 7326۔ ج 5۔ ص 208۔)

(3)حضرت اسماء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہافرماتی ہیں ’’جس زمانہ میں قریش نے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے معاہدہ کیا تھا،میری ماں جو مشرکہ تھی میرے پاس آئی، میں نے عرض کی، یا رسولَ اللہ!صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، میری ماں آئی ہے اور وہ اسلام کی طرف راغب ہے یا وہ اسلام سے اِعراض کیے ہوئے ہے، کیا میں اس کے ساتھ سلوک کروں ؟ ارشاد فرمایا: ’’اس کے ساتھ سلوک کرو۔(بخاری، کتاب الادب، باب صلۃ الوالد المشرک، 4/96، الحدیث: 5978)یعنی کافرہ ماں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کیا جائے گا۔

(4)حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ عَنْہا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: میں جنت میں گیا اس میں قرآن پڑھنے کی آواز سنی، میں نے پوچھا:یہ کون پڑھتا ہے؟ فرشتوں نے کہا، حارثہ بن نعمان رَضِیَ اللہ عَنْہُ ہیں۔ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ’’یہی حال ہے احسان کا، یہی حال ہے احسان کا۔(شرح السنّۃ، کتاب البرّ والصلۃ، باب برّ الوالدین، 6/426، الحدیث: 3312)اور شعب الایمان کی روایت میں مزید یہ بھی ہے کہ ’’ حارثہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ اپنی ماں کے ساتھ بہت بھلائی کرتے تھے۔(شعب الایمان، الخامس والخمسون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، 6/184، الحدیث: 7851)

(5)… حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ’’اس شخص کی ناک خاک آلود ہو، پھر اس شخص کی ناک خاک آلود ہو، پھر اس شخص کی ناک خاک آلود ہو۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ عَنْہُمْ نے عرض کی: یارسولَ اللہ!صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، کس کی ناک خاک آلود ہو؟ ارشاد فرمایا ’’جس نے اپنے ماں باپ دونوں یا ان میں سے کسی ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پایا، پھر وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوا۔(مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب رغم من ادرک ابویہ او احدہما عند الکبر۔۔۔ الخ، ص1381، الحدیث:9(2551)

مذکورہ آیت مبارکہ اور احادیث مبارکہ سے والدین خصوصاً ماں کی فرمانبرداری کی اہمیت پتا چل گئی ہوگی ان احادیث طیبہ اور آیت مبارکہ سے ہمیں سبق حاصل کرنا چاہئے اگر ہم آیت پاک اور حدیث پاک پر عمل کریں گے تو دنیا میں بھی کامیاب اور آخرت میں بھی کامیاب ۔

اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور والدین کی نافرمانی سے بچائے۔ والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے اور ان کے حقوق سے متعلق مزید معلومات کے لئے فتاویٰ رضویہ کی جلد نمبر 24 سے رسالہ ”اَلْحُقُوْقْ لِطَرْحِ الْعُقُوقْ‘‘(نافرمانی کو ختم کرنے کے لئے حقوق کی تفصیل کا بیان)اور بہار شریعت حصہ 16 سے ’’سلوک کا بیان‘‘ مطالعہ کیجئے۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اللہ عزوجل کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے ہمیں انسان پیدا کیا اور اس سے بھی بڑا فضل یہ ہے کہ اس نے ہمیں مسلمانوں کے گھر میں پیدا کیا اور ہماری خوش نصیبی ہے کہ اللہ تعالی نے ہمیں اپنےپیارےآخری نبی محمدمصطفٰےصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا اُمتی بنایا۔ اسلامی تعلیمات میں حقوق العباد کوخاص اہمیت حاصل ہے اور حقوق العباد میں سے بھی حقوق والدین اور حقوق والدین میں سے والدہ کے حقوق کو بہت فوقیت حاصل ہے یہ ایسے حقوق ہے جن کی ادائیگی بندہ پوری زندگی ادا نہیں کر سکتا تو آئیے ہم احادیث کی روشنی میں والدہ کے حقوق بیان کرتیں ہیں!

(1)جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے! حضرت جاہمہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہو کر عرض کی: یار سول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! میں راہِ خدا میں لڑنا چاہتا ہوں اور آپ کی بارگاہ میں مشورہ کرنے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کیا تمہاری ماں ہے؟عرض کی: جی ہاں۔ ارشاد فرمایا: فَالْزَمْهَا فَاِنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ رِجْلَيْهَا اس کی خدمت کو اپنے اوپر لازم کر لو، کیونکہ جنت اس کے قدموں کے نیچے ہے۔(نسائی، كتاب الجهاد الرخصة فى التخلف لمن له والدة، ص 504، حدیث: 3101)سبحان اللہ والدہ کا حق کس قدر مقدم ہے کہ جہاد میں جانے سے روک دیا اور والدہ کی خدمت کا حکم فرمایا

(2)نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے چادر بچھادی! حضرت ابوطفیل رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: ایک بی بی صاحبہ آئیں یہاں تک کہ وہ حضورِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قریب پہنچ گئیں۔ نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ان کے لئے (کھڑے ہو گئے اور) اپنی چادر مبارک بچھادی۔ چنانچہ وہ بی بی صاحبہ اس پر بیٹھ گئیں۔ میں نے پوچھا: یہ کون ہیں؟ لوگوں نے کہا: یہ رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی وہ ماں ہیں جنہوں نے آپ کو دودھ پلایا ہے۔ (ابوداود، کتاب الادب، باب فی بر الوالدین، 4/434، حدیث: 5144)

(3) حسن سلوک کا زیادہ مستحق کون؟ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بہتر سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ فرمایا تمہاری ماں، اس آدمی نے دوبارہ پھر پوچھا، تو نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دوسری مرتبہ پھر فرمایا تمہاری ماں، تو اس نے تیسری بار پھر پوچھا؛تونبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تیسری مرتبہ پھر فرمایا تمہاری ماں، پھر تمہارا باپ، پھر جو تم سے رشتہ داری میں قریب ہو۔ (تحفۃ المنعم، ج: 7، ص: 574، ط: مکتبہ ایمان ویقین)

(4)جنت کی چوکھٹ چومنا : نبی كريم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے اپنی والدہ کا پاؤں چوما، تو ایسا ہے جیسے جنت کی چوکھٹ (یعنی دروازے) کو بوسہ دیا۔ (در مختار،ج 9 ص 202 دار المعرفۃ بيروت)

(5)والدہ کے حقوق میں سے چند حقوق ملاحظہ فرمائیں :(1)احترام کرنا۔زبان سے اُف تک نہ کہے(2)محبت کرنا۔ہاتھ پاؤں چومنا(3)اطاعت: ان کی فرماں برداری کرنا (4)خدمت: ان کے کام کرنا۔حکم بجا لانا (5)ان کو آرام پہنچانا (6)ان کی ضروریات کو پوری کرنا۔(7)قرض ادا کرنا (8)جب فوت ہوجائے تو دعائے مغفرت کرنا (9)ان کی جائز وصیت پر عمل کرنا (10)گاہ گاہ ان کی قبر کی زیارت کرنا۔

(نوٹ)اب دیکھیں کہ والدہ کا ادب و احترام کس قدر اہم ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ان کہ ادب و احترام کیلئے کھڑے ہو گئے اور اپنی مزمل والی چادر ان کیلئے بچھا دی جنہوں نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دودھ پلایا اور وہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سگی والدہ نہیں تھی پھر بھی آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ان کے ادب کیلئے کھڑے ہو گئے تو ہمیں بھی اپنی والدہ کا اسی طرح ادب و احترام کرنا چاہئے۔

لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم بھی اپنی والدہ چاہے وہ سگی ہو یا، سوتیلی ہو یا رضاعی والدہ ہوں اس کا دل و جان سے ادب کریں، اس کی ضروریات کا خیال رکھیں، اس سے اچھے لہجے میں بات کریں، اس کے جذبات کا خیال رکھیں، اس کو تکلیف دینے سے بچیں، اس کی اُمیدوں پر پورا اترنے کی کوشش کریں، ان کے ساتھ اچھا سلوک کرتے رہیں، اس کی بات توجہ سے سنیں، اس کا ہر جائز حکم مانیں ۔ الغرض جب تک کوئی مانع شرعی نہ ہو ماں باپ کے حقوق ادا کریں، یوں اللہ پاک کی رضا پانے والے حق داروں میں شامل ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے والدین کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو مختلف بیشمار نعمتوں سے نوازا ہے۔انہی نعمتوں میں سے ایک نعمت والدہ بھی ہے۔والدہ کم و بیش نو مہینے تک مختلف تکالیف اور صعوبتیں برداشت کر کے اپنے بچے کو پیدا کرتی ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی عبادت کا حکم دینے کے بعد اس کے ساتھ ہی ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم ارشاد فرمایا، انسان کے وجود کا حقیقی سبب اللہ تبارک و تعالیٰ کی تخلیق ہے جبکہ ظاہری سبب اس کے ماں باپ ہے،نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بھی ماں باپ کی فرمانبرداری میں بہت سی احادیث ارشاد فرمائی ہے۔

(1) زیادہ حسن سلوک کا مستحق کون: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کیا لوگوں میں میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟حضور پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تمہاری والدہ اس شخص نے عرض کیا پھر کون؟حضور پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تمہاری والدہ اس شخص نے عرض کیا پھر کون؟ حضور پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تمہاری والدہ،اس شخص نے عرض کیا پھر کون؟حضور پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تمہارا باپ۔ (بحوالہ:بخاری شریف جلد 2٫ صفحہ 303)

(2)قدموں کے تلے جنت: ایک شخص بارگاہ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں جہاد میں شرکت سے متعلق مشورہ لینے حاضر ہوا، تو نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس سے استفسار فرمایا:کیا تمہاری والدہ زندہ ہے؟اس شخص نے عرض کی:جی ہاں!تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ماں کی خدمت کرو جنت والدہ کے قدموں کے نیچے۔ (بحوالہ:سنن النسائی کتاب الجھاد صفحہ 301)

(3) والدہ کی آنکھوں کو بوسہ دینا: تاجدار رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:جو آدمی اپنی والدہ کی آنکھوں کو بوسہ دیتا ہے تو اس کا یہ بوسہ لینا بروز قیامت اس کے اور جہنم کے درمیان پردہ بن جائے گا ۔(بحوالہ: شعب الایمان٫حدیث 7861)

(4)ماں کی خدمت کا ثواب: نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:بِرُّ الوَالِدَۃِ عَلَی الْوَلَدِ ضِعْفَانِ:ترجمہ:ماں کے ساتھ نیکی کرنے کا ثواب باپ کے مقابلے میں دوگنا ہے۔(بحوالہ: احیاء العلوم جلد 2 ٫صفحہ 783)

(5)ماں کی دعا جلد قبول ہوتی ہے: ماں کی دعا جلد قبول ہوتی ہےعرض کی گئی یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس کی کیا وجہ ہے؟آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:ماں باپ کے مقابلے میں زیادہ مہربان ہوتی ہے اور ماں کی دعا رد نہیں ہوتی ۔ (بحوالہ: طبقات الشافیتہ الکبری للسبکی٫صفحہ 315)

(6) مقبول حج کا ثواب: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جو مسلمان اپنے ماں باپ کے چہرے کی طرف محبت کی نظر سے دیکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو مقبول حج کا ثواب عطا فرماتا ہے ۔(بحوالہ: کنزالعمال جلد٫16صفحہ 476)

والدہ کا ادب واحترام کرنا حدیث مبارکہ سے بھی ثابت ہے اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں والدہ کی فرمانبرداری کرنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


ماں کی شان کے کیا کہنے وہ ایک ماں ہی کی ہستی تھی کہ بھوک پیاس کی شدت سےجس کا دودھ خشک ہو گیا اور اپنے خشک حلق کے ساتھ بچے کےلیےپانی کی تلاش میں صفا و مروہ کی پہاڑیوں پر دوڑتی ہے اور اللہ تعالیٰ کو ایک ماں کی ادا اس طرح پسند آئی کہ اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لیے حاجیوں کے لیے صفا و مروہ میں اسی طرح دوڑنا اپنی عبادت قرار دے دیا تاکہ جب وہ دوڑیں تو انہیں ماں کی محبت کا احساس ہو اور ماں کے مقام کا پتا چلے ماں کی عظمت ان پر آشکار ہو جائے ماں کی فرمانبرداری میں چند ایک احادیث مبارکہ پیش خدمت ہیں:

گناہوں کا کفارہ : ماں سے محبت و حسن سلوک سے پیش آنا گزشتہ گناہوں کےلئے بطور کفارہ بھی ہے۔حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ایک شخص نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مجھ سے ایک بہت بڑا گناہ سرزد ہو گیا ہے کیا میرے لیے توبہ ہے ؟حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کیا تیری ماں زندہ ہے ؟اس نے عرض کی نہیں!فرمایا کیا تیری خالہ ہے ؟عرض کی جی ہاں! نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا اپنی خالہ سے حسن سلوک کرو۔(الجامع ترمذی،صفحہ:772،حدیث1904)

جنت کی چوکھٹ : ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے ماں کی خدمت کرنا جہاد سے بھی افضل عبادت ہے۔حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ایک شخص حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں جہاد میں شریک ہونا چاہتا ہوں اور میں اس سلسلے میں آپکی اجازت لینے آیا ہوا ہوں نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کیا تیری والدہ زندہ ہے ؟عرض کی:جی ہاں! فرمایا ہمیشہ اسکے قدموں سے چمٹے رہو کیونکہ اس کے قدموں میں جنت ہے اس شخص نے تین بار عرض کی تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ویسے ہی جواب دیا۔(مجمع الزوائد،جلد8،صفحہ137)

جنت میں تلاوت قرآن کا شرف : سبحان اللہ عزوجل ماں باپ کی خدمت کیسی عظیم نیکی ہےجس کا اجر جنت میں قرآن پاک کی تلاوت کا شرف ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے قرآن پاک کی تلاوت کی آواز سنی میں نے پوچھا یہ کون ہے؟فرشتوں نے عرض کی حارثہ بن نعمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا نیکی کا اجر ایسے ہی ہوا کرتا ہے نیکی کا اجر ایسے ہی ہوا کرتا ہے۔(المستدرک علی الصحیحین،جلد3،صفحہ208) اس کی وجہ یہ تھی کہ حارثہ بن نعمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ دیگر لوگوں کی نسبت اپنی ماں کے زیادہ خدمت گزار تھے۔

جہنم کی آگ سے حجاب : ماں کو بوسہ دینا جہنم کی آگ سے بچنے کا بھی ایک ذریعہ ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا جس شخص نے اپنی ماں کی آنکھوں کے درمیان بوسہ دیاوہ بوسہ اس کے لیے جہنم کی آگ سے حجاب ہوگا۔(کنزالعمال،جلد16،صفحہ462)

ہر مسلمان یہ چاہتا ہے کہ مجھ سے جو گناہ سرزد ہوگئے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرما دےمیری بخشش ہو جائے ان احادیث مبارکہ سے پتہ چلا کہ اگر بتقاضائے بشریت گناہ سرزد ہو جائے تو اسے چاہئے کہ سچے دل سے توبہ کرے اور خلوص دل سے ماں باپ کی خدمت کرتا رہے ان شاءاللہ عزوجل ماں باپ کی خدمت کی وجہ سے بخشش کی امید ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں والدین سے حسن سلوک کرنے اور انکی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


والدہ کا مقام و مرتبہ بہت بلند و بالا ہے اس لیے ہمیں چاہیے کہ والدہ کی فرمانبرداری اور احترام کا خیال رکھیں۔ اورانہیں کبھی ناراض نہ کریں تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے ساتھ جنت کے حقدار بن سکیں۔

1 ۔ حالت نماز میں ماں کے بلانے پر چلے جاؤ: حضرت جابر سے روایت ہے نماز کی حالت میں تمہیں ماں باپ بلائیں تو ماں کے بلانے پر چلے جاؤ اور باپ کے بلانے پر نہ جاو۔ (کنزالعمال ج470،16)

2۔ماں کے پیڑوں سے چمٹے رہو وہی جنت ہے: حضرت طلحہ بن معاویہ سلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا میں نے عرض کیا یا رسول الله!میں جہاد فی سبیل اللہ کا ارادہ رکھتا ہوں آپ نے فرمایا تمہاری ماں زندہ ہے۔ میں نے کہا جی آپ نے فرمایا اس سے پیروں کے ساتھ چمٹے رہو وہی جنت ہے۔( شرح صحیح مسلم، کتاب کتاب البر والصلتہ و الادب ج 7 ص45)

3۔جہنم کی آگ سے حجاب ہوگا: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ جس شخص نے اپنی ماں کی آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا وہ بوسہ اس کے لیے جہنم کی آگ سے حجاب ہوگا ۔ (کنزالعمال،ج16ص462)

4۔ اپنی ماں سے صلح رحمی کرو: حضرت سیدتنا اسماء بنت ابو کر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے فرماتی ہیں رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے زمانے میں میرے پاس آئی اور وہ اس وقت مشرکہ تھی تو میں نے رسول اللہ صلی علیہ وسلم سے سوال کرتے ہوئے عرض کی میری ماں میری پاس آئی ہے اور اسے کچھ طمع ہے، کیا میں اپنی ماں سے صلح رحمی کروں ؟ فرمایا۔ ہاں اپنی ماں سے صلح رحمی کرو۔( بخاری، کتاب الھبتہ وفضلھا۔۔۔۔۔الخ باب الھدیتہ للمشرکین،2/،182حدیث2620)

5۔سب سے زیادہ حسن سلوک کا حقدار: حضرت سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر عرض کی لوگوں میں سے سب سے زیادہ میرے حسن سلوک کا حقدار کون ہے؟حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا تیری ماں عرض کی پھر کون ارشاد فرمایا پھر تیری ماں عرض کی پھر کون ارشاد فرمایا پھر تیری ماں۔(مسلم،البر والصلتہ والادب،باب والدین انھما احق بہ، ص 1378، حدیث 2548)

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اسلام میں ماں کی بہت زیادہ اہمیت ہے اس بات کا اندازہ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے فرمان” جنت ماں کے قدموں تلے ہے “ سے لگایا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالٰی نے بھی اُن کو اُف تک کہنے سے منع فرمایا ہے۔ ماں کی عظمت کے متعلق چند فرامین مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم درج ذیل ہیں:

(1) حسن سلوک کا سب سے زیادہ حقدار: حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ایک شخص نے بارگاہ نبوی میں حاضر ہو کر عرض کی لوگوں میں سب سے زیادہ میرے حسن سلوں کا حقدار کون ہے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا تیری ماں پھر عرض کی کون ؟ ارشاد فرمایا تیری ماں۔ پھر عرض کی کون؟ ارشاد فرمایا: تیری ماں۔ (مسلم، کتاب البر والصلۃ والادب، ص1378 احدیث2527)

(2) باپ کے حکم سے فضلیت والا حکم: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نماز کی حالت میں ماں باپ تمہیں بلائیں تو ماں کے بلانے پر چلے جاؤ اور باپ کے بلانے پر نہ جاؤ۔ (کنز العمال، ج16ص470)

(3) صلہ رحمی کرنا: حضرت سیدتنا اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے فرماتی ہیں رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے زمانے میں میرے پاس میری ماں آئی اور اس وقت وہ مشرکہ تھی تو میں نے رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سوال کرتے ہوئے عرض کی میری ماں میرے پاس آئی ہے اور اسے کچھ طمع ہے کیا میں اپنی ماں سے صلہ رحمی کروں ارشاد فرمایا ہاں اپنی ماں سے صلہ رحمی کرو۔ (بخاری۔ کتاب الهبۃ وفضلها جلد 2 صفحہ 182 حدیث۔2625)

(4)جہاد فی سبیل اللہ سے افضل‌‌: حضرت طلحہ بن معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں جہاد فی سبیل اللہ کا ارادہ رکھتا ہوں حضور نے فرمایا تمہاری ماں زندہ ہے میں نے عرض کی جی آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا اس کے پاؤں سے چمٹے رہو وہی جنت ہے۔ (مجمع الزوائد ج 8 ص 138)

(5)جہنم سے حجاب: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے جس شخص نے اپنی ماں کی آنکھوں کےدرمیان بوسہ دیا وہ بوسہ اس کیلے جہنم سے حجاب ہے ۔ (کنز العمال جلد 16 صفحہ 462)

آج کل ہمارے معاشر میں ماں کی نافرمانی عام ہوتی جا رہی ہے۔ اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو ماں کی نافرمانی سے بچتے ہوئے اطاعت و فرمانبرداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کا حکم دینے کے بعد اس کے ساتھ ہی ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا،ارشاد باری تعالٰی ہے:وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ۔اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(23)ترجمہ کنزالایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔(پ 15، بنی اسرائیل: 23)

تفسیر کبیر میں ہے کہ اس میں حکمت یہ ہے کہ انسان کے وجود کا حقیقی سبب اللہ تعالیٰ کی تخلیق اور اِیجاد ہے جبکہ ظاہری سبب اس کے ماں باپ ہیں ا س لئے اللہ تعالیٰ نے پہلے انسانی وجود کے حقیقی سبب کی تعظیم کا حکم دیا،پھر اس کے ساتھ ظاہری سبب کی تعظیم کا حکم دیا۔ ا ٓیت کا معنی یہ ہے کہ تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ نے حکم فرمایا کہ تم اپنے والدین کے ساتھ انتہائی اچھے طریقے سے نیک سلوک کرو کیونکہ جس طرح والدین کا تم پر احسان بہت عظیم ہے تو تم پر لازم ہے کہ تم بھی ان کے ساتھ اسی طرح نیک سلوک کرو ۔ (تفسیرکبیر، الاسراء، تحت الآیۃ23، 7/321،323)

والدہ کی فرمانبرداری احادیث کی روشنی میں آپ بھی پڑھئے اور علم میں اضافہ کیجئے:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ ایک شخص نے عرض کی، یا رسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، سب سے زیادہ حسنِ صحبت (یعنی احسان) کا مستحق کون ہے؟ ارشاد فرمایا: ’’تمہاری ماں (یعنی ماں کا حق سب سے زیادہ ہے۔) انہوں نے پوچھا، پھر کون؟ ارشاد فرمایا:’’تمہاری ماں۔ انہوں نے پوچھا، پھر کون؟ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پھر ماں کو بتایا۔ انہوں نے پھر پوچھا کہ پھر کون؟ ارشاد فرمایا: تمہارا والد۔(بخاری، کتاب الادب، باب من احقّ الناس بحسن الصحبۃ، 4/93، الحدیث5971)

حضرت اسماء رضی اللہ عنھافرماتی ہیں’’جس زمانہ میں قریش نے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ سے معاہدہ کیا تھا،میری ماں جو مشرکہ تھی میرے پاس آئی، میں نے عرض کی، یا رسولَ اللہ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ میری ماں آئی ہے اور وہ اسلام کی طرف راغب ہے یا وہ اسلام سے اِعراض کیے ہوئے ہے، کیا میں اس کے ساتھ سلوک کروں ؟ ارشاد فرمایا: ’’اس کے ساتھ سلوک کرو۔(بخاری، کتاب الادب، باب صلۃ الوالد المشرک، 4/96، الحدیث 5978)یعنی کافرہ ماں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کیا جائے گا۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے، رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ نے ارشاد فرمایا: میں جنت میں گیا اس میں قرآن پڑھنے کی آواز سنی، میں نے پوچھا:یہ کون پڑھتا ہے؟ فرشتوں نے کہا، حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ ہیں۔ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏نے فرمایا: یہی حال ہے احسان کا، یہی حال ہے احسان کا۔(شرح السنّۃ، کتاب البرّ والصلۃ، باب برّ الوالدین، 6/426، الحدیث :3312 ، اور شعب الایمان کی روایت میں مزید یہ بھی ہے کہ ’’ حارثہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏اپنی ماں کے ساتھ بہت بھلائی کرتے تھے۔(شعب الایمان، الخامس والخمسون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، 6/184، الحدیث7851)

حضرت ابو اسید بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ’’ ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک سے یہ بات ہے کہ اولاد ان کے انتقال کے بعد ان کے لئے دعائے مغفرت کرے۔(کنز العمال، حرف النون، کتاب النکاح، قسم الاقوال، الباب الثامن فی برّ الوالدین، 8/192، الحدیث45441، الجزء السادس عشر)

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ نے ارشاد فرمایا ’’تین شخص جنت میں نہ جائیں گے (1)ماں باپ کا نافرمان (2)دیّوث (3)مَردوں کی وضع بنانے والی عورت۔(معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: ابراہیم، 2/43، الحدیث: 2443)

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


والدین اللہ پاک کی ایک عظیم نعمت ہے۔اسلام میں والدین کے حقوق کو اولین درجہ دیا گیا ہے۔ اولاد کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ماں باپ کو ہر ممکن طریقے سے خوش رکھے۔ ان کے ساتھ نیک سلوک کرے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اپنی وحدانیت کے ساتھ والدین کی فرمانبرداری کا حکم ارشاد فرمایا اور متعدد احادیث میں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے والدین کی فرمانبرداری کا حکم فرمایا ہے: والدین کی رضا رب العزت کی رضا حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے والدین کی رضا کو رب تعالیٰ کی رضا قرار دیا ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی رضا والدین کی رضا میں ہے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی والدین کی ناراضگی میں ہے۔ (صلہ رحمی اور قطع تعلقی کے احکام،مکتبہ اشاعت الاسلام لاہور، ص:58)

والدہ کی طرف پیار سے دیکھنا: والدہ کی طرف رحمت کی نظر کرنا عبادت ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو بیٹا والدہ کی طرف پیار بھری نظر کرے تو ہر نظر پر اسے ایک مقبول حج کا ثواب ملے گا ۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی اگرچہ وہ دن میں سو(100) مرتبہ نظر کریں؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا: ہاں اللہ عزوجل بڑا اور پاک ہے۔ (صلہ رحمی اور قطع تعلقی کے احکام،مکتبہ اشاعت الاسلام لاہور، ص:59) یعنی اللہ رب العزت کے ہاں اجر کی کوئی کمی نہیں ہے۔ اگر بیٹا سو (100) مرتبہ دیکھے گا تو سو 100 حج کا ثواب ملے گا۔

جہنم کی آگ سے حفاظت : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے اپنی والدہ کی دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا وہ بوسہ اس کے لیے جہنم کی آڑ بن جائے گا۔(صلہ رحمی اور قطع تعلقی کے احکام،مکتبہ اشاعت الاسلام لاہور، ص:60)

والدہ کے پاؤں تلے جنت: جنت کو ماں کے پاؤں کے نیچے قرار دیا یعنی ماں کی خدمت پر جنت کی بشارت ہے، چنانچہ ایک صحابی نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کی: میں جہاد کا ارادہ رکھتا ہوں اور آپ سے اجازت لینے آیا ہوں آپ علیہ السلام نے فرمایا: کیا تمہاری والدہ ہے؟ اس نے عرض کی ہاں۔ فرمایا: چلا جا اور اس کی خدمت کر بے شک جنت اس کے پاؤں کے نیچے ہے۔(صلہ رحمی اور قطع تعلقی کے احکام،مکتبہ اشاعت الاسلام لاہور، ص:60)

ایک جھٹکے کا بدلہ :اولاد کے لیے والدہ کے حقوق کی مکمل ادائیگی ناممکن ہے۔ حدیث پاک میں ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے حاضر ہو کر عرض کی: یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک راہ میں ایسے گرم پتھروں پر کہ اگر گوشت ان پر ڈالا جاتا کباب ہو جاتا میں میل تک اپنی والدہ کو گردن پر سوار کر کے لے گیا ہوں کیا میں اب اس کے حق سے بری ہو گیا؟ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تیرے پیدا ہونے میں جس قدر دردوں کے جھٹکے اس نے اٹھائے ہیں شاید ان میں سے ایک جھٹکے کا بدلہ ہوسکے۔ (صلہ رحمی اور قطع تعلقی کے احکام،مکتبہ اشاعت الاسلام لاہور، ص:62)

اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کس قدر والدہ کی فرمانبرداری کا حکم ہوا ہے اور دیگر احادیث مبارکہ کے اندر والدین کے نافرمان کی مغفرت نہ ہوگی۔ اللہ عزوجل ہمیں اپنے ماں باپ کا فرمانبردار بنائے اور ان کی عزت وتکریم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


آج ہمارے معاشرے میں بہت سے گناہ عام ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے انسان خسارے میں پڑتا جا رہا ہے اس میں سے ایک گناہ والدہ کی نافرمانی بھی عام ہو چکی ہے جس کو لوگ عام سمجھتے ہیں قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں کئی مقامات پر فرمایا گیا کہ ان کے ساتھ حُسنِ سلوک کرو میں کچھ احادیث کریمہ والدہ کی فرمابرداری کے بارے میں آپ کی نظر کرتا ہوں۔

(1)والدہ کی خدمت کرنا: حضرت معاویہ بن جاہمہ فرماتے ہیں کہ میرے والد حضرت سیدنا جاہمہ نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے عرض کی یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں جہاد کرنے کا ارادہ ہوا تو میں مشورہ لینے آپ کی بارگاہ میں چلا آیا تو نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ تیری ماں ہے عرض کی جی ہاں! حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا تم اس کی خدمت کو اپنے اوپر لازم کر لو کیوں کہ جنت اس کے قدم کے پاس ہے (حوالہ نمبر: سنن النسائی کتاب الجہاد٬باب فضل من یجاھد فی سبیل اللہ٬ج٬6ص11)

(2)زیادہ مستحق کون:حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اس نے عرض کی کہ میری اچھی خدمت کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا تمہاری ماں۔ اس نے عرض کی پھر کون حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تمہاری ماں اس نے دوبارہ عرض کی پھر کون حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا تمہاری ماں: اس نے دوبارہ عرض کی پھر کون! حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا تمہارا باپ۔(صحیح بخاری کتاب الآداب ٬باب من احق الناس بحسن الصبح193/4٬الحدیث5971)

(3)کاش میری ماں زندہ ہوتی: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کاش میری ماں زندہ ہوتی اور میں عشاء کی نماز کے لیےمصلے پر کھڑا ہوتا اور سورۃ فاتحہ شروع کر چکا ہوتا٬اُدھر سے میرے گھر کا دروازہ کھلتا اور میری پکارتی محمد تو میں ان کے لیے نماز توڑ دیتا اور میں کہتا لبیک اے ماں۔ (شعب الایمان)284/10)

(4)جنت ماں کے قدموں تلے: حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے ۔( صفحہ نمبر 45 جلد نمبر ٬7 شرح صیحح مسلم)

(5)قدموں میں چمٹے رہو: حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ اپنی ماں کے پیروں ساتھ چمٹے رہو وہیں جنت ہے ۔ (حوالہ نمبر: صفحہ نمبر ٬45 جلد نمبر ٬7 شرح صحیح مسلم)

ان احادیث کریمہ کو ہمیں غور سے پڑھنا چاہیے اوراس پر عمل کرنا چاہیے اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے والدین کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین!

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


ماں اس ہستی کا نام ہے جو زندگی کے تمام دکھوں اور مصیبتوں کو اپنے آنچل میں چھپا لیتی ہے۔ اپنی زندگی اپنے بچوں کی خوشیوں، شاد مانیوں میں صَرف کرتی چلی آئی ہے اور جب تک یہ دنیا قائم و دائم ہے یہی رسم جاری رہے گا۔یوں تو دنیا میں ہر انسان چاہے وہ کوئی بھی زبان بولتا ہو، چاہے کسی بھی مذہب سے اس کا تعلق ہو ماں ہر ایک کے لیے قابلِ قدر ہے۔

1۔ پیار بھری نظر کا ثواب: شعب الایمان کی حدیث پاک ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:جو بیٹا والدہ کی طرف پیار بھری نظر کرے تو ہر نظر پر اسے ایک مقبول حج کا ثواب ملے گا صحابہ کرام علیم الرضوان نے عرض کی اگر چہ وہ دن میں سو مرتبہ نظر کرے ? آپ علیہ السلام نے فرمایا:ہاں اللہ عزوجل بڑا اور پاک ہے (یعنی اس کے ہاں اجر کی کمی نہیں ہے) سو مرتبہ دیکھے گا تو سو حج کا ثواب ملے گا۔(صلہ رحمی اور قطع تعلقی کے احکام، صفحہ59، مکتبہ اشاعتہ الاسلام لاہور)

ماں کو پیار سے دیکھنے کا کتنا ثواب ملتا ہے انسان حج کرنے جاتا ہے لیکن اس کو پتا نہیں ہوتا کہ حج مقبول ہے یا نہیں اور ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کتنی پیاری بشارت عطار فرمائی ہے اللہ پاک ہمیں دیکھنا نصیب فرمائے آمین۔

2۔ دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دینا کا ثواب: شعب الایمان کی حدیث پاک ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے اپنی والدہ کی دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا وہ بوسہ اس کے لیے جہنم کی آڑ بن جائے گا ۔ (صلہ رحمی اور قطع تعلقی کے احکام،صفحہ60، مکتبہ اشاعت الاسلام لاہور)

دیکھے اللہ کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کتنی پیاری فضلیت ارشاد فرمائی ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ ماں بھی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی رحمت ہے اللہ پاک یہ نعمت سب کو عطا فرمائے آمین

3۔جنت کی بشارت: جنت کو ماں کے پاؤں کے نیچے قرار دیا یعنی ماں کی خدمت پر جنت کی بشارت ہے چنانچہ ایک صحابی نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کی میں جہاد کا ارادہ رکھتا ہوں اور آپ سے اجازت لینے آیا ہوں آپ علیہ السلام نے فرمایا: کیا تمہاری والدہ ہے?اس نے عرض کی ہاں فرمایا: چلا جا اور اس کی خدمت کر بےشک جنت اس کے پاؤں کے نیچے ہے (صلہ رحمی اور قطع تعلقی کے احکام،صفحہ 60، مکتبہ اشاعت الاسلام لاہور)

4۔ والدین سے حسن سلوک : اخروی فوائد کے ساتھ ساتھ والدین سے حسن سلوک دنیا میں بھی فائدہ مند ہے چنانچہ مسند احمد کی حدیث پاک حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:جو یہ پسند کرتا ہے کہ اس کی عمر اور رزق میں اضافہ ہو تو وہ والدین سے حسن سلوک کرے اور صلہ رحمی کرے(صلہ رحمی اور قطع تعلقی کے احکام،صفحہ61، مکتبہ اشاعت الاسلام لاہور)

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


زندگی اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ایک بہت ہی خوبصورت اور انمول نعمت ہے، اس کی اصل خوبصورتی اور رونق والدین کے دم سے ہے۔گلاب جیسی خوشبو،سچائی کا پیکر،لازوال محبت و شفقت اور قربانی جیسے الفاظ یکجا ہو جائیں تو دو الفاظ بن جاتے ہیں ماں اور باپ۔

اسلام نے حقوق العباد سے لے کر حقوق اللہ تک سب کے حقوق اور فرمانبرداری پر زور دیا ہے۔اور ان میں سے بھی خاص طور پر والدین اور ان میں سے والدہ پر خاص توجہ دی ہے۔ والدہ کی فرمانبرداری پر حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بہت سے ارشادات ملتے ہیں۔جیسے اللہ کے محبوب، دانائے غیوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ماں کی نافرمانی حرام ہے اللہ نے تم پر ماؤں کی نافرمانی اور بد سلوکی کو حرام کر دیا۔ (صحیح بخاری: حدیث: 2408)

ایک اور جگہ فرمایا: حسن سلوک کی سب سے زیادہ حقدار تمہاری ماں ہے ۔ (صحیح بخاری: حدیث:5971)

ماں وہ ہستی ہے جس کے بارے میں قران سے لے کر حدیث تک بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔قران و حدیث کے ساتھ ساتھ اولیا ء کے اقول اور ان کی زندگی کے بہت سے واقعات بھی ملتے ہیں۔ایک واقعہ جو ایک شخص کا ہے جس کا نام حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ ہے۔آپ نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا مبارک دور پانے کے باوجود شرف صحابیت حاصل نہ کر سکے۔اور آپ کے شرف صحابیت حاصل نہ کرنے کی وجہ بیمار والدہ کی خدمت تھی ۔

صحابہ بھی حضرت اویس قرنی سے دعا کرواتے: حضرتِ سَیِّدُنا اُسَیْر بن عَمرو رضی اللہ عنہ جنہیں ابن جابر بھی کہا جاتا ہے، بیان کرتے ہیں کہ امیر المؤمنین حضرتِ سَیِّدُنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس جب یمنی مددگار مجاہدین کے قافلے آتے تو آپ ان سے دریافت فرماتے: ’’ کیا تم میں اُویس بن عامر ہیں؟ ‘‘ یہاں تک کہ (ایک قافلے میں) جب سیدنا اُویس قرنی رضی اللہ عنہ اُن کے پاس پہنچے توسیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے پوچھا: ’’کیا آپ اُویس بن عامر ہو؟ ‘‘ انہوں نے کہا: ’’جی ہاں۔ ‘‘ فرمایا: ’’کیا آپ قبیلہ مُراد اور قَرَن سے ہیں؟ ‘‘ کہا: ’’جی ہاں۔ ‘‘ فرمایا: ’’کیا آپ کو برص کی بیماری تھی جو ایک درہم کی جگہ کے علاوہ ساری ٹھیک ہوگئی؟ ‘‘ کہا: ’’جی ہاں۔ ‘‘ فرمایا: ’’کیا آپ کی والدہ ہیں؟ ‘‘ کہا: ’’جی ہاں۔ ‘‘

سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’میں نے حضور نبی رحمت شفیع اُمَّت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: تمہارے پاس یمنی مددگار مجاہدین کے قافلوں کے ہمراہ اُویس بن عامر آئیں گے، وہ قبیلہ مراد اور (اس کی شاخ) قرن سے ہوں گے، انہیں برص کی بیماری تھی پھر ایک درہم کے برابر جگہ کے علاوہ ٹھیک ہوچکی ہوگی، اُن کی والدہ بھی ہوں گی اور وہ والدہ ساتھ نیکی کرنے والے ہوں گے، اگر وہ کسی چیز پر اللہ تعالیٰ کی قسم کھالیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم ضرور پوری فرمادے گا، اگر تم سے ہوسکے تو ان سے اپنے لیے مغفرت کی دعا کروانا۔ لہٰذا آپ میرے لیے بخشش کی دعا کیجیے۔ چنانچہ حضرت سیدنا اُویس قرنی رضی اللہ عنہ نے سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کے لیے دعا مانگی۔ ‘‘ (مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل اویس القرنی رضی اللہ عنہ، ص1375، حدیث 2542۔)

حدیث مذکورہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ کو وہ مقام عطا فرمایا کہ آپ سے صحابہ بھی آ کر آپ سے دعا کرواتے تھے۔اور یہ مقام آپ کو اپنی والدہ کی خدمت اور فرمانبرداری سے حاصل ہوا۔

والدہ کے حقوق کے متعلق تین فرامین مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پیش خدمت ہیں:

ماں کے قدموں میں جنت: ماں کی خدمت کو اپنے اوپر لازم کر لو کیونکہ جنت اس کے قدم کے پاس ہے۔ (مسند امام احمد، حدیث معاویۃ بن جاھمۃ، 5/290، حدیث: 15538۔)

والدہ کی خدمت کا صلہ: ماں کی خدمت میں اللہ کی اطاعت کرو جب تم ایسا کرو گے تو تم حاجی،معتمر اور مجاہد کا مرتبہ پالو گے۔ (معجم اوسط، 2/171، حدیث: 2915)

مرد پر سب سے زیادہ حق اس کی ماں کا ہے۔(مستدرک حاکم، کتاب البروالصلۃ، باب بِرّاُمّک۔۔۔ الخ، 5/208، حدیث: 7326)مذکورہ احادیث میں نبی رحمت،شفیع امت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ ماں کی فرمانبرداری اور خدمت کرنے والے کو اللہ تعالی حاجی،معتمر(یعنی عمرہ کرنے والا)اور مجاہد کا مرتبہ عطا فرماتا ہے۔

اسی طرح ہمیں والدہ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی ایک اور حدیث نبوی ہے:

حسن سلوک کا مستحق کون؟: چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: ایک صحابی ، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسولُ اللہ ! میرے اچھے سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ فرمایا: تمہاری ماں ہے ۔ پوچھا اس کے بعد کون ہے؟ فرمایا: تمہاری ماں ہے ۔ انہوں نے پھر پوچھا اس کے بعد کون؟ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تمہاری ماں ہے ۔ انھوں نے پوچھا: اس کے بعد کون ہے ؟ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: پھر تمہارا باپ ہے ۔(صحيح البخاري، رقم الحديث 5971، وأيضاً صحيح مسلم، رقم الحديث 1 ۔ 2548)

بیان کی گئی تمام احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ والدہ کے فرمانبرداری دنیا کے ان انمول ترین کاموں میں سے ایک کام ہے کہ جو کام رضائے الہی تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔اس طرح کی کئی اور حدیث اور آیات قرآنی ملتی ہیں جو کہ والدہ کی فرمانبرداری اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے پر توجہ دلاتی ہیں۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے ہمیں والدہ کی فرمانبرداری اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر دو طرح کے حقوق لازم کیے ہیں:پہلا حقوق اللہ اور دوسرا حقوق العباد ہے، حقوق العباد میں سب سے افضل اور اہمیت کا حامل والدین کے حقوق ہیں اور والدین کے حقوق میں سے والدہ کے حقوق والد کے حقوق سے افضل ہیں۔

حسن سلوک کا زیادہ مستحق کون؟: حدیث مبارکہ میں ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا: اے اللہ کے پیارے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون کون ہے؟ اس کے جواب میں سرکار کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تمہاری والدہ تمہارے حسن سلوک کی سب سے زیادہ مستحق ہے۔ سائل نے عرض کیا: پھر کون؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تمہاری والدہ۔ اس نے تیسری مرتبہ عرض کیا: پھر کون؟ فرمایا: تمہاری والدہ۔ سائل نے چوتھی بار پوچھا: پھر کون ؟رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اپنے باپ کے ساتھ حسن سلوک کرو۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث مبارکہ کے تحت لکھا ہے کہ والدہ کے حقوق باپ سے تین گنا زیادہ ہیں کیونکہ ماں بچے پر تین احسان کرتی ہے :(1)پیٹ میں رکھنا (2)پیدا کرنا(3)پروش کرنا۔(بخاری شریف، 2/883)

والدہ کے ساتھ حسن سلوک کی جزا:اُمُّ المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا سے یہ روایت ہے، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے اس وقت قرآن مجید کی تلاوت کی آواز سنی، میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ فرشتوں نے عرض کیا: حضرت حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ ہیں، نیکی کرنے کا ثواب اسی طرح ہے، نیکی کا ثواب اسی طرح ہے تو ان کو یہ مقام کس طرح ملا تو فرشتوں نے عرض کی: یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! وہ اپنی ماں کے ساتھ سب لوگوں سے بڑھ کر اچھا سلوک کیا کرتے تھے۔(شرح مشکاۃ شریف، 6/525)

فوت شدہ ماں کی طرف سے حج: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک عورت نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئی اور عرض کرنے لگی: میری والدہ نے حج کی نظر مانی تھی لیکن وہ حج کرنے سے پہلے فوت ہو گئی کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اس کی طرف سے حج کر۔ بھلا بتا تو سہی اگر تیری والدہ پر کچھ قرض ہوتا تو تو ادا کرتی کہ نہ کرتی۔ اس نے عرض کیا: بے شک ادا کرتی۔ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: پھر اللہ پاک کا بھی قرض ادا کرو، اس کا قرض ادا کرنا تو ضروری ہے۔(نسائی شریف، 2/3)

والدہ کے حقوق: (1)والدہ کے سامنے اُف نہ کہنا (2)والدہ کے ہاتھ پاؤں چومنا(3)والدہ کا حکم ماننا(4)ان کے ساتھ نرمی اور بھلائی کے ساتھ پیش آنا(5)ان کے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنا(6)ان کے فوت ہونے کے بعد صالح ثواب کرنا(7)ان کی قبر پر جا کر دعائے مغفرت کرنا۔

اللہ رب العزت ہم سب کو اپنی والدہ کے حقوق کی صحیح معنوں میں ادائیگی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔