جب محبت اپنی اعلیٰ ترین شکل اختیار کرتی ہے تو وہ محض جذبات کی کیفیت نہیں رہتی، بلکہ روح کی گہرائیوں سے نکلنے والی ایک پاکیزہ روشنی بن جاتی ہے۔ ایسی ہی روشنی ہمیں اس وقت نظر آتی ہے جب ہم نبی اکرم محمد مصطفیٰ ﷺ کی حضرت سیدہ فاطمہ الزہراء سے محبت کو دیکھتے ہیں۔ حضرت فاطمہ وہ ہستی تھیں جو اپنے والد محترم ﷺ کی آنکھوں کی ٹھنڈک، دل کا سکون اور روح کا قرار تھیں۔ نبی کریم ﷺ ان سے ویسے ہی محبت کرتے تھے جیسے ایک عاشق صادق اپنے رب کی رضا سے کرتا ہے بے غرض، پاکیزہ اور مقام معرفت پر فائز۔

احترام و تعظیم: جب بھی حضرت فاطمہ حاضر ہوتیں، نبی کریم ﷺ کھڑے ہو جاتے، ان کا ہاتھ چومتے اور انہیں اپنے پاس بٹھاتے۔ یہ نہ صرف باپ کی محبت تھی بلکہ ایک روحانی رشتے کی علامت تھی جس میں نور نبوت اور عصمت زہرا یکجا تھے۔

اظہار محبت کی رفعت: ایک موقع پر فرمایا: فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے، جس نے اسے ناراض کیا، اس نے مجھے ناراض کیا۔ (مسلم، ص 1021، حدیث: 6307)یہ الفاظ فقط جذبات نہیں، بلکہ فاطمہ کے مقام کا روحانی اعلان تھے۔

وصال کا لمحہ: نبی کریم ﷺ کی آخری گھڑیوں میں حضرت فاطمہ کا رونا اور پھر مسکرانا، وہ لمحہ تھا جس میں دنیا سے رخصتی کی خبر اور جلد وصال کی بشارت ملی۔ یہ ایک باپ اور بیٹی کی محبت نہیں، دو پاکیزہ روحوں کی دائمی ملاقات کا وعدہ تھا۔

فرمایا: فاطمہ جنت کی عورتوں کی سردار ہے۔ یہ اعلان نہ صرف حضرت فاطمہ کی عظمت کا تاج تھا بلکہ امت کو بتایا گیا کہ بیٹی، اگر تقویٰ، حیا، خدمت اور اطاعت کا نمونہ ہو تو وہ دنیا و آخرت میں باعث عزت بن جاتی ہے۔

نبی کریم ﷺ کی حضرت فاطمہ سے محبت صرف ایک رشتے کی محبت نہ تھی، بلکہ یہ ایک روحانی درس تھا کہ بیٹی، نعمت خداوندی ہے۔ سیدہ فاطمہ کے ساتھ نبی کریم ﷺ کا طرز عمل ہر دور کے انسان کو سکھاتا ہے کہ عورت اگر پاکیزگی کا پیکر ہو تو وہ نبوت کی آنکھوں کا نور بن جاتی ہے۔