ادب ایک ایسا
وصف ہے کہ جب تک یہ موجود تھا تو شیطان کا لقب معلم الملکوت یعنی فرشتوں کا سردار
تھا اور پھر یہ ہی ادب مفقود ہوا تو شیطان ابلیس لعین اور حقارت و رحمت الٰہی سے
دوری کا نشان بن گیا۔العیاذ باللہ
ادب کی بدولت
انسان شرف اور عزت و بلندی پاتا ہے جبکہ بے ادبی کے سبب ذلت و رسوائی ہی ملتی ہے،
حکایت بیان کی جاتی ہے کہ مشہور ولی اللہ حضرت بشر حافی رحمۃ اللہ علیہ ولایت سے
قبل ایک شرابی تھے، انہوں نے اللہ پاک کے نام یعنی بِسْمِ
اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم کی تعظیم کی
جس کی وجہ سے اللہ پاک نے انہیں ولایت کا ایسا درجہ عطا کیا کہ جانور بھی آپ کی
تعظیم و شرف کی خاطر راستے میں گوبر نہ کرتے تھے کیونکہ آپ ننگے پاؤں ہوتے تھے۔
5
آداب:
مسلمان ہر ایک سے ہی ادب سے پیش آتا ہے، البتہ ایک مسلمان پر اپنے معبود و خالق
رب کی بارگاہ کے بھی آداب لازم ہیں:
1۔
اللہ کے ساتھ شرک نہ کیا جائے: بارگاہ الٰہی کا پہلا ادب یہ ہے کہ
بندہ اللہ تبارک و تعالیٰ کو شریک سے پاک
اور احد یعنی ایک تسلیم کرے اس کا حکم خود اللہ پاک نے قرآن میں دیا ہے: وَ
اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْــٴًـا (النساء: 36)
ترجمہ: اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔
2۔اللہ
کی نازل کردہ کتابوں اور رسولوں پر ایمان لانا: بارگاہ الٰہی
کا ادب یہ بھی ہے کہ انسان اس کے بھیجے ہوئے رسولوں اور کتابوں پر ایمان لائے، اس
کا حکم دیتے ہوئے اللہ فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْۤا اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ الْكِتٰبِ الَّذِیْ نَزَّلَ
عَلٰى رَسُوْلِهٖ (النساء :
136) ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ پر اس کے رسول پر اور جو کتاب اس نے اپنے رسولوں
پر نازل کی اس پر ایمان لاؤ۔
3۔
سب سے بڑھ کر محبت اللہ سے کی جائے: بارگاہ
الٰہی کا یہ بھی ادب ہے کہ بندہ اپنی ہر محبت پر اللہ کی محبت کو فوقیت دے یہی اہل
ایمان کی امتیازی خصوصیت بھی ہے کہ وہ سب سے بڑھ کر اللہ سے محبت کرنے والے ہوتے
ہیں۔ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا
اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِؕ- (البقرۃ: 165)
ترجمہ: اور ایمان والے اللہ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے ہوتے ہیں۔
4۔احکام
الٰہی اور شریعت کی پابندی کی جائے: اللہ کی بارگاہ کا ادب یہ بھی ہے کہ
بندہ اس کے دیئے گئے ہر ہر حکم پر ایمان لائے اور اپنے کاموں میں اس حکم کی اطاعت
کرے اور اپنی زندگی شریعت کے مطابق گزارے۔ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (النساء:
59) ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو۔
5۔ خوف خدا پیدا کیا جائے: بارگاہ الٰہی کا ایک اہم ادب یہ ہے کہ بندہ اپنے اندر اپنے الٰہ و معبود بر
حق اپنے مولا تعالیٰ کا ڈر اور خوف پیدا کرے اس کی رحمت سے امید رکھے اور اس
کے غضب سے ڈرے، اللہ پاک خوف خدا کا حکم
دیتے ہوئے فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ (الاحزاب: 70) ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو۔
اللہ پاک ہم سب کو اس کی بارگاہ
میں ادب کے ساتھ حاضر ہونے اور حاضر رہنے کی سعادت عطا فرمائے۔ آمین
ادب و تعظیم کو عبادت کے لائق نہ سمجھیں تومحض تعظیم
ہے جیسے نماز میں ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونا عبادت ہے اور نماز کے علاوہ ہاتھ باندھ
کر کھڑے ہونا تعظیم ہے۔(صراط الجنان)
بارگاہ الٰہی کے
آداب والی آیات ترجمہ و تفسیر کی روشنی میں:
1۔اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ0ہم
تجھی کو پوجیں اور تجھی سے مدد چاہیں۔( البقرۃ:4)اس آیت میں بیان ہوا کہ ہر طرح کی
حمد و ثنا کا حقیقی مستحق اللہ پاک ہے،بندوں کو سکھایا جا رہا ہے کہ اللہ پاک کی
بارگاہ میں اپنی بندگی کا اظہار یوں کرو کہ اے اللہ پاک ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے
ہیں کیونکہ عبادت کا مستحق صرف تو ہی ہے اور کوئی عبادت کے لائق نہیں اور حق کی
مدد کرنے والا بھی تو ہی ہے اور تیری اجازت و مرضی کے بغیر کوئی کسی کی ظاہری باطنی،
جسمانی،روحانی،چھوٹی،بڑی مدد نہیں کر سکتا۔ معلوم ہوا کہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں
اپنی حاجت عرض کرنے سے پہلے اپنی بندگی کا اظہار کرنا چاہیے۔
2۔ قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ
فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ
غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ0 اے
محبوب تم فرمادو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمان بردار ہوجاؤ
اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔(
اٰل عمران:31) اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ کی محبت کا دعوی جب ہی سچا ہو سکتا
ہےجب بندہ رسول اللہ کی اتباع کرنے والا ہو اور حضور کی اطاعت اختیار کرے۔ایک قول
کے مطابق مدینہ کے یہودی کہا کرتے تھے کہ ہمیں حضور کی اتباع کرنے کی ضرورت نہیں ہم تو اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں۔اس سے
معلوم ہوا ہر شخص کو حضور پر نور ﷺ کی اتباع اور پیروی کرنا ضروری ہے۔ (صراط الجنان)
3۔ وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ
بِاِذْنِ اللّٰهِؕ-وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ
فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ
تَوَّابًا رَّحِیْمًا0ترجمہ: او رہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لیے کہ
اللہ کے حکم سے اُس کی اطاعت کی جائے اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے
محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں ا ور رسول ان کی شفاعت
فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔ (النساء: 64)
تفسیر:یہاں رسول کی
تشریف آوری کا مقصد بیان ہے کہ اللہ تعالی رسولوں کو بھیجتا ہی اس لیے ہے کہ اللہ
کے حکم سے ان کی اطاعت کی جائے۔اللہ تعالی انبیاء اور رسول کو معصوم بناتا ہے،کیونکہ
اگر انبیاء خود گناہوں کے مرتکب ہوں گے تو اللہ کی اطاعت کے لیے،رسول کی اطاعت
ضروری ہے اس سے ہٹ کر اطاعت الٰہی کا
دوسرا طریقہ نہیں،جو رسول کی اطاعت کا انکار کرےگاہ وہ کافر ہو گا۔ (صراط الجنان،جلد
2) 4۔ قُلْ اَطِیْعُوا
اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَۚ-فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ
الْكٰفِرِیْنَ0 ترجمہ: تم فرما دو کہ اللہ اور رسول کی
فرمانبرداری کرو اگر وہ منہ پھیریں تو اللہ کافروں کو پسند نہیں کرتا۔ حضرت
عبداللہ بن عباس سے مروی ہے جب یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ اے حبیب
آپ ان سے فرما دیں کہ اللہ تعالی نے میری اطاعت اس لیے واجب کی کہ میں اس کی طرف
سے رسول ہوں،اللہ کے احکام لوگوں تک پہنچانے کا ذریعہ رسول ہی ہیں اگر
وہ اطاعت سے منہ پھیریں تو انہیں اللہ کی
محبت حاصل نہ ہو گی اللہ انہیں سزا دے گا۔(صراط الجنان، جلد 2)
قرآنِ
کریم میں بارگاہِ الٰہی کے 5 آداب از بنتِ
فیض،جامعہ عمر بن خطاب کراچی
جس طرح دنیا میں اگر کسی کی عزت کرتے ہیں تو جب ہم
اس کی بارگاہ میں جاتے ہیں تو اس کی بارگاہ کا ادب کرتے ہیں اس کی بارگاہ میں جانے
کے کچھ آداب ہوتے ہیں،اسی طرح بارگاہِ الٰہی میں جانے کے بھی کچھ آداب ہیں۔قرآنِ
کریم میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:رَضِیَ
اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُؕ- اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی (پ7، المائدۃ، 119)
حدیث شریف میں ہے:اِنَّ اللّٰهَ
تَعالٰي يَتَجَلَّي لِلْمُؤمِنِینَ فَیَقُوْلُ سَلُوْنِي فَيَقُوْلُوْنَ رِضَاكَبے شک
اللہ پاک مومنوں پر تجلی فرماکر ارشاد فرمائے گا:مجھ سے سوال کرو! تو وہ عرض کریں
گے:ہم تیری رضا کے طلب گار ہیں۔پس دیدار کے بعد رضا کا سوال کرنا بہت بڑی فضیلت ہے۔حدیثِ
مبارکہ میں ہے:اللہ کے محبوب،دانائے غیوب،منزه عن العيوب ﷺ نے صحابہ کرام علیہم
الرضوان کی ایک جماعت سے استفسار فرمایا :تم
کون ہو ؟ انہوں نے عرض کی:ہم مومن ہیں۔ آپ نے پھر پوچھا:تمہارے ایمان کی علامت کیا
ہے؟ انہوں نے عرض کی:ہم آزمائش پر صبر کرتے ہیں،فراخی میں شکر ادا کرتے ہیں اور اللہ
پاک کے فیصلوں پر راضی رہتے ہیں۔تو آپ نے ارشاد فرمایا: رب کریم کی قسم! تم مومن
ہو۔ (ایک اور روایت میں ہے) کہ آپ ﷺ کا فرمانِ حکمت نشان ہے:قریب تھا کہ حکما،علما
اپنی فقہ (یعنی سمجھ بوجھ) کی بدولت انبیا ہوتے۔(الزهد الکبیر للبیہقی،ص 354،حدیث:970)
اللہ پاک نے ارشادفرمایا:(1)وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِؕ- (پ 2، البقرۃ:165 ) ترجمہ:
اور ایمان والوں کو اللہ کے برابرکسی کی محبت نہیں۔اور فرمایا(2)یُّحِبُّهُمْ وَ یُحِبُّوْنَهٗۤۙ-(پ5، المائدۃ: 54) ترجمہ کنز الایمان:وہ اللہ کے پیارے اللہ
ان کا پیارا۔
حدیثِ پاک میں ہے: تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن
نہیں ہو سکتاجب تک اللہ اور اس کا رسول ﷺ اس کے نزدیک اس کے اہل و عیال اور سب
لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجائیں۔(صحیح مسلم،ص 188، حديث: 168)
محبت کا معنی: محب کے نزدیک
محبت کے لذیذ ہونے کی وجہ سے طبیعت اس کی طرف مائل ہوتی ہے اور بغض اس کی ضد ہے جو
کسی چیز سے طبعی نفرت کا نام ہے، کیونکہ وہ طبیعت کے موافق نہیں ہوتی اور جس چیز کی لذت بڑھتی ہے اس کی محبت میں بھی
اضافہ ہو جاتا ہے،آنکھوں کی محبت دیکھنے میں،کانوں کی لذت سننےمیں اورناک کی لذت
پاکیزہ خوشبوؤں میں ہے۔ اسی طرح ہر چیز کے موافق ایک چیز ہے جس سے انسان لذت حاصل
کرتا ہے اور اسی سبب سے اس چیز سے محبت کرتا ہے۔ حضور پاک،صاحب ِلولاک، سیاحِ
افلاک ﷺ کایہ فرمانِ عالیشان ہے:حُبِّبَ اِلَيَّ مِن
دُنياكم:النِّساءُ والطِّيبُ و جُعِلَتْ قُرَّةُ عيني في الصَّلاةِتمہاری
دنیا میں مجھے 3 چیزیں محبوب ہیں:(1)خوشبو(2)عورتیں(3)اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک
نماز میں ہے۔ ایک اور مقام پر اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:اِنَّا وَجَدْنٰهُ صَابِرًاؕ-نِعْمَ الْعَبْدُؕ-اِنَّهٗۤ اَوَّابٌ0ترجمہ:بے
شک ہم نے اسے صابر پایا کیا اچھا بندہ،بے شک وہ بہت رجوع لانے والا ہے۔
تو ارشاد فرمایا: تعجب کی بات ہے خود ہی دیتا ہے
اور خود ہی تعریف ہے۔یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جب اس نے اپنے دینے پر ا س کی
تعریف کی تو گویا اپنی تعریف کی پس ولی
تعریف کرنے والا اور اسی کی تعریف کی جاتی ہے۔ حضرت شیخ ابو سعید مہینی رحمتہ اللہ
علیہ نے بھی اسی نظر سے دیکھا جب ان کے سامنے یہ آیت پڑھی گئی: یُّحِبُّهُمْ وَ یُحِبُّوْنَهٗۤ(پ5، المائدہ،
54) ترجمہ کنز الایمان: وہ اللہ کے پیارے اللہ ان کا پیارا۔ تو انہوں نے فرمایا:
میری عمر کی قسم ! اللہ پاک انہیں چاہتا ہے، انہیں پسند کرتا ہے اور انہیں پسند کرسکتا ہے کیونکہ وہ (اس طرح ) آپ کو چاہتا ہے۔
الله پاک نے ارشاد فرمایا:هَؤُلَاءِ فِي الْجَنَّةِ وَلَا أُبَالِي،
وَهَؤُلَاءِ فِي النَّارِ وَلَا أُبَالِي وہ جنت میں ہوں تب بھی مجھے پروا نہیں اور وہ دوزخ میں تب
بھی مجھے کوئی پروا نہیں۔ (مسند امام احمد، 9/255-256، حدیث: 17686)
خوف اور امید دو لگا میں ہیں جن کے ذریعے اس شخص کوقابو
میں کیاجاسکتا ہے،جس کے دل میں جمالِ حق ظاہر نہ ہوا ہو اور جس نے دل کے ساتھ اس
جمالِ حق کا مشاہدہ کر لیا وہ خوف کے درجہ سے بلند ہو گیا۔ حضرت واسطی رحمۃ اللہ
علیہ نے اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: خوف اللہ پاک اور بندے کے درمیان
حجاب ہے اور جب دلوں پر حق ظاہر ہو جائے
تو اُن میں امید و خوف کی کوئی فضیلت باقی نہیں رہتی۔ وہ کلام یہ ہے کہ جب محب
محبوب کے جمال کو حاصل کر لیتا ہے تو اس کی توجہ فراق کے خوف سے محبوب کے وصال کو ضائع کر
دیتی ہے، لیکن ہم اس کےمقامات کی ابتدا کے
بارے میں گفتگو کررہے ہیں، اس لئے ہم کہتے
ہیں کہ اپنے اوپر خوف طاری کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ انسان شدتِ عذاب و حساب کے بارے
میں وارد ہونے والی آیاتِ کریمہ اور احادیثِ
مبارکہ میں غور و فکر کرے اور اللہ پاک کی
عظمت و جلال کے مقابلے میں اپنی حالت دیکھے اور( حدیثِ قدسی میں مذکور) الله کے اس
فرمان پر غور کریں جو اوپر وارد ہے۔
حضرت ابو موسی دیلی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:میں نے حضرت ابو یزید رحمۃ
اللہ علیہ سے پوچھا:تَوَکُّل کیا ہے ؟ انہوں نے مجھ سے استفسار
فرمایا:تم کیا کہتے ہو؟میں نے کہا:ہمارےاصحاب تو فرماتے ہیں کہ اگر درندے اور سانپ
تمہارے دائیں بائیں ہوں تو بھی تمہارے باطن میں کوئی حرکت نہ ہو۔تو حضرت ابو یزید
رحمۃ اللہ علیہ فرمانے لگے: ہاں۔یہ تَوَکُّل کے قریب ہے لیکن اگر اہلِ جنت جنت
میں نعمتوں سے لطف اندوز ہورہے ہوں اور جہنمیوں
کو جہنم میں عذاب دیا جا رہا ہو، پھر تم ان دونوں کے درمیان تمیز کرنے لگو تو تَوَکُّل سے
نکل جاؤ گے۔ اللہ پاک کی بارگاہ کا ادب یہ ہے کہ رحمتوں کو اس کی طرف منسوب کیا
جائے اور آ ٓفات کو اس کی جانب منسوب نہ کیا جائے اور یہی اللہ پاک کے نیک بندوں کا طرزِ عمل ہے،جیسے حضرت ابراہیم علیہ
السلام نے کافروں سے کلام کےدوران جب اللہ
پاک کی شان بیان فرمائی تو ادب کی وجہ سے بیماری کو اپنی طرف اور شفا کو اللہ پاک کی
طرف منسوب کرتے ہوئے فرمایا: وَ اِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِيْنِ0 اور جب میں
بیمار ہوتا ہوں تو وہی شفا عطا فرماتا ہے۔
ان سب سے معلوم ہوا کہ ہمیں بھی بارگاہِ الٰہی کا ادب کرنا چاہیے۔اللہ ہمیں بھی
ادب کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ
ادب دنیا و آخرت کی کامیابیوں اور سعادتوں کے حصول
کا ذریعہ ہے۔ اس کی تعلیم خود ربِّ کائنات نے اپنے پیارے نبی، مکی مدنی، محمد عربی
ﷺ کو ارشاد فرمائی،چنانچہ حضور خاتم النبیین ﷺنے ارشاد فرمایا:اَدَّبَنِيْ
رَبِّيْ فَاَحْسَنَ تَاْدِيْبِيْ یعنی مجھے میرے ربّ کریم نے ادب سکھایا
اور بہت اچھا ادب سکھایا۔(جامع صغیر، ص25، حدیث:310)
ابو القاسم عبدالکریم بن ہوازن قشیری رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں:ادب کا ایک مفہوم یہ ہے کہ انسان بارگاہِ الٰہی میں حضوری کا خیال
رکھے۔ ابو علی دقّاق رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:بندہ اطاعت سے جنت تک اور اطاعتِ الٰہی
میں ادب کرنے سے اللہ پاک تک پہنچ جاتا ہے۔ (الرسالۃ القشیریۃ، ص 316)
قرآنِ کریم میں ارشادِ باری ہے:
1:وَ ادْعُوْهُ خَوْفًا وَّ
طَمَعًاؕ-اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ0(الاعراف: 56)ترجمہ کنز العرفان:اور اللہ سے دعا کرو ڈرتے
ہوئے اور طمع کرتے ہوئے۔ بیشک اللہ کی رحمت نیک لوگوں کے قریب ہے۔
تفسیر صراط الجنان میں ہے: اس
آیتِ مبارکہ میں بارگاہِ الٰہی میں دعا مانگنے کا یہ ادب ارشاد فرمایا گیا ہے کہ
جب بھی دعا مانگو تو اللہ پاک کے عذاب سے ڈرتے ہوئے اور اس کی رحمت کی طمع کرتے
ہوئے دعا کرو۔ اس سے معلوم ہوا کہ دعا اور عبادات میں خوف و امید دونوں ہونے چاہئیں،
اس سے ان شاء اللہ الکریم جلد قبول ہوگی۔
2:اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ وَ
رَسُوْلِهٖ لِیَحْكُمَ بَیْنَهُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَاؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ
هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ0 (النور: 51) ترجمہ کنز العرفان: مسلمانوں کی بات تو
یہی ہے کہ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تا کہ رسول ان کے
درمیان فیصلہ فرمادے تو وہ عرض کریں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی اور یہی لوگ کامیاب
ہونے والے ہیں۔
اس آیت میں اللہ پاک نے مسلمانوں کو شریعت کا ادب
سکھاتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ مسلمانوں کو ایسا ہونا چاہئے کہ جب انہیں اللہ پاک
اور اس کے رسولِ کریم ﷺ کی طرف بلایا جائے تاکہ رسولِ اکرم ﷺ ان کے درمیان اللہ
پاک کے دئیے ہوئے احکامات کے مطابق فیصلہ فرمادیں تو وہ عرض کریں کہ ہم نے بُلاوا
سُنا اور اسے قبول کرکے اطاعت کی اور جو ان صفات کے حامل ہیں، وہی لوگ کامیاب ہونے
والے ہیں۔( خازن،النور، تحت الآیۃ: 51،3 / 359)
3:حٰفِظُوْا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰىۗ-وَ قُوْمُوْا لِلّٰهِ
قٰنِتِیْنَ0
(البقرۃ: 238)ترجمہ کنز العرفان: تمام نمازوں کی پابندی کرو اور خصوصاً درمیانی
نماز کی اوراللہ کے حضور ادب سے کھڑے ہوا کرو۔
اس آیتِ مبارکہ میں پنجگانہ فرض نمازوں کو ان کے
اوقات پر ارکان و شرائط کے ساتھ ادا کرتے رہنے کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ شریعت کے
دیگر معاملات میں حکمِ الٰہی پر عمل اسی صورت میں ہوگا جب دل کی اصلاح ہوگی اوردل
کی اصلاح نماز کی پابندی سے ہوتی ہے۔ نیز فرمایا کہ تمام نمازوں کی پابندی و
نگہبانی کرو، اس نگہبانی میں ہمیشہ نماز پڑھنا،باجماعت پڑھنا،درست پڑھنا،صحیح وقت
پر پڑھنا سب داخل ہیں۔ درمیانی نماز کی بالخصوص تاکید کی گئی ہے، اور درمیانی نماز
سے مراد عصر کی نماز ہے۔ نیز اس آیتِ مبارکہ میں بارگاہِ الٰہی میں کھڑا ہونے کا
طریقہ یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ ادب سے کھڑا ہوا جائے، لہٰذا کھڑے ہونے کے ایسے طریقے
ممنوع ہوں گے جس میں بے ادبی کا پہلو نمایاں ہو۔ (صراط الجنان، البقرۃ، تحت الآیۃ:
238)
4:وَ اِذَاۤ اَذَقْنَا النَّاسَ
رَحْمَةً مِّنْۢ بَعْدِ ضَرَّآءَ مَسَّتْهُمْ اِذَا لَهُمْ مَّكْرٌ فِیْۤ اٰیَاتِنَاؕ-قُلِ
اللّٰهُ اَسْرَعُ مَكْرًاؕ-اِنَّ رُسُلَنَا یَكْتُبُوْنَ مَا تَمْكُرُوْنَ0(یونس: 21)ترجمہ کنز العرفان: اور جب ہم لوگوں کو انہیں تکلیف
پہنچنے کے بعد رحمت کا مزہ دیتے ہیں تو اسی وقت ان کا کام ہماری آیتوں کے بارے میں
سازش کرنا ہوجاتا ہے۔تم فرماؤ:اللہ سب سے جلد خفیہ تدبیرفرمانے والا ہے۔بیشک
ہمارے فرشتے تمہارے مکر و فریب کو لکھ رہے ہیں۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ رب
العالمین کی بارگاہ کا ادب یہ ہے کہ رحمتوں کو اس کی طرف منسوب کیا جائے اور آفات
کو اس کی جانب منسوب نہ کیا جائے اور یہی اللہ پاک کے نیک بندوں کا طرزِ عمل ہے، جیسے
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کافروں سے کلام کے دوران جب اللہ پاک کی شان بیان
فرمائی تو ادب کی وجہ سے بیماری کو اپنی طرف اور
شفا کو اللہ پاک کی طرف منسوب کرتے ہوئے فرمایا: وَ اِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ یَشْفِیْنِ0(الشعراء:80)ترجمہ کنزُالعِرفان:اور جب میں بیمار ہوں تو وہی
مجھے شفا دیتا ہے۔( صراط الجنان، یونس، تحت الآیۃ: 21)
یاد رہے!اچھے بُرے تمام افعال جیسے ایمان،کفر،اطاعت
اور معصیت وغیرہ کا خالق اللہ پاک ہے اور ان افعال کو پیدا کرنے میں اللہ پاک کا
کوئی شریک نہیں، بُرے افعال کو بھی اگرچہ اللہ پاک نے پیدا فرمایا ہے، لیکن اس کے
ادب اور تعظیم کا تقاضا یہ ہے کہ کلام میں ان افعال کی نسبت اللہ پاک کی طرف نہ کی
جائے۔ (تفسیر قرطبی،صٓ،تحت الآیۃ:41، 8/155)
اسی ادب کی وجہ سے حضرت ایوب علیہ السلام نے تکلیف
اور ایذا پہنچانے کی نسبت شیطان کی طرف فرمائی ہے۔ ( صراط الجنان،صٓ،تحت الآیۃ:
41) جیساکہ قرآنِ مجید میں ہے:وَ
اذْكُرْ عَبْدَنَاۤ اَیُّوْبَۘ-اِذْ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الشَّیْطٰنُ
بِنُصْبٍ وَّ عَذَابٍ0(صٓ: 41)ترجمہ کنز العرفان: اور ہمارے بندے ایوب کو
یاد کروجب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے شیطان نے تکلیف اور ایذا پہنچائی ہے۔
5:تَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِیْ وَ لَاۤ اَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِكَ ؕ اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ0 (المائدۃ:
116)
ترجمہ کنز العرفان:تو جانتا ہے جو میرے دل میں ہے
اور میں نہیں جانتا جو تیرے علم میں ہے۔بیشک تو ہی سب غیبوں کا خوب جاننے والا ہے۔
یہاں علم کو اللہ پاک کی طرف نسبت کرنا اور معاملہ
اس کے سپرد کردینا اور عظمتِ الٰہی کے سامنے اپنی عاجزی کا اظہار کرنا یہ حضرت عیسیٰ
علیہ السلام کی شانِ ادب ہے۔ اللہ پاک ہمیں باادب بنائے اور بےادبی و بے ادبوں سے
محفوظ فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ
محفوظ سدا
رکھنا شہا بےادبوں سے اور
مجھ سے بھی سرزد نہ کبھی بےادبی ہو
قرآنِ
کریم میں بارگاہِ الٰہی کے 5 آداب از بنتِ
ندیم،جامعہ سفینہ غوثیہ گجرات
ادب انسان کے لئے انتہائی ضروری چیز ہے، اس کے ہوتے
ہوئے کسی اور شرف کی ضرورت نہیں رہتی۔ادب یہ ہے کہ انسان کے گفتار اور کردار میں
تقویٰ نظر آئے،بڑوں کی عزت اور چھوٹوں پر شفقت کریں،نیز ادب کو محض فصاحت و بلاغت
میں محصور کر دینا مناسب نہیں ہے۔ کتب احادیث میں خصوصی طور پر ادب کے عنوان کے
تحت احادیث کو جمع کیا گیا ہے۔ ادب کا صلہ اور بدلہ بہت عظیم ہوتا ہے، چنانچہ با
ادب شخص کے لئے نبی کریم ﷺنے جنت میں محلات کی ضمانت دی ہے۔مسلمانو! تقویٰ اختیار
کرو کیونکہ متقی کامیاب ہوں گے اور حد سے تجاوز کرنے والے بدبخت تباہ و برباد ہوں
گے۔ قرآنِ مجید میں ارشاد ہے:یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ
تُقٰتِهٖ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ
مُّسْلِمُوْنَ0
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور ہر گز نہ مرنا مگر
مسلمان۔ (اٰل عمران: 102 )
ادب انسان
کا شرف ہے، ادب پر مبنی شرف کی وجہ سے حسب و نسب کے شرف کی ضرورت نہیں رہتی۔ شرف
بلند ہمتی سے حاصل ہوتا ہے۔بوسیدہ ہونے والی ہڈیوں سے نہیں۔
بارگاہِ خداوندی کے آداب: بندے
کو چاہیے کہ بارگاہِ الٰہی میں اپنی نگاہیں نیچی رکھے،اپنے غموں اور پریشانیوں کو
اللہ پاک کی بارگاہ میں پیش کرے، خاموشی کی عادت بنائے، اعضاء کو پر سکون رکھے،جن
کاموں کا حکم دیا گیا ہے ان کی بجا آوری میں جلدی کرے اور جن سے منع کیا گیا ہے ان
سے اور اُن پر اعتراض کرنے سے بچے، اچھے اخلاق اپنائے، ہر وقت ذکر ِالہٰی کی عادت
بنائے، اپنی سوچ کو پاکیزہ بنائے،اعضا ءکو قابو میں رکھے، دل پر سکون ہو،اللہ پاک
کی تعظیم بجالائے،غیض و غضب نہ کرے،محبتِ الہٰی کو لوگوں سے چھپائے، اخلاص اپنانے
کی کوشش کرے،لوگوں کے پاس موجود مال و دولت کی طرف نظر کرنے سے بچے، صحیح و درست
بات کو ترجیح دے، مخلوق سے اُمید نہ رکھے، عمل میں اخلاص پیدا کرے، سچ بولے اور
گناہوں نیکیوں کو زندہ کرے( نیکیوں پر عمل پیرا ہو)لوگوں کی طرف اِشارے نہ کرے اور
مفید باتیں نہ چھپائے ہمیشہ باوقار و پیر جلال رہے، حیا کو اپنا شعار بنانے، خوف
وڈر کی کیفیت پیدا کرے، تو کل اپنائے، ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرے،
ذکر کرتے وقت دل میں خوفِ خداوندی پیدا کرے،فقر و فاقہ کے وقت تو کل کو اپنا شعار
بنائے اور جہاں تک ہو سکے قبولیت کی امید رکھتے ہوئے صدقہ کرے۔
قرآن ِکریم میں بارگاہِ الٰہی کے
آداب:
جس طرح اللہ پاک کے حضور نماز ادا کرنا
فرض ہے۔اسی طرح ہر نمازی پر یہ بھی فرض ہے کہ وہ نماز کی ادائیگی کے دوران قرآن و
سنت کے احکام کی پابندی کرے۔ صلوۃ:(نماز) کے
معنی ہیں کسی کے قریب ہو جانا اور دعا کرنا۔ لہٰذا نماز کی لفظی و معنوی حقیقت تین
نکات پر مشتمل ہے۔ یہ کہ الله پاک کے
دربار میں شعوری طور پر بڑھ کر حاضر ہو جانا۔ الله پاک کے حضور ہمہ تن متوجہ ہو
جانا، اللہ پاک سے ہم کلام ہو جانا، نماز کے ان تینوں بنیادی لوازمات کے ساتھ نماز
میں اللہ پاک سے ہم کلامی کے طریقے کے لیے قرآن و سنت کے احکام کی پابندی بھی لازم
و واجب ہے۔
نماز سے
متعلق اولین حکم یہ ہے کہ نمازی پورے شعور کے ساتھ اپنا رخ الله پاک کے لیے اس کعبۃ اللہ کی جانب کر لے جو دنیا میں
انسانوں کے لیے بنایا گیا،قرآن مجید میں ارشاد ہے: اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ
وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا
وَّ هُدًى لِّلْعٰلَمِیْنَ0 بے شک سب سے پہلا گھر جو لوگوں
کی عبادت کو مقرر ہوا ہے وہ جو مکہ میں ہے برکت والا اور سارے جہانوں کا رہنما۔ (اٰل
عمران:96) ایک اور جگہ ارشاد ہے:وَحَیۡثُ
مَا کُنۡتُمْ فَوَلُّوۡا وُجُوۡهَکُمْ شَطْرَہٗؕ اور اے مسلمانو! تم جہاں کہیں ہو اپنا منہ اسی
کی طرف کرو۔( مسجد حرام) (البقرۃ:15)
انسانوں میں ادب و احترام کی سمجھ بوجھ روز اول سے ہے۔
اسلامی تعلیمات،خصوصاً قرآن میں تہذیبِ نفس اور کردارسازی میں ادب کو جو اہمیت
حاصل ہے وہ بالکل واضح ہے۔ اور بے ادبی وہ گہرا کنواں ہے جس میں گر کر انسان ذلت و
رسوائی کی گہرائی میں چلا جاتا ہے ۔یہی وجہ ۔۔۔۔بلکہ عربی کا ایک مشہور مقولہ ہے ۔
الدین کلہ ادب ، دین سارے کا سارا ادب ہے ۔
الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ :
کردم از عقل سوالے کہ بگو ایمان
چیست
عقل در گوش دلم گفت کہ ایمان
ادب است
میں نے عقل سے پوچھا کہ بتا ایمان کیا ہے ؟ عقل نے میرے دل
کے کان میں کہا ایمان ادب کا نام ہے۔(فتاویٰ رضویہ ،23/393)
معلوم ہوا ادب کرنا حضور کی تعلیم ہے۔ پس جس نے حضور کی ہی
تعلیمات کو اپنا لیا وہ با نصیب ہوا ورنہ بد نصیب۔
(1) الله پاک کی بارگاہ میں حاضر ہونے کا ایک ادب یہ بھی ہے کہ
جب خدائے قہار و جبّار کا ذکر ہو تو دل ڈرنے لگے۔ اللہ پاک نے فرمایا :الَّذِیْنَ اِذَا
ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ الصّٰبِرِیْنَ عَلٰى مَاۤ اَصَابَهُمْ
وَ الْمُقِیْمِی الصَّلٰوةِۙ-وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ(۳۵) ترجمۂ کنزالایمان: کہ جب
اللہ کا ذکر ہوتا ہے ان کے دل ڈرنے لگتے ہیں اور جو افتاد پڑے اس کے سہنے والے اور
نماز برپا(قائم) رکھنے والے اور ہمارے دئیے سے خرچ کرتے ہیں۔(پ17، الحج:35 )
(2) ایک ادب یہ بھی ہے کہ اچھے اعمال کرتا رہے اور اس کے ساتھ
کسی کو شریک نہ کرے۔ قُلْ
اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ یُوْحٰۤى اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ
وَّاحِدٌۚ-فَمَنْ كَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّهٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا
وَّ لَا یُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖۤ اَحَدًا۠(۱۱۰)ترجمۂ کنزالایمان: تم فرماؤ ظاہر صورت بشری میں تو میں تم جیسا ہوں مجھے وحی
آتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے تو جسے اپنے رب سے ملنے کی امید ہو اُسے
چاہئے کہ نیک کام کرے اور اپنے رب کی بندگی میں کسی کو شریک نہ کرے ۔(پ16،الکھف:
110)
(3) ایک ادب یہ بھی ہے کہ خوب اعمال کرنے با وجود جب اللہ کا
ذکر ہو تو روئے اور گڑگڑائے۔ فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ٘-وَ وَهَبْنَا لَهٗ یَحْیٰى وَ
اَصْلَحْنَا لَهٗ زَوْجَهٗؕ-اِنَّهُمْ كَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ
یَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَهَبًاؕ-وَ كَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ(۹۰) ترجمۂ کنزالایمان: تو ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اُسے یحیی عطا فرمایا اور
اس کے لیے اس کی بی بی سنواری بےشک وہ بھلے کاموں میں جلدی کرتے تھے اور ہمیں
پکارتے تھے امید اور خوف سے اور ہمارے حضور گڑگڑاتے ہیں ۔(پ17،الانبیآ: 90 )
(4) ایک ادب یہ ہے کہ جب بھی مسجد میں جائے تو اچھے کپڑے اور جو
بھی زینت شرعاً جائز ہے وہ کرے۔ یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ
خُذُوْا زِیْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَّ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا
تُسْرِفُوْا ۚ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ۠(۳۱) ترجمۂ کنزالایمان: اے آدم کی اولاد اپنی زینت لو
جب مسجد میں جاؤ اور کھاؤ اور پیؤ اور حد سے نہ بڑھو بے شک حد سے بڑھنے والے اسے پسند
نہیں۔ (پ8، الاعراف :31 )
اللہ پاک ہمیں بے ادبی اور بے ادبوں سے بچائے ۔ آمین بجاہ
النبی الامين صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
یا الہی
دکھا ہم کو وہ دن بھی تو
آبِ زم زم
سے کرکے حر م میں وضو
باادب شوق
سے بیٹھ کے چار سو
مل کے ہم
سب کہیں یک زباں ہو بہو
اللہ اللہ ھو اللہ
آداب ادب کی جمع ہے جس کا معنی ہے تہذیب و
شائستگی اور آداب کا ایک معنی ۔ مرتبے کا لحاظ ، بھی آتا ہے، ترقی و عروج کا دار
مدار اداب پر ہے جس نے ادب کیا اس نے مقام پایا جو بے ادب تھا، آج اس کا نام و
نشان تک نہیں ہے اگر ہے بھی تو بطورِ عبرت، حضرت مجدد الف ثانی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اللہ عزوجل کے نام پاک کا ادب کرنے سے مجھے وہ
مقام حاصل ہوا جو سال کی عبادت و ریاضت سے بھی حاصل نہ ہوسکتا تھا۔آج دنیاداروں کے
عارضی درباروں نے بھی کچھ اصول و ضوابط ہوتے ہیں جو ان کی پیروی نہیں کرتا بلکہ بے
ادب جانا جاتا ہے، اسی طر ح بارگاہ الہی کے بھی آداب ہیں ایک شخص خشوع و خضوع سے
نماز ادا کرتا ہےجب کہ دوسرا لاپرواہی میں صرف فرض پورا کرتا ہے دونوں میں بہت فرق
ہے۔
بارگاہِ الہی کےآداب کثیر ہیں ان میں سے
شعائرہ کا ادب ، عبادا ت کے آداب وغیرہ شامل ہیں۔ آئیے اب ہم بارگاہِ الہی کے آداب
کے ضمن میں چند آیا ت کریمہ پڑھتے ہیں:
(1) قرآن میں غور و فکر کرنا :بارگاہِ الہی کے آداب میں سے پہلا ادب اس کے کلام مجید
قرآن کریم میں غور وفکر کرنا ہے۔رب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَؕ- ترجمہ کنزالایمان: تو کیا غور نہیں کر تے
قرآن میں ۔(پ5،النساء:85)اس آیتِ کریمہ میں قرآن کریم میں غور وفکر نہ کرنے پر
تنبیہ فرمائی جارہی ہے معلوم ہوا کہ بارگاہِ الہی کا ادب ہے کہ اس کے کلام میں غور
و فکر کیا جائے۔
(2) نماز میں خشوع و خضوع:بارگاہِ
الہی کے آداب میں یہ بھی ہے کہ افضل عبارت نماز کو خشوع و خضوع سے ادا کیا جائے رب
کریم ارشاد فرماتا ہے: الَّذِیْنَ هُمْ
فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲) ترجمہ
کنزالایمان: جو اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں۔(پ18،المؤمنون:2)شیخ الحدیث والتفسیر
مفتی محمد قاسم عطاری سلمہ الباری فرماتے ہیں: اس آیت میں ارشاد فرمایا: ایمان
والے خشوع و خضوع سے نماز ادا کرتے ہیں اس وقت ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ
کا خوف ہوتا ہے ان کے اعضا ساکن ہوتے ہیں۔
معلوم ہوا کہ ایمان والے بارگاہِ الہی کے ادب
کا لحاظ کرتے ہوئے اپنی نمازوں کو خشوع و خضوع سے زینت بخشتے ہیں۔
(3) حج و عمرہ رضائے الہی کے لیے کرنا:حج بیت اللہ اور عمرہ کرنا یقیناً بہت بڑی سعادت کی بات
ہے اللہ پاک
ہر مسلمان کو یہ سعادتیں زندگی میں بار بار نصیب فرمائے لیکن حج و عمرہ کرنا مقبول
اسی وقت ہوگا جب یہ کام بارگاہِ الہی کے ادب کا لحاظ کرتے ہوئے رضائے الہی کے لیے
کیے جائیں ، اس کی طرف ترغیب دیتے ہوئے اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ اَتِمُّوا الْحَجَّ وَ الْعُمْرَةَ لِلّٰهِؕ- ترجمہ کنزالایمان :اور حج و عمرہ اللہ کے
لیے پورا کرو۔(پ2،البقرۃ:196)شیخ الحدیث والتفسیر مفتی محمد قاسم عطاری سلمہ
الباری فرماتے ہیں، آیت سے مراد یہ ہے کہ حج و عمرہ دونوں کو اس کے فرائض و شرائط
کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ
کے لیے بغیر سستی اور کوتاہی کے مکمل کرو۔(صراط الجنان،1/313)
اس سے معلوم ہوا کہ اس بارگاہ پاک بے نیاز کا
ادب یہی ہے کہ اس کے پاک گھر کی زیارت بھی کی جائے تو صرف مقصود اسی کی ذات ہو
لوگوں کو دکھانے اپنے آپ کو حاجی کہلوانے کے لیے نہ ہو۔
محمد شبیر رضا عطّاری( درجۂ سابعہ مرکزی جامعۃُ المدینہ،
فیضانِ مدینہ فیصل آباد،پاکستان)
دینِ اسلام
میں دیگر کمالات کے ساتھ ساتھ ایک عظیم خوبی ”ادب“بھی ہے۔ اقوال ہوں یا افعال،
شخصیات ہوں یا معاملات ہر چیز کے جداگانہ آداب اسلام نے ذکر فرمائےہیں، پھر جو چیز
جس قدر بلند مرتبہ ہے اُسی قدر اس کے آداب اعلی ہیں، چونکہ اللہ پاک
ہر چیز کا خالق اور ہر شے سے برتر ہے لہٰذا اس کے آداب بھی سب سے بلند مرتبہ ہیں۔
خود قراٰن پاک میں ارشادِ ربانی ہے: ﴿وَ قُوْمُوْا
لِلّٰهِ قٰنِتِیْنَ(۲۳۸) ﴾ترجمۂ
کنز العرفان: اور اللہ کے حضور ادب سے کھڑے ہوا کرو۔ (پ2،البقرۃ:
238) قراٰنِ پاک میں بارگاہِ الٰہی کے ذکرکردہ آداب میں سے چند آداب ذکر کئے جاتے
ہیں:
(1)شرک
نہ کرنا:شرک اللہ پاک کو سب سے
زیادہ ناپسند ہے، قراٰنِ پاک میں بے شمار مقامات پر شرک کی مذمت آئی ہے اور
بالخصوص وہ مقامات کہ جہاں اُس کی جناب میں حاضر ہوا جاتا ہے یعنی مساجد، انہیں اس امرِ قبیح سے پاک کرنے کا حکم
ارشاد ہوا چنانچہ فرمایا گیا:﴿ وَّ اَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلّٰهِ فَلَا
تَدْعُوْا مَعَ اللّٰهِ اَحَدًاۙ(۱۸) ﴾ ترجمۂ
کنزُ العرفان:اور یہ کہ مسجدیں اللہ ہی کی ہیں تو اللہ کے ساتھ کسی کی
عبادت نہ کرو۔ (پ29،الجن:18)
(2)طہارتِ جسمانی کا التزام کرنا:اللہ پاک
کی بلند و بالا بارگاہ میں جس طرح دلوں کی پاکی لازم ہے عین اسی طرح ظاہری پاکی
بھی ضروری ہے چنانچہ ارشادِ ربُّ العِباد ہے:ترجمۂ کنز العرفان:اور نہ ناپاکی حالت
میں (نماز کے قریب جاؤ) حتی کہ تم غسل کرلو۔ (پ5، النسآء:43) مزید نماز کے لئے
سورۃ ُالمائدہ کی آیت نمبر 6 اور قراٰنِ پاک چھونے کے لئے سورۃُ الواقعہ کی آیت
نمبر 79 میں وضو کو لازم فرمایا۔
(3)ریاکاری سے بچنا:قراٰنِ پاک میں منافقین
کی ایک علامت مذکور ہوئی:﴿ یُرَآءُوْنَ
النَّاسَ﴾ ترجَمۂ کنزُ العرفان:
لوگوں کے سامنےریاکاری کرتے۔(پ5،النسآء: 142) تو ریاکاری سے بچتے ہوئے اخلاص کے
ساتھ اعمال بجالانا مؤمنین کی صفتِ محمودہ اور بارگاہِ الٰہی کے آداب میں سے ہے
چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ اَقِمِ
الصَّلٰوةَ لِذِكْرِیْ(۱۴)﴾ ترجمۂ
کنز الایمان:اور میری یاد کے لیے نماز قائم رکھ۔ (پ16،طٰہٰ:14)
(4)وقت کی پابندی کرنا:دنیا میں عام طور پر
اگر کسی کی ایسے شخص سے ملاقات ہو جو کسی دنیوی منصب پر فائز ہو تو وہ قبل از وقت
ہی مقررہ مقام پر پہنچ جاتا ہے۔ تو پھر وہ جس کے لئے تمام تعریفیں ہیں اور جو تمام
چیزوں کا خالق ہے وہ اس کے زیادہ لائق ہے کہ اس کی بارگاہ میں بروقت حاضر ہوا جائے،
چنانچہ اللہ پاک
کا فرمان ہے:﴿ اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ
كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا(۱۰۳)﴾ ترجمۂ
کنز العرفان:بیشک نماز مسلمانوں پر مقررہ وقت میں فرض ہے۔ (پ5، النسآء:103) اللہ پاک
ہم سب کو تمام عبادات مقررہ وقت پر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے بالخصوص پانچ
نمازیں باجماعت مسجد میں تکبیرِ اولیٰ کے ساتھ پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین
(5)خشوعِ
قلب کا ہونا:بارگاہِ الہی کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ بندہ صرف اللہ تبارک و
تعالیٰ ہی کی طرف متوجہ ہو اور اِسی کو قراٰنِ پاک نے کامیاب مؤمنین کی علامات میں
بیان فرمایا: چنانچہ ارشادِ باری تعالی ہے:﴿ قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱)الَّذِیْنَ
هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)
﴾ ترجمۂ کنز العرفان:بیشک ایمان والے کامیاب ہوگئے
جواپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں۔(پ18،المؤمنون:1، 2)
اللہ تبارک
و تعالیٰ ہمیں ان آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی پاک بارگاہ میں حاضر ہونے کی
توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم