محمد شبیر رضا عطّاری( درجۂ سابعہ مرکزی جامعۃُ المدینہ،
فیضانِ مدینہ فیصل آباد،پاکستان)
دینِ اسلام
میں دیگر کمالات کے ساتھ ساتھ ایک عظیم خوبی ”ادب“بھی ہے۔ اقوال ہوں یا افعال،
شخصیات ہوں یا معاملات ہر چیز کے جداگانہ آداب اسلام نے ذکر فرمائےہیں، پھر جو چیز
جس قدر بلند مرتبہ ہے اُسی قدر اس کے آداب اعلی ہیں، چونکہ اللہ پاک
ہر چیز کا خالق اور ہر شے سے برتر ہے لہٰذا اس کے آداب بھی سب سے بلند مرتبہ ہیں۔
خود قراٰن پاک میں ارشادِ ربانی ہے: ﴿وَ قُوْمُوْا
لِلّٰهِ قٰنِتِیْنَ(۲۳۸) ﴾ترجمۂ
کنز العرفان: اور اللہ کے حضور ادب سے کھڑے ہوا کرو۔ (پ2،البقرۃ:
238) قراٰنِ پاک میں بارگاہِ الٰہی کے ذکرکردہ آداب میں سے چند آداب ذکر کئے جاتے
ہیں:
(1)شرک
نہ کرنا:شرک اللہ پاک کو سب سے
زیادہ ناپسند ہے، قراٰنِ پاک میں بے شمار مقامات پر شرک کی مذمت آئی ہے اور
بالخصوص وہ مقامات کہ جہاں اُس کی جناب میں حاضر ہوا جاتا ہے یعنی مساجد، انہیں اس امرِ قبیح سے پاک کرنے کا حکم
ارشاد ہوا چنانچہ فرمایا گیا:﴿ وَّ اَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلّٰهِ فَلَا
تَدْعُوْا مَعَ اللّٰهِ اَحَدًاۙ(۱۸) ﴾ ترجمۂ
کنزُ العرفان:اور یہ کہ مسجدیں اللہ ہی کی ہیں تو اللہ کے ساتھ کسی کی
عبادت نہ کرو۔ (پ29،الجن:18)
(2)طہارتِ جسمانی کا التزام کرنا:اللہ پاک
کی بلند و بالا بارگاہ میں جس طرح دلوں کی پاکی لازم ہے عین اسی طرح ظاہری پاکی
بھی ضروری ہے چنانچہ ارشادِ ربُّ العِباد ہے:ترجمۂ کنز العرفان:اور نہ ناپاکی حالت
میں (نماز کے قریب جاؤ) حتی کہ تم غسل کرلو۔ (پ5، النسآء:43) مزید نماز کے لئے
سورۃ ُالمائدہ کی آیت نمبر 6 اور قراٰنِ پاک چھونے کے لئے سورۃُ الواقعہ کی آیت
نمبر 79 میں وضو کو لازم فرمایا۔
(3)ریاکاری سے بچنا:قراٰنِ پاک میں منافقین
کی ایک علامت مذکور ہوئی:﴿ یُرَآءُوْنَ
النَّاسَ﴾ ترجَمۂ کنزُ العرفان:
لوگوں کے سامنےریاکاری کرتے۔(پ5،النسآء: 142) تو ریاکاری سے بچتے ہوئے اخلاص کے
ساتھ اعمال بجالانا مؤمنین کی صفتِ محمودہ اور بارگاہِ الٰہی کے آداب میں سے ہے
چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ اَقِمِ
الصَّلٰوةَ لِذِكْرِیْ(۱۴)﴾ ترجمۂ
کنز الایمان:اور میری یاد کے لیے نماز قائم رکھ۔ (پ16،طٰہٰ:14)
(4)وقت کی پابندی کرنا:دنیا میں عام طور پر
اگر کسی کی ایسے شخص سے ملاقات ہو جو کسی دنیوی منصب پر فائز ہو تو وہ قبل از وقت
ہی مقررہ مقام پر پہنچ جاتا ہے۔ تو پھر وہ جس کے لئے تمام تعریفیں ہیں اور جو تمام
چیزوں کا خالق ہے وہ اس کے زیادہ لائق ہے کہ اس کی بارگاہ میں بروقت حاضر ہوا جائے،
چنانچہ اللہ پاک
کا فرمان ہے:﴿ اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ
كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا(۱۰۳)﴾ ترجمۂ
کنز العرفان:بیشک نماز مسلمانوں پر مقررہ وقت میں فرض ہے۔ (پ5، النسآء:103) اللہ پاک
ہم سب کو تمام عبادات مقررہ وقت پر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے بالخصوص پانچ
نمازیں باجماعت مسجد میں تکبیرِ اولیٰ کے ساتھ پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین
(5)خشوعِ
قلب کا ہونا:بارگاہِ الہی کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ بندہ صرف اللہ تبارک و
تعالیٰ ہی کی طرف متوجہ ہو اور اِسی کو قراٰنِ پاک نے کامیاب مؤمنین کی علامات میں
بیان فرمایا: چنانچہ ارشادِ باری تعالی ہے:﴿ قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱)الَّذِیْنَ
هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)
﴾ ترجمۂ کنز العرفان:بیشک ایمان والے کامیاب ہوگئے
جواپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں۔(پ18،المؤمنون:1، 2)
اللہ تبارک
و تعالیٰ ہمیں ان آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی پاک بارگاہ میں حاضر ہونے کی
توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم