استاد اور شاگرد کے درمیان بہت گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اگر ہم اسلامی نظام کے اغراض و مقاصد پر نظر کریں تو ان میں سے تعمیر کردار ایک نمایاں مقصد ہے۔ اور کردار کی تعمیر استاد جیسی شخصیت ہی سرانجام دیتی ہے۔ آیئے قرآن وسنت روشن اور بزرگان دین کے طرز عمل سے شاگرد کے حقوق جاننے کی کوشش کرتے ہیں:

1۔ طلبہ پر شفقت: استاد کو طلبہ پر شفقت اور محبت والا رویہ رکھنا چاہیے ایک استاد بہت شفیق اور مہربان ہوتا ہے بلکہ استاد مصائب اور مشکلات کا سہارا بنتا ہے۔ امام یوسف رحمۃُ اللہِ علیہ کے لیے امام اعظم رحمۃُ اللہِ علیہ نے ان کے گھریلو مسائل کی وجہ سے ان کے لیے وظیفہ مقرر فرمایا ۔

2۔ طلبہ کے درمیان مساوات: اساتذہ کی نگاہ میں تمام طلبہ یکساں ہونے چاہیں اور امیر غریب طلبہ میں فرق نہیں کرنا چاہیے ۔ بنو عباس کے خلیفہ ہارون الرشید کے بیٹوں کو اما م مالک نے عام بچوں کے پاس بیٹھ کر پڑھنے کا حکم دیا جبکہ خلیفہ نے ان کو گھر میں اگر تعلیم دینے کی گزارش کی لیکن امام مالک نے رد کر دی ۔

3۔ استاد کا وسیع مطالعہ ہونا:استاد کو اپنے مضمون پر وسیع مطالعہ اور مکمل عبور حاصل ہونا چاہے ۔ حضرت عبداللہ بن جبیر رضی اللہُ عنہ کے نزدیک عالم وہ ہوتا ہے جو طالب علم بھی ہو۔

4۔با کردار استاد: استاد کو بلند کردار والا ہونا چاہئے۔ قرآن حکیم میں اللہ فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ(۲) ترجمۂ کنزالایمان : اے ایمان والو کیوں کہتے ہو وہ جو نہیں کرتے ۔ (پ 28، الصف:2)

5۔ طالب علم سے دلی تعلق: ایک استاد اپنے طالب علم کو بہت یاد رکھتا ہے۔ ایک مرتبہ ضحاد بن ابی سلیمان کوئی طویل سفر کر کے آئے۔ بیٹے نے واپسی پر پوچھا آپ نے سفر پر کسے یا د رکھا ؟ فرمایا ! اپنے شاگر د نعمان (امام اعظم رحمۃُ اللہِ علیہ) کو ۔الله پاک ہمیں علم نافع عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


استاد و شاگرد کسی بھی قوم کی تعمیر و ترقی کے لئے نہایت اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ استاد جس قدر محنتی اور مخلص ہو نگے اسی قدر قوم کو فابل ، ہونہار، مستقل مزاج اور وطن سے محبت۔ کرنے والے افراد مہیا ہونگے ۔کہتے ہیں کہ استاد در اصل قوم کے محافظ ہیں کیونکہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا انہیں کے سپرد ہے اخلاقی تمدنی اخروی نیکیوں کی چابی اور شاگرد کی ترقی، استاد کی محنت سے وابستہ ہے اپنی اہم ذمہ داریوں کی وجہ سے استاد پر شاگرد کے بعض حقوق عائد ہوتے ہیں ان میں سے بعض پڑھیے اور علم و عمل میں اضافہ کیجئے۔

1۔ محبت و شفقت کرنا :استاذ پر شاگرد کا ایک حق یہ بھی ہے کہ وہ شاگرد کے ساتھ محبت اور شفقت بھرے انداز سے پیش آئے جیسا کہ امام غزالی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: استان شا گردوں پر شفقت کرے اور انہیں اپنا بیٹوں جیسا سمجھے ۔ (احیاء العلوم مترجم ،ج 3، ص 90 ،1 مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)

2۔آسان انداز میں سمجھانا : استاد کو چاہیے کہ شاگرد کو سبق یا کوئی کام سمجھانا ہو تو بالکل آسان انداز میں سمجھائے تاکہ وہ اس سے جلد ہی عملی زندگی میں بروئے کار لا سکے۔

3۔ صلاحیتوں کو ابھارنا :استاد شاگرد کی صلاحیتوں کو ابھارے اور اس کے اندر نئی مہارتیں ۔ (Skills) پیدا کرے تاکہ قوم کو ماہر قابل اور ہو نہار فرد مہیا ہو سکیں۔

4۔ حسین اخلاق کا پیکر بنانا:استاد کو چاہیے کہ شاگرد میں بد اخلاقی کی جڑوں کو اکھاڑ کر اس کو حسین اخلاق کا پیکر بنائے تاکہ ایک باکردار معاشرہ تشکیل پا سکے۔

5۔ باطن کو پاکیزہ کرنا: استاد شاگرد کے ظاہر کو پاکیزہ کرنے کے ساتھ ساتھ باطن کو حسد، ریا کاری ، بغض وکینہ ، شما تت وغیرہ افعا ل رذیلہ سے پاک کرے کیونکہ آقا علیہ السّلام نے ارشاد فرمایا: دین کی بنیاد پا کی ہے (جمع الجوامع،4/ 115، حدیث:10624)

6۔بیمار ہونے پر عیادت : اگر کوئی شاگرد بیمار ہو جائے تو سنت کے مطابق عیادت کر کے بیمار کی عیادت کرنے کا ثواب لوٹیے۔

7۔غم خواری کرنا ہے: اگر کسی شاگرد کے ساتھ کوئی سانحہ پیش آجائے مثلاً اس کے حقیقی والد یا کسی کی وفات ہو جائے تو حقوق مسلم کا لحاظ کرتے ہوئے تعزیت کیجئے اور ثواب دارین حاصل کیجئے۔

8۔ فکر آخرت : فکر آخرت سے غفلت باعث ہلاکت ہے لہذا استاد گا ہے بگا ہے شاگرد کو فکر آخرت کی بھی ترغیب دلا تا ر ہے اور انہیں اپنے ہر ہر فعل کا محاسبہ کرنےکا ذہین دیتا رہے ۔

9۔ تربیت کرنا : استاد اور شاگرد کا رشتہ انتہائی مقدس ہوتا ہے لہذا استاد کو چاہیے کہ اپنے شاگرد کی بہترین تربیت کرنے کے ساتھ ساتھ اپنا معیار بلند کرنے کی تجاویز دیتا ر ہے۔

استاد اپنے شاگرد کے لئے کامیابی اور استقامت کی دعا کر کے دوسرے مسلمان کے حق میں دعا کرنے کا ثواب حاصل کرے۔الله پاک ہمیں شاگردوں کے حقوق ادا کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ امین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 


اس بات میں کوئی شک نہیں کہ استاد کا ادب اور اطاعت ہی شاگرد کو دنیا و آخرت کامیاب ہونے کا ذریعہ ہے۔ مگر استاد پربھی کچھ ذمہ داریاں ہیں جن کی وجہ سے طالب علم کامیابی کے مراحل طے کر پائےگا اور وہی شاگرد کے حقوق کہلاتے ہیں کہ جب تک کسی چیز کا حق ادا نہ کیا جائے تو پھر اس سے اچھے نتائج کی توقع رکھنا حماقت ہے ، اچھا استا د ہی قوم کا بہتر ین تربیت کرتا ہے : آئے شاگرد کے چند ملاحظہ کرتے ہیں۔

(1) بغیر تیاری کے نہ پڑھانا :استاد کو چاہیے کہ کبھی بھی طلبہ کو بغیر تیاری کے سبق نہ پڑھائے کہ نئے مطالعے سے نئی معلومات اور پیچیدہ نکات واضح ہوتے ہیں۔

(2)شفقت ، حوصلہ افزائی : شاکردوں پر حتی الامکان نرمی و شفقت سے ہی پیش آئے ۔

ہے فلاح و کامرانی نرمی و آسانی میں

ہر بنا کام بگڑ جاتا ہے نادانی میں

اور پھر وقتاً فوقتاً طلبہ کی حوصلہ افزائی بھی ہونی چاہیے کہ اس سے ان کو آگے بڑھنے کا ذہن ملتا اور ہمت آتی ہے وہ اپنے اہداف کو پورا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں ۔

(3) ہمیشہ سوال کا دروازہ کھلا رکھنا :اسناد کو چاہیے کہ کبھی بھی طلبہ کو سوال کرنے سے نہ روکے کہ سوال آدھا علم ہے۔ اگر چہ بے جا سوال کلاس کا ماحول خراب کرتا ہے مگر حتی الامکان سوال کرنے کا موقع دیا جائے کہ اس سے علمی نکات ، باریکیاں نکالنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔

(4) کند ذہن طلبہ کا احساس :جس طرح ہاتھ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں اسی طرح کلاس میں تمام طلبہ کی ذہنی صلاحیت بھی ایک جیسی نہیں ہوتی۔ استاد کو چاہیے کہ کند ذہن طلبہ کو بھی ساتھ لے کر چلے کہ کہیں وہ احساس کمتری کا شکار نہ ہو جائیں ۔

(5) طلبہ کی اخلاقی تربیت: طلبہ ہماری قوم وملت کا سرمایہ ہیں کہ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی، استاذ کو چاہیے کہ طلبہ کی وقتاً فوقتاً تربیتی نشست قائم کرتا رہے۔


استاد اور شاگرد کا رشتہ انتہائی اہم اور مقدس ہوتا ہے استاد کے حقوق تو بے شمار ہیں جو کہ شاگرد کے لیے ضروری ہیں کہ وہ اپنے استاد کے حقوق ادا کرے البتہ یہاں شاگرد کے کچھ حقوق بیان کئے جا رہے ہیں لہذا استاد کو چاہیے کہ وہ اپنے لئے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرت اپنا کر اپنے شاگردوں کے حقوق ادا کرنے کے لئے کو شاں ہوں ۔

1۔عمل سے تربیت: استاد کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے شاگرد کو جس چیز کی تعلیم سے منور کر رہا ہے اس پر وہ خود بھی مکمل طور پر عمل پیرا ہو کیونکہ اگر استاد جس کام کے کرنے کا اپنے شاگردوں کو حکم دے رہا ہے مگر استاد خود ہی اس پر عمل نہیں کرتا تو پھر اس کے دیئے ہوئے حکم پر طالب علم کس طرح عمل کریں گے ؟ لہذا قول و فعل کا ایک جیسا ہونا نہایت ہی ضروری ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ سے: ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ(۲)﴾ ترجمۂ کنزالایمان : اے ایمان والو کیوں کہتے ہو وہ جو نہیں کرتے ۔(پ28، الصف:2)

2۔ نرمی کا پہلو اختیار کرنا :استاد کو چاہیے کہ وہ اپنے شاگردوں کے لیے نرمی اور شفقت کا پہلو اختیار کرے ۔ اگر شاگرد سے کوئی نا مناسب فعل سرزد ہو جائے تو استاد کو چاہیے کہ وہ اپنے شاگرد کی غلطی کو معاف کر دے اور بردباری اور وقار کے ساتھ پیش آئے۔ فرمان آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے :ليس منا من لم يرحم صغيرنا ولم يوقر کبیرنا یعنی وہ شخص ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر شفقت نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزت و تعظیم نہ کرے۔ ( جامع ترمذی شریف ، 1919)

3۔ شاگرد کے کردار وسیرت کو سنوارنا :استاد کو چاہیے کہ وہ تعلیم کے لیے توجہ سے کام دے اور شاگرد کی زندگی کو ایسی زندگی میں بدل ڈالے جیسی زندگی گزارنا ہمارے الله پاک اور آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو پسند ہے۔ جو استاد اس چیز کی اہمیت کو سمجھتا ہے اور پوری توجہ سے کام لیتا ہے وہ استاد قوم کی بڑی خدمت سر انجام دیتا ہے ( آداب استاد و شاگرد ، صفحہ: 35)

4۔ شاگرد کی حوصلہ افزائی کرنا :استاد کو چاہئے کہ اچھی تعلیمی کارکردگی اور درست جوابات دینے پر اپنے شاگردوں کی حوصلہ افزائی کرے اور ان کی ہمت بڑھائے۔ حکایت: ایک مرتبہ ہمارے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ابی بن کعب سے پوچھا کیا تجھے معلوم ہے کہ کتاب اللہ کی سب سے عظیم آیت کونسی ہے ؟ ابی بن کعب رضی الله عنہ نے جواب دیا : آیت الکرسی ۔ تو ہمارے پیارے نبی ﷺ نے خوش ہو کر ان کے سینے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا: یھنیك العلم ابا المنذر ۔ابو منذر تجھے علم مبارک ہو ۔( صحیح مسلم شریف : 810)

مذکورہ حکایت سے یہ بات سیکھنے کو ملی کہ استاد کو چاہئے کہ وہ ہر قدم پر اپنے شاگردوں کی حوصلہ افزائی کریں اس طرح شاکر دوں کو مزید علم سیکھنے کا جوش و جذبہ پیدا ہو گا ۔ اِن شآءَ اللہ

5۔سچ کی تعلیم اور جھوٹ سے نفرت سکھانے کی ترغیب : جس طرح انسان کو زندہ رہنے کے لیے غذا کے بغیر گزارہ کرنا مشکل ہے اس طرح استاد کا بھی سچائی کے بغیر گزارہ کرنا مشکل ہے اگر خدانخواستہ استاد جھوٹ کا سہارا لے گا تو سب سے بڑا نقصان تو یہ ہے کہ اللہ پاک اور اس کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ناراض ہوں گے ۔ اور دوسرا نقصان یہ ہے کہ شاگردوں کے دلوں میں استاد اور اس کے بیان کردہ یا تحریر کردہ مضمون کی اہمیت کم یا ختم ہی ہو جائے گی لہذا استاد کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ سچ بولے

الله عز و جل ہم سب کو علم نافع سیکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے " اساتذہ و شاگرد کے جملہ حقوق کو ادا کرنے کی مدنی سعادت نصیب۔ فرمائے (اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم )


استاذ اور طالب العلم کا رشتہ انتہائی مقدس ہوتا ہے۔ جس طرح شاگرد کے لیے ضروری ہے کہ استاد کے حقوق کو ادا کرے اسی طرح استاد کو چاہیے کہ اپنے طلبا کی بہتر تربیت کے لئے درج ذیل امور پیش نظر رکھے:

(1) طلبہ کو اپنی اولاد کی مثل جانے : استاد روحانی باپ کا درجہ رکھتا ہے لہذا! اسے چاہیے کہ طلبا پر اسی طرح شفقت کرے جس طرح کوئی باپ اپنی حقیقی اولاد پر کرتا ہے۔

(2) ان کی ناکامی پر رنجیدہ: اگر کوئی طالب العلم سبق سنانے میں یا امتحان وغیرہ میں ناکامی سے دو چار ہو تو اس کی ناکامی پر رنجیدہ ہو اور اس کی ڈھارس بندھائے اور اسے ناکامی سے پیچھا چھڑانے کے لئے مفید مشورے دے ۔

(3) کامیابی پر اظہار مسرت: اگر کسی طالبُ العلم کو کوئی کامیابی نصیب ہو تو اس کی حوصلہ افزائی کرے بلکہ ممکن ہو تو کوئی تحفہ بھی دے اور اس کی مزید کامیابیوں کے حصول کے لئے دعا کرے۔

(4) بیمار ہونے پر عیادت: اگر کوئی طالبُ العلم ( بالخصوص مقیم طالبُ العلم ) بیمار ہو جائے تو سنت کے مطابق اس کی عیادت کرے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے روایت ہے کہ سرورِ کونین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو مسلمان کسی مسلمان کی عیادت کے لیے صبح کو جائے تو شام تک اس کے لیے ستر ہزار فرشتے استغفار کرتے ہیں اور شام کو جائے تو صبح تک ستر ہزار فرشتے استغفار کرتے ہیں اور اس کے لیے جنت میں ایک باغ ہوگا ۔ (سنن الترمذی،2/290، حدیث :1971)

(5) طلبہ کی غم خواری: اگر کسی طالبُ العلم کے ساتھ کوئی سانحہ پیش آجائے تو اس کی غم خواری کرے اور حدیثِ پاک میں حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو کسی غم زدہ شخص سے تعزیت (یعنی اس کی غم خواری) کرے گا اللہ پاک اسے تقوی کا لباس پہنائے گا اور روحوں کے درمیان اس کی روح پر رحمت فرمائے گا اور جو کسی مصیبت زدہ سے تعزیت کرے گا۔ اللہ پاک اسے جنت کے جوڑوں میں سے دو ایسے جوڑے پہنائے گا جن کی قیمت دنیا بھی نہیں ہو سکتی ۔ (معجم الاوسط، ج4/429، حدیث: 9392)

(6) طلبہ کے مسائل کے حل میں معاونت: اگر کسی طالبُ العلم کو کوئی پریشانی لاحق ہو مثلاً اس کے پاس کتابیں خریدنے کے لئے رقم نہ ہو تو اسے کتابیں دلوانے میں حتی المقدور اپنا کردار ادا کرے۔ اسی طرح اگر کسی طالبُ العلم کی سماعت یا بصارت کمزور ہے تو اسے اگلی نشستوں پر بٹھا لے۔

(7) تشویق علم : استاد کو چاہیے کہ وقتاً فوقتاً طالبُ العلم کے شوقِ علم کو ابھارتا رہے تا کہ اس کا جذبہ حصول علم سرد نہ پڑ جائے ۔ اس سلسلے میں درجہ میں علم کے فضائل اور اسلاف کے واقعات سنانا بے حد مفید ہے۔

(8) استقامت کی ترغیب: عموماً دیکھا گیا ہے کہ حصولِ علم دین کے لئے آنے والے طلبا کی بہت بڑی تعداد استقامت سے محروم رہتی ہے ۔اس لئے استاد کو چاہیے کہ اپنے (بالخصوص ابتدائی درجے کے ) طلبا کو استقامت کے فوائد، عدمِ استقامت کے نقصانات ، استقامت کی راہ میں حائل ہونے والی رکاوٹوں کا بیان کرے اور انہیں دور کرنے کا طریقہ بتائے اور طلبا کو استقامت کے ساتھ حصولِ علم کی ترغیب دے۔

(9) فکر آخرت: فکرِ آخرت سے غفلت باعث ہلاکت ہے لہذا استاد گاہے بگاہے طلبا کو فکر آخرت کی بھی ترغیب دلاتا رہے اور انہیں اپنے ہر ہر فعل کا محاسبہ کرنے کا ذہن دے ۔ اس سلسلے میں امیر اہل سنت مدظلہ العالی کے رسالہ میں سدھرنا چاہتا ہوں اور مجلس المدینۃ العلمیہ کی کتاب "فکر مدینہ مع 41 حکایات عطاریہ " کامطالعہ بے حد مفید ہے۔

(10) اندازِ تخاطب: استاد کو چاہئے کہ طلبا کو مخاطب کرتے وقت تو تڑاق سے بچے بلکہ احترامِ مسلم کو ملحوظِ خاطر رکھے اور انہیں پیار بھرے لہجے میں آپ جناب سے مخاطب کرنے کی کوشش کرے۔ ابے تُبے اور حاکمانہ انداز سے مخاطب کرنے پر ہو سکتا ہے کہ طلبا آپ کے سامنے دبک کر کھڑے تو ہو جائیں لیکن ان کے دلوں میں آپ کے لئے وہ عزت قائم نہ رہے جو ایک استاد کے لئے ہونی چاہیے ۔

اللہ پاک سے دعا ہے ہمیں حقوقُ العباد کو بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


ایک شاگرد اور استاد کے درمیان بہت پیارا رشتہ ہوتا ہے۔ ایک استاد تب تک اپنے علم کو دوسروں تک نہیں پہنچا سکتا جب تک اس کو ایک شاگرد میسر نہ ہو اور اسی طرح ایک شاگرد تب تک علم کی روشنی سے منور نہیں ہو سکتا جب تک اسے روشن چراغ کی مانند استاد نہ مل جائے ۔ ایک منفرد کامل اور محبوب استاد بننے کے لئے ایک استاد کو اپنے شاگرد کے ساتھ ایسا سلوک رکھنا چاہیے جیسے وہ اپنی عزیز اولاد کے ساتھ رکھتا ہے۔ ایک استاد کا دل تب تک مطمئن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے شاگرد کا محبوب نہ بن جائے اپنے شاگرد کے نزدیک  محبوب استاد بننے کے لیے شاگردوں کے حقوق کو اپنی نظر میں رکھا جائے۔ اسی مناسبت سے شاگردوں کے کچھ حقوق تحریر کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔

( 1) نرمی نوازش کا سلوک:استاد کو چاہیے کہ وہ اپنے شاگرد کے ساتھ نرمی و محبت بھرا سلوک رکھے شاگرد کی غلطی پر ڈانٹ ڈپٹ کی بجائے اسے نرم انداز میں سمجھائے۔ حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اس فرمان کو زیر نظر رکھتے ہوئے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا وَيَعْرِفْ شَرَفَ كَبِيرِنَا یعنی جو ہمارے چھوٹے پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑے کی عزّت نہ پہچانے وہ ہم میں سے نہیں ۔(ترمذی، 3/ 369، حدیث:1927)

(2) شاگرد پر حسن ظن: شاگرد کے حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ جہاں تک ہو سکے اس کے بارے میں اچھا گمان رکھا جائے اور بدگمانی سے پرہیز کیا جائے کہ اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ ترجَمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو! بَہُت گُمانوں سے بچو بیشک کوئی گُمان گناہ ہو جاتا ہے۔ (پ26، الحجرات : 12) یہاں پر بطور خاص بد گمانی سے بچنے کا حکم دیا گیا ۔چنانچہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :مسلمان پر بدگمانی خود حرام ہے جب تک ثبوتِ شرعی نہ ہو۔( فتاوی رضویہ،6 / 486)

(3) شاگرد کی تربیت کرنا: استاد کو چاہیے کہ جہاں تک ہو سکے اپنے شاگرد کی احسن انداز میں تربیت کرے بد اخلاقی اور خلاف مروت کاموں سے بچنے کی تلقین کرتا رہے اور اس میں بھی محبت کا عنصر غالب رکھے ۔

(4) شاگرد کی خیر خواہی:استاد کو چاہیے کہ جتنا ممکن ہو سکے شاگرد کے ساتھ خیر خواہی کا اہتمام کرتا رہے خواہ یہ خیر خواہی کرنا پڑھائی کے معاملات میں ہو یا کہ دنیاوی معاملات میں جیسا کہ امام محمد رحمۃُ اللہ علیہ کے بارے میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ اسد ابن فرات کا خرچہ ختم ہو گیا انہوں نے اس بات کا ذکر کسی سے بھی نہ کیا جب امام محمد رحمۃُ اللہ علیہ کو معلوم ہوا تو 80 دینار ان کے پاس بھجوائے۔

(5) شاگرد سے ذاتی خدمات لینے سے اجتناب: استاد کو چاہیے کہ جہاں تک ہو سکے اپنے شاگرد سے ذاتی خدمات لینے بچتا رہے اور اگر کسی مجبوری کے تحت شاگرد سے کوئی کام کروا بھی لے تو خفیہ و احسن انداز سے اس کی تلافی کر دے ۔

دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں ایک مثالی استاد اور فرمانبردار شاگرد بننے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے اُس علم پر اخلاص کے ساتھ عمل کرنے کی توفیق بخشے جو اس نے اپنی رحمت سے ہمیں عطا فرمایا اور ہر چیز کو اس کے حقوق کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق بخشے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اسلام ایک ایسا دین ہے جس میں ہر رشتہ دار ہر ملازم الغرض ہر انسان یہاں تک کہ کافر کے بھی حقوق بیان کیے گئے ہیں ان حقوق میں شاگرد کا بھی شمار ہوتا ہے آئیے جانتے ہیں کہ استاد پر شاگرد کے کیا کیا حقوق ہیں۔ جب انسان تعلیم دینے میں مشغول  ہو تو سمجھ لے کہ اس نے ایک اہم ذمہ داری اپنے سر پرلی ہے۔اس کے کچھ آداب و قواعد ہیں جن کو ہم ذکر کرتے ہیں۔

(1) پہلا ادب یہ ہے کہ شاگردوں پر شفقت کرے اور ان کو اپنے بیٹوں کے برابر سمجھے جیسا کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم صحابہ سے فرمایا کرتے تھے: میں تمہارے حق میں ایسا ہوں جیسے باپ اپنے بیٹے کے حق میں۔(ابو داؤد ،نسائی) مطلب یہ کہ استاد اپنے شاگرد کو آخرت کے عذاب سے اس طرح بچائیں جس طرح ماں باپ اپنے بچوں کو دنیا کی آگ سے بچاتے ہیں اور آخرت کی آگ سے بچانا دنیا کی آگ سے بچانے سے زیادہ اہم ہے اسی لئے استاد کا حق ماں باپ کے حق سے بڑھ کر ہے ۔

(2) دوسرا ادب یہ ہے کہ تعلیم کے سلسلے میں صاحبِ شریعت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اتباع کریں یعنی علم سکھانے میں کسی طرح کے بدلے کی خواہش نہ رکھے نہ شکر اور احسان شناسی کا خواہ ہوں بلکہ اسے خود اپنے شاگردوں کا احسان مند ہونا چاہیے اور کہ معلمی کا یہ منصب مجھے ان ہی کے طفیل سے ملا ۔اور یہ گمان کرے کہ اگر یہ شاگرد نہ ہوتے تو مجھے یہ معلمی کا منصب اور اتنا ثواب کہاں سے ملتا۔ اسی وجہ سے اللہ نے فرمایا: ﴿قُلْ لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا﴾ ترجمۂ کنزالایمان : تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اُجرَت نہیں مانگتا۔(پ25، شوریٰ:23)

(3) تیسرا ادب یہ ہے کہ شاگردوں کو نصیحت کرنے میں کوئی بھی کمی نہ برتے مثلاً اگر یہ چاہتا ہے کہ وہ بغیر علم سیکھے بہت بڑے منصب پر قائم ہوجائے تو انہیں سمجھائے کہ علم کو اللہ کی رضا کے لیے حاصل کرے نا کہ مال و دولت و شہرت کے لیے۔

(4)چوتھا ادب یہ ہے جو بہت اہم ہے کہ شاگرد کو برے اخلاق سے اشارتاً اور پیار سے منع کردے اس میں کبھی کوتاہی نہ کرے لیکن کھلے الفاظ میں ڈانٹ وغیرہ نہ کرے کہ صاف الفاظ میں کہنے سے اس کے عیب کھلے گیں۔

(5) پانچواں ادب یہ ہے کہ استاد اپنے علم کے مطابق عمل کرے۔ ایسا نہ ہو کہ کہے کچھ اور کرے کچھ۔ اس لیے کہ اگر استاد کے علم اور عمل میں تضاد ہو گا تو استاد سے ہدایت نہ ہو سکے گی۔ مثلاً جو شخص ایک چیز کو کھا رہا ہوں اور دوسروں کو زہر قاتل کہہ کر منع کر رہا ہوں تو لوگ اس کے حکم ماننے کے بجائے اس کا مذاق اڑائیں گے۔ اللہ نے فرمایا: ﴿اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَ تَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: کیا لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے ہو اور اپنی جانوں کو بھولتے ہو حالانکہ تم کتاب پڑھتے ہو تو کیا تمہیں عقل نہیں۔ (پ1،البقرۃ:44)

(6) جب استاد کو شاگرد کی کم عقلی کا علم ہوجائے تو اب اس سے وہ باتیں بتائے جو اسے سمجھ آ جائے اور اس کے لئے مناسب ہوں۔

(7) ساتواں ادب یہ ہے کہ استاد جو علم پڑھا رہا ہے تو دوسرے علم کی برائی نہ کرے مثلاً اگر وہ علم کلام پڑھا رہا ہے تو ہرگز یہ نا کہے فقہ ایک مستقل علم نہیں ہے بلکہ فرع ہے۔ یہ عادت بہت بری اس سے بچنا ضروری ہے۔ بلکہ اگر استاد ایک علم پر مامور ہے تو دوسرے علوم سیکھنے کے مواقع فراہم کرے۔

تمام اساتذہ ان پر عمل کی نیت فرمائیں انشاء اللہ اس کی برکت سے طلبا استاد سے محبت بھی کریں گے اور ایک اچھے اور ماہر اور قابل بن کر ابھریں گے۔

اللہ پاک ہمیں حقیقی طور اپنے منصب کو اس کے حقوق سے ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


تعلیم قوموں کی ترقی و تعمیر کا واحد ذریعہ ہے جس سے نہ صرف معاشرہ فلاح و بہبود کی راہ پر چل پڑتا ہے بلکہ اس قوم کے اخلاق اور سیرت و کردار میں بھی نمایاں فرق آتا ہے ۔ شاگرد اور استاد تعلیمی عمل کے دو اہم عنصر ہیں ایک معلم جہاں اپنے مخصوص مقام اور مرتبے کی وجہ سے انتہائی عظمت و فضیلت والا ہے۔ وہیں پر اپنے منصب کے مطابق اس پر ایسے حقوق بھی عائد ہوتے ہیں جن کی ادائیگی سے نہ صرف اسلامی فلسفۂ حیات کی ترویج و اشاعت ہو سکتی ہے بلکہ ایک مثالی معاشرہ بھی تخلیق پا سکتا ہے۔ایک شاگرد انفرادی و اجتماعی سطح پر اپنے مخصوص حقوق رکھتا ہے جن کی ادائیگی سے تدریسی عمل کو خوشگوار اور مؤثر بنایا جا سکتا ہے۔یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب اس کے حقوق کی ادائیگی مکمل طور پر ہو ۔ اسی مناسبت سے یہاں شاگرد کے 6 حقوق ذکر کئے جا رہے ہیں:

(1) شفقت و محبت :استاذ کو چاہئے کہ اپنے شاگردوں کے ساتھ نرمی و شفقت سے پیش آئے، اس سے نہ صرف تعلیم کے اسلامی آداب کی رعایت ہو تی ہے بلکہ تدریسی عمل کو بھی بہتر بنایا جا سکتا ہے،حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم معلمِ کائنات ہیں، ان کی مبارک سیرت سے بھی نرمی اور شفقت کا درس ملتا ہے، ان کی نرمی کے متعلق ارشادِ باری ہے: ﴿فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْۚ-﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: تو کیسی کچھ اللہ کی مہربانی ہے کہ اے محبوب تم ان کے لیے نرم دل ہوئے۔ (پ4،اٰل عمرٰن:159)

(2)برابر سلوک : جماعتی و گروہی تدریس کا چونکہ عام رواج ہے تو ایک شاگرد کا یہ بنیادی حق ہوتا ہے اس کے اور اس کے ہم جماعت طلبہ کے ساتھ یکساں برتاؤ رکھا جائے۔

(3)طلبہ کی حوصلہ افزائی: طلبہ کی صلاحیتوں کو فروغ دینے میں حوصلہ افزائی کا اہم کردار ہے، اس سے طلبہ میں خود اعتمادی پیدا ہوتی اور عمل کا جذبہ بھی فروغ پاتا ہے۔ حضور جانِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کئی مقامات پر صحابہ کی حوصلہ افزائی فرما کر تعلیمِ امت فرمائی۔

(4) دلچسپ طریقۂ تدریس: معلم کو چاہئے کہ طلبہ کو درس سمجھانے کے لئے مؤثر اور دلچسپ طریقے اپنائے، تدریسی امدادی اشیا (مثلاً سیاه و سفیدبورڈ وغیرہ) کا سہارا لے اور مزید وضاحت کے لئے مثالوں کا استعمال کرے۔

(5)سوالات کرنے کا حق:بعض شاگرد سیکھنے کے زیادہ شوقین ہوتے ہیں، ان کے ذہنوں میں سوالات کا پیدا ہونا فطری امر ہے، مزید جاننے کی جستجو اور اسباق سے متعلق شکوک و شبہات کو دور کرنے کے لئے طلبہ سوالات کرتے ہیں، ایسی صورت میں اساتذہ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نہایت خوش اسلوبی سے سوالات کے جوابات دیں اور اپنے شاگرد کو مطمئن کر دیں ۔

(6) فطری صلاحیتوں کو فروغ دینا: ہر فرد کچھ فطری خصائل اور خصوصیات لیکر پیدا ہوتا ہے، جن کی نشو و نما اس وقت ہوتی ہے جب اسے بہتر تعلیمی سرگرمیاں میسر ہوں ، کسی تعلیمی ادارے سے وابستہ ہونے کے بعد طالب علم کا یہ حق ہوتا ہے کہ استاد اس کی مخصوص فطری صلاحیتوں کی نشوونما میں بھی اہم کردار ادا کرے۔

اس کے علاوہ خوشگوار اور صاف تعلیمی ماحول فراہم کرنا، اور شاگرد کی انفرادیت کا خیال رکھنا بھی شاگرد کا حق ہے، اگر شاگردوں کے حقوق کے تحفظ کا منا سب انتظام کیا جائے تو آنے والا معاشرہ نہ صرف امن و سکون کا گہوارہ بن جائے گا بلکہ اسلامی ثقافت و تہذیب کا آئینہ دار بھی ہوگا۔

اللہ پاک ہمیں حقوق العباد کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم