ثاقب الحسن عطّاری (دورهٔ حدیث ،جامعۃُ المدینہ فیضان بغداد،
کورنگی ،کراچی)
تعلیم قوموں کی ترقی و تعمیر کا واحد ذریعہ ہے جس سے نہ صرف
معاشرہ فلاح و بہبود کی راہ پر چل پڑتا ہے بلکہ اس قوم کے اخلاق اور سیرت و کردار میں بھی نمایاں فرق آتا ہے ۔ شاگرد اور
استاد تعلیمی عمل کے دو اہم عنصر ہیں ایک معلم جہاں اپنے مخصوص مقام اور مرتبے کی وجہ سے انتہائی عظمت و فضیلت والا
ہے۔ وہیں پر اپنے منصب کے مطابق اس پر ایسے حقوق بھی عائد ہوتے ہیں جن کی ادائیگی
سے نہ صرف اسلامی فلسفۂ حیات کی ترویج و اشاعت ہو سکتی ہے بلکہ ایک مثالی معاشرہ
بھی تخلیق پا سکتا ہے۔ایک شاگرد انفرادی و اجتماعی سطح پر اپنے مخصوص حقوق رکھتا
ہے جن کی ادائیگی سے تدریسی عمل کو خوشگوار اور مؤثر بنایا جا سکتا ہے۔یہ اسی وقت
ہو سکتا ہے جب اس کے حقوق کی ادائیگی مکمل طور پر ہو ۔ اسی مناسبت سے یہاں شاگرد
کے 6 حقوق ذکر کئے جا رہے ہیں:
(1) شفقت و محبت :استاذ کو چاہئے کہ اپنے شاگردوں کے ساتھ نرمی و شفقت سے پیش
آئے، اس سے نہ صرف تعلیم کے اسلامی آداب کی رعایت ہو تی ہے
بلکہ تدریسی عمل کو بھی بہتر بنایا جا سکتا ہے،حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم معلمِ کائنات
ہیں، ان کی مبارک سیرت سے بھی نرمی اور شفقت کا درس ملتا
ہے، ان کی نرمی کے متعلق ارشادِ
باری ہے: ﴿فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ
لَهُمْۚ-﴾ ترجَمۂ
کنزُالایمان: تو کیسی کچھ اللہ کی مہربانی ہے کہ اے محبوب تم ان کے لیے نرم دل
ہوئے۔ (پ4،اٰل عمرٰن:159)
(2)برابر سلوک : جماعتی و گروہی تدریس کا چونکہ عام رواج ہے تو ایک شاگرد کا یہ بنیادی حق ہوتا
ہے اس کے اور اس کے ہم جماعت طلبہ کے ساتھ یکساں برتاؤ رکھا جائے۔
(3)طلبہ
کی حوصلہ افزائی: طلبہ کی صلاحیتوں کو فروغ دینے میں
حوصلہ افزائی کا اہم کردار ہے، اس سے طلبہ میں خود اعتمادی پیدا ہوتی اور
عمل کا جذبہ بھی فروغ پاتا ہے۔ حضور جانِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کئی مقامات پر صحابہ کی حوصلہ
افزائی فرما کر تعلیمِ امت فرمائی۔
(4) دلچسپ طریقۂ تدریس: معلم کو چاہئے کہ طلبہ کو درس سمجھانے کے لئے مؤثر اور دلچسپ
طریقے اپنائے، تدریسی امدادی اشیا (مثلاً سیاه و
سفیدبورڈ وغیرہ) کا سہارا لے اور مزید وضاحت کے لئے مثالوں کا استعمال کرے۔
(5)سوالات کرنے
کا حق:بعض شاگرد سیکھنے کے زیادہ شوقین
ہوتے ہیں، ان کے ذہنوں میں سوالات کا پیدا ہونا فطری امر ہے، مزید جاننے کی جستجو اور اسباق سے متعلق شکوک و
شبہات کو دور کرنے کے لئے طلبہ سوالات کرتے ہیں، ایسی
صورت میں اساتذہ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نہایت خوش اسلوبی سے سوالات کے
جوابات دیں اور اپنے شاگرد کو مطمئن کر دیں ۔
(6) فطری صلاحیتوں کو فروغ دینا: ہر فرد کچھ فطری خصائل اور خصوصیات لیکر پیدا ہوتا ہے، جن کی
نشو و نما اس وقت ہوتی ہے جب اسے بہتر تعلیمی سرگرمیاں میسر ہوں ، کسی تعلیمی
ادارے سے وابستہ ہونے کے بعد طالب علم کا یہ حق ہوتا ہے کہ استاد اس کی مخصوص فطری
صلاحیتوں کی نشوونما میں بھی اہم کردار ادا کرے۔
اس کے علاوہ خوشگوار اور صاف تعلیمی ماحول فراہم کرنا، اور شاگرد
کی انفرادیت کا خیال رکھنا بھی شاگرد کا حق ہے، اگر شاگردوں کے حقوق کے تحفظ کا منا سب انتظام کیا
جائے تو آنے والا معاشرہ نہ صرف امن و سکون کا گہوارہ بن جائے گا بلکہ اسلامی ثقافت
و تہذیب کا آئینہ دار بھی ہوگا۔
اللہ پاک ہمیں حقوق العباد کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن
بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم