انسان کے وجود اور
کمال میں 2 شخصیات کا کردار ہوتا ہے:(1)والدین:جو دنیا میں آنے کا سبب بنتے ہیں۔
(2)استاد:جو عالَم مادہ سے عالَمِ روحانیت کے ساتھ رابطہ مضبوط کرتے ہیں۔والدین
بولنا سکھاتے ہیں اور استاد کب بولنا،کہاں بولنا اور کیسے بولنا سکھاتے ہیں۔والدین
کے ساتھ ساتھ روحانی باپ(استاد)کا زیادہ کمال ہوتا ہے۔
حضرت امام زین العابدین نے استاد کے بہت سارے
حقوق بیان کئے ہیں جن میں 6 حقوق درج ذیل ہیں:
(1)اَلتَّعْظِیْمُ لَہُ:استاد کا احترام کرو۔
(2)وَلَا تُحَدِّثُ فِیْ مَجْلِسِہٖ اَحَدًا:دورانِ کلاس استاد کے سامنے
آپس میں بات نہ کرو۔
(3)وَاَنْ تَدْفَعُ عَنْہُ اِذَا ذُکِرَ عِنْدَکَ بِسُوْءٍ:اگر کوئی استاد کی
برائی کر رہا ہو تو اپنے استاد کا دفاع کرو۔
(4)وَاَنْ تَسْتُرْ عُیُوْبَہُ وَتُظْھِرْ مَنَاقِبَہُ:اپنے استاد کے عیب
چھپاؤ اور اپنے استاد کے اوصاف ظاہر کرو یعنی بیان کرو۔
(5)اَکْرِمِ الْاُسْتَاذَ وَلَوْ کَانَ فَاسِقًا:استاد کا احترام کرو چاہے وہ
فاسق ہی کیوں نہ ہو۔
(6)وَلَا تُجِیْبَ اَحَدًا یَسْئَلُہُ عَنْ شَیْئٍ حَتّٰی یَکُوْنَ
لَہُ ھُوَ الَّذِی یُجِیْبُ:استاد کی موجودگی میں
اگر کوئی شخص سوال کرے تو استاد محترم سے پہلے جواب نہ دو۔
آخر میں اللہ پاک سے
دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں اپنے اساتذہ کرام کے حقوق کو یاد رکھنے اور ان کو پورا
کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین
دنیا میں سب سے زیادہ پاکیزہ رشتہ استاد اور شاگرد کا ہے لیکن اس رشتے میں
ترقی اس وقت تک ترقی نہیں ہوسکتی جب تک استاد کے حقوق پورے نہ کئے جائیں۔استاد کا
دل علم کا سمندر ہوتا ہے اور وہ اپنا علم اپنے شاگرد کو دینے میں ذرہ بھر خیانت
نہیں کرتا۔
حق:کسی انسان کو وہ
چیز دینا جس کا وہ مستحق ہے حق کہلاتا ہے۔
شاگرد جب تک استاد کے حقوق پورے نہ کرے وہ علم تو شاید حاصل کرلے مگر فیضانِ
علم سے یقیناً محرومی ہوتی ہے۔استاد کے حقوق پورے کرنے کے لئے پہلے حقوق جاننا
ضروری ہیں۔لہٰذا استاد کے حقوق پیشِ خدمت ہیں۔اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے
ہیں:عالم کا جاہل پر اور استاد کا شاگرد پر ایک سا حق ہے اور وہ یہ ہے کہ اس سے
پہلے گفتگو شروع نہ کرے۔اس کی جگہ پر اس کی غیر موجودگی میں نہ بیٹھے۔چلتے وقت اس
سے آگے نہ بڑھے۔اگر وہ اندر ہو تو دروازہ نہ بجائے بلکہ اس کے باہر آنے کا انتظار
کرے۔اگرچہ اس سے ایک ہی حرف پڑھا ہو اس کے سامنے عاجزی کرے کا اظہار کرے۔اس کے حق
کو اپنے ماں باپ بلکہ تمام مسلمانوں کے حق پر مقدم رکھے۔ جس سے اس کے استاد کو
اذیت پہنچی وہ برکاتِ علم سے محروم رہے گا۔اپنے مال میں سے کسی چیز سے استاد کے حق
میں بخل سے کام نہ لے یعنی جو کچھ اسے درکار ہو بخوشی حاضر کردے۔اور اس کے قبول
کرلینے میں اس کا احسان اور اپنی سعادت سمجھے۔(کامیاب طالب علم کون؟ ص 54)
استاد کا ادب:استاد کا ادب و احترام
شاگرد پر لازم ہے بغیر ادب کے وہ اپنے استاد سے فیض یاب نہیں ہوسکتا۔استاد کے ادب
کی وجہ سے علم کی راہیں آسان ہوجاتی ہیں،ادب ہی وہ وصف ہے جس کی وجہ سے شاگرد اپنے
معلم کے نزدیک محترم بن جاتا ہے۔ادب کا وہ مقام ہے جس سے علم بھی لا علم ہے۔امام
احمد رحمۃ اللہ علیہ اپنے استاد کے ادب کی وجہ سے استاد کا نام نہ لیتے تھے بلکہ
کنیت سے پکارتے تھے۔ہمارے اسلاف کی زندگیاں اس بات کا نچوڑ ہیں کہ جس نے جو کچھ
پایا ادب و احترام کی وجہ سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے
کے سبب ہی کھویا۔
استاد کو اپنا روحانی باپ سمجھنا:استاد روحانی باپ کا درجہ رکھتا ہے لہٰذا طالبِ عالم کو چاہئے کہ وہ اسے اپنے
حق میں حقیقی باپ سے بڑھ کر شفیق ہوتا ہے کیونکہ والدین اسے دنیا کی آگ اور مصائب
سے بچاتے ہیں جبکہ اساتذہ اسے نازِ دوزخ اورمصائبِ آخرت سے بچاتے ہیں۔
بیمار ہونے پر عیادت:اگر استاد بیمار ہوجائے تو سنت کے مطابق اس کی عیادت کرے اور بیمار کی عیادت
کرنے کا ثواب لوٹے جیسا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے روایت ہے کہ رسول
اللہ ﷺ نے فرمایا:جو مسلمان کسی مسلمان کی عیادت کے لئے صبح کو جائے تو شام تک اس
کے لئے ستر ہزار فرشتے استغفار کرتے رہتے ہیں اور شام کو جائے تو صبح تک ستر ہزار
فرشتے استغفار کرتے رہتے ہیں اور اس کے لئے جنت میں ایک باغ ہوگا۔(ترمذی، 2/290،
حدیث: 971)
استاد کی غمخواری:اگر استاد
کے ساتھ کوئی سانحہ پیش آجائے مثلاً اس کے والدین یا کسی عزیز کی وفات ہوجائے یا
اس کا کوئی نقصان ہوگیا ہو تو اس کی غمخواری کرے اور حدیث ِ پاک میں بیان کردہ
ثواب حاصل کرے جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے
فرمایا:جو کسی غمزدہ سے تعزیت کرے اللہ پاک اسے تقویٰ کا لباس پہنائے گا اور روحوں
کے درمیان اس کی روح پر رحمت فرمائے گااور جو کسی مصیبت زدہ سے تعزیت کرے اللہ پاک
اسے جنت کے جوڑوں میں سے دو ایسے جوڑے پہنائے گا جس کی قیمت دنیا بھی نہیں
ہوسکتی۔(معجم اوسط، 6/429، حدیث: 9292)
سچ بولے:طالبِ علم کو
چاہئے کہ استاد کے سامنے بالخصوص اور دیگر مسلمانوں کے سامنے بالعموم سچ
بولے۔استاد سے جھوٹ بولنا باعثِ محرومی ہے۔استاد کے سامنے جھوٹ بولنے والے طالبِ
علم کے بارے میں اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ملاحظہ فرمائیے:سخن
پروری یعنی دانستہ باطل پر اصرار ومکابرہ ايک کبيرہ،کلمات علماء ميں کچھ الفاظ
اپنی طرف سے الحاق کر کے ان پر افترا دوسرا کبيرہ،علماء کرام اور خود اپنے اساتذہ
کو دھوکہ دینا خصوصاً امر دين ميں تیسرا کبيرہ،يہ سب خصلتيں یہود لَعَنَھُمُ اللہُ تَعَالٰی کی ہيں۔ وقال اللہ تعالی: ثُمَّ یُحَرِّفُوْنَهٗ مِنْۢ بَعْدِ مَا عَقَلُوْهُ وَ هُمْ
یَعْلَمُوْنَ(۷۵) (پ1، البقرۃ:75) پھر سمجھنے کے بعد اسے دانستہ بدل
دیتے ہیں۔ پس اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں استاد کے سامنے جھوٹ بولنے سے بچائے اور
استاد کے حقوق پورے کرنے کی توفیق دے کیونکہ استاد ہی وہ ہستی ہے جو شاگرد کو
جہالت کے اندھیروں سے نکال کر علم کی روشنی میں لاتا ہے۔ آج اگر آپ یہ عبارت پڑھنے
کے قابل ہیں تو اس میں بھی آپ کے استاد کا ہاتھ ہے۔
استاد روحانی باپ ہوتا ہے جیساکہ علامہ مناوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:جوشخص لوگوں
کو علم سکھائے وہ بہترین باپ ہے کیونکہ وہ بدن کا نہیں روح کا باپ ہے۔(والدین،زوجین
اور اساتذہ کے حقوق،ص91)اسی حوالے سے ایک مقام پرنبیِ اکرم ﷺ نے فرمایا:میں تمہارے
لیے باپ کی حیثیت رکھتا ہوں میں تمہیں علم سکھاتا ہوں۔(ابو داود، 1/37، حدیث: 8) استاد
کے حقوق والدین کے حقوق کی مثل ہیں بلکہ فتاویٰ رضویہ میں تو یہ ہے کہ استاد کے حق
کو اپنے والدین اور تمام مسلمانوں کے حق سے مقدم رکھے۔(فتاویٰ رضویہ، 23/638) استاد
کے چند حقوق درج ذیل ہیں:
(1)اطاعت
و فرمانبرداری: یہ حق تو حقوقِ واجبہ میں سے ہے کہ اپنے استاد کا ہر حکم مانے،
مگر جو خلافِ شریعت حکم ہو تو ہرگز نہ مانے کہ حدیثِ مبارکہ میں ہے:لا طاعۃَ لاحد فی معصیۃ اللہ تعالی یعنی اللہ پاک کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں۔(مسند امام احمد،5/65)
(2)آدابِ
مجلس:عالم کا جاہل اور استاد کا شاگرد پر ایک جیسا حق ہے اور وہ یہ
کہ اس سے پہلے بات نہ کرے اور اس کے بیٹھنے کی جگہ اس کی غیر موجودگی میں بھی نہ بیٹھےاور
اس سے آگے نہ بڑھے اور اس کی کوئی بات رد نہ کرے۔(فتاویٰ رضویہ، 19/452) نیز استاد
کی بارگاہ میں ظاہری و باطنی مکمل توجہ کے ساتھ حاضر ہو۔
(3)حسنِ
اعتقاد:شاگرد کو چاہیے کہ اپنے استاد کے بارے میں ہمیشہ مثبت سوچ رکھے۔استاد
کے کسی بھی عمل کے بارے میں کوئی بدگمانی نہ کرے۔علم کا فیضان ہی تب نصیب ہوتا ہے جب
ظاہری کے ساتھ باطنی طور پربھی استادکا ادب کیا جائے۔
(4)
خدمت گزاری: شاگرد کو چاہیے کہ اپنے استاد کے حقوقِ واجبہ کا خیال رکھے،اپنے
مال میں کسی چیز سے اس کے ساتھ بخل نہ کرے۔ (فتاویٰ ہندیہ،5/378) مزید یہ کہ جو کچھ
اسے درکار ہو بخوشی پیش کرے اور اگر وہ قبول کر لے تو اسے اس کا احسان اور اپنی سعادت
مندی تصور کرے۔
(5)دعائے
خیر:شاگرد کو چاہیے کہ اپنے استاد کو ہمیشہ دعاؤں میں یاد رکھے۔امامِ
اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:میں جب بھی اپنے والدین کے لیے دعا کرتا
ہوں تو اپنے استاد کے لیےضرور دعا کرتا ہوں۔امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:میں
اپنے والدین سے بھی پہلے استاد کے لیے دعا کرتا ہوں۔ (حالات، کمالات، ملفوظات امامِ
اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ،ص113)ان کے علاوہ بھی استاد کے کثیر حقوق ہیں کہ روزانہ
اس کا دیا ہوا سبق یاد کرے۔ استاد کی موجودگی میں آواز بلند نہ کرے اور کسی سے استاد
کی برائی نہ سنے وغیرہ۔ اللہ کریم ہمیں استاد کے حقوق کما حقہ بجا لانے کی توفیق عطا
فرمائے اور میرے اساتذہ کو درازیِ عمر بالخیر نصیب فرمائے۔اٰمین
انسان کو فرشتوں اور دوسری مخلوقات پر برتری اور فضیلت علم کی وجہ سے دی گئی
ہے،اس لئے سب سے پہلی وحی میں اللہ پاک نے اپنے جس کرم کا اظہار فرمایا وہ علم ہی
ہے۔ارشادِ ربانی ہوا: عَلَّمَ الْاِنْسَانَ
مَا لَمْ یَعْلَمْؕ(۵) (پ 30، العلق:5) ترجمہ: اللہ
نے انسان کو وہ سکھایا جس سے وہ واقف نہ تھا۔
استاد کسے کہتے ہیں:استاد وہ
جو اپنا علم جو اس کے دل و دماغ میں ہوتا ہے اس کو اپنے شاگرد کی طرف ٹرانسفر کرتا
ہے۔
ما وصل من وصل الا بالحرمۃ وما سقط من سقط الا بترک الحرمۃ ترجمہ:جس نے جو کچھ پایا ادب و احترام کرنے کی وجہ سے پایا
اور جس نے جو کچھ کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا۔
استاد کے حقوق:حضرت سہل بن عبد
اللہ رحمۃ اللہ علیہ سے کوئی سوال پوچھتا تو آپ پہلو تہی فرمایا کرتے تھے۔ایک مرتبہ
اچانک دیوار سے پشت لگاکر بیٹھ گئے اور لوگوں سے فرمایا:آج جو کچھ پوچھنا چاہو مجھ
سے پوچھ لو!لوگوں نے عرض کی:حضور!آج یہ کیا ماجرا ہے؟آپ تو کسی سوال کا جواب ہی
نہیں دیا کرتے!فرمایا:جب تک میرےاستاد حضرت ذوالنون رحمۃ اللہ علیہ حیات تھے،اس
لئے ان کے ادب کی وجہ سے جواب دینے سے گریز کیا کرتا تھا۔ لوگوں کو س جواب سے مزید
حیرت ہوئی کیونکہ ان کے علم کے مطابق حضرت ذو النون مصری رحمۃ اللہ علیہ ابھی حیات
تھے۔بہرحال آپ کے اس جواب کی بنا پر فوراً وقت اور تاریخ نوٹ کرلی گئی۔جب بعد میں
معلومات کی گئیں تو واضح ہوا کہ آپ کے کلام سے تھوڑی دیر قبل ہی حضرت ذو النون
مصری رحمۃ اللہ علیہ کا انتقال ہوگیا تھا۔(تذکرۃ الاولیا، 1/349)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کتبِ معتبرہ کے حوالے سے استاد
کے حقوق بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:عالم کا جاہل پر اور استاد کا شاگرد پر
ایک سا حق ہے اور وہ یہ ہے کہ(1)اس سے پہلے گفتگو شروع نہ کرے۔(2)اس کی جگہ پر اس کی
غیر موجودگی میں بھی نہ بیٹھے۔(3)چلتے وقت اس سے آگے نہ بڑھے۔(4)اپنے مال میں سے
کسی چیز سے استاد کے حق میں بخل سے کام نہ لے یعنی جو کچھ اسے درکار ہو بخوشی حاضر
کردے اور اس کے قبول کرلینے میں اس کا احسان اور اپنی سعادت تصور کرے۔(5)اس کے حق
کو اپنے ماں باپ اور تمام مسلمانوں کے حق سے مقدم رکھے۔(کامیاب طالب علم کون؟ ص
54)
آدابِ مجلس:استاد کے سامنے
ادب کے ساتھ بیٹھنا اور ایسا طریقہ اور رویہ اختیار کرنا شاگرد کی ذمہ داری ہے کہ
جس طرح بے ادبی کی فضا پیدا نہ ہو اور اس کے لئے ہمارے سامنے مجلسِ نبوی ہے اور
صحابہ رضی اللہ عنہم کا اس میں با ادب بیٹھنا ہے اور تعلیم حاصل کرنا بہترین مثال ہے۔اللہ
پاک ہمیں اساتذہ کرام کے تمام حقوق پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین بجاہ
النبی الامین ﷺ
انسانوں کو فرشتوں اور دوسری مخلوقات ہر برتری اور فضیلت علم کی وجہ سے دی گئی،
اس لئے سب سے پہلے وحی میں اللہ پاک نے اپنے جس کرم کا اظہار فرمایا وہ علم ہی
ہے۔ارشادِ ربانی ہے: عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْؕ(۵) (پ 30، العلق:5) ترجمہ: اللہ نے انسان کو وہ سکھایا جس سے
وہ واقف نہ تھا۔اس لئے رسول اللہ ﷺ تحصیلِ علم کے بارے میں تاکید فرماتے ہیں:علم
حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔ (ابن ماجہ، 1/146، حدیث: 224) اللہ پاک
نے اپنے آخری نبیﷺ کی معلم ہونے کی حیثیت سے تعریف فرمائی جن سے غافل انسانوں نے
علم حاصل کیا۔اس لئے معلمی منصب نبوت قرار پایا۔ظاہر ہے کہ کسی علم کو حاصل کرنے
کے لئے کسی استاد سے استفادہ کرنا پڑتا ہے کہ اس کے بغیر حصول علم ممکن نہیں۔اس
وجہ سے استاد اور معلم ہی ہمیں اس فضیلت سے سرفراز کرنے والا ہے اور علم حاصل کرنے
کے لئے استاد کے حقوق کو پورا کرنا ضروری ہے۔
استاد کے 5 حقوق:
1)ادب و احترام:شاگرد کا
اولین فرض ہے کہ وہ اپنے استاد کا ادب و احترام کرے۔نبیِ کریم ﷺ کے فرمان کی روشنی
میں استاد روحانی باپ ہے چانکہ روح کو جسم پر فوقیت حاصل ہے اس لئے استاد کا مادی
باپ سے بھی زیادہ عزت و احترام کا مستحق ہے۔امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں:میرے استاد
حماد رحمۃ اللہ علیہ جب تک زندہ رہے میں نے ان کے مکان کی طرف کبھی پاؤں نہ
پھیلائے۔
با ادب با نصیب بے ادب بد نصیب
2)اطاعت و فرمانبرداری:شاگرد کا فرض ہے کہ وہ اپنےا ستاد کی پوری طرح اطاعت و فرمانبرداری کرے۔طالبِ
علم کو چاہئے کہ استاد جن باتوں کا حکم دے ان پر عمل کرے اور جن باتوں سے منع کرے
ان سے رک جائے۔
3)عجز و انکساری:طالبِ علم
کا فرض ہے کہ وہ عجز و انکساری کو اپنا شیوہ بنائے۔اپنے استاد سے کبھی تکبر و غرور
سے پیش نہ آئے۔طالبِ علم کو استاد کے سامنے اس طرح ہونا چاہئے جس طرح مردہ زمین پر
بارش ہوتی ہے تو وہ زندہ ہوجاتی ہے۔
4)استاد سے حسنِ ظن:طالبِ علم
کا فرض ہے کہ وہ اپنے استاد سے حسنِ ظن رکھے۔اگر استاد کسی وقت سختی کرے تو شاگرد
اس سختی کو برداشت کرےکیونکہ استاد کی سختی بھی خیر خواہی کے جذبے سے ہوتی ہے۔
5)معاشی تحفظ:چونکہ معاشرہ کی
ترقی میں استاد کا کردار بڑا اہم ہوتا ہے،اس لئے استاد کا حق ہے کہ اسے معاشی تحفظ
اور بلند معاشرتی مقام دیا جائے۔قدیم دور میں سلاطین و رؤسا اپنے بچوں کے اثالیق
کی مکمل طور پر مالی سرپرستی کرتے تھے۔اب بھی ترقی یافتہ ممالک میں استاد کی قدر
کی جاتی ہے اور اسے بھرپور معاشی تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔
6)معذرت:اگر استاد کسی
وجہ سے ناراض ہوجائے تو شاگرد کے لئے لازم ہے کہ وہ استاد سے معذرت کرےا ور استاد
کی ناراضی دور کرنے کی کوشش کرے۔استاد کے سامنے ادب کے ساتھ بیٹھنا اور ایسا طریقہ
اور رویہ اختیار کرنا شاگرد کی ذمہ داری ہے کہ کسی طرح بے ادبی کی فضا پیدا نہ ہو
اور اس کے لئے ہمارے سامنے مجلسِ نبوی اور صحابہ رضی اللہ عنہم کا اس میں باادب
بیٹھنا ہےا ور تعلیم حاصل کرنا بہترین مثال ہے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بیان کرتے
ہیں:ہم مسجدِ نبوی میں اس طرح بیٹھے تھے کہ گویا ہمارے سر پر چڑیاں بیٹھی ہوں اور
ذرا سی حرکت سے اڑجائیں گی۔ (بخاری، 2/266، حدیث: 2842) اللہ پاک سے دعا ہے کہ
ہمیں اپنے اساتذہ کا ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
طالبِ علم کے لئے استاد کا ہونا بڑی سعادت کی بات ہے۔طالبِ علم اور استاد کے
درمیان رشتہ انتہائی مقدس ہوتا ہے۔طالبِ علم کے لئے استاد کا کردار ایک باغبان کی
مثل ہے۔ جس طرح کسی باغ کے پودوں کی افزائش و حفاظت باغبان کی توجہ اور کوشش کے
بغیر نہیں ہوسکتی اسی طرح طالبِ علم کی تربیت کے لئے استاد کی توجہ اور کوشش بے حد
ضروری اور اہمیت کا حامل ہے۔شاگرد کو چاہئے کہ وہ استاد کا دل و جان سے ادب و
احترام کرے کیونکہ کسی عربی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:جس نے جو کچھ پایا ادب و
احترام کی وجہ سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی
کھویا۔
استاد کسے کہتے ہیں:استاد وہ جو اپنا علم جو دل و دماغ میں ہوتا ہے اس کو شاگرد کی طرف ٹرانسفر
کرتا ہے اس کو استاد کہتے ہیں۔
استاد کے حقوق:اعلیٰ حضرت امام احمد ضاخان استاد کے حقوق بیان فرماتےہیں:عالم کا جاہل پر اور
استاد کا شاگرد پر ایک سا حق ہے اور وہ یہ ہے کہ
(1)شاگرد استاد سے پہلے گفتگو نہ کرے۔
(2)شاگرد استاد کی جگہ پر اس کی غیر موجودگی میں نہ بیٹھے۔
(3)شاگرد کو چاہئے کہ چلتے وقت استاد کےآگے نہ بڑھے۔
(4)اپنے مال میں سے کسی چیز سے استاد کے حق میں بخل سے کام
نہ لے یعنی جو کچھ اسے درکار ہو بخوشی حاضر کردے اور اس کے قبول کرلینے میں اس کا
احسان اور اپنی سعادت تصور کرے۔
(5)استاد کے حق کو اپنے ماں باپ اور تمام مسلمانوں کے حق سے
مقدم رکھے۔
(6)اگر استاد گھر کے اندر ہو تو باہر سے دروازہ نہ بجائے
بلکہ خود اس کے باہر آنے کا انتظار کرے۔
(7)استاد کو اپنی جانب سے کسی قسم کی اذیت نہ پہنچنے دے کہ
جس سے اس کے استاد کو کسی قسم کی اذیت پہنچی وہ علم کی برکات سے محروم رہے گا۔(کامیاب
طالب علم کون؟ ص 54)
(8)شاگرد کو چاہئے کہ جب استاد بیمار ہو تو اپنے استاد کی
سنت کے مطابق عیادت کرے۔
(9)شاگرد کو چاہئے کہ کوئی اہم فیصلہ کرتے وقت اپنے استاد سے
مشورہ کرے۔
استاد کا ادب:حضرت سہل بن عبد اللہ رحمۃ اللہ علیہ سے کوئی سوال کیا جاتا تو آپ پہلو تہی
فرمالیا کرتے تھے۔ایک مرتبہ اچانک دیوار سے پشت لگا کر بیٹھ گئے اور لوگوں سے
فرمایا:آج جو کچھ پوچھنا چاہو مجھ سے پوچھ لو!لوگوں نے عرض کی:حضور!آج یہ کیا
ماجرا ہے؟آپ تو کسی سوال کا جواب ہی نہیں دیا کرتے تھے؟فرمایا:جب تک میرے استاد
حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ حیات تھے ان کے ادب کی وجہ سے جواب دینے سے گریز
کیا کرتا تھا۔لوگوں کو اس جواب سے مزید حیرانگی ہوئی کیونکہ ان کے علم کے مطابق
حضرت ذو النون مصری ابھی حیات تھے۔بہرحال آپ کے اس جواب کی بنا پر فوراً وقت اور
تاریخ نوٹ کرلی گئی،جب بعد میں معلومات لی گئیں تو واضح ہوا کہ آپ کے کلام سے
تھوڑی دیر قبل ہی حضرت ذو النون مصری رحمۃ اللہ علیہ کا وصال ہوا ہے۔(تذکرۃ
الاولیا،1/229)
اللہ کریم ہمیں حضرت ذو النون مصری رحمۃ اللہ علیہ کا صدقہ
اپنے استادوں کا ادب کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اللہ کریم ہمیں دل و جان سے ادب و
احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کی ناراضی سے اللہ کریم ہمیں بچائے۔اٰمین
اللھم اٰمین
استاد کو روحانی باپ کا درجہ دیا جاتا ہے کہ وہ طالبِ علم کو
دنیاوی اور دینوی دونوں کا علم سیکھاتا ہے۔ استادہی وہ شخص ہے جو ہمیں زندگی کے رنگ
ڈھنگ سیکھاتا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ زندگی میں آگے کیسے بڑھنا ہے۔وہ ہمیں دنیا میں
سر اٹھا کر جینے کا طریقہ سیکھاتا ہے۔ہر وہ شخص جس نے ایک لفظ کی تعلیم بھی دی ہو وہ
بھی استاد ہوتا ہے اور اسے استاد کا درجہ ہی دینا چاہیے۔استاد کی ہر بات کو توجہ سے
سننا چاہیے اور استاد کے سامنے اونچی آواز میں نہیں بولنا چاہیے۔ استاد کا ادب و احترام
کرنا چاہیے۔نبیِ کریم ﷺ کا ارشاد ہے: میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ (ابن ماجہ،
1/150، حدیث: 229) تو اس کو بھی مدِّ نظر رکھنا چاہیے۔ استاد کے بارےمیں ارشادِ باری
ہے: وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا (پ 1، البقرۃ: 31) ترجمہ: اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے۔
استاد کے بارے میں احادیثِ مبارکہ ملاحظہ ہوں کہ استاد کا کیا
رتبہ ہے:
1)نبی ِکریم ﷺ نے فرمایا:جو شخص لوگوں کو علم سکھائے وہ بہترین باپ ہے کیونکہ وہ بدن
کا نہیں روح کا باپ ہے۔
(التيسير، 2/454،تحت الحدیث:2580)
2)نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس نے کسی کوقرآنِ مجید کی ایک آیت پڑھائی وہ اس کا آقا ہے۔(معجم
كبیر، 8/112، حدیث:7528)
3)نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:عالم کا حق جاہل پر اور استاذ کا حق شاگرد پر برابر ہے وہ یہ
ہے کہ اس سے پہلے بات نہ کرے اور اس کی جگہ پر نہ بیٹھے اگرچہ وہ موجود نہ ہو اور اس
کی بات کو رد نہ کرنے اور چلنے میں اس سے آگے نہ بڑھے۔ (ردالمحتار، 10/522)
4)علم سیکھو اور علم کے لیے ادب و احترام سیکھو جس استاد نے
تجھے علم سکھایا ہے اس کے سامنے عاجزی اور انکساری اختیار کرو۔(معجم اوسط،4/342،حدیث:
6184)
5)استاد کا شاگرد پر یہ بھی حق ہے کہ شاگرد کو بات کرنے اور
چلنے میں استاذ سے آگے نہیں بڑھنا چاہیے۔ (الحقوق لطرح العقوق، ص 98)
احادیثِ پاک سے معلوم ہوا !استاد کتنے بڑے رتبے کا مالک ہے!
شاگرد کو بھی چاہیے کہ استاد کا ادب و احترام کرے، استاد کی ہر بات پر عمل کرے اور
استاد کے سامنے ہمیشہ نظریں جھکا کر رکھے کیونکہ استاد روحانی باپ کا درجہ رکھتا ہے۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں بھی استاد کا ادب و احترام اور ہر بات پر عمل کرنے والا
شاگرد بنائے۔ ہمیں عالمِ دین بنائے اور ایمان پر خاتمہ ہو۔آمین
استاذ( یعنی معلِّم ) ہونا بہت بڑی سعادت ہے کہ ہمارے پیارے
مدنی آقاﷺنے اس منصب کی نسبت اپنی ذات اقدس کی طرف کر کے اسے عزت وکرامت کا تاج عطا
فر مایا ہے، چنا نچہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا:انما بعثت
معلما یعنی مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔(ابن ماجہ، 1/150)ایک اور
مقام پر پیارے آقا، مکی مدنی مصطفٰےﷺنے ارشاد فرمایا:جس نے کتابُ اللہ میں سے ایک آیت
سکھائی یا علم کا ایک”باب“ سکھایا تو اللہ پاک اس کے ثواب کو قیامت تک کے لئے جاری
فرمادیتا ہے۔(کنز الایمان، 10/61) استاذ کی اہمیت جاننے کے بعد آئیے! استاذ کےحقوق
کا مطالعہ کرنے کی سعادت حاصل کرتی ہیں:
1۔طالبِ علم کو چاہیے کہ وہ اپنے استاد کا ادب کرے:کسی عربی شاعر نے کہا ہے:مَاوَصَلَ مِنْ وَصْلٍ اِلاَّ بِالْحُرْمَةِ
وَمَا سَقَطَ مِنْ سَقَطٍ اِلَّا بِتَرْكِ الْحُرْمَةِیعنی جس نے جو کچھ پایا ادب و احترام کی وجہ سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ
ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا۔امام شعبی نے روایت کیا کہ حضرت زید بن ثابت
رضی اللہ عنہ نے ایک جنازے پر نماز پڑھی۔ پھر سواری کا خچر لایا گیا، تو حضرت عبد اللہ
بن عباس رضى الله عنہما نے آگے بڑھ کر رکاب تھام لی۔ یہ دیکھ کر حضرت زید رضی اللہ
عنہ نے فرمایا:اے رسول الله ﷺ کے چچا کے بیٹے ! آپ ہٹ جائیے۔ اس پر حضرت ابنِ عباس
رضی اللہ عنہما نے فرمایا:علما و اکابر کی اسی طرح عزت کرنی چاہیے۔(جامع بیان العلم
و فضلہ، ص116)
2۔استاذ کو اپنا روحانی باپ سمجھے:استاذ روحانی باپ کا درجہ رکھتا ہے۔ لہٰذا طالب العلم کو چاہیے
کہ اسے اپنے حق میں حقیقی باپ سے بڑھ کر مخلص جانے۔تفسیر کبیر میں ہے:استاذ اپنے شاگرد
کے حق میں ماں باپ سے بڑھ کر شفیق ہوتا ہے کیونکہ والدین اسے دنیا کی آگ اور مصائب
سے بچاتے ہیں جبکہ اساتذہ اسے نارِ دوزخ اور مصائبِ آخرت سے بچاتے ہیں۔(تفسیر کبیر،
1/401)
3۔بیمار ہونے پر عیادت کرے:اگر کوئی استاذ بیمار ہو جائے تو سنت کے مطابق اس کی عیادت کرے
اور بیمار کی عیادت کرنے کا ثواب لوٹے جیسا کہ حضرت علی کرم اللهُ وَجْهَهُ الكَرِيم
سےروایت ہے کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا:” جو مسلمان کسی مسلمان کی عیادت کے لیے صبح
کو جائے تو شام تک اس کے لیے ستر ہزار فرشتے استغفار کرتے ہیں اور شام کو جائے تو صبح
تک ستر ہزار فرشتے استغفار کرتے ہیں اور اس کے لیے جنت میں ایک باغ ہوگا۔
(ترمذی،2/290، حدیث 971)
4۔استاد کی غم خواری کرے:اگر کسی استاذ کے ساتھ کوئی سانحہ پیش آجائے مثلاً اس کے حقیقی
والد یا کسی عزیز کی وفات ہو جائے یا اس کا کوئی نقصان ہوگیا ہو تو اس کی غم خواری
کرے اور حدیثِ پاک میں بیان کردہ ثواب حاصل کرے جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عَنْہ سے
روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جوکسی غمزدہ شخص سے تعزیت (یعنی اس کی غم خواری)
کرے گا اللہ پاک سے تقویٰ کا لباس پہنائے گا اور روحوں کے درمیان اس کی روح پر رحمت
فرمائے گا اور جو کسی مصیبت زدہ سے تعزیت کرے گا اللہ پاک اسے جنت کے جوڑوں میں سے
دو ایسے جوڑے پہنائے گا جن کی قیمت دنیا بھی نہیں ہو سکتی۔ (معجم اوسط،6/429، حدیث:9292)
5۔اہم معاملات میں استاذ سے راہ نمائی لے: طالبُ العلم کو چاہیے کہ کوئی بھی اہم فیصلہ کرتے وقت اپنے استاذ
سے ضرور مشورہ کرلے۔ امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمۃ اللہ علیہ امام محمد رحمۃ
اللہ علیہ کی خدمتِ بابرکت میں حاضر ہوئے اور فقہ میں کتابُ الصلوۃ سیکھنے لگے۔ امام
محمد رحمۃ اللہ علیہ نے جب ان کی طبیعت میں فقہ میں عدم دلچسپی اور علمِ حدیث کی طرف
رغبت دیکھی تو ان سے ارشاد فرمایا:تم جاؤ اور علمِ حدیث حاصل کرو کیونکہ آپ نے اندازہ
لگالیا تھا کہ ان کی طبیعت علمِ حدیث کی طرف زیادہ مائل ہے۔ پس جب امام بخاری رحمۃ
اللہ علیہ نے اپنے استاذ کا مشورہ قبول کیا اور علمِ حدیث حاصل کرنا شروع کیا تو دیکھنے
والوں نے دیکھا کہ آپ تمام ائمہ حدیث سے سبقت لے گئے۔ (تعلیم المتعلم طریق التعلم،ص55)
باادب با نصیب بےادب بدنصیب
علم کے بارے میں حدیثِ مبارکہ: آقاﷺنے ارشاد فرمایا:علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔(ابن
ماجہ، 1/146، حدیث: 224) ایک اور حدیث میں
فرمایا:میرے بعد سب سے بڑا سخی وہ ہے جس نے علم حاصل کیا اور پھر اسے پھیلایا۔ (مسند
ابی یعلیٰ، 3/16، حدیث: 2782) نبیِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:میں علم کا شہر ہوں ابو
بکر اس شہر کی بنیاد ہے۔عمر اس کی دیوار ہے۔عثمان اس کی چھت ہے اور علی اس کا
دروازہ ہے۔ (تاریخ مدینہ دمشق، 9/20)
اُستاد کے اوصاف: استاد بنیاد کی وہ اینٹ ہے جو پوری عمارت کا بوجھ اُٹھاتی ہے مگر کسی کو نظر
نہیں آتی۔استاد معاشرے کا وہ نمک ہے جو تھوڑی مقدار میں ہونے کے باوجود ذائقہ
بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔استاد شمع ہے جو خود جل کر دوسروں کوروشنی دیتی ہے۔
اُستاد وہ ماں ہے جو سراسر محبت ہےاور بذاتِ خود ٹھنڈی جگہ لیٹ کر بچے کو خشک اور
گرم بستر مہیا کرتی ہے۔اُستاد شعور ذات کے سفر میں رہنمائی کرنے والا اور علم و
دانش کا رکھوالا ہے۔رسولِ پاک ﷺ کا فرمانِ عالیشان ہے: علم کی روشنائی شہید کے خون سے مقدس تر ہے۔ (جامع
صغیر، ص 571، حدیث: 9619)
اُستاد کے حقوق: امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں: میں نے کبھی اپنے استاد کے گھر کی طرف پاؤں دراز
نہیں کیے حالانکہ ان کے اور میرے گھر کے درمیان سات گلیوں کا فاصلہ ہے۔ڈاکٹر اقبال
کا اپنے استاد سے عشق کا یہ حال تھا کہ جب ان کے اُستاد کا ذکر ہوتا تو ان کی آنکھیں
نم ہو جاتیں۔ امام شافعی فرماتے ہیں:ادب و احترام کی وجہ سے میں اپنے استاد کے
سامنے کتاب کا ورق بھی آہستہ الٹتا تھا۔استاد علم دینے کا وعدہ کرتا ہے اور شاگرد
ادب کرنے کا، اگر شاگرد ادب چھوڑ دے تو علم سے محروم ہو جانا اس کا مقدر ہے۔
اُستاد کے لیے ہمیشہ دعا کیجئے: ابو حنیفہ فرماتے ہیں: میں ہر نماز کے بعد اُستاد کے لیے
دعا کرتا ہوں۔اپنے اُستاد سے محبت کرو کیوں کہ اسی کی بدولت آج تم یہ عبارت پڑھنے
کے قابل ہو!اگر استاد بظاہر نالائق بچے میں فقط یہ یقین پیدا کر دے کہ وہ لائق ہو
سکتا ہے تو بچے کی تقدیر بدل جاتی ہے۔امام برهان الدین زرنوجی فرماتے ہیں: ایک
طالبِ علم اس وقت تک علم حاصل نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس سے نفع اُٹھا سکتا ہے جب
تک کہ وہ علم، اہلِ علم اور اپنے استاد کی تعظیم و توقیر نہ کرتا ہو۔ (راہِ علم، ص
28) ادب کرنے والوں کو اساتذۂ کرام کے دل سے دعائیں ملتی ہیں اور بزرگوں کی دعائیں
انسان کو بڑی اونچی جگہ لے جاتی ہیں۔
طالبِ علم نہ اس وقت علم حاصل کرسکتا ہے اور نہ ہی کسی کام
میں کامیابی حاصل کرسکتا ہے جب تک اس کے دل میں اپنے استاد کی عزت و احترام نہ
آجائے۔ہمارے بزرگانِ دین اور اولیائے عظام نے بہت بلند مراتب حاصل کئے اور کامیابی
کی سیڑیاں پار کیں وہ صرف اس لئے کہ وہ اپنے اساتذہ کا ادب و احترام کرتے،ان کی
عزت کرتے،جس کام کا انہیں ان کے استاد حکم دیتے اس کام میں ذرا سی تاخیر سے بھی
بچتے اور فوراً سے وہ کام کرکے برکتیں حاصل کرنے کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے نہ جانے
دیتے۔جس سے انہوں نے ایک حرف بھی پڑھا یا ہوتا اس کی بھی اتنی ہی تعظیم کرتے تھے
جتنی اس استاد کی کرتے جس نے انہیں بے شمار علم سے نوازا ہوتا جیسا کہ حضرت علی
المرتضی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:جس نے مجھے ایک حرف سکھایا میں اس کا غلام ہوں
چاہے مجھے فروخت کردے،چاہے تو آزاد کردے اور چاہے تو غلام بنا کر رکھے۔ (راہِ علم،
ص 28) اس فرمان سے معلوم ہوا!جیسے ہمارے بزرگ اور علمائے دین اساتذہ کا ادب و
احترام کرتے تھے ویسے ہم بھی اپنے استاد کا ادب کریں،ان کی تعظیم کریں اور ان کے
ہر حکم پر لبیک کہتے ہوئے برکتیں حاصل کریں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انہی کی
رضا میں اللہ پاک اور رسول ﷺ اور پیر و مرشد کی رضا میں ہے بشرطیکہ وہ کوئی خلافِ
شرع حکم نہ دیں اور اگر کوئی ایسا کوئی حکم دیں جو خلافِ شریعت ہو تو اس پر عمل
نہیں کیا جائے گا کیونکہ اللہ پاک کی نافرمانی میں مخلوق کی فرمانبرداری جائز
نہیں۔اس کے علاوہ ہر وہ حکم جس میں خدا و رسول ﷺ کی نافرمانی ہو اس کو ماننا لازم
ہے اور نہ ماننے کی صورت میں دنیا و آخرت برباد ہونے کا خطرہ ہے۔ہمیں اپنے اساتذہ
کے تمام حقوق پورے کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ان تمام حقوق میں سے پانچ حقوق درج ذیل
ہیں:
1)اگرچہ کسی استاد سے ایک ہی حرف پڑھا ہو اس کی بھی تعظیم
بجالائیے کہ حدیثِ پاک میں ہے:سیدِ عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا:جس نے کسی کو قرآنِ
کریم کی ایک آیت پڑھائی وہ اس کا آقا ہے۔ (معجم کبیر،8/112،حدیث:7828)
2) استاد کی ناشکری سے بچتے رہئے کیونکہ یہ ایک کوفناک
بلااور تباہ کن مرض ہے اور علم کی برکتوں کو ختم کر دیتی ہے،چنانچہ حضور پاک ﷺ کا
فرمانِ عالیشان ہے:جس نے لوگوں کو شکریہ ادا نہیں کیا اس نے اللہ پاک کا شکر ادا
نہیں کیا۔(ترمذی،3/384،حدیث:1962)
3)استاد کی سختی کو اپنے لئے باعثِ رحمت اور کامیابی کی
علامت جانتے ہوئے صبر سے کام لے۔کبھی بھی استاد کی کسی بھی بات کا غصہ نہ
کرے۔کیونکہ قول مشہور ہے:جو استاد کی سختیاں نہیں جھیل سکتا اسے زمانے کی سختیاں
جھیلنے پڑتی ہیں۔
4)جب بھی استاد کلام کر رہے ہوں درمیان میں اپنی بات شروع
نہ کرے بلکہ ان کی بات دھیان سے سنے اور نہ ہی ان کے کلام سے پہلے بلا ضرورت خود
کلام شروع کرے۔استاد کے سامنے زیادہ بولنے سے گریز کرے۔ایک قول ہے:مرشد کے سامنے
اور استاد کے سامنے زبان قابو میں رکھو۔
5)استاد کے سامنے جھوٹ بولنے سے علم کی برکتیں ختم ہونے کا
اندیشہ ہوتا ہے۔لہٰذا جب بھی استاد کوئی بات پوچھے تو فوراً سچ بات بتادیجئے،ہمیشہ
ان سے سچ بولئے۔اللہ پاک ہمیں ہمیشہ اپنے استاد کی تعظیم کرنے،ان کی ناشکری سے
بچنے،ان کی سختیوں کو اپنی کامیابیوں کا ذریعہ جاننے اور ہمیشہ ان سے سچ بولنے کی
توفیق عطا فرمائے۔
استاد کی کرتی رہوں ہر دم میں اطاعت ماں
باپ کی عزت کی بھی توفیق خدا دے
میں جھوٹ نہ بولوں کبھی گالی نہ نکالوں اللہ
مرض سے تو گناہوں سے شفا دے
اٰمین بجاہ النبی الامین ﷺ
استاد کی تعریف:تعلیم میں
استاد،معلم وہ ہے جو متعلم یا طالبِ علم کی مدد و معاونت و راہ نمائی کرتا ہے۔کوئی
بھی درس گاہ ہو معلم کے بغیر درس گاہ کا تقدس ایسا ہی ہے جیسا کہ ماں کے بغیر گھر۔
استاد کی عظمت قرآن کی روشنی میں:اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: عَلَّمَ الْاِنْسَانَ
مَا لَمْ یَعْلَمْؕ(۵) (پ 30، العلق:5) ترجمہ: اللہ
نے انسان کو وہ سکھایا جس سے وہ واقف نہ تھا۔اللہ پاک نے انسان کو پہلے قدرتی
چیزوں کے بارے میں علم فرمایا اور پھر اس کی تفصیلات اس نے اپنے پیغمبر کے ذریعے
ترسیل فرمائی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ خود رسول اللہ ﷺ ایک معلم ہیں۔
استاد کی عظمت حدیثِ مبارکی روشنی میں:رسول اللہ ﷺ وہ لوگ بہتر ہیں جو علم حاصل کرتے ہیں اور
دوسروں کو سکھاتے ہیں۔
استاد کے 5 حقوق:
(1)استاد کے احترام و حقوق میں سب سے اہم یہ ہے کہ انتہائی ادب و احترام کے
ساتھ اپنے استاد کی بتائی گئی ہر بات کو بغور سن کر اس کو دھن نشین کر کے اس پر
عمل کرے اور اپنے علم کو دوسروں تک بھی پہنچائے اور خود پوری لگن کے ساتھ علم کے حصول
کے لئے پوری جدو جہد کرے۔ایک استاد کو حقیقی کوشی تب ملتی ہے جب ان کا شاگرد اونچے
مقام پر پہنچ جاتا ہے۔
قول:مشہور قول ہے کہ
جس نے معالج کی عزت نہ کی وہ شفا سے محروم رہا اورجس نے استاد کی عزت نہ کی وہ علم
سے محروم رہا۔یتیم وہ نہیں جس کا باپ فوت ہوگیا بلکہ یتیم تو وہ ہے جو علم اور ادب
کی دولت سے محروم ہوگیا۔
(2)استاد روحانی والدین ہوتے ہیں۔جس طرح والدین کا ادب و احترام کرنا ہم پر
لازم ہے اسی طرح استاد کا ادب و احترام بھی لازم ہے۔استاد کے سامنے اپنی نگاہیں
جھکا کر گفتگو کی جائے۔ان کی آواز سے اونچی اپنی آواز نہ کی جائے۔استاد کے ہر جائز
حکم پر فوراً لبیک کہنا چاہئے۔استاد کی عزت ماں باپ سے زیادہ کرو کیونکہ وہ تمہاری
روح کی اصلاح کرتا ہے۔مرشد اور استاد کے سامنے زبان قابو میں رکھیں۔
(3)استاد کی غیبت کرنا،استاد کی نقل اتارنا،استاد پر بہتان باندھنا ان سب کاموں
سے بچنا چاہئے۔استاد کے ساتھ کبھی جھوٹ نہیں بولنا چاہئے۔اگر استاد کے ساتھ جھوٹ
بولیں گے تو اس میں نقصان بھی اپنا ہی ہوگا۔ استاد کی کبھی بھی گستاخی نہ کی
جائے۔استاد کے سامنے جھوٹ بولنے سے علم کی برکت ضائع ہوجانے کا اندیشہ ہے۔
(4)استاد کے آگے نہ چلیں۔استاد کو اگر آتا دیکھیں تو ادب سے ان کے سامنے کھڑے
ہوجائیں۔اگر کسی مجلس میں استاد کی تشریف آوری ہو تو ان کے لئے آگے بڑ کر اچھی
نشست کا انتظام کیجئے۔استاد کی نشست گاہ پر بیٹھنے کی بے ادبی سے بھی بچیں۔
یہ غم کھاتا چلا
جاتا ہے مجھ کر مجھے اس خوف
سے فرصت نہیں
کہیں برکت نہ اٹھ
جائے وہاں سے جہاں استاد کی عزت نہیں
ہے
(5)استاد کا احترام یہ ہے کہ استاد کی عدم موجودگی میں استاد کا نام سنتے ہی
شاگرد مؤدب کھڑا ہوجائے۔استاد کا ایک احترام یہ بھی ہے کہ کبھی بھی استاد کا نام
نہ لیا جائے بلکہ ان کی کنیت سے پکاریں۔ استاد کے سامنے احتراماً نگاہیں جھکا کر
چلنے والا ہمیشہ سر اٹھا کر چلتا ہے۔
استاد کی تعظیم کا منظر:فرشتوں کے سردار حضرت جبرائیل علیہ السلام تشریف لاتے ہیں اور انبیائے کرام کے
سردار معلمِ انسانیت کے پاس جب علم حاصل کرنے بیٹھتے ہیں تو با ادب اپنے زانوں
سمیٹ کر بیٹھتے ہیں۔
استاد کے لئے دعا:حضور ﷺ نے
استاد کے لئے دعا فرمائی کہ اللہ پاک اس شخص کو خوش وخرم رکھے جس نے میری کوئی بات
سنی اور اسے یاد رکھا اور اس کو جیسا سنا اسی طرح لوگوں تک پہنچایا۔(ترمذی، 4/298،
حدیث: 2665)
الغرض استاد کا جتنا ادب و احترام کیا جائے اتنا کم ہے،جتنے الفاظ لکھے جائیں
اتنے کم ہیں۔ استاد کا ادب و احترام قلم میں نہیں سما سکتا۔اللہ پاک ہمیں صحیح
معنیٰ میں اپنے اساتذہ کرام کا ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کی
دعاؤں سے حصہ پانے کی توفیق عطا فرمائے۔آج تک ہم سے جانے انجانے میں جتنی بات بھی
استاد کی بے ادبی ہوئی اللہ پاک ہمیں معاف فرمائے اور ہمیں استاد کا زیادہ سے
زیادہ ادب کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اللہ پاک ہمارے تمام اساتذہ کرام کو مرشد کے
سنگ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی با ادب حاضری نصیب فرمائے۔اٰمین بجاہ النبی
الامین ﷺ
دنیا کے حسین ترین رشتوں میں سے ایک استاد اور شاگرد کا رشتہ بھی ہے۔استاد شاگرد
کا روحانی باپ ہوتا ہے۔استاد علم سکھانے کے ساتھ ساتھ شاگرد کا بہترین دوست بھی
ہوتا ہے جو اسے مشکل وقت میں نصیحت کرتا ہے اور اگر کبھی شاگرد بھٹکنے لگے تو اسے
بچا کر راہِ راست پر لے آتا ہے۔کائنات کے بہترین استاد جانِ عالم ﷺ اپنے شاگردوں
پر کمال مہربان و شفیق تھے۔آپ کے وارثین علما اب تک آپ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے
علم سکھانے کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔استاد چونکہ روح کا باپ ہے،لہٰذا والدین کی
طرح استاد کے بھی بے شمار حقوق ہیں۔جن میں سے چند کا ذکر کیا جائے گا۔
(1)ادب و احترام:شاگرد کو
چاہئے کہ ہمیشہ استاد کا با ادب رہےا ور احترام سے پیش آئے۔حضور ﷺ کا فرمانِ
عالیشان ہے:علم سیکھو اور علم کے لئے ادب و احترام سیکھو۔جس استاد نے تجھے علم
سکھایا ہے اس کے سامنے عاجزی و انکساری اختیار کرے۔(فتاویٰ رضویہ،24/424)اعلیٰ
حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:عقلمند اور سعادت مند اگر استاد سے بڑھ بھی جائیں
تو اسے استاد کا فیض اور اس کی برکت سمجھتے ہیں اور پہلے سے بھی زیادہ استاد کے
پاؤں کی مٹی پر سر ملتے ہیں۔(فتاویٰ رضویہ،24/424)
(2)والدین کے حقوق پر استاد کے حقوق مقدم رکھے:والدین جسم کی پرورش کرتےکھلاتے پلاتے ہیں مگر استاد روح کی
تربیت کرتا،اچھے اخلاق سکھاتا اور کردار سنوارتا ہے،لہٰذا استاد کا رتبہ والدین سے
بڑھ کر ہوا۔عین العلم شریف میں ہے:استاد کے حق کو ماں باپ کے حق پر مقدم رکھے کہ
وہ زندگی روح کا سبب ہے۔(فتاویٰ رضویہ،19/451-452)
(3)پوشیدہ عیوب تلاش نہ کرے:اللہ پاک قرآنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا تَجَسَّسُوْا (الحجرات: 12) ترجمہ:اور
پوشیدہ باتوں کی جستجو نہ کرو۔مسلمانوں کے عیب تلاش کرنا منافقین کا شعار ہے اور
جب استاد کے عیوب تلاش کئے جائیں گے تو یہ مزید قبیح اور مذموم تر ہوجاتا ہے کہ
اپنے محسن کی ٹوہ میں لگ جائے اور اس کی عزت اچھالنے کی کوشش کرے۔
(4)استاد سے آگے نہ بڑھے:فتاویٰ بزازیہ و فتاویٰ عالمگیری میں ہے:عالم کا جاہل پر اور استاد کو شاگرد
پر برابر حق ہے کہ اس سے پہلے بات نہ کرے،وہ موجود نہ ہو جب بھی اس کی جگہ نہ
بیٹھے،اس کی کوئی بات نہ الٹے نہ ہی اس سے آگے چلے۔(فتاویٰ رضویہ،19/452)
(5)امتحاناً سوال نہ کرے:طالبِ علم کو چاہئے کہ استاد کے علم کو جانچنے کے لئے اس سے امتحاناً سوال نہ
کرے کہ یہ سخت بے ادبی ہے۔استاد کو کوئی بھی بات کہے تو ناقص رائے کے طور پر کہے
اور اس کے سامنے محکوم بن کر رہے۔امیرِ اہلِ سنت نے طلبہ و طالبات کے لئے نیک
اعمال کے رسالے میں سوال کی صورت میں امتحاناً سوال کرنے سے بچنے کا ذہن دیا ہے۔
امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم استاد کے حقوق بیان کرتے ہوئے
فرماتے ہیں:عالم کے حقوق میں سے ہے کہ تم اس سے زیادہ سوال نہ کرو،جواب میں اس پر
سختی نہ کروموہ تھک جائے تو اصرار نہ کرو،جب وہ اٹھنے لگے تو اس کے کپڑے نہ
پکڑو،اس کے بھید نہ کھولو،اس کے سامنے کسی کی غیبت نہ کرو،اس کے عیب نہ ڈھونڈو،اگر
لغزش کرے تو اس کا عذر قبول کرو،جب تک وہ دین کی حفاظت کرے تب تک اللہ پاک کے لئے
تم پر اس کی تعظیم و توقیر واجب ہے۔اس کے آگے نہ بیٹھو اور جب اسے کوئی حاجت ہو تو
سب سے پہلے اس کی خدمت کرو۔(احیاء العلوم،1/179)
مشہور مقولہ ہے:با ادب با نصیب بے ادب بد نصیب۔دارین کی بھلائیاں ادب میں
پوشیدہ ہیں۔بے ادب اگرچہ جتنی چاہئے تعلیم حاصل کرلیں علم کی حلاوت نہیں پا
سکتے۔با ادب اگرچہ کم علم حاصل کر پائے وہ علم اور استاد کے فیضان کا حق دار ہوتا
ہے۔اللہ کریم تمام طلبہ کا استاد کا با ادب بنائے۔اٰمین بجاہ خاتم المرسلین ﷺ