انسان کو فرشتوں اور دوسری مخلوقات پر برتری اور فضیلت علم کی وجہ سے دی گئی ہے،اس لئے سب سے پہلی وحی میں اللہ پاک نے اپنے جس کرم کا اظہار فرمایا وہ علم ہی ہے۔ارشادِ ربانی ہوا: عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْؕ(۵) (پ 30، العلق:5) ترجمہ: اللہ نے انسان کو وہ سکھایا جس سے وہ واقف نہ تھا۔

استاد کسے کہتے ہیں:استاد وہ جو اپنا علم جو اس کے دل و دماغ میں ہوتا ہے اس کو اپنے شاگرد کی طرف ٹرانسفر کرتا ہے۔

ما وصل من وصل الا بالحرمۃ وما سقط من سقط الا بترک الحرمۃ ترجمہ:جس نے جو کچھ پایا ادب و احترام کرنے کی وجہ سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا۔

استاد کے حقوق:حضرت سہل بن عبد اللہ رحمۃ اللہ علیہ سے کوئی سوال پوچھتا تو آپ پہلو تہی فرمایا کرتے تھے۔ایک مرتبہ اچانک دیوار سے پشت لگاکر بیٹھ گئے اور لوگوں سے فرمایا:آج جو کچھ پوچھنا چاہو مجھ سے پوچھ لو!لوگوں نے عرض کی:حضور!آج یہ کیا ماجرا ہے؟آپ تو کسی سوال کا جواب ہی نہیں دیا کرتے!فرمایا:جب تک میرےاستاد حضرت ذوالنون رحمۃ اللہ علیہ حیات تھے،اس لئے ان کے ادب کی وجہ سے جواب دینے سے گریز کیا کرتا تھا۔ لوگوں کو س جواب سے مزید حیرت ہوئی کیونکہ ان کے علم کے مطابق حضرت ذو النون مصری رحمۃ اللہ علیہ ابھی حیات تھے۔بہرحال آپ کے اس جواب کی بنا پر فوراً وقت اور تاریخ نوٹ کرلی گئی۔جب بعد میں معلومات کی گئیں تو واضح ہوا کہ آپ کے کلام سے تھوڑی دیر قبل ہی حضرت ذو النون مصری رحمۃ اللہ علیہ کا انتقال ہوگیا تھا۔(تذکرۃ الاولیا، 1/349)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کتبِ معتبرہ کے حوالے سے استاد کے حقوق بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:عالم کا جاہل پر اور استاد کا شاگرد پر ایک سا حق ہے اور وہ یہ ہے کہ(1)اس سے پہلے گفتگو شروع نہ کرے۔(2)اس کی جگہ پر اس کی غیر موجودگی میں بھی نہ بیٹھے۔(3)چلتے وقت اس سے آگے نہ بڑھے۔(4)اپنے مال میں سے کسی چیز سے استاد کے حق میں بخل سے کام نہ لے یعنی جو کچھ اسے درکار ہو بخوشی حاضر کردے اور اس کے قبول کرلینے میں اس کا احسان اور اپنی سعادت تصور کرے۔(5)اس کے حق کو اپنے ماں باپ اور تمام مسلمانوں کے حق سے مقدم رکھے۔(کامیاب طالب علم کون؟ ص 54)

آدابِ مجلس:استاد کے سامنے ادب کے ساتھ بیٹھنا اور ایسا طریقہ اور رویہ اختیار کرنا شاگرد کی ذمہ داری ہے کہ جس طرح بے ادبی کی فضا پیدا نہ ہو اور اس کے لئے ہمارے سامنے مجلسِ نبوی ہے اور صحابہ رضی اللہ عنہم کا اس میں با ادب بیٹھنا ہے اور تعلیم حاصل کرنا بہترین مثال ہے۔اللہ پاک ہمیں اساتذہ کرام کے تمام حقوق پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین بجاہ النبی الامین ﷺ