ہر مکلّف یعنی عاقل، بالغ، مرد عورت پر نماز فرضِ عین ہے یعنی 5 وقت کی نماز پڑھنا فرض ہے۔اس کی فرضیت کا منکر( یعنی فرض ہونے کا انکار کرنے والا) کافر ہے اور جو قصداً ( یعنی جان بوجھ کر)نماز چھوڑے اگر چہ ایک ہی وقت کی ہو وہ فاسق،سخت گنہگار اور عذابِ نار کا حق دار ہے۔نماز اللہ پاک کی خوشنودی کا سبب ہے،اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اور انبیائے کرام علیہمُ السَّلام کی سنت ہے،نماز جہنم کے عذاب سے بچاتی ہے،نماز نیکیوں کے پلڑے کو وزنی بنا دیتی ہے،نماز کا وقت پر ادا کرنا تمام اعمال سے افضل ہےاور نمازی کے لئے سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ اسے بروزِ قیامت اللہ پاک کا دیدار ہوگا ۔اسی ضمن میں نمازِ ظہر پر 5 فرامینِ مصطفے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ذکر کی جاتی ہیں،تاکہ ہر مسلمان اپنے ربِّ کریم اور پیارے نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ارشادات پڑھیں اور اس کی توفیق سے ان عمل کریں۔1۔حضرت عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:جس نے ظہر سے پہلے کی چار رکعتیں پڑھیں گویا اس نے تہجد کی چار رکعتیں پڑھیں۔ احادیث میں خاص ان کے بارے میں ارشاد ہے کہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو انہیں ترک کرے گا اسے میری شفاعت نصیب نہ ہوگی۔2۔حضور پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہر روز ظہر کے وقت جہنم کی آگ کو بھڑکایا جاتا ہے ۔جو بھی اہلِ ایمان اس نماز کو پڑھتا ہے اللہ کریم قیامت کے روز اس پر جہنم کی آگ کو حرام فرما دیتا ہے۔3۔پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: ظہر سے پہلے ایک ہی سلام کے ساتھ چار رکعتیں پڑھنے سے آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں۔4۔حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ عنہا سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم میرے گھر ظہر سے پہلے 4 رکعت پڑھتے، پھر باہر تشریف لے جاتے اور لوگوں کو بھی نماز پڑھاتے (یعنی فرض نماز پڑھاتیں)5۔حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ عنہا سے روایت ہے،حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم جب ظہر سے پہلے 4 رکعت نہ پڑھتے یعنی کسی وجہ سے نہ پڑھ پاتے تو ظہر کے فرضوں کے بعد پڑھتے۔

عبادت میں گزرے مری زندگانی کرم ہو کرم یا خدا یا الٰہی

عطا کر نمازوں کا جذبہ الٰہی گناہوں کی میرے مٹا دے سیاہی

اللہ پاک ہمیں پا بندیِ وقت کے ساتھ نمازیں ادا کرنے کی توفیق عطا فرما ئے۔اٰمین بجاہِ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


سرکارِ مدینہ، راحتِ قلب و سینہ، فیض گنجینہ، صاحبِ معطر پسینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک کی خاطر آپس میں محبت رکھنے والے جب باہم ملیں اور مصافحہ کریں اور نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پر درودِ پاک بھیجیں تو ان کے جدا ہونے سے پہلے دونوں کے اگلے پچھلے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔جیسا کہ ہم سب جانتی ہیں کہ نماز مسلمانوں پر فرض ہے۔نماز پڑھنے کے بارے میں ہم نے بہت کچھ سنا اور پڑھا ہے۔ آج ہم نمازِ ظہر کے متعلق پیارے مصطفی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے فرامین پڑھنے کی سعادت حاصل کریں گی۔1۔حضرت ابوذر رَضِیَ اللہُ عنہ فرماتے ہیں: ہم نبیِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ساتھ تھے، مؤذن نے ظہر کی اذان کہنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:ظہر ٹھنڈی کر لو، پھر اس نے اذان کہنے کا ارادہ کیا تو آپ نے فرمایا:ٹھنڈی کرلو، اسی طرح دو یا تین بار فرمایا،یہاں تک کہ ہم نے ٹیلوں کے سائے دیکھ لئے۔ پھر آپ نے فرمایا:گرمی کی شدت جہنم کے جوش مارنے سے ہوتی ہے، لہٰذا جب گرمی کی شدت ہو تو نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھو۔( ابو داؤد)2۔فرمانِ مصطفی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے:جو نمازِ ظہر کی پہلی چار سنتیں ادا کرتا ہے(یعنی جو نمازِ ظہر اہتمام کے ساتھ ادا کرتا ہے)اللہ پاک اس پر جہنم کی آگ حرام فرما دیتا ہے۔(ابوداؤد)3۔فرمانِ مصطفی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے:جو نمازِ ظہر کی سنتیں ادا کرتا ہے، اللہ پاک اس پر جنت کے دروازے کھول دیتا ہے۔(ابوداؤد)4۔فرمانِ مصطفی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے:نمازِ ظہر ادا کرنا یعنی اس کی پہلی چار رکعتیں ادا کرنا سحری کے وقت نوافل پڑھنے کے برابر ہے، یعنی تہجد پڑھنے کے برابر ہے۔(ابوداؤد)5۔فرمانِ مصطفی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے:نمازِ ظہر کے وقت نیک اعمال اللہ پاک کی بارگاہ میں پیش کئے جاتے ہیں۔ (ابوداؤد)


حدیثِ پاک :حضرت زید بن ثابت رَضِیَ اللہُ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ظہر کی نماز دوپہردن ڈھلتے پڑھ لیتے تھے اور رسولِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے صحابہ کرام علیہم الرضوان پر ان تمام نمازوں میں جووہ پڑھتے تھے، ظہر کی نماز سے زیادہ سخت کوئی نماز نہ تھی،چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی:ترجمہ:تم سب نمازوں کی خصوصاً درمیانی نماز کی محافظت (پابندی) کرو۔(البقرۃ: 238)حضرت زید بن ثابت رَضِیَ اللہُ عنہ فرماتے ہیں:ظہر کی نماز سے پہلے بھی دو نمازیں اور بعد میں بھی دو نمازیں ہیں۔(مسند امام احمد بحوالہ مشکاۃ المصابیح) فرامینِ مصطفی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:جو اللہ پاک سے اس حال میں ملا کہ اس نے نماز ضائع کی ہو تو اللہ پاک اس کی کسی نیکی کی پروا نہیں فرمائے گا۔(احیاء العلوم ،جلد اول) حضرت ابو قتادہ رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے:رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ہمیں ظہر اور عصر کی نماز پڑھاتے اورپہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ اوراس کے علاوہ کوئی دو اورسورتیں تلاوت فرماتے تھے اورکبھی ہمیں ایک آیتِ مبارکہ سناتے تھے اور ظہر کی پہلی رکعت لمبی اور دوسری چھوٹی ہوتی اور اسی طرح صبح کی نمازیں۔(مسلم)حضرت انس رَضِیَ اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں،رسولِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا معمول تھا کہ جب گرمی ہوتی تو آپ نمازِ ظہر دیر سے پڑھتے اور جب سردی ہوتی تو جلدی ادا فرماتے تھے۔(مشکوۃ المصابیح)نماز ایک عظیم نعمت ہے،جو پابندی کے ساتھ پڑھے گا وہ جنت کا حق دار ہوگا اور جو فرض نمازوں کو چھوڑ دے گا وہ عذابِ نار کا حق دار ہے۔ ترجمہ: تو ان کے بعد ان کی جگہ وہ ناخلف آئے جنہوں نے نمازیں گنوائیں اور اپنی خواہشوں کے پیچھے ہوئے تو عنقریب وہ دوزخ میں غی کا جنگل پائیں گے۔( مریم: 59)غی وادی کا نام: آیتِ مبارکہ میں غی کا تذکرہ ہے، اس پر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:غی جہنم کی وادی کا ایک نام ہے جس وادی کی گرمی اور گہرائی بہت زیادہ ہے، اس میں ایک کنواں ہے،جس کا نام ہب ہب ہے، جب جہنم کی آگ بجھنے پر آتی ہے تو اللہ پاک اس کنویں کو کھول دیتا ہے جس سے پہلے ہی کی طرح آگ بھڑکتی ہے۔(فیضان نماز)حدیث: جو ظہر سے پہلے چار رکعتیں اور اس کے بعد چار رکعتوں پر دوام اختیار کرتا ہے تو اللہ پاک اسے جہنم پر حرام قرار دے دیتا ہے۔(مشکوۃ المصابیح) حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ہمیں نماز ظہر پڑھائی، پچھلی صفوں میں کسی آدمی نے نماز میں خرابی کی، جب سلام پھیرا تو رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اسے بلایا:اےفلاں!کیا تم اللہ پاک سے نہیں ڈرتے؟ کیا تم نہیں دیکھتے کہ تم کیسی نماز پڑھتے ہو؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ تم جو کرتے ہووہ مجھ پر مخفی رہتا ہے ؟اللہ پاک کی قسم! میں جس طرح اپنے آگے دیکھتا ہوں، ویسے ہی اپنے پیچھے دیکھتا ہوں۔(مشکوۃ المصابیح)یا اللہ پاک! تمام مسلمانوں کو پنج وقتہ نمازوں کا پابند بنادے۔آمین


فرمانِ الٰہی ہے:صبر اور نماز کے ذریعے اللہ پاک سے مدد طلب کرو، یہ (نماز) بہت بھاری ہوتی ہے، سوائے ان لوگوں کے جو اللہ پاک سے ڈرنے والے ہیں۔(البقرۃ: 54) فرمانِ مصطفی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:حضرت جابر رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے،رسولِ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:بندے اور اس کے کفر کے درمیان فرق صرف نماز کا چھوڑنا ہے۔پانچوں نمازوں کی اہمیت و فضیلت:حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:پانچ نمازیں اور جمعہ آئندہ جمعہ تک کے گناہوں کا کفارہ ہے، بشرطیکہ کبیرہ گناہوں کا ارتکاب نہ کیا جائے۔اللہ پاک نے اپنے بندوں پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں،اللہ پاک نے اپنے پیارے محبوب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو پانچ نمازوں کا تحفہ معراج کے موقع پر دیا۔نماز ہر عاقل،بالغ مسلمان پر فرض ہے۔ہر نماز کی اپنی اپنی اہمیت و فضیلت ہے اور ہر نماز کو ترک کرنے کی اپنی اپنی وعید ہے۔ یہاں نمازِ ظہر کی اہمیت و فضیلت کو ذکرکیا جاتا ہے:1۔بخاری و مسلم میں حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ عنہ سے راوی،رسولِ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:ظہر کو ٹھنڈا کر کے پڑھو کہ سخت گرمی جہنم کے جوش سے ہے، دوزخ نے اپنے ربّ کے پاس شکایت کی:میرے بعض اجزاء بعض کو کھائے لیتے ہیں،اسے دو مرتبہ سانس لینے کی اجازت ہوئی،ایک جاڑے میں،ایک گرمی میں۔(بہار شریعت، صفحہ 450)2۔بزار نے ثوبان رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت کی:دوپہر کے بعد چار رکعت پڑھنے کو حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم محبوب رکھتے۔اُم المؤمنین صدیقہ رَضِیَ اللہُ عنہا نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم !میں دیکھتی ہوں کہ اس وقت میں آپ نماز پڑھنا محبوب رکھتے ہیں!تو فرمایا:اس وقت آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور اللہ پاک اپنی مخلوق پر نظرِ رحمت فرماتاہے ۔ یہ وہی نماز ہے جسے حضرت آدم ونوح و ابراہیم و موسیٰ و عیسیٰ علیہم السلام پابندی سے ادا کیا کرتے تھے۔(بہارشریعت،صفحہ665) 3۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے،آپ فرماتے ہیں:رسولِ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اگر لوگ جان لیں کہ اذان اور پہلی صف میں کیا ثواب ہے،پھر بغیر قرعہ ڈالے اسے نہ پا سکیں، تو قرعہ ہی ڈالیں ۔اگر جانتے کہ دوپہر کی نماز میں کیا ثواب ہے تو اس کی طرف دوڑ کر آتے اور اگر جانتے کہ عشا اور فجر میں کیا ثواب ہے تو ان میں گھسٹتے ہوئے پہنچتے۔(مراۃ المناجیح، جلد اول، صفحہ 382)شرح: اس حدیثِ پاک سے پتا لگا کہ فی سبیل اللہ اذان و تکبیر کہنا اور نماز کی صفِ اوّل میں خصوصاً امام کے پیچھے کھڑا ہونا بہت بہتر ہے، جس کی بزرگی بیان نہیں ہو سکتی، یعنی ہر شخص چاہے کہ یہ دونوں کام میں کروں تو ان میں جھگڑا پیدا ہو، جس سے قرعہ سے ہو، معلوم ہوا ! نیکیوں میں جھگڑنا بھی عبادت ہے اور قرآن سے جھگڑا چکانا محبوب، ظہر اور جمعہ کی نماز اگر کچھ دیر میں ہو،مگر اس کے لئے جلدی پہنچنا،تاکہ پہلی صفوں میں جگہ ملے بہت بہتر ہے۔ مدینہ پاک میں نمازِ ظہر کے لئے لوگ 11:00 بجے پہنچ جاتے ہیں، خصوصاً جمعہ کے دن یعنی اگر پاؤں میں چلنے کی طاقت نہ ہوتی توگھسٹتے ہوئے پہنچتے۔4۔ابو داؤد،ابنِ ماجہ ابو ایوب انصاری رَضِیَ اللہُ عنہ سے راوی،آپ فرماتے ہیں: رسولِ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ظہر سے پہلے چار رکعتیں، جن کے درمیان میں سلام نہ پھیرا جائے، ان کے لئے آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں۔(بہار شریعت، صفحہ 665)5۔امام احمدو ابوداؤد وترمذی ونسائی وابنِ ماجہ اُمّ المؤمنین اُمِّ حبیبہ رَضِیَ اللہُ عنہا سے راوی،رسولِ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:جو ظہر سے پہلے چار اور بعد میں چار رکعتوں پر محافظت کرے، اللہ پاک اس پر آگ حرام فرما دے گا۔(بہار شریعت، صفحہ 665)روزِ قیامت سب سے پہلے نماز کا حساب لیا جائے گا،اگر نماز کا معاملہ درست رہا تو دوسرے اعمالِ خیر بارگاہِ الٰہی میں مقبول ٹھہریں گے،ورنہ انہیں بھی ردّ کر دیا جائے گا اور اس کو خسارے اور نقصان کا منہ دیکھنا پڑے گا۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں پانچوں نمازیں فرائض، واجبات، سنت اور خشوع و خضوع کے ساتھ پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

میرا ہر عمل بس ترے واسطے ہو کر اخلاص ایسا عطا یا ربّ


ظہر کے بعد چار رکعتیں پڑھنا سنتِ مؤکدہ اور نفل ہیں۔حدیثِ پاک میں فرمایا:جس نے ظہر سے پہلے چار اور بعد میں چار پر محافظت کی، اللہ پاک اس پر آگ حرام فرما دے گا ۔علامہ سید طحطاوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:سرے سے آگ میں داخل ہی نہ ہو گا اور اس کے گناہ مٹا دیئے جائیں گے اور اس پرحقوق العباد(یعنی بندوں کے حق تلفیوں کے)جو مطالبات ہیں، اللہ پاک اس کے فریق کو راضی کر دے گا یا یہ مطلب ہے کہ ایسے کاموں کی توفیق دے گاجس پر سزا نہ ہو۔اورعلامہ شامی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:اس کے لئے بشارت ہے کہ سعادت پر اس کا خاتمہ ہو گااور وہ دوزخ میں نہ جائے گا۔(ردالمختار، ج2، ص547، مدنی پنج سورہ، ص292)1۔امام احمد، ترمذی حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ عنہ سے راوی،حضورِ اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں: نماز کے ليے اوّل و آخر ہے، اوّل وقت ظہر کا اس وقت ہے کہ آفتاب ڈھل جائے اور آخر اس وقت کہ عصرکاوقت آجائے۔( بہار شریعت، جلد اول، ص 446)2۔امام فقیہ ابو اللیث سمر قندی رحمۃُ اللہِ علیہ نے( تابعی بزرگ) حضرت کعب الاحبار رَضِیَ اللہُ عنہ سے نقل کیا،انہوں نے فرمایا:اے موسیٰ! ظہر کی چار رکعتیں احمد اور اس کی امت پڑھے گی،انہیں پہلی رکعت کے عوض بخش دوں گا اور دوسری کے بدلے ان(کی نیکیوں) کا پلہ بھاری کر دوں گا اور تیسری کے لئے فرشتے مؤکل ( یعنی مقرر)کر دوں گا کہ تسبیح(اللہ پاک کی پاکی) کریں گے اور ان کے لئے دعائے مغفرت کرتے رہیں گے اور چوتھی کے بدلے ان کے لئے آسمان کے دروازے کشادہ کر(یعنی کھول) دوں گا، بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں ان پر مُشتاقانہ(یعنی شوق بھری)نظر ڈالیں گی۔ (فیضان نماز، ص 86) 4۔بخاری ومسلم حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ عنہ سے راوی ،رسولِ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:ظہر کو ٹھنڈا کر کے پڑھو کہ سخت گرمی جہنم کے جوش سے ہے، دوزخ نے اپنے ربّ کے پاس شکایت کی:میرے بعض اجزاء بعض کو کھائے لیتے ہیں، اسے دو مرتبہ سانس لینے کی اجازت ہوئی، ایک جاڑے میں، ایک گرمی میں۔(بہار شریعت، جلد اول،صفحہ 446) 5۔صحیح بخاری شریف باب الاذان للمسافرین میں ہے:حضرت ابوذر رَضِیَ اللہُ عنہ کہتے ہیں:ہم رسولِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے، مؤذن نے اذان کہنی چاہی، فرمایا: ٹھنڈا کر، پھر قصد کیا، فرمایا:ٹھنڈا کر،یہاں تک کہ سایہ ٹیلوں کے برابر ہوگیا۔(بہار شریعت، جلد اول، صفحہ 446)


1۔طبرانی شریف میں ہے: امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللهُ عنہ سے راوی،حضور اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:جس نے ظہر کی نماز سے پہلے چار رکعتیں پڑھیں، گویا اس نے تہجد کی چار رکعتیں پڑھیں۔ 2۔در مختار میں ہے:اصح یہ ہے کہ سنتِ فجر کے بعد ظہر کی پہلی(چار)سنتوں کا مرتبہ ہے۔ حدیث میں خاص ان کے بارے میں ارشاد ہےکہ حضور اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو انہیں ترک کرے گااسے میری شفاعت نصیب نہ ہو گی۔ 3۔ ترمذی،ص 478 میں ہے:حضرت عبداللہ بن سائب بن صیفی مخزومی رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے:رسولِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم زوال کے بعد ظہر سے پہلے چار رکعتیں پڑھتے تھے، پھر فرماتے:اس وقت آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور میں پسند کرتا ہوں کہ(دربارِ الٰہی میں)میرا نیک عمل بلند(یعنی پیش)کیا جائے۔ 4۔ ترمذی،ص 428 میں ہے،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی زوجہ محترمہ سیدہ اُمّ حبیبہ رَضِیَ اللہُ عنہا سے روایت ہے:میں نے آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے سنا:جو ظہر سے پہلے چار اور ظہر کے بعد چار رکعتوں کی حفاظت کرے(یعنی یہ رکعتیں ہمیشہ پڑھے تو) الله پاک نے اسے آگ پر حرام قرار دیا ہے یعنی وہ جہنم کی آگ میں داخل نہیں ہوگا۔ 5۔ ترمذی،حدیث نمبر 379 میں ہے :آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس نے بارہ رکعت سنتوں پر ہمیشگی کی،اللہ پاک اس کے لئے جنت میں گھر بنائے گا،چار رکعات ظہر سے قبل اور دو رکعت ظہر کے بعد اور دو رکعت مغرب کے بعد اور دو رکعت عشا کے بعد اور دو رکعت فجر سے قبل۔


نماز مومن کی پہچان ہے۔ نماز رُوح کا سُرور اور آنکھوں کا نور ہے۔ مسلمانوں کو نماز بُرے کاموں اور بے حیائی سے روکتی ہے۔ مسلمانوں پر فرض نمازوں میں سے ایک نماز، نمازِ ظہر ہے۔ظہر کا ایک معنی ”ظَہِیْرَۃ(یعنی دوپہر)ہے، چونکہ یہ نماز دوپہر کے وقت ادا کی جاتی ہے، اس لئے اسے ظہر کی نماز کہا جاتا ہے۔جماعتِ ظہر کی فضیلت:سرکارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس نے ظہر کی نمازِباجماعت پڑھی،اس کے لئے اس جیسی پچیس نمازوں کا ثواب اور جنت الفردوس میں 70 درجات کی بلندی ہے۔(شعب الایمان، جلد 7، صفحہ 138، حدیث:9762)ایک اور مقام پر فرض نمازوں کی فضیلت بیان کرتے ہوئے نمازِ ظہر باجماعت ادا کرنے کے بارے میں فرمایا:جس نے ظہر کی نماز باجماعت پڑھی، اس کے لئے جناتِ عدن میں پچاس درجے ہوں گے،ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہوگا،جتنا ایک سدھایا ہوا تیز رفتار عُمدہ نسل کا گھوڑا پچاس سال میں طے کرتا ہے۔(شعب الایمان، جلد 7، صفحہ 137، حدیث:9761)ظہر کے آخری دو نفل کی فضیلت:ظہر کے بعد چار رکعت پڑھنا سنتِ مؤکدہ و نفل ہیں کہ حدیثِ پاک میں فرمایا:جس نے ظہر سے پہلے چار اور بعد میں چار پر محافظت کی، اللہ پاک اس پر آگ حرام فرما دے گا۔( نسائی، صفحہ 310، حدیث:1813)علامہ شامی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:اس کے لئے بشارت ہے کہ سعادت پر اس کا خاتمہ ہو گااور وہ دوزخ میں نہ جائے گا۔ظہر کا مسنون وقت:حضرت ابوذر غفاری رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے:انہوں نے کہا:ہم رسولِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ہمراہ سفر میں تھے، مؤذن نے اذان دینے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:ٹھنڈا کرویعنی وقت ٹھنڈا ہونے دو،اس نے پھر تھوڑی دیر کے بعد اذان دینے کا ارادہ کیا تو آپ نے فرمایا:ٹھنڈا ہونے دو،اس نے پھر تھوڑی دیر بعد اذان دینے کا ارادہ کیا تو آپ نے فرمایا:اور ٹھنڈا ہونے دو،یہاں تک کہ سایہ ٹیلوں کے برابر ہوگیا، پھر آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:گرمی شدت دوزخ کے جوش سے ہوتی ہے۔(بخاری1/87، باب الاذان-مسلم، باب اسحباب الابرار، ظہر1/430)جان بوجھ کر نماز چھوڑنا گناہ ہے:حکیم الامت مولانا مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:اگر نماز کے وقت اتفاقاً آنکھ نہ کھلے اور نماز قضا ہو جائے تو گناہ نہیں، گناہ تو اس میں ہے کہ انسان جاگتا رہے اور دانستہ نماز قضا کر دے۔ خیال رہے!وقت پر آنکھ نہ کھلنا اگر اپنی کوتاہی کی وجہ سے ہو، گناہ ہے، جیسے رات کو بلا وجہ دیر سے سونا، جس سے دن چڑھے آنکھ کھلے، یقیناً جُرم ہے۔ قرآنِ مجید میں ارشاد باری ہے:ترجمہ:بے شک نماز مسلمانوں پر وقت باندھا ہوا فرض ہے۔(النساء،5/103)یعنی نہ وقت کے پہلے صحیح، نہ وقت کے بعد تاخیر روا، بلکہ ہر نماز فرض ہے کہ اپنے وقت پر ادا ہو۔اللہ پاک ہمیں فرض نمازوں کی پابندی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


حضرت  عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ عنہما سے روایت ہے،سرکار مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: 1 : اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ پاک کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور حضرت محمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اس کی خاص بندے اور رسول ہیں، 2 :نماز قائم کرنا،3:زکوۃ دینا، 4:حج کرنا اور 5 :رمضان کے روزے رکھنا۔کلمہ اسلام کے بعد اسلام کا سب سے بڑا رکن نماز ہے جو ہر عاقل بالغ مسلمان مرد و عورت پر فرض عین ہے۔علامہ عبدالرؤف مناوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:پانچوں نمازوں میں سب سے افضل نماز نمازِ عصرہے،پھر نمازِ فجر،پھر عشاء،پھر مغرب،پھر ظہر۔ پانچ نمازوں کی جماعت میں افضل جماعت نمازِ جمعہ کی فجر اور پھر عشاء کی ہے۔( فیض القدیر،2/53)اللہ پاک نے مسلمانوں پر پانچ نمازیں فرض فرما کر مسلمانوں پر ہی احسان عظیم فرمایا۔ویسے تو پانچوں نمازیں ہی بہت زیادہ فضائل کی حامل ہیں اور ہر نماز کے الگ الگ فضائل احادیثِ مبارکہ سے ملتے ہیں،مگر یہاں پر نمازِ ظہر کے متعلق احادیث بیان کی جاتی ہیں:نمبر1:سرکارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس نے ظہر کی نماز باجماعت پڑھی اس کے لیے اس جیسی پچیس نمازوں کا ثواب اور جنت الفردوس میں ستر درجات کی بلندی ہے۔( شعب الایمان،7/138)نمبر2:حضرت ثوبان رَضِیَ اللہُ عنہ فرماتے ہیں: نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نصف النہار کے بعد نماز پڑھنا پسند فرمایا کرتے تھے۔اُم المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ عنہا نے عرض کی: یارسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم!میں دیکھتی ہوں کہ آپ اس گھڑی نماز پڑھنا پسند فرماتے ہیں!آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اس گھڑی میں آسمانوں کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور اللہ پاک اپنی مخلوق کی طرف نظرِ رحمت فرماتا ہے۔ یہ وہی نماز ہے جسے حضرت آدم،حضرت نوح،حضرت ابراہیم اور حضرت موسی و عیسی علیہم السلام پا بندی سے ادا فرماتے تھے۔( الترغیب وا لترہیب، 1/225)نمبر3:حضرت ابو ایوب رَضِیَ اللہُ عنہ روایت کرتے ہیں:حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: ظہر سے پہلے جو چار رکعتیں ایک سلام سے ادا کی جاتی ہیں ان کے لیے آسمانوں کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ایک اور روایت میں ہے:حضرت ابو ایوب رَضِیَ اللہُ عنہ فرماتے ہیں:جب نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم میرے یہاں قیام فرماتھے،آپ ظہر سے پہلے چاررکعت پابندی سے ادا فرمایا کرتے اور فرماتے:جب زوالِ شمس ہوتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں جو نماز ظہرکی ادائیگی تک بند نہیں ہوتے اورمیں پسند کرتا ہوں کہ اس گھڑی میں میری طرف سے کوئی خیر اٹھائی جائے۔(جنت میں لے جانے والے اعمال، ص 130 بحوالہ ابو داؤد)نمبر 4 : اُم المومنین حضرت اُمِّ حبیبہ رَضِیَ اللہُ عنہا فرماتی ہیں:میں نے نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے سنا: جو شخص ظہر سے پہلے اور بعد میں پابندی کے ساتھ چار چار رکعت ادا کرے گا اللہ پاک اس پر جہنم کو حرام فرما دے گا۔ ایک اور روایت میں بھی اس کے چہرے کو جہنم کی آگ نہیں چھو سکے گی۔( جنت میں لے جانے والے اعمال ،ص 129 بحوالہ مسند احمد)نمبر5:امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عنہ راوی:حضور اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:’’جس نے ظہر سے پہلے چار رکعتیں پڑھیں گویا اس نے تہجد کی چار رکعتیں پڑھیں ۔‘‘(طبرانی)اصح یہ ہے کہ سنتِ فجر کے بعد ظہر کی پہلی(چار)سنتوں کامرتبہ ہے ۔حدیث میں خاص ان کے بارے میں ارشادہے، چنانچہ حضور اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:’’ جو انہیں ترک کرے گا،اسے میری شفاعت نصیب نہ ہوگی۔‘‘ ( درمختار)اللہ پاک ہمیں پانچوں نمازیں پابندی وقت کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


نمازِ ظہر تاریخِ اسلام میں بڑی اہمیت کی حامل ہے۔حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت موسی علیہ السلام تک سب سے پہلے نماز ظہر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پڑھی،اپنے بیٹے کی جان محفوظ رہنے اور دنبہ قربان کرنے کےشکر میں ظہر کے چار فرض ادا کئے، اللہ پاک نے قیامت تک کے لئے یہ رکعتیں جو ایک پیارے کی اداتھیں، ان کو ظہر کے فرضوں کی شکل میں قیامت تک کے لئے باقی رکھا اور ایک روایت کے مطابق حضرت داؤد علیہ السلام نے سب سے پہلے نماز ظہر ادا کی۔ نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ہے:جو ظہر سے پہلے چار رکعت اور ظہر کے بعد چار رکعت پابندی سے پڑھتا ہے تو اللہ پاک اس پر جہنم کی آگ حرام فرما دیتا ہے۔(النسائی، 1817)

نبیِ کریمصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:جس کا مفہوم یہ ہے: ظہر کو ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو، کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کی بھاپ سے پیدا ہوتی ہے۔(مسلم،1390)نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:ظہر سے پہلے ایک ہی سلام کے ساتھ چار رکعتیں پڑھنے سے آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں۔( ابنِ ماجہ،1157)مطلب یہ کہ دعا کی قبولیت کا وقت ہے،آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور جو نیک اعمال ہیں، اس وقت اللہ پاک کے پاس بھی پیش ہوتے ہیں، آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم یہ پسند کرتے کہ میں اس وقت نماز پڑھوں، تاکہ میرے اعمال اللہ پاک کے پاس پہنچیں۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عنہ اس حدیث کے راوی ہیں،رسولِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: جس نے ظہر کی چار رکعتیں پڑھیں گویا اس نے تہجد کی چار رکعتیں پڑھیں۔( طبرانی)سنتِ فجر کے بعد ظہر کی پہلی چار سنتوں کا مرتبہ ہے،حدیث میں خاص اس کے بارے میں ارشاد ہے: رسولِ اکرمصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:جو انہیں ترک کرے گا، اسے میری شفاعت نصیب نہ ہوگی۔(در مختار)

نماز روزہ حج وزکوة کی توفیق عطا ہو اُمّتِ محبوب کو سدا یا ربّ


ایمان و تصحیحِ عقائد مطابق مذہبِ اہلِ سنت و جماعت کے بعد نماز تمام فرائض میں نہایت اہم و اعظم ہے۔احادیثِ نبی کریم علیہ الصلوة و التسلیم اس کی اہمیت سے مالامال ہیں،جابجا اس کی تاکید آئی اور اس کے تارکین پر وعید فرمائی،لہٰذا اس متعلق ایک حدیث مبارکہ ذکر کی جاتی ہے۔بیہقی حضرت عمر رَضِیَ اللہُ عنہ سے راوی،حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:جس نے نماز چھوڑ دی، اس کا کوئی دین نہیں، نماز دین کا ستون ہے۔(شعب الایمان، باب فی الصلوت، ج 3، ص 39،حدیث: 2807)پانچوں نمازیں اہمیت و فضیلت کی حامل ہیں اور ان کے متعلق بےشمار احادیثِ مبارکہ بیان کی جاتی ہیں،جن میں سے نمازِ ظہر کے متعلق چند فرامینِ مصطفیٰ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم درجہ ذیل ہیں:1۔امام احمد و ابو داؤد و ترمذی و نسائی و ابنِ ماجہ اُمّ المؤمنین اُمِّ حبیبہ رَضِیَ اللہُ عنہا سے راوی،رسولِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:جو ظہر سے پہلے چار اور بعد میں چار رکعتوں پر محافظت کرے،اللہ پاک اس کو آگ پر حرام فرمادے گا۔(نسائی، کتاب قیام اللیل۔الخ، باب الاختلاف علی اسماعیل بن ابی خالد، ص 310، حدیث: 1813)2۔ سنتِ ظہر کے فضائل پر ایک اور حدیث ِمبارکہ ہے:بزار نے ثوبان رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت کی :دوپہر کے بعد چار رکعت پڑھنے کو حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم محبوب رکھتے، اُمُّ المؤمنین صدیقہ رَضِیَ اللہُ عنہا نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم! میں دیکھتی ہوں کہ اس وقت میں حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نماز محبوب رکھتے ہیں!فرمایا: اس وقت آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور اللہ پاک مخلوق کی طرف نظرِ رحمت فرماتا ہے اور اس نماز پر آدم و نوح و ابراہیم و موسیٰ و عیسیٰ علیہم الصلوة و السلام محافظت کرتے۔(مسند البزار، مسند ثوبان ، ج 10، ص 102، حدیث :4166)3۔طبرانی براء بن عازب رَضِیَ اللہُ عنہ سے راوی،رسولِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:جس نے ظہر کے پہلے چار رکعتیں پڑھیں،گویا اس نے تہجد کی چار رکعتیں پڑھیں اور جس نے عشا کے بعد چار پڑھیں،تو یہ شبِ قدر میں چار کے مثل ہیں۔(معجم اوسط ، باب المیم، ج ص 102، حدیث: 6322)4۔بخاری و مسلم ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ عنہ سے راوی، رسولِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:ظہر کو ٹھنڈا کرکے پڑھو کہ سخت گرمی جہنم کے جوش سے ہے۔ دوزخ نے اپنے ربّ کے پاس شکایت کی:میرے بعض اجزاء بعض کو کھائے لیتے ہیں،اسے دو مرتبہ سانس کی اجازت ہوئی،ایک جاڑے میں،ایک گرمی میں۔(بخاری، کتاب مواقیت الصلوة، باب الابراد بالظہر فی شدة الحر، ج 1، ص 199،حدیث: 537۔538)5۔امام ابو داؤد و ابنِ ماجہ حضرت ابو ایّوب انصاری رَضِیَ اللہُ عنہ سے راوی،رسولِ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:ظہر سے پہلے چار رکعتیں جن کے درمیان میں سلام نہ پھیرا جائے،ان کے لئے آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں۔(ابو داؤد، کتاب التطوع، باب الاربع قبل الظہر و بعدھا،ج 2، ص 20 حدیث: 477)


نماز کی فضیلت کے متعلق احکامِ ربانی:اقيمواالصلٰوة و اتو االزكوة واركعوامع الركعين0 (پ1: 43)ترجمۂ کنزالایمان: نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ظہر کی نماز کے فضائل:امام فقیہ ابو اللّیث سمرقندی رحمۃُ اللہِ علیہ(تابعی بزرگ)حضرت کعب الاحبار رحمۃُ اللہِ علیہ سے نقل کیا،اُنہوں نے فرمایا:میں نے توریت کے کسی مقام میں پڑھا(اللہ پاک فرماتا ہے:)اے موسیٰ!ظہر کی چار رکعتیں احمد اور اس کی اُمت پڑھے گی انہیں پہلی رکعت کے عوض(یعنی بدلے)بخش دوں گا اور دوسری کے بدلے ان (کی نیکیوں) کا پلہ بھاری کردوں گا اور تیسری کے لیے فرشتے موکل (یعنی مقرر) کروں گا کہ تسبیح (یعنی اللہ پاک کی پاکی بیان) کریں گے اور ان کیلئے دعائے مغفرت کرتے رہیں گے اور چوتھی کے بدلے ان کیلئے آسمان کے دروازے کشادہ گر(یعنی کھول) دوں گا،بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں اُن پر مشتاقانہ(یعنی شوق بھری) نظر ڈالیں گی۔ نمازِ ظہر پر 5فرامین مصطفے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم۔ سیّدہ عائشہ رَضِیَ اللہُ عنہا سے روایت ہے،نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ظہر سے پہلے چار رکعتیں اور صبح کی نماز سے پہلے دو رکعتیں کبھی نہیں چھوڑتے تھے۔(بخاری ،ص1182)دوسری روایت میں ہے،آپ گھر میں ظہر سے پہلے چار رکعتیں پڑھتے تھے،پھر باہر جاکرلوگوں کو نماز پڑھاتے تھے۔ (مسلم،ص730،حدیث:1699) حضرت عبداللہ بن سائب بن صیفی مخزومی رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم زوال کے بعد ،ظہر سے پہلے چار رکعتیں پڑھتے تھے ، پھر فرماتے:اس وقت آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور میں پسند کرتا ہوں کہ(دربارِ الٰہی میں) میرا نیک عمل بلند(یعنی پیش) کیاجائے۔(ترمذی،ص478 )حضرت علی بن ابی طالب رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ظہر سے پہلے چار رکعتیں اور بعد میں دو رکعتیں پڑھتے تھے۔( ترمذی،ص598۔599۔ملخصاً)رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی زوجہ محترمہ سیدہ اُمِّ حبیبہ رَضِیَ اللہُ عنہا سے روایت ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:جو شخص ظہر سے پہلے چار اور ظہر کے بعد چار رکعتوں کی حفاظت کرے(یعنی یہ رکعتیں ہمیشہ پڑھے گاتو) اللہ پاک نے اسے آگ پر حرام قراردیا ہے،یعنی وہ جہنم کی آگ میں داخل نہیں ہوگا۔(ترمذی،ص 428 )


نمازِ ظہر پر 5فرامین مصطفے(1) عائشہ رَضِیَ اللہُ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ظہر سے پہلے چار رکعتیں اور صبح کی نماز سے پہلے دو رکعتیں کبھی نہیں چھوڑتے تھے۔(صحیح بخاری، صفحہ 1182)دوسری روایت میں ہے کہ آپ گھر میں ظہر سے پہلے چار رکعتیں پڑھتے تھے،پھر باہر جا کر لوگوں کو نماز پڑھاتے تھے۔(صحیح مسلم،ص730(1699)(2)رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی زوجہ محترمہ سیدہ اُمِّ حبیبہ رَضِیَ اللہُ عنہا سے روایت ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:مَنْ حَافَظَ عَلَى أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ قَبْلَ الظُّهْرِ وَ أَرْبَعٍ بَعْدَهَا حَرَّمَهُ اللَٰهُ عَلَى النَّارِ جو شخص ظہر سے پہلے چار اور ظہر کے بعد چار رکعتوں کی حفاظت کرے (یعنی یہ رکعتیں ہمیشہ پڑھے گاتو)اللہ پاک نے اسے آگ پر حرام قراردیا ہے،یعنی وہ جہنم کی آگ میں داخل نہیں ہوگا۔(ترمذی، ص 428 ) اس روایت کی سند حسن لذاتہ ہے اور اس کے بہت سے شواہد بھی ہیں جن کی وجہ سے یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے۔(3) علی بن ابی طالب رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے ،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ظہر سے پہلے چار رکعتیں اور بعد میں دو رکعتیں پڑھتے تھے۔( ترمذی، ص598۔599ملخصاً) (4)حضرت عبداللہ بن سائب بن صیفی مخزومی رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم زوال کے بعد ظہر سے پہلے چار رکعتیں پڑھتے تھے،پھر فرماتے:اس وقت آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور میں پسند کرتا ہوں کہ(دربارالٰہی میں) میرا نیک عمل بلند(یعنی پیش) کیاجائے۔(ترمذی،ص 478 وقال:حسن غریب وسندہ صحیح)(5)حضرت عمر رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنے حزب(یعنی اوراد واذکار) یا اس کے کسی حصے سے سویا رہ جائے تو نماز فجر اور نمازِ ظہر کے درمیان اسے پڑھ لے،اسے اسی طرح ثواب ملے گا جیسا کہ رات کو پڑھا ہے۔(مسلم،ص747)اس حدیث سے امام ابن ِ خزیمہ نے یہ استدلال کیا ہے کہ اگر تہجد کی نماز رہ جائے تو دن کوحدیث میں مذکورہ وقت میں پڑھ لیں۔(صحیح ابنِ خذیمہ، 2/قبل حدیث:1171)ان تمام روایات وآثار کا خلاصہ یہ ہے کہ ظہر سے پہلے چار رکعتیں(نوافل یاسنتیں)پڑھنا بالکل صحیح ہے۔امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عنہ راوی،حضور اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:’’جس نے ظہر کے پہلے چار رکعتیں پڑھیں گویا اس نے تہجد کی چار رکعتیں پڑھیں۔‘‘(طبرانی)2)اصح یہ ہے کہ سنتِ فجر کے بعد ظہر کی پہلی (چار) سنتوں کامرتبہ ہے ۔حدیث میں خاص ان کے بارے میں ارشادہے:حضور اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:’’ جو انہیں ترک کرے گا ،اسے میری شفاعت نصیب نہ ہوگی۔‘‘( درمختار)نمازِ ظہر کی رکعتیں تعداد:سنتِ مؤکدہ 4۔فرض 4۔سنتِ مؤکدہ 2۔نفل 2۔میزان 12۔ظہر کی نماز کا وقت آفتاب نصف النہار(عرفی ، حقیقی )سے ڈھلتے ہی شروع ہوتا ہے۔(فتاویٰ رضویہ،2/ 352)ظہر کا وقت امام اعظم ابوحنیفہ رَضِیَ اللہُ عنہ کے نزدیک ہر چیز کاسایہ اس کے سایہ اصلی کے علاوہ دو مثل ( ڈبل) نہ ہوجائے وہاں تک رہتاہے۔(فتاویٰ رضویہ،2/210)ضروری و اہم وضاحت :بہت لوگ ناواقفی کی وجہ سے ’’ زوال‘‘ کو وقتِ مکروہ ِ تحریمی کہتے ہیں۔اکثر لوگوں کو یہ کہتے سناگیا ہےکہ دوپہر کو زوال کا وقت ہی وقتِ ممنوع ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دوپہر کو جو وقتِ منوع ہے وہ وقت نصفُ النہار ہے ۔ نصفُ النہار کے وقت کوئی نماز جائز نہیں ۔ نہ فرض ، نہ واجب ،نہ سنت ، نہ نفل ، نہ ادا ، نہ قضا بلکہ اس وقت سجدہ ٔ تلاوت و سجدہ ٔ سہو بھی ناجائز ہے ۔