اے عاشقانِ نماز! آئیے! نمازِ ظہر پر 5 فرامینِ مصطفیٰ ملاحظہ فرمائیے اور اپنے دلوں میں نمازِ ظہر کی اہمیت کو اجاگرکیجئے:نمبر 01 : حضرت حارث رَضِیَ اللہُ عنہ روایت کرتے ہیں: حضرت عُثمان رَضِیَ اللہُ عنہ ایک دن تشریف فرما تھے اور ہم بھی بیٹھے تھے کہ مُؤذِّن آگیا، حضرت عُثمان رَضِیَ اللہُ عنہ نے پانی منگوا کر وُضو کیا، پھر فرمایا:میں نے نبیِّ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اسی طرح وضو کرتے دیکھا ہے۔میں نے سرکارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے بھی سُنا:جو شخص میرے اس وضو کی طرح وضو کرے،پھر وہ ظہر کی نماز پڑھ لے تواللہ پاک اس کے گناہوں کو معاف فرمادیتا ہے یعنی وہ گناہ جو فجر اور اس ظہر کی نماز کے درمیان ہوئے ہوں،پھر جب عصر کی نماز پڑھتا ہے تو ظہر اور عصر کے درمیان کے گناہوں کومعاف فرمادیتا ہے، پھر جب مغرب کی نماز پڑھتا ہے تو عصر اور مغرب کے درمیان کے گناہوں کو معاف فرمادیتا ہے، پھر عشاء کی نماز پڑھتا ہے تو اس کے اور مغرب کے درمیان کے گناہوں کو معاف فرمادیتا ہے،پھرہوسکتا ہے کہ رات بھر وہ لیٹ کر ہی گزار دے،پھر جب اٹھ کر وضو کرے اور فجر کی نماز پڑھے تو عشا اور فجر کے درمیان کے گناہوں کی بخشش ہوجاتی ہے اوریہی وہ نیکیاں ہیں جو بُرائیوں کو دُور کردیتی ہیں۔(الاحادیث المختارۃ،1/450،حدیث: 324ملتقطاً)نمبر 02: حدیثِ پاک میں فرمایا:جس نے ظہر سے پہلے چار اور بعد میں چار پر محافظت کی،اللہ پاک اس پر آگ حرام فرما دے گا۔ (نسائی،ص 310،حدیث: 1813)نمبر 03 : نبیِّ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا : جو دن رات میں 12 رکعتیں پڑھا کرے اس کے لئے جنّت میں گھر بنایا جائے گا ، چار رکعتیں ظہر سے پہلے ، دو رکعتیں ظہر کے بعد ، دو رکعتیں مغرب کے بعد ، دو رکعتیں عِشا کے بعد اور دو رکعتیں فجر سے پہلے۔ (ترمذی ، 1 / 423 ، حدیث : 414)نمبر 04 : فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم: ظہر سے پہلے کی چار رکعتیں تہجد کی نماز کے برابر ہیں۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ، 4/272،حدیث:5991)نمبر 05 :حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب گرمی سخت ہو تو ظہر کو ٹھنڈا کرو کہ شدت گرمی وسعت دم دوزخ سے ہے۔(بخاری ، 76/1)اللہ پاک ہمیں پانچوں نمازیں خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

نماز و روزہ وحج و زکوٰۃ کی توفیق عطا ہو اُمّتِ محبوب کوسدا یارب


اللہ کریم نے امتِ محمدی پر دن بھر میں پانچ نمازیں فرض فرمائی ہیں جن میں سے ہر نماز انتہائی فضیلت و اہمیت کی حامل اور اجر و ثواب کا باعث ہے، جبکہ ایک نماز بھی قصداً چھوڑدینا گناہِ کبیرہ، حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔فرمانِ آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے:اللہ پاک فرماتا ہے:میں نے تمہاری امت پر پانچ نمازیں فرض فرمائی ہیں اور ان کے بارے میں اپنے آپ سے عہد کیا ہے کہ جو ان (یعنی نمازوں) کو پابندی کے ساتھ ان کے وقت میں ادا کرے گا اسے جنت میں داخل کروں گا اور جو ان کو پابندی کے ساتھ ادا نہ کرے گا اس کیلئے میرے پاس کوئی عہد نہیں۔(ابو داؤد، 1/188،رقم 430)نمازِ ظہر دراصل حضرت ابراہیم خلیل اللہ علی نبینا و علیہ الصلوة و السلام کی یادگار ہے۔آپ نے اپنے فرزند (یعنی بیٹے) کی جان محفوظ رہنے اور دنبہ قربانی کرنے کے شکریے میں ظہر کے وقت چار رکعتیں ادا کیں تو یہ نمازِ ظہر ہوگئی۔(شرح معانی الآثار، 1 / 226 ،حدیث: 1014 ملخصاً / فیضانِ نماز، ص 30) ظہر کا ایک معنی ظہیرة (یعنی دوپہر) ہے۔ چونکہ یہ نماز دوپہر کے وقت پڑھی جاتی ہے، اس لئے اسے ظہر کی نماز کہا جاتا ہے۔ (فیضان نماز، ص 114) ذیل میں نمازِ ظہر سے متعلق فرامینِ مصطفیٰ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پیشِ خدمت ہیں:1:اگر لوگوں کو علم ہوجائے کہ ظہر کی نماز میں کتنا اجر ہے تو وہ اس کی طرف سبقت کریں گے۔ (بخاری،ص 615-مسلم،ص 437، رقم: 956)-(نعمۃ الباری،2/ 466)2:جب شدید گرمی ہو تو (ظہر کی) نماز کو ٹھنڈے وقت میں پڑھو کیونکہ گرمی کی شدت دوزخ کے جوش سے ہے۔( کبری، 1487-مسند احمد، 2 / 501)(نعمۃ الباری،2/ 366)یہ حکم استحبابی ہے۔ اس سے مقصود مشقت کو کم کرنا ہے۔(نعمۃ الباری،2/ 367 ملتقطا)3:نماز کے لیے اوّل و آخر ہے، اوّل وقت ظہر کا اس وقت ہے کہ آفتاب ڈھل جائے اور آخر اس وقت کہ عصرکاوقت آجائے۔ (ترمذی، حدیث: 151 ، 1 / 202)-(بہار شریعت، حصہ: 3 ،1/ 446)ظہر کی چار سنتوں کی فضیلت:4:جس نے زوال کے بعد چار رکعتیں پڑھیں ان میں اچھی طرح قرات کی اور رکوع و سجود کیا اس کے ساتھ ستر ہزار فرشتے نماز پڑھتے اور رات تک اس کیلئے استغفار کرتے ہیں۔ (قوت القلوب، 1/ 52)ظہر کے دو نفل کی فضیلت:5:جس نے ظہر سے پہلے چار اور بعد میں چار پر محافظت کی،اللہ پاک اس پر آگ حرام فرمادے گا۔(نسائی، ص 310 ،حدیث: 1813)علامہ شامی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اس کیلئے بشارت یہ ہے کہ سعادت پر اس کا خاتمہ ہوگا اور دوزخ میں نہ جائے گا۔(رد المحتار ،2 /547)-(مدنی پنج سورہ، ص 292)سبحن اللہ! ہمیں بھی چاہئے کہ ظہر سے قبل چار اور بعد میں دو سنتوں کے ساتھ ساتھ دو نفل بھی ضرور ادا کریں۔اللہ کریم ہمیں نمازِ ظہر سمیت پانچوں نمازیں پابندیِ وقت کے ساتھ ادا کرنے کی سعادت نصیب فرمائے۔ اٰمین بجاہِ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


فرمانِ الٰہی:اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا0۔ترجمہ:بے شک نماز مسلمانوں پر وقت باندھا ہوا فرض ہے۔ (پ5، النساء: 103)اور فرمانِ نبوی ہے:اللہ پاک نے بندوں پر پانچ نمازیں فرض کیں، جو انہیں باعظمت سمجھتے ہوئے مکمل شرائط کے ساتھ ادا کرتا ہے، اللہ پاک کااس کے ساتھ وعدہ ہے کہ وہ اس کو جنت میں داخل فرمائے گا اور جو انہیں ادا نہیں کرتا،اللہ پاک کا اس کے لئے کوئی وعدہ نہیں، چاہے تو اسے عذاب دے اور چاہے تو جنت میں داخل فرمائے۔(مکاشفہ القلوب، صفحہ 356)یوں تو ساری ہی نمازوں کے بے شمار فضائل ہیں، لیکن آئیے!نمازِ ظہر کی تعریف اور اس کی فضیلت کے متعلق پڑھئے اور پابندیِ وقت کے ساتھ ساری نمازیں ادا کرنے کی نیت کیجئے۔ظہر کا معنی:ظہر کا ایک معنی”ظَہِیْرَۃ(یعنی دوپہر)ہے، چونکہ یہ نماز دوپہر کے وقت ادا کی جاتی ہے،اس لئے اسے ظہر کی نماز کہا جاتا ہے۔آئیے! اب اس کے فضائل جانتی ہیں:1۔سرکارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے ظہر کی نماز باجماعت پڑھی،اس کے لئے اس جیسی 25 نمازوں کا ثواب اور جنت الفردوس میں 70 درجات کی بلندی ہے۔ (شعب الایمان، جلد 7، صفحہ 138، حدیث:9762)2۔حضور تاجدارِمدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ معظم ہے:جس نے ظہر سے پہلے چار اور بعد میں چار رکعتوں پر محافظت کی، اللہ پاک اس پر آگ حرام فرما دے گا۔( نسائی، صفحہ 31، حدیث:1813)3۔حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے: رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس دن گرمی ہو،اس دن نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھو، کیونکہ گرمی کی شدت دوزخ کی سانس سے ہے۔(شرح معانی الآثار،ص262،حدیث:1181)4۔حضرت اسامہ بن زید رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے،فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ظہر کی نماز دوپہر کے وقت پڑھتے۔(شرح معانی الآثار،ص259،حدیث:1153)5۔حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ عنہا سے روایت ہے،میں نے رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم،حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رَضِیَ اللہُ عنہما سے بڑھ کر ظہر کی نماز کو جلدی پڑھتے کسی ایک کوبھی نہیں دیکھا۔(شرح معانی الآثار،ص260،حدیث:1163)اللہ پاک ہمیں روزانہ پابندیِ وقت کے ساتھ پانچوں نمازیں ظاہری،باطنی آداب کے ساتھ، دلجمعی سے پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

پڑھتی رہو نماز کہ جنت میں جاؤ گی ہوگا وہ تم پہ فضل کہ دیکھتی ہی جاؤ گی


کلمہ اسلام کے بعد اسلام کا سب سے بڑا رکن نماز ہے۔ جس کا ادا کرنا ہر عاقل و بالغ مسلمان پر فرضِ عین و ضروری ہے۔ہر مسلمان پر دن میں پانچ نمازیں فرض ہیں۔ ہر نماز کے منفرد فضائل ہیں اور نہ پڑھنے پر وعیدات ہیں۔ان پانچ نمازوں میں ایک نمازِ ظہر بھی ہے۔آئیے! پہلے ظہر کا معنی ملاحظہ فرمائیے۔ظہر کا معنی اور وقت:ظہر کا ایک معنی ”ظَہِیْرَۃ(یعنی دوپہر)ہے،چونکہ یہ نماز دوپہر کے وقت ادا کی جاتی ہے، اس لئے اسے ظہر کی نماز کہا جاتا ہے، لہٰذا ہر نماز کو وقت پر ہی ادا کرنا چاہئے۔ارشادِ باری ہے:بے شک نماز مسلمانوں پر وقت باندھا ہوا فرض ہے۔مدینے کے تاجدار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے بار ہا نماز کی اہمیت پر زور دیا ہے اور ہماری ترغیب کے لئے بے شمار فضائل بھی بیان فرمائے ہیں اور احادیثِ مبارکہ میں نمازِ ظہر کے متعلق خصوصیات کے ساتھ ذکر آیا ہے۔ آئیے! نمازِ ظہر کے متعلق پانچ فرامینِ مصطفی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ملاحظہ فرمائیے:1۔سرکارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس نے ظہر کی نماز باجماعت پڑھی،اس کے لئے اس جیسی 25 نمازوں کا ثواب اور جنت الفردوس میں 70 درجات کی بلندی ہے۔(شعب الایمان، جلد 7، صفحہ 138، حدیث:9762)2۔حضرت اسامہ بن زید رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ظہر کی نماز دوپہر کے وقت پڑھتے۔(شرح معانی الآثار،ص259،حدیث:1153)3۔نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ہے :جس نے ظہر سے پہلے چار اور بعد میں چار پر محافظت کی،اللہ پاک اس پر آگ حرام فرما دے گا۔( نسائی، صفحہ 31، حدیث:1813)4۔حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے: رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس دن گرمی ہو،اس دن نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھو،کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کی سانس سے ہے۔(شرح معانی الآثار،ص262،حدیث:1181)5۔حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ عنہا سے روایت ہے،میں نے رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رَضِیَ اللہُ عنہما سے بڑھ کر ظہر کی نماز کو جلدی پڑھتے کسی ایک کو نہیں دیکھا۔(شرح معانی الآثار،ص260،حدیث:116)اللہ کریم ہمارے پیارے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے صدقے ہمیں پانچوں نمازوں کو ان کے وقت پر پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

تو پانچوں نمازوں کی پابند کردے پئے مصطفے ہم کو جنت میں گھر دے


نماز کی تعریف:نماز کو صلوٰۃ اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں سیدھا کرنے کا معنی پایا جاتا ہے، جیسے جب کوئی لکڑی(کی کجی) کو آگ کے ذریعے سیدھا کرتا ہے تو وہ کہتا ہے:صَلَّیْتَ الْعُوْدَ عَلَی النَّارِمیں نے لکڑی کو آگ پرسیدھا کیا۔یوں ہی نماز بندے کو اللہ پاک کی اطاعت و فرمانبرداری پر قائم اور سیدھا رکھتی اور اِس کی نافرمانی سے باز رکھتی ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ نماز کو صلوۃ اس لئے کہتے ہیں کہ یہ بندے اور اس کے ربّ کریم کے درمیان رابطہ ہے۔(دین و دنیا کی انوکھی باتیں، جلد 1، صفحہ 19) پارہ 18، سورۃ المؤمنین کی آیت 9، 10 اور 11 میں ارشاد ہوتا ہے:ترجمہ ٔکنزالایمان:اور وہ جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں، یہی لوگ وارث ہیں کہ فردوس کی میراث پائیں گے، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔(فیضان نماز، صفحہ8)قال رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:سرکارِ مدینہ، سلطانِ باقرینہ، قرارِ قلب و سینہ، فیضِ گنجینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ارشادِ حقیقت نشان ہے:قیامت کے دن بندے کے اعمال میں سب سے پہلے نماز کا سوال ہوگا،اگر وہ درست ہوئی تو اس نے کامیابی پائی،اگر اس میں کمی ہوئی تو وہ رُسوا ہوا اور اس نے نقصان اُٹھایا۔(کنزالعمال، جلد 7، صفحہ 115، رقم18883، اسلامی بہنوں کی نماز، صفحہ 79)میرے آقا اعلیٰ حضرت،امامِ اہلِ سنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ فتاویٰ رضویہ جلد 9، صفحہ 158تا159 پر فرماتے ہیں:ایمان تصحیحِ عقائد کے بعد جملہ حقوق اللہ میں سب سے اہم و اعظم نماز ہے، جس نے قصداً ایک وقت کی چھوڑی، ہزاروں برس جہنم میں رہنے کا مستحق ہوا، جب تک توبہ نہ کرے اور اس کی قضا نہ کرے، مسلمان اگر اُس کی زندگی میں اُسے بالکل چھوڑ دیں، اس سے بات نہ کریں، اس کے پاس نہ بیٹھیں، تو ضرور وہ اس کا سزاوار ہے۔(اسلامی بہنوں کی نماز، صفحہ 81)اے عاشقانِ نماز!زندگی برف کی مانند پگھل رہی ہے، کوئی نہ جانے کہ کب وقتِ اَجَل آ جائے، ہم اپنے حالات کا جائزہ لیں کہ کیا ہم پہلے سوال کے جواب کی تیاری کر چکے ہیں، جس کے بارے میں ہمیں بتا دیا گیا کہ سب سے پہلے نماز کا سوال ہوگا،جو مؤمن مردو عورت نماز کے پابند ہیں، اُن کا تو ان شاءاللہ بیڑا پار ہو جائے گا ۔بے نمازی کی سزائیں:نبیِ پاک، صاحبِ لولاک، سیاحِ افلاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:جو نماز کے معاملے میں سُستی کرےگا، اللہ پاک اُسے 15 قسم کی سزائیں دے گا، اِن میں سے چھ دنیا میں، تین موت کے وقت اور تین قبر میں اور تین قبر سے نکلنے کے بعد دے گا، دنیا و آخرت کی چند سزائیں یہ ہیں:1۔اللہ پاک اُس کی عمر سے برکت زائل کردے گا۔2۔اس کے چہرے سے نیک لوگوں جیسی نورانیت چھین لے گا۔3۔ذلیل ہو کر مرے گا۔4۔بھوکا مرے گا۔5۔اس کی قبر تنگ کردی جائے گی۔(فیضان سنت، صفحہ 983)اے بے نمازیو!اپنی ناتوانی پر ترس کھائیے اور سُستی بھگائیے، خوفِ خدا سے لرزئیے، سانس کی مالا ٹوٹ گئی تو صرف بے بسی اور افسوس رہ جائے گا اور پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔

بے نمازی کی نحوست ہے بڑی مر کے پائے گی سزا بے حد کڑی

نمازِ ظہر کس نبی نے سب سے پہلے ادا کی؟حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنے فرزند کے جان محفوظ رہنے اور دُنبہ کی قربانی کرنے کے شکریہ میں ظہر کے وقت چار رکعتیں ادا کیں تو یہ نمازِ ظہر ہوگئی۔نمازِ ظہر کا نام رکھنے کی وجہ:ظہر کا ایک معنی ہے:ظَہِیْرَۃ(یعنی دوپہر)، چونکہ یہ نماز دوپہر کے وقت پڑھی جاتی ہے،اس لئے اسے ظہر کی نماز کہا جاتا ہے۔(شرح مشکل الاثار للطحاوی، جلد 3، صفحہ 34،31، ملخصاً، فیضان رمضان، صفحہ 114)نمازِ ظہر پر 5 فرامین مصطفیٰ:ہر نماز کے بے شمار فضائل ہیں، نماز بھی اللہ پاک کا عظیم الشّان انعام ہے، ہر نماز بے انتہا فضائل سے مالامال ہے۔یہاں ظہر کی نماز کے پانچ فضائل پڑھنے کی سعادت حاصل کیجئے:1۔بخاری و مسلم میں حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ عنہ سے راوی،وہ فرماتے ہیں:ظہر کو ٹھنڈا کر کے پڑھو کہ سخت گرمی جہنم کے جوش سے ہے، دوزخ نے اپنے ربّ کے پاس شکایت کی کہ میرے بعض اجزاء بعض کو کھائے لیتے ہیں، اِسے دو مرتبہ سانس لینے کی اجازت ہوئی، ایک جاڑے میں، ایک گرمی میں۔(بہار شریعت، جلد اول، حصہ سوم، صفحہ 446)2۔صحیح بخاری شریف باب الاذان للمسافرین میں ہے:حضرت ابوذر رَضِیَ اللہُ عنہ کہتے ہیں:ہم رسولِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے، مؤذن نے اذان کہنی چاہی، فرمایا: ٹھنڈا کر، پھر قصد کیا، فرمایا:ٹھنڈا کر، پھر ارادہ کیا، فرمایا:ٹھنڈا کر،یہاں تک کہ سایہ ٹیلوں کے برابر ہوگیا۔(بہار شریعت، جلد اول، حصہ سوم، صفحہ 446)ظہر کی نماز باجماعت ادا کرنے والے کے لئے اس کے ہر ہرحرف کے بدلے ڈھیروں نیکیاں ہیں اور اس پر لازوال انعامات کی بارش ہوتی ہے، چنانچہ3۔حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ کہتے ہیں کہ سرکار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو شخص ظہر کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھے گا، اللہ پاک اس کو ہر ایک حرف کے بدلے میں جو اس کی زبان سے نکلا ہے، پانچ حوریں اور پانچ محل جنت میں عنایت فرمائے گا اور قیامت کے دن یہی نماز اُس کے پاس بُراق کی صورت میں آئے گی، جس پر وہ سوار ہو کر پل صراط سے چمکتی ہوئی بجلی کی طرح گزر جائے گا اور جنت میں داخل ہو گا۔ (فیضان سنت، ص997)سبحان اللہ۔4۔تاجدارِمدینہ، سُرورِ قلب و سینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو شخص نمازِ ظہر باجماعت پڑھے تو اللہ پاک اس کے فجر سے لے کر ظہر تک کے گناہ معاف فرما دے گا، اگر نمازِ عصر باجماعت پڑھے تو اُس وقت کے گناہ بخش دے گا اور اگر نمازِ مغرب جماعت کے ساتھ پڑھے تو عصر و مغرب تک کے سب گناہ بخش دیئے جائیں گے اور اگر عشاء کی نماز باجماعت پڑھے تو اس وقت تک کے سب گناہ معاف ہو جائیں گے اور اگر نمازِ صبح باجماعت پڑھے تو رات بھر کے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔ظہر کے آخری دو نفل کے بھی کیا کہنے:5۔ظہر کے بعد چار رکعت پڑھنا سنتِ مؤکدہ و نفل ہیں کہ حدیثِ پاک میں فرمایا:جس نے ظہر سے پہلے چار اور بعد میں چار پر محافظت کی، اللہ پاک اس پر آگ حرام فرما دے گا۔( ترمذی، جلد 1، صفحہ 436، حدیث 428)علامہ سید طحطاوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:سِرے سے آگ میں داخل ہی نہ ہو گا اور اس کے گناہ مٹا دیئے جائیں گے اور اس پر(بندوں کے حق تلفیوں کے)جو مطالبات ہیں،اللہ پاک اس کے فریق کو راضی کر دے گا یا یہ مطلب ہے کہ ایسے کاموں کی توفیق دے گا، جس پر سزا نہ ہو۔(حاشیہ الطحطاوی علی الدر المختار، جلد 1، صفحہ 284)علامہ شامی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:اس کے لئے بشارت ہے کہ سعادت پر اس کا خاتمہ ہو گااور وہ دوزخ میں نہ جائے گا۔(ردالمختار، ج2، ص547) اللہ پاک ہمیں نمازوں کی پابندی کا خیال رکھنے والا بنا کر ہر نماز کی فضیلت حاصل کرنے کی سعادت نصیب فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


ہر مسلمان عاقل و بالغ،مرد و عورت پر پانچ وقت کی نمازفرض ہے،اس کی فرضیت کا انکار کفر ہے،جو جان بوجھ کر ایک نماز چھوڑے گا وہ سخت گناہ گار اور عذابِ نار کا حق دار ہے۔

جنت اے بے نمازیو! کس طرح پاؤ گی؟ ناراض رب ہوا تو جہنم میں جاؤ گی

پنجگانہ نماز میں سے نمازِظہر کی اہمیت و فضیلت کو پڑھئے اور جھوم جائیے،مزید یہ بھی نیت کیجئے کہ آج کے بعد میری کوئی نماز قضا نہیں ہوگی۔ ان شاءاللہ ۔ظہر کا ایک معنی ہے”ظہیرہ“یعنی دوپہر کیونکہ یہ نماز دوپہر کے وقت پڑھی جاتی ہے اس لیے اسےظہر کی نماز کہا جاتا ہے۔سرکار ِمدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس نے ظہر کی نماز باجماعت پڑھی، اس کے لیے اس جیسی پچیس نمازوں کا ثواب اور جنت الفردوس میں ستر درجات کی بلندی ہے۔(شعب الایمان، جلد7، صفحہ138، حدیث:9762) حضرت حارث رَضِیَ اللہُ عنہ روایت کرتے ہیں:حضرت عثمان رَضِیَ اللہُ عنہ ایک روز تشریف فرما تھے اور ہم بھی ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں مؤذن آگیا، حضرت عثمان رَضِیَ اللہُ عنہ نے پانی منگوا کر وضو کیا، پھر فرمایا:میں نے مدنی آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اسی طرح وضو کرتے دیکھا ہے اور میں نے سرکار مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا:جو میرے اس وضو کی طرح وضو کرے پھر وہ ظہر کی نماز پڑھے تو اللہ پاک اس کے گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے یعنی وہ گناہ جو فجر کی نماز اور اس ظہر کی نماز کے درمیان ہوئے۔(الاحادیث المختارۃ، جلد1، صفحہ450، حدیث:324، ملتقطا)حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ ظہر کی نماز کے لئے سویرے جانے میں کیا ثواب ہے تو اس کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کریں اور اگر یہ جان جائیں کہ عشا اور صبح کی نماز کے فضائل کتنے ہیں تو گھٹنوں کے بل گھسیٹتے ہوئے ان کے لئےآئیں۔(بخاری،رقم:652)حضرت اُمِّ حبیبہ رَضِیَ اللہُ عنہا سے روایت ہے، فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: جو ظہر سے قبل چار رکعت اور اس کے بعد چار رکعت کی محافظت کرے تو اللہ پاک اسے آگ پر حرام فرما دے گا۔(رواہ ابوداؤد2/19، والترمذی428)حضرت عبداللہ بن سائب رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے:رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم زوالِ سورج کے بعد، ظہر سے پہلے چار رکعت نماز پڑھتے تھے اور فرماتے تھے:اس وقت میں آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں،پس مجھے پسند ہے کہ اس وقت میں میرا نیک عمل اوپر چڑھے۔(رواہ احمد3/411، والترمذی2/342)ہمیں بھی چاہئے کہ ہم ہر نماز کی محافظت کریں،اس کے فضائل پڑھ کر اس کی اہمیت کو اپنے دل میں اجاگر کریں، آئیے! نیت کرتی ہیں کہ آج کے بعد میری کوئی نماز قضا نہیں ہوگی۔ان شاءاللہ


یوں تو نمازِ پنجگانہ پڑھنے کے بے شمار فضائل و برکات ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہر نماز کے جداگانہ فضائل بھی ہیں، بے شک ہر نماز کی اپنی الگ حیثیت ہے، اسی طرح نمازِ ظہر بھی اپنے پڑھنے والوں کے لئے برکتوں اور فضیلتوں کی نوید لئے ہوئے ہے۔ ظہرکاایک معنی ہے:ظہیرۃ(یعنی دوپہر) چونکہ یہ نماز دوپہر کے وقت پڑھی جاتی ہے،اس لئے اسے ظہر کی نماز کہا جاتا ہے۔ (فیضانِ نماز،ص114)حضرت ابراہیم خلیلُ اللہ علیہ السّلام نے اللہ پاک کے حکم کی بجاآوری کے دوران اپنے فرزند کی جان محفوظ رہنے اور دُنبہ قربانی کرنے کے شکریہ میں ظہر کے وقت چار رکعتیں ادا کیں تو یہ نماز ظہر ہوگئی۔(شرح معانی الآثار،1/226، حدیث: 1014)ظہر کے وقت عام طور پر لوگ اپنے کام کاج، کاروبار، دفاتر وغیرہ میں مصروف ہوتے ہیں اور گھریلو خواتین گھر کے کام اور کھانا بنانے میں مصروف ہوتی ہیں، ان مصروفیات کو لے کر نماز میں سُستی کرنا دُرست نہیں، بلکہ اپنے شیڈول کو اس طرح ترتیب دیں کہ نماز کا حرج نہ ہو۔نمازِ ظہر کی اہمیت پر چند فرامینِ مصطفےٰ ملاحظہ کیجئے: (1)امیرُ المؤمنین حضرت عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ عنہ سےروایت ہے:جس نے ظہر سے پہلے چار رکعتیں پڑھیں، گویا اس نے تہجد کی چار رکعتیں پڑھیں۔(معجم اوسط، 4/386،حدیث:6332) (2)حضرت عائشہ صِدّیقہ رضی اللہُ عنہا سے مروی ہے کہ نبیِّ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم جب ظہر سے پہلے چار سنتیں نہ پڑھ پاتے تو انہیں بعد میں(یعنی ظہر کے فرض پڑھنے کے بعد) پڑھ لیا کرتے تھے۔ (ترمذی، 1/ 435، حدیث: 426)(3)فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے: جس نے ظہر کی نماز باجماعت پڑھی، اس کیلئے جنّتِ عدن میں پچاس درجے ہوں گے، ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہوگا، جتنا ایک سدھایا ہوا(یعنی تربیت یافتہ)تیز رفتار، عمدہ نسل کا گھوڑا پچاس سال میں طے کرتا ہے۔(شعب الایمان،7/138، حدیث:9761) (4)نبیِّ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس نے ظہر کی نماز باجماعت پڑھی،اس کے لئےاس جیسی پچیس نمازوں کا ثواب اور جنّتُ الفردوس میں ستر درجات کی بلندی ہے۔(شعب الایمان، 7/138،حدیث:9761) ہماری اکثریت نوافل اس لئے چھوڑ دیتی ہے کہ انہیں نہ پڑھنے پر کوئی گناہ نہیں ہے، لیکن یہ محرومی ہے۔ (5)نمازِ ظہر کی سنتیں اور نوافل پڑھنے کی بھی کیا ہی زبردست فضیلت ہے کہ حدیثِ پاک میں فرمایا: جس نے ظہر سے پہلے چار اور بعد میں چار(یعنی دو سنت اور دو نفل) پر محافظت کی، اللہ پاک اس پر (جہنم کی) آگ حرام فرما دے گا۔ (ترمذی، 1/436، حدیث: 428)سبحٰن اللہ! ہر نماز ہمارے لئے اللہ پاک کا تحفہ اور نعمت ہے جس میں ہمارے لئے دنیا و آخرت کی بھلائی ہے، اللہ پاک ہمیں پانچ وقت کا نمازی بنائے اور وقت پر نماز ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین


(1) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا جب گرمی زیادہ ہو تو نماز ظہر ٹھنڈے وقت پڑھا کرو کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کی بھاپ سے ہوتی ہے۔( صحیح بخاری ،حدیث:533)

(2) سخت گرمی میں ظہر کو ٹھنڈا کر کے پڑھنے کی فضیلت: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا گرمی آتش دوزخ کی لپٹوں میں سے ہے۔ اس لئے نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھو۔( بخاری)

(3) جب گرمی زیادہ ہو تو ٹھنڈی کرو اس کو نماز سے کہ جلن گرمی کی جہنم کی جوش سے ہے۔( جامع ترمذی،حدیث:157)

(4) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب گرمی کے دنوں کی نماز ظہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پڑھتے تو گرمی سے بچنے کے لئے ہم اپنے کپڑوں پر سجدہ کیا کرتے ۔(صحیح بخاری،حدیث:512)

(5) حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز ظہر ٹھنڈی کر کے پڑھو کیونکہ شدت گرمی، جہنم کے سانس لینے کی وجہ سے ہے۔( صحیح بخاری ،حدیث:508)


نماز کی اہمیت: باقی تمام فرائض زمین پر فرض ہوئے نماز عرش پر بلا کر فرض کی گئی ۔جس سے معلوم ہوا کہ نماز تمام عبادتوں سے افضل ہے۔اگر اُمّتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے نماز سے افضل کوئی تحفہ ہوتا تو اللہ پاک وہی دیتا۔ باقی تمام احکام حضرت جبرئیل علیہ السلام کے واسطے فرض ہوئے، لیکن نماز معراج کی رات بلاواسطہ عطا ہوئی اور پھر باقی ارکان ایسے ہیں جو اُمرا پر فرض ہیں غرباء پر فرض نہیں۔ جیسے زکوۃ، حج اور روزہ، مسافر اور بیمار پر فرض نہیں۔ لیکن نماز ہر ایک پر ہر حال میں فرض ہے۔ چاہے آدمی غریب ہو یا امیر، مسافر ہو یا مقیم ،بیمار ہو یا تندرست، نماز کسی حالت میں معاف نہیں۔

ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز

نہ کوئی بندہ رہا نہ بندہ نواز

بندہ وصاحب ومحتاج و غنی ایک ہوئے

تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے

روزے سال میں ایک مرتبہ، زکوٰۃ سال میں ایک مرتبہ، حج زندگی میں ایک مرتبہ، لیکن نماز، روزہ اور وہ بھی پانچ مرتبہ معلوم ہوا کہ نماز اللہ پاک کو بہت پیاری ہے۔

پھر ہر نماز کا وقت مقرر کیا گیا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے: اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا(۱۰۳)ترجَمۂ کنزُالایمان: بے شک نماز مسلمانوں پر وقت باندھا ہوا فرض ہے۔(پ 5،نساء:103)

وقت ظہر: آفتاب ڈھلنے سے اس وقت تک ہے کہ ہر چیز کا سایہ علاوہ سایہ اصلی کےدو چند ہو جائے۔(بہار شریعت)

(1) نماز ظہر کی فضیلت: سیدہ امّ حبیبہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جو شخص ظہر سے پہلے چار رکعت (سنت) ادا کرے اور اس کے بعد چار رکعت ادا کرے تو اللہ پاک اس پر جہنم کو حرام کر دے گا ۔(جامع ترمذی،جلد 1،حدیث:392)

(2) گرمی میں نماز ظہر کا حکم: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جب گرمی سخت ہو تو نماز (ظہر) ٹھنڈی کر کے پڑھو کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کی لپک ہے۔( سنن نسائی،جلد 1،حدیث:496)

(3) نماز ظہر ٹھنڈی کر کے پڑھو: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے مؤذن نے ظہر کی اذان کا ارادہ کیا تو آپ نے فرمایا :ٹھنڈا کرو۔ پھر ارادہ کیا تو آپ نے فرمایا ٹھنڈا کرو۔ دو یا تین بار فرمایا حتی کہ ہم نے ٹیلوں کا سایہ دیکھا ۔پھر فرمایا :بے شک گرمی کی شدت جہنم کی بھاپ سے ہے۔پس نماز (ظہر) کو ٹھنڈے وقت میں پڑھو۔( سنن ابو داؤد ،حدیث:401)

(4) سردی میں نماز ظہر کا حکم: حضرت خالد بن دینار نے روایت نقل کی ہے کہ میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب گرمی کا موسم ہوتا تو نماز ظہر ٹھنڈی کرکے پڑھتے اور جب موسم سرما ہوتا تو جلدی کرتے۔( سنن نسائی ،حدیث:495)

(5) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا اندازہ: حضرت اسود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا اندازہ گرمی کے موسم میں تین سے پانچ قدموں کا ہوتا اور سردیوں میں پانچ سے سات قدموں تک ہوتا تھا۔( یعنی سایہ)( سنن ابو داؤد ،حدیث:400)

(6) سفر میں نماز ظہر جلدی پڑھنا: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی جگہ پڑاؤ ڈالتے، اس جگہ سے کوچ نہ کرتے جب تک ظہر کی نماز نہ پڑھ لیتے۔ ایک آدمی نے پوچھا: اگرچہ نصف النہار کا وقت ہو؟ جواب دیا :اگرچہ نصف النہار کا وقت ہو۔( سنن نسائی ،حدیث:494)


(1) ام المؤ منین حضرتِ سیدتنا ام حبیبہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگار، شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختار، حبیبِ پروردگارصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو فرماتے ہوئے سنا کہ'' جو شخص پابندی کے ساتھ ظہر سے پہلے اور بعد میں چار چار رکعتیں ادا کریگا اللہ پاک اس پر جہنم کو حرام فرمادے گا ۔  (مسند احمد ،10/232،حدیث: 26825 ، بتغیر قلیل)

(2) حضرتِ سیدنا عبد اللہ بن سائب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آقائے کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم زوالِ شمس کے بعد ظہر سے پہلے چار رکعتیں ادا فرمایا کرتے اورارشاد فرماتے کہ یہ وہ گھڑی ہے جس میں آسمانوں کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں لہذا میں پسند کرتاہوں کہ اس گھڑی میں میر اکوئی نیک عمل آسمانوں تک پہنچے۔(مسند احمد ،2/250، حدیث: 15396،بتغیر قلیل)

(3) حضرتِ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا ، ''جس نے ظہر سے پہلے چار رکعتیں ادا کیں گویا کہ اس نے وہ رکعتیں رات کو تہجد میں ادا کیں اور جو چار رکعتیں عشاء کے بعد ادا کرے گا تویہ شب قدر میں چار رکعتیں ادا کرنے کی مثل ہیں۔'' (طبرانی اوسط ،4/386، حدیث:6332 )

(4) حضرتِ سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم نصف النہا ر کے بعد نماز پڑھنا پسند فرمایا کرتے تھے۔ ام المؤمنین حضرتِ سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہانے عرض کیا ،''یا رسول اللہ! میں دیکھتی ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس گھڑی میں نماز پڑھنا پسند فرماتے ہیں؟'' توارشاد فرمایا، ''اس گھڑی میں آسمانوں کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور اللہ پاک اپنی مخلوق پر نظرِ رحمت فرماتاہے اور یہ وہی نماز ہے جسے حضرتِ سیدنا آدم ونوح و ابراہیم و موسیٰ و عیسیٰ علیہم السلام پابندی سے ادا کیا کرتے تھے ۔'' (الترغیب والترہیب ،کتاب النوافل،الترغیب فی الصلوۃ قبل الظھر وبعدھا ،1/225،حدیث:5)

(5) حضرتِ سیدناقابوس رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میرے والد ِمحترم رضی اللہ عنہ نے مجھے ام المومنین حضرتِ سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے یہ پوچھنے کیلئے بھیجا کہ'' اللہ پاک کے مَحبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم کس نماز کو پابندی کے ساتھ اداکرنا پسند فرمایا کرتے تھے؟''تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ'' نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ظہر سے پہلے چار رکعتیں ادا فرمایا کرتے اور ان میں طویل قیام فرمایا کرتے اور ان رکعتوں کے رکوع وسجود نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ ادا فرماتے۔ ( سنن ابن ما جہ ، 2/39، حدیث: 1156) 


(1)  ام المؤ منین حضرتِ سیدتنا ام حبیبہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگار، شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختار، حبیبِ پروردگارصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو فرماتے ہوئے سنا کہ'' جو شخص پابندی کے ساتھ ظہر سے پہلے اور بعد میں چار چار رکعتیں ادا کریگا اللہ پاک اس پر جہنم کو حرام فرمادے گا ۔'' جبکہ ایک روایت میں ہے کہ'' اس کے چہرے کو جہنم کی آگ کبھی نہ چھوسکے گی۔'' (مسند احمد ،حدیث ام حبیبہ بنت ابی سفیان ،10/232،حدیث: 26825 ، بتغیر قلیل)

(2) حضرتِ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم، رسول اکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا ، ''جس نے ظہر سے پہلے چار رکعتیں ادا کیں گویا کہ اس نے وہ رکعتیں رات کو تہجد میں ادا کیں اور جو چار رکعتیں عشاء کے بعد ادا کرے گا تویہ شب قدر میں چار رکعتیں ادا کرنے کی مثل ہیں۔'' (طبرانی اوسط ،4/386، حدیث:6332 )

(3) حضرتِ سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر، دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَرصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم نصف النہا ر کے بعد نماز پڑھنا پسند فرمایا کرتے تھے۔ ام المؤمنین حضرتِ سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہانے عرض کیا ،''یا رسول اللہ! میں دیکھتی ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس گھڑی میں نماز پڑھنا پسند فرماتے ہیں؟'' توارشاد فرمایا، ''اس گھڑی میں آسمانوں کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور اللہ پاک اپنی مخلوق پر نظرِ رحمت فرماتاہے اور یہ وہی نماز ہے جسے حضرتِ سیدنا آدم ونوح و ابراہیم و موسیٰ و عیسیٰ علیہم السلام پابندی سے ادا کیا کرتے تھے ۔'' (الترغیب والترہیب ،کتاب النوافل،الترغیب فی الصلوۃ قبل الظھر وبعدھا ،1/225،حدیث:5)

(4) ا میرالمومنین حضرتِ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ، صاحبِ معطر پسینہ، باعثِ نُزولِ سکینہ، فیض گنجینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو فرماتے ہوئے سنا کہ'' زوال کے بعد ظہر سے پہلے چاررکعتیں اداکرنا صبح میں چا ر رکعتیں ادا کرنے کی طر ح ہے اور اس گھڑی میں ہر چیز اللہ پاک کی تسبیح بیان کرتی ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی: یَّتَفَیَّؤُا ظِلٰلُهٗ عَنِ الْیَمِیْنِ وَ الشَّمَآىٕلِ سُجَّدًا لِّلّٰهِ وَ هُمْ دٰخِرُوْنَ(۴۸) ترجَمۂ کنزُالایمان:اس کی پرچھائیاں داہنے اوربائیں جھکتی ہیں اللہ کو سجد ہ کرتی اور وہ اس کے حضور ذلیل ہیں۔'' (پ14 ، نحل : 48) (سنن ترمذی ، کتا ب التقدیر،با ب ومن سورۃ النحل،5/88 ،حدیث: 3139)

(5) حضرتِ سیدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورِ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا ، ''ظہر سے پہلے جوچار رکعتیں ایک سلام سے ادا کی جاتی ہیں ،ان کے لئے آسمانوں کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں ۔'' (سنن ابی داؤد ، کتاب التطوع ،با ب الاربع قبل الظھر،2/35، حدیث: 1270)

یا اللہ پاک ہمیں بھی ان فرامین مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر عمل کرتے ہوئے نماز ظہر سمیت پانچوں نمازیں وقت پر ہی ادا فرمانے کی توفیق عطا فرما اور باجماعت ادا فرمانے کی توفیق عطا فرما۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


(1) ہم سے ایوب بن سلیمان مدنی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوبکر عبدالحمید بن ابی اویس نے سلیمان بن بلال کے واسطہ سے کہ صالح بن کیسان نے کہا کہ ہم سے اعرج عبدالرحمن وغیرہ نے حدیث بیان کی۔ وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے تھے اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے مولیٰ نافع عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے اس حدیث کی روایت کرتے تھے کہ ان دونوں صحابہ رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب گرمی تیز ہو جائے تو نماز کو ٹھنڈے وقت میں پڑھو، کیونکہ گرمی کی تیزی جہنم کی آگ کی بھاپ سے ہوتی ہے۔(بخاری شریف،ص 303،حدیث:506)

(2) ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر محمد بن جعفر نے بیان کیا، ان سے شعبہ بن حجاج نے مہاجر ابوالحسن کی روایت سے بیان کیا، انھوں نے زید بن وہب ہمدانی سے سنا۔ انھوں نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤذن ( بلال ) نے ظہر کی اذان دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ٹھنڈا کر، ٹھنڈا کر، یا یہ فرمایا کہ انتظار کر، انتظار کر، اور فرمایا کہ گرمی کی تیزی جہنم کی آگ کی بھاپ سے ہے۔ اس لیے جب گرمی سخت ہو جائے تو نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو، پھر ظہر کی اذان اس وقت کہی گئی جب ہم نے ٹیلوں کے سائے دیکھ لیے۔(بخاری شریف،ص 303،حدیث:507)

(3) ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا کہا مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوصالح ذکوان نے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( کہ گرمی کے موسم میں ) ظہر کو ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو، کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کی بھاپ سے پیدا ہوتی ہے۔ اس حدیث کی متابعت سفیان ثوری، یحییٰ اور ابوعوانہ نے اعمش کے واسطہ سے کی ہے۔(بخاری شریف،ص 304،حدیث:509)

(4) ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے بنی تیم اللہ کے غلام مہاجر ابوالحسن نے بیان کیا، کہا کہ میں نے زید بن وہب جہنی سے سنا، وہ ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے تھے کہ انھوں نے کہا کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ مؤذن نے چاہا کہ ظہر کی اذان دے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وقت کو ٹھنڈا ہونے دو، مؤذن نے ( تھوڑی دیر بعد ) پھر چاہا کہ اذان دے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ٹھنڈا ہونے دے۔ جب ہم نے ٹیلے کا سایہ ڈھلا ہوا دیکھ لیا۔ ( تب اذان کہی گئی ) پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گرمی کی تیزی جہنم کی بھاپ کی تیزی سے ہے۔ اس لیے جب گرمی سخت ہو جایا کرے تو ظہر کی نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا یتفیئو ( کا لفظ جو سورہ نحل میں ہے ) کے معنے یتمیل ( جھکنا، مائل ہونا ) ہیں۔(بخاری شریف،ص 304،حدیث:510)

(5) ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انھوں نے کہا ہم سے خالد بن عبدالرحمن نے بیان کیا، انھوں نے کہا مجھ سے غالب قطان نے بکر بن عبداللہ مزنی کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے آپ نے فرمایا کہ جب ہم ( گرمیوں میں ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ظہر کی نماز دوپہر دن میں پڑھتے تھے تو گرمی سے بچنے کے لیے کپڑوں پر سجدہ کیا کرتے۔(بخاری شریف،ص 305،حدیث:513)