اللہ پاک نے لوگوں کی ہدایت و راہنمائی کے لئے اور گمراہی کے اندھیرے سے ہدایت کے نور کی طرف لانے اور ایمان لانے پر جنت کی بشارت اور کفر کرنے پر جہنم کی وعید سنانے کے لئے اپنے مقرب بندوں کو نبوت و رسالت کا عظیم منصب عطا فرما کر لوگوں کی طرف بھیجا ۔ ان میں سب سے پہلے حضرت نوح علیہ السّلام کو رسول بنا کر بھیجا۔(مسلم، ص103، حدیث:475)آپ علیہ السّلام نے کئی سالوں تک اپنی قوم کو راہِ ہدایت پر لانے کی کوشش کی مگر چند گِنے چُنے لوگ ہی راہِ راست پر آئے۔آپ علیہ السّلام کو اللہ پاک نے عظیم اوصاف سے نوازا تھا جن میں سے چند آیاتِ قراٰنیہ کی روشنی میں یہاں ذکر کئے جاتے ہیں:

(1) شکر گزار: حضرت نوح علیہ السّلام اللہ پاک کا بہت شکر ادا کیا کرتے تھے ۔اللہ پاک نے قراٰن پاک میں ان کے اس وصف کو یوں بیان فرمایا: ﴿ اِنَّهٗ كَانَ عَبْدًا شَكُوْرًا(۳) ترجَمۂ کنزُالایمان: بے شک وہ بڑا شکر گزار بندہ تھا۔(پ15، بنیٓ اسرآءِیل: 3) حضرت نوح علیہ السّلام کو بطورِ خاص شکر گزار بندہ فرمانے کی وجہ یہ ہے کہ آپ علیہ السّلام جب کوئی چیز کھاتے ،پیتے یا لباس پہنتے تو اللہ پاک کی حمد کرتے اور ا س کا شکر بجا لاتے تھے۔(خازن، بنیٓ اسرآءِیل ، تحت الآیۃ: 3،3 / 117 )

(2) امانتدار: آپ علیہ السّلام امانتوں کے محافظ تھے، چنانچہ آپ علیہ السّلام نے اپنی قوم سے فرمایا: ﴿ اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌۙ(۱۰۷)ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک میں تمہارے لیے ایک امانتدار رسول ہوں۔(پ19، الشعرآء: 107) حضرت نوح علیہ السّلام کی امانت داری آپ کی قوم کو اسی طرح تسلیم تھی جیسا کہ سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی امانت داری پر عرب کو اتفاق تھا۔ ( مدارک، الشعرآء، تحت الآیۃ: 107، 2/572)

(3) کامل الایمان:آپ علیہ السّلام اللہ پاک کے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں میں سے تھے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:﴿ اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۸۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک وہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے کاملُ الایمان بندوں میں ہے۔(پ23، الصّٰٓفّٰت:81)

(4) مبلغ: آپ علیہ السّلام کا وصفِ تبلیغ قراٰنِ کریم میں یوں بیان ہوا: ﴿ اِنَّاۤ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖۤ اَنْ اَنْذِرْ قَوْمَكَ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱) ترجمۂ کنزالایمان: بے شک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا کہ ان کو ڈرا اس سے پہلے کہ ان پر دردناک عذاب آئے۔ (پ29،نوح:1) آپ علیہ السّلام سب سے پہلے رسول ہیں جنہوں نے کفار کو تبلیغ کی۔ (روح البیان، نوح، تحت الآیۃ: 10،1/ 171)

(5)ذکر جمیل:آپ علیہ السّلام کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ اللہ پاک نے آپ کے بعد والوں (انبیا و رُسل و اُمم) میں آپ علیہ السّلام کا ذکرِ جمیل باقی رکھا۔ اللہ پاک فرماتا ہے: ﴿وَ تَرَكْنَا عَلَیْهِ فِی الْاٰخِرِیْنَ٘ۖ(۷۸)ترجمۂ کنز الایمان: اور ہم نے پچھلوں میں اس کی تعریف باقی رکھی۔ (پ23،الصّٰفّٰت:78)

پیارے اسلامی بھائیو! آپ نے پڑھا کہ حضرت نوح علیہ السّلام اللہ پاک کے بہت زیادہ شکر گزار،امانتدار ، اعلیٰ درجے کےکامل ایمان والے اور سب سے پہلے کفار کو تبلیغ فرمانے والے تھے ۔

اللہ پاک ہمیں بھی یہ اوصاف نصیب فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


حضرت نوح علیہ السّلام کا مختصر تعارف: حضرت نوح علیہ السّلام کا اسمِ گرامی یشکر یا عبدُ الغفار ہے آپ دنیا میں چوتھے نبی اور پہلے رسول تھے۔ آپ کو آدم ثانی بھی کہا جاتا ہے کیونکہ طوفان نوح کے بعد آپ ہی سے نسل انسانی چلی۔ آپ علیہ السّلام حضرت ادریس علیہ السّلام کے پڑپوتے تھے۔ آپ کا لقب ’’نوح‘‘ اس لئے ہو اکہ آپ کثرت سے گریہ و زاری کیا کرتے تھے ، چالیس یا پچاس سال کی عمر میں نبوت سے سرفراز فرمائے گئے۔

اللہ پاک نے قراٰن میں کئی مقامات پر حضرت نوح علیہ الصلوۃ و السّلام کے اوصاف بیان فرمائے ہیں۔ جن میں سے چند درج ذیل ہیں:۔

(1)شکر گزار بندہ۔ اِنَّهٗ كَانَ عَبْدًا شَكُوْرًا(۳) ترجَمۂ کنزُالایمان: بیشک وہ بڑا شکر گزار بندہ تھا۔(پ15، بنیٓ اسرآءیل: 3) اللہ نے آپ کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ آپ اللہ پاک کے بہت شکرگزار بندے تھے۔

تفسیر خازن میں علامہ آلوسی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں : حضرت نوح علیہ السّلام کو بطورِ خاص شکر گزار بندہ فرمانے کی وجہ یہ ہے کہ آپ علیہ السّلام جب کوئی چیز کھاتے ،پیتے یا لباس پہنتے تو اللہ پاک کی حمد کرتے اور ا س کا شکر بجا لاتے تھے۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: 3، 3 / 161)

(2)امانتدار رسول: اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌۙ(۱۰۷) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک میں تمہارے لیے ایک امانتدار رسول ہوں۔(پ19، الشعراء: 107)

اس آیت مبارکہ کے تحت تفسیر مدارک میں ذکر ہے۔ حضرت نوح علیہ السّلام کی امانت داری آپ کی قوم کو اسی طرح تسلیم تھی جیسا کہ سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی امانت داری پر عرب کو اتفاق تھا۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: 107، ص 825)

(3)سب سے پہلے رسول: اِنَّاۤ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖۤ اَنْ اَنْذِرْ قَوْمَكَ ترجَمۂ کنزُالایمان: بے شک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا کہ ان کو ڈرا ۔(پ29،نوح:1)

اس آیت مبارکہ کے تحت تفسیر سمر قندی میں ہے۔ حضرت نوح علیہ السّلام وہ سب سے پہلے رسول ہیں جنہوں نے کفار کو تبلیغ کی اور سب سے پہلے آپ علیہ السّلام کی قوم پر ہی دُنْیَوی عذاب آیا۔(سمر قندی، نوح، تحت الآیۃ: 1، 3 / 406)

(4) آپ کے بعد تمام انبیا آپ کی اولاد میں سے ہیں۔ وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا وَّ اِبْرٰهِیْمَ وَ جَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِهِمَا النُّبُوَّةَ وَ الْكِتٰبَ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور بےشک ہم نے ابراہیم اور نوح کو بھیجا اور اُن کی اولاد میں نبوّت اور کتاب رکھی ۔(پ27،الحدید: 26)

اس کی تفسیر میں ابو حیان محمد بن یوسف اندلسی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں ’’ حضرت ابراہیم علیہ السّلام چونکہ حضرت نوح علیہ السّلام کی اولاد میں سے ہیں ا س لئے شرفِ نبوت ان دونوں کی اولاد میں ہونا صادق آیا۔ (البحر المحیط، الحدید، تحت الآیۃ:26، 8 / 226)

(5)حضرت نوح علیہ السّلام کی عمر کا تذکرہ: وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ فَلَبِثَ فِیْهِمْ اَلْفَ سَنَةٍ اِلَّا خَمْسِیْنَ عَامًاؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور بےشک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تو وہ ان میں پچاس سال کم ہزار برس رہا۔(پ20،العنکبوت : 14)

بیشک ہم نے آپ سے پہلے حضرت نوح علیہ السّلام کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو وہ ان میں پچاس سال کم ایک ہزار (یعنی 950) سال رہے، اس پوری مدت میں انہوں نے قوم کو توحید اور ایمان کی دعوت دینے کا عمل جاری رکھا اور ان کی طرف سے پہنچنے والی سختیوں اور ایذاؤں پر صبر کیا۔(البحر المحیط، العنکبوت، تحت الآیۃ: 14، 7 / 140، خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: 14، 3 / 447، ملتقطاً)


اللہ پاک کا کروڑہا کروڑ احسانِ اعلٰی کہ جس نے بنی نوع  انسان کی ہدایت کے لیے نزولِ انبیائے کرام علیہم السّلام کا اہتمام فرمایا، اور ہر نبی پر اپنی رحمت و نوازشات کا سایہ فرماتے ہوئے انہیں اوصافِ حمیدہ سے مزین فرمایا کہ تمام بنی نوع انسان کے لیے سر چشمۂ ہدایت ہوئے اور زندگی کو تاریکی سے نور کی طرف لے جانے کے لیے صراطِ مستقیم ٹھہرے۔ انہیں اعلٰی حضرات میں سے ایک حضرتِ نوح علیہ السّلام کی ذاتِ بابرکات ہے جنہیں اللہ پاک نے عظیم صفات سے نوازا اور بنی نوع انسان کے لیے ان صفات کو سبق کا سامان فرمایا۔ قراٰنِ مجید میں اللہ پاک نے جن صفاتِ نوح علیہ السّلام کو ذکر فرمایا۔ وہ مندرجہ ذیل ہیں:

(1)اعلٰی درجے کا کامل ایمان: حضرتِ نوح علیہ السّلام بہت ہی اعلٰی ، پختہ و کامل ایمان کے حامل تھے۔ جیسا کہ فرمانِ باری ہے: اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۸۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک وہ ہمارے اعلٰی درجہ کے کاملُ الایمان بندوں میں ہے۔(پ23، الصّٰٓفّٰت:81)

(2)شکر گزار : آپ علیہ السّلام انتہائی شاکر تھے کہ اللہ پاک نے آپ علیہ السّلام کے شکر کی مثال دے کر لوگوں کو شکرِ خداوندی کا درس دیا ، جیسا کہ ارشاد فرمایا: اِنَّهٗ كَانَ عَبْدًا شَكُوْرًا (۳) ترجَمۂ کنزُالایمان: بیشک وہ بڑا شکر گزار بندہ تھا۔(پ15، بنی اسرآءیل: 3) تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ : حضرت نوح علیہ السّلام کو بطورِ خاص شکر گزار بندہ فرمانے کی وجہ یہ ہے کہ آپ علیہ السّلام جب کوئی چیز کھاتے ،پیتے یا لباس پہنتے تو اللہ پاک کی حمد کرتے اور ا س کا شکر بجا لاتے تھے۔( صراط الجنان،5/419)

اس عظیم ہستی کی سیرت کے صرف دو پہلو پر ہی نظر کی جائے تو اچھی زندگی گزارنے کا ایک اچھا نمونہ ملتا ہے کہ انسان کامل اور مضبوط ایمان والا بنے کہ صرف زبان سے مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا نہ پھرے بلکہ اپنے عمل کے ذریعے کامل ایمان ہونے کا ثبوت دے تاکہ اللہ پاک اسے بلند درجہ ایمان والوں میں رکھے۔ دوسرا کامل مؤمن کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ خدا کا شکرگزار بندہ بنے۔ شکر گزاری کی فضیلت خود ربِ ذوالجلال ارشاد فرماتا ہے کہ: لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ ۔ ترجمۂ کنزالعرفان: اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گا۔(پ13،ابراھیم:7) اور شکر کی فضیلت بیان کرتے ہوئے حضور خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک جب کسی قوم سے بھلائی کا اِرادہ فرماتا ہے توان کی عُمر دراز کرتا ہے اور انہیں شکر کا الہام فرماتا ہے۔(فردوس الاخبار، باب الالف، 1/148، حدیث: 954) گویا کہ بندے کا شکر گزار ہونا بھی اللہ پاک کا خاص کرم ہے اور بندہ جب کسی نعمت پر شکر گزاری کرتا ہے تو رب کریم اسے وہ نعمت اور زیادہ عطا فرماتا ہے۔

اللہ پاک ہمیں انبیائے کرام علیہم السّلام کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین 


حضرت آدم علیہ السّلام کے دنیا سے وصالِ ظاہری فرمانے کے بعد اللہ پاک نے اپنے اُولُو الْعَزم رسولوں میں سے ایک رسول حضرت نوح علیہ السّلام کو دنیا میں مبعوث فرمایا تاکہ آپ لوگوں تک دعوت اِلَی اللہ کا فریضہ انجام دیں۔ اللہ پاک نے حضرت نوح علیہ السّلام کو بہت سے اوصافِ حمیدہ اور عظیم الشان نعمتیں عطا فرمائیں۔ آپ علیہ السّلام اللہ پاک کے سب سے پہلے رسول ہیں۔(مسلم، ص103، حدیث:475) اور آپ آدمِ ثانی کے لقب سے بھی مشہور ہیں کیونکہ طوفانِ نوح میں فقط آپ علیہ السّلام کی قوم کے کچھ لوگ باقی رہ گئے تھے جو کشتی میں سوار تھے اور انہی سے نوعِ انسان کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ آپ صائمُ الدھر (یعنی عید الفطر و عید الاضحیٰ کے علاوہ ہمیشہ روزہ رکھا کرتے) تھے، (سیرت الانبیاء، ص161 ملخصاً) آپ علیہ السّلام کا نام یشکریا عبدالغفّار (صراط الجنان، 3/347) اور آپ کا مبارک لقب ”نوح“ ہے۔ یہ لقب آپ کا اس لئے رکھا گیا کیونکہ آپ اللہ پاک کے خوف کے سبب اس کی بارگاہ میں کثرت کے ساتھ گریہ وزاری کیا کرتے تھے۔اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السّلام کا قراٰنِ مجید میں کئی مقامات پر ذکر فرمایا ہے۔آیئے حضرت نوح علیہ السّلام کے 5 قراٰنی اوصاف پڑھتے ہیں :

(1)دعوتِ دین پر استقامت:آپ علیہ السّلام 950 سال سے زائد اپنی قوم میں تشریف فرما رہے۔اور آپ اتنے طویل عرصے تک اپنی قوم کو استقامت کے ساتھ دین کی دعوت دیتے رہے، اس دوران آپ نے سخت آزمائشوں اور تکالیف کا سامنا بھی کیا۔ اللہ پاک قراٰنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ فَلَبِثَ فِیْهِمْ اَلْفَ سَنَةٍ اِلَّا خَمْسِیْنَ عَامًاؕ-فَاَخَذَهُمُ الطُّوْفَانُ وَهُمْ ظٰلِمُوْنَ(۱۴) ترجَمۂ کنز العرفان: اور بیشک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تو وہ ان میں پچاس سال کم ایک ہزار سال رہے پھر اس قوم کو طوفان نے پکڑ لیا اور وہ ظالم تھے۔ (پ20، العنکبوت: 14)آپ علیہ السّلام کا یہ وصف قراٰنِ پاک کی اس آیت سے روز ِ روشن کی طرح عیاں ہے۔

(2)شکر گزار بندہ:اللہ پاک قراٰنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿ذُرِّیَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍؕ-اِنَّهٗ كَانَ عَبْدًا شَكُوْرًا(۳)ترجَمۂ کنز الایمان: اے ان کی اولاد جن کو ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا ہے بے شک وہ بڑا شکر گزار بندہ تھا۔ (پ15،بنیٓ اسرآءِیل: 3)

(3)نبوت و کتاب:اللہ پاک نے نبوت وکتاب آپ کی اولاد میں رکھی یعنی آپ علیہ السّلام کے بعد دنیا میں جتنے نبی مبعوث ہوئے وہ سب آپ کی اولاد میں سے تھے اور تمام آسمانی کتابیں بھی آپ علیہ السّلام کی اولاد میں مشہور ہستیوں کو عطا ہوئیں۔ قراٰنِ کریم میں ارشاد ہوتا ہے: ﴿وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا وَّاِبْرٰهِیْمَ وَجَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِهِمَا النُّبُوَّةَ وَالْكِتٰبَ ترجَمۂ کنز الایمان : اور بے شک ہم نے ابراہیم اورنوح کو بھیجا اور اُن کی اولاد میں نبوّت اور کتاب رکھی۔ (پ27،الحدید: 26)

(4)ذکرِ جمیل:آپ علیہ السّلام کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ آپ کے بعد والوں (انبیا و رُسل و اُمم) میں آپ علیہ السّلام کا ذکرِ جمیل باقی رکھا۔ اللہ پاک فرماتا ہے: ﴿وَ تَرَكْنَا عَلَیْهِ فِی الْاٰخِرِیْنَ٘ۖ(۷۸)ترجَمۂ کنز الایمان : اور ہم نے پچھلوں میں اس کی تعریف باقی رکھی۔ (پ23،الصّٰفّٰت:78)

(5)کامل الایمان بندے:قراٰنِ کریم میں ہے: ﴿اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۸۱) ترجَمۂ کنز الایمان : بے شک وہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل الایمان بندوں میں ہے۔(پ23،الصّٰفّٰت:81)

محترم قارئین! ہمیں بھی چاہئے کہ انبیائے کرام علیہمُ السّلام کی سیرت کا ذوق و شوق کے ساتھ مطالعہ کریں اور ان کی مبارک صفات و عادات کو اپنائیں تاکہ ہماری روح سے انبیائے کرام کی محبت جھلکتی نظر آئے۔