حضرت نوح علیہ السّلام کا مختصر تعارف: حضرت نوح علیہ السّلام کا اسمِ گرامی یشکر یا عبدُ الغفار ہے آپ دنیا میں چوتھے نبی اور پہلے رسول تھے۔ آپ کو آدم ثانی بھی کہا جاتا ہے کیونکہ طوفان نوح کے بعد آپ ہی سے نسل انسانی چلی۔ آپ علیہ السّلام حضرت ادریس علیہ السّلام کے پڑپوتے تھے۔ آپ کا لقب ’’نوح‘‘ اس لئے ہو اکہ آپ کثرت سے گریہ و زاری کیا کرتے تھے ، چالیس یا پچاس سال کی عمر میں نبوت سے سرفراز فرمائے گئے۔

اللہ پاک نے قراٰن میں کئی مقامات پر حضرت نوح علیہ الصلوۃ و السّلام کے اوصاف بیان فرمائے ہیں۔ جن میں سے چند درج ذیل ہیں:۔

(1)شکر گزار بندہ۔ اِنَّهٗ كَانَ عَبْدًا شَكُوْرًا(۳) ترجَمۂ کنزُالایمان: بیشک وہ بڑا شکر گزار بندہ تھا۔(پ15، بنیٓ اسرآءیل: 3) اللہ نے آپ کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ آپ اللہ پاک کے بہت شکرگزار بندے تھے۔

تفسیر خازن میں علامہ آلوسی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں : حضرت نوح علیہ السّلام کو بطورِ خاص شکر گزار بندہ فرمانے کی وجہ یہ ہے کہ آپ علیہ السّلام جب کوئی چیز کھاتے ،پیتے یا لباس پہنتے تو اللہ پاک کی حمد کرتے اور ا س کا شکر بجا لاتے تھے۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: 3، 3 / 161)

(2)امانتدار رسول: اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌۙ(۱۰۷) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک میں تمہارے لیے ایک امانتدار رسول ہوں۔(پ19، الشعراء: 107)

اس آیت مبارکہ کے تحت تفسیر مدارک میں ذکر ہے۔ حضرت نوح علیہ السّلام کی امانت داری آپ کی قوم کو اسی طرح تسلیم تھی جیسا کہ سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی امانت داری پر عرب کو اتفاق تھا۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: 107، ص 825)

(3)سب سے پہلے رسول: اِنَّاۤ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖۤ اَنْ اَنْذِرْ قَوْمَكَ ترجَمۂ کنزُالایمان: بے شک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا کہ ان کو ڈرا ۔(پ29،نوح:1)

اس آیت مبارکہ کے تحت تفسیر سمر قندی میں ہے۔ حضرت نوح علیہ السّلام وہ سب سے پہلے رسول ہیں جنہوں نے کفار کو تبلیغ کی اور سب سے پہلے آپ علیہ السّلام کی قوم پر ہی دُنْیَوی عذاب آیا۔(سمر قندی، نوح، تحت الآیۃ: 1، 3 / 406)

(4) آپ کے بعد تمام انبیا آپ کی اولاد میں سے ہیں۔ وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا وَّ اِبْرٰهِیْمَ وَ جَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِهِمَا النُّبُوَّةَ وَ الْكِتٰبَ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور بےشک ہم نے ابراہیم اور نوح کو بھیجا اور اُن کی اولاد میں نبوّت اور کتاب رکھی ۔(پ27،الحدید: 26)

اس کی تفسیر میں ابو حیان محمد بن یوسف اندلسی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں ’’ حضرت ابراہیم علیہ السّلام چونکہ حضرت نوح علیہ السّلام کی اولاد میں سے ہیں ا س لئے شرفِ نبوت ان دونوں کی اولاد میں ہونا صادق آیا۔ (البحر المحیط، الحدید، تحت الآیۃ:26، 8 / 226)

(5)حضرت نوح علیہ السّلام کی عمر کا تذکرہ: وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ فَلَبِثَ فِیْهِمْ اَلْفَ سَنَةٍ اِلَّا خَمْسِیْنَ عَامًاؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور بےشک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تو وہ ان میں پچاس سال کم ہزار برس رہا۔(پ20،العنکبوت : 14)

بیشک ہم نے آپ سے پہلے حضرت نوح علیہ السّلام کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو وہ ان میں پچاس سال کم ایک ہزار (یعنی 950) سال رہے، اس پوری مدت میں انہوں نے قوم کو توحید اور ایمان کی دعوت دینے کا عمل جاری رکھا اور ان کی طرف سے پہنچنے والی سختیوں اور ایذاؤں پر صبر کیا۔(البحر المحیط، العنکبوت، تحت الآیۃ: 14، 7 / 140، خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: 14، 3 / 447، ملتقطاً)