اسلام نے انسان کی زندگی کے تمام پہلوؤں کے بارے میں واضح ہدایات فراہم کی ہیں اور اعمال کی قبولیت کو ایمان اور نیت کی بنیاد پر قرار دیا ہے۔ کفار کے اعمال کا ‏انجام قرآن و حدیث میں مختلف مثالوں کے ذریعے بیان کیا گیا ہے تاکہ انسان ان سے عبرت حاصل کرے اور حق کی طرف رجوع کرے۔ قرآن کریم میں کفار ‏کے اعمال کو بے وقعت اور بے سود قرار دیا گیا ہے اور ان کی حقیقت کو سمجھانے کے لیے متعدد تشبیہیں دی گئی ہیں۔ ‏

کفار کے اعمال کے بارے میں قرآنی مثالیں ‏

(1) کفار کے اعمال کو خاک کا ڈھیر قرار دینا : قرآن کریم میں کفار کے اعمال کی بے قدری کو خاک کے ڈھیر سے تشبیہ دی گئی ہے جو ہوا کے جھونکوں سے اڑ جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ‏ ترجمہ کنزالعرفان:‏ اپنے رب کا انکار کرنے والوں کے اعمال راکھ کی طرح ہوں گے جس پر آندھی کے دن میں تیز طوفان آجائے تو وہ اپنی کمائیوں میں سے کسی شے پر بھی قادر نہ ‏رہے۔ یہی دور کی گمراہی ہے۔ ‏ (سورۃ ابراہیم: 18) ‏

یہ آیت واضح کرتی ہے کہ کفار کے اعمال، چاہے کتنے ہی بڑے نظر آئیں، اللہ کے نزدیک بے فائدہ ہیں۔ ‏

(2) کفار کے اعمال کو سراب سے تشبیہ دینا: کفار کی دنیاوی کامیابیوں کو ایک سراب سے تشبیہ دی گئی ہے جو دور سے پانی نظر آتا ہے، لیکن قریب جا کر کچھ بھی نہیں ملتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ‏

ترجمہ کنزالعرفان:‏ اورکافروں کے اعمال ایسے ہیں جیسے کسی بیابان میں دھوپ میں پانی کی طرح چمکنے والی ریت ہو، پیاسا آدمی اسے پانی سمجھتا ہے یہاں تک جب وہ اس کے پاس آتا ہے ‏تو اسے کچھ بھی نہیں پاتا اوروہ اللہ کو اپنے قریب پائے گا تو اللہ اسے اس کا پورا حساب دے گا اور اللہ جلد حساب کرلینے والا ہے۔ ‏ ‏ (سورۃ النور: 39)‏

یہ آیت کفار کی دنیاداری اور ان کے اعمال کی حقیقت کو ظاہر کرتی ہے۔ ‏

(3) کفار کے دلوں پر مہر لگنا‏: کفار کی ہٹ دھرمی اور حق سے انکار کو قرآن مجید میں ان کے دلوں پر مہر لگنے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ‏ ترجمہ کنزالعرفان:‏ اللہ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہرلگادی ہے اور ان کی آنکھوں پرپردہ پڑا ہواہے اور ان کے لئے بہت بڑا عذاب ہے۔ (سورۃ البقرہ: 7) ‏

یہ آیت کفار کی اندرونی حالت کو ظاہر کرتی ہے کہ وہ حق کو سننے، سمجھنے، اور قبول کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ ‏

(4) کفار کو مکڑی کے جالے کی مثال دینا: کفار کے عقائد کو مکڑی کے جالے سے تشبیہ دی گئی ہے جو کمزور اور ناپائیدار ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:‏ ترجمۂ کنز العرفان ‏: جنہوں نے الله کے سوا اورمددگاربنارکھے ہیں ان کی مثال مکڑی کی طرح ہے،جس نے گھر بنایا اور بیشک سب گھروں میں کمزور گھر مکڑی کا گھرہوتا ہے۔کیا اچھا ہوتا ‏اگر وہ جانتے۔ ‏ ‏ (سورۃ العنکبوت: 41) ‏

یہ آیت کفار کے اعمال اور عقائد کی کمزوری اور ناپائیداری کو بیان کرتی ہے۔ ‏

(5) کفار کے اعمال کو جھاگ کی مانند قرار دینا: کفار کے اعمال کو پانی کے جھاگ سے تشبیہ دی گئی ہے جو وقتی طور پر نظر آتا ہے لیکن جلد ختم ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:‏ ‏ ترجمۂ کنز العرفان ‏

اس نے آسمان سے پانی اتارا تو نالے اپنی اپنی گنجائش کی بقدر بہہ نکلے تو پانی کی رَو اُس پر ابھرےہوئے جھاگ اٹھا لائی اور زیور یا کوئی دوسرا سامان بنانے کیلئے جس ‏پروہ آگ دہکاتے ہیں اس سے بھی ویسے ہی جھاگ اٹھتے ہیں ۔ اللہ اسی طرح حق اور باطل کی مثال بیان کرتا ہے تو جھاگ تو ضائع ہوجاتا ہے اور وہ (پانی) جو لوگوں ‏کو فائدہ دیتا ہے وہ زمین میں باقی رہتا ہے ۔اللہ یوں ہی مثالیں بیان فرماتا ہے ۔ (سورۃ الرعد: 17) ‏

یہ آیت کفار کے اعمال کی عارضی نوعیت اور بے ثباتی کو ظاہر کرتی ہے۔

اسلام انسانیت کی رہنمائی کے لیے ایک کامل اور جامع دین ہے۔ قرآن مجید اور احادیث رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں انسان کے اعمال کے نتائج، ان کے اثرات اور آخرت ‏میں ان کی جزا و سزا کو واضح کیا گیا ہے۔ کفار کے اعمال اور ان کی زندگی کے انداز کو قرآن مجید میں مختلف مثالوں کے ذریعے بیان کیا گیا تاکہ مؤمنین ان سے سبق ‏حاصل کریں اور اپنے اعمال کی اصلاح کریں۔ ان مثالوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے کفار کے رویے، ان کی ہٹ دھرمی، اور ان کے انجام کو ایک عبرت کے طور پر ‏پیش کیا ہے۔ ‏

کفار کے اعمال کے بارے میں قرآنی مثالیں: ‏

(1) کفار کے اعمال کو خاک اور راکھ سے تشبیہ‏: اللہ تعالیٰ نے کفار کے اعمال کی بے وقعتی کو خاک اور راکھ سے تشبیہ دی ہے، جو ہوا میں اڑ جاتی ہے۔ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے:‏ ترجمہ کنزالعرفان:‏ اپنے رب کا انکار کرنے والوں کے اعمال راکھ کی طرح ہوں گے جس پر آندھی کے دن میں تیز طوفان آجائے تو وہ اپنی کمائیوں میں سے کسی شے پر بھی قادر نہ ‏رہے۔ یہی دور کی گمراہی ہے۔ ‏ ‏ (سورۃ ابراہیم: 18) ‏

یہ مثال کفار کے ان اعمال کو ظاہر کرتی ہے جو نیت کی خرابی اور ایمان کے فقدان کی وجہ سے اللہ کے نزدیک بے کار ہو جاتے ہیں۔ ‏

(3) کفار کے دلوں پر مہر لگنا‏: کفار کے دلوں اور کانوں پر مہر لگنے کی مثال قرآن مجید میں دی گئی ہے، جس سے ان کے لیے حق کو سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:‏ترجمہ کنزالعرفان:‏ اللہ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہرلگادی ہے اور ان کی آنکھوں پرپردہ پڑا ہواہے اور ان کے لئے بہت بڑا عذاب ہے۔ (سورۃ البقرہ: 7) ‏

یہ مثال ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کو ظاہر کرتی ہے کہ وہ حق بات کو سننے اور سمجھنے کے باوجود انکار کرتے ہیں۔ (4) کفار کو گدھے کی مثال دینا: کفار کے اعمال اور ان کے علم کو اس گدھے کی مانند قرار دیا گیا جو کتابوں کا بوجھ اٹھاتا ہے لیکن اس سے فائدہ نہیں اٹھاتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:‏ ترجمہ کنزالعرفان: ‏ جن پر تورات کا بوجھ رکھا گیا پھر انہوں نے اس کا بوجھ نہ اٹھایاان لوگوں کی مثال گدھے کی مثال جیسی ہے جو کتابیں اٹھائے ہو، ان لوگوں کی کیا ہی بری مثال ہے ‏جنہوں نے اللہ کی آیتوں کو جھٹلایا اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (سورۃ الجمعہ: 5) ‏

یہ مثال کفار کی علم سے بے عملی اور ان کے حق سے منہ موڑنے کو بیان کرتی ہے۔ ‏

(5) کفار کے اعمال کو سراب سے تشبیہ‏: کفار کی دنیاوی کامیابیاں اور اعمال ایک سراب کی مانند ہیں جو دور سے پانی کی طرح نظر آتا ہے لیکن قریب پہنچنے پر کچھ نہیں ملتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:‏ ترجمہ کنزالعرفان:‏ اورکافروں کے اعمال ایسے ہیں جیسے کسی بیابان میں دھوپ میں پانی کی طرح چمکنے والی ریت ہو، پیاسا آدمی اسے پانی سمجھتا ہے یہاں تک جب وہ اس کے پاس آتا ہے ‏تو اسے کچھ بھی نہیں پاتا اوروہ اللہ کو اپنے قریب پائے گا تو اللہ اسے اس کا پورا حساب دے گا اور اللہ جلد حساب کرلینے والا ہے۔‏ ‏ (سورۃ النور: 39) ‏

یہ آیت کفار کے دنیاوی اعمال کی حقیقت کو بے نقاب کرتی ہے کہ وہ آخرت میں بالکل بے فائدہ ہوں گے۔

قرآن  مجید انسان کی رہنمائی و ہدایت کے لیے ایک کامل ترین کتاب ہے۔ قرآن مجید ایسی کتاب ہے کہ جو انسان کے اعمال، رویوں اور دیگر معاملات کو بہت ہی ‏جامع و حکیمانہ مثالوں سے واضح کرتا ہے ان مثالوں کا مقصد یہ ہے کہ انسان ان میں غور و فکر کر کے اپنی اُخروی زندگی کو کامیاب بنائے۔ اسی طرح قرآن مجید ‏میں مختلف مقام پر مختلف انداز میں کفار کے اعمال کو مثال دے کر بیان کیا کہ جو انہوں نے دنیا میں اپنے گمان کے مطابق نیک اعمال کئے اور اس میں اپنی کامیابی ‏تصور کی لیکن حقیقت میں وہ ناکامی ہے اور آخرت میں کچھ ہاتھ نہیں لگے گا۔

قارئین کرام! آئیے کفار کے چنداعمال کی قرآنی مثال کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ‏

(1) اعمال راکھ کی طرح: مَثَلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ اَعْمَالُهُمْ كَرَ مَادِ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّیْحُ فِیْ یَوْمٍ عَاصِفٍؕ-لَا یَقْدِرُوْنَ مِمَّا كَسَبُوْا عَلٰى شَیْءٍؕ-ذٰلِكَ هُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِیْدُ ترجمہ کنز العرفان:‏ اپنے رب کا انکار کرنے والوں کے اعمال راکھ کی طرح ہوں گے جس پر آندھی کے دن میں تیز طوفان آجائے تو وہ اپنی کمائیوں میں سے کسی شے پر بھی قادر نہ ‏رہے۔ یہی دور کی گمراہی ہے۔ ‏(پ13،سورۃ الابراہیم18)‏

جن کو وہ نیک عمل سمجھتے تھے جیسے کہ محتاجوں کی امداد ،مسافروں کی معاونت ان کے بیماروں کی خبر گیری وغیرہ چونکہ ایمان پر مبنی نہیں اس لیے وہ سب بیکار ہیں اور ‏وہ سب اڑ گئے اور اس کے اجزا منتشر ہو گئے اور اس میں سے کچھ باقی نہ رہا یہی حال ہے کفار کے اعمال کا کہ ان کے شرک و کفر کی وجہ سے برباد اور باطل ہو گیا ۔ ‏ ‏(خزائن العرفان،ص482 مکتبۃ المدینہ) ‏

(2) بیابان میں دھوپ میں پانی کی طرح: وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍۭ بِقِیْعَةٍ یَّحْسَبُهُ الظَّمْاٰنُ مَآءًؕ-حَتّٰۤى اِذَا جَآءَهٗ لَمْ یَجِدْهُ شَیْــٴًـا وَّوَجَدَ اللّٰهَ عِنْدَهٗ فَوَفّٰىهُ حِسَابَهٗؕ-وَ اللّٰهُ سَرِیْعُ الْحِسَابِ ترجمہ کنز العرفان:‏ اورکافروں کے اعمال ایسے ہیں جیسے کسی بیابان میں دھوپ میں پانی کی طرح چمکنے والی ریت ہو، پیاسا آدمی اسے پانی سمجھتا ہے یہاں تک جب وہ اس کے پاس آتا ہے ‏تو اسے کچھ بھی نہیں پاتا اوروہ اللہ کو اپنے قریب پائے گا تو اللہ اسے اس کا پورا حساب دے گا اور اللہ جلد حساب کرلینے والا ہے۔‏ ‏(پ18، سورۃ النور39)‏

اس آیت میں ذکر کی گئی مثال کا خلاصہ یہ ہے کہ کفار کے ظاہری اچھے اَعمال کی مثال ایسی ہے جیسے کسی بیابان میں دھوپ میں پانی کی طرح چمکنے والی ریت ہو، پیاسا ‏آدمی اسے پانی سمجھ کر اس کی تلاش میں چلا اورجب وہاں پہنچا تو پانی کا نام و نشان نہ تھا تو وہ سخت مایوس ہو گیا ایسے ہی کافر اپنے خیال میں نیکیاں کرتا ہے اور سمجھتا ہے ‏کہ اللہ پاک سے اس کا ثواب پائے گا، لیکن جب میدانِ قیامت میں پہنچے گا تو ثواب نہ پائے گا بلکہ عذابِ عظیم میں گرفتار ہوگا اور اس وقت اس کی حسرت اور اس ‏کا غم اس پیاس سے بدرجہا زیادہ ہوگا۔ ‏(صراط الجنان ج6، ص643) ‏

(3) باریک غبار کے بکھرے ہوئے ذروں کی طرح: وَقَدِمْنَاۤ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰهُ هَبَآءً مَّنْثُوْرًا

ترجمہ کنزالعرفان:‏ اور انہوں نے جو کوئی عمل کیا ہوگا ہم اس کی طرف قصد کرکے باریک غبار کے بکھرے ہوئے ذروں کی طرح بنادیں گے جو روشندان کی دھوپ میں نظر آتے ‏ہیں۔ (پ18،سورۃ الفرقان23)‏

آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کفار نے کفر کی حالت میں جو کوئی ظاہری اچھے عمل کیے ہوں گے جیسے صدقہ، صلہ رحمی، مہمان نوازی اور یتیموں کی پرورش وغیرہ، اللہ ‏تعالٰی ان کی طرف قصد کرکے روشندان کی دھوپ میں نظر آنے والے باریک غبار کے بکھرے ہوئے ذروں کی طرح انہیں بے وقعت بنادے گا۔ مراد یہ ہے ‏کہ وہ اعمال باطل کردیئے جائیں گے، ان کا کچھ ثمرہ اور کوئی فائدہ نہ ہو گاکیونکہ اعمال کی مقبولیت کے لئے ایمان شرط ہے اور وہ انہیں مُیَسَّر نہ تھا۔ ‏(صراط الجنان ج7، ص14) ‏

ان تمام آیات میں ہمیں غور و فکر کرنا چاہیے اور بالخصوص اِن آیات میں اُن مسلمانوں کے لیے درس عبرت ہے کہ جنہوں نے اللہ تعالی کی دی ہوئی نعمتوں کی ‏مخالفت اور ناشکری کی اور ریاکاری و دکھلاوے میں آ کر نیک اعمال کیے اور وہ اپنی جہالت کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے بہت سی نیکیاں جمع کر لی ہیں مگر حقیقت ‏میں ان کے اعمال ضائع ہیں اور شیطان نے ان کے اعمال کو مزین کر کے دکھایا ہے۔

اللہ پاک ہمیں صحیح معنوں میں قرآن پاک کو سمجھنے کی اور اس پر عمل پیرا ہونے کے توفیق عطا فرمائے۔ آمین

اللہ تبارک و تعالی نے متعدد مقامات پر کفار کے اعمال کو ضائع اور بے وقعت قرار دیا ہے کفار کے اچھے اعمال انہیں کوئی نفع نہیں دیں گے کیونکہ ایمان کے بغیر ‏کوئی نیکی قابل قبول نہیں جس طرح نماز کے لیے وضو شرط جواز ہے ایسے ہی اعمال کے لیے ایمان شرط قبول ہے کفار جو بھی نیک اعمال کرتے ہیں انہیں گمان ہوتا ‏ہے کہ ان کے اعمال ان کو آخرت میں نفع پہنچائیں گے لیکن جب وہ مر جاتے ہیں تو معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے آئیے قرآن  کریم سے ملاحظہ کرتے ہیں کہ اللہ ‏تبارک و تعالی نے کفار کی خوش فہمی کی کس انداز سے تردید فرمائی ہے ۔

سورۃ النور میں اللہ تبارک و تعالی ارشاد فرماتا ہے ‏

وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍۭ بِقِیْعَةٍ یَّحْسَبُهُ الظَّمْاٰنُ مَآءًؕ-حَتّٰۤى اِذَا جَآءَهٗ لَمْ یَجِدْهُ شَیْــٴًـا وَّ وَجَدَ اللّٰهَ عِنْدَهٗ فَوَفّٰىهُ حِسَابَهٗؕ-وَ اللّٰهُ سَرِیْعُ الْحِسَابِ

ترجمہ کنز العرفان:اور کافروں کے اعمال ایسے ہیں جیسے کسی بیابان میں دھوپ میں پانی کی طرح چمکنے والی ریت ہو پیاسا اسے پانی سمجھتا ہے یہاں تک کہ جب وہ ‏اس کے پاس آتا ہے تو اسے کچھ نہیں پاتا اور وہ اللہ کو اپنے قریب پائے گا تو اللہ اس کا اسے پورا حساب دے گا اور اللہ جلد حساب کر لینے والا ہے۔ (سورۃ النور آیت نمبر ‏‏39) ‏

‏ اللہ تبارک و تعالی نے اس آیت میں کفار کے اعمال کو مثال سے بیان فرما کر یہ واضح کر دیا ہے کہ کافر آخرت میں شدید خسارے میں ہوں گے اور دنیا میں انہیں طرح ‏طرح کی ظلمتوں کا سامنا ہوگا ‏ اسی طرح سورۃ النور میں ہی اللہ تبارک و تعالی کا فرمان ہے:

اَوْ كَظُلُمٰتٍ فِیْ بَحْرٍ لُّجِّیٍّ یَّغْشٰىهُ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ سَحَابٌؕ-ظُلُمٰتٌۢ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍؕ-اِذَاۤ اَخْرَ جَ یَدَهٗ لَمْ یَكَدْ یَرٰىهَاؕ-وَ مَنْ لَّمْ یَجْعَلِ اللّٰهُ لَهٗ نُوْرًا فَمَا لَهٗ مِنْ ‏نُّوْرٍ

ترجمہ کنز العرفان: یا جیسے کسی گہرے سمندر میں تاریکیاں ہوں جس کو اوپر سے موج نے ڈھانپ لیا ہو اس موج پر ایک اور موج ہو پھر اس موج پر بادل ہو ‏اندھیرے ہی اندھیرے ہیں ایک کے اوپر دوسرا اندھیرا جب کوئی اپنا ہاتھ نکالے تو اسے اپنا ہاتھ بھی دکھائی دیتا معلوم نہ ہو اور جس کے لیے اللہ نور نہیں بناتا اس ‏کے لیے کوئی نور نہیں ‏۔ (سورۃ النور، آیت نمبر: 40)‏

اس سے پہلے والی آیت میں بھی اللہ تبارک و تعالی نے کفار کے اعمال کو مثال سے واضح فرمایا ہے اور اس آیت میں بھی کفار کے اعمال کو واضح فرمایا کہ ان کے اعمال ‏برباد ہیں دوسری مثال میں تاریکیوں سے مراد کفار کے اعمال ہیں سمندر کی گہرائیوں سے مراد کفار کے قلوب ہیں اور موج بالائے موج سے مراد وہ جہالت ‏شکوک اور اندھیرے ہیں جو کفار کے دلوں پر چھائے ہوئے ہیں بادلوں سے مراد ان کے دلوں کا زنگ ہے اور وہ مہر ہے جو ان کے دلوں پر لگا دی گئی ہے حضرت ‏ابن عباس اور دیگر محدثین نے بیان کیا ہے کہ جس طرح جو شخص سمندر کے گہرے اندھیرے میں ہو اس کو اپنا ہاتھ دکھائی نہیں دیتا اسی طرح کافر اپنے دل سے ‏نور ایمان کا ادراک نہیں کر سکتا۔

‏ ایک اور مقام پر اللہ تبارک و تعالی فرماتا ہے

مَثَلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ اَعْمَالُهُمْ كَرَ مَادِ ﹰ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّیْحُ فِیْ یَوْمٍ عَاصِفٍؕ-لَا یَقْدِرُوْنَ مِمَّا كَسَبُوْا عَلٰى شَیْءٍؕذٰلِكَ هُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِیْدُ

ترجمہ کنز العرفان: اپنے رب کا انکار کرنے والوں کے اعمال راکھ کی طرح ہوں گے جس پر آندھی کے دن تیز طوفان آجائے تو وہ اپنی کمائیوں سے کسی شے پر ‏قادر نہ رہیں گے یہی دور کی گمراہی ہے۔ (سورۃ ابراہیم آیت نمبر 18)‏

‏ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آخرت میں وہی نیک اعمال فائدہ دیں گے جو ایمان لانے کے بعد کیے ہوں گے ‏ جیساکہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جس مومن کو دنیا میں کوئی نیکی دی جاتی ہے تو اللہ ‏تبارک و تعالی اس پر ظلم نہیں کرے گا اور اسے آخرت میں بھی جزا دی جائے گی رہا کافر تو اس نے اگر دنیا میں کوئی نیکی کی ہوگی تو اس کی جزا اسے دنیا میں دے دی ‏جائے گی اور جب وہ آخرت میں پہنچے گا تو اس کے پاس کوئی ایسی نیکی نہیں ہوگی جس کی اسے جزا دی جا سکے (صحیح مسلم کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار باب ‏جزاءالمومن بحسناتہ فی الدنیا والآخرۃ صفحہ نمبر 1508 جلد نمبر 1 رقم الحدیث 2808)‏

‏ سورۃ ھود میں اللہ تبارک و تعالی ارشاد فرماتا ہے

مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا نُوَفِّ اِلَیْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِیْهَا وَ هُمْ فِیْهَا لَا یُبْخَسُوْنَ(15)اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ لَیْسَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ ﳲ وَ حَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِیْهَا وَ بٰطِلٌ مَّا كَانُوْا ‏یَعْمَلُوْنَ(16) ( سورۃ ہود آیت نمبر 15 16)‏

ترجمہ کنز العرفان: جو دنیا کی زندگی اور آرائش چاہتا ہو تو ہم دنیا میں ان کے اعمال کا پورا بدلہ دیں گے اور انہیں دنیا میں کچھ کم نہیں دیا جائے گا یہ وہ لوگ ہیں جن ‏کے لیے آخرت میں کچھ نہیں ہوگا سوائے آگ کے دنیا میں جو کچھ انہوں نے کیا وہ سب برباد ہو گیا اور ان کے اعمال باطل ہیں۔ امام ضحاک رحمۃ اللہ تعالی علیہ ‏فرماتے ہیں کہ یہ آیت مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ (تفسیر قرطبی صفحہ نمبر 14 جزء نمبر 9)‏

‏ مذکورہ بالا آیات سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کفار جتنے بھی اچھے اعمال کر لیں انہیں آخرت میں عذاب کے سوا کچھ نہیں ملے گا لیکن اگر مومن کوئی اچھا عمل ‏کرے گا تو اسے دنیا میں بھی اجر ملے گا اور آخرت میں بھی ملے گا اللہ تعالی ہمیں نیک عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین‏