قرآن  مجید انسان کی رہنمائی و ہدایت کے لیے ایک کامل ترین کتاب ہے۔ قرآن مجید ایسی کتاب ہے کہ جو انسان کے اعمال، رویوں اور دیگر معاملات کو بہت ہی ‏جامع و حکیمانہ مثالوں سے واضح کرتا ہے ان مثالوں کا مقصد یہ ہے کہ انسان ان میں غور و فکر کر کے اپنی اُخروی زندگی کو کامیاب بنائے۔ اسی طرح قرآن مجید ‏میں مختلف مقام پر مختلف انداز میں کفار کے اعمال کو مثال دے کر بیان کیا کہ جو انہوں نے دنیا میں اپنے گمان کے مطابق نیک اعمال کئے اور اس میں اپنی کامیابی ‏تصور کی لیکن حقیقت میں وہ ناکامی ہے اور آخرت میں کچھ ہاتھ نہیں لگے گا۔

قارئین کرام! آئیے کفار کے چنداعمال کی قرآنی مثال کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ‏

(1) اعمال راکھ کی طرح: مَثَلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ اَعْمَالُهُمْ كَرَ مَادِ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّیْحُ فِیْ یَوْمٍ عَاصِفٍؕ-لَا یَقْدِرُوْنَ مِمَّا كَسَبُوْا عَلٰى شَیْءٍؕ-ذٰلِكَ هُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِیْدُ ترجمہ کنز العرفان:‏ اپنے رب کا انکار کرنے والوں کے اعمال راکھ کی طرح ہوں گے جس پر آندھی کے دن میں تیز طوفان آجائے تو وہ اپنی کمائیوں میں سے کسی شے پر بھی قادر نہ ‏رہے۔ یہی دور کی گمراہی ہے۔ ‏(پ13،سورۃ الابراہیم18)‏

جن کو وہ نیک عمل سمجھتے تھے جیسے کہ محتاجوں کی امداد ،مسافروں کی معاونت ان کے بیماروں کی خبر گیری وغیرہ چونکہ ایمان پر مبنی نہیں اس لیے وہ سب بیکار ہیں اور ‏وہ سب اڑ گئے اور اس کے اجزا منتشر ہو گئے اور اس میں سے کچھ باقی نہ رہا یہی حال ہے کفار کے اعمال کا کہ ان کے شرک و کفر کی وجہ سے برباد اور باطل ہو گیا ۔ ‏ ‏(خزائن العرفان،ص482 مکتبۃ المدینہ) ‏

(2) بیابان میں دھوپ میں پانی کی طرح: وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍۭ بِقِیْعَةٍ یَّحْسَبُهُ الظَّمْاٰنُ مَآءًؕ-حَتّٰۤى اِذَا جَآءَهٗ لَمْ یَجِدْهُ شَیْــٴًـا وَّوَجَدَ اللّٰهَ عِنْدَهٗ فَوَفّٰىهُ حِسَابَهٗؕ-وَ اللّٰهُ سَرِیْعُ الْحِسَابِ ترجمہ کنز العرفان:‏ اورکافروں کے اعمال ایسے ہیں جیسے کسی بیابان میں دھوپ میں پانی کی طرح چمکنے والی ریت ہو، پیاسا آدمی اسے پانی سمجھتا ہے یہاں تک جب وہ اس کے پاس آتا ہے ‏تو اسے کچھ بھی نہیں پاتا اوروہ اللہ کو اپنے قریب پائے گا تو اللہ اسے اس کا پورا حساب دے گا اور اللہ جلد حساب کرلینے والا ہے۔‏ ‏(پ18، سورۃ النور39)‏

اس آیت میں ذکر کی گئی مثال کا خلاصہ یہ ہے کہ کفار کے ظاہری اچھے اَعمال کی مثال ایسی ہے جیسے کسی بیابان میں دھوپ میں پانی کی طرح چمکنے والی ریت ہو، پیاسا ‏آدمی اسے پانی سمجھ کر اس کی تلاش میں چلا اورجب وہاں پہنچا تو پانی کا نام و نشان نہ تھا تو وہ سخت مایوس ہو گیا ایسے ہی کافر اپنے خیال میں نیکیاں کرتا ہے اور سمجھتا ہے ‏کہ اللہ پاک سے اس کا ثواب پائے گا، لیکن جب میدانِ قیامت میں پہنچے گا تو ثواب نہ پائے گا بلکہ عذابِ عظیم میں گرفتار ہوگا اور اس وقت اس کی حسرت اور اس ‏کا غم اس پیاس سے بدرجہا زیادہ ہوگا۔ ‏(صراط الجنان ج6، ص643) ‏

(3) باریک غبار کے بکھرے ہوئے ذروں کی طرح: وَقَدِمْنَاۤ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰهُ هَبَآءً مَّنْثُوْرًا

ترجمہ کنزالعرفان:‏ اور انہوں نے جو کوئی عمل کیا ہوگا ہم اس کی طرف قصد کرکے باریک غبار کے بکھرے ہوئے ذروں کی طرح بنادیں گے جو روشندان کی دھوپ میں نظر آتے ‏ہیں۔ (پ18،سورۃ الفرقان23)‏

آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کفار نے کفر کی حالت میں جو کوئی ظاہری اچھے عمل کیے ہوں گے جیسے صدقہ، صلہ رحمی، مہمان نوازی اور یتیموں کی پرورش وغیرہ، اللہ ‏تعالٰی ان کی طرف قصد کرکے روشندان کی دھوپ میں نظر آنے والے باریک غبار کے بکھرے ہوئے ذروں کی طرح انہیں بے وقعت بنادے گا۔ مراد یہ ہے ‏کہ وہ اعمال باطل کردیئے جائیں گے، ان کا کچھ ثمرہ اور کوئی فائدہ نہ ہو گاکیونکہ اعمال کی مقبولیت کے لئے ایمان شرط ہے اور وہ انہیں مُیَسَّر نہ تھا۔ ‏(صراط الجنان ج7، ص14) ‏

ان تمام آیات میں ہمیں غور و فکر کرنا چاہیے اور بالخصوص اِن آیات میں اُن مسلمانوں کے لیے درس عبرت ہے کہ جنہوں نے اللہ تعالی کی دی ہوئی نعمتوں کی ‏مخالفت اور ناشکری کی اور ریاکاری و دکھلاوے میں آ کر نیک اعمال کیے اور وہ اپنی جہالت کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے بہت سی نیکیاں جمع کر لی ہیں مگر حقیقت ‏میں ان کے اعمال ضائع ہیں اور شیطان نے ان کے اعمال کو مزین کر کے دکھایا ہے۔

اللہ پاک ہمیں صحیح معنوں میں قرآن پاک کو سمجھنے کی اور اس پر عمل پیرا ہونے کے توفیق عطا فرمائے۔ آمین