حقوق العباد کو پورا کرنا ہر مردو عورت پر لازم ہے
اور حقوق العباد میں ایک حق حقِ والدین بھی ہے ہر مرد و عورت پر والدین کے حقوق کو
بھی ادا کرنا فرض ہے۔ خاص کر کچھ ایسے حقوق ہیں جنکا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے۔ آئیے
کچھ والدین کے حقوق کے متعلق جانتے ہیں کہ آخر والدین کے کیا کیا حقوق ہیں۔
1۔ خود کو اور مال کو والدین کا سمجھے ہمارے آخری
نبی محمد عربی ﷺ نے ایک شخص سے فرمایا: تو اور تیرا مال سب تیرے باپ کا ہے ۔ (ابن
ماجہ، 3/81، حدیث: 2292)اگر والدین اپنی ضرورت سے اولاد کے مال و سامان میں سے
کوئی چیز لے لیں تو ہرگز برا نہ مانیں اور نہ ہی اظہار ناراضگی کریں بلکہ یہ
سمجھیں کہ میں اور میرا مال سب میرے والدین کا ہی ہے۔
2۔ والدین کو ایصال ثواب کرنا والدین کا یا ان میں
سے کسی ایک کا انتقال ہو جائے تو اولاد پر والدین کا یہ حق ہے کہ ان کے لیے دعائے
مغفرت کی دعا کرتے رہیں اور اپنی نفلی عبادتوں، خیر و خیرات کا ثواب انکی روحوں کو
پہنچاتے رہیں کھانوں اور شیرینی وغیرہ پر فاتحہ دلا کر ان کی ارواح کو ایصال ثواب
کرتے رہیں۔ (جنتی زیور، ص 93)
3۔ دل نہ دکھائیں والدین کا ایک حق یہ بھی ہے کہ
ہرگز ہرگز اپنے فعل یا قول سے والدین کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ دیں اگرچہ
والدین اولاد پر زیادتی بھی کریں مگر پھر بھی اولاد پر فرض ہے کہ وہ ہرگز کبھی بھی
اور کسی حال میں بھی والدین کا دل نہ دکھائیں اور جن کاموں سے زندگی میں والدین کو
تکلیف ہوا کرتی ہے ان کی وفات کے بعد بھی ان کاموں کو نہ کریں کہ اس سے انکی روحوں
کو تکلیف پہنچے گی۔ (جنتی زیور، ص 94)
4۔ حکم کی فرمانبرداری والدین کا حق ہے کہ اولاد اپنے
والدین کے حکموں کی فرمانبرداری کرے اور اگر وہ شریعت کی خلاف ورزی کریں تو انہیں
احسن انداز میں سمجھایا جائے۔ (جنتی زیور، ص 93 )
5۔ قبروں کی زیارت والدین کے حقوق میں ایک حق یہ
بھی ہے کہ کبھی کبھی والدین کی قبروں کی زیارت کے لئے جایا کریں انکی قبروں پر
فاتحہ پڑھیں، سلام کریں اور انکے لیے دعائے مغفرت کریں اس سے والدین کی ارواح کو
خوشی ہوگی، اور فاتحہ کا ثواب تو فرشتے نور کی تھالیوں میں رکھ کر انکے سامنے پیش
کریں گے اور والدین خوش ہو کر اپنی اولاد کو دعائیں دیں گے۔ (جنتی زیور، ص 94)
ہم نے چند والدین کے حقوق سننے کی سعادت حاصل کی ہے
والدین کے حقوق بہت زیادہ ہیں جن کو ادا کرنا اولاد پر فرض ہوتا ہے مگر افسوس ! کہ
اس زمانے میں لڑکے اور لڑکیاں والدین کے حقوق سے بالکل غافل اور جاہل ہیں انکی
تعظیم اور تکریم، اور فرمانبرداری اور خدمت گزاری سے منہ موڑ ے ہوئے ہیں بلکہ کچھ
تو اتنے بد بخت اور نالائق ہیں کہ اپنے قول اور فعل سے والدین کو اذیت دیتے
ہیں۔اور اسی طرح گناہ کبیرہ میں مبتلا ہو کر قہر قہار اور غضب جبار میں گرفتار اور
عذاب جہنم کا حقدار بن رہے ہیں۔
بس یہ یاد رکھو! کہ تم اپنے والدین کے ساتھ اچھا یا
برا جو سلوک بھی کرو گے ویسا ہی سلوک تمہاری اولاد تمہارے ساتھ کرے گی اور یہ بھی
جان لو ! کہ والدین کے ساتھ اچھا سلوک ﷺ کرنے سے رزق اور عمر میں خیر و برکت نصیب
ہوتی ہے۔ تو اے کاش کہ ہم بھی اپنے والدین کی قدر کریں اور ان کے حقوق کو ادا کرنے
میں کامیاب ہو جائیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حقوق العباد کو ادا کرنے کی توفیق
عطا فرمائے۔ آمین
حقوق العباد میں سے سب سے مقدم حق والدین کا ہے،
اور یہ اتنا مقدم حق ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے حق عبادت کے بعد جس حق کا ذکر کیا
ہے وہ والدین کا حق ہے اللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے
والدین میں ماں کا درجہ باپ پر مقدم ہے کیونکہ پیدائش میں ماں نے زیادہ تکلیفیں
برداشت کی ہیں۔ ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے۔
1: والدین سے سے حسن سلوک:
اللہ تعالیٰ نے والدین سے اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ
اِحْسَانًاؕ- (پ
15، بنی اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے
سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔
اللہ تعالی نے اپنی عبادت کا حکم دینے کے بعد اس کے
ساتھ ہی ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا ہے کہ تم اپنے والدین کے ساتھ
انتہائی اچھے طریقے سے نیک سلوک کرو کیونکہ جس طرح والدین کا تم پر احسان بہت عظیم
ہے تو تم پر لازم ہے کہ تم بھی ان کے ساتھ اسی طرح نیک سلوک کرو۔
2: والدین کا ادب: (
بیٹے کو چاہیے کہ) والدین کی بات توجہ سے سنے، ماں باپ جب کھڑے ہوں تو تعظیماً ان
کیلئے کھڑا ہو جائے جب وہ کسی کام کا حکم دیں تو فورا بجا لائے۔ ان دونوں کے کھانے
پینے کا انتظام و التزام کرے اور نرم دلی سے ان کیلئے عاجزی کا بازو بچھائے وہ اگر
کوئی بات بار بار کہیں تو ان سے اکتا نہ جائے ان کے ساتھ بھلائی کرے تو ان پر
احسان نہ جتلائے وہ کوئی کام کہے تو اسے پورا کرنے میں کسی قسم کی شرط نہ لگائے ان
کی طرف حقارت کی نگاہ سے نہ دیکھے اور نہ ہی کسی معاملے میں ان کی نافرمانی کرے۔ (آداب
دین، ص 52)
3: والدین کی اطاعت: والدین
کی نارا ضگی اللہ تعالی کی ناراضگی کا سبب بنتی ہے لہذا ہمیں والدین کی اطاعت اور
فرمانبرداری میں کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہیے حدیث مبارکہ میں بھی والدین کی اطاعت
کا حکم دیا گیا ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم اپنے ماں باپ کا حکم مانو، اگرچہ وہ
تمہیں گھر سے نکل جانے کا حکم دیں اس کا مطلب یہ ہے کہ اولاد کو ہر صورت ماں باپ
کی اطاعت و فرمان برداری کرنی اور یہاں تک نوبت نہیں آنے دینا چاہیے کہ وہ کہیں
گھر سے نکل جاؤ۔ (حقوق والدین، ص140)
4: فوت شدہ والدین کے حقوق: سیدی اعلیٰ حضرت سے سوال کیا گیا کہ والدین کے
انتقال کے بعد اولاد پر کن کن حقوق کی ادائیگی لازم ہے تو آپ نے حقوق بیان فرمائے
ان کی موت کے بعد غسل کفن، دفن اور نماز کے معاملات میں، سنتوں اور مستحبات کا
خیال رکھے۔ ان کیلئے دعاو استغفار کرتا رہے صدقہ خیرات اور نیکیاں کر کےان کا ثواب
والدین کو پہنچائے ان پر قرض ہو تو اس کی ادائیگی میں جلدی کرے ان پر کوئی فرض
عبادت رہ گئی ہو تو کوشش کر کے اس کی ادائیگی کرے مثلاً نماز و روزہ ان کے ذمہ
باقی ہو تو اس کا کفارہ دے۔ ان کے رشتہ داروں کے ساتھ عمر بھر نیک سلوک کرے ان کے
دوستوں کا ہمیشہ ادب و احترام کرے اور سب سے بڑا حق یہ ہے گناہ کر کے قبر میں ان
کو تکلیف نہ پہنچائے والدین کے انتقال کے بعد والدین کے حقوق سے پتا چلتا ہے کہ
دین اسلام میں والدین کی وفات کے بعد بھی ان کی قدر و منزلت اور مقام بہت بلند
وبالا ہے۔ (والدین، زوجین اور اساتذہ کے حقوق، ص 202)
5: والدین کی قبروں کی زیارت: (والدین
کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ ہر جمعہ کو ان کی زیارت قبر کے لئے جانا، وہاں یسین
شریف پڑھنا ایسی یعنی اتنی آواز سے کہ وہ سنیں اور اس کا ثواب ان کی روح کو پہچانا
راہ میں جب کبھی ان کی قبر آئے بے سلام و فاتحہ (یعنی سلام و ایصال ثواب کیے بغیر)
نہ گزرنا۔ (فتاوی رضویہ، 24/392)
والدین انسان کے وجود کا ذریعہ ہیں۔ بچپن میں
والدین ہی اپنے بچے کی دیکھ بال اور پرورش کرتے ہیں۔ اللہ پاک نے والدین کے ساتھ
حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔ والدین میں ماں کا درجہ باپ پر مقدم ہے۔ کیونکہ بچے
کی پیدائش میں ماں زیادہ تکالیف برداشت کرتی ہے۔ چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِۚ-حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ
وَهْنًا عَلٰى وَهْنٍ وَّ فِصٰلُهٗ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْكُرْ لِیْ وَ
لِوَالِدَیْكَؕ- (پ 21، لقمٰن: 14) ترجمہ کنز الایمان: اور ہم نے
آدمی کو اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید فرمائی اس کی ماں نے اسے پیٹ میں رکھا
کمزوری پر کمزوری جھیلتی ہوئی اور اس کا دودھ چھوٹنا دو برس میں ہے یہ کہ حق مان
میرا اور اپنے ماں باپ کا۔
صحیح بخاری و مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ
سے روایت ہے، کہ ایک شخص نے بارگاہ رسالت میں عرض کی: یا رسول اللہﷺ سب سے زیادہ
احسان کا مستحق کون ہے؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تمہاری ماں۔ انہوں نے پوچھا: پھر
کون؟ فرمایا: تمہاری ماں۔ انہوں نے پھر پوچھا کہ پھر کون؟ ارشاد فرمایا: تمارا باپ۔
(بخاری، 4/، 93، حدیث:
5971)
اور ایک اور روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: سب سے
زیادہ ماں ہے، پھر ماں، پھرماں، پھر باپ، پھر وہ جو زیادہ قریب، پھر وہ جو زیادہ
قریب۔ (مسلم، ص 1378، حدیث:2548)
والدین کے چند حقوق درج ذیل ہیں:
والدین کے
ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیے۔
اپنی طاقت بھر ان کے ساتھ ہر نیکی اور بھلائی
کیجیے۔
انکی ہر وہ بات فوراً سنیے جو شریعت کے خلاف نہ ہو۔
لوگوں سے انکے کیے ہوئے
وعدے انکی وفات کے بعد بھی پورے کیجیے۔
انکے ساتھ ہمیشہ نرمی والا رویہ اختیار کیجیے۔ جب
ان کے ساتھ بات کریں۔تو نرم لہجے میں اور نظریں جھکا کر بات کیجیے۔ اور بات کرتے
ہوئے ہمیشہ
پست آواز رکھیے۔
اللہ پاک بطفیل مصطفیﷺ ہمیں ہمارے والدین کا
فرمانبردار بنائے
اور ہمیں ہمارے والدین کے تمام حقوق پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین بجاہ النبی الامین ﷺ
حقوق العباد میں سے سب سے مقدم حق والدین کا ہے۔ اور
یہ اتنا اہم حق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حق عبادت کے بعد جس حق کا ذکر کیا ہے وہ
والدین کا حق ہے۔ اللہ پاک نے قرآن پاک کے کئی مقامات میں والدین کی اہمیت و مرتبے
کو اجاگر کیا ہے۔ اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا
قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ
15، بنی اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں
نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔
یوں تو والدین کے حقوق بہت زیادہ ہیں کہ اولاد ان
کا کوئی حق بھی ادا نہیں کرسکتی ہے ان میں سے 5 حقوق درج ذیل ہیں:
1:والدین کی قبر پر حاضری والدین
کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ ہر جمعہ کو ان کی زیارت قبر کے لئے جانا، وہاں یٰسٓ
شریف پڑھنا ایسی (یعنی اتنی) آواز سے کہ وہ سنیں اور اس کا ثواب ان کی روح
کوپہنچانا، راہ (یعنی راستے) میں جب کبھی ان کی قبر آئے بے سلام و فاتحہ (یعنی
سلام و ایصال ثواب کئے بغیر) نہ گزرنا۔ (فتاویٰ رضویہ، 24 / 392)
2:زیادہ حسن سلوک کا حقدار ایک
صحابی نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ میں کس سے نیکی کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اپنی
ماں سے پھر اپنی ماں سے پھر اپنی ماں سے پھراپنے باپ سے۔(بخاری، 4/93، حدیث:5971)
3:والدین کی رضامندی نبی
کریم ﷺ نے فرمایا رب کی خوشنودی والد کی خوشنودی میں ہے اور رب کی ناراضگی والد کی
ناراضگی میں ہے ۔ (ترمذی، 3/360، حدیث: 1907)
4:والدین کے حقوق کی ادائیگی انسان
ساری عمر والدین کی خدمت کرتا رہے ان کی اطاعت کرتا رہے ان کے آگے اف تک نہ کہے
اپنی کمر پر اٹھا کر والدین کو حج کروائے پھر بھی والدین کا پورا حق ادا نہیں کر
سکتا ہاں والدین کے حق ادا کرنے کی صرف ایک ہی صورت ہے وہ یہ ہے کہ والدین کو غلام
لونڈی کی صورت میں پائے اور ان کو خرید کر آزاد کردے۔(مسلم، ص 624، حدیث:3799)
5:والدین کے لیے ایصال ثواب اگر
ماں باپ یا ان میں سے کوئی بھی اگر دنیا سے رخصت ہوجائے تو اولاد کو چاہیئے کہ ان
کے لیے خوب خوب ایصال ثواب کرے یہ والدین کے لیے اپنی اولاد کی طرف سے ایک بہترین
تحفہ ہے۔
اللہ پاک ہمیں اپنے والدین کا ادب واحترام کرنے،ان
کی خوب خوب خدمت کرنے اور ان کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
بجاہ النبی الامین ﷺ
دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس نے ہماری
زندگی کے ہر موڑ پر رہنمائی فرمائی ہے عبادات سے لے کر معاملات تک کوئی ایسا گوشہ
نہیں جس پر دین اسلام نے روشنی نہ ڈالی ہو دین اسلام کے ماننے والے کسی دوسرے مذہب
کے محتاج نہیں ہیں پھر اگر غور سے دیکھا جائے تو پورے کا پورا اسلام ہمیں حقوق و
فرائض کا مجموعہ نظر آتا ہے جس کی بنیاد تین اقسام پر ہے: حقوق اللہ، حقوق النفس
اور حقوق العباد۔
حقوق العباد میں سب سے پہلا حق نبی اکرمﷺ کا ہے جو
کہ سب سے اعلی و مقدم ہے نبی مکرمﷺ کے بعد خونی اور نسبی رشتوں میں سب سے مقدم
حقوق والدین کے ہیں خاندانی زندگی میں والدین کا مقام بہت بلند ہے انکے بغیر
خاندانی زندگی ناممکن ہے والدین اولاد کے لئے انمول نعمت ہیں اولاد کو جو محبت
الفت اخلاص والدین سے میسر آتا ہے کسی اور سے نہیں آسکتا کیونکہ انکی شفقت و محبت
بے لوث ہوتی ہے والدین کی دلی تمنا ہوتی ہے کہ انکی اولاد دنیاوی زندگی میں بلند
ترین مقام حاصل کرے اولاد کے سکھ کے لئے انہیں بذات خود بیشمار دکھ بھی برداشت
کرنے پڑتے ہیں اس لحاظ سے والدین کا درجہ بہت ہی بلند و بالا ہے اور بےحد قابل
احترام ہے اسی لئے اللہ تعالی نے والدین کی اطاعت و خدمت کو لازمی قرار دیا اللہ پاک
نے قرآن مجید فرقان حمید میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کی بہت ہی تاکید فرمائی ہے، ارشاد
باری تعالیٰ ہے: وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا
تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْــٴًـا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا (پ
5، النساء: 36) ترجمہ: اور اللہ کی عبادت کرو اور اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ
اور والدین سے اچھا سلوک کرو۔
والدین کے پانچ حقوق درج ذیل ہیں:
1۔ اطاعت کرنا: ہر
جائز بات میں جس کا والدین حکم کریں اور وہ خلاف شرع نہ ہو تو فورا اس حکم کی
تکمیل کرے۔ حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں: اکثر علماء کا فرمان
ہے کہ اگر کسی کو ماں باپ نے کسی ایسے کام کا حکم دیا جس کا شریعت میں حرام و
ناجائز ہونا واضح نہیں بلکہ شبہ ہے کہ جائز ہے اور یہ بھی شبہ ہے کہ ناجائز ہے
ایسی صورت میں والدین کی اطاعت کرنا اور وہ کام کر ڈالنا واجب ہوگا البتہ جس کا
ناجائز ہونا شریعت میں واضح ہے انکے کہنے پر وہ کام نہ کرے کیونکہ اللہ و رسول پاک
ﷺ کی اطاعت والدین کی اطاعت سے مقدم ہے۔ (روح البیان 5/149)
2۔ عزت و احترام کرنا: اپنی
ہر بات اور ہر عمل سے والدین کی تعظیم و تکریم کرے اور ہمیشہ انکی عزت و حرمت کا
خیال رکھے، مثلا 1۔اولاد اپنے والدین کے آگے نہ چلے۔ 2۔ والدین آئیں تو احتراما
کھڑے ہو جائے۔ 3۔ والدین کے بیٹھنے سے پہلے نہ بیٹھے۔ 4۔ کھانے پینے میں بھی
والدین سے سبقت نہ کرے۔ (روح البیان، 5/ 148)
3۔ خدمت کرنا: والدین کی
خدمت کرنا اور بالخصوص جب وہ بڑھاپے کو پہنچ جائے تو اولاد انکی زیادہ سے زیادہ
خدمت کرے کیونکہ بڑھاپا عمر کا ایک حصہ ہے جس وقت جسمانی طاقت جواب دے دیتی ہے اور
اولاد کے سہارے کی اشد ضرورت محسوس ہوتی ہے تاکہ بڑھاپے کے دن آسانی سے گزر جائیں
بوڑھے والدین کی خدمت پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ڈھیر سارا اجر رکھا ہے، چنانچہ
حدیث مبارکہ میں آیا ہے کہ والدین سے حسن سلوک کرنا نماز اور روزے سے بہتر ہے۔ (اتحاف
السادۃ المتقین، 6/314)
نوٹ: یہاں نماز
روزے سے مراد نفلی نماز و روزہ ہے۔
4۔اف تک نہ کرنا: فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا
قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ
15، بنی اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں
نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔
والدین کی تعظیم و تکریم اور فرمانبرداری ہمیشہ
واجب ہے بوڑھے ہوں یا جوان لیکن بڑھاپے کا ذکر خصوصیت کے ساتھ اس لئے فرمایا کہ اس
عمر میں جاکر والدین بعض اوقات چڑچڑے ہوجاتے ہیں اور انکو بیماریاں لاحق ہوجاتی
ہیں زبان سے الٹے سیدھے الفاظ نکلنے لگتے ہیں اس موقع پر اولاد کو صبر اور برداشت
سے کام لینا چاہئے اور انکا دل خوش کرنا چاہیے اور رنج دینے والے ذرا سے بھی لفظ
سے بھی پرہیز کرنا بہت بڑی سعادت اور دونوں جہاں میں کامیابی کا ذریعہ ہے۔
5۔ دعا کرنا: اولاد کو
چاہیے کہ والدین حیات ہوں یا وفات پاگئے ہوں ان کو ہمیشہ اپنی دعاؤں میں یاد رکھے
کہ اس کا حکم رب پاک نے قرآن پاک میں بھی دیا ہے، وَ اخْفِضْ لَهُمَا
جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ
صَغِیْرًاؕ(۲۴) (پ
15، بنی اسرائیل:24) ترجمہ کنز الایمان: اور ان کے لیے عاجزی کا بازو بچھا نرم دلی
سے اور عرض کر کہ اے میرے رب تو ان دونوں پر رحم کر جیسا کہ ان دنوں نے مجھے
چھٹپن(چھوٹی عمر) میں پالا۔
والدین کے لئے دعا کو اپنے روز و شب کے معلومات میں
داخل کر لینا چاہیے انکی صحت و تندرستی، ایمان و عافیت کی سلامتی کی دعا کرنی
چاہئے اگر فوت ہوگئے ہوں تو ان کیلئے قبر میں راحت، قیامت کی پریشانیوں سے نجات، بے
حساب بخشش اور جنت میں داخلے کی دعا کرنی چاہیے۔ یاد رہے کہ اگر والدین کافر ہوں تو
ان کے لئے ہدایت و ایمان کی دعا کرنی چاہیے کہ یہی ان کے حق میں رحمت ہے۔
دونوں جہاں میں گر تجھے کامرانی چاہیے ماں باپ سے مخلصانہ
تعلق نباہیے
اللہ پاک ہمیں والدین کا اطاعت گزار و فرمانبردار
بنائیں۔ آمین
سب سے پہلے میں آپ کو مثال دوں والدین کی محبت کا
اس طرح کے والدین اپنی اولاد کو ہر دکھ اور پریشانی سے بچا کر رکھنا چاہتے ہیں کہ
میری کسی اولاد کو کوئی تکلیف نہ پہنچے اور اولاد کو زندگی میں ہر آسائش دینے کی
بھرپور کوشش کرتے ہیں اور اگر کبھی اولاد پر کوئی جانی یا مالی پریشانی آ بھی جائے
تو وہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں ان کے لیے اچھے مستقبل کی دعا کرتے ہیں، اللہ
تعالی کے بعد انسان کے سب سے بڑے محسن والدین ہیں جن سے انسان کو سب سے زیادہ مدد
ملتی ہے دنیا میں صرف والدین ہی وہ ہستیاں ہیں جو اپنی راحت اولاد کی راحت پر
قربان کر دیتی ہیں اس لیے اسلام نے حقوق العباد میں سب سے پہلے والدین کے حقوق کا
ذکر خیر کیا ہے۔
والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا :
اولاد پر والدین کا پہلا حق یہ ہے کہ ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آیا جائے نرمی سے
بات چیت کی جائے انہیں اف تک نہ کہا جائے ان کو خوش کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے
والدین کے ساتھ حسن سلوک ان عظیم کاموں میں سے ہے جن پر اسلام نے سب سے زیادہ زور
دیا ہے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ وَصَّیْنَا
الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ اِحْسٰنًاؕ-(پ 26، الاحقاف: 15) ترجمہ: اور
ہم نے انسان کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔
مذکورہ آیت
قرانی کی رو سے والدین کا حق اتنا بڑا ہے کہ عبادت خداوندی کے بعد والدین کے ساتھ
حسن سلوک کا ذکر کیا گیا ہے اسی طرح حدیث پاک میں بھی والدین کے ساتھ حسن سلوک پر
بہت زور دیا گیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا:
خدا کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل کون سا ہے ؟فرمایا وقت پر نماز پڑھنا۔ پوچھا
پھر کون سا ہے ؟ فرمایا والدین سے حسن سلوک۔ (بخاری، 4/93، حدیث:5970)
ایک صحابی نے پوچھا: اللہ تعالی کے رسول! میرے حسن
سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے ؟ آپ نے تین دفعہ فرمایا کہ تیری ماں اور چوتھی
دفعہ باپ کا تذکرہ کیا۔(بخاری، 4/93، حدیث:5971)
والدین کی اطاعت کرنا : والدین
کی ان تمام باتوں کو ماننا ضروری ہے جو شریعت کے مخالف نہ ہو۔ ارشاد باری تعالی ہے:
وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ رَّبِّ
ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕ(۲۴) (پ
15، بنی اسرائیل:24) ترجمہ کنز الایمان: اور ان کے لیے عاجزی کا بازو بچھا نرم دلی
سے اور عرض کر کہ اے میرے رب تو ان دونوں پر رحم کر جیسا کہ ان دنوں نے مجھے
چھٹپن(چھوٹی عمر) میں پالا۔
متعدد احادیث میں اولاد کو والدین کی اطاعت کی
تلقین کی گئی ہے آپ ﷺ نے فرمایا: تمہارے خدا نے ماں کی نافرمانی تم پر حرام کر دی۔
پھر فرمایا: والدین کی رضامندی اور ناخوشی میں اللہ تعالی کی رضامندی اور ناخوشی
ہے۔ (ترمذی، 3/360، حدیث: 1907)
والدین کی خدمت کرنا: اولاد
کو چاہیے کہ وہ اپنے والدین کی خدمت کرے کیونکہ اسلام نے والدین کی خدمت میں بڑا
اجر و ثواب رکھا ہے۔ ایک دفعہ آپ ﷺ نے منبر پر چڑھتے ہوئے فرمایا: وہ شخص خوار ہوا
وہ شخص خوار ہوا وہ شخص خوار ہوا تو صحابہ کرام علیہم رضوان نے پوچھا یا رسول اللہ
کون ؟ آپ نے تین قسم کے لوگوں کا ذکر کیا جن میں سے ایک وہ شخص جس نے ماں باپ کو
یا کسی ایک کو بڑھاپے میں پایا اور ان کی خدمت کر کے جنت حاصل نہ کر سکا۔(مسلم، ص
1060، حدیث: 6510)
والدین کی خدمت عبادات سے بہت افضل ہے چنانچہ واقعہ
ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے جہاد میں
جانے کی اجازت مانگی۔ آپ ﷺ نے پوچھا
تمہاری والدہ موجود ہے؟ جواب دیا: ہاں۔ فرمایا: بس !اس کی خدمت کرو اس کے پاؤں کے
نیچے جنت ہے۔ (نسائی، ص 504، حدیث: 3101) آپ ﷺ نے فرمایا والد جنت کا بہترین دروازہ ہے چاہو تو
اس کی حفاظت کرو چاہو تو اسےضائع کر دو۔
والدین کو مال دینا: والدین
جب بڑھاپے کو پہنچ جائے تو انکی جسمانی خدمت کے ساتھ ساتھ ان کی مالی امداد کرنا
بھی ان کا حق ہے جیسا کہ الله پاک ارشاد فرماتا ہے: یَسْــٴَـلُوْنَكَ
مَا ذَا یُنْفِقُوْنَؕ-قُلْ مَاۤ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ(پ
2، البقرۃ: 215 )ترجمہ: آپ سے پوچھتے ہیں کہ ہم نے کیا خرچ کیا کہہ دیجیے کہ جو
مال بھی خرچ کرو اس کے اولین حقدار والدین ہیں۔
آپ ﷺ نے
بھی والدین کی مالی اعانت پر زور دیا ہے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: تمہاری اولاد
تمہاری پاک اور حلال کمائی ہے۔ تم اپنی اولاد کی کمائی سے بلا جھجک کھاؤ پیو۔ ایک
شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ ! میں صاحب اولاد ہوں میرے پاس کچھ مال ہے میرے
والد اسے ہلاک کرنا چاہتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا: تم بھی اپنے باپ کے ہو اور تمہارا
مال بھی۔ تمہاری اولاد تمہاری بہترین کمائی ہے اور اپنی اولاد کی کمائی سے کھاؤ۔
شکر گزاری کرنا: اللہ
تعالی کے بعد انسان پر والدین کی سب سے زیادہ احسانات ہیں اس لیے بچوں کو اپنے والدین
کا مشکور ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ لقمان آیت 14 میں ارشاد فرماتا ہے: اَنِ اشْكُرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیْكَؕ-ترجمہ: میرا
شکر ادا کرو اور اپنے والدین کا۔اس لیے محسن انسانیت ﷺ نے تاکید فرمائی ہے جو شخص اپنے والدین سے بے
رخی کرتا ہے وہ ناشکرا ہے۔
اللہ
پاک نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ اور انسانوں کو اپنی بہت سی نعمتوں سے
نوازا ہے۔ دنیا میں آکر ہمارے دوسرے لوگوں سے تعلقات استوار ہوتے ہیں تو اس لیے
ضروری ہے کہ ہم ان حقوق کو بھی جانیں جن کا ادا کرنا ہم پر ضروری ہے۔ حقوق دو طرح کے ہیں: 1۔حقوق اللہ 2۔حقوق العباد
حقوق العباد میں سب سے پہلے اپنے ماں باپ کے ساتھ
بھلائی اور حسن اخلاق سے پیش آنا ضروری ہے یہاں ماں باپ کے چند حقوق بیان کیے جاتے
ہیں:
حق نمبر 1:
ہمیں اپنے کسی قول و فعل سے ہرگز ہرگز اپنے ماں باپ کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہیں
دینی چاہیے اگرچہ ماں باپ اولاد پر کچھ زیادتی بھی کریں مگر پھر بھی اولاد پر فرض
ہے کہ وہ ہرگز کبھی بھی اور کسی بھی حال میں ماں باپ کا دل نہ دکھاے کیونکہ بچپن
میں انہوں نے ہی تمہاری پرورش کی ہے اور تمہارے ساتھ شفقت اور مہربانی کا سلوک کیا
ہے تو ہمیں بھی ان کے حقوق ادا کرنے ضروری ہیں۔
حدیث مبارکہ میں ہے: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ سب سے زیادہ حسن محبت( یعنی احسان)
کا مستحق کون ہے ؟ ارشاد فرمایا: تمہاری ماں (یعنی ماں کا حق سب سے زیادہ ہے)
انہوں نے پوچھا پھر کون؟ تو فرمایا: تمہاری ماں انہوں نے پوچھا پھر کون؟ حضور اقدس
ﷺ نے پھر ماں کو بتایا انہوں نے پھر پوچھا کہ پھر کون ارشاد فرمایا تمہارا والد۔(1)
حق نمبر 2: اپنی ہر بات اور ہر عمل سے ماں باپ کی
تعظیم و توقیر کرے اور ہمیشہ ان کی عزت و احترام کا خیال رکھے ہر جائز کاموں میں
ماں باپ کے حکموں کی فرمانبرداری کرے اور اگر ماں باپ کو کوئی بھی حاجت ہو تو جان
و مال سے ان کی خدمت کرے۔ اپنے مال کے ذریعے ان کی ضروریات پوری کرے۔ حدیث شریف
میں ہے کہ: حضور اقدس ﷺ نے ایک شخص سے فرمایا کہ تو اور تیرا مال سب تیرے باپ کا
ہے۔ (2)
حق نمبر 3: ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے
اور اگر وہ دونوں یا ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی بڑھاپے کو پہنچ جائے تو ان کو
اف تک نہ کہو کہ بچپن میں انہوں نے ہماری پرورش کی اور ہمارا خیال رکھا ان کے
بڑھاپے میں ہمیں بھی ان کا سہارا بننا چاہیے اور اگر کبھی یہ ہمیں ڈانٹ بھی دیں تب
بھی ہمیں صبر کر کے ثواب حاصل کرنا چاہیے اور ان سے ناراضگی کا اظہار نہیں کرنا
چاہیے۔ ان کا کہا ہوا ہر وہ کام جو خلاف شرع نہ ہو تو اسے فورا بجا لانا چاہیے اور
ان کی خدمت کر کے جنت حاصل کرنی چاہیے کہ اللہ پاک نے فرمایا: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ
بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ- ترجمہ کنز
الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے
ساتھ اچھا سلوک کرو۔ (3)
حق نمبر 4: ماں باپ کا انتقال ہو جائے تو اولاد پر
ماں باپ کا یہ حق ہے کہ ان کے لیے مغفرت کی دعائیں کرتے رہیں اور اپنی نفلی
عبادتوں اور خیر و خیرات کا ثواب ان کی روحوں کو ایصال ثواب کرتے رہیں۔ اعلی حضرت
فرماتے ہیں: (جس کا خلاصہ یہ ہے کہ )ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے بارگاہ رسالت ﷺ میں
حاضر ہو کر عرض کی یا رسول اللہ ﷺ میں اپنے ماں باپ کے ساتھ زندگی میں نیک سلوک
کرتا تھا اور وہ انتقال کر گئے ہیں تو اب ان کے ساتھ نیک سلوک کی کیا صورت ہے؟
ارشاد فرمایا :انتقال کے بعد نیک سلوک یہ ہے کہ تو اپنی نماز کے ساتھ ان کے لیے
بھی نماز پڑھے اور اپنے روزوں کے ساتھ ان کے لیے روزے رکھے یعنی جب اپنے ثواب ملنے
کے لیے کچھ نفلی نماز پڑھے یا روزے رکھے تو کچھ نفل نماز ان کی طرف سے بھی پڑھ لے
کے انہیں ثواب پہنچے یا نماز روزہ جو نیک عمل کرے ساتھ ہی انہیں ثواب پہنچنے کی
بھی نیت کرے کہ انہیں بھی ثواب ملے گا اور تیرا بھی کم نہ ہوگا۔ (4)
حق نمبر 5: ماں باپ کی وفات کے بعد ان کے لیے دعائے
مغفرت کرے ماں باپ کے ذمے جو قرض ہو اس کو ادا کرے اور ان کی وصیت پر عمل کرے اور
برے کام کر کے ان کی روحوں کو تکلیف نہ دے اور ان کی قبر کی زیارت کے لیے بھی جائے
ان کے انتقال کے بعد ان کے رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔ جیسے
حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: زیادہ احسان کرنے والا وہ ہے جو اپنے باپ کے انتقال
کر جانے یا کہیں چلے جانے کی صورت میں احسان کرے۔ (5)
اللہ پاک ہمیں والدین کے حقوق ادا کرنے اور ان کی
فرمانبرداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ
حوالہ جات:
1۔ (بخاری، 4/93، حدیث: 5971)
2۔ (ابن ماجہ، 3/81، حدیث: 2292)
3۔ (پارہ 15، بنی اسرائیل: 23)
4۔ (فتاوی رضویہ، 24/395 ملخصا )
5۔ (مسلم، ص 1382، حدیث:2552)
اسلام میں والدین کے حقوق، ان کی اطاعت اور
فرمانبرداری کو اللہ تعالیٰ نے اپنے واضح حکم سے انسان کو پابند بنایا ہے۔ قرآن
کریم کی تعلیم جہاں اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حکم دیتی ہے اور تاکید کرتی ہے کہ
اولاً عبادت اللہ تعالیٰ کی ہے اور حکم بھی اللہ تعالیٰ ہی کاماننا ہے یہ ایمان کی
پہلی شرط ہے۔
اسلام میں والدین کے حقوق اسلام نے والدین کے کتنے
مراتب وحقوق رکھے ہیں یہ بات معاشرے میں کسی سے مخفی نہیں اور اولاد پر جو حقوق ان
کے ہیں وہ بھی واضح طور پربیان کر دیئے ہیں۔ اگر ہم قرآن واحادیث کا مطالعہ کریں
تو والدین کے حقوق کی اہمیت کا صحیح طور پر پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن
میں کتنے پیارے انداز میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم صادر فرمایا ہے
اورانسان کواس کا پابند بنایا ہے۔ قرآن کریم کی تعلیم جہاں الله تعالیٰ کی عبادت
کا حکم دیتی ہے اور تاکید کرتی ہے کہ اولاً عبادت اللہ تعالیٰ کی ہے اور حکم بھی
اللہ تعالیٰ ہی کاماننا ہے یہ ایمان کی پہلی شرط ہے۔ یہ ہدایت ہر نبی اور پیغمبر
کی بنیادی اور اولین دعوت حق رہی ہے۔ اس کے بعد قرآن میں پانچ جگہ اللہ تعالیٰ کے
حکم کے بعد ماں باپ کے حکم کی تاکید آئی ہے کہ انسان والدین کی اطاعت اور فرماں
برداری کرے اور ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے۔ خاص طور پر جب وہ بڑھاپے کوپہنچ
جائیں جیسے کہ ارشاد ربانی ہے: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا
تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا
یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ
اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ
15، بنی اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے
سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک
یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا
اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔
والدین کے ساتھ حسن سلوک والدین کے ساتھ حسن سلوک
کا بار بار تذکرہ آیا ہے والدین کا بڑا مقام ہے اور یہ مقام الله تعالیٰ نے خود طے
کر دیا ہے والدین ہی حسن سلوک و آداب و احترام کے سب سے زیادہ حقدار ہیں۔ لہٰذا
جہاں اللہ تعالیٰ کی عبادت ضروری ہے۔ وہاں والدین کی اطاعت بھی ضروری ہے اور اس
میں کوتاہی کی کوئی گنجائش نہیں۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک
شخص نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ اولاد پر ماں باپ کا کتنا حق ہے؟ سرکار دو عالم ﷺ
نے فرمایا کہ وہ تمہاری جنت اور دوزخ ہیں۔ یعنی اگر تم ماں باپ کی فرمانبرداری اور
خدمت کرو گے اور ان کو راضی رکھو گے تو جنت پالوگے اور اس کے برعکس اگر ان کی
نافرمانی اور ایذاء رسانی کرکے انہیں ناراض کرو گے اور ان کا دل دکھاؤ گے تو پھر
تمہارا ٹھکانہ دوزخ میں ہو گا۔(ابن ماجہ، 4/186، حدیث: 3662 )
والدین کے ساتھ بھلائی اور ان کی خدمت اپنی طاقت
بھر ان کے ساتھ ہر نیکی اور بھلائی کریں۔ان کی کسی بات پر اف یا بشت یا ہونہہ نہ
کہا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کا حکم فرمانے کے بعد والدین کے ساتھ بھلائی
کرنے کا حکم دیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ والدین کی خدمت بہت ضروری ہے۔ والدین کے
ساتھ بھلائی یہ ہے کہ ایسی کوئی بات نہ کہے اور ایسا کوئی کام نہ کرے جو ان کے لیے
باعث تکلیف ہو اور اپنے بدن اور مال سے ان کی خوب خدمت کرے، ان سے محبت کرے، ان کے
پاس اٹھنے بیٹھنے، ان سے گفتگو کرنے اور دیگر تمام کاموں میں ان کا ادب کرے، ان کی
خدمت کے لیے اپنا مال انہیں خوش دلی سے پیش کرے اور جب انہیں ضرورت ہو ان کے پاس
حاضر رہے۔ ان کی وفات کے بعد ان کے لیے ایصال ثواب کرے، ان کی جائز وصیتوں کو پورا
کرے، ان کے اچھے تعلقات کو قائم رکھے۔ والدین کے ساتھ بھلائی کرنے میں یہ بھی داخل
ہے کہ اگر وہ گناہوں کے عادی ہوں یا کسی بد مذہبی میں گرفتار ہوں تو ان کو نرمی کے
ساتھ اصلاح و تقویٰ اور صحیح عقائد کی طرف لانے کی کوشش کرتا رہے۔ (تفسیر خازن،
1/66)
والدین کے ساتھ عاجزی و انکساری والدین پر رحم و
ترس کرتے ہوئے ان کے سامنے عاجزی و انکساری کیساتھ جھک کر رہو۔ بعض حضرات کا کہنا
ہے کہ جس طرح ایک چڑیا اپنے چوزوں کو اپنے پروں سے ڈھانپ لیتی ہے اور ہر طرح سے
انکی حفاظت کرتی ہے، اسی طرح جب اولاد جوان ہو جائے اور والدین بوڑھے ہو جائیں تو
اولاد ہر دم انکی حفاظت کرے، ان کے سامنے نہایت عاجزی و انکساری کیساتھ رہے۔ ان کے
ساتھ ہمیشہ نرمی کا برتاؤ کریں ان کے سامنے نیچا بن کر رہیں اور ان کی آواز سے
اپنی آواز پست رکھیں۔
فوت شدہ والدین کی قبروں کی زیارت (والدین کے حقوق
میں سے یہ بھی ہے کہ) ہر جمعہ کو ان کی زیارت قبرکے لئے جانا، وہاں یس شریف پڑھنا
ایسی ( یعنی اتنی) آواز سے کہ وہ سنیں اور اس کا ثواب ان کی روح کو پہنچانا، راہ (
یعنی راستے) میں جب کبھی ان کی قبر آئے بے سلام و فاتحہ ( یعنی سلام و ایصال ثواب
کئے بغیر) نہ گزرنا۔ (فتاوی رضویہ، 24/392)
والدین کے لئے دعائے خیر۔ ان کے لیے ہمیشہ غائبانہ
طور پر دعا کرتے رہیں۔ دل و زبان سے ان کے حقوق کا اعتراف کریں۔ ان سے دعائیں
زیادہ سے زیادہ لینی چاہیے۔ اس کے علاوہ والدین کے بہت سارے حقوق ہیں جن کو پورا
کرنا ہم سب پر لازم ہے۔ان کے دوستوں کی عزت کریں۔ان کی وجہ سے قائم رشتوں کو جوڑیں
اور صلہ رحمی کریں۔ان کو گالی دینے برا بھلا کہنے، ڈانٹنے ڈپٹنے اور جھڑکنے سے
بچنا چاہئے۔ان کو گالی دلانے کا سبب بننے سے، بچنا چاہئے۔
ہمارے ذمہ والدین کے بہت زیادہ حقوق ہیں اس کو ادا
کرنے کے نتیجہ میں کل ہمارے بچے بھی ہمارے حقوق کی رعایت کریں گے۔ ہم کو ہر روز
شام کو تھوڑا وقت والدین کو دینا چاہیے ان کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھنا چاہیے،
نرمی سے بات کرنی چاہیے۔ مغرب کی طرح سال میں کوئی ایک دن منانے کی بجائے اللہ کی
خوشنودی کے لیے اس دن کوہر روز منانا چاہیے۔ والدین کے احسانات کا بدلہ ساری زندگی
لگے رہو، نہیں چکا سکتے۔
اللہ پاک سب کے والدین کا سایہ ان کے سروں پر سلامت
رکھے اور جن کے والدین اس دنیا میں نہیں ہیں انہیں صبر عطا کرے۔ آمین ثم آمین یا
رب العالمین
والدین کے حقوق بہت زیادہ ہیں ان سے سبکدوش (بری
الذمہ) ہونا ممکن نہیں ہےمعاشرے میں انسان کو جن ہستیوں سے سب سے زیادہ مدد ملتی
ہے وہ والدین ہیں جو محض اس کو وجود میں لانے کا ذریعہ ہی نہیں بنتے بلکہ اس کی
پرورش اور تربیت کا بھی سامان کرتے ہیں دنیا میں صرف والدین ہی کی ذات ایسی ہے جو
اپنی راحت اولاد کی راحت پر قربان کر دیتی ہے ان کی شفقت اولاد کے لیے رحمت الٰہی
کا وہ سائبان ثابت ہوتی ہے جو انہیں مشکلات زمانہ کی دھوپ سے بچا کر پروان چڑھاتی
ہے انسانیت کا وجود اللہ پاک کے بعد والدین ہی کا مرہون منت ہے اس لیے اللہ پاک نے
قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اپنے بعد والدین کا حق ادا کرنے کی تلقین فرمائی ہے،
چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا
تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا
یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ
لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ رَّبِّ
ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕ(۲۴) (پ
15، بنی اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے
سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک
یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا
اور ان سے تعظیم کی بات کہنا اور ان کے لیے عاجزی کا بازو بچھا نرم دلی سے اور عرض
کر کہ اے میرے رب تو ان دونوں پر رحم کر جیسا کہ ان دنوں نے مجھے چھٹپن(چھوٹی عمر)
میں پالا۔
حضرت ابو
امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ! ماں باپ کا
اولادپر کیا حق ہے؟ فرمایا کہ وہ دونوں تیری جنت و دوزخ ہیں یعنی جو لوگ ان کو
راضی رکھیں گے جنت پائیں گے اور جو ان کو ناراض رکھیں گے دوزخ کے مستحق ہوں گے۔ (ابن
ماجہ، 4/186، حدیث: 3662 )
اللہ پاک نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے
اور خصوصاً ان کے بڑھاپے میں زیادہ خدمت کی تاکید فرمائی ہے یقیناً والدین کا
بڑھاپا انسان کو امتحان میں ڈال دیتا ہے سخت بڑھاپے میں بسا اوقات بستر ہی پر بول
وبراز یعنی گندگی کی ترکیب ہوتی ہے جس کی وجہ سے عموماً اولاد بیزار ہو جاتی ہے
مگر یاد رکھیے! ایسے حالات میں بھی والدین کی خدمت لازمی ہے بچپن میں ماں بھی تو
آخر بچے کی گندگی برداشت کرتی ہی ہے بڑھاپے اور بیماریوں کے سبب والدین کے اندر
خواہ کتنا ہی چڑچڑاپن آجائے خوب بڑبڑائیں بلاوجہ لڑیں خواہ کتنا ہی جھگڑیں بے شک
پریشان کریں مگر صبر صبر اور صبر ہی کرنا اور ان کی تعظیم بجا لانا ہے ان سے
بدتمیزی کرنا ان کو جھاڑنا وغیرہ درکنار ان کے آگے اف تک نہیں کرنا ہے ورنہ بازی
ہاتھ سے نکل سکتی ہے اور دونوں جہان کی تباہی مقدر بن سکتی ہے کہ والدین کا دل
دکھانے والا اس دنیا میں بھی ذلیل وخوار ہوتا ہے اور آخرت کے عذاب کا بھی حقدار
ہوتا ہے۔ (سمندری گنبد، ص16تا17)
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے کہا کہ
حضور ﷺ نے فرمایا کہ پروردگار کی خوشنودی باپ کی خوشنودی میں ہے اور پروردگار کی
ناراضگی باپ کی ناراضگی میں ہے۔ (ترمذی، 3/360، حدیث: 1907)
والدین کا احترام دنیا وآخرت دونوں جہان میں
کامیابی کا بہترین ذریعہ ہے ۔
والدین کے چند حقوق پیش خدمت ہیں:
والدین کی خدمت کیا کرو اور ان سے اف تک نہ کرو ۔والدین
کی اجازت کے بغیر ان کے کمرے میں داخل نہ ہوا کرو ۔
ہرگز ہرگز اپنے کسی قول وفعل سے والدین کو تکلیف نہ
دیں اپنی ہر بات اور کام سے والدین کی تعظیم وتکریم کرے اور ہمیشہ ان کی عزت
واحترام کا خیال رکھے ۔ہر جائز کام میں والدین کا حکم مانے ۔اگر والدین کو کوئی
ضرورت ہو تو جان و مال سے ان کی ہر ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کرے ۔والدین کا
انتقال ہو جائے تو ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے رہیں اور فاتحہ وغیرہ دلا کر ان کی
ارواح کو ایصال ثواب کرتے رہیں ۔والدین کے ذمہ جو قرض ہو اس کو ادا کریں جن کاموں
کی وہ وصیت کر گے ہوں ان کو پورا کریں ۔والدین کی قبروں کی زیارت کے لیے بھی جایا
کریں۔
والدین کے 5 حقوق از بنت محمد شفیق
عطاری، جامعۃ المدینہ معراج کے سیالکوٹ
معاشرے میں انسان کو جن ہستیون سے زیادہ مدد
سرپرستی اور سہارا ملتا ہے وہ والدین ہیں والدین صرف اپنی اولاد کی پیدائش ہی کا
ذریعہ نہیں ہیں بلکہ اس کی پرورش اور تربیت کے بھی ذمہ دار ہوتے ہیں تجربہ شاہد ہے
کہ انسانی بچے کی پرورش سب سے مشکل کام ہے اسی لیے قرآن و سنت میں توحید ورسالت کے
بعد والدین کے حقوق پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے ۔ وَ
قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ
اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا
فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا
كَرِیْمًا(۲۳) (پ
15، بنی اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے
سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک
یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا
اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔
وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ
مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕ(۲۴) (پ
15، بنی اسرائیل:24) ترجمہ کنز الایمان: اور ان کے لیے عاجزی کا بازو بچھا نرم دلی
سے اور عرض کر کہ اے میرے رب تو ان دونوں پر رحم کر جیسا کہ ان دنوں نے مجھے
چھٹپن(چھوٹی عمر) میں پالا۔
وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ
بِوَالِدَیْهِ اِحْسٰنًاؕ-(پ 26، الاحقاف: 15) ترجمہ: اور ہم نے
انسان کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔
والدین کے حقوق کے بارے میں احادیث:
حدیث شریف میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم ﷺ سے
پوچھا اللہ تعالیٰ کو کو ن سا عمل سب سے زیادہ پسند ہے ؟ آ پ ﷺ نے فرمایا وقت پر
نماز پڑھنا انہوں نے پھر پوچھا آپ ﷺ نے فرمایا ماں باپ سے نیک سلوک کرنا۔ (بخاری، 4/93،
حدیث:5970) نبی کریم ﷺ کے ارشادات گرا می یہ ہیں کہ چچا باپ کی مانند اور خالہ ماں
کی مانند ہے۔
ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے والدین کی وفات کے بعد
رشتہ داروں سے اچھے سلو ک کو والدین کے ساتھ نیکی قرار دیا۔
ایک حدیث میں ارشاد ہوا کہ بہترین نیکی یہ ہے کہ
باپ کے تعلق داروں اور محبت والوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے۔(مسلم، ص 1061،
حدیث: 6515)
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: خوار ہو خوار ہو خوار ہو
اصحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا یا رسول ﷺ کون ؟ آپ ﷺ نے فرمایا جس نے اپنے ماں
باپ کو یا ان میں سے کسی ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پایا اور پھر ان کی خدمت کرکے
جنت حاصل نہ کی۔ (مسلم، ص 1060، حدیث: 6510)
اللہ پاک ہمیں ماں باپ کا فرمانبردار بنائے اور
نافرمانی سے محفوظ رکھے آمین ثم آمین
سب رشتوں میں افضل والدین کا مقام ہے اور شریعت نے
والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا سختی سے حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے توحید کے بعد
والدین سے اچھا سلوک کرنے کا فرمایا، چنانچہ قرآن پاک میں ہے: وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْــٴًـا وَّ
بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا (پ
5، النساء: 36) ترجمہ: اور اللہ کی عبادت کرو اور اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ
اور والدین سے اچھا سلوک کرو۔
والدین کے حقوق بے شمار ہیں جن میں سے 5 مندرجہ ذیل
یہ ہیں:
1۔ جس شخص نے صبح اس حال میں کی کہ اس کے ماں باپ
اس سے راضی تھے تو اس نے اس حال میں صبح کی کہ اس کے لئے جنت کے دو دروازے کھلے
اور جس نے شام بھی اسی طرح کی تو اس کے لئے بھی اس کی مثل ہے اور اگر ایک راضی ہو
تو ایک دروازہ کھلے گا، اگر چہ وہ دونوں ظلم کریں اور یہ بات آپ ﷺ نے تین بار
ارشاد فرمائی۔ (شعب الايمان، 6/206، حدیث: 7916)
2۔ بے شک جنت کی خوشبو 500 سال کی مسافت سے سو نگھی
جاسکتی ہے مگر ماں باپ کا نافرمان اور قطع رحمی کرنے والا اس کی خوشبو نہیں سونگھ
سکے گا۔ (معجم اوسط، 4/187، حديث: 5662)
3۔ اپنے ماں باپ بہن بھائیوں کے ساتھ بھلائی کرو
پھر حسب مراتب دیگر رشتہ داروں کے ساتھ۔ (ابوداود، 4/433، حدیث: 5139)
4۔ حضرت مالک بن ربیعہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں
کہ ہم بار گاہ رسالت میں حاضر تھے کہ قبیلہ بنو سلمہ کے ایک شخص نے حاضر خدمت ہو
کر عرض کی: يا رسول الله! کیا مجھ پر میرے والدین کے ساتھ بھلائی کرنے کے بارے میں
کچھ حق باقی ہے کہ جس کو میں ان کی وفات کے بعد ادا کروں ؟ ارشاد فرمایا: ہاں ! ان
کے لئے دعا کرو، ان کی مغفرت چاہو، ان کے وعدوں کو پورا کرو، ان کے دوستوں کی عزت
کرو اور صلہ رحمی کرو کیونکہ والدین کے سبب ہی صلہ رحمی کا سلسلہ ہے۔ (ابو داود، 4/ 434، حدیث: 5143)
5۔ بے شک سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ بندہ اپنے باپ کی
وفات کے بعد اس کے دوستوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔(مسلم، ص 1061، حدیث: 6515)
اللہ پاک ہمیں اپنے والدین کے حقوق پورے کرنے کی
توفیق عطا فرمائے اور اللہ پاک ہمارے والدین کا سایہ ہمارے سروں پر قائم و دائم
رکھے۔ آمین ثم آمین
الله پاک اور اس کے رسول ﷺ کے بعد دنیا کے تمام
رشتوں میں والدین کا رشتہ سب سے بلند ہے کیونکہ معاشرے میں انسان کو جن ہستیوں سے
سب سے زیادہ مدد،سرپرستی اور سہارا ملتا ہے وہ والدین ہیں والدین صرف اپنی اولاد
کی پیدائش کا ذریعہ نہیں ہیں بلکہ ان کی پرورش اور تربیت کے بھی ذمہ دار ہوتے ہیں الله
پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَ وَصَّیْنَا
الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ اِحْسٰنًاؕ-(پ 26، الاحقاف: 15) ترجمہ: اور
ہم نے انسان کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔اس آیت میں الله
تعالیٰ نے آدمی کو اپنے ماں باپ کا فرمانبردار رہنے اور ان کے ساتھ نیک سلوک کرنے
کی تاکید فرمائی ہے۔
والدین کے 5 حقوق:
1۔ حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے سرور
کائنات ﷺ نے تین مرتبہ فرمایا: اس کی ناک خاک آلود ہو مزید خاک آلود ہو، مزید خاک
آلود ہو، کسی نے پوچھا: یا رسول الله ﷺ کون؟ ارشاد فرمایا: جس نے ماں باپ دونوں کو
یا ان میں سے ایک کو بڑھاپے میں پایا اور جنت میں داخل نہ ہوا۔ (مسلم، ص 1060،
حدیث: 6510)
2۔ حضرت ابو عبد الرحمٰن عبد الله بن مسعود رضی الله
عنہ بیان کرتے ہیں میں نے نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا الله تعالیٰ کے نزدیک کون سا
عمل زیادہ محبوب ہے؟ آپ نے فرمایا نماز کو وقت پر ادا کرنا، میں نے عرض کی:پھر کون
سا؟ آپ نے فرمایا: والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، میں نے عرض کی: پھر کون سا؟ آپ نے
فرمایا: جہاد کرنا۔ (بخاری، 4/93، حدیث:5970)
3۔ حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں: نبی
کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: کوئی بھی بیٹا باپ کا حق ادا نہیں کر سکتا ماسوائے اس کے
کہ وہ باپ کو غلام پائے اور اسے خرید کر آزاد کر دے ۔ (مسلم، ص 624، حدیث:3799)
4۔ حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک
شخص نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی میرے اچھے سلوک کا زیادہ حقدار
کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تمہاری ماں اس نے کہا پھر کون؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تمہاری
ماں اس نے پوچھا پھر کون؟ آپ ﷺ فرمایا: تمہاری ماں اس نے کہا پھر کون ؟ (چوتھی
بار) آپ ﷺ نے فرمایا: تمہارا باپ۔ (بخاری، 4/93، حدیث:5971)
5۔ ایک روایت میں ہے نبی کریم ﷺ کا فرمان عظمت نشان
ہے: والدین کے ساتھ بھلائی کرنا، نماز، صدقہ، روزہ، حج، عمرہ اور راہ خدا میں جہاد
کرنے سے افضل ہے۔
ان احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ والدین کا مقام انتہائی
بلند ہے اور والدین کے ساتھ احسان یہ ہے کہ والدین کا ادب اور اطاعت کرے، والدین
کی نافرمانی سے بچے، ہر وقت ان کی خدمت کے لئے تیار رہے اور ان پر خرچ کرنے میں
بقدر توفیق و استطاعت کمی نہ کرے۔
الله رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں والدین کے ساتھ
اچھے سے اچھا سلوک کرنے ان کی خوب خوب خدمت بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے اور انکا
سایہ تاقیامت ہمارے سروں پر قائم و دائم رکھے۔ آمین