والدین کے حقوق کی بات کی جائے تو اس کی اہمیت مذہبی، معاشرتی اور اخلاقی ہر سطح پر واضح نظر آتی ہے۔ اسلام میں والدین کے حقوق کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ احسان کا سلوک کرے، خاص طور پر جب وہ عمر رسیدہ ہوں۔والدین کا احترام صرف لفظوں میں نہیں، بلکہ عملی طور پر بھی ظاہر ہونا چاہیے۔ ان کی روزمرہ کی ضروریات کا خیال رکھنا، اور ان کے ساتھ وقت گزارنا والدین کے بنیادی حقوق میں شامل ہے۔

عزت و احترام والدین کا عزت و احترام کرنا ہر بچے کی ذمہ داری ہے۔ ان کے تجربات اور قربانیوں کا اعتراف کرتے ہوئے والدین کے ساتھ محبت اور خلوص کا برتاؤ بھی ان کے حقوق میں سے ہے۔ ایک مسکراہٹ، شفقت بھری بات، اور دل سے نکلی ہوئی دعا والدین کے دل کو سکون دیتی ہے۔ وہ بھی انسان ہیں اور ان کو بھی جذباتی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔اگر ہم والدین کی عزت اور حقوق کا خیال رکھیں تو یقیناً ہماری اپنی زندگیاں بھی سکون اور خوشحالی سے بھر جائیں گی۔ ہماری نسلیں بھی یہی اقدار سیکھیں گی اور اس طرح معاشرے میں باہمی احترام اور محبت کی فضا قائم ہو گی۔

خدمت و دیکھ بھال: والدین کی خدمت کرنا نہ صرف ان کا حق ہے بلکہ یہ ہمارے لیے عظیم ثواب کا ذریعہ بھی ہے۔ خاص طور پر جب وہ بوڑھے ہو جائیں تو ان کی جسمانی و طبی دیکھ بھال کرنا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔

بات چیت میں شائستگی: والدین سے ہمیشہ نرمی اور محبت بھرے لہجے میں بات کرنی چاہیے۔ ان کی باتوں کو توجہ سے سننا چاہیے۔

معاشرتی تعلقات کی حفاظت: والدین کے دوستوں اور رشتہ داروں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رکھنا ان کے حقوق میں شامل ہے۔ اس سے نہ صرف والدین کی معاشرتی حیثیت بلند ہوتی ہے بلکہ ان کی خوشی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

عقیدت و محبت: والدین کو ان کی قدر و منزلت کا احساس دلانے کے لیے بچوں کا ان سے محبت و عقیدت سے پیش آنا بہت ضروری ہے۔ ان کی خوشیوں کا خیال رکھنا اور انہیں اہمیت دینا ان کے بنیادی حقوق میں شامل ہے۔

اچھی صحبت فراہم کرنا: والدین کے ساتھ وقت گزارنا اور ان کی تنہائی کو دور کرنا بچوں کا فرض ہے۔ ان کے ساتھ اچھے لمحات شیئر کرنا اور مشکل وقت میں ساتھ دینا ان کی عمر کے اس دور میں انتہائی اہم ہوتا ہے۔


معاشرے میں انسان کو جن ہستیوں سے سب سے زیادہ مدد ملتی ہے وہ والدین ہیں اللہ تعالی اور اس کے رسول کے بعد انسان پر اس کے والدین کا حق ہے۔ وہ محض اس کو وجود میں لانے کا ذریعہ نہیں ہیں بلکہ اس کی پرورش اور تربیت کا بھی سامان کرتے ہیں۔ دنیا میں صرف والدین ہی کی ذات ہے جو اپنی راحت کو اولاد کی راحت پر قربان کر دیتے ہیں۔ حقوق العباد میں سب سے پہلا حق والدین کا ہے۔والدین کی شفقت اولاد کیلئے رحمت باری کا وہ سائبان ثابت ہوتی ہے جو انہیں مشکلات زمانہ کی دھوپ سے بچا کر پروان چڑھاتی ہے۔ انسانیت کا وجود اللہ تعالی کے بعد والدین بھی کا مرہون منت ہے۔ والدین کے بہت سے حقوق ہیں جن میں سے پانچ یہاں ذکر کیے گئے ہیں۔

1۔ حسن سلوک: محبت فطری تقاضا ہے۔ والدین اولاد کی محبت کے پہلے حق دار ہیں۔ اولاد کا فرض ہے کہ وہ اپنے اچھے رویے سے ان سے محبت کا اظہارکرے۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: جو نیک اولاد اپنے ماں باپ کی طرف رحمت کی نظر کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہر نظر کے بدلے حج مبرور کا ثواب لکھتا ہے۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی ا گرچہ دن میں سو مرتبہ نظر کرے فرمایا نعم، الله اکبر و اطیب یعنی ہاں۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔ (شعب الايمان، 6/186، حدیث: 7856) اللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا ذکر قرآن پاک میں اس طرح فرمایا ہے: فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل23 ) ترجمہ کنز الایمان: تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

2۔اطاعت فرمانبرداری: اولاد کے ذمے یہ ہے کہ والدین کے ہر حکم بجالائیں اور انکی اطاعت کریں اور اگر وہ ایسا حکم دیں جس سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی ہو تو ان کی اطاعت اس معاملے میں ضروری نہیں ہے۔ اللہ پاک پارہ 15 سورۂ بنی اسرائیل آیت 24 میں ارشاد فرماتا ہے: وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕ(۲۴) (پ 15، بنی اسرائیل:24) ترجمہ کنز الایمان: اور ان کے لیے عاجزی کا بازو بچھا نرم دلی سے اور عرض کر کہ اے میرے رب تو ان دونوں پر رحم کر جیسا کہ ان دنوں نے مجھے چھٹپن(چھوٹی عمر) میں پالا۔

وہ شخص بڑا خوش نصیب ہے جو ماں باپ کو خوش رکھتا ہے جوبد نصیب ماں باپ کو ناراض کرتا ہے اس کیلئے بربادی ہے۔ والدین کا کہنا ماننے کی ایک عظیم مثال حضرت اسماعیل نے قائم کی اور اپنے والد کے حکم کی تعمیل میں قربانی کے لئے تیار ہو گئے۔

3۔ بے رخی اختیار نہ کرو: اللہ اور اسکے رسول ﷺ کے بعد سب سے زیادہ احسانات انسان پر اس کے والدین کے ہیں اولاد ان احسانات کا بدلہ نہیں چکا سکتی۔ اولاد کو اپنے والدین کی شکر گزاری کرنی چاہیے حضرت عبد الله بن عمر نے کہا کہ حضور ا کرم ﷺ نے فرمایا کہ یہ بات کبیرہ گناہوں میں سے ہے کہ آدمی اپنے ماں باپ کو گالی دے تو میں نے کہا: یا رسول اللہ! کیا کوئی اپنے ماں باپ کو بھی گالی دیتا ہے۔ فرمایا: ہاں (اسکی صورت یہ ہوتی ہے کہ) یہ دوسرے کے باپ کو گالی دیتا ہے تو وہ اسکے باپ کو گالی دیتا ہے اور یہ دوسرے کی ماں کو گالی دیتا ہے تو وہ اسکی ماں کوگالی دیتا ہے۔ (بخاری، 4/94، حدیث:5973)

4۔ والدین کا شکر ادا کرنا: الله اور رسول کے بعد انسان پر سب سےبڑا احسان والدین کاہوتا ہے جنہوں نے پیدائش، پرورش اور تربیت سے جو مصائب برداشت کیے ہیں کوئی دوسرا اس بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ اس لئے ان کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ لقمان آیت 14 میں ارشاد فرماتا ہے: اَنِ اشْكُرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیْكَؕ-ترجمہ: میرا شکر ادا کرو اور اپنے والدین کا۔

5۔ دعائے مغفرت: والدین کی وفات کے بعد یہ اولاد کا حق ہے کہ ان کی مغفرت کی دعا کی جائے اس سےجنت میں ان کے درجات بلندہوتے ہیں۔ ہمیں نماز میں بھی یہ دعا سکھائی گئی ہے جیسا کہ اللہ پاک سورۂ ابراہیم آیت 41 میں ارشاد فرماتا ہے: رَبَّنَا اغْفِرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیَّ ترجمہ کنز الایمان: اے ہمارے رب مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو۔


قرآن کریم کی آیت طیبہ میں توحید کے بعد جن کے حقوق کا ذکر کیا گیا ہے وہ والدین ہیں، حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی آپ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا عرض کی: اے اللہ کے رسول میرے احسان کا زیادہ حقدار کون ہے؟ فرمایا تیری ماں اس نے پوچھا پھر کون؟ فرمایا: تیری ماں، اس نے عرض کی: پھر کون؟ فرمایا: تیری ماں، پھر عرض کی: اس کے بعد؟ فرمایا: تیرا باپ۔(بخاری، 4/93، حدیث:5971)

اس حدیث پاک سے واضح ہوا کہ تمام لوگوں سے زیادہ کسی آدمی کے احسان کے زیادہ حقدار اسکے والدین ہیں۔

حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ حضور ﷺنے تین دفعہ فرمایا کہ ذلیل و رسوا ہو اس کی خاک ناک آلود ہو۔ اس کی ناک خاک آلود ہو۔ اس کی ناک خاک آلود ہو۔پوچھا گیا ایسا کون بد بخت ہے تو آپ ﷺنے فرمایا کہ وہ جو اپنے والدین میں سے ایک یا دنوں کو بڑھاپے میں پائے تو ان کی خدمت کرکے جنت میں داخل نہ ہو۔ (مسلم، ص 1060، حدیث: 6510)

حضرت اسما بنت ابوبکر کی والدہ مشرکہ تھی وہ اپنی بیٹی کو ملنے آئی تو حضرت اسما نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ میری والدہ آئی ہے حالانکہ وہ اسلام سے اعراض کرنے والی ہے کیا میں اس سے صلہ رحمی کروں تو حضور نے فرمایا کہ تو اس کے ساتھ صلہ رحمی کر۔

علمائے کرام فرماتے ہیں: والدین کے بیٹے پر دس حقوق ہیں انہیں کھانا کھلانا خدمت کرنا جب وہ بلائیں تو ان کو جواب دینا چلنے میں ان سے پیچھے چلنا ان کے لیے دعائے مغفرت کرناان کی پسند کو ترجیح دینا نرمی سے گفتگو کرنا حکم ماننالباس پہنانا ان کی وفات کے بعد ان کو ایصال ثواب دینا۔

حضرت عبدالله بن عمر فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا آدمی کا اپنے والدین کو گالی گلوچ کرنا کبیرہ گناہوں سے ہے تو صحابہ نے عرض کی کیا کوئی آدمی اپنے والدین کا گالی کرتا تو فرمایا کہ وہ کسی کے باپ کو گالی نکالتا ہے تو وہ اس کے باپ کو گالی دےگا وہ کسی کی ماں کو برا بھلا کہےگا تو وہ اس کی ماں کو برا بھلا کہے گا۔ (بخاری، 4/94، حدیث:5973)

اللہ پاک ہمیں والدین کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


حقوق کی اہمیت! دین اسلام ہی وہ دین ہے جس میں ہر ایک کے حقوق بیان کیے گئے ہیں اور اس پر خوشخبری و وعیدات بیان کی گئی ہیں کہ حقوق اللہ پر بھی اتنی وعیدات نہیں ہیں جتنی حقوق العباد پر بیان کی گئی ہیں چاہے کوئی بادشاہ ہے چاہے فقیر حقوق العباد کا معاملہ سب کے لیے یکساں بیان کردیاگیا ہے اسی طرح والدین کے حقوق بھی اولاد پر لازم ہیں کہ والدین بغیر کسی لالچ و طمع کے اپنی اولاد کی پرورش کرتے ہیں اور پھر ان کے ایجوکیشنل مراحل کا خیال رکھتے ہیں دن رات ایک کرکے کماتے ہیں اور اولاد پر خرچ کرتے ہیں بلکل اسی طرح اولاد پر بھی والدین کے حقوق لازم ہیں کہ اولاد والدین کو اف تک نہیں کہہ سکتی والدین کو اف کہنا علمائے کرام نے حرام قرار دیا ہے والدین کے حقوق کا خیال رکھنا فرض ہے والدین کے بے شمار حقوق بیان کیے گئے ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

1)اپنے کسی قول و فعل کے ذریعے ماں باپ کو تکلیف ہرگز نہ دیں اگرچہ والدین اولاد پر زیادتی بھی کریں تب بھی فرض ہے کہ والدین کا ہرگز دل نہ دکھائیں۔

2)اپنے ہر عمل کے ذریعے والدین کی تعظیم و تکریم کرے ہمیشہ ہرحال میں ان کی عزت و حرمت کا خیال رکھے۔

2)ہر جائز کام میں ان کی فرماں برداری کرے(ہاں وہ معاملات جن کی شریعت اجازت نہیں دیتی ان معاملات میں ہرگز کسی کی اطاعت نہ کرے جیسے والدین فرض روزے چھوڑنے کا کہیں یا داڑھی منڈانے کا کہیں تو ہرگز ان کی اطاعت نہ کرے)۔

3)اگر ماں باپ کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو جان و مال کے ذریعے ان کی خدمت کرے۔

4)اگر ماں باپ اولاد کے مال میں سے بغیر اجازت کچھ لے لیں تو ہرگز برا نہ مانیں بلکہ اس پر خوشی کااظہار کریں کہ ماں باپ نے ان کی چیز کو اپنی چیز سمجھا ہے۔

5)ماں باپ انتقال کرجائیں تو ان کے لیے خوب ایصال ثواب کرے ان کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لیے جایا کریں ان کی مغفرت کی ہمیشہ دعا کیاکریں(ہاں اگر والدین معاذاللہ ثم معاذاللہ کافر ہوں تو ان کے لیے ایصال ثواب نہیں کرسکتے نہ ہی دعائے مغفرت کرسکتے ہیں اگر کرے گا تو کافر ہوجائے گا)ماں باپ کے دوستوں کے ساتھ میل جول رکھے ان کے ساتھ بھلائی والہ سلوک کرے ماں باپ کے ذمے جو قرض ہو وہ ادا کرے اور جن کاموں کی انہوں نے وصیت کی ہوان کو پورا کرے(ہاں اگر ایسے کام کی وصیت کی ہو جو شرعاً جائز نہ ہو جیسے کہیں کہ میرے جنازے میں فلاں کو نہ آنے دینا یا میرا منہ فلاں کو نہ دیکھنے دینا یہ قطع رحمی ہے جوکہ حرام ہے)۔ (جنتی زیور، ص 92تا 94)


اللہ تبارک و تعالی انسان کے وجود کا سبب حقیقی ہے پر سبب ظاہری والدین ہیں۔ اسکے ساتھ والدین اولاد کی پرورش کے لیے بےشمار تکالیف و مشکلات جھیلتے ہیں ۔ایک طرف ماں پیٹ میں رکھنے اور دودھ پلانے میں تکالیف اٹھاتی ہے تو دوسری طرف باپ اولاد کے بہتر مستقبل کے لیے طلب معاش میں کوشاں رہتا ہے۔ اسی لئے والدین کے حقوق سے انسان کبھی بری الذمہ نہیں ہو سکتا۔قرآن و احادیث میں بھی جگہ جگہ والدین کے حقوق بیان کیے گئے ہیں ۔ ان میں سے 05 حقوق پیش خدمت ہیں۔

1۔ حسن سلوک: قرآن کریم فرقان حمید میں رب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ- (پ 15، بنی اسرائیل23 ) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کا حکم دینے کے بعد اس کے ساتھ ہی ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا اس سے والدین کی عظمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔اولاد کو چاہیے کہ انکا ادب و احترام کرے،انکے ہر جائز حکم کی تعمیل کرے،انکی نافرمانی سے بچے، خدمت کرے،ان پر خرچ کرنے میں بقدر استطاعت کمی نہ کرے۔

2۔ ادب و تعظیم: رب تعالی فرماتا ہے: فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل23 ) ترجمہ کنز الایمان: تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

اللہ اکبر! جب والدین کو اف کہنے سے منع کر دیا گیا تو دل آزاری کا گناہ کتنا ہو گا۔ حدیث مبارکہ میں ہے: سب گناہوں کی سزا رب تعالیٰ قیامت کیلئے اٹھا رکھتا ہے مگر ماں باپ کی نافرمانی کہ اس کی سزا جیتے جی پہنچاتا ہے۔ لہذا کبھی کوئی ایسا کلمہ کوئی ایسی بات زبان سے نہ نکالیں جس سے انکا دل دکھے یا یہ سمجھا جائے کہ انکی طرف سے اسکی طبیعت پر کچھ بوجھ ہے۔ ہمیشہ ادب کیساتھ ان سے کلام کریں۔ان سے نظریں ملا کر بات نہ کریں اور نہ ہی اونچی آواز میں بات کریں۔ ماں باپ جب کھڑے ہوں تو ان کے لیے تعظیما کھڑے ہو جائیں۔

3۔ زیارت کرنا: والدین کو دیکھنا بھی عبادت ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا: جو اولاد اپنے ماں باپ کی طرف رحمت کی نظر کرے تو اللہ پاک اسکے لیے ہر نظر کے بدلے حج مبرور (یعنی مقبول حج) کا ثواب لکھتا ہے۔صحابہ کرام نے عرض کی اگرچہ دن میں سو مرتبہ نظر کرے۔فرمایا ہاں اللہ سب سے بڑا آور اطیب ہے۔ (شعب الايمان، 6/186، حدیث: 7856)

انکی زیارت کرتا رہے اور انکے وصال کے بعد ہر جمعہ انکی قبر پر حاضر ہو کر تلاوت قرآن کرے اورایصال ثواب کرے۔ حدیث مبارکہ میں ہے: جو شخص روز جمعہ اپنے والدین یا ایک کی زیارت قبر کرے بخش دیا جائے۔ (المعجم الاوسط،6/175، حدیث: 6114)

4۔ والدین کے دوستوں کیساتھ حسن سلوک: حدیث مبارکہ میں ہے: باپ کیساتھ نیکوکاری سے یہ ہے کہ تو اسکے دوستوں سے نیک برتاؤ کرے۔ (الحقوق لطرح العقوق، ص 54) یعنی انکی خوشی، غمی میں شریک ہونا، ضرورت پڑنے پر انکی مدد کرنا۔جب کبھی گھر میں کوئی اچھی چیز بنے انکو بھیجنا۔کیونکہ جو والدین کے دل کے قریب ہوتے ہیں انکو خوش کرنا والدین کے دل میں راحت پہنچانا ہے اس لئے ہمیشہ ان کا خیال رکھے۔

5۔ دعا کرنا: والدین کیلئے دعا کرنے کا خود رب تعالی نے حکم دیا ہے فرماتا ہے: وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕ(۲۴) (پ 15، بنی اسرائیل:24) ترجمہ کنز الایمان: اور عرض کر کہ اے میرے رب تو ان دونوں پر رحم کر جیسا کہ ان دنوں نے مجھے چھٹپن(چھوٹی عمر) میں پالا۔

اولاد کو چاہیے کہ والدین کیلئے روزانہ دعا کرے۔کیونکہ حدیث مبارکہ میں ہے: آدمی جب ماں باپ کیلئے دعا کرنا چھوڈ دیتا ہے تو اسکا رزق قطع ہو جاتا ہے۔ (کنز العمال، 16/201، حدیث: 44548)

والدین اگر حیات ہوں تو صحت و تندرستی،ایمان و عافیت کی سلامتی کی دعا کرے اور اگر وصال کر گئے ہوں تو قبر میں راحت، قیامت کی پریشانیوں سے نجات،بے حساب بخشش، جنت میں داخلے کی دعا کرے۔ جیساکہ حدیث مبارکہ میں ہے: ماں باپ کیساتھ حسن سلوک سے یہ ہے کہ اولاد انکے لئے دعائے مغفرت کرے۔ (کنز العمال، 16/200، حدیث:45441)

علمائے کرام نے والدین کیلئے دعا کرنے کو ان کا شکر ادا کرنا قرار دیا ہے۔ حضرت سفیان بن عیینہ فرماتے ہیں: جس نے پنج گانہ نمازوں کے بعد والدین کیلئے دعا کی تو اس نے والدین کی شکر گزاری کی۔ پس ہمیں چاہیے کہ والدین کیلئے دعائیں کرتے رہیں۔

یاد رکھیں! اگر والدین کے حقوق میں کوئی کمی ہوئی ہو تو جب تک کہ تلافی ممکن ہو تلافی کرنا ضروری ہے۔لہذا اگر والدین کی حق تلفی کی ہو یا دل آزاری کی ہو تو ان سے معافی مانگنی بھی ضروری ہے۔

والدین کیساتھ حسن سلوک اور ان کے حقوق کی رعایت کرنے کی تعلیم جس قدر اسلام نے دی ہے ویسی پوری دنیا کے دیگر مذاہب میں نظر نہیں آتی۔ باہر کے ممالک اولڈ ہاوس سے بھرے پڑیں ہیں۔لیکن آج کا ایک مسلم طبقہ بھی دین سے دوری کی بنا پر والدین کیساتھ ناروا سلوک کرتا ہے۔خاص طور پر جب وہ بزرگ ہوتے ہیں۔ ایسی اولاد کو یہ سوچنا چاہیے کہ جب ہم بچپن میں کمزور تھے تب انہوں نے ہمیں سنبھالا اور ہماری پرورش کی ہم پر خرچ کیا اب انکو ہماری ضرورت ہے۔ اب ہمیں چاہیے کہ ہم اپنا فرض نبھائیں، کیونکہ والدین کی ساری امیدیں اولاد سے وابستہ ہوتی ہیں۔

اللہ پاک ہمیں والدین کے حقوق ادا کرنے کی توفیق دے عقوق والدین سے بچائے۔