والدین کے 5 حقوق از بنت عبد الرحمن
مدنیہ،فیضان آن لائن اکیڈمی بورے والا
حقوق کی اہمیت! دین
اسلام ہی وہ دین ہے جس میں ہر ایک کے حقوق بیان کیے گئے ہیں اور اس پر خوشخبری و
وعیدات بیان کی گئی ہیں کہ حقوق اللہ پر بھی اتنی وعیدات نہیں ہیں جتنی حقوق
العباد پر بیان کی گئی ہیں چاہے کوئی بادشاہ ہے چاہے فقیر حقوق العباد کا معاملہ
سب کے لیے یکساں بیان کردیاگیا ہے اسی طرح والدین کے حقوق بھی اولاد پر لازم ہیں
کہ والدین بغیر کسی لالچ و طمع کے اپنی اولاد کی پرورش کرتے ہیں اور پھر ان کے
ایجوکیشنل مراحل کا خیال رکھتے ہیں دن رات ایک کرکے کماتے ہیں اور اولاد پر خرچ
کرتے ہیں بلکل اسی طرح اولاد پر بھی والدین کے حقوق لازم ہیں کہ اولاد والدین کو
اف تک نہیں کہہ سکتی والدین کو اف کہنا علمائے کرام نے حرام قرار دیا ہے والدین کے
حقوق کا خیال رکھنا فرض ہے والدین کے بے شمار حقوق بیان کیے گئے ہیں جن میں سے چند
درج ذیل ہیں:
1)اپنے کسی قول و فعل کے ذریعے ماں باپ کو تکلیف
ہرگز نہ دیں اگرچہ والدین اولاد پر زیادتی بھی کریں تب بھی فرض ہے کہ والدین کا
ہرگز دل نہ دکھائیں۔
2)اپنے ہر عمل کے ذریعے والدین کی تعظیم و تکریم
کرے ہمیشہ ہرحال میں ان کی عزت و حرمت کا خیال رکھے۔
2)ہر جائز کام میں ان کی فرماں برداری کرے(ہاں وہ
معاملات جن کی شریعت اجازت نہیں دیتی ان معاملات میں ہرگز کسی کی اطاعت نہ کرے
جیسے والدین فرض روزے چھوڑنے کا کہیں یا داڑھی منڈانے کا کہیں تو ہرگز ان کی اطاعت
نہ کرے)۔
3)اگر ماں باپ کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو جان و مال
کے ذریعے ان کی خدمت کرے۔
4)اگر ماں باپ اولاد کے مال میں سے بغیر اجازت کچھ
لے لیں تو ہرگز برا نہ مانیں بلکہ اس پر خوشی کااظہار کریں کہ ماں باپ نے ان کی
چیز کو اپنی چیز سمجھا ہے۔
5)ماں باپ انتقال کرجائیں تو ان کے لیے خوب ایصال
ثواب کرے ان کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لیے جایا کریں ان کی مغفرت کی ہمیشہ دعا
کیاکریں(ہاں اگر والدین معاذاللہ ثم معاذاللہ کافر ہوں تو ان کے لیے ایصال ثواب
نہیں کرسکتے نہ ہی دعائے مغفرت کرسکتے ہیں اگر کرے گا تو کافر ہوجائے گا)ماں باپ
کے دوستوں کے ساتھ میل جول رکھے ان کے ساتھ بھلائی والہ سلوک کرے ماں باپ کے ذمے
جو قرض ہو وہ ادا کرے اور جن کاموں کی انہوں نے وصیت کی ہوان کو پورا کرے(ہاں اگر
ایسے کام کی وصیت کی ہو جو شرعاً جائز نہ ہو جیسے کہیں کہ میرے جنازے میں فلاں کو
نہ آنے دینا یا میرا منہ فلاں کو نہ دیکھنے دینا یہ قطع رحمی ہے جوکہ حرام ہے)۔ (جنتی
زیور، ص 92تا 94)