پیارے آقا ﷺ کو اہلِ بیتِ اطہار سے بے پناہ محبت تھی۔دورِ رسالت سے لے کر آج تک امتِ مسلمہ اپنے پیارے نبیِ کریم ﷺ کی آل سے بے پناہ محبت کرتی آئی ہے۔کتبِ سیرت میں آپ کی اہلِ بیت سے محبت وتعظیم اور ان کی طرح رجوع لینے کے جابجا واقعات نظر آتے ہیں۔اہلِ بیت سے محبت حضور ﷺ  سے محبت کی علامت ہے۔حضور ﷺ نے خود اس کی ترغیب وتلقین فرمائی ہے اور اسی پر سلف وصالحین کا عمل ہے۔چنانچہ

پیارے آقا ﷺ کا فرمان ہے: ہم اہلِ بیت کی محبت کو خود پر لازم کر لو ! جو اللہ پاک سے اس حال میں ملے کہ ہم سے محبت کرتا ہو تو وہ شفاعت کے صدقے جنت میں جائے گا۔(مجمع اوسط،1/606،حدیث:2230 )

حدیث پاک میں ہے:حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:میں تم کو اپنے اہلِ بیت کے بارے میں تمہیں اللہ پاک کی یاد دلاتا ہوں۔ یہ جملہ تین مرتبہ فرمایا ۔

(مسلم،ص 1008،حدیث:6225)

حضرت زید بن ارقم رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا:میں تم میں وہ چیز چھوڑتا ہوں کہ اگر تم اسے تھامے رہو تو میرے بعد گمراہ نہ ہو گے۔ان میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے: (1) الله پاک کی کتاب جو آسمان سے زمین تک لمبی رسی ہے اور(2)میری عترت یعنی میرے اہلِ بیت۔یہ دونوں جدا نہ ہوں گےیہاں تک کہ میرے پاس حوض پر آجائیں۔لہٰذا غور کرو! تم ان دونوں سے میرے بعد کیا معاملہ کرتے ہو! (ترمذی،5 /434،حدیث:3813)

حضور ﷺ نے فرمایا: اپنی اولاد کو تین باتیں سکھاؤ :1)اپنے نبی ﷺکی محبت،2 )اہلِ بیت کی محبت اور3 )اور قرآن کی محبت۔(جامع صغیر،ص25،حدیث: 311 )

اُمُّ المؤمنین حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:جب میرے گھر میں یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی:(اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳))(تَرجَمۂ کنز الایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی دُور فرما دے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے) تو رسولُ اللہ ﷺ نے حضرت فاطمہ، حضرت حسن، حضرت حسین اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کو بلایا اور فرمایا: یہ میرے اہلِ بیت ہیں۔حضرت امِّ سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:میں نے عرض کی:یا رسولَ اللہ ﷺ!میں بھی اہلِ بیت سے ہوں؟رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا:کیوں نہیں!اِنْ شَآءَ اللہ۔

(شرح السنہ للبغوی، 7/204، حدیث:3805)

جب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَ اَبْنَآءَكُمْ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَكُمْ وَ اَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَكُمْ- 3 ،اٰلِ عمرٰن:61) تو نبیِ کریم ﷺنے حضرت علی ، فاطمہ حسن و حسین رضی اللہ عنہم کو بلایا اور فرمایا:اے اللہ پاک!یہ میرے اہل ہیں۔(مسلم، ص1310،حدیث:2404)

(ترمذی ،5 /407،حدیث:3745 ملخصاً)

حضور ﷺ نے فرمایا:جس نے حسن سے محبت رکھی اس نے اللہ پاک سے محبت رکھی اور یہ بھی فرمایا: جس نے مجھ سے محبت رکھی اس نے ان دونوں (یعنی حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما) سے محبت رکھی اور یہ کہ ان دونوں کے والدین میرے ساتھ میری جگہ پر بروز قیامت ہوں گے۔(الشفا، 2 /55)

ہم کو اہلِ بیتِ اطہار سے پیار ہے ان شاءاللہ ان کے صدقے اپنا بیڑا پار ہے

اللہ ہمیں اہلِ بیتِ اطہار علیہم الرضوان کی محبت میں زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہِ خاتمِ النبیین ﷺ


 پیارے آقا ﷺ اپنے گھر والوں سے بہت محبت کرتے تھے اور اس کا حکم بھی اپنی امت کو دیا کہ وہ بھی اہلِ بیت سے محبت کریں۔اہلِ بیت سے محبت کرنے کے حوالے سے یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی:قُلْ لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ- (پ 25 ،الشوری:23)ترجمہ: ترجمۂ کنزالایمان : تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اُجرَت نہیں مانگتامگر قَرابَت کی مَحَبّت ۔

حضرت مولانا سید مفتی محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:اس آیتِ مبارکہ کا شان نزول حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے اس طرح مروی ہے کہ جب نبی کریمﷺمدینہ طیّبہ میں رونق افروز ہوئے اور انصار نے دیکھا کہ حضور ﷺ کے ذمّہ مصارف بہت ہیں اور مال کچھ بھی نہیں ہے تو انہوں نے آپس میں مشورہ کیا اور حضور کے حقوق و احسانات یاد کرکے حضور کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے بہت سا مال جمع کیا اور اس کو لے کر خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ حضور کی بدولت ہمیں ہدایت ہوئی ، ہم نے گمراہی سے نجات پائی ، ہم دیکھتے ہیں ، کہ حضور کے مصارف بہت زیادہ ، اس لئے ہم یہ مال خدّامِ آستانہ کی خدمت میں نذر کے لئے لائے ہیں ، قبول فرما کر ہماری عزّت افزائی کی جائے ، اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور حضور ﷺ نے وہ اموال واپس فرمادیئے ۔(تفسیر خزائن العرفان،ص893)

رشتہ دار سے کون لوگ مراد ہیں؟حضرت طاؤس رحمۃ اللہ علیہ فرماتی ہیں کہ اس کے بارے میں حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا:اس سے نبیِ اکرم ﷺ کے رشتہ دار مراد ہیں اور مقرضی نے فرمایا:مفسرین کی ایک جماعت نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا:اے حبیب!اپنے پیروکار مومنوں کو فرما دو کہ میں تبلیغِ دین پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا سوائے اس کے کہ تم میرے رشتہ داروں سے محبت رکھو۔حضرت ابو العالیہ حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ- یہ رسول اللہ ﷺ کے رشتہ دار ہیں۔ابو اسحاق فرماتے ہیں:میں نے حضرت عمر و بن شعیب سے اس آیتِ کریمہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا:قُربٰی سے مراد رسول اللہ ﷺ کے رشتہ دار ہیں۔ رہا یہ سوال کہ رشتہ دار سے کون لوگ مراد ہیں؟ تو علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے در منثور اور دیگر کئی مفسرین نے اس آیت مبارکہ کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت ابن ِعباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا کہ صحابہ کرام نے عرض کی:یا رسول اللہ ﷺ!آپ کے وہ کون سے رشتہ دار ہیں جن کی محبت ہم پر واجب ہے؟آپ نے فرمایا:علی،فاطمہ اور ان کی اولاد رضی اللہ عنہم۔( خطباتِ محرم،ص 232 تا 234)

اس سے معلوم ہوا کہ جب مسلمانوں میں باہمی محبت واجب ہے تو اشرف المسلمین یعنی اہلِ بیت کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی محبت بدرجۂ اولی واجب ہے۔خلاصہ یہ ہوا کہ میں ہدایت اور ارشاد پر کوئی معاوضہ نہیں طلب کرتا لیکن میرے رشتہ داروں کی محبت جو تم پر واجب ہے اس کا خیال رکھنا۔

رسول اللہ ﷺ نے اہلِ بیت سے محبت کا حکم دیا اور فرمایا:خبردار ہو کر سن لو!جو شخص اہلِ بیت کی محبت پر فوت ہو وہ تائب ہو کر فوت ہوا۔ (الشرف المؤبد، ص 81)

فرمایا:کان کھول کر سن لو!جو شخص اہلِ بیت کی محبت پر فوت ہوا اسے حضرت عزرائیل علیہ السلام اور پھر منکر نکیر جنت کی بشارت دیتے ہیں۔(الشرف المؤبد، ص 81)

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو اہلِ بیت کی محبت پر فوت ہوا اس نے شہادت کی موت پائی۔

(الشرف المؤبد، ص 81)

اہلِ بیت سے محبت ہونی چاہیے ،ان کی محبت دلوں میں مضبوط ہونی چاہیےاور کسی قسم کا شک و شبہ نہ کیا جائے۔یہ ساری خوشخبریاں اور بشارتیں ان لوگوں کے لیے ہیں جو اہلِ بیت سے محبت رکھتے ہیں۔

(خطبات محرم ،ص 236)

پوری حدیث شریف میں آلِ محمد کا ترجمہ اہلِ بیت اس لیے کیا گیا کہ اہلِ بیت علیہم الرضوان کے آلِ رسول ہونے میں کسی کا اختلاف نہیں اور دوسروں کا آلِ رسول ہونا اختلافی ہے۔اللہ پاک ہمیں بھی حقیقی معنوں میں اہلِ بیت کی محبت عطا فرمائے امین۔


سب سےمقدم  ہمارا یہ جاننا ضروری ہے کہ اہلِ بیت کون ہیں اور ان میں کون سی مبارک ہستیاں شامل ہیں۔

اہلِ بیت کون ہیں ؟اس بارے میں مفسرین کرام کا اختلاف ہے۔بعض کے نزدیک حضور سرورِ عالم ﷺہی مراد ہیں۔بعض کے نزدیک حضور اکرم ﷺ،امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ،سیده فاطمہ رضی اللہ عنہا،حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین علیہما السلام اہلِ بیت ہیں۔

تفسیرِ کبیر میں ہے :وَالْأَوْلَى أَنْ يُقَالَ هُمْ أَوْلَادُهُ وَأَزْوَاجُهُ وَالْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ مِنْهُمْ وَعَلِيٌّ مِنْهُمْ لِأَنَّهُ كَانَ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ بِسَبَبِ مُعَاشَرَتِهِ بِبِنْتِ النَّبِيِّ عليه السلام وملازمته للنبي۔ ترجمہ :اور بہتر ہے یہ کہا جائے کہ حضور ﷺ کی اولاد،آپ کی بیویاں،امام حسن وحسین اور امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہم اہلِ بیت میں سے ہیں بنتِ رسول کی معیت کی وجہ سے ۔(تفسیر كبير، 9/168)

لكُلِّ شي اسَاسُ وَأَسَاسُ الْإِسْلَامِ حَبُّ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ وَحُبُّ أَهْلِ بَيْتِهٖ۔ترجمہ: ہر چیز کی بنیاد ہوتی ہے اور اسلام کی بنیاد رسول اللہ ﷺ کے اصحاب و اہلِ بیت کی محبت ہے۔

(الشرف المؤبد، ص 93)

اہلِ بیت کی محبت ہر مومن پر واجب ہے جیسا کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:اثْبَتْكُمْ عَلَى الصِّرَاطِ أَشَدُّ كُمْ حُبًّا لِاَھْلِ بَیْتِیْ وَ اَصْحَابِیْ۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:تم میں سے پل صراط پر زیادہ ثابت قدم وہ ہوگا،جو میرے اہلِ بیت و اصحاب کے ساتھ زیادہ محبت کرنے والا ہو گا۔(الشرف المؤبد،ص 93)

ان دو حدیثوں سے معلوم ہوا کہ حُبِّ اہلِ بیت بھی ضروری ہے اور حُبِّ اصحاب بھی لازم۔اگر اصحاب علیہم الرضوان کو چھوڑ کر صرف اہلِ بیت کرام علیہم الرضوان سے محبت کی جائے تو ایسی محبت قابلِ قبول نہ ہو گی۔

اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:

اہلِ سنت کا ہے بیڑا پار،اصحاب ِ حضور نجم ہیں اور ناؤ ہے عترت رسول اللہ کی

بہت سی حدیثوں سے ثابت ہے کہ آقا ﷺ اہلِ بیت سے پیار فرماتے اور امت کو بھی اہلِ بیتِ عظام علیہم الرضوان سے محبت کرنے اور ان کی محبت میں جان قربان کردینے کا درس دیا۔چنانچہ

1-آقا کریم ﷺ کا فرمانِ عظمت نشان ہے: مَنْ مَّاتَ عَلٰى حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ شَهِيدًا۔ترجمہ جو حُبِّ اہلِ بیت پر فوت ہوا،وہ شہید فوت ہوا۔(الشرف المؤبد، ص 81)

2-أَلَا وَمَنْ مَّاتَ عَلٰى حُبّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ مَغْفُورًا الَهٗ۔ ترجمہ:خبردار جو آل محمد کی محبت پر فوت ہواوہ بخشا ہوا فوت ہوا۔(الشرف المؤبد، ص 81)

3- أَلَا وَمَنْ مَّاتَ عَلَى حُبّ آلِ مُحَمَّدٍ مَّاتَ تَائِبًا۔ ترجمہ:خبردار جو آلِ محمد کی محبت پر فوت ہوا وہ توبہ کے ساتھ فوت ہوا۔(الشرف المؤبد، ص 81)

4- أَلَا وَمَنْ مَاتَ عَلَى حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ بَشَّرَ ہٗ مَلَكُ الْمُوتِ بِالْجَنَّةِ ثُمَّ مُنْكِرٌ ونَكِيرہٌ ۔ترجمہ:خبردار!جو آلِ محمد کی محبت پر مراتو اُسے ملک الموت، پھر منکر نکیر جنت کی خوشخبری دیتے ہیں۔(الشرف المؤبد، ص 81)

حکایت: جعفر بن سلیمان نے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کو کوڑے مارے توآپ بے ہوش ہو گئے،جب لوگ آپ کے پاس حاضر ہوئے اور آپ ہوش میں آئے تو فرمایا :تم لوگ گواہ ہو جاؤ کہ میں نے کوڑے مارنے والے کو معاف کر دیا۔ جب کسی نے دریافت کیا کہ آپ نے کس لئے معاف کیا ؟ تو فرمایا: میں ڈرتا ہوں کہ جب وفات پا جاؤں اور اپنے رسولِ کریم ﷺ کی زیارت سے مشرف ہوں تو مجھے آپ سے شرم آئے گی کہ میری وجہ سے آپ کی آل دوزخ میں جائے۔جب منصور تخت خلافت پر بیٹھا تو اس نے امام ملک کی طرف سے قصاص لینے کا ارادہ کیا تو حضرت امام نے فرمایا :خداہ کی پناہ۔خدا کی قسم !جب کوڑا میرے جسم سے الگ ہوتا تھا تو میں رسولِ محترم ﷺ کی قرابت کی وجہ سے ان کو معاف کردیتا۔( نور الابصار ص 129)

آقا ﷺ کا فرمانِ دل پزیر ہے:مَنْ اَبْغَضَ اَھْلَ الْبَیْتِ فَھُوَمُنَافِقٌ یعنی جو شخص اہلِ بیت سے بغض رکھے گا وہ منافق ہوگا ۔(صواعق محرقہ، ص 172)

اس سے معلوم ہوا کہ جو انسان اہلِ بیت سے بغض رکھے گا ان مقدس ہستیوں کی ذاتِ بابرکات میں زبان درازی کر ےگا اور دل میں ان نفوسِ قدسیہ کا بغض و کینہ ہوگا تو وہ کبھی بھی کامل مومن ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ نبیِ پاک ﷺ نے فرمادیا کہ وہ منافق ہے۔

یاد رہے! ان مقدس ہستیوں سے محبت ہی اصل و حقیقی مومن کی پہچان ہے۔منافقوں کی پہچان کے بارے میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے فرمادیا:مَا كُنَّا نَعْرِفُ الْمُنَافِقِیْنَ اِلَّا بِبُغْضِهِمْ عَلِيًّا یعنی ہم منافقوں کو نہیں پہچانتے تھے مگر امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بغض رکھنے کی وجہ سے۔

(صواعق محرقہ، ص 172)

ان دونوں حدیثوں سے ہمیں معلوم ہو گیا کہ مومن تو کبھی اہلِ بیت سے بغض و عداوت نہ رکھے گا البتہ ان سے بغض و عداوت رکھنا منافق کاکام ہے ۔نیزآقا ﷺ کی ان تمام احادیث ِمبارکہ سے صاف واضح ہو گیا کہ آپ بذاتِ خود بھی اپنی اہلِ بیت و آل پاک سے بے حد محبت فرماتے تھے اور اس سنتِ مبارکہ کو ادا کرتے ہوئے تمام صحابہ کرام،تابعین،تبعِ تابعین،محدثین،اقطاب،ابدال،اولیائے کرام رضی اللہ عنہم و رحمۃ اللہ علیہم اجمعین بھی اہلِ بیت کی عظمت پر قربان ہوا کرتے اور آج کے دور میں اولیائے کرام کا بھی یہی انداز ہے کہ اگر ان کے جسم کے ٹکڑے کردیے جائیں تو ان کے لہو کے قطرے قطرے سے اہلِ بیت کی محبت کی خوشبو آئے گی۔

اے مالک و مولیٰ!ہمیں بھی ان مقدس ہستیوں سے جن کے لئے جنت سے جوڑے آتے اور رب کی طرف سے سلام آتا تھا ان کا صدقہ عطا فرما،ہمارے لہو کے قطرے قطرے میں ان کی محبت و عشق کی چاشنی نصیب فرما۔ان کے نانا جان ﷺ کا عشق اور قبر و حشر میں شفاعت نصیب فرما، اہلِ بیت کے سایۂ کرم میں جنت میں داخلہ نصیب فرما،دین پہ استقامت عطا فرما اور اس راستے پر قائم فرما۔نیزکبھی ان کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے۔ آمین بجاہِ خاتمِ النبیین ﷺ


          اہلِ بیت کون ہیں؟حضور تاجدارِ مدینہ ﷺ کے نسب اور قرابت کے لوگوں کو اہلِ بیت کہا جاتا ہے۔اہلِ بیت میں پیارے آقا ﷺ کی ازواجِ مطہرات،آپ کے شہزادے اور شہز ادایاں،حضرت مولیٰ علی،حضرت امام حسن و حضرت امام حسین رضی الله عنہم سب داخل ہیں۔اہلِ بیت کرام رضی اللہ عنہم سے اللہ پاک نے رجس و ناپاکی کو دور فرمایا،انہیں خوب پاک کیا اور جو چیز ان کے مرتبہ کے لائق نہیں،اس سے ان کے پروردگار نے انہیں محفوظ رکھا،ان پر دوزخ کی آگ حرام کی،صدقہ ان پر حرام کیا گیا کیونکہ صدقہ،دینے والوں کا میل ہوتا ہے۔پہلا گروہ جس کی حضور شفیعِ محشر ﷺ شفاعت فرمائیں گے وہ آپ کے اہلِ بیت رضی اللہ عنہم ہیں۔اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کی محبت فرائضِ دین سے ہے اور جو ان سے بغض رکھے وہ منافق ہے۔اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کی مثال حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کی طرح ہے کہ جو اس میں سوار ہوا اس نے نجات پائی اور جو اس سے کترایا ہلاک و بر باد ہوا۔حضور ﷺ نے ان حضرات کے ساتھ اپنی باقی صاحبزادیوں،قرابت داروں کو بھی اپنے اہلِ بیت میں شامل فرمایا۔

نبیِ کریم ﷺ کی اہلِ بیتِ اطہار سے محبت احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں:آپ ﷺ نے اہلِ بیت سے بکثرت محبت و عقیدت کا اظہار فرمایا،چنانچہ

اُمُّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:ایک صبح نبیِ کریم ﷺ باہر تشریف لائے اور آپ پر کالی اون کی مخلوط چادر تھی۔امام حسن ابن علی رضی اللہ عنہما آئے تو حضور ﷺ نے انہیں چاد رمیں داخل کر لیا،پھر امام حسین رضی اللہ عنہ آئے وہ بھی ان کے ساتھ داخل ہو گئے،پھر سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا آئیں تو انہیں بھی داخل کر لیا گیا،پھر مولیٰ علی رضی اللہ عنہ آئے تو انہیں بھی داخل کر لیا گیا۔پھر فرمایا:اے نبی کے گھر والو! اللہ پاک چاہتا ہے کہ تم سے گندگی دور کر دے اور تمہیں خوب پاک و صاف فرما دے۔

(مسلم،ص1013،حدیث:6261)

اسی طرح اُمُّ المؤمنین حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:جب میرے گھر میں یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی:(اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳))(تَرجَمۂ کنز الایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی دُور فرما دے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے) تو رسولُ اللہ ﷺ نے حضرت فاطمہ، حضرت حسن، حضرت حسین اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کو بلایا اور فرمایا: یہ میرے اہلِ بیت ہیں۔حضرت امِّ سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:میں نے عرض کی:یا رسولَ اللہ ﷺ!میں بھی اہلِ بیت سے ہوں؟رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا:کیوں نہیں!اِنْ شَآءَ اللہ۔(شرح السنہ للبغوی، 7/204، حدیث:3805)

ان کی پاکی کا خدائے پاک کرتا ہے بیاں آیہ ٔتطہیر سے ظاہر ہے شانِ اہلِ بیت

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:6مہینے تک نبیِّ اکرم ﷺ کا یہ معمول رہا کہ نمازِ فجر کے لئے جاتے ہوئے حضرت سیِّدَ ہ فاطِمۃ الزَّہرا رضی اللہ عنہا کے گھر کے پاس سے گزرتے تو فرماتے:اے اہلِ بیت! نماز قائم کرو۔(ترمذی،5/142،حدیث:3217)

آپ ﷺ نے ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبیِ اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ پاک سے محبت کرو کیونکہ وہ تمہیں اپنی نعمت سے روزی دیتا ہے اور اللہ پاک کی محبت (حاصل کرنے) کے لیے مجھ سے محبت کرو اور میری محبت (پانے) کے لیے میرے اہلِ بیت سے محبت کرو۔(ترمذی،5/ 434،حدیث: 3814)

مصطفىٰ عزت بڑھانے کے لیے تعظیم دیں ہے بلند اقبال تیرا دودمانِ اہلِ بیت

ایک طویل حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ حضرت حصین نے حضرت زید سے پوچھا:کیا آپ ﷺ کی ازواج اہلِ بیت نہیں؟انہوں نے فرمایا:آپ ﷺ کی ازواج اہلِ بیت ہیں لیکن آپ ﷺ کے اہلِ بیت وہ (بھی) ہیں جن پر صدقہ حرام ہے۔(مسلم،ص1008،حدیث:6225)

اہلِ بیتِ مصطفےٰ ہیں صاحبِ حرمت بھی ہیں روحِ دیں ہیں،بلکہ دیں ہیں،امہات المومنین

آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے اہلِ بیتِ اطہار کے حوالے سے خصوصی وصیت فرمائی جس سے آپ ﷺ کی ان سے محبت اور ان کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔

حدیثِ مبارک میں ہے:حضرت حُذَ یْفَہ بن اُسَیْد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:اے لوگو!میں تمہارا پیش رو ہوں اور تم حوض پرآؤ گے۔پس جب تم میرے پاس آؤ گے تو میں تم سے دو بھاری چیزوں کے متعلق دریافت کروں گاتوتم غورکروکہ میرے بعد ان دونوں کے بارے میں میرے کیسے جانشین رہے ہو۔سب سے زیادہ بھاری چیزکتاب اللہ ہے۔اس کی رسی کا ایک کنارہ اللہ پاک کے دستِ قدرت میں اوردوسرا تمہارے ہاتھوں میں ہے۔ لہٰذاکتاب اللہ کو مضبوطی سے تھامے رکھواور گمراہ نہ ہونا اور نہ ہی اسے بدلنا۔د وسری چیز میری عترت یعنی اَہل بیت ہیں۔ بے شک مجھے مہربان و خبردارنے خبر دی ہے کہ یہ دونوں اس وقت تک ہرگز جدا نہیں ہوں گے جب تک میرے حوض پر نہ آئیں گے۔

(معجم کبیر،3/180-65،حدیث:3052،2678)

دستِ اطہر سے نبی کے جنت الفردوس میں پی رہے ہیں جامِ کوثر تشنگانِ اہلِ بیت

آپ ﷺ اپنے اہلِ بیت سے محبت فرماتے تھے،آپ نے اپنے ارشادات کے ذریعے بھی اس چیز کا واضح اعلان فرمایا اور اُمت کو اپنے اہلِ بیت سے محبت و عقیدت کا درس دیا،کیونکہ اہلِ بیت کی محبت،ان سے عقیدت اور ان کے حقوق کی بجا آوری میں ہی آخرت کی کامیابی ہے۔جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ حضرت حسن بن علی رضی الله عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبیِ اکرم ﷺ نے فرمایا:ہم اہلِ بیت کی محبت کو لازم پکڑو!پس بے شک وہ شخص جو اس حال میں اللہ پاک سے ملا کہ وہ ہم سے محبت کرتا تھا تو وہ ہماری شفاعت کے صدقے جنت میں داخل ہوگا اور اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے!کسی شخص کو اس کا عمل فائدہ نہیں دے گا مگر ہمارے حق کی معرفت کے سبب۔

(مجمع اوسط،1/606،حدیث:2230 )

جو ہیں سرتا پا جہاں میں عاشقانِ اہلِ بیت مل گئی روز ِجزا ان کو امانِ اہلِ بیت

رسولِ اکرمﷺ نے فرمایا: جو وسیلہ حاصل کرنا چاہتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ میری بارگاہ میں اس کی کوئی خدمت ہو،جس کے سبب میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں،اُسے چاہئے کہ میرے اہلِ بیت کی خدمت کرے اور اُنہیں خُوش کرے۔(برکاتِ آلِ رسول،ص110)

اہلِ بیت سے بغض: رسول اللہﷺ نے فرمایا: خبردار ! جو اہلِ بیت کے بغض و عداوت پر مرا،وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا کہ یہ اللہ پاک کی رحمت سے نا امید ہے۔(الشرف المؤبد،ص79)ایک اور روایت میں فرمایا: جو اہلِ بیت سے بغض یا حسد کرے گا،اسے قیامت کے دن حوضِ کوثر سے آگ کے چابکوں سے دُور کیا جائے گا۔

(کنزالعمال،6/48،حدیث:34198،الجزء :12)

اللہ پاک ہمیں اہلِ بیت کی محبت و عقیدت سے وافر حصہ عطا فرمائے۔آمین


اللہ پاک کا شکر ہے کہ جس نے ہمیں حضور نبیِ اکرم ﷺ کی امت میں شامل فرمایا اور اپنی بندگی،عبادت اور طاعت کے ساتھ ساتھ حضور نبیِ اکرم ﷺ کی غلامی اور آپ کی محبت کے رشتے میں منسلک کیا۔آقا علیہ السلام کی محبت کے بارے میں اللہ پاک نے کچھ مظاہر بنائے ہیں اور اہلِ بیتِ اطہار اور حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کی محبت کو اہم ترین مظاہر ایمان اور مظاہرِ محبتِ رسول میں شامل فرمایا ہے۔

(1)حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو آپ کے حج میں عرفہ کے دن دیکھا جب آپ اپنی اونٹنی قصواء پر خطبہ پڑھ رہے تھے،میں نے آپ کو فرماتے سنا کہ اے لوگو!میں نے تم میں وہ چیز چھوڑی ہے کہ جب تک تم ان کو تھامے رہو گے گمراہ نہ ہو گے:(1)اللہ پاک کی کتاب اور(2)میری عترت یعنی اہلِ بیت۔(ترمذی،5/433،حدیث:3811)

(2)اُمُّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے،فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ(جو ابھی کمسن تھے ان)کی ناک صاف کرنے کا ارادہ کیا تو اُمُّ المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی:مجھے اجازت دیجیے کہ یہ کام میں کروں۔فرمایا:اے عائشہ!اس سے محبت کرو کیونکہ میں اس سے محبت کرتا ہوں۔(ترمذی،5/447،حدیث:3844)

(3) حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے،فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اللہ پاک سے محبت کرو کیونکہ وہ تمہیں اپنی نعمت سے روزی دیتا ہےاور اللہ پاک کی محبت کے لئے مجھ سے محبت کرو اور میری محبت کے لئے میرے اہلِ بیت سے محبت کرو۔(ترمذی،5/434،حدیث:3814)

(4) حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے کعبہ کا دروازہ پکڑے ہوئے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کو فرماتے سنا کہ آگاہ رہو کہ تم میں میرے اہلِ بیت کی مثال حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کی طرح ہے۔جو اس میں سوار ہو گیا نجات پا گیا اور جو اس سے پیچھے رہ گیا ہلاک ہو گیا۔(مستدرک،4/132،حدیث:4774)

(5)حضرت مِسْوَر بن مَخْرَمَہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:میری بیٹی فاطمہ میرا ٹکڑا ہے۔جو چیز اسے بُری لگے وہ مجھے بُری لگتی ہے اور جو چیز اسے ایذا دے وہ مجھے ایذا دیتی ہے۔

(بخاری،3/471،حدیث:5230)


اہلِ بیت کے معنیٰ ہیں  گھر والے۔حضورِ اقدس ﷺ اپنے اہلِ بیت سے والہانہ محبت کرتے تھے۔حضور ﷺ نے اپنی قرابت اور اپنی اہلِ بیت کی محبت کو ہمارے اوپر فرض و واجب قرار دیا ہے اور ان سے محبت و عقیدت یقیناً سعادتِ دارین ہے۔

اہلِ بیت سے مراد کون ؟اہلِ بیت میں نبیِ کریم ﷺ کی ازواجِ مطہرات اور حضرتِ خاتونِ جنت فاطمہ زہرا اور علی المرتضیٰ اور حسنینِ کریمین (رضی اللہ عنہم) داخل ہیں۔(تفسیر خزائن العرفان،ص780)

حضور ﷺ کی اہلِ بیت سے محبت:

1-سرکار ﷺ کا فرمانِ عالیشان ہے :فَاطِمَةُ بِضْعَةٌ مِنِّىْ فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے۔

(بخاری،2/538،حدیث:3714)

2- حضرت براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :میں نے دیکھا کہ حضرت امام حسن ابنِ علی رضی اللہ عنہما رسول اللہ ﷺ کے کندے پر تھے آپ فرماتے تھے: الٰہی!میں اس سے محبت کرتا ہو تو بھی اس سے محبت فرما۔

( بخاری،2/547،حدیث:3749)

3-حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حسن اور حسین جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔(ترمذی،5/426،حدیث:3793)

4-حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:رسولِ کریم ﷺ سے پوچھا گیا: اہلِ بیت علیہم الرضوان میں آپ کو زیادہ پیارا کون ہے؟ فرمایا: حسن اور حسین۔حضور ﷺ سیدہ فاطمہ سے فرماتے تھے کہ میرے پاس میرے بچوں کو بلاؤ،پھر انہیں سونگھتے تھے اور اپنے سے لپٹاتے تھے۔(ترمذی،5/428،حدیث:3797)

5-نبیِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:ھُمَا رَیْحَانَتَایَ مِنْ الدُّنْیَا یہ دونوں(یعنی امام حسن و حسین رضی اللہ عنہما) دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔(بخاری،2 /547،حدیث:3753)

ان احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ آقا ﷺ کو اپنے اہلِ بیت سے بہت زیادہ محبت تھی۔اللہ پاک کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں آقا ﷺ کی امت میں شامل فرمایا اور اپنی بندگی،عبادت اور اطاعت کے ساتھ ساتھ حضور نبیِ کریم ﷺکی غلامی اور آپ کی محبت کے رشتے میں منسلک کیا۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمارے دلوں کو اہلِ بیت علیہم الرضوان کی محبت سے منور فرمائے اور اہلِ بیت علیہم الرضوان سے محبت کرنے والی عظیم نعمت سے مالا مال فرمائے اور ان کی محبت میں جینا مرنا ہمارے مقدر بنائے۔آمین بجاہ النبی الامین ﷺ


نبیِ کریم ﷺ کےاہلِ قرابت اور اہلِ بیتِ اطہار رضی اللہُ عنہم سے محبت اور عقیدت و احترام سعادت مندی اور خوش نصیبی کی پہچان ہے۔تمام اُمّتِ مسلمہ پر ان پاکیزہ ہستیوں کی محبت و تعظیم ضروری ہے۔ان سے بغض و عداوت،نفرت و عناد اور ان کی توہین و تنقیص،بد نصیبی،دنیا و آخرت میں نقصان کا سبب اور اللہ پاک کے قہر  و غضب کے نازل ہونے کا باعث ہے،لہٰذا جس رسولِ پاک ﷺ نے ہمیں ایمان جیسی دولت،خدا کی پہچان اور دوسری تمام نعمتوں کو پانے کی راہیں بتائی ہیں ہمیں چاہئے کہ ہم آپ کے اہلِ بیت علیہم الرضوان سے خوب پیار و محبت اور حُسنِ سلو ک سے پیش آئیں،نیز ان کی محبت کا چراغ اپنے دلوں میں جلائیں۔حضور ﷺ اپنےاہلِ بیت سے کس قدر محبت فرماتے تھے اس کا اندازہ ان احادیثِ مبارکہ کو پڑھ کر لگایا جا سکتا ہے۔چنانچہ

(1)حضرت زید بن ارقم رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا:میں تم میں وہ چیز چھوڑتا ہوں کہ اگر تم اسے تھامے رہو تو میرے بعد گمراہ نہ ہو گے۔ان میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے:(1)الله پاک کی کتاب جو آسمان سے زمین تک لمبی رسی ہے اور(2)میری عترت یعنی میرے اہلِ بیت۔یہ دونوں جدا نہ ہوں گےیہاں تک کہ میرے پاس حوض پر آجائیں۔لہٰذا غور کرو! تم ان دونوں سے میرے بعد کیا معاملہ کرتے ہو! (ترمذی،5 /434،حدیث:3813)

(2)حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا:اللہ پاک سے محبت رکھو کیونکہ وہ تمہیں اپنی نعمتوں میں سے روزی دیتا ہے۔اللہ پاک سے محبت کے لئے مجھ سے محبت کرو اور میری محبت کے لئے میرے اہلِ بیت سے محبت رکھو۔( ترمذی،5/434،حدیث:3814 )

(3)امیر المومنین حضرت علی رضی اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں:رسولِ پاک ﷺ نے فرمایا:میں اپنی اُمّت میں سب سے پہلے جس کی شفاعت کروں گا وہ میرے اہلِ بیت ہیں۔(معجم کبیر،12/ 321،حدیث:13550)

(4) امیر المومنین حضرت علی رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں:نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا:میری شفاعت میرے ان اُمتیوں کے لئے ہے جو میرے اہلِ بیت سے محبت کرتے ہیں۔( تاریخ بغداد،2/ 144،حدیث:563)

(5)حضرت زید بن ارقم رضی اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسولِ کریم ﷺ نے حضرت علی،فاطمہ اور حسنینِ کریمین رضی اللہُ عنہم سے فرمایا:میں ان سے لڑنے والا ہوں جو تم سے لڑے اور میں ان سے صلح کروں گا جو تم سے صلح کرے۔(ترمذی،5/466،حدیث:3896 )اللہ پاک ہمیں اہلِ بیت رضی اللہُ عنہم کی محبت میں جینا مرنا اور روزِ محشر اٹھنا نصیب فرمائے۔آمین بجاہِ النبی الامین ﷺ


حضور نبیِ کریم ﷺ کےاہلِ قرابت اور اہلِ بیتِ اطہار سے محبت و مؤدت اور عقیدت و احترام سعادت مندی اور خوش نصیبی کی پہچان ہے۔تمام اُمّتِ مسلمہ پر ان پاکیزہ حضرات کی محبت و تعظیم ضروری ہے اور ان سے بغض و عداوت،نفرت و عناد اور ان کی توہین و تنقیص بد نصیبی اور دنیا و آخرت میں خسارے و نقصان کا سبب اور اللہ پاک کے غضب و قہر کے نازل ہونے کا باعث ہے،اس لئے ہمیں چاہیے کہ جس رسولِ پاک ﷺنے ہمیں ایمان جیسی دولتِ سرمدی،خدا وند ِقدوس کی پہچان اور دوسری تمام نعمتوں کو پانے کی راہیں بتائیں ان کے اہلِ بیت سے خوب پیار و محبت اور حسنِ سلو ک سے پیش آئیں،ان کی محبت کا چراغ اپنے دلوں میں جلائیں کہ رسولِ پاک ﷺ ان حضرات سے بے حد محبت فرماتے اور بارگاہِ الٰہی میں یوں عرض کرتے: مولیٰ!میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی انہیں اپنا محبوب بنا اور ان سے بھی محبت فرما جو ان سے محبت رکھے۔

(ترمذی،5/427،حدیث:3793)

احادیثِ مبارکہ:

(1)امام احمد نے روایت کیا کہ حضور اقد س ﷺ نے حضرت امام حسن و حسین رضی اللہ عنہما کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا:جو شخص مجھ سے،ان دونوں سے اور ان کے والدین سے محبت رکھے گا وہ قیامت کے دن (جنت میں) میرے درجے میں ہوگا۔(ترمذی،5/410،حدیث :3754)

(2)امام بیہقی روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:بندہ مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کی جان سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں،میری اولاد اس کی اولاد سے زیادہ محبوب نہ ہو جائے اور میری ذات اس کی ذات سے محبوب تر نہ ہوجائے۔(صواعق محرقہ،ص344 )

(3)امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا:جو میرے اہلِ بیت میں سے کسی کے ساتھ اچھا سلوک کرے گا میں روزِ قیامت اس کا صلہ اسے عطا فرماؤں گا۔

(جامع صغیر،ص533،حدیث:8821)

(4)امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:اپنی اولاد کو تین خصلتیں سکھاؤ:(1)اپنےنبی(ﷺ)کی محبت(2)اہل ِبیت(علیہم الرضوان)کی محبت(3)قرآن کی قراءت۔بے شک حاملینِ قرآن(یعنی قرآن پڑھنے والے)اللہ پاک کے نبیوں اور پسندیدہ لوگوں کے ساتھ اس کے(عرش کے)سائے میں ہوں گے کہ جس دن اس کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا۔

(جامع صغیر،25،حدیث:311)

(5)امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:تم میں پل صراط پر سب سے زیادہ ثابت قدم رہنے والا وہی ہوگا جو سب سے زیادہ محبت میرے اہلِ بیت اور میرے صحابہ علیہم الرضوان سے کرنے والا ہوگا۔(جامع صغیر،16،حدیث:159)

دعا:اللہ پاک ہم سب کو اہلِ بیت علیہم الرضوان کی محبت میں جینا مرنا اور روزِ محشر اٹھنا نصیب فرمائے۔

آمین بجاہِ النبی الامینﷺ


اہلِ بیت کے معنی ہیں:گھر والے۔ہمارے پیارے نبیِ کریم ﷺ کے اہلِ بیتِ اطہار کی 3 قسمیں ہیں:

1-اہلِ بیت ولادت:وہ اہلِ بیت جو حضور اکرم ﷺ کی اولاد میں سے ہوں۔جیسے حضرت فاطمہ اور امام حسن و حسین رضی اللہُ عنہم۔

2-اہلِ بیتِ نسب:جو پیارے آقا ﷺ کے نسب میں داخل ہیں(نہ کہ وہ لوگ جنہوں نے اسلام میں حضور ﷺ کی مدد نہ کی۔)اہلِ بیت نسب میں امیر المومنین حضرت علی،حضرت جعفر و عباس رضی اللہُ عنہم وغیرہ شامل ہیں۔

3-اہلِ بیت مسکن:وہ اہلِ بیت جو نبیِ پاک ﷺ کے گھر میں رہنے والے اور آنے جانے والے ہوں۔جیسے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہُ عنہ۔

یاد رہے!پیارے آقا ﷺ کی مقدس بیویاں رضی اللہُ عنہن بھی اہلِ بیتِ اطہار میں شامل ہیں۔

( تفسیرقرطبی،7/134،جزء :14)

ہمارے پیارے آقا ﷺ تمام جہان والوں کے لیے رحمت بن کر تشریف لائے۔لہٰذا آپ نے اپنی رحمت اور محبت و الفت سے اپنی اُمت کے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کو بھی خوب نوازا اور ان سے محبت کر کے ہمیں بھی اپنے گھر والوں،آل اولاد سے محبت و شفقت کا انداز اپنانے کا عملی نمونہ عطا فرمایا۔آپ کی اپنے اہلِ بیت سے محبت کی جھلکیاں احادیثِ مبارکہ میں دیکھی جا سکتی ہیں۔چنانچہ اس بارے میں چند احادیثِ مبارکہ پیشِ خدمت ہیں:

اہلِ بیت میں سب سے پیارا کون؟حضور ﷺ کو اپنے اہلِ بیت رضی اللہُ عنہم میں حضرت فاطمہ رضی اللہ ُعنہا سب سے پیاری تھیں۔چنانچہ جب سفر پر جایا کرتے تو اخیر میں آپ سے مل کر جاتے۔جب واپس آتے تو سب سے پہلے آپ سے ملتے۔( مواہب لدنیۃ،4/395)

حضرت مِسْوَر بن مَخْرَمہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا:فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے۔جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔(بخاری،2/550،حدیث:3767)ایک اور روایت میں ہے:جو چیز انہیں پریشان کرے وہ مجھے پریشان کرتی ہے اور جو انہیں تکلیف دے وہ مجھے ستاتا ہے۔(مسلم،ص1021،حدیث:6307)

حضرات حسنینِ کریمین سے محبت:حضرت انس رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں:نبیِ کریم ﷺ سے پوچھا گیا:اہلِ بیت میں آپ کو زیادہ پیارا کون ہے؟فرمایا:حسن اورحسین۔حضور ﷺ حضرت فاطمہ رضی اللہ ُعنہا سے فرماتے تھے کہ میرے پاس میرے بچوں کو بلاؤ!پھر انہیں سونگھتے اور اپنے سے لپٹاتے تھے۔

(ترمذی،5/428،حدیث:3797)

حضرات حسنینِ کریمین کو پیار سے سونگھا کرتے:حضرت ابنِ عمر رضی اللہُ عنہما فرماتے ہیں:رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا:حسن اور حسین دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔(بخاری،2/547،حدیث:3753)

حضرت اُسامہ و حسن سے محبت:حضرت اسامہ بن زید رضی اللہُ عنہ نبیِ کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ رسولِ کریم ﷺ مجھے پکڑ کر اپنی ران پر اور حسن ابنِ علی رضی اللہُ عنہ کو دوسری ران پر بٹھا لیتے تھے۔پھر دونوں کو لپٹا کر فرماتے:الٰہی!ان دونوں پر رحم فرما کہ میں ان پر رحم کرتا ہوں۔

(بخاری،4/101،حدیث: 6003)

اپنی نواسی سے محبت :ہمارے آقا ﷺ کو اپنی نواسی حضرت امامہ رضی اللہ ُعنہا سے بڑی محبت تھی۔نماز میں بھی ان کو اپنے کندھے پر رکھ لیتے،جب رکوع کرتے تو اتار دیتے اور جب سجدے سے سر اٹھاتے تو پھر سوار کرلیتے۔ایک بار نجاشی نے حضور ﷺ کی خدمت میں ایک جوڑا بھیجا جس میں ایک سونے کی انگوٹھی تھی،انگوٹھی کا نگینہ حبشی تھا۔حضور ﷺ نے وہ انگوٹھی حضرت اُمامہ رضی اللہ ُعنہا کو عطا فرمائی۔( شرح زرقانی مع مواہب لدنیۃ،4/321)نیز حضور ﷺ کو مقدس بیویوں میں سے اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ ُعنہا سے بہت محبت تھی۔( سیرتِ رسولِ عربی،ص606)

اللہ کریم ہمیں پیارے آقا ﷺ کی سیرتِ طیبہ کا مطالعہ کرنے،سمجھنے اور عمل کی توفیق عطا فرمائے،ہمیں حضور کا حقیقی عشق عطا فرمائے اور عافیت کے ساتھ آپ کی سنتوں پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

آمین بجاہِ خاتمِ النبیین ﷺ


عموماً دیکھا جاتا ہے کہ اس دنیا میں ہر ایک کو اپنے گھر والوں سے محبت ہوا کرتی ہے اور اس کا اندازہ خاص طور پر اس وقت ہوتا ہے کہ جب ہمارے گھر کا کوئی فرد بیمار ہو جائے یا کسی سنگین پریشانی میں پھنس جائے۔جب عام انسان اپنے گھر والوں سے محبت کرتا ہے،ان کےلیے کسی بھی طرح کی محنت کرنے سے نہیں گھبراتا،ان کی خواہشات پوری کرنے کی کوششوں میں ہوتا ہے اور  ان کی بیماری میں انتہائی پریشان ہو جاتا ہے تو اللہ پاک کے محبوب،سب نبیوں کے سردار،محمد عربی،رسولِ ہاشمی ﷺ کی اپنے اہلِ بیت سے محبت کیسی ہو گی! آئیے!احادیثِ طیبہ کے ذریعے سے جانتی ہیں کہ ہمارے پیارے آقا،محمد مصطفیٰ ﷺ اپنے اہلِ بیت(گھر والوں) سے کیسی محبت فرماتے تھے اور آپ کا ان کے ساتھ کیا انداز ہوتا تھا۔چنانچہ

اُمُّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:ایک صبح نبیِ کریم ﷺ باہر تشریف لائے اور آپ پر کالی اون کی مخلوط چادر تھی۔امام حسن ابن علی رضی اللہ عنہما آئے تو حضور ﷺ نے انہیں چاد رمیں داخل کر لیا،پھر امام حسین رضی اللہ عنہ آئے وہ بھی ان کے ساتھ داخل ہو گئے،پھر سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا آئیں تو انہیں بھی داخل کر لیا گیا،پھر مولیٰ علی رضی اللہ عنہ آئے تو انہیں بھی داخل کر لیا گیا۔پھر فرمایا:اے نبی کے گھر والو! اللہ پاک چاہتا ہے کہ تم سے گندگی دور کر دے اور تمہیں خوب پاک و صاف فرما دے۔

(مسلم،ص1013،حدیث:6261)

حضرت براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :میں نے دیکھا کہ حضرت امام حسن ابنِ علی رضی اللہ عنہما رسول اللہ ﷺ کے کندے پر تھے آپ فرماتے تھے: الٰہی!میں اس سے محبت کرتا ہو تو بھی اس سے محبت فرما۔

( بخاری،2/547،حدیث:3749)

حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:حضور ﷺ مجھے پکڑتے اور اپنی ران پر بٹھاتے تھے جبکہ امام حسن رضی اللہ عنہ کو دوسری ران پر بٹھا لیتے تھے،پھر دونوں کو لپٹا کر فرماتے: الٰہی! ان دونوں پر رحم فرما!میں ان پر رحم کرتا ہوں۔(بخاری،4/101،حدیث:6003)

سبحان اللہ!حضور ﷺکا اہلِ بیت کے ساتھ کیا انداز ہوا کرتا تھا!اللہ کرے ہمیں بھی آقاﷺ کے صدقے میں اہلِ بیت کرام کی سچی محبت نصیب ہو جائے۔آمین یا رب العالمین بجاہِ خاتمِ النبیین ﷺ

اہلِ بیت سے محبت کرو:اللہ پاک سے محبت کرو کیونکہ وہ تمہیں اپنی نعمت سے روزی دیتا ہے اور اللہ پاک کی محبت (حاصل کرنے) کے لیے مجھ سے محبت کرو اور میری محبت (پانے) کے لیے میرے اہلِ بیت سے محبت کرو۔(ترمذی،5/ 434،حدیث: 3814)

اپنی اولاد کو تین باتیں سکھاؤ :1)اپنے نبی ﷺکی محبت،2 )اہلِ بیت کی محبت اور3 )اور قرآن کی محبت۔

(جامع صغیر،ص25،حدیث: 311 )

اہلِ بیت کشتیِ نوح کی طرح: میرے اہلِ بیت کی مثال کشتیِ نوح کی طرح ہے جو اس میں سوار ہوا نجات پا گیا اور جو اس سے پیچھے رہا ہلاک (یعنی برباد) ہو گیا۔(مستدرک،3 /81،حدیث: 3365)

اہلِ بیت:نبیِ کریم ﷺ کے اہلِ بیت سے مراد رسولِ اکرم ﷺ کی ازواجِ مطہرات،آپ ﷺ کی اولاد،مولیٰ علی رضی اللہ عنہ،حضرت حسنین کریمین رضی اللہ عنہما اور اٰلِ پاک ہیں۔

مومن کامل کون:یعنی اس وقت تک کوئی (کامل) مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اُس کو اس کی جان سے زیادہ پیارا نہ ہو جاؤں اور میری اولاد اس کو اپنی اولاد سےزیادہ پیاری نہ ہو جائے۔

(شعیب الایمان،2 / 189،حدیث: 155)

صحابہ کا گدا ہوں اور اہلِ بیت کا خادم یہ سب ہے آپ ہی کی تو عنایت یا رسول اللہ

( وسائلِ بخشش،ص330)

جو شخص وسیلہ حاصل کرنا چاہتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ میری بارگاہ میں اس کی کوئی خدمت ہو جس کے سبب میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں،اسے چاہیے کہ میرے اہلِ بیت کی خدمت کرے اور انہیں خوش کرے۔(الشرف المؤبد،ص 54)

میری شفاعت میری امت کے اس شخص کےلیے ہے جو میرے گھرانے (اہلِ بیت) سے محبت رکھنے والا ہو۔

(تاریخ بغداد،2 / 144)

قرآنِ کریم و اہلِ بیت:میں تم میں دو عظیم(بڑی) چیزیں چھوڑ رہا ہوں،ان میں سے پہلی تو اللہ پاک کی کتاب (قرآنِ کریم) ہے جس میں ہدایت اور نور ہے۔تم اللہ پاک کی کتاب پر عمل کرو اور مضبوطی سے تھام لو۔دوسرے میرے اہلِ بیت ہیں اور تین مرتبہ ارشاد فرمایا: میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے متعلق اللہ پاک کی یاد دلاتا ہوں۔(مسلم،ص 1008،حدیث: 6335)

آل ِفاطمہ دوزخ سے محفوظ:اے فاطمہ ! بےشک اللہ پاک تمہیں اور تمہاری اولاد کو عذاب نہیں دے گا۔

(معجم کبیر،11 / 310،حدیث: 11685)

محب اہلِ بیت شفاعت پائے گا:ہمارے اہلِ بیت کی محبت کو لازم پکڑ لو کیونکہ جو اللہ پاک سے اس حال میں ملا کہ وہ ہم سے محبت کرتا ہے تو اللہ پاک اسے میری شفاعت کے سبب جنت میں داخل فرمائے گا اور اس کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ! کسی بندے کو اس کا عمل اسی صورت میں فائدہ دے گا جب کہ وہ ہمارا (یعنی میرااور میرے اہلِ بیت کا) حق پہچانے۔(معجم اوسط،1 / 66،حدیث: 223)

اہلِ بیت کو تکلیف دینے والے کی عمر میں برکت نہیں ہوتی:جسے پسند ہو کہ اس کی عمر میں برکت ہو اور اللہ پاک اسے اپنی دی ہوئی نعمت سے فائدہ دے تو اسے لازم ہے کہ میرے بعد میرے اہلِ بیت سے اچھا سلوک کرے۔جو ایسا نہ کرے تو اس کی عمر کی برکت اڑ جائے گی اور قیامت میں میرے سامنے کالا منہ لے کرآئے گا۔(کنزالعمال،12 / 46،حدیث: 34166)

اہلِ بیت پر ظلم کرنے والوں پر جنت حرام:جس نے میرے اہلِ بیت پر ظلم کیا اور مجھے میری عترت (میری اولاد) کے بارے میں تکلیف دی،اس پر جنت حرام کردی گئی۔(الشرف المؤبد،ص99)

لوگوں میں سب سے بہتر اہلِ عرب ہیں اور عرب میں بہتر قریش والے اور قریش میں بہتر بنو ہاشم ہیں۔

(مسند الفردوس،2 / 178،حدیث: 2892)

ستارے آسمان والوں کے لیے امان ہیں اور میرے اہلِ بیت میری امت کے لیے امان و سلامتی ہیں۔

(نوادر الاصول،2 / 84،حدیث: 1133)

اللہ پاک ہمیں اہلِ بیت کی محبت و عقیدت سے وافر حصہ عطا فرمائے۔آمین