سب سےمقدم  ہمارا یہ جاننا ضروری ہے کہ اہلِ بیت کون ہیں اور ان میں کون سی مبارک ہستیاں شامل ہیں۔

اہلِ بیت کون ہیں ؟اس بارے میں مفسرین کرام کا اختلاف ہے۔بعض کے نزدیک حضور سرورِ عالم ﷺہی مراد ہیں۔بعض کے نزدیک حضور اکرم ﷺ،امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ،سیده فاطمہ رضی اللہ عنہا،حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین علیہما السلام اہلِ بیت ہیں۔

تفسیرِ کبیر میں ہے :وَالْأَوْلَى أَنْ يُقَالَ هُمْ أَوْلَادُهُ وَأَزْوَاجُهُ وَالْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ مِنْهُمْ وَعَلِيٌّ مِنْهُمْ لِأَنَّهُ كَانَ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ بِسَبَبِ مُعَاشَرَتِهِ بِبِنْتِ النَّبِيِّ عليه السلام وملازمته للنبي۔ ترجمہ :اور بہتر ہے یہ کہا جائے کہ حضور ﷺ کی اولاد،آپ کی بیویاں،امام حسن وحسین اور امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہم اہلِ بیت میں سے ہیں بنتِ رسول کی معیت کی وجہ سے ۔(تفسیر كبير، 9/168)

لكُلِّ شي اسَاسُ وَأَسَاسُ الْإِسْلَامِ حَبُّ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ وَحُبُّ أَهْلِ بَيْتِهٖ۔ترجمہ: ہر چیز کی بنیاد ہوتی ہے اور اسلام کی بنیاد رسول اللہ ﷺ کے اصحاب و اہلِ بیت کی محبت ہے۔

(الشرف المؤبد، ص 93)

اہلِ بیت کی محبت ہر مومن پر واجب ہے جیسا کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:اثْبَتْكُمْ عَلَى الصِّرَاطِ أَشَدُّ كُمْ حُبًّا لِاَھْلِ بَیْتِیْ وَ اَصْحَابِیْ۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:تم میں سے پل صراط پر زیادہ ثابت قدم وہ ہوگا،جو میرے اہلِ بیت و اصحاب کے ساتھ زیادہ محبت کرنے والا ہو گا۔(الشرف المؤبد،ص 93)

ان دو حدیثوں سے معلوم ہوا کہ حُبِّ اہلِ بیت بھی ضروری ہے اور حُبِّ اصحاب بھی لازم۔اگر اصحاب علیہم الرضوان کو چھوڑ کر صرف اہلِ بیت کرام علیہم الرضوان سے محبت کی جائے تو ایسی محبت قابلِ قبول نہ ہو گی۔

اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:

اہلِ سنت کا ہے بیڑا پار،اصحاب ِ حضور نجم ہیں اور ناؤ ہے عترت رسول اللہ کی

بہت سی حدیثوں سے ثابت ہے کہ آقا ﷺ اہلِ بیت سے پیار فرماتے اور امت کو بھی اہلِ بیتِ عظام علیہم الرضوان سے محبت کرنے اور ان کی محبت میں جان قربان کردینے کا درس دیا۔چنانچہ

1-آقا کریم ﷺ کا فرمانِ عظمت نشان ہے: مَنْ مَّاتَ عَلٰى حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ شَهِيدًا۔ترجمہ جو حُبِّ اہلِ بیت پر فوت ہوا،وہ شہید فوت ہوا۔(الشرف المؤبد، ص 81)

2-أَلَا وَمَنْ مَّاتَ عَلٰى حُبّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ مَغْفُورًا الَهٗ۔ ترجمہ:خبردار جو آل محمد کی محبت پر فوت ہواوہ بخشا ہوا فوت ہوا۔(الشرف المؤبد، ص 81)

3- أَلَا وَمَنْ مَّاتَ عَلَى حُبّ آلِ مُحَمَّدٍ مَّاتَ تَائِبًا۔ ترجمہ:خبردار جو آلِ محمد کی محبت پر فوت ہوا وہ توبہ کے ساتھ فوت ہوا۔(الشرف المؤبد، ص 81)

4- أَلَا وَمَنْ مَاتَ عَلَى حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ بَشَّرَ ہٗ مَلَكُ الْمُوتِ بِالْجَنَّةِ ثُمَّ مُنْكِرٌ ونَكِيرہٌ ۔ترجمہ:خبردار!جو آلِ محمد کی محبت پر مراتو اُسے ملک الموت، پھر منکر نکیر جنت کی خوشخبری دیتے ہیں۔(الشرف المؤبد، ص 81)

حکایت: جعفر بن سلیمان نے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کو کوڑے مارے توآپ بے ہوش ہو گئے،جب لوگ آپ کے پاس حاضر ہوئے اور آپ ہوش میں آئے تو فرمایا :تم لوگ گواہ ہو جاؤ کہ میں نے کوڑے مارنے والے کو معاف کر دیا۔ جب کسی نے دریافت کیا کہ آپ نے کس لئے معاف کیا ؟ تو فرمایا: میں ڈرتا ہوں کہ جب وفات پا جاؤں اور اپنے رسولِ کریم ﷺ کی زیارت سے مشرف ہوں تو مجھے آپ سے شرم آئے گی کہ میری وجہ سے آپ کی آل دوزخ میں جائے۔جب منصور تخت خلافت پر بیٹھا تو اس نے امام ملک کی طرف سے قصاص لینے کا ارادہ کیا تو حضرت امام نے فرمایا :خداہ کی پناہ۔خدا کی قسم !جب کوڑا میرے جسم سے الگ ہوتا تھا تو میں رسولِ محترم ﷺ کی قرابت کی وجہ سے ان کو معاف کردیتا۔( نور الابصار ص 129)

آقا ﷺ کا فرمانِ دل پزیر ہے:مَنْ اَبْغَضَ اَھْلَ الْبَیْتِ فَھُوَمُنَافِقٌ یعنی جو شخص اہلِ بیت سے بغض رکھے گا وہ منافق ہوگا ۔(صواعق محرقہ، ص 172)

اس سے معلوم ہوا کہ جو انسان اہلِ بیت سے بغض رکھے گا ان مقدس ہستیوں کی ذاتِ بابرکات میں زبان درازی کر ےگا اور دل میں ان نفوسِ قدسیہ کا بغض و کینہ ہوگا تو وہ کبھی بھی کامل مومن ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ نبیِ پاک ﷺ نے فرمادیا کہ وہ منافق ہے۔

یاد رہے! ان مقدس ہستیوں سے محبت ہی اصل و حقیقی مومن کی پہچان ہے۔منافقوں کی پہچان کے بارے میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے فرمادیا:مَا كُنَّا نَعْرِفُ الْمُنَافِقِیْنَ اِلَّا بِبُغْضِهِمْ عَلِيًّا یعنی ہم منافقوں کو نہیں پہچانتے تھے مگر امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بغض رکھنے کی وجہ سے۔

(صواعق محرقہ، ص 172)

ان دونوں حدیثوں سے ہمیں معلوم ہو گیا کہ مومن تو کبھی اہلِ بیت سے بغض و عداوت نہ رکھے گا البتہ ان سے بغض و عداوت رکھنا منافق کاکام ہے ۔نیزآقا ﷺ کی ان تمام احادیث ِمبارکہ سے صاف واضح ہو گیا کہ آپ بذاتِ خود بھی اپنی اہلِ بیت و آل پاک سے بے حد محبت فرماتے تھے اور اس سنتِ مبارکہ کو ادا کرتے ہوئے تمام صحابہ کرام،تابعین،تبعِ تابعین،محدثین،اقطاب،ابدال،اولیائے کرام رضی اللہ عنہم و رحمۃ اللہ علیہم اجمعین بھی اہلِ بیت کی عظمت پر قربان ہوا کرتے اور آج کے دور میں اولیائے کرام کا بھی یہی انداز ہے کہ اگر ان کے جسم کے ٹکڑے کردیے جائیں تو ان کے لہو کے قطرے قطرے سے اہلِ بیت کی محبت کی خوشبو آئے گی۔

اے مالک و مولیٰ!ہمیں بھی ان مقدس ہستیوں سے جن کے لئے جنت سے جوڑے آتے اور رب کی طرف سے سلام آتا تھا ان کا صدقہ عطا فرما،ہمارے لہو کے قطرے قطرے میں ان کی محبت و عشق کی چاشنی نصیب فرما۔ان کے نانا جان ﷺ کا عشق اور قبر و حشر میں شفاعت نصیب فرما، اہلِ بیت کے سایۂ کرم میں جنت میں داخلہ نصیب فرما،دین پہ استقامت عطا فرما اور اس راستے پر قائم فرما۔نیزکبھی ان کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے۔ آمین بجاہِ خاتمِ النبیین ﷺ