محمد عدیل ( درجہ سادسہ
جامعۃُ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور ، پاکستان)
![](https://career.dawateislami.net/news/img/1739252342044misalon ki qurani hikmaten.png)
قرآن کریم
اللہ تعالیٰ کا پاک کلام ہے، جو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک آنے والے انس وجن کی
رہنمائی کے لیے آخری نبی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کے ذریعہ نازل
فرمایا آئیے اس بارے میں چند آیتیں ملاحظہ کرتے ہیں:
(1) یَضْرِبُ
اللّٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ ترجمہ
کنز الایمان : اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان فرماتا ہے کہ کہیں وہ سمجھیں ۔ یعنی اللہ تعالیٰ لوگوں کے لئے مثالیں اس لئے
بیان فرماتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں اور ایمان لائیں کیونکہ مثالوں سے معنی
اچھی طرح دل میں اتر جاتے ہیں۔ (جلالین، ابراہیم، تحت الآیۃ: 25، ص208، خازن،
ابراہیم، تحت الآیۃ: 25، 3 / 82، ملتقطاً)
(3) لَوْ
اَنْزَلْنَا هٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰى جَبَلٍ لَّرَاَیْتَهٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا
مِّنْ خَشْیَةِ اللّٰهِؕ-وَ تِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ
لَعَلَّهُمْ یَتَفَكَّرُوْنَ۔
ترجمۂ کنز الایمان: اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر اُتارتے تو ضرور تو اُسے دیکھتا
جھکا ہوا پاش پاش ہوتا اللہ کے خوف سے اور یہ مثالیں لوگوں کے لیے ہم بیان فرماتے
ہیں کہ وہ سوچیں ۔
تفسیر صراط الجنان: یعنی قرآنِ مجید کی عظمت و
شان ایسی ہے کہ اگر ہم اسے کسی پہاڑ پر اتارتے اور اُس کو انسان کی سی تمیز عطا
کرتے تو انتہائی سخت اور مضبوط ہونے کے باوجود تم اسے ضرورجھکا ہوا اور اللّٰہ
تعالیٰ کے خوف سے پاش پاش دیکھتے ،ہم یہ اور اس جیسی دیگر مثالیں لوگوں کے لیے
بیان فرماتے ہیں تاکہ وہ سوچیں (اور خیال کریں کہ جب ہم اشرف المخلوقات ہیں تو
چاہیے کہ ہمارے اعمال بھی اشرف و اعلیٰ ہوں۔) (مدارک، الحشر، تحت الآیۃ: 21، ص1228، خازن،
الحشر، تحت الآیۃ: 21، 4 / 253، ملتقطاً)
(4) وَ
تِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِۚ-وَ مَا یَعْقِلُهَاۤ اِلَّا
الْعٰلِمُوْنَ ترجمۂ کنز
الایمان:اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے لیے بیان فرماتے ہیں اور اُنہیں نہیں سمجھتے
مگر علم والے۔
تفسیر صراط الجنان: کفارِ قریش نے طنز کے طور پر
کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ مکھی اور مکڑی کی مثالیں بیان فرماتا ہے اور اس پر انہوں نے
مذاق اڑایا تھا ۔ اس آیت میں ان کا رد کر دیا گیا کہ وہ جاہل ہیں جو مثال بیان کئے
جانے کی حکمت کو نہیں جانتے ،کیونکہ مثال سے مقصود تفہیم ہوتی ہے اور جیسی چیز ہو
اس کی شان ظاہر کرنے کے لئے ویسی ہی مثال بیان کرنا حکمت کے تقاضے کے عین مطابق ہے
اور یہاں چونکہ بت پرستوں کے باطل اور کمزور دین کی کمزوری اوربُطلان بیان کرنا
مقصود ہے لہٰذا اس کے اِظہار کے لئے یہ مثال انتہائی نفع مندہے اور ان مثالوں کی
خوبی، نفاست،عمدگی ، ان کے نفع اور فوائد اور ان کی حکمت کو وہ لوگ سمجھتے ہیں جنہیں
اللہ تعالیٰ نے عقل اور علم عطافرمایا ہے جیسا کہ یہاں بیان کی گئی مکڑی کی مثال
نے مشرک اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت کا اقرار کرنے والے کا حال خوب اچھی طرح ظاہر
کر دیا اور فرق واضح فرما دیا ۔(مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: 43، ص893،
ملخصاً)
![](https://career.dawateislami.net/news/img/1739252154228misalon ki qurani hikmaten.png)
قراٰنِ مجید
سراپا حکمت ہے،اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو بھلائی پر قائم رکھنے کےلئے اور زندگی میں
عبرت سیکھنے کےلئے قراٰنِ کریم میں کئی مثالیں بیان کی ہیں ان میں ہر مثال اپنے
اندر کئی اسرار اور حکمتیں رکھتی ہے۔یہ انسانی فطرت ہے کہ جب وہ اپنی آنکھوں سے
کسی چیز کا مشاہدہ کرتا ہے تو یقین کی اعلیٰ سطح پر چلا جاتا ہے۔اس لئے اللہ پاک
نے ایسی مثالیں بیان کی ہیں جس سے انسان یا تو براہِ راست متعارف ہوتا ہے یا
بالواسطہ ان کی خبر رکھتا ہے اللہ پاک نے قراٰن میں جو امثال بیان کی ہیں وہ اس
طرح جامع ہیں کہ تاریخِ انسانیت کے تمام ادوار کےلئے ان میں عبرتیں پوشیدہ ہیں ہر
زمانے کے علمائے کرام ان مثالوں سے اپنے زمانےکے لوگوں کی راہنمائی کے لئے دروس و
عبرتیں بیان کرتے آرہے ہیں۔آئیے! قراٰنِ مجید کی چند مثالوں کی حکمتیں ملاحظہ
فرمائیے:
(1)غورو
فکر کرنا: اللہ پاک نے قراٰنِ مجید
میں مثالیں بیان فرمائیں تاکہ لوگ اس میں غورو فکر کریں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ
ہے:
﴿وَتِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَفَكَّرُوْنَ(۲۱)﴾ ترجَمۂ کنزالایمان:اور یہ مثالیں لوگوں کے لیے ہم بیان
فرماتے ہیں کہ وہ سوچیں۔(پ28،الحشر:21)
(2)نصیحت
حاصل کریں: اللہ پاک لوگوں کے لئے
مثالیں بیان فرماتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں اور ایمان لائیں کیونکہ مثالوں سے
بات اچھی طرح دل میں اتر جاتی ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَیَضْرِبُ
اللّٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ(۲۵)﴾ ترجَمۂ کنزالایمان: اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان
فرماتا ہے کہ کہیں وہ سمجھیں۔(پ13،ابراھیم:25)
(3)کفارِ
قریش کی جہالت کو بیان کرنا: کفارِ
قریش نے مذاق اڑاتے ہوئے بطور طنز کہا تھا کہ اللہ مکھی اور مکڑی کی مثالیں بیان
فرماتا ہے۔ قراٰن کریم میں ان کا رد کر دیا گیا کہ وہ جاہل ہیں جو مثال بیان کرنے
کی حکمت کو نہیں جانتے،کیونکہ مثال سے مقصود تفہیم ہوتی ہے اور جیسی چیز ہو اس کے
لئے ویسی ہی مثال بیان کرنا حکمت کے تقاضے کے عین مطابق ہے۔ جیسا کہ ارشادِ باری
تعالیٰ ہے:
﴿وَتِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِۚ-وَمَا یَعْقِلُهَاۤ اِلَّا الْعٰلِمُوْنَ(۴۳)﴾ترجَمۂ کنزالایمان: اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے لیے بیان
فرماتے ہیں اور اُنہیں نہیں سمجھتے مگر علم والے۔(پ 20،العنکبوت:43)
(4)منافقوں
کو گمراہ کرنا اور مسلمانوں کو ہدایت دینا: نزولِ قراٰن کا اصل مقصد تو ہدایت ہے لیکن چونکہ قراٰنی مثالوں کے ذریعے
بہت سے لوگ گمراہ ہوتے ہیں جن کی عقلوں پر جہالت کا غلبہ ہوتا ہے اور کلام کے
بالکل معقول، مناسب اور موقع محل کے مطابق ہونے کے باوجود وہ اس کا انکار کرتے ہیں
اور انہی مثالوں کے ذریعے اللہ پاک بہت سے لوگوں کو ہدایت دیتا ہے جو غور و تحقیق
کے عادی ہوتے ہیں اور انصاف کے خلاف بات نہیں کہتے۔جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿فَاَمَّا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَیَعْلَمُوْنَ اَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْۚ-وَاَمَّا
الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَیَقُوْلُوْنَ مَا ذَاۤ اَرَادَ اللّٰهُ بِهٰذَا مَثَلًاۘ-یُضِلُّ
بِهٖ كَثِیْرًاۙ-وَّیَهْدِیْ بِهٖ كَثِیْرًاؕ-وَمَا یُضِلُّ بِهٖۤ اِلَّا
الْفٰسِقِیْنَۙ(۲۶)﴾ ترجَمۂ کنزالایمان: تو وہ جو ایمان لائے وہ تو جانتے ہیں
کہ یہ ان کے رب کی طرف سے حق ہے رہے کافر وہ کہتے ہیں ایسی کہاوت میں اللہ کا کیا
مقصود ہے اللہ بہتیروں کو اس سے گمراہ کرتا ہے اور بہتیروں کو ہدایت فرماتا ہے اور
اس سے انہیں گمراہ کرتا ہے جو بے حکم ہیں۔(پ1،البقرۃ:26)