حضرت خدیجہ رضی اللّہ عنہا،حضور ﷺ کی سب سے  پہلی رفیقہ حیات ہیں اور آپ رضی اللّہ عنہا وہ خوش نصیب اور بلند رتبہ خاتون ہیں جنہوں نے کم و بیش 25 برس تاجدارِ رسالت،شہنشاہ نبوت ﷺ کی خدمت اقدس میں رہنے کی سعادت حاصل کی۔سرکارِ عالی وقار ﷺ کو آپ رضی اللّہ عنہا سے بہت محبت تھی اور آپ ﷺ کے دل میں حضرت خدیجہ رضی اللّہ عنہا کے لئے ایک خاص مقام تھا جو ہمیشہ قائم رہا۔

ذیل میں چند احادیث مبارکہ ذکر کی جا رہی ہیں جن سے آقا ﷺ کی حضرت خدیجہ رضی اللّہ عنہا کے لئے محبت خوب عیاں ہو رہی ہے،،

1۔خصوصی محبت

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عنہا قَالَتْ:

«مَا غَرَسَتْ خَدِيجَةُ رَضِيَ اللَّهُ عنہا حَبِيبًا أَحَبُّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهَا،وَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ فِي قَلْبِهِ حُبٌّ لِخَدِيجَةَ رَضِيَ اللَّهُ عنہا»

ترجمہ:

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ایسا کوئی محبوب پیدا نہیں کیا جو نبی ﷺ کے لیے ان سے زیادہ محبوب ہو،اور نبی ﷺ کے دل میں حضرت خدیجہ کے لیے محبت تھی۔

( بخاری،،حدیث3604)

اس حدیث سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی گواہی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے بےشمار محبت کی

آپ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد بھی نبی اکرم ﷺ کی محبت اور عزت ان کے لیے کبھی کم نہ ہوئی اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا نبی کریم ﷺ کے دل میں ایک خاص مقام تھا جو کسی اور کے لئے نہیں تھا۔

۔۔۔۔۔۔

2۔مدح خدیجۃ الکبریٰ

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عنہا قَالَتْ:

«كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُذْكِرُ خَدِيجَةَ رَضِيَ اللَّهُ عنہا فَيُثْنِي عَلَيْهَا وَيَقُولُ: إِنِّي قَدْ أُعْطِيتُ خَدِيجَةَ رَضِيَ اللَّهُ عنہا،فَأَنَا سَأَكُونُ لَهَا أَمَانَةً»

ترجمہ:

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:

رسول اللہ ﷺ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا ذکر کرتے اور ان کی تعریف کرتے تھے،اور فرماتے: 'بیشک میں نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو دیا،پس میں ان کے لیے امانت دار ہوں۔'

( بخاری،کتاب المناقب،حدیث3612)

۔۔۔۔۔۔

3۔دوام محبت

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عنہا قَالَتْ:

«لَمْ يُحِبُّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرْأَةً قَبْلَ خَدِيجَةَ رَضِيَ اللَّهُ عنہا وَهِيَ مَنْ عَاشَتْ فِي قَلْبِهِ حُبًّا لَا يَزَالُ»

ترجمہ:

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: نبی ﷺ نے حضرت خدیجہ سے قبل کبھی کسی عورت سے محبت نہیں کی اور وہ( حضرت خدیجہ) ایسی عورت تھیں جو نبی کریم ﷺ کے دل میں ایسی محبت رکھتی تھیں جو کبھی ختم نہیں ہوئی

(حوالہ: بخاری،کتاب المناقب،حدیث3605)

حدیث میں جو حبا لا یزال یعنی ایسی محبت جو کبھی ختم نہیں ہوئی کا ذکر ہے وہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللّہ عنہا کی محبت نبی کریم ﷺ کے دل میں ہمیشہ قائم رہی۔

4۔کثرتِ ذکر

محبت کی علامات میں سے ایک علامت محبوب کا کثرت سے ذکر کرنا بھی ہے،اور پیارے آقا ﷺ بھی حضرت خدیجہ رضی اللّہ عنہا کا کثرت سے ذکر فرماتے اور اپنی بلند وبالا شان کے باوجود آپ رضی اللّہ عنہا کی سہیلیوں کا اکرام فرماتے۔روایت میں ہے کہ بارہا جب آپ ﷺ کی بارگاہِ اقدس میں کوئی شے پیش کی جاتی تو فرماتے: اسے فلاں عورت کے پاس لے جاؤ کیونکہ وہ خدیجہ کی سہیلی تھی،اسے فلاں عورت کے گھر لے جاؤ کیونکہ وہ خدیجہ سے محبت کرتی تھی۔

(بحوالہ: الادب المفرد،حدیث: 232)

5۔یادِ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا:

ایک بار حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بہن حضرت ہالہ بنتِ خویلد رضی اللہ عنہا نے سرکار رسالت مآب ﷺ سے بارگاہِ اقدس میں حاضر ہونے کی اجازت طلب کی،ان کی آواز حضرت خدیجہ رضی اللّہ عنہا سے بہت ملتی تھی چنانچہ اس سے آپ ﷺ کو حضرت خدیجہ کا اجازت طلب کرنا یاد آ گیا اور آپ ﷺ نے جھرجھری لی۔(بخاری، ص 962،حدیث: 3821)یہ احادیث نبی ﷺ کی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے محبت کی شدت کو ظاہر کرتی ہیں۔حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد بھی نبی ﷺ کا دل ہمیشہ ان کی یادوں سے بھرا رہا۔آپ ﷺ نے ہمیشہ حضرت خدیجہ کو عزت دی،اور ان کی قربانیوں،محبت،اور وفاداری کو یاد کیا۔حضرت خدیجہ کے ذکر سے نبی ﷺ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے تھے،جو اس بات کا مظہر تھا کہ آپ کے دل میں حضرت خدیجہ کے لیے ایک خاص مقام تھا۔


دور جاہليت میں جو ہستیاں حق کی پکار پر لبیک کہتی ہوئ سب سے پہلے آپ ﷺ کک دعوت حق کو قبول کرنے کی سعادت سے سر فراز ہوئئں اور یا یھاالذین امنوا  اے ایمان والو! کی پکار کی سب سے پہلے حقدار قرار پایئں،ان میں ایک نمایاں نام حضرت خدیجۃالکبری رضی اللہ عنہا کا بھی ہے،جنھوں نے عورتوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل کیا،حضوراکرم ﷺ کی زوجیت سے جو سب سے پہلے مشرف ہوئیں،اللہ رب العزت نے جنہیں سلام بھیجا،جنھوں نے حبیب کبریا ﷺ کی صحبت با برکت میں کم و بیش ٢٥ سال رہنے کی سعادت حاصل کی،آپ رضی اللہ عنہا،رسول اکرم ﷺ کی بہت ہی محبوب زوجہ ہیں،آپ کی حیات میں آپ ﷺ نے کسی اور سے نکاح نہ فرمایا۔

ام المؤ مینین سید تنا حضرت خدیجۃالکبری نے ہر قدم پر آپ ﷺ کا ساتھ دیا آپ کا حوصلہ بڑھایا اور ہمت بندھائ،حضرت سیدنا علامہ محمد بن اسحاق مدنی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سید دو عالم ﷺ جب بھی کفار کی جانب سے اپنا رد اور تکذیب وغیرہ کوئ نا پسند یدہ بات سن کرغمگین ہو جاتےتو حضرت خدیجہ کے پاس جاتے تو ان کے باعث آپ ﷺ کی وہ رنج کی کیفیت دور ہو جاتی۔(السیرۃ النبو یۃ لا بن اسحاق تحدید لیلۃ القدر ١/١٧٦)

حضرتخدیجۃالکبری رضی اللہ عنہا کی زات کی بے شمار صفات ہیں آپ کا کردار اسقدر مضبوط تھا کہ زمانہ جاہليت میں بھی آپکو طاھرہ کہہ کر پکارا جاتا ےھا،آپ رضی اللہ عنہا کہ فضائل و مناوب بے شمار ہیں جن کا الگ باب ہے یہاں ہمیں مقصود ہیکہ آپ ﷺ حضرت خدیجۃالکبری سے کسقدر محبت فرماتے تھے چنانچہ

آپ ﷺ کو آپ رضی اللہ عنہا سے بہت محبت تھی حتی کہ جب آپ کا وصال ہو گیا تو پیارے آقا ﷺ کثرت سے انکا زکر فرماتے اور اپنی بلند بالا شان کے باوجود آپ کی سہلیوں کا اکرام کرتے روایت ہیکہ بار ہا جب آپ ﷺ کی بارگاہ میں کوئ شے پیش کی جاتی تو فرماتے :اسے فلاں عورت کے پاس لے جاؤکیونکہ وہ خدیجہ کی سہیلی ہے اسے فلاں کے گھر لے جاؤ کیونکہ وہ خدیجہ سے محبت کرتی تھی۔( الادب المفرد،ص٧٨،ح:٢٣٢)

ایک اور روایت ہیکہ ایک بار حضرت خدیجۃالکبری رضی اللہ کی بہن حضرت ہالہ بنتِ خویلد آپ ﷺ کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہونے کی اجازت طلب کی،انکی آواز حضرت خدیجۃالکبری سے بہت ملتی تھی چنانچہ اس سے آپ ﷺ کو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا اجازت طلب کرنا یاد گیا اور آپ ﷺ نے جھر جھری لی۔

صیح البخاری کتاب مناقب الا نصار باب تزویج النبی الخ،ص٩٦٢،ح٣٨٢١

یعنی آپ ﷺ ,حضرت خدیجۃالکبری رضی اللہ کو یاد فرما کر غمگین ہو گئے۔

اسی طرح ایک اور روایت ہیکہ ایک مرتبہ جب حضرت عائشہ نے حضور ﷺ کی زبان مبارک مبارک سے حضرت خدیجہ کی بہت تعریف سنج تو انہیں غیرت آگئ اور انھوں نے یہ کہہ دیا کہ ان تو آپکو ان سے بہتر بیوی عطا فرمادی ہے یہ سن کر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ نہیں خدا کی قسم !خدیجہ سے بہتر مجھے کوئ بیوی نہیں ملی جب سب لوگوں نے میرے ساتھ کفر کیا اس وقت وہ مجھ پر ایمان لائیں اور جب سب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے اس وقت انھوں نے میری تصديق کی اور جس وقت کوئ شخص مجھے کوئ چیز دینے کیلے تیار نہ تھا اس وقت خدیجہ نے مجھے اپنا سارا مال دے دیا اور انہں کے شکم سے اللہ نے مجھے اولاد عطا کی۔(زرقانی جلد ٣ص ٢٢٤)

حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ازواج مطھرات میں سب سے زیادہ مجھے حضرت ض

خدیجہ کے بارے میں غیرت آیا کرتی تھی حا لانکہ میں نے انکو دیکھا بھی نہیں تھا،غیرت کی وجہ یہ تھی کہ حضوراکرم ﷺ بہت زیادہ انکا زکر خیر فرماتے رہتے تھے اور اکثر ایسا ہوا کرتا تھا کہ آپ جب کوئ بکری ذبح کرتے تو کچھ گوشت حضرت خدیجہ کی سہیلیوں کے گھروں میں ضرور بھیجتے تھے اس سے میں چڑجایا کرتی تھی،اور کبھی کبھی یہ بھی کہہ دیا کرتی تھی کہدنیا میں بس ایک خدیجہ ہی تو آپ کی بیوی تھیں میرا یہ جملہ سن کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ ہاں ہاں بے شک وہ تھیں،وہ تھیں،انہیں کے شکم سے تو اللہ نے مجھے اولاد عطا فرمائ۔ (بخاری،2/565 ،حدیث: 3818)

ان روایت سے معلوم ہوتا ہیکہ آپ ﷺ کوحضرت خدیجۃالکبری رضی اللہ عنہا سے بے انتہا محبت تھی جو ان کے انتقال کے بعد بھی قائم رہی جب حضرت خدیجہ کا انتقال ہوا تو آپکو اپنی رفیقہ حیات کی دائمی جدائ کا بہت صدمہ پہنچا آپ غمگین رہنے لگے اسی سال چچا حضرت ابو طالب کا بھی انتقال ہو گیا ان دونوں ہستیوں نے آپ ﷺ کا ہر موقع پر ساتھ دیا تھا اسی لیے ان ک وصال کے سال کو غم کا سال کہا۔

بلاشبہ حضرت خدیجۃالکبری ایک عظیم ہستی ہیں آپ اہل جنت کی عورتوں میں سب سے افضل ہیں،ہجرت سے تین برس قبل پینسٹھ برس کی عمر میں آپ کا ماہ رمضان میں انتقال ہوا،آپ ﷺ نے خود بنفس نفیس انکی قبر میں اتر کر اپنے ہاتھوں سے انکو سپرد خاک فرمایا،

خواتین بلخصوص شادی شدہ خواتین کے لیے حضرت خدیجۃالکبری رضی اللہ عنہا کی ازدواجی زندگی مثالی نمونہ ہے،اللہ پاک ہمیں حضرت خدیجۃالکبری رضی اللہ عنہا کے صدقے عاشق رسول اور با عمل بناۓ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ۔


ام المؤمنین،زوجہ سید المرسلین حضرت سیدنا خدیجۃ الکبریٰ رضی الله تعال عنہا،سيد الانبياء ﷺ کی سب سے پہلی زوجہ مطہرہ ہیں۔سید عالم،نورِ مجسم ﷺ  کو آپ رضی اللہ عنہا سے بہت محبت تھی حتی کہ جب آپ رضی اللہ عنہا کا وصال ہو گیا تو کثرت سے آپ رضی اللہ عنہا کا ذکر فرماتے،آپ رضی اللہ عنہا کی سہیلیوں کا اس قدر اکرام فرماتے کہ جب کبھی آپ ﷺ کی بارگاہ میں کوئی شے حاضر کی جاتی تو بار ہا ان کی طرف بھیج دیتے حتی کہ یہی کثرت ذکر اور پیار و محبت ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے آپ رَضِی اللهُ عنہا پر رشک کا باعث بنا چنانچہ خود فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اکرم ﷺ کی ازواج پاک میں سے کسی پر اتنی غیرت نہیں کی جتنی جناب خدیجہ رضی الله تعالى عنہا پر کی حالانکہ میں نے انہیں دیکھا بھی نہیں تھا لیکن حضور ﷺ ان کا بہت ذکر فرماتے تھے۔

( صحيح البخاري،كتاب مناقب الانصار،باب تزويج النبي ﷺ الخ ص ٩٦٢،الحديث : ۳٨١۸)

اور کیوں نہ ہو کہ آپ رضی اللہ عنہا ہی سب سے پہلے حضور ﷺ پر ایمان لائیں اور اس وقت آپ ﷺ کی تصدیق کی جب سب نے جھٹلایا اور جب نبی کریم ﷺ کو اپنی قوم سے تکلیف پہنچی تو انہوں نے آپ ﷺ کی دلجوئی اور تسکین قلب کا سامان کیا

یہی وجہ ہے کہ ان کا انتقال کر جانا آپ ﷺ کے لئے بہت ہی جاں گداز اور روح فرسا حادثہ تھا۔یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ نے اس سال کو غم والم کا سال قرار دیا چنانچہ روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے اسے عام الحزن (غم کا سال) کا نام دیا۔(المواهب اللدنية،المقصد الأول،هجرته صلى الله عليه وسلم،١٣٥/١)

اور جب حضرت خدیجہ رضی الله تعالى عليها مرض وفات شریف میں مبتلا تھیں کہ سرکار دو عالم ﷺ آپ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: اے خدیجہ (رضی الله تعالى عنہا)! تمہیں اس حالت میں دیکھنا مجھے گراں (ناگوار) گزرتا ہے لیکن اللہ عزوجل نے اس گراں گزرنے میں کثیر بھلائی رکھی ہے۔تمہیں معلوم ہے کہ اللہ عزوجل نے جنت میں میرا نکاح تمہارے ساتھ،مریم بنتِ عمران،حضرت موسى علیہ الصلوة و السلام کی بہن کلثوم اور فرعون کی بیوی آسیہ کے ساتھ فرمایا ہے ؟ (رضی اللہ عنہن اجمعین) (المعجم الكبير للطبراني ذكر تزويج رسول الله ﷺ خديجة الخ۳۹۳/۹،الحديث: ١٨٥٣۱)

اور آپ رضی اللہ عنہا کے انتقال کے بعد جب تدفین کا وقت آیا تو حضور رحمت عالم،نورِ مجسم ﷺ خود به نفسِ نفیس آپ رضی الله عنہا کی قبر میں اترے (شرح العلامة الزرقاني على المواهب المقصد الأول،وفاة خديجة و أبي طالب،٤٩/٢) اور اپنے مقدس ہاتھوں سے دفن فرمایا۔

(فیضان خدیجۃ الکبریٰ،مکتبۃ المدینہ)


حضرت خدیجہؓ وہ عظیم خاتون ہیں جنہیں اللہ  نے سرورِ کائنات حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے لیے منتخب فرمایا۔آپؓ نہ صرف نبی اکرمﷺ کی پہلی زوجہ محترمہ تھیں بلکہ آپ کی سب سے بڑی حامی اور مددگار بھی تھیں۔نبی کریم ﷺ کی حضرت خدیجہؓ سے محبت اور ان کا مقام و مرتبہ احادیثِ مبارکہ سے واضح ہوتا ہے۔

۱۔حضرت خدیجہؓ سے بے پناہ محبت

نبی اکرم ﷺ حضرت خدیجہؓ سے بے حد محبت فرماتے تھے۔جب تک وہ زندہ رہیں،نبی اکرم ﷺ نے کسی اور عورت سے نکاح نہیں فرمایا۔آپؓ کی وفات کے بعد بھی نبی اکرم ﷺ انہیں ہمیشہ یاد فرماتے اور ان کی محبت کا اظہار کرتے۔

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:

میں نے نبی اکرم ﷺ کو حضرت خدیجہؓ کے ذکر سے کبھی خالی نہیں پایا۔ (بخاری: 3818،مسلم: 2435)

اسی طرح ایک اور روایت میں حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:

میں نبی اکرم ﷺ کی ازواج میں سے کسی پر اتنا غیرت مند نہیں ہوئی جتنا حضرت خدیجہؓ پر،حالانکہ میں نے انہیں دیکھا بھی نہیں تھا۔ (بخاری: 3817،مسلم: 2435)

۲۔حضرت خدیجہؓ کی وفاداری اور نبی کریم ﷺ کی قدردانی

حضرت خدیجہؓ نے نبی اکرم ﷺ کی بعثت سے قبل اور بعد میں ہر موقع پر ان کا ساتھ دیا۔جب نبی اکرم ﷺ کو پہلی وحی نازل ہوئی تو آپ گھبرا گئے،مگر حضرت خدیجہؓ نے آپ کی تسلی دی اور فرمایا:

اللہ کی قسم! اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا،آپ صلہ رحمی کرتے ہیں،سچ بولتے ہیں،کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں،مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی مدد کرتے ہیں۔ (بخاری: 4953،مسلم: 160)

یہ الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ حضرت خدیجہؓ نبی اکرم ﷺ کی شخصیت کو کس قدر جانتی تھیں اور ان پر مکمل ایمان رکھتی تھیں۔

۳۔حضرت خدیجہؓ کے بعد بھی محبت کا تسلسل

نبی اکرم ﷺ حضرت خدیجہؓ کے انتقال کے بعد بھی ان کے رشتہ داروں سے حسن سلوک فرماتے تھے۔حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:

جب بھی کوئی بکری ذبح کی جاتی،نبی اکرم ﷺ حضرت خدیجہؓ کی سہیلیوں کے لیے اس میں سے بھیجتے۔ (بخاری: 6004)

یہ محبت کی وہ مثال ہے جو کسی عام انسان کے بس کی بات نہیں۔

۴۔اللہ کی طرف سے حضرت خدیجہؓ کو سلام

حضرت جبرائیلؑ نے ایک موقع پر نبی اکرم ﷺ سے کہا:

اے اللہ کے رسول! یہ خدیجہ آپ کے پاس آئیں گی،انہیں اللہ اور میری طرف سے سلام کہیے اور انہیں جنت میں موتیوں کے ایک محل کی بشارت دیجیے،جہاں نہ کوئی شور ہوگا اور نہ کوئی تکلیف۔ (بخاری: 3820،مسلم: 2432)

یہ حدیث اس بات کا ثبوت ہے کہ حضرت خدیجہؓ کی وفاداری،ایثار اور نبی اکرم ﷺ سے محبت کو اللہ نے بھی پسند فرمایا۔

۵۔حضرت خدیجہؓ کا نبی اکرم ﷺ کی زندگی میں مقام

حضرت خدیجہؓ نبی اکرم ﷺ کی سب سے بڑی حامی تھیں،اور اسی وجہ سے نبی اکرم ﷺ انہیں بہت زیادہ یاد کرتے تھے۔ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ نے کہا کہ اللہ نے آپ کو اس سے بہتر بیویاں عطا کی ہیں تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

اللہ کی قسم! خدیجہ جیسی کوئی نہیں تھی۔اس نے اس وقت مجھ پر ایمان لایا جب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے،اس نے اس وقت میری مدد کی جب سب نے مجھے چھوڑ دیا،اور اللہ نے اس کے ذریعے مجھے اولاد عطا کی،جبکہ باقی بیویوں سے نہیں۔(بخاری،2/565 ،حدیث: 3818)

نتیجہ

نبی اکرم ﷺ کی حضرت خدیجہؓ سے محبت کسی عام محبت کی مثال نہیں تھی،بلکہ یہ اللہ کے رسول کی جانب سے ایک وفادار،صابر اور عظیم عورت کی قدر دانی تھی۔حضرت خدیجہؓ نے اپنی دولت،محبت اور خلوص سے اسلام کے آغاز میں نبی اکرم ﷺ کی جو مدد کی،وہ ہمیشہ تاریخ میں یاد رکھی جائے گی۔یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ انہیں ہمیشہ یاد رکھتے،ان کے رشتہ داروں اور سہیلیوں سے محبت کرتے،اور ان کی خوبیاں بیان فرماتے۔حضرت خدیجہؓ کی زندگی ہمیں سکھاتی ہے کہ ایک بہترین ازدواجی رشتہ کی بنیاد محبت،ایثار اور وفاداری پر ہونی چاہیے۔

حضور صلی اللّٰہ ٰ علیہ وآلہ ووالدیہ واصحابہ وبارک وسلم کی پیاری اور پہلی زوجہ بی بی خدیجۃ الکبریٰ رضی اللّٰہ ٰ عنہا ھیں۔

آپ رضی اللّٰہ ٰ عنہا مسلمانوں کی پہلی امی جان اور بہت خوش نصیب خاتون ھیں۔۔

آپ رضی اللّٰہ ٰ عنہا کی کچھ ایسی خصوصیات ھین جو آپ کے علاوہ کسی اور کی نھیں جیسے کہ آپ رضی اللّٰہ ٰ عنہا پیارے آقا صلی اللّٰہ ٰ علیہ وآلہ ووالدیہ واصحابہ وبارک وسلم کی پہلی زوجہ ھین اور آپ کو کم و بیش 25 برس حضور صلی اللّٰہ ٰ علیہ وآلہ ووالدیہ واصحابہ وبارک وسلم کی رفاقت و ہمراہی میں رہنے کا شرف حاصل ہوا۔۔

اسی طرح حضور اکرم صلی اللّٰہ ٰ علیہ وآلہ ووالدیہ واصحابہ وبارک کی ساری اولاد آپ رضی اللّٰہ ٰ عنہا سے ہی ہوئ سوائے حضرت ابراھیم رضی اللّٰہ ٰ عنہ کے۔۔

حضور صلی اللّٰہ ٰ علیہ وآلہ ووالدیہ واصحابہ وبارک وسلم حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ ٰ عنہا سے بہت محبت فرماتے ھیں ::

اس کی بہت مثالیں کتابیں میں موجود ہیں۔۔

حضرت خديجة الكبرى رضى اللّٰہ تعالى عنہا کی وفات کے بعد حُضُورِ انور صلی اللّٰہ تَعَالَى عَلَيْهِ وآلہ ووالدیہ واصحابہ وبارک وَسَلَّم اپنی بلند و بالا شان ورفعت مقام کے باوجود حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ ٰ عنہا کی سہیلیوں کا اکرام فرمایا کرتے تھے،بارہا جب آپ صلی اللّٰہ عَلَيْهِ وَالهِ وَسَلَّم کی بارگاہِ اقدس میں کوئی شے پیش کی جاتی تو فرماتے: اسے فلاں عورت کے پاس لے جاؤ کیونکہ وہ خدیجہ کی سہیلی تھی،اسے فلاں عورت کے گھر لے جاؤ کیونکہ وہ خدیجہ سے محبت کرتی تھیں۔

(فیضانِ خدیجۃ الکبریٰ،ص 46)

دیکھیں کیا شان ھے حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ ٰ عنہا کی آپ کی زندگی تو زندگی،آپ کی وفات کے بعد بھی آپ رضی اللّٰہ ٰ عنہا سے محبت کی وجہ سے پیارے آقا صلی اللّٰہ ٰ علیہ وآلہ ووالدیہ واصحابہ وبارک وسلم نے آپ کی سہیلیوں کا اکرام فرمایا۔۔

اس سے ان شوہرون کو درس ہدایت لینی چاہیئے جن کی بیویاں ان کے میٹھے بول اور محبت کو ترس جاتی ھیں،انہے چاہیے کہ اپنی بیویوں کے ساتھ محبت بھرا سلوک کریں،ان کو وقت دیں،ان کی غلطیوں پر در گزر کریں جبکہ خلاف شرع نہ ہوں۔۔

اسی طرح ایک اور واقعہ ھے

ایک بار حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ عنہا کی بہن حضرت ہالہ بنتِ خویلہ رَضِيَ اللّٰہ عنہا نے سرکارِ رسالت مآب صَلَّى اللّٰہ تَعَالَى عَلَيْهِ وآلہ ووالدیہ واصحابہ وبارک وَسَلَّم میں حاضر ہونے کی اجازت طلب کی،ان کی آواز حضرت خدیجہ رَضِيَ اللّٰہ تَعَالَى عنہا سے بہت ملتی تھی چنانچہ اس سے آپ صَلَّی اللّٰہ تَعَالَى عَلَيْهِ وَآلِہ ووالدیہ واصحابہ وبارک وَسَلَّم کو حضرت خدیجہ رَضِيَ اللّٰہ تَعَالَى عنہا کا اجازت طلب کرنا یاد آگیا اور آپ صلی اللّٰہ تَعَالَى عَلَيْهِ وآلہ ووالدیہ واصحابہ وبارک وَ سَلَّم نے جھر جھری لی ( فیضانِ خدیجۃ الکبریٰ،ص 48)

پیارے قارئین ذرا غور کریں کیا پاکیزہ رشتہ ھے،حضور صلی اللّٰہ ٰ علیہ وآلہ ووالدیہ واصحابہ وبارک وسلم جو کہ جان کائنات ھیں جن سے محبت ہر مسلمان کے دل میں ہوتی ھے،آپ صلی اللّٰہ ٰ علیہ وآلہ ووالدیہ واصحابہ وبارک وسلم جو کہ محبوب رب العالمین ھیں،وہ جس سے محبت فرمائیں اس کی شان کا عالم کیا ہوگا۔۔اس سے ہمیں بی بی خدیجۃ الکبریٰ رضی اللّٰہ ٰ عنہا کی شان معلوم ہوتی ھے کہ آپ کا مرتبہ کتنا بلند ھے ،آپ کے فضائل بھلا ہم کیا بیان کریں کہ مولانا حسن خان رحمۃ اللّٰہ علیہ کیا خوب فرماتے ھیں :

اللّٰہ کا محبوب بنے جو تمہیں چاہے اس کا بیاں ہی نہیں کچھ تم جسے چاہو

اللّٰہ ٰ ہمیں حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللّٰہ ٰ عنہا کا فیضان نصیب فرمائے اور اسکے صدقے ہماری بے حساب بخشش و مغفرت فرمائے

اللّٰہ ٰ سیدہ خدیجہ رضی اللّٰہ ٰ عنہا کی قبر پر کروڑوں برکتوں کا نزول فرمائے

آمین بجاہ سید المرسلین خاتم النبیین صلی اللّٰہ ٰ علیہ وآلہ ووالدیہ واصحابہ وبارک وسلم


حضرتِ  خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ عَنۡہَا،محبوبِ کِبْرِیَاﷺکی سب سے پہلی زوجہ مطہرہ ہیں۔ایک قول کے مُطابِق حُضُورِ اقدس ﷺپر سب سے پہلے آپ نے ہی ایمان لانے کی سعادت حاصِل کی۔آپ رَضِیَ اللہُ عَنۡہَا کے فضائل و مناقِب بے شمار ہیں اور سیِّدِ عالَم ﷺکو آپ رَضِیَ اللہُ عَنۡہَا سے بہت محبت تھی جس کی کچھ جھلکیاں ملاحظہ فرمائیے۔۔

کسی اور سے نکاح نہ فرمایا:

آپ رَضِیَ اللہُ عَنۡہَا نے سب سے زیادہ عرصہ کم و بیش 25 برس رسولِ کریمﷺکی رفاقت وہمراہی میں رہنے کا شرف حاصل کیا لیکن رسولِ کریمﷺنے آپ رَضِیَ اللہُ عَنۡہَا کی حَیَات میں کسی اور سے نِکاح نہیں فرمایا۔

جنت میں زوجیت کی بشارت:

حضرت خدیجہ رَضِیَ اللہُ عَنۡہَا مرضِ وفات شریف میں مبتلا تھیں کہ سرکارِ دوعالم ﷺ آپ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: اے خدیجہ (رَضِیَ اللہُ عَنۡہَا) ! تمہیں اس حالت میں دیکھنا مجھے گراں (ناگوار) گزرتا ہے لیکن اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اس گراں گزرنے میں کثیر بھلائی رکھی ہے۔تمہیں معلوم ہے کہ اللہ پاک نے جنت میں میرا نکاح تمہارے ساتھ،مریم بنتِ عمران،حضرتِ موسیٰ ﷺ کی بہن کلثم اور فرعون کی بیوی آسیہ کے ساتھ فرمایا ہے؟ (1)

کثرتِ ذِکر:

جب آپ کا وِصال ہو گیا تو کثر ت سے آپ کا ذکر فرماتے،یہی کثرتِ ذِکْر اور پیار و محبت اُمُّ المؤمنین حضرتِ عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہُ عَنۡہَا کے آپ رَضِیَ اللہُ عَنۡہَا پر رشک کا باعِث بنا چنانچہ خود فرماتی ہیں کہ میں نے رسولِ اکرم ﷺکی ازواجِ پاک میں سے کسی پر اتنی غیرت نہیں کی جتنی جنابِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ عَنۡہَا پرکی۔حالانکہ میں نے انہیں دیکھا بھی نہیں تھا لیکن حُضُور ﷺ ان کا بہت ذِکْر فرماتے تھے (2)

حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ عَنۡہَاکی سہیلی کا اِکْرَام::

محبوب سے نسبت رکھنے والی چیز بھی محبوب ہوتی ہے اور اس محبت کا اِظْہار سرکارِ دوعالَمﷺاور سیِّدہ خدیجہ رَضِیَ اللہُ عَنۡہَا کے درميان بھی دیکھا جا سکتا ہے،چنانچہ خدیجہ رَضِیَ اللہُ عَنۡہَا کی وفات کے بعد حُضُورِ انورﷺاپنی بلند وبالا شان ورِفْعَتِ مقام کے باوجود حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ عَنۡہَا کی سہیلیوں کا اِکْرام فرمایا کرتے تھے،بارہا جب آپ ﷺکی بارگاہِ اقدس میں کوئی شے پیش کی جاتی تو فرماتے: اسے فلاں عورت کے پاس لے جاؤ کیونکہ وہ خدیجہ کی سہیلی تھی،اسے فلاں عورت کے گھر لے جاؤ کیونکہ وہ خدیجہ سے محبت کرتی تھی (3)

یادِ خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ عَنۡہَا:

ایک بار حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ عَنۡہَا کی بہن حضرتِ ہالہ بنتِ خُوَیْلِد رَضِیَ اللہُ عَنۡہَا نے سرکارِ رِسالَت مآب ﷺمیں حاضِر ہونے کی اجازت طلب کی،ان کی آواز حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ عَنۡہَا سے بہت ملتی تھی چنانچہ اس سے آپﷺکو حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ عَنۡہَا کا اجازت طلب کرنا یاد آ گیا اور آپ ﷺنے جُھرجُھری لی(4)

پیارے آقا علیہ السلام کے محبت بھرے جذبات::

حضور علیہ الصلوۃ و السلام کو ان سے اس قدر محبت تھی کہ ان کی وفات کے بعد اپنی محبوب ترین بیوی حضرت عائشہ رَضِیَ اللہ عَنْہَاسے فرمایا کرتے تھے کہ خدا کی قسم! خدیجہ سے بہتر مجھے کوئی بیوی نہیں ملی جب سب لوگوں نے میرے ساتھ کفر کیا اس وقت وہ مجھ پر ایمان لائیں اور جب سب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے اس وقت انہوں نے میری تصدیق کی اور جس وقت کوئی شخص مجھے کوئی چیز دینے کے لئے تیار نہ تھا اس وقت خدیجہ نے مجھے اپنا سارا سامان دے دیا اور انہیں کے شکم سے اﷲ نےمجھے اولاد عطا فرمائی(5)

اللہ پاک حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ عَنۡہَا مزار انوار پر کروڑوں رحمتوں کا نزول فرمائے۔۔آمین

______________حوالہ جات ـــــــــــــــــــــ

(1)المعجم الكبير للطبرانى،ذكر تزويج رسول الله صلى الله عليه وسلم خديجة الخ،۹ / ۳۹۳،الحديث:۱۸۵۳۱

(2)صحيح البخارى،كتاب مناقب الانصار،باب تزويج النبى صلى الله عليه وسلم الخ،ص۹۶۲،الحديث:۳۸۱۸

(3)الادب المفرد،ص۷۸،الحديث:۲۳۲

(4) (بخاری، ص 962،حدیث: 3821)

(5)۔ (بخاری،2/565 ،حدیث: 3818)


حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی ازواجِ مطہرات رضہ اللہ  عنھن کی فضیلت قرآن کریم سے ثابت ہے چنانچہ سورہ احزاب میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے۔۔ایت مبارکہ :

ترجمہ:جب نبی کی بیویوں سے تم لوگ کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگو۔

(پ22, الاحزاب:53)

آقا کریم ﷺ کو حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضہ اللہ عنہا سے بہت محبت تھیں ان کے فضائل میں چند حدیثوں کا گلدستہ پیش کیا جاتا ہے۔۔

(1)۔ حضرت ابو ہریرہ رضہ اللہ عنہ راوی ہیں کہ حضرت جبریل علیہ السلام رسول اللہ ﷺ کے پاس تشریف لائے اور عرض کیا کہ اے محمد! ﷺ یہ خدیجہ ہیں جو آپ کے پاس ایک برتن لے کر آرہی ہیں جس میں کھانا ہے جب یہ آپ کے پاس آجائیں تو آپ ان سے ان کے رب کا اور میرا سلام کہہ دیں اور ان کو یہ خوشخبری سنادیں کہ جنت میں ان کے لیے موتی کا ایک گھر بنا ہے جس میں نہ کوئی شور ہوگا نہ کوئی تکلیف ہو گی۔۔( سیرت مصطفی ﷺ،ص: 653)

(2)۔ دنیا میں جنتی پھل سے لطف اندوز۔

حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کو دنیا میں رہتے ہوئے جنتی پھل سے لطف اندوز ہونے کا شرف بھی حاصل ہے چنانچہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ شہنشاہ مدینہ،قرار قلب وسینہ ﷺ نے حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کو جنتی انگور کھلائے۔۔(شرح زرقانی،4/376)

(فیضان امہات المؤمنین،ص:35)

مالک کونین ہیں گویا پاس کچھ رکھتے نہیں

دو جہاں کی نعمتیں ہیں ان کے خالی ہاتھ میں

(حدائق بخشش،حصہ اول،ص:103)

(3)۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ ازواجِ مطہرات میں سب سے زیادہ مجھے حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے بارے میں غیرت آیا کرتی تھی حالانکہ میں نے ان کو دیکھا بھی نہیں تھا غیرت کی وجہ یہ تھی کہ حضور علیہ السلام بہت زیادہ ان کا ذکر خیر فرماتے رہتے تھے اور اکثر ایسا ہوا کرتا تھا کہ آپ جب کوئی بکری زبح فرماتے تھے تو کچھ گوشت حضرت خدیجہ کی سہیلیوں کے گھروں میں ضرور بھیج دیا کرتے تھے اس سے میں چڑ جایا کرتی تھی اور کبھی کبھی یہ کہہ دیا کرتی تھی کہ دنیا میں بس ایک خدیجہ ہی تو آپ کی بیوی تھیں میرا یہ جملہ سن کر آپ فرمایا کرتے تھے کہ ہاں ہاں بے شک وہ تھیں وہ تھیں انہیں کے شکم سے تو اللہ عزوجل نے مجھے اولاد عطا فرمائی۔۔(بخاری،2/565 ،حدیث: 3818)

(4)۔حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی سہیلی کا اکرام:

محبوب سے نسبت رکھنے والی چیز بھی محبوب ہوتی ہے اور اس کا ادب واحترام کیا جاتا ہے اس محبت کا اظہار سرکار دوعالم ﷺ اور سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے درمیان بھی دیکھا جاسکتا ہے۔۔

چنانچہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد حضور علیہ السلام اپنی بلند وبالا شان ورفعت مقام کے باوجود حضرت خدیجہ کی سہیلیوں کا اکرام فرمایا کرتے تھے بارہا جب آپ کی بارگاہِ اقدس میں کوئی شے پیش کی جاتی تو فرماتے: اسے فلاں عورت کے پاس لے جاؤ کیونکہ وہ خدیجہ کی سہیلی تھی اسے فلاں عورت کے گھر لے جاؤ کیونکہ وہ خدیجہ سے محبت کرتی تھی۔(فیضان خدیجۃ الکبریٰ،ص: 46)

(5)۔جنت میں زوجیت کی بشارت:

حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا مرض وفات شریف میں مبتلا تھیں کہ سرکار دوعالم ﷺ آپ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: اے خدیجہ تمہیں اس حالت میں دیکھنا مجھے گراں (ناگوار) گزرتا ہے لیکن اللہ عزوجل نے اس گراں گزرنے میں کثیر بھلائی رکھی تمہیں معلوم ہے کہ اللہ عزوجل نے جنت میں میرا نکاح تمہارے ساتھ،مریم بنتِ عمران،حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بہن کلثم اور فرعون کی بیوی آسیہ کے ساتھ فریایا؟(فیضان خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا،ص: 63)

دیار جاودانی کی طرف راہی ہوئیں وہ بھی۔

گئیں دنیا سے آخر سوئے فردوس بریں وہ بھی۔

(شاہنامہ اسلام،ص:135)

(6)۔یادِ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا

ایک بار حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی بہن ہالہ بنتِ خویلد رضی اللہ عنہا نے سرکار رسالت مآب ﷺ کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہونے کی اجازت طلب کی،ان کی آواز حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سے بہت ملتی تھی چنانچہ اس سے آپ ﷺ کو حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی اجازت طلب کرنا یاد آگیا اور آپ ﷺ نے جھر جھری لی۔۔

قربان جائیے! جب شہنشاہ ابرار،محبوب رب غفار کی یادوں کو اپنے دل کے گلدستے میں سجانے اور آپ کی اداؤں کو اپنانے والا بڑے بڑے مراتب پالیتا ہے تو جنہیں حضور علیہ السلام یاد فرمائیں جن کے فراق میں حضور علیہ السلام گریہ فرمائیں اور جن کے متعلقین کا حضور علیہ السلام اکرام فرمائیں ان کی عظمت وشان اور رتبے کا کیا عالم ہوگا اور کیوں نہ ہو ان کے نصیب پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین رشک فرمائیں؟

اللہ کا محبوب بنے جو تمہیں چاہے

اسکا بیان ہی نہیں کچھ تم جسے چاہو

(ذوقِ نعت،ص147)

اللہ پاک ہمیں بھی حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سے سچی محبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


اسلام کی سب سے پہلی آزاد اور خودمختار خاتون حضرت خدیجہ نبی کریم ﷺ کی سب سے پہلی زوجہ محترمہ تھیں نبی کریم ﷺ ان سے بڑی محبت فرماتے تھے حضرت خدیجہ سے حضور ﷺ کی محبت کا ایک بڑا ثبوت یہ بھی ہے کہ حضور ﷺ نے حضرت خدیجہ کی حیات میں کسی اور سے نکاح نہ فرمایا (صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابہ،ص949،حدیث 2436)یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ نبی کریم ﷺ حضرت خدیجہ سے اس قدر محبت فرماتے تھے کہ نکاح کی استطاعت رکھنے کے باوجود دوسرا نکاح نہ فرمایا۔ایک قول کے مطابق حضرت خدیجہ نے ہی سب سے پہلے نبی کریم ﷺ پر ایمان لانے کا شرف حاصل کیا چنانچہ حدیث پاک میں ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا!کہ خدا کی قسم! خدیجہ سے بہتر مجھے کوئی بیوی نہیں ملی جب لوگوں نے ایمان لانے سے انکار کیا اس وقت وہ مجھ پر ایمان لائیں اور جب سب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے اس وقت انہوں نے میری تصدیق کی اور جس وقت کوئی شخص مجھے کوئی چیز دینے کو تیار نہ تھا اس وقت خدیجہ نے مجھے اپنا سارا مال دے دیا اور انہیں کے شکم سے اللّٰہ ٰ نے مجھے اولاد عطا فرمائی (بخاری،2/565 ،حدیث: 3818)

اس حدیث پاک سے یہ صاف جھلک رہا ہے کہ نبی کریم ﷺ حضرت خدیجہ سے کس قدر محبت فرماتے تھے نبی کریم ﷺ کو حضرت خدیجہ سے بڑی محبت تھی حتیٰ کہ جب آپ حضرت خدیجہ کا وصال ہوگیا تو کثرت سے آپ کا ذکر فرماتے نبی کریم ﷺ حضرت خدیجہ کی سہیلیوں کا اس قدر اکرام (یعنی ان کی عزت فرماتے)کہ جب کبھی آپ ﷺ کی بارگاہ میں کوئی چیز حاضر کی جاتی تو اکثر ان کی طرف بھیج دیتے حتیٰ کہ یہی کثرت ذکر اور پیاروں محبت ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے رشک کا باعث بنا چنانچہ خود فرماتی ہیں! میں نے رسول اکرم ﷺ کی ازواج پاک میں کسی پر اتنی غیرت(یعنی رشک) نہیں کیا جتنا جناب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا پر کیا۔حالانکہ میں نے انہیں دیکھا بھی نہیں تھا لیکن حضور ﷺ ان کا کثرت سے ذکر فرماتے تھے (بخاری،،ص 946،حدیث 3818) اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ آپ رضی اللہ عنہا کے وصال کے بعد بھی کثرت سے آپ رضی اللہ عنہا کا ذکر اور آپ رضی اللہ عنہا کو یاد فرماتے تھے

ایک مرتبہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بہن ہالہ بنتِ خویلد رضی اللہ عنہا نے بارگاہ رسالت ﷺ میں حاضر ہونے کی اجازت طلب کی ان کی آواز حضرت خدیجہ سے بہت ملتی تھی چنانچہ اس سے آپ ﷺ کو حضرت خدیجہ کا اجازت طلب کرنا یاد آگیا اور آپ ﷺ نے جھرجھری لی۔(بخاری، ص 962،حدیث: 3821)

حضور ﷺ کی یادوں کا گلدستہ دل میں سجانے والا بڑے بڑے مراتب پالیتا ہے تو جن کو حضور ﷺ یاد فرمائیے ان کی شان کے کیا کہنے

اللّٰہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں نبی کریم ﷺ کی سچی محبت عطا فرمائے اور آپ ﷺ سے وابستہ تمام لوگوں کی محبت عطا فرمائے

آمین ثم آمین


الحمد لله رب العالمين والصلاه والسلام على سيد المرسلين اما بعد فاعوذ بالله من شيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم

درود شریف کی فضیلت:

فرمان مصطفیٰﷺ: روز قیامت میرے زیادہ تر قریب وہ ہو گا جو مجھ پر زیادہ درود پاک بھیجے گا۔

صلوا على الحبيب صلى الله على محمد ﷺ

نبی کریم ﷺ اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی ازدواجی زندگی محبت،وفاداری اور قربانی کی بے مثال داستان ہے۔حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نہ صرف رسول اکرم ﷺ کی پہلی زوجہ محترمہ تھیں بلکہ آپ کی سب سے بڑی حامی،مددگار اور تسلی دینے والی ہستی بھی تھیں۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی محبت اور وفاداری

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ایک کامیاب تاجرہ اور اعلیٰ اخلاق کی حامل خاتون تھیں۔جب انہوں نے نبی کریم ﷺ کے دیانت اور امانت کے اوصاف دیکھے تو آپ سے نکاح کا پیغام بھیجا۔یہ نکاح محض ایک رشتہ نہیں بلکہ دو عظیم ہستیوں کے درمیان گہری محبت اور وفاداری کا آغاز تھا۔

جب حضور ﷺ پر وحی کا نزول ہوا اور آپ پریشان ہو کر گھر تشریف لائے،تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو تسلی دی اور فرمایا:

اللہ کی قسم! اللہ آپ کو کبھی رُسوا نہ کرے گا۔آپ صلہ رحمی کرتے ہیں،سچ بولتے ہیں،بے سہارا لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں،مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی حمایت کرتے ہیں۔

(صحیح بخاری)

یہ الفاظ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بے پناہ محبت،عقیدت اور حضور ﷺ پر بھروسے کا واضح ثبوت ہیں۔

نبی کریم ﷺ کی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے محبت

رسول اکرم ﷺ کو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے بے حد محبت تھی۔آپ کی وفات کے بعد بھی نبی کریم ﷺ اکثر انہیں یاد فرماتے اور ان کے احسانات کا تذکرہ کرتے۔ایک بار حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا کہ آپ بار بار حضرت خدیجہ کا ذکر کیوں کرتے ہیں،تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

خدیجہ جیسی کوئی نہیں تھی،وہ اس وقت مجھ پر ایمان لائیں جب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے،انہوں نے مجھے اس وقت سہارا دیا جب سب نے مجھے چھوڑ دیا،اور اللہ نے مجھے انہی سے اولاد عطا فرمائی۔(بخاری،2/565 ،حدیث: 3818)

(مسند احمد)

نبی کریم ﷺ اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی محبت کے چند اور پہلو

1 سب سے پہلے ایمان لانے کا شرف

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سب سے پہلی شخصیت تھیں جنہوں نے نبی کریم ﷺ کی نبوت کی تصدیق کی۔جب آپ ﷺ پر وحی نازل ہوئی اور آپ گھبراہٹ کے عالم میں گھر تشریف لائے،تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے نہ صرف آپ کو تسلی دی بلکہ فوراً آپ پر ایمان لے آئیں۔

2 مالی و جانی حمایت

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اپنا تمام مال و دولت نبی کریم ﷺ کے مشن میں لگا دیا۔جب قریش نے مسلمانوں کا بائیکاٹ کیا اور شعبِ ابی طالب میں سخت حالات کا سامنا کرنا پڑا،تب بھی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا اور نبی کریم ﷺ کے ساتھ تکالیف جھیلیں۔

3 نبی کریم ﷺ کی وفاداری

آپ ﷺ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے بے حد محبت کرتے تھے۔ان کی وفات کے بعد بھی جب کوئی حضرت خدیجہ کا ذکر کرتا تو آپ ﷺ محبت اور احترام کے ساتھ ان کی یاد تازہ کرتے۔

4 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا مشاہدہ

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو کسی اور زوجہ کے معاملے میں اتنا حساس اور محبت کرنے والا نہیں پایا جتنا وہ حضرت خدیجہ کے بارے میں تھے۔(صحیح بخاری)

5 حضرت خدیجہ کے دوستوں سے حسن سلوک

آپ ﷺ حضرت خدیجہ کے دوستوں اور رشتہ داروں سے خصوصی شفقت فرماتے تھے۔ایک بار ایک بوڑھی خاتون آپ کے پاس آئیں،تو آپ ﷺ نے نہایت عزت سے ان کا استقبال کیا۔حضرت عائشہ نے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ حضرت خدیجہ کی سہیلی ہیں اور میں ان کے ساتھ حسن سلوک کر رہا ہوں کیونکہ خدیجہ ان سے محبت کرتی تھیں۔

6 حضرت خدیجہ کو جنت کی بشارت

نبی کریم ﷺ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے جنت میں ایک شاندار گھر کی بشارت دی،جو کسی بھی تکلیف یا پریشانی سے پاک ہوگا۔(صحیح بخاری)

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور نبی کریم ﷺ کا رشتہ محض ایک ازدواجی تعلق نہیں تھا بلکہ یہ بے لوث محبت،ایثار،قربانی اور وفاداری کی ایک روشن مثال تھا۔حضرت خدیجہ کی خدمات اور محبت کو نبی کریم ﷺ نے ہمیشہ یاد رکھا اور ان کا احترام قیامت تک کے لیے ایک اعلیٰ مثال بن گیا

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی جدائی کا غم

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات نبی کریم ﷺ کے لیے ایک بڑا صدمہ تھی۔آپ ﷺ انہیں ہمیشہ یاد کرتے،ان کے رشتہ داروں سے حسن سلوک کرتے اور جب بھی ان کے کسی جاننے والے کی آواز سنتے تو انہیں حضرت خدیجہ یاد آجاتیں

نبی کریم ﷺ اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی محبت ایک مثالی رشتہ تھا،جو ایثار،قربانی،وفاداری اور اخلاص کی بنیاد پر قائم تھا۔حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ہر حال میں رسول اللہ ﷺ کا ساتھ دیا اور آپ ﷺ نے زندگی بھر ان کی محبت اور احسانات کو یاد رکھا۔یہ رشتہ آج بھی مسلمانوں کے لیے ازدواجی زندگی میں محبت،احترام اور قربانی کا بہترین نمونہ ہے۔


حضرت خدیجہ رضی اللہ  عنہ کا تعارف :-

ان کا سلسلہ نسب قصی میں اپ ﷺ کے خاندان سے جا ملتا ہے- حضور ﷺ کی بعثت سے پہلے طاہرہ کے لقب سے مشہور تھیں- ان کی پہلی شادی ابو ہالہ بن زرارہ تمیمی سے ہوئی جن سے دو لڑکے ہندو ہالہ نام پیدا ہوئے -یہ دونوں صحابی ہیں- حضرت ہند کی روایت سے اپ ﷺ کا حلیہ شریف منقول ہے-

ابو حالہ کے انتقال کے بعد دوسری شادی اور عتیق بن عائذ مخزومی سے ہوئی جن میں سے ایک لڑکی پیدا ہوئی- اس کا نام بھی ہند تھا- یہ اسلام لائیں اور اپن چچیرے بھائی صفیی بن امیہ بن عائذ مخزومی سے شادی کی - ان سے ایک لڑکا محمد بن صیفی پیدا ہوا جس کی اولاد کو حضرت خدیجہ کے تعلق کے سباب سے بنو طاہرہ کہتے ہیں ـ

اپ رضی اللہ عنہا کی والدہ کا نام فاطمہ بنتِ زاندہ تھا اور لوی بن غالب کے دوسرے بیٹے عامر کی اولاد تھیں-

ولادت با سعادت:-

حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا الفیل سے 15 برس قبل 556 عیسوی میں مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں- اپ مکارم اخلاق کا پیکر جمیل تھیں- عفت و پاکدامنی کے باعث اس عہد جاہلیت میں طاہرہ کے لقب سے مشہور تھیں- رحم دلی،غریب پروری،سخاوت اپ رضی اللہ عنہا کی امتیازی خصوصیات تھیں-

حضور ﷺ سے نکاح رسول اللہ ﷺ سے اپ کا نکاح سفر شام سے واپسی کے دو ماہ 25 دن بعد منعقد ہوا-شان حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا:-

نبی پاک ﷺ کا فرمان ہے :-

اللہ پاک کی قسم! خدیجہ سے بہتر مجھے کوئی بیوی نہیں ملی جب سب لوگوں نے میرے ساتھ کفر کیا اس وقت وہ مجھ پر ایمان لائی اور جس وقت کوئی شخص مجھے کوئی چیز دینے کے لیے تیار نہ تھا اس وقت خدیجہ نے مجھے اپنا سارا مال دے دیا اور جب سب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے اس وقت اس نے میری تصدیق کی اور ان سے اللہ پاک نے مجھے اولاد عطا فرمائی-

(بخاری،2/565 ،حدیث: 3818)حضرت عائشہ صدیق رضی اللہ عنہ کہتی ہیں کہ مجھے میرے سرتاج صاحب لولاک ﷺ کی کسی بھی زوجہ پر اتنا رشک نہیں ایا جتنا حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ پر حالانکہ میں نے انہیں دیکھا نہیں مگر اقا ﷺ ان کا ذکر بہت زیادہ کیا کرتے تھے اور کبھی بکری زبح فرماتے اور اس کے گوشت کے ٹکڑے بناتے اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کی سہیلیوں کو بھیجا کرتے اور فرماتے وہ ایسی تھی وہ ایسی تھی خوب تعریف فرما تھے اور ان سے میری اولادیں ہیں-

( مشکوٰۃ مصابیح ج3،ص1743 حدیث 6186)

صدیقہ ہیرا ہوئی جب سنائی اقا نے *

شان خدیجہ کی وہ پیار خدیجہ کا*

جنتی بہترین خواتین :-

حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا تمہاری اتباع اقتدار کے لیے چار عورتیں ہی کافی ہیں, خدیجہ بنتِ خویلد رضی اللہ عنہا،فاطمہ بنتِ محمد رضی اللہ عنہا،مریم بنتِ عمران رضی اللہ عنہا اور فرعون کی زوجہ اسیہ بنتِ مزاحم رضی اللہ عنہا کیونکہ یہ جنتی خواتین میں سب سے بہترین خواتین ہیں-

( مسند امام احمد 2903/687)

اللہ علیہ وسلم کے حضرت خدیجہ رضی اللہ محبت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت خدیجہ کی زندگی مبارک میں کسی دوسری عورت سے نکاح نہ کیا-

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضور ﷺ کی خدمت اقدس میں کوئی چیز پیش کی جاتی تو اپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے اس کو فلاں خاتون کے گھر لے جاؤ کیونکہ یہ خدیجہ رضی اللہ عنہ کی سہیلی ہیں اس کو فلاں خاتون کے گھر لے جاؤ کیونکہ یہ خدیجہ رضی اللہ عنہ سے محبت رکھتی تھی -

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ وہ مقدس خاتون ہیں جنہیں اپ ﷺ نے تمام جہان کی عورتوں سے افضل فرمایا-

کس منہ سے بیاں ہوگا کردار خدیجہ کا

سیرت خدیجہ کی ایثار خدیجہ کا

موتیوں کے محل کی بشارت:- حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ سب سے پہلے اپ ﷺ پر ایمان لائیں نگاہ کے بعد 25 برس تک زندہ نہیں ان کی زندگی میں حضور ﷺ نے دوسری دوسری شادی نہیں کی انہوں نے اپنے مال سے رسول اللہ ﷺ کو مدد دی ایک روز حیرہ میں حضرت محمد ﷺ کے لیے کھانا لا رہی تھی حضرت جبرائیل علیہ الصلوۃ والسلام نے خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ خدیجہ جب ائیں تو اپ ان کو ان کے رب کی طرف سے اور میری طرف سے سلام پہنچا دیں اور وحشت میں ایک موتیوں کے محل کی بشارت دیں-

وفات:-

ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے56 سال کی عمر میں وفات پائی اور مکہ کے مشہور قبرستان جنت المعلئ میں مدفن ہیں -حضور ﷺ نے ان کو قبر میں اتارا ان پر نماز نہ پڑھی گئی کیونکہ اس وقت تک نماز جنازہ فرض نہ ہوئی تھی-

( سیرت رسول عروی از علامہ نور بخش توکلی رحمت اللہ علیہ ص597)

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد حضور ﷺ غمگین رہا کرتے تھے کم سن بچیوں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کی خبر گیری کرنے والا کوئی نہ تھا حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہا کی زوجہ حضرت خولہ بنتِ حکیم رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ اپ ﷺ کو ایک مونس رفیق کی ضرورت ہے اپ ﷺ کی ایماء سے وہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہ کے والد کے پاس گئے وہ جہالیت کے طریقہ پر سلام کیا پھر نکاح کا پیغام پہنچایا انہوں نے کہا ہاں! محمد ﷺ شریف کفو ہیں لیکن سودا سے بھی تو دریافت کرو غرض سب مراحل طے ہو گئے تو اپ ﷺ ان کے گھر تشریف لے گئے ان کے والد نے نکاح پڑھایا اور چار سو در ہم مہر قرار فرمایا۔

ام المومنین ام القاسم  حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا مسلمانوں کی پہلی امی جان رضی اللہ عنہا ہیں۔ آپ کا نام مبارک خدیجہ بنتِ خویلد ابنِ اسد ہے۔آپ رضی اللہ عنہا قرشیہ ہیں۔آپ کا نسب شریف قصٰی ابنِ کلاب میں حضور ﷺ سے مل جاتا ہے۔آپ کو یہ شرف حاصل ہے کہ دیگر ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کی نسبت سب سے کم واسطوں سے آپ کا نسب رسولِ کریم ﷺ سے ملتاہے۔آپ رضی اللہ عنہاکو آقا کریم ﷺ نے جنتی انگور کھلائے۔آپ ان 4 خواتین میں سے ہیں جنہیں آقا کریم ﷺ نے جنتی عورتوں میں سب سے افضل قرار دیا ہے ۔

آپ نہایت مالدار اور پاکیزہ خاتون تھی۔آپ رضی اللہ عنہا کو زمانہ جاہلیت میں ہی طاہرہ کہہ کر پکارا جاتاتھا۔

آپ رضی اللہ عنہا کے سابقہ2 شوہر(ہالہ اور عتیق یکے بعد دیگرے) فوت ہوگئے تھے۔سردارانِ قریش نے پیغامِ نکاح دیا لیکن آپ نے قبول نہ کیا،پھر آپ نے پیارے آقا کریم ﷺ کے اخلاقِ کریمہ سے متاثر ہو کر رسول اللہ ﷺ کو نکاح کی درخواست کی۔چالیس سال کی عمر میں حضور ﷺ کے نکاح میں آئیں۔

(فیضان امہات المومنین،ص17،16)

اس وقت پیارے آقا کریم ﷺ کی عمر مبارک 25 برس تھی،اس بات میں کسی مؤرخ کا اختلاف نہیں ہے کہ آپ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا اور آپ کی زندگی میں کسی اور عورت سے نکاح نہ فرمایا۔(مسلم،ص1324، حدیث:2435)

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ہی وہ خوش نصیب بی بی ہیں کہ نبوت کی سب سے پہلی خبر انہیں ملی۔سب سے پہلے آپ ہی حضور پر ایمان لائیں۔اعلانِ نبوت کے بعد تین برس تک حضورِ اقدس ﷺ انتہائی پوشیدہ طور پر اور نہایت راز داری کے ساتھ تبلیغِ اسلام کا فرض ادا فرماتے رہے اور اس درمیان میں عورتوں میں سب سے پہلے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور آزاد مردوں میں سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اسلام قبول کر کے سیدُ المرسَلین ﷺ کے دامنِ اقدس سے وابستہ ہو گئے۔

(مواہب لدنیہ،1 / 454،455،460،461ملخصاً)

آپ رضی اللہ عنہا کی بڑی شان ہے۔ آپ رضی اللہ عنہا نے ہر ہر قدم پر آقا کریم ﷺ کا ساتھ دیا ۔آپ رضی اللہ عنہا پیارے آقا کریم ﷺ کی بہت محبوب زوجہ محترمہ ہیں ۔

روایت میں ہےکہ اُمّ المؤمنین حضرتِ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے فرماتی ہیں کہ مجھے حضور نبی کریم، رؤف رحیم ﷺ کی ازواجِ مطہرات میں سے کسی پر اتنا رشک نہ آتا جتنا حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا پرآتا حالانکہ میں نے انہیں کبھی نہیں دیکھالیکن اکثر تاجدارِ رِسالت ﷺ ان کا ذکرِ خیر فرماتے تھے۔ بعض اوقات بکری ذبح کرتے اور اس کے اعضاء الگ الگ کرکے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی سہیلیوں کے گھر بھیجتے۔ بسا اوقات میں یوں عرض کرتی کہ دنیا میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکے سواکوئی عورت نہیں ہے۔آپ ﷺ ان کی اوصاف بیان کرتے ہوئے فرماتے:وہ ایسی تھیں،وہ ایسی تھیں اور اُن سے میری اولاد ہوئی ہے ۔(بخاری،2/565 ،حدیث: 3818)

حضرت خدیجۃ الکبریٰ کے اوصاف:یہاں حدیثِ مبارک میں جو بیان ہوا کہ پیارے آقا کریم ﷺ ان کے اوصاف بیان فرماتے کہ وہ ایسی تھیں، وہ ایسی تھیں۔یہاں جناب خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بہت سی صفات کی طرف اشارہ ہے یعنی وہ بہت روزہ دار،تہجد گزار،میری بڑی خدمت گزار،میری تنہائی کی مونس،میری غمگسار،غارِ حراء کے چلّے میں میری مددگار تھیں اور میری ساری اولاد انہی سے ہے۔وہ جناب فاطمہ زہرہ کی ماں ہیں قیامت تک کے سیدوں کی نانی رضی اللہ عنہا۔(مراۃ المناجیح،8/497ملخصًا)

پیارے آقا کریم ﷺ کے شہزادے ابراہیم رضی اللہ عنہ کے علاوہ نبی کریم ﷺ کی ساری اولاد آپ رضی اللہ عنہا سے تھیں۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے معاملے میں رشک کرنا ذکر ہوا ہے۔ آئیے! حسد اور رشک میں فرق ملاحظہ فرمائیے ۔چنانچہ

دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ417 صفحات پرمشتمل کتاب’’لباب الاحیاء ‘‘ ص254پر ہے : ’’حسد یہ ہے کہ جب کسی ( مسلمان ) بھائی کواللہ

پاک کی نعمت ملتی ہے تو حاسِد اِنسان اسے ناپسند کرتا ہے اور اس بھائی سے نعمت کا زوال چاہتا ہے۔ اگر وہ اپنے بھائی کو ملنے والی نعمت کو ناپسند نہیں کرتا اور نہ اس کا زوال چاہتا ہے بلکہ وہ چاہتا ہے کہ اسے بھی ایسی ہی نعمت مل جائے تو اسے رشک کہتے ہیں۔سرکارِ والا تَبار،شفیعِ روزِ شُمارﷺ کافرمانِ عالیشان ہے : ’’مؤمن رشک کرتا اور منافق حسد کرتا ہے۔‘‘)

(مفہوم) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا آقا کریم ﷺ کی محبوب ترین زوجہ محترمہ ہیں آپ رضی اللہ عنہا کاحضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے متعلق رشک کرنا اس لیے تھاکہ جیسے آقا کریم ﷺ انکی وفات کے بعد انکو یاد فرماتے ہیں مجھے بھی یہ سعادت ملے (اسی حدیث شریف کی شرح میں فیضان ریاض الصالحین جلد 4 حدیث 344)

یادِ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا

آقا کریم ﷺ کو آپ رضی اللہ عنہا سے ایسی محبت تھی کہ آپ کی وفات کے بعد بھی آقا کریم ﷺ آپکو یاد فرماتے آپ کا ذکر خیر فرماتے آپ کی سہیلیوں کو ہدیہ بھجواتے

ایک روایت میں ہے کہ اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکی بہن ہالہ بنتِ خُوَیلد نے سرکارِ دو عالم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہونے کی اجازت طلب کی توآپ ﷺ کوحضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کااجازت مانگنا یادآگیا اور آپ ﷺ نے جھرجھری لی ۔(بخاری، ص 962،حدیث: 3821)

اسی طرح 1اور

روایت ہے حضرت عائشہ سے فرماتی ہیں جب مکہ والوں نے اپنے قیدیوں کے فدیے بھیجے توحضرت زینب نے بھی ابوالعاص کے فدیہ میں کچھ مال بھیجا اس مال میں وہ اپنا ہار بھیجا جو جناب خدیجہ کے پاس تھا جسے دے کر زینب کو ابولعاص کے ہاں بھیجا تھا تو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ ہار دیکھا حضور اکرم ﷺ کو اس پر بہت ہی رقت طاری ہوئی اور فرمایا اگر تم لوگ مناسب سمجھو تو زینب کا قیدی چھوڑ دو اور ان کی چیزیں انہیں واپس کردو سب نے کہا ہاں ضرور اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ابوالعاص سے عہد لیا کہ وہ جناب زینب کا راستہ خالی کر دیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے زید ابن حارثہ کو ا ور ایک انصاری کو بھیجا ان سے فرمادیا کہ تم دونوں بطن یا جج میں رہنا تا آنکہ تم پر زینب گزریں تو انہیں اپنے ساتھ لے آنا مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:5 , حدیث نمبر:3970)

اسی روایت کی شرح میں ہے کہ بطن یا جج جگہ کا نام ہے جو اس روایت کی شرح میں ہے

۔‘‘

آپ رضی اللہ عنہا کا وصال 10 رمضان المبارک کو نبوت کے

دسویں سال ہوا اس وقت آپ کی عمر مبارک 65 سال تھی آپ کی نماز جنازہ ادا نہیں کی گئی کیونکہ اس وقت نماز جنازہ کا حکم نازل نہیں ہوا تھا

(فیضان امھات المؤمنین ص 36 اور 37)

آپکو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ آقا کریم ﷺ نے بنفس نفیس آپ رضی اللہ عنہا کو قبر میں اتارا آپ کامزار مبارک جنت المعلی (مکہ مکرمہ میں ہے)

اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اللہ پاک آپ انکے درجات کو بلند فرمائے آمین اور انکے صدقے ہماری بلاحساب مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں انکا پڑوس عطا فرمائے آمین بجاہ خاتم النبین و ﷺ

جب ہر طرف تاریکی کا دور دورہ تھا، اللہ پاک اپنےمحبوبﷺ کے نور کا سورج طلوع فرما دیتا ہے ، پھر کائنات کا ذرہ ذرہ آقا ﷺکے نور سے جگمگا اٹھتا ہے،جو  معبودِ حقیقی، خالق و مالک اللہ پاک کی عبادت کی طرف بلاتے ہیں تو بجائے اس کے کہ آپ کی دعوت قبول کرتے ہوئے خدا کی پکار پر لبیک کہا جاتا بلکہ آپ پر مصائب و آلام کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں ایسے نازک دور میں جو ہستی حق کی پکار پر لبیک کہتی ہوئی آپ کی دعوتِ حق کو قبول کرنے کی سعادت سے سرفراز ہوئی اور ”اے ایمان والو“کی پکار کی سب سے پہلے حق دار قرار پائی،جنہوں نےعورتوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل کیا،حضور ﷺ کی زوجیت سے جو سب سے پہلے مشرف ہوئیں،اللہ پاک نے جنہیں جبریلِ امین علیہ السلام کی وساطت سے سلام بھیجا،جنہوں نے حبیب ﷺکی صحبتِ با برکت میں کم وبیش 25 سال رہنے کی سعادت حاصل کی، جنہوں نے شعبِ ابی طالب میں رسول ﷺ کے ساتھ محصور رہ کر رفاقت اور محبت کا عملی نمونہ پیش کیا، جنہوں نے اپنی ساری دولت حضور ﷺ کے قدموں میں ڈھیر کر دی،جن کی قبر میں ہادیِ برحق ﷺ اترے،جو خاتونِ جنت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی والدہ،نوجوانانِ جنت کے سرداروں حضرت حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی نانی جان،حضرت محمد ﷺکی بہت ہی محبوب زوجہ مطہرہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ہیں۔آپ کی حیات میں حضورﷺ نے کسی اور سے نکاح نہ فرمایا اور آپ کو جنت میں شوو غل سے پاک محل کی بشارت سنائی۔حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ہر قدم پر رحمۃ للعالمین کا ساتھ دیا اور آپ کا حوصلہ بڑھایا۔چنانچہ جب کریم جاناں کفار کی جانب سے اپنا رد ملاحظہ کرتے یا کوئی ناپسندیدہ بات سن کر غمگین ہوجاتے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لاتے تو ان کے باعث رنج و غم کی کیفیت دور ہوجاتی۔(مدارج النبوت،2/32 و2/465)

آپ رضی اللہ عنہا کانسب شریف:حضرت قصی بن کلاب میں جاکر آپ کا نسب شریف حضور اکرم ﷺ کے نسب مبارک سے جا ملتا ہے۔اس حوالے سے آپ کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ دیگر ازواج کی نسبت سب سے کم واسطوں میں آپ کا نسب رسول اللہ ﷺ سے جا ملتا ہے ۔

فضائل و مناقب :آپ رضی اللہ عنہا کے فضائل و مناقب بے شمار ہیں۔سرکارِ عالی وقار ﷺ کو آپ رضی اللہ عنہا سے بہت محبت تھی حتی کہ جب آپ کا وصال ہو گیا اس کے بعد بھی آقا کریم ﷺ آپ کا کثرت سے ذکر فرماتے۔آپ ﷺ بلند شان ہونے کے باوجود آپ رضی اللہ عنہا کی سہیلیوں کا اکرام فرماتے، چنانچہ روایت میں ہے کہ بارہا جب آپ کی بارگاہ میں کوئی چیز پیش کی جاتی تو آپ فرماتے: فلاں عورت کے گھر لے جاؤ کیونکہ وہ خدیجہ کی سہیلی ہے،اسے فلاں عورت کے گھر لے جاؤ کیونکہ وہ خدیجہ سے محبت کرتی تھی۔

(فیضان امہات المومنین، ص 33)

ایک بار حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بہن حضرت ہالہ بنتِ خویلد نے پیارے آقا ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہونے کی اجازت طلب کی،ان کی آواز حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے بہت ملتی تھی،اس سے آقا ﷺ کو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا اجازت طلب کرنا یاد آگیا اور آپ نے جھرجھری لی۔

(بخاری،ص 962،حدیث: 3821)

آپ کی محبت کا ثبوت یہ بھی ملتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آقا ﷺ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو جنتی انگور کھلایاہے۔(شرح زرقانی،4/376)

سبحان اللہ!آپ رضی اللہ عنہا دنیا میں ہی جنتی پھل سے لطف اندوز ہوئیں۔(فیضان امہات المومنین،ص 35 ) حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ان چار خواتین میں سے ہیں جنہیں رسول اللہ ﷺ نے جنتی عورتوں میں سب سے افضل قرار دیا۔چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:ایک بار رسول اللہ ﷺ نے زمین میں چار خطوط کھینچ کر فرمایا:تم جانتے ہو یہ کیا ہے؟صحابہ نے عرض کی:اللہ پاک اور اس کا رسولﷺ بہتر جانتے ہیں؟جنتی عورتوں میں سب سے فضیلت والی یہ ہیں :

1-خدیجہ بنتِ خویلد

2- فاطمہ بنتِ محمد

3 -فرعون کی بیوی آسیہ

4 -مریم بنتِ عمران ۔(مسندامام احمد ،1/678،حدیث:2903)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا فیضان عطا فرمائے اور ان کے صدقے حیا کی پیکر بنائے۔اٰمین