محبت کی اولین علامت محبوب کی اتباع وپیروی ہے اس لیے ہر امتی پر حق ہے کہ محبوب دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس بات کا حکم دیا اس پر عمل پیرا ہوں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔

(مشکاۃ المصابیح جلد، 1 صفحہ 5 ،حدیث: 175)

صحابہ کرام علیہم الرضوان میں سنتوں پر عمل کی کامل علامت موجود تھی صحابہ کرام علیہم الرضوان ہر ہر سنت پر عمل کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔

حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سنت پر عمل :حضرت سیدتنا ام درداء رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ سیدنا ابو درداء رضی اللہ تعالی عنہ جب بھی بات فرماتے تو مسکراتے میں نے عرض کی آپ اپنی اس عادت کو ترک فرما دیجئے ورنہ آپ کو لوگ احمق کہنے لگیں گے۔ حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالی عنہ فرمانے لگے کہ میں نے جب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بات کرتے سنا آپ مسکراتے تھے (لہذا اس سنت پر عمل کو ترک نہیں کر سکتا)

( مسند احمد، سنن ابی داؤد، حدیث: 21791)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کا سنت پر عمل :

حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے ایک درزی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی میں بھی آپ کے ساتھ موجود تھا اس نے روٹی اور شوربہ پیش کیا جس میں خشک گوشت کی بوٹیاں اور کدو کے ٹکڑے تھے میں نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کدو شریف تلاش کر کے تناول فرما رہے ہیں۔ اس کے بعد میں بھی کدو شریف کو پسند کرتا ہوں ۔

(بخاری شریف، کتاب البیوع، باب الخیاط ،حدیث: 2092)

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کا سنت پر عمل :

ایک دن حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے مسجد کے دروازے پر بیٹھ کر بکری کی دستی کا گوشت منگوایا اور پھر بغیر تازہ وضو کیے نماز ادا کی پھر فرمایا نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی جگہ بیٹھ کر یہی کھایا تھا اور اسی طرح کیا تھا۔

(مسند احمد، مسند عثمان بن عفان 37/1،حدیث :441)


ابتدا ہے رب کریم کے بابرکت نام سے جس نے اپنے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا کروڑوں درود اور سلام ہوں ان کی ذات بابرکت پر جن کو حق کے ساتھ مبعوث کیا گیا-

اللہ کریم نے قران کریم میں ارشاد فرمایا" لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ پ21 ،سورۃ احزاب) ترجمہ کنزالایمان: تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی بہتر ہے۔

تفسیر خزائن العرفان میں ہے کہ ان کی اچھی طرح پیروی کرو اور دین الہی کی مدد کرو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہ چھوڑو اور صبر کرو اور اس کی اصل تفسیر صحابہ کرام علیہم الرضوان کی حیات مبارکہ ہے - صحابہ کرام علیہم الرضوان کے اندر اطاعت و اتباع حضور صلی اللہ علیہ وسلم کامل درجہ کی پائی جاتی تھی ۔

اب صحابہ کرام علیہم الرضوان کے چند واقعات ذکر کیے جائیں گے:

حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی آخری تمنا: امیرالمومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی وفات سے صرف چند گھنٹے قبل ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کفن کے کتنے کپڑے تھے اور آپ کی وفات کس دن ہوئی ؟ اس سوال کی وجہ یہ تھی کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی یہ آخری تمنا تھی کہ ان کی زندگی کے ساتھ ساتھ ان کے آخری تمام معاملات بھی حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی مبارک سنتوں کے مطابق ادا کیے جائیں آپ کی خواہش تھی کہ مرنے کے بعد بھی مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی نصیب ہو جائے۔

(سیرت مصطفی صفحہ 828 مکتبۃالمدینہ)

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم :حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے کسی نے سوال کیا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کتنی محبت کرتے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا :خدا کی قسم! حضور علیہ الصلوۃ والسلام ہمارے مال ،ہماری اولاد، ہمارے ماں باپ اور سخت پیاس کے وقت پانی سے بھی بڑھ کر ہمارے نزدیک محبوب ہیں۔

(سیرت مصطفیٰ ،ص 834 ،مکتبۃ المدینہ )

حضرت عبداللہ بن عمر کا عشق رسول: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ممبر شریف پر جس جگہ آپ بیٹھے تھے خاص اس جگہ پر اپنا ہاتھ بڑھا کراپنے چہرے پر مسح کیا کرتے تھے۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کی روٹی :ابن اسعد بروایت ابو اسحاق روایت کیا ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا :میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بن چھنے آٹے کی روٹی کھاتے دیکھا ہے اس لئے میرے لئے آٹا نہ چھانا جائے

( سیرت رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم، صفحہ 467، کتب خانہ امام احمد رضا)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کی اونٹنی :حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھا گیا کہ اپنی اونٹنی ایک مکان کے گرد پھرا رہے ہیں اس کا سبب پوچھا گیا تو فرمایا کہ میں نہیں جانتا مگر اتنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا ہے اس لیے میں نے بھی کیا۔

صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی زندگی کا ہر گوشہ اتباعِ سنت میں گزرا اسی لئے رب تعالیٰ نے قرآن پاک میں سب صحابہ کرام علیہم الرضوان کے لئے فرمایا : وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰىؕ-

دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنے اور صحابہ کرام کی سیرت کو پڑھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم


گوشت چھوڑ دیا:

صحابہ کرام کی سنت پر عمل کا جذبہ ایسا تھا کہ سنتِ مبارکہ پر عمل کرنے کے لیے اپنی فطری عادات کو بھی بدل دیتے تھے۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو کسی نے دیکھا، کہ آپ کھانا کھاتے وقت سالن میں سے گوشت کی بوٹیاں ایک طرف کرتے جا رہے ہیں اور صرف کدو شریف اُٹھا اُٹھا کر تناول فرما رہے ہیں، کسی نے پوچھا: آپ ایسا کیوں فرما رہے ہیں؟ فرمایا: میں نے محبوب دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا ہی کرتے دیکھاہے۔ (مشکوۃ المصابیح)

نئی قمیض خراب کر لی :

صحابہ کرام سُنت پر عمل کرنے کی خاطراپنا نقصان برداشت کر لیتے لیکن سنتِ مبارکہ کو نہ چھوڑتے، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ نئی قمیض زیب تن فرمائی تو دیکھا اس کی آستین لمبی ہے، آپ نے اپنے بیٹے سے چُھری منگوائی اور فرمایا یہ لمبی آستینوں کو پکڑ کر کھینچو اور جہاں تک میری انگلیاں ہیں ان سے آگے سے کپڑا کاٹ دو، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے اِسے کاٹا تو وہ بالکل سیدھا نہیں تھا بلکہ اوپر نیچے سے کٹا، میں نے عرض کیا:" ابّاجان !اگر اسے قینچی سے کاٹا جاتا تو بہتر رہتا، آپ نے فرمایا:بیٹا! اسے ایسا ہی رہنے دو کیوں کہ میں نے محبوب دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے ہی کاٹتے دیکھا تھا۔( عشق رسول)

نمازی کو مار پڑگئی:

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جب کسی کو عصر کی نماز کے بعد نفل پڑھتا دیکھتے تو اسے مارتے یہاں تک وہ نماز سے باہر آ جاتا( یہ اس لئے کرتے تاکہ اللہ پاک کی بندگی بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق ہو، یعنی جس وقت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے نفل نہیں پڑھے، میں بھی نہیں پڑھنے دوں گا)۔ (شرح معانی الآثار، ص 213، ج 1)

میری انگلیاں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں جیسی نہیں:

صحابہ کرام حدیث مبارکہ بیان کرتے وقت وہی انداز و کیفیت کو بھی اپنا تے جو حدیث بیان کرتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنائی ہوتی اور ادب کو خاص طورپر ملحوظِ خاطر رکھتے، حضرت براءبن عازب رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا: کن جانوروں کی قربانی جائز نہیں؟آپ لوگوں کے درمیان کھڑے ہوگئے اور فرمایا: حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ مسئلہ بتاتے ہوئے ہمارے درمیان کھڑے ہو گئے، پھر آپ رضی اللہ عنہ نے ہاتھ بلند کیا اور چار انگلیوں سے اشارہ کر کے بتایا کہ ان کی قربانی جائز نہیں، کہا: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسے ہی ہاتھ بلند کر کے چار انگلیوں سے بتایا تھا ، پھر خیال آیا کہ کہیں میری اِن انگلیوں کو کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں جیسا نہ سمجھ لے، فوراً فرمایا: میری انگلیاں ایسی نہیں ہیں، میری انگلیاں سرکار دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت چھوٹی ہیں۔

(عون المعبود، شرح سنن ابی داؤد، ج7 ، ص 357)

صدائے مدینہ لگاتے جان دے دی:

نماز فجر کے لیے اُٹھانا( صدائے مدینہ) بڑی پیاری سنتِ مبارکہ ہے، صحابہ کرام کا سنت پر عمل کا ایسا جذبہ تھا کہ اس سنت پر عمل کرتے کرتے دو عظیم صحابہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ جامِ شہادت نوش فرمایا، حضرت سیدنا نقیع بن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نمازِ فجر ادا کرنے کے لیے نکلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوئے ہوئے جس شخص پر بھی گزرتے اُسے نماز کے لیے آواز دیتے یا پاؤں مبار کہ سے ہلا تے، اس سنت پر عمل کرتے ہوئے حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ جب بھی اپنے گھر سے نکلتے تو صدائے مدینہ لگاتے ہوئے راستے میں لوگوں کو جگاتے، ایک دن ابو لؤ لوْ راستے میں چھپا بیٹھا تھا کہ اُس نے موقع پا کر خنجر سے آپ رضی اللہ عنہ پر قاتلانہ حملہ کر دیا، جس سے آپ شدید زخمی ہوگئے اور بعد میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جامِ شہادت نوش فرما گئے ۔

اگر ہم بھی سنتِ مبارکہ کو اپنا لیں تو ہماری مساجد آباد ہو جائیں گی۔(رسالہ صدائے مدینہ)

ان چند واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام کس طرح دیوانہ وار سُنتوں پر عمل فرماتے اور اپنی زندگیوں کو سنت ِمبارکہ پر قربان تک کر دیتے، کہ انہی راہوں پر چل کر ہمیں کامیابی نصیب ہوسکتی ہے۔

اللہ پاک ہمیں اپنی زندگی سنتِ مبارکہ کے مطابق گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم


پرودگارِ عالم کا احسانِ عظیم ہے ہم پر کہ :"اس      نےنبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارے لیے بشیرو نذیر بنا کر بھیجا، ہدایت کے روشن چراغ بے نظیر وبے مثال آقا صلی اللہ علیہ وسلم کہ آپ کی حیات طیبہ کا ایک ایک ورق، ایک ایک حرف ہماری زندگی کہ تمام اُمور میں رہنمائی کا پیکر ہے۔

عرب کے رہنے والے کہ جو حلال وحرام، خیر و شر میں کچھ فرق نہ جانتےتھے وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کر کے اس مقام پہ جا پہنچےکہ ان کی اطاعت ہم پر لازم ٹھہری ، اہلِ عرب نے اطاعتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کےسبب پوری دنیا پہ حکمرانی کی، یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری ہی کا نتیجہ ہے کہ ان حضرات کی زندگیاں آنے والے لوگوں کے لئے مشعلِ راہ ہوئیں، قرانِ کریم میں ان حضرات کی تعریف اور ان کے لیے بشارتیں اُتریں، اصل میں سنت پر عمل قران کریم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ قران کریم کی عملی تفسیر ہے، قرآن کریم میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:

مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ- (سورة نساء،آیت 80)

ترجمہ: جس نے رسول اللہ کی اطاعت کی بے شک اس نے اللہ کی اطاعت کی۔

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ترجمہ:بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے۔

قرآن کریم کی آیاتِ مبارکہ پر عمل کرتے ہوے صحابہ و صحابیات رضی اللہ عنہم کی زندگیاں حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کی بے نظیر تفسیر ہیں، ان تمام ہستیوں نے اپنے آپ کو مکمل سنت کے سانچے میں ڈھال دیا تھا، لباس، کلام، کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا، عادات ومعاملات، اخلاق و تہذیب الغرض ہر ہر چیز میں یہ دیکھتے کہ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا اس میں کیا عمل و طریقہ ہے، پھر وہ عمل اسی انداز سے انجام دیتے تھے، یہ تو زندگی کی عادات ومعاملات کی بات ہے، یہ بزرگ ہستیاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو انتہائی محبت و عقیدت سے انجام دیتے تھے۔

امیرالمومنین خلیفہ اوّل حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتےہیں:"ہرگز میں ایسا کام نہیں چھوڑ سکتا جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہو، میں ڈرتا ہوں کہ اگر کوئی سنت چھوڑ دوں گا تو بھٹک جاؤں گا۔"

امیر المؤمنین حضرت عمرِ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے حجرِاَسود کو مخاطب کر کےفرمایا:" کہ میں جانتا ہوں کہ تو پتھر ہے، نہ نفع دے سکتا ہے نہ نقصان، اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں بوسہ نہ دیا ہوتا تو میں تمہیں کبھی بوسہ نہ دیتا۔(البخاری 1610)

امیرالمومنین خلیفہ ثالث حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ ایک بار وُضو کرنے کے بعد مسکرائے اور فرمایا:" کہ ایک بارحضور صلی اللہ علیہ وسلم وُضو کرنے کہ بعد مسکرائے تھے ۔"

امیرالمومنین خلیفہ چہارم سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:" کہ اگر دین عقل کے تابع ہوتا توہم موزوں کے باطن پرمسح کرتے مگر ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ظاہر پر مسح کرتے دیکھا ہے۔(مسند احمد 242)

حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر عمل کیا کرتے تھے، سفر میں بلا ضرورت لیٹ جاتے، بغیر ضرورت کے رفعِ حاجت کے لیے بیٹھ جاتے، پوچھنے پر جواب دیتے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔

(مسند احمد 9/191)

حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کے متعلق بھی آتا ہے کے یہ سب سے زیادہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مشابہت اختیار فرماتے تھے، حتی کہ گھر کے معاملات معلوم کرنے کے لیے اپنی والدہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم گھر بھیجا کرتے تھے۔(الا بالہ328)

محبوبۂ محبوبِ ربِّ کائنات ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: کہ میں نے چال ڈھال، شکل و صورت، اندازِ گفتگو اور اٹھنے بیٹھنے کے انداز میں شہزادی نبی، جگر پارہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم و رضی اللہ تعالی عنہا سے بڑھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت رکھنے والا کسی کو نہ پایا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا قول مبارکہ :"جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہو گا۔"کے مطابق تمام صحابہ و صحابیات جنتی ہیں کہ ان سے بڑھ کر اتباعِ سنت صلی اللہ علیہ وسلم کرنے والا نہ آ یا ہے نہ آئے گا، رب تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اتباع ِسنتِ صحابہ صحابیات اور حق پہ قائم رہنے کا شرف بخشے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ہوں گے جو حضور کی سنت کا نگہبان

ان لوگوں کو ہم ملک کا سردار کریں گے

جس راہ سے گزریں سنت ِنبوی کے فدائی

اس راہ کے ہر ذرّے ہم بیدار کریں گے


اللّٰه ربُّ العزت ارشاد فرماتا ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱) تَرجَمۂ کنز الایمان:اے محبوب تم فرمادو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمان بردار ہوجاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے ( پارہ 3 سورہ آل عمران 31)

یہی وجہ ہے کہ اللّٰه عزوجل کی رضامندی کا مژدہ پانے والے، آسمانِ اُمت کے چمکتے ہوئے ستارے، رسول اللّٰه صلی اللّٰه تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے براہ راست فیضیاب ہونے والے صحابہ کرام رضوان اللّٰه تعالٰی علیہم اجمعین سرکارِ دو عالم صلی اللّٰه تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے سنتوں پر عمل کرنے کے جذبے سے سرشار ہوا کرتے تھے. ملاحظہ فرمائیے :

(1) اِتباعِ سنت نصیب ہو جائے: امیر المومنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰه عنہ نے اپنی وفات سے صرف چند گھنٹے پہلے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰه عنہا سے دریافت کیا کہ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم کے کفن مبارک میں کتنے کپڑے تھے اور آپ صلی اللّٰه علیہ وسلم کی وفات کس دن ہوئی؟ اس سوال کی وجہ یہ تھی کہ آپ رضی اللّٰه عنہ کی یہ انتہائی تمنا تھی کہ زندگی کے ہر لمحات میں تو میں نے اپنے تمام معاملات میں حضور اکرم صلی اللّٰه علیہ وسلم کی مبارک سنتوں کی مکمل طور پر اِتباع کی ہے مرنے کے بعد کفن اور وفات کے دن میں بھی مجھے آپ کی اِتباعِ سنت نصیب ہو جائے۔

( سیرتِ مصطفی صلی اللّٰه تعالٰی علیہ وآلہ وسلم، صفحہ 828، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

سنت پر ہی چلتا ہوا ان کے پاس پہنچوں گا:

حضرت عمر فاروق رضی اللّٰه عنہ نے (اپنی شہزادی حضرت حفصہ رضی اللّٰه عنہا سے) فرمایا: اے بیٹی! حضور پُر نُور صلی اللّٰه علیہ وسلم کی حیات طیبہ کیسی تھی؟ انھوں نے کہا: " خدا کی قسم! ایک ایک ماہ گھر میں نہ دِیا جلتا اور نہ ہی ہنڈیا پکتی تھی ، سید عالم نورِ مُجَسَّم صلی اللّٰه علی وسلم کے پاس ایک جُبَّہ ہوتا تھا جسے آپ اوڑھنا اور بچھونا بنا لیتے۔

حضرت عمر فاروق رضی اللّٰه عنہ نے فرمایا: " یہ بتاؤ نبی کریم صلی اللّٰه علیہ وسلم کے ساتھ خلیفۂ رسول اللّٰه حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰه عنہ کی زندگی کیسی تھی؟ انھوں نے کہا: وہ بھی ویسی ہی تھی۔ تو سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللّٰه تعالٰی عنہ نے ارشاد فرمایا: اُن تین دوستوں کے متعلق تمھارا کیا خیال ہے، جن میں سے دو دنیا میں ایک ہی طریقے پر چلتے ہوئے دنیا سے تشریف لے گئے اور تیسرا اُن کی مخالفت میں چلے،کیا وہ اُن سے جا ملے گا؟ انھوں نے کہا: "ہر گز نہیں" آپ رضی اللّٰه عنہ نے فرمایا: "وہ تیسرا ساتھی میں ہوں، میں اُن کی سنت پر ہی چلتا ہوا اُن کے پاس پہنچوں گا" (فیضانِ فاروق اعظم، جلد 1، صفحہ 351-350، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

موضوع بہت وسیع ہے لیکن صفحے کے دامن میں اتنی گنجائش نہیں کہ اس موضوع کو احسن اور کامل طریقے سے بیان کیا جائے ، اللّٰه عزوجل ان نُفُوسِ قُدسیہ کے سنتوں پر عمل کرنے کے جذبے سے چند قطرے ہمیں بھی عطا فرمائے۔

مِرے اَخلاق اچھے ہوں مِرے سب کام اچھے ہوں

بنادو مجھ کو تم پابندِ سنت یا رسولَ اللّٰه

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم 


صحابہ کرام علیهم الرِّضوان کے سُنَّت پر عمل کے جذبے کے تو کیا کہنے کہ یہ تو وہ مبارک ہستیاں ہیں جن کے اتباعِ سنت کے واقعات پڑھ اور سن کر مسلمانوں کے دل عشقِ رسول و عشقِ سنت سے لبریز ہو جاتے ہیں اور سرورِ دوعالم صلّی اللّٰه علیه و سلَّم کی سنتوں پر عمل کا جذبہ پروان چڑھتا ہے.یہ حضرات اتباع سنت کے ایسے دیوانہ وار عاشق تھے کہ زندگی کے ہر ایک معاملے میں ان کی کوشش یہ ہی ہوتی کہ کچھ بھی ہو جائے لیکن سنت نہ چھوٹے۔

اپنے دلوں میں عشقِ رسول ،عشقِ سنت اور عشقِ صحابہ کی شمع روشن کرنے کے لیےصحابہ کرام علیهم الرِّضوان کے سنت پر عمل کرنے کے چند سبق آموز واقعات پڑھ لیجیے ان شاءاللّٰه ایمان تازہ ہو جائے گا اور حضور صلی اللّٰه علیه و سلَّم کی سنتوں پر عمل کا ذہن بھی ملے گا۔

امیر المؤمنین حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضي اللّٰه عنه کا سنت پر عمل کا جذبہ :

حضرت صدیق اکبر نے اپنی وفات سے چند گھنٹے پیشتر اپنی صاحبزادی حضرت عائشہ صدیقہ رضي اللّٰه عنها سے دریافت کیا کہ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه و سلم کے کفن میں کتنے کپڑے تھے حضور صلی اللّٰه علیه و سلَّم کی وفات شریف کس دن ہوئی ؟ اس سوال کی وجہ یہ تھی کہ آپ رضي اللّٰه عنه کی آرزو تھی کہ کفن و یومِ وفات میں حضور صلّي اللّٰه علیہ و سلَّم کی موافقت ہو.

امیر المؤمنین حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللّٰه عنہ کا سنت پر عمل كا جذبہ:

حضرت سیدنا عثمان غنی رضي اللّٰه عنه ایک بار وضو کرتے ہوئے مسکرانے لگے! لوگوں نے وجہ پوچھی تو فرمانے لگے :میں نے ایک مرتبہ سرکار نامدار صلي اللّٰه علیه و سلّم کو اسی جگہ پر وضو فرمانے کے بعد مسکراتے ہوئے دیکھا تھا۔(کرامات عثمان غنی : 8)

وضو کر کے خَنْدَاں ہوئے شاہِ عثمان

کہا! کیوں تَبَسُّمْ بھلا کر رہا ہوں؟

جوابِ سوالِ مخاطَب دیا پھر

کسی کی ادا کو ادا کر رہا ہوں

جنَّتی صحابی حضرت سیدنا امیرِ معاویہ رضي اللّٰه عنہ کا سنت پر عمل کا جذبہ:

حضرت سیدنا امیرِ معاویہ رضي اللّٰه عنه جب اپنے زمانہ خلافت میں حج یا عمرہ کے لیے تشریف لائے اور مدینہ منورہ حاضری ہوئی تو آپ بھی اتباع سنت کے جذبے سے شہدائے اُحُدْ کی قبور پر تشریف لے گئے کیوں کہ نبئ کریم صلی اللّٰه علیه و سلَّم حضرت سیدنا صدّیقِ اکبر, حضرت سیدنا فاروقِ اعظم اور سیدنا عثمانِ غنی رضي اللّٰه عنهم اجمعین کا سال میں ایک مرتبہ شہدائے اُحُد کے مزارات پر جانے کا معمول تھا۔ (فیضان امیر معاویہ : 52)

حضرت سیدنا عبداللّٰه بن عمرو رضي اللّٰه عنه کا سنت پر عمل:

حضرت سیدنا عمرو بن شعیب رحمۃ اللّٰه علیه کے والد فرماتے ہیں: میں نے حضرت سیدنا عبداللّٰه بن عمرو رضي اللّٰه عنهما کے ساتھ بیت اللّٰه شریف کا طواف کیا، جب ہم کعبہ مبارکہ کی پچھلی جانب آئے تو میں نے ان سے دریافت کیا :"کیا آپ تَعَوُّذْ نہیں پڑھتے؟" انہوں نے فرمایا:"میں دوزخ کی آگ سے اللّٰه عزَّوَجَلَّ کی پناه مانگتا ہوں. " پھر آگے چل دیے,حجرِ اسود کا بوسہ لیا پھر اس کے اور بابِ کعبہ کے درمیان کھڑے ہو کر سینہ اور چہرہ اس پر رکھا اور کلائیاں بچھا دیں پھر فرمایا:"میں نے رسول اللّٰه صلَّی اللّٰه علیه و سلَّم کو اس طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔

(اللہ والوں کی باتیں ،جلد 1 ص 507 )


صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سرکارِ خیرُالانام صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ہر ہر ادا اور ہر ہر سُنَّت کو دیوانہ وار اپناتے تھے کیونکہ پیارے آقا علیہ الصلوة السلام کی محبت انکے دلوں میں کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی تھی اسی لئے وہ نبی علیہ السلام کی سنتوں کی اتباع میں سب سے بڑھ کر رہتے تھے اور ہر شعبہِ زندگی میں نبی علیہ السلام کی سنتوں پہ چل کر اپنی زندگی بسر کرتے تھے اور وہ وقتا فوقتاً ان پہ عمل پیرا ہو کر اپنے متعلقین کو اس بارے میں بتاتے بھی تھے جیسا کہ

ایک مرتبہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کو خطاب کر کے فرمایا ”بخدا مجھے خوب معلوم ہے کہ تو صرف ایک پتھر ہے جو نہ کوئی نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان اور اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے نہ دیکھا ہوتا تو میں کبھی بوسہ نہ دیتا۔“ اس کے بعد آپ نے بوسہ دیا۔ پھر فرمایا ”اور اب ہمیں رمل ( طواف کے پہلے تین چکروں میں سینہ تان کے چلنا) کی بھی کیا ضرورت ہے کہ ہم نے اس کے ذریعہ مشرکوں کو اپنی قوت دکھائی تھی تو اللہ نے ان کو تباہ کر دیا۔“ پھر فرمایا ”جو عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے اسے اب چھوڑنا بھی ہم پسند نہیں کرتے۔“ (صحیح بخاری باب الرمل فی الحج والعمرہ ج 3 ص 422 ح 1618)

اسی طرح ایک مرتبہ حضرتِ سیِّدُنا عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایک مقام پر پہنچ کر پانی منگوایا اور وضو کیا پھریَکایک مُسکرائے اور اپنے ساتھیوں سے فرمانے لگے: جانتے ہو میں کیوں مسکرایا ؟پھرخود ہی اِس سُوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:

میں نے دیکھا سرکارِ نامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے وُضو فرمایا تھا اور بعدِ فراغت مسکرائے تھے اورصَحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سے فرمایا تھا :جانتے ہو میں کیوں مسکرایا ؟پھر میٹھے میٹھے مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خود ہی فرمایا: ’’جب آدمی وُضو کرتا ہے توچہرہ دھونے سے چہرے کے اور ہاتھ دھونے سے ہاتھوں کے او ر سر کا مَسح کرنے سے سر کے اور پاؤں دھونے سے پاؤں کے گناہ جھڑ جاتے ہیں ۔‘‘

(مُسندِ اِمام احمد بن حنبل ج 1 ص 474 ح 415 )

اسی طرح ایک مرتبہ حضرت علی مولا مشکل کشا رضی اللہ عنہ کے پاس ایک سواری لائی گئی تاکہ اس پر سوار ہوں، جب آپ نے اپنا پاؤں رکاب میں رکھا تو «بسم الله» کہا، پھر جب اس کی پشت پر ٹھیک سے بیٹھ گئے تو «الحمد الله» کہا، اور«سبحان الذي سخر لنا هذا وما كنا له مقرنين وإنا إلى ربنا لمنقلبون» کہا، پھر تین مرتبہ «الحمد الله» کہا، پھر تین مرتبہ«الله اكبر» کہا، پھر «سبحانك إني ظلمت نفسي فاغفر لي فإنه لا يغفر الذنوب إلا أنت» کہا، پھر آپ مسکرا دئیے، پوچھا گیا: امیر المؤمنین! آپ کیوں مسکرا رہے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے ایسے ہی کیا جیسے کہ میں نے کیا پھر آپ صلی الله عليه وسلم بھی مسکرا دئیے تو میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ کیوں مسکرا رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرا رب اپنے بندے سے خوش ہوتا ہے جب وہ کہتا ہے: میرے گناہوں کو بخش دے وہ جانتا ہے کہ گناہوں کو میرے علاوہ کوئی نہیں بخش سکتا ہے ۔

( ابو داؤد کتاب الجہاد باب ما یقول الرجل اذا رکب جلد 5 ص 430 ح 2590 )

ان روایات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان پیارے آقا صلی الله عليه وسلم کی سنتوں سے کتنی زیادہ محبت فرماتے تھے اسی طرح ہمیں بھی اپنی زندگی میں نبی علیہ السلام کی سنتوں پر عمل کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے تاکہ ہماری دینا اور آخرت دونوں سنوار جائیں ۔

یا مصطفی گناہوں کی عادتیں نکالو

جذبہ مجھے عطا ہو سنت کی پیروی کا

اللہ عزوجل ہمیں بھی پیارے آقا علیہ الصلوة والسلام کی سنتوں کا عامل بنائے

امین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


کسی کی اطاعت و فرمانبرداری پر ابھارنے والی چیز اس شخصیت سے الفت و محبت ہوتی ہے، اور یہی چیز (الفت و محبت) صحابہ کرام میں کامل طور پر پائی جاتی تھی جس کی وجہ سے وہ اللّٰہ کے آخری نبی (صلی اللّٰہ علیہ وسلم) کی ہر ہر سنت پر دیوانہ وار عمل کرتے، اور اتباع سنت کے جذبے سے اس قدر سرشار رہتے تھے کہ جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔

آئیں! درج ذیل روایات و واقعات میں صحابہ کرام کے اسی سنت پر عمل کے جذبے کو ملاحظہ کرتے ہیں۔

حضرتِ عمر کا اتباع ِسنت کا جذبہ: مروی ہے حضرتِ عمر نے ذو الحلیفہ (مقام) میں دو رکعتیں پڑھیں تب فرمایا کہ میں نے ویسا ہی کیا کہ جیسا میں نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمکو کرتے دیکھا۔ (صحیح مسلم، 2 /981)۔

حضرت عثمان کا اتباع سنت کا جذبہ:

حضرت عثمان نے ایک مقام پر پہنچ کر پانی منگوایا اور وضو فرمایاپھر یکا یک مسکرانے اور رُفقاء سے فرمانے لگے، جانتے ہو میں کیوں مسکرایا؟ پھر اس سوال کا خود ہی جواب دیتے ہوئے فرمایا: ایک بار حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے اسی جگہ پر وضو فرمایا تھا اور مسکرائے تھے اور صحابہ سے فرمایا تھا، جانتے ہو میں کیوں مسکرایا؟ (لہذا میں نے بھی حضور کی ادا کو ادا کیا)۔

(ملخّصاً مسند امام احمد، ج1، ص130)

وضو کر کے خنداں ہوئے شاہِ عثماں

کہاکیوں تبسُّم بھلا کر رہا ہوں

جوابِ سوالِ مخالف دیا پھر

کسی کی ادا کو ادا کر رہا ہوں

حضرتِ علی کا اتباع سنت کا جذبہ:

مروی ہے کہ جب حضرتِ علی نے (حج کے موقع پر) قِران کیا تو آپ سے حضرتِ عثمان نے فرمایا: آپ جانتے ہیں کہ میں لوگوں کو اس سے منع کرتا ہوں اور آپ اس کو کر رہے ہیں، تو حضرتِ علی نے جواب میں فرمایا کہ میں یہ کس طرح کر سکتا ہوں کہ کسی کے کہنے سے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنت چھوڑ دوں۔ (صحیح بخاری، 3 /920)۔

حضرتِ عبداللہ بن عمر کا اتباع سنت کا جذبہ:

ایک شخص نے حضرتِ عبداللہ بن عمر سے دریافت کیا کہ ہم قرآن میں صلوٰۃِ خوف و حضر تو پاتے ہیں مگر صلوٰۃِ سفر نہیں پاتے، تو حضرتِ عبداللہ بن عمر نے فرمایا: (اس سے زیادہ) ہم کچھ نہیں جانتے کہ ہم وہی کرتے ہیں جیسا ہم نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو کرتے دیکھا۔

(سنن ابن ماجہ 1/ 339)

اللّٰہ پاک ان مقدس ہستیوں (جن کو اللّٰہ نے اپنے محبوب کی صحبت کیلئے منتخب فرمایا) کے صدقے ہمیں بھی اتباع سنت کا جذبہ عطا فرمائے۔


یقیناً کامیاب و کامران وہی ہے کہ جوفرائض وواجبات کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ نبیٔ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنّتوں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لے کیونکہ فلاحِ دارین کا جو وظیفہ سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی امت کو خاص طور پر عطا فرمایا وہ یہ ہے کہ فتنوں کے زمانے میں سنّت کو مضبوطی سے تھام لیں چنانچہ

سنت کو مضبوطی سے تھام لو:

حضرت سیّدنا عِرباض بن سارِیہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : میرے بعد تم میں سے جو زندہ رہے گا وہ امت میں کثیر اختلافات دیکھے گا ایسے حالات میں تم پر لازم ہے کہ میری سنّت اور خلفاء راشدین کے طریقے کو مضبوطی سے تھام لو ۔

(ابوداؤد، کتاب السنۃ ، باب فی لزوم السنۃ، ۴/۲۶۷، حدیث:۴۶۰۷، ملتقطًا، دار احیاء التراث العربی بیروت 1426ھ)

سو شہیدوں کا ثواب:

حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : ''مَنْ تَمَسَّکَ بِسُنَّتِیْ عِنْدَ فَسَادِ اُمَّتِیْ فَلَہٗ اَجْرُ مِأَۃِ شَہِیْدٍ "یعنی فسادِ امت کے وقت جو شخص میری سنت پر عمل کریگا اسے سو شہیدوں کا ثواب عطا ہوگا ۔''(کتاب الزھد الکبیرللامام البیہقی،الحدیث۲۰۷،ج۱ ، ص۱۱۸ ،مؤسسۃ الکتب الثقافیۃ بیروت)

اللہ تبارک و تعالٰی نے اپنی محبت کے حصول کے لئے اپنے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اتباع کو لازمی قرار دیا ہے۔ چنانچہ اللہ ﷯ سورہ اٰل عمران کی آیت 31 میں ارشاد فرماتا ہے:

اتباع و اطاعتِ مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم :

قُلْ اِنۡ کُنۡتُمْ تُحِبُّوۡنَ اللہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحْبِبْکُمُ اللہُ وَ یَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوۡبَکُمْؕ وَاللہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿ اٰل عمران۳۱ترجمہ کنزالایمان: اے محبوب تم فرمادو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہوجاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

ایک اور مقام پر ارشادِ خدا وندی ہے: قُلْ اَطِیۡعُوا اللہَ وَالرَّسُوۡلَۚ فَاِنۡ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ الْکٰفِرِیۡنَ﴿۳۲ اٰل عمران﴾

ترجمۂ کنزالایمان: تم فرمادو کہ حکم مانو اللہ اور رسول کاپھر اگر وہ منہ پھیریں تو اللہ کو خوش نہیں آتے کافر۔

ان مذکورہ آیات میں اللہ تبارک و تعالٰی نے اپنی محبت کے حصول کے لئے اپنے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اتباع کو لازمی قرار دیا ہے ۔ اور اللہ نے اپنی اطاعت کے ساتھ ساتھ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت کا بھی حکم ارشاد فرمایا ہے۔اتباع ، اطاعت سے آگے کا درجہ ہے کیوں کہ اطاعت کے معنی ہیں حکم ماننا ،حکم کی تعمیل کرنا، اور اتباع کے معنی ہیں پیروی کرنا یعنی پیچھے چلنا۔

اطاعت میں فرائض و واجبات شامل ہوتے ہیں جبکہ اتباع میں فرائض و واجبات کے ساتھ ساتھ نوافل و مستحبات بھی شامل ہوتے ہیں بعض حالات میں اطاعت ظاہری و رسمی بھی ہو سکتی ہے لیکن اتباع میں ظاہر و باطن دونوں برابر ہو جاتے ہیں ۔اطاعت میں حکم دینے والے کی عظمت پیشِ نظر ہوتی ہے جبکہ اتباع میں جس کی پیروی کی جائے اس کی عقیدت اور محبت کا جذبہ غالب ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت کے ساتھ ساتھ اتباع بھی کرتے تھے اسی وجہ سے صحا بہ کرام رضی اللہ عنہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی کسی سنت کو ترک نہیں کیا کرتے تھے۔ لہذا اسی مناسبت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا سنت ِ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر عمل کا کیسا جذبہ ہوا کرتا تھا اس بارے میں چند واقعات ملاحظہ فرمائیں!صحابۂ کرام میں حضور انورﷺکی سنت پر عمل کے جذبے کا اندازہ ان واقعات سے لگایا جاسکتا ہے :

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اورحجرِ اسود کا بوسہ:

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حجرِ اسود کے پاس آئے اور اسے بوسہ دے کر فرمایا ’’خدا کی قسم! میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے،نہ نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان۔ اگر میں نے نبی کریم ﷺ کو تجھے بوسہ دیتے نہ دیکھا ہوتا تو تجھے میں ہر گز بوسہ نہ دیتا۔ (مسلم، کتاب الحج، باب استحباب تقبیل الحجر الاسود فی الطواف، ص۶۶۲، الحدیث: ۲۵۱)

اور سنن نسائی کی روایت میں ہے کہ اس کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے حجرِ اسود کو بوسہ دیا۔ (نسائی، کتاب مناسک الحج، تقبیل الحجر، ص۴۷۸، الحدیث: ۲۹۳۴)

حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کا بعدِ وضومسکرانا:

حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ نے ایک بار پانی منگوایا اور وضو کیا، پھر آپ مسکرانے لگے اور ساتھیوں سے فرمایا ’’ کیاتم مجھ سے اس چیز کے بارے میں پوچھو گے نہیں جس نے مجھے مسکرایا؟ انہوں نے عرض کی: اے امیرُ المؤمنین! رضی اللہ عنہ آپ کس چیز کی وجہ سے مسکرائے تھے؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’ایک بارحضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ا س جگہ کے قریب ہی وضو فرمایا تھا اور فراغت کے بعد مسکرائے تھے اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا ’’کیاتم مجھ سے پوچھو گے نہیں کہ کس چیز نے مجھے مسکرایا؟ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ، کس چیز نے آپ کو مسکرایا؟ تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ’’بندہ جب وضو کا پانی منگوائے پھر اپنا چہرہ دھوئے تو اللہ تعالی اس کے چہرے کے گناہ مٹا دیتا ہے،پھر اپنی کہنیاں دھوئے تو کہنیوں کے ،سر کا مسح کرے تو سر کے اور اپنے قدموں کو دھوئے تو قدموں کے گناہ مٹا دیتا ہے۔ (تو میں نے انہی کی ادا کو اداء کیا ہے۔)

(مسند امام احمد، مسند عثمان بن عفان، ۱/۱۳۰، الحدیث: ۴۱۵)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور ایک اونٹنی:

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ایک جگہ اپنی اونٹنی کو چکر لگوا رہے تھے ۔لوگوں نے ان سے اس کا سبب پوچھا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا’’ میں (اس کی حکمت) نہیں جانتا، مگر اس جگہ میں نے تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ایسا کرتے دیکھا تھا اس لئے میں بھی ایساکر رہا ہوں۔

(شفا شریف، الباب الاول: فرض الایمان بہ، فصل واما ماورد عن السلف فی اتباعہ، ص۱۵، الجزء الثانی)

حضرت سیّدنا اَنَس بن مالک رضی اللہ عنہ کا سنّت سے محبت :

حضرت سیّدنا اَنَس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : مجھ سے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :اے میرے بیٹے !اگر تو یہ کرسکتا ہے کہ اس حال میں صبح و شام کرے کہ تیرے دل میں کسی کی بد خواہی (کینہ) نہ ہو تو ایسا ہی کر۔ پھر فرمایا: اے میرے بیٹے ! یہ میری سنّت ہے اورجو میری سنّت سے محبت کرے گاوہ جنت میں میرے ساتھ ہو گا۔ (مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الایمان، باب الاعتصام بالکتاب و السنۃ، الفصل الثانی، ۱/۵۵، حدیث: ۱۷۵ دار الکتب العلمیہ بیروت 1421ھ)

جامع الترمذی میں ہے کہ :

حضرت سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : ''مَنْ اَحَبَ سُنَّتِیْ فَقَدْ اَحَبَّنِیْ وَمَنْ اَحَبَّنِیْ کَانَ مَعِیَ فِی الْجَنَّۃِ یعنی جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا ۔

(جامع الترمذی،کتاب العلم،الحدیث:۲۶۸۷،ج ۴، ص ۳۰۹ ،مطبوعہ دارالفکربیروت)

حضرت سیّدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ بات کرتے وقت مسکرایا کرتے :

حضرت سیّدتنا اُمِّ درداء رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ حضرت سیّدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ جب بھی بات کرتے تو مسکراتے ۔ آپ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں : میں نے سیّدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ سے عرض کی آپ رضی اللہ عنہ اس عادت کو ترک فرما دیجئے ورنہ لوگ آپ کو احمق سمجھنے لگیں گے۔ تو حضرت سیّدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’میں نے جب بھی رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بات کرتے دیکھا یا سنا آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مسکراتے تھے۔‘‘ (یعنی میں بھی اسی سنّت پر عمل کی نیت سے ایسا کرتا ہوں )۔

(مسند احمد،مسند الانصار، ۸/۱۷۱، حدیث: ۲۱۷۹۱ دار الفکر بیروت 1414ھ)

سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پسند اپنی پسند:

حضرت سیّدنا اَنَس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک درزی نے رسول اللہ رضی اللہ عنہ کی دعوت کی ، (حضرت سیّدنا اَنَس رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :)آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ میں بھی دعوت میں شریک ہو گیا، درزی نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے روٹی ، کدّو (لوکی شریف) اور گوشت کا سالن رکھا ۔میں نے دیکھا نبیٔ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم برتن سے کدّو شریف تلاش کر کے تناول فرمارہے ہیں (اس کے بعدآپ رضی اللہ عنہ اپنا عمل بتاتے ہوئے فرماتے ہیں )

فَلَمْ اَزَلْ اُ حِبُّ الدُّبَّاءَ مِنْ یَوْمَئِذٍ یعنی اس دن کے بعد میں کدّو شریف کو پسند کرتا ہوں۔

(بخاری، کتاب البیوع ،باب ذکر الخیاط،۲/۱۷، حدیث: ۲۰۹۲ دار الکتب العلمیہ بیروت 1419ھ)

مسلم شریف کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ حضرت سیّدنا ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :میں نے حضرت سیّدنا اَنَس رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سُنا: فَمَا صُنِعَ لِیْ طَعَامٌ بَعْد اَقدِرُ عَلٰی اَنْ یُصْنَعَ فِیہِ دُبَّاءٌ اِ لَّا صُنِعَ اس کے بعد اگر کدّو شریف دستیاب ہوجاتا تو میرے کھانے میں وہ ضرور شامل ہوتا ۔

(مسلم، کتاب الاشربہ، باب جواز اکل المرق الخ، ص۱۱۲۹، حدیث:۲۰۴۱ دار الغنی عرب شریف 1419ھ)

حضرت حافظ ابوشیخ عبد اللہ بن محمد اَصبَہانی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت سیّدنا اَنَس بن مالک رضی اللہ عنہ کے یہ الفاظ نقل کیے ہیں۔ فَاَنَا اُ حِبُّ القَرْعَ لِحُبِّ رَسُوْلِ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اِیَّاہیعنی میں کدّو شریف کو صرف اس لیے پسند کرتا ہوں کہ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اسے پسند فرمایا ہے۔

(اخلاق النبی و آدابہ ، ذکر اکلہ للقرع ومحبتہ لہ صلی اللہ علیہ وسلم، ص ۱۲۵، حدیث:۶۳۱ دارالکتاب العربی بیروت 1428ھ)

ترمذی شریف میں یہ الفاظ بھی ہیں حضرت سیّدنا اَنَس رضی اللہ عنہ کدّو شریف تناول فرماتے ہوئے فرما رہے تھے۔ یَا لَکَ شَجَرَۃً مَا اُحِبُّکِ اِلّا لِحُبِّ رَسُوْلِ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اِیَّاکَیعنی میرا تیرے ساتھ کیا تعلق ؟ میں تجھے صرف اس لئے محبوب رکھتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ بھی تجھ سے محبت فرماتے ہیں۔

(ترمذی ، کتاب الاطعمۃ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، باب ما جاء فی اکل الدباء ، ۳/۳۳۶، حدیث:۱۸۵۶ دارالمعرفہ بیروت 1414ھ)

کسی کی ادا کو ادا کررہا ہوں:

حضرت سیّدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ مکۃ المکرمہ جاتے ہوئے ایک جھڑبیریا کی شاخوں میں اپنا عمامہ شریف اُلجھا کر کچھ آگے بڑھ جاتے پھر واپس ہوتے اور عمامہ شریف چھڑا کر آگے بڑھتے ۔لوگو ں نے پوچھا یہ کیا ؟ ارشاد فرمایا کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا عمامہ شریف اس بیرمیں اُلجھ گیا تھا اور حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اتنی دور آگے بڑھ گئے تھے اور واپس ہو کر اپنا عمامہ شریف چھڑایا تھا۔

(نورالایمان بزیارۃآثار حبیب الرّحمٰن ،ص۱۵ برکات المدینہ باب المدینہ کراچی)

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنّتوں سے کس قدر محبت کیا کرتے اورانہیں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنّتوں پر عمل کا کیسا جذبہ ہوا کرتا تھا۔ کاش ہم بھی سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پیاری پیاری سنّتوں کو اپنانے والے بن جائیں۔ پانی پئیں تو سنّت کے مطابق ، کھانا کھائیں تو سنّت کے مطابق ، زُلفیں بڑھائیں تو سنّت کے مطابق، عمامہ شریف سجائیں تو سنّت کے مطابق، لبا س تبدیل کریں تو سنّت کے مطابق، کلام کریں تو سنّت کے مطابق، سواری پر سوار ہوں تو سنّت کے مطابق،الغرض ہم سنّتوں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیں۔


محبوب کا خوش دِلی سے ہر حکم ماننا اور ہر قسم کے ذاتی مفادات سے بے فکر ہو کر ہر حال میں اس پر عمل کرنا مَحَبَّت کا بنیادی تقاضا ہے۔ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی عملی مَحَبَّت کا جائزہ لیا جائے تو ماننا پڑے گا کہ اطاعت و فرمانبرداری کی ایسی مثالیں تاریخ میں کہیں اور نہیں ملتیں جن کا مظاہرہ صحابہ ٔکرام رضی اللہ عنہمنے اللہ پاک کے آخری رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت کی صورت میں کیا۔ ایسی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:

حضرت سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھے تین چیزوں کی وصیت فرمائی جنہیں میں کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھے ہر مہینے تین روزے رکھنے، چاشت کی نماز پڑھنے اور سونے سے پہلے وتر کی نماز پڑھ لینے کا حکم دیا۔ (بخاری،1/397، حدیث:1178)

حضرت سیّدنا عبدُاللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ایک جگہ اپنی اونٹنی گھما رہے تھے، اس پر ان سے پوچھا گیا (کہ یہ بلا ضرورت مشقت کیوں؟) تو فرمایا میں خود اس کی وجہ نہیں جانتا مگر یہ کہ رسول ُاللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اسی طرح کرتے (اونٹنی گھماتے) دیکھا تھا۔ لہٰذا میں نے بھی یہ کام کیا۔(الشفاء،2/15)

حضرت سیّدنا رافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:” اگر تم حضرت

سیدنا عبدُاللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آثار (سنّتوں) کی اتّباع کرتے ہوئے دیکھتے تو تم کہہ اٹھتے کہ یہ آدمی مجنون ہے۔“ (معرفۃ الصحابۃ،3/187،رقم:4312)

حضرت سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم دو مینڈھوں کی قربانی فرمایا کرتے تھے اور میں بھی (آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اتباع میں) دو مینڈھوں کی قربانی کرتا ہوں۔(بخاری،3/573،حدیث:5553)

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہمکی زندگیوں سے ہمیں جہاں بہت کچھ سیکھنے کو ملتا وہاں یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ وہ سنّتوں پر عمل پیرا ہونے میں کس قدر کوشاں تھے۔ ہمیں بھی اپنی زندگیوں کو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہمکے طرز ِعمل کے مطابق پیارےآقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنّتوں پر عمل کرتے ہوئے گزارنا چاہئے۔ سنّتوں پر عمل کا ذہن بنانے اور بے شُمار سنتیں سیکھنے کے لئے دعوتِ اسلامی کا مدنی ماحول نعمتِ عظمیٰ سے کم نہیں۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پیاری پیاری سنّتوں پر عمل کرنے کا جذبہ عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


سرور کائنات، فخر موجودات صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی سیرت مبارکہ اور سنت مقدسہ کی پیروی ہر مسلمان پر واجب اور لازم ہے۔

جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے:قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱) ترجمہ کنزالعرفان: اے حبیب! فرما دو کہ اے لوگو! اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبردار بن جاؤ اللہ تم سے محبت فرمائے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (آل عمرآن : 31 )

صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت مبارکہ پر عمل پیرا ہونے کو اپنی زندگی کا اولین مقصد بنایا ہوا تھا اور ان کے نزدیک تاجدار رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال، افعال اور احوال کی پیروی کرنے سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ چیز اور کوئی نہ تھی۔اسی بات کی مثالیں ملاحظہ فرمائیں:

1۔ امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی وفات سے صرف چند گھنٹے پہلے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے دریافت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کفن مبارک میں کتنے کپڑے تھے اور آپ کی وفات کس دن ہوئی؟

اس سوال کی وجہ یہ تھی کہ آپ کی انتہائی تمنا تھی کہ زندگی کے ہر ہر لمحے میں تو میں نے اپنے تمام معاملات میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سنتوں کی مکمل طور پر اتباع کی ہے ۔ مرنے کے بعد کفن اور وفات کے دن میں بھی مجھے آپ کی اتباع ِسنت نصیب ہو جائے۔

( بخاری ،جلد، 1 ص 187 ،باب موت يوم الاثنين)

الله! الله! یہ شوق اتباع! کیوں نہ ہو! صدیق اکبر تھے

رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے لیے آٹے کی بھوسی کبھی صاف نہ کی جاتی تھی۔

ابن سعد نے ابو اسحاق سے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کو بن چھانے آٹے کی روٹی کھاتے دیکھا ہے اس لیے میرے واسطے آٹا نہ چھانا جایا کرے۔ (سیرت رسول عربی، ص636)

3۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھا گیا کہ اپنی اونٹنی ایک مکان کے گرد پھرا رہے ہیں۔ اس کا سبب پوچھا گیا تو فرمایا کہ میں نہیں جانتا مگر اتنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا ہے اس لیے میں نے بھی کیا۔ (سیرت رسول عربی ص636)

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اکابر صحابہ روز مرہ کے عام معاملات میں بھی حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی اقتدا کیا کرتے تھے۔

اللہ تعالی ہمیں ان مبارک ہستیوں کے صدقے اتباع ِسنت کا جذبہ عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم


احادیث میں سنت زندہ کرنے کا حکم اور اس پر بڑے ثواب کے وعدے ہیں ۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جس نے میری سنت کو زندہ کیا اس نے مجھ سے محبت ہے اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا ۔

جس طرح سنت پر عمل کرنے کے بہت زیادہ فضائل ہیں اسی طرح سنت سے اعراض کرنے کی وعیدیں بھی ہیں ۔

ابن عساکر رضی اللہ عنہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :"جس نے میری سنت سے منہ پھیرا وہ مجھ سے نہیں"

ہمارے صحابہ کرام علیہم الرضوان سنت پر دیوانہ وار عمل کیا کرتے تھے جب بھی انہیں محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی عمل کی خبر ملتی تو دیوانہ وار عمل کرتے۔

حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک بار ایک مقام پر پانی منگوایا اور وضو کیا پھر اچانک مسکرانے لگے پھر فرمایا: میرے مسکرانے کی وجہ جانتے ہو پھر خود ہی ارشاد فرمایا ایک بار سرکار عالی وقار صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی جگہ پر وضو فرمایا تھا اور فراغت کے بعد مسکرا کر صحابہ کرام سے فرمایا تھا جانتے ہو میں کیوں مسکرایا ہوں ؟صحابہ نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں پھر پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بندہ جب وضو کرتا ہے تو ہاتھ دھونے سے ہاتھوں کے، چہرہ دھونے سے چہرے کے، سر کا مسح کرنے سے سر کے اور پاؤں دھونے سے پاؤں کے گناہ جھڑ جاتے ہیں۔(مسند احمد، ج1، ص135)

وضو کر کے خنداں ہوئے شاہ عثمان

کہا کیوں تبسم بھلا کر رہا ہوں

جواب سوال مخالف دیا پھر

کسی کی ادا کو ادا کر رہا ہوں

صحابہ کرام علیہم الرضوان شاہ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر ہر ادا اور ہر ہر سنت پر دیوانہ وار عمل کرتے تھے ۔ اللہ کریم ہم سب کو بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر ہر سنت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم