اسلام اللہ کریم کا بھیجا ہوا آخری دین ہے جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں اسی طرح روز ِقیامت تک کوئی دوسرا دین نہیں آئے گا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد یہ دین جن محفوظ ہاتھوں میں گیا اور وہ صحابہ کرام علیہم الرضوان کی مقدس جماعت ہے یہ اصحاب جب چند افراد تھے تو بدر کے مقام میں دین کا دفاع کیا تھا اور جب یہ ہزاروں میں پہنچے تو پوری دنیا میں کفر کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے۔

دین اسلام کی بنیاد اور اساس صحابہ کرام علیہم الرضوان ثابت ہوئے قرآن و حدیث صحابہ کرام نے ہم تک پہنچایا ہے اور پوری دیانت داری اور امانت داری کے ساتھ پہنچایا ۔ دین کے راستے میں جتنی بھی تکلیف اور پریشانی آئی ان کا خندہ پیشانی کے ساتھ مقابلہ کیا اس دین کو عام کرنے کے لیے اپنے گھر بار اور خاندان تک چھوڑ دیئے۔

صحابہ کرام علیہم الرضوان کا عشق مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم مثالی ہے ان کی پوری زندگی حیات نبوی اور سنت نبوی کا صاف وشفاف آئینہ تھی یہ وہ مثالی جماعت ہے جس نے سنت رسول پر عمل کا بہترین نمونہ پیش کیا ہے ان کی زندگی کا کوئی بھی شعبہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خالی نہیں تھا صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ پر عمل کرنے کے جذبے کا ان واقعات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے:

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ ایک دن حجر اسود کے قریب آئے اور بوسہ دے کر فرمایا خدا کی قسم! میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے نہ نفع دے سکتا ہے اور نہ نقصان پہنچا سکتا ہے اگر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے نہ دیکھا ہوتا تو تجھے ہرگز بوسہ نہ دیتا ۔

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک بار پانی منگوایا وضو کیا اور مسکرانے لگے پھر ساتھیوں سے فرمایا مجھ سے پوچھو گے نہیں کہ میں کیوں مسکرایا؟ساتھیوں نے عرض کیا آپ کس وجہ سے مسکرائے تو فرمایا :ایک بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس جگہ کے قریب وضو فرمایا تھا اور فراغت کے بعد مسکرائے تو میں نے بھی انہیں کی اداکو ادا کیا ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ ایک جگہ پراپنی اونٹنی کو چکر لگوا رہے تھے لوگوں نے اس کا سبب پوچھا تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا میں اس کی وجہ نہیں جانتا مگر میں نے اس جگہ رسالت ماٰب صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا اس لئے میں بھی ایسا ہی کر رہا ہوں

(تفسیر صراط الجنان ،جلد، اول ،صفحہ:461)

ہر حال میں اور ہر عمر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اس مقام پر پہنچ گئے تھے جس کی مثال نہ اس سے پہلے اور نہ بعد میں ملتی ہے حالات کیسے بھی ہوں صحابہ کرام علیہم الرضوان اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ کی ادائیگی میں کبھی بھی تاخیر اور کسی بھی طرح کی ٹال مٹول نہ کرتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور سنت پر عمل کرنے کا جذبہ تھا کہ یہ مقدس جماعت نہ کسی مصیبت پر گھبراتی، نہ نعمت پر اتراتی، فقر ان کی راہ میں رکاوٹ نہیں تھا اور دولت سرکشی پیدا نہ کر سکی اللہ کی زمین پر اکڑ کر چلنے کا خیال بھی نہ تھا۔

سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنے کا جذبہ ہی وہ چیز ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالی نے صحابہ کرام کو وہ مقام عطا فرمائے جو دنیا میں نہ کسی کو اس سے پہلے حاصل ہوا نہ ہو سکتا ہے ۔ اس مقدس جماعت کو اللہ عزوجل نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے لئے منتخب فرمایا تھا خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا مفہوم ہے کہ "میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں جو ان کی راہ کو اپنائے گا، کامیاب ہوجائے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آج امت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی، صحابہ کرام کی سیرت پر عمل پیرا ہو کر خود کو بھی محبوب بارگاہ الہی بنائے۔


مصطفی جان رحمت صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ سے محبت کی جائے ۔محب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دل و دماغ میں ہر وقت یہ جستجو رہے کہ میری زندگی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوۂ کامل کے مطابق ہو۔

صحابہ کرام علیہم الرضوان نے اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جو عظیم درس زمانے کو دیا تاریخ عالم اس کا جواب پیش کرنے سے قاصر ہے ۔اتباع رسول سے مراد یہ ہے کہ ہماری زندگی کا ہر لمحہ نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا آئینہ دار ہو ۔ہمارا ہر قول احادیث مقدسہ کی تکمیل اور ہر فعل سنت مطہرہ کا مظہر ہو،ہمارا اٹھنا بیٹھنا ،کھانا پینا ،رونا ہنسنا غرضیکہ زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو اسلامی ضابطۂ حیات کی ترجمانی کرے۔ ہمارا اخلاق لسانی اور غیرت اسلامی بے مثال ہو ۔صحابہ کرام علیہم الرضوان کا ایمان تھا کہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہر حال میں باعث رحمت ہے اس لیے وہ ہر مقام پر سنت کو ترجیح دیتے تھے ۔

(مشکوٰۃ جلد۱،ص۴۴۶ ،باب فضل الفقراء)

ایک مرتبہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کا گزر ایک ایسی جماعت پر ہوا جس کے سامنے کھانے کے لئے بھونی ہوئی مسلّم بکری رکھی ہوئی تھی لوگوں نے آپ کو کھانے کے لئے بلایا تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ کہہ کر کھانے سے انکار کر دیا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم دنیا سے تشریف لے گئے اور کبھی جو کی روٹی بھی پیٹ بھر کر نہ کھائی میں بھلا لذیذ اور پر تکلف کھانوں کو کیونکر گوارا کر سکتا ہوں ۔

(بخاری جلد ۱،ص۱۸۶ ،باب موت یوم الاثنین)

امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی وفات سے صرف چند گھنٹے پہلے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے دریافت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کفنِ مبارک میں کتنے کپڑے تھے اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی وفات کس دن ہوئی ؟اس سوال کی وجہ یہ تھی کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی یہ انتہائی تمنا تھی کہ زندگی کے ہر ہر لمحات میں تو میں نے اپنے تمام معاملات میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک سنتوں کی مکمل طور پر اتباع کی ہے ۔مرنے کے بعد کفن اور وفات کے دن میں بھی مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سنت نصیب ہو جائے۔

ابن ماجہ نے حسن بصری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کہ معقل بن یسار رضی اللہ تعالی عنہ کھانا کھا رہے تھے کہ ان کے ہاتھ سے لقمہ گر گیا انہوں نے اٹھا لیا اور صاف کر کے کھا لیا ۔یہ دیکھ کر گنواروں نے آنکھوں سے اشارہ کیا (کہ یہ کتنی حقیر اور ذلیل بات ہے کہ گرے ہوئے لقمے کو انھوں نے کھا لیا )کسی نے ان سے کہا خدا امیر کا بھلا کرے (معقل بن یسار وہاں امیر اور سردار کی حیثیت سے تھے)یہ گنوار کن اکھیوں سے اشارہ کرتے ہیں کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہنے گرا ہوا لقمہ کھا لیا اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے سامنے یہ کھانا موجود ہے انہوں نے فرمایا : ان عجمیوں کی وجہ سے میں اس چیز کو نہیں چھوڑ سکتا ہوں جو میں نے رسول اللہ عزوجل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ہم کو حکم تھا کہ جب لقمہ گر جائے اسے صاف کر کے کھا لیا جائے شیطان کے لیے نہ چھوڑ دے ۔

صحابہ کرام علیہم الرضوان پر اللہ عزوجل کی خصوصی رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہو جنہوں نے سنت رسول صلی اللہ وآلہٖ وسلم کا ایسا درس اس امت کو بتا دیا کہ

اللہ کی سر تابہ قدم شان ہیں یہ

ان سا نہیں انسان وہ انسان ہیں یہ

قرآن تو ایمان بتاتا ہے انہیں

ایمان یہ کہتا ہے میری جان ہیں یہ


 صحابہ کرام علیہم الرضوان کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت محبت تھی اور جس سے محبت ہوتی ہے اس کی ہر چیز سے محبت ہوتی ہے اس کی ہر ادا سے محبت ،اس کی رفتار سے محبت، اس کی گفتار سے محبت، اس کے لباس سے محبت غرض اس کی ہر چیز سے محبت ہوتی ہے۔اسی محبت کی وجہ سے صحابہ کرام علیہم الرضوان کا سنت پر عمل کا بے مثال جذبہ تھا اس کی چند مثالیں پیش خدمت ہیں:

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سنت پر عمل کا جذبہ:

حضرت جریج بن عبید رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے کہا میں نے دیکھا آپ بیل کے دباغت کئے ہوئے چمڑے کا بے بال جوتا پہنتے ہیں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما نے کہا میں نے رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا آپ ایسا ہی جوتا پہنتے تھے جس میں بال نہ ہو اسی لیے میں بھی ایسا ہی جوتا پہننا پسند کرتا ہوں۔(صحیح بخاری، کتاب الوضوء، حدیث: 144، ج1، ص80)

حضرت نافع رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں ایک بار میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنھما کے ساتھ ایک راستے میں تھا آپ نے باجے کی آواز سنی تو اپنی دونوں انگلیاں اپنے کانوں میں ڈال لیں اور اس راستے سے دور ہٹ گئے اور دور جانے کے بعد مجھ سے فرمایا: اے نافع! کیا تم کچھ سن رہے ہو میں نے عرض کیا: نہیں تب آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں سے ہٹائیں اور فرمایا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بانسری کی آواز سنی تو ایسے ہی کیا جو میں نے کیا حضرت نافع رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں میں اس وقت چھوٹا تھا-(مشکوٰۃ، ص318، ابو داؤد، احمد)

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا سنت پر عمل کا جذبہ :

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے سنت پر عمل کے جذبے کے بھی کیا کہنے! کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہاپنی وفات سے چند گھنٹے قبل اپنی صاحبزادی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے دریافت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کفن میں کتنے کپڑے تھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات شریف کس دن ہوئی؟

اس سوال کی وجہ یہ تھی کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی آرزو تھی کہ کفن اور یومِ وفات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی موافقت ہو یعنی حیات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور ممات میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع چاہتے تھے۔

(صحیح بخاری، حدیث 1387،ج1،ص468)

اللہ اللہ یہ شوق اتباع

کیوں نہ ہو صدیق اکبر تھے

اسلام کا تاریخی واقعہ اور تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان کا سنت پر عمل کا جذبہ:

تحویلِ قبلہ اسلام کی تاریخ میں سب سے اہم واقعہ ہے نصف شعبان پیر کے دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں نماز ظہر پڑھ رہے تھے تیسری رکعت کے رکوع میں تھے کہ وحی الہی سے آپ نے نماز میں کعبہ کی طرف رخ کر لیا اور تمام صحابہ کرام نے بھی آپ کی اتباع کی ۔ اس مسجد کوآج تک" مسجد قبلتین" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

(المواھب لدنیہ وشرح زرقانی ،ج2،ص242)

سبحان اللہ! صحابہ کرام علیہم الرضوان کی محبت اور سنت کے عمل کے جذبے کی وجہ سے اس وقت فوراً حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی یہ سوال نہ کیا کہ ایسا کیوں کہا بلکہ جیسے ان کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ویسے ہی صحابہ کرام علیہم الرضوان نے کیا جبھی تو مدینے کے سلطان رحمت، عالمیان صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:" میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہے تم ان میں سے جس کی بھی اقتداء کرو گے ہدایت پا جاؤ گے"۔

(مشکوٰۃ المصابیح، باب مناقب صحابہ، حدیث: 6018)

اہل سنت کا ہے بیڑا پار اصحابِ حضور

نجم ہیں اور ناؤ ہے عترت رسول اللہ کی


عشق کی ایک علامت'' اطاعتِ محبوب''بھی ہے،انسان کو جس سے عشق ہوتا ہے وہ اس کی اداؤں کو وہ بالقصد و بلا قصد اختیار کرتا ہے اور جب انسان کی محبوب ہستی وہ ذات ہو جو خالق ِکائنات کو بھی محبوب ہے اور وہ شخصیت ہو جس کی پیروی کے لیے '' سُنت'' جیسا میٹھا لفظ استعمال ہوتا ہے،تو ایسے محبوب کی اداؤں کو اپنانے کی لذت وچاشنی الفاظ میں بیان نہیں کی جاسکتی۔سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اصحابی کاالنجوم فبا یھم اقتدیتم اھتدیتم

چونکہ صحابہ کرام علیھم الرضوان ہمارے مقتدا ہیں، لہذا ان کو سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کا کیسا جذبہ تھا ، اس ضمن میں چند واقعات ملاحظہ فرمائیے:

1 ۔سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ جب بھی بات کرتے تو مسکراتے، عرض کی گئی:"آپ اس عادت کو ترک فرما دیجئے ورنہ لوگ آپ کو احمق سمجھنے لگیں گے" فرمایا: میں نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بات کرتے دیکھا یا سناتو آپ کو مسکراتے ہی دیکھا۔

(مسند احمد، مسند الا نصار 171/8 حدیث: 21791)

2۔ سیدنا نافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ کہیں جا رہا تھا کہ راستے میں مزمار( باجا) بجانے کی آواز آنے لگی ابنِ عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے کانوں میں اُنگلیاں ڈال دیں اور راستے سے دوسری طرف ہٹ گئے اور دور جانے کے بعد پوچھا:نافع آواز آرہی ہے؟ میں نے عرض کی: اب نہیں آ رہی، تو کانوں سے اُنگلیاں نکالیں اور ارشاد فرمایا: ایک بار میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کہیں جا رہا تھا، سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح کیا جو میں نے کیا۔(ابو داؤد ج 4، ص 307، حدیث: 4924)

3۔ سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ کہ ایک درزی نے پیارے مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی، میں بھی آپ کے ساتھ شریک تھا، کھانے میں روٹی کے ساتھ کدو ملا گوشت کا سالن پیش کیا گیا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کدو شریف تلاش کر کے تناول فرماتے دیکھا اُس دن کے بعد سے میں کدو شریف کو بہت پسند کرتا ہوں۔

(بخاری،2/17 ، حدیث:2592)

کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔

فنا اتنا تو ہو جاؤں میں تیری ذاتِ عالی میں

جو مجھ کو دیکھ لے اُس کو تیرا دیدار ہو جائے


بےشک صحابہ کرام علیہم الرضوان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر عمل کرنے کی ہر ممکن کوشش کیا کرتے تھے وہ زندگی کے ہر معاملے میں پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں کو اپنانا چاہتے تھے پھر وہ معاملہ فرائض کا ہو یا عبادات کا، عام معاملات ہوں یا اپنی ذات ہو ہر کام کو پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انداز اپنا کر کرنا چاہتے تھے اور اس کے لیے حتی الامکان کوششیں کرتے تھے صحابہ کرام کا سنت پر عمل کا جذبہ یہ بہت ہی کمال تھا، صحابیات کا بھی سنت پر عمل کا جذبہ بے مثال تھا۔

مندرجہ ذیل روایات سے صحابہ کرام اور صحابیات کا سنت پر عمل کیسا تھا واضح ہوتا ہے ۔ بات کی جائے فرائض کی تو سب سے پہلے ہمارے خلیفہ اول حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اپنی ظاہری حیات میں تو اتباع کرتے ہی کرتے تھے، حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال ظاہری کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں بعض قبائل مرتد ہوگئے اور زکوۃ دینے سے انکار کر دیا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہنے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کو جمع کرکے مشاورت کی تو ان میں اختلاف واقع ہو گیا آپ نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے مشورہ طلب کیا تو انہوں نے فرمایااے امیرالمومنین! اگر آپ نے ان لوگوں سے ایسی ادنیٰ سی شے بطور زکوۃ نہ لی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لیتے تھے تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی مخالفت ہوگی۔

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہنے یہ سن کر عرض کیا "اچھا اگر ایسا ہے تو میں ان کے خلاف جہاد کروں گا" (کتاب فیضان صدیق اکبر، صفحہ 146)

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا سنت پر عمل کا یہ عالم تھا کے مخالفین سنت کے خلاف اعلان جنگ فرما دیا اسی طرح صحابہ کرام اپنے حلقے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی فرماتے پھر چاہے وہ کسی بھی منصب پر فائز کیوں نہ ہوں۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ ٢٥لاکھ مربع میل کی سلطنت کے مقتدر فرمانروا تھے۔ لیکن لباس پھٹا پرانا کبھی مسجد کی سیڑھیوں میں سو جاتے ہیں اور کھجور کھا کر اللہ کا شکر ادا کرتے آپ کی صاحبزادی حضرت ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا چند لوگوں کی درخواست پر اچھا کھانے اچھا پہننے کی درخواست کرتیں تو آپ فرماتے :اےبنت عمر تم خوب جانتی ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق خلیفہ اول نے زُہدانہ اور غریبانہ زندگی بسر کی۔

میری آرزو بھی یہی ہے کہ میں ان عظیم شخصیتوں کا انداز زندگی اختیار کروں۔

(شان صحابہ ، صفحہ 112 تا113)

خلیفہ ثانی فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے تمام آسائشوں کو ترک فرما دیا اور پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے انداز زندگی کو اپنانے کی تمنا کی اور سنت پر عمل کے زبردست جذبے سے اسی خواہش کو پورا فرما یا، سنت پر عمل کا جذبہ اس بات سے اور واضح ہوتا ہے کہ جو چیز آپ علیہ السلام شوق سے تناول فرماتے ہیں وہ چیز صحابہ کرام کی مرغوب غذا بن جاتی۔

حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کو معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کدو شریف شوق سے تناول فرماتے ہیں تو وہ بھی اس کو پسند فرمانے لگے اسی طرح جو چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم پسند فرماتے صحابہ بھی اس کو پسند فرماتے جیسے حضرت عبیدہ بن جریج نےجب دیکھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا جوتا پہننا پسند فرمایا جس میں بال نہ ہو تو حضرت عبیدہ کو بھی ایسا جوتا پہننا اچھا لگنے لگا (صحابہ کرام کا عشق رسول ،صفحہ 26تا 27)

صحابیات بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر عمل کا بے مثال جذبہ رکھتی تھیں میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے کی کوشش کرتیں ۔

روایت ہے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ اگر میرے ماں باپ بھی اٹھا دیئے جائیں تو بھی میں یہ رکعتیں نہ چھوڑوں ۔

مفتی احمد یار خان نعیمی مراۃالمناجیح میں اس حدیث کی شرح میں تحریر فرماتے ہیں یعنی اشراق کے وقت اگر مجھے خبر ملے کہ میرے والدین زندہ ہو کر آ گئے ہیں تو ان کی ملاقات کے لیے بھی یہ نفل نہ ہو چھوڑ وں بلکہ نفل پڑھوں پھر ان کی قدم بوسی کروں۔

(فیضان عائشہ صدیقہ، ص 475)

اللہ اللہ! حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کا نماز ِچاشت کی ادائیگی بے شک سنت پر عمل کے جذبے کی شدت کو واضح کر رہی ہے۔اسی طرح آپ علیہ السلام کی پیاری شہزادی خاتون جنت رضی اللہ تعالی عنہا کا سنت پر عمل کا جذبہ اس کی مثال محال ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتی ہیں میں نے اندازِ گفتگو اور بیٹھنے میں حضرت فاطمہ الزہرہ رضی اللہ تعالی عنہا سے بڑھ کر کسی اور کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قدر مشابہت رکھنے والا نہیں دیکھا۔(خاتون جنت، ص124)

حضرت سیدنا مسروق رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا نے فرمایا کہ ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع تھیں اور ہم میں سے کوئی غیر حاضر نہ تھی اتنے میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ وہاں تشریف لائیں آپ رضی اللہ تعالی عنہا کا چلنا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چلنے سے ذرا برابر مختلف نہ تھا۔

(شان خاتون جنت ،ص 121)

حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیسی محبت تھی کیا کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہا کی ہر ہر ادا سنت مصطفی کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہوئی تھی ۔

تمام روایات سے صحابہ کرام علیہم الرضوان کا سنت پر عمل کا جذبہ کیسا تھا؟ واضح طور پر معلوم ہوتا ہے ،صحابہ کرام سنت کی مخالفت کو برداشت نہ کرتے تھے آسائشوں کو ترک کرکے بس پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی فرماتے اور یہ جذبہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر ادا کو ادا کرنے کی کوشش کرتے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے انتہا محبت کی وجہ سے تھا۔


جس سے محبت ہو تی ہے انسان کے اند ر اُس کی عظمت ،اطاعت اور فر مانبرداری گھر کر جاتی ہے یہی محبت ِ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمصحابہ کرام کو سنتوں پر عمل کا جذبہ دیتی ہے اور مز ید بڑھاتی ،کیونکہ کسی کے طریقے پر چلنا اصل میں اس شخص سے محبت کی وجہ سے ہو تا ہے۔

حضرت مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل مومن نہ و گا جب تک کہ میں اسکے باپ ،اسکی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔

( صحیح بخاری کتاب الایمان ،باب حبِ الرسول۔ الحد یث 15 ،جلد ا ، ص 17)

صحابہ کرام نے اپنی ذاتی حیثیت بالکل ختمی کر دی تھی اور اپنی ذات کو رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنتوں کا آئینہ دار بنا لیا تھا اور نبئ مکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمکی اسوہ حسنہ پر مکمل طور پر کار بند رہے۔اور یہی صحابہ اکرام کا سنتوں پر عمل کا جذبہ ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔کیونکہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فر مایا:"اصحابی کالنجوم "

" میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے جسکی بھی اقتداء کرو گے ہدایت پا جاؤ گے۔

( کشف الخفاء الحدیث 381 ج 1، ص 118)

صحابہ رضی اللہ عنہ کا عمل:

آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک صحابی کو رنگین چادر اوڑھے ہو ئے دیکھا تو فر مایا : یہ کیا ہے؟ وہ سمجھ گئے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یہ ناپسند فر مایا ہے فوراً گھر آئے اسے چولھے میں ڈال د یا۔( سنن ابی داؤد کتاب اللباس ، باب فی العمرۃ ،الحدیث: 4071 ج 4 ص 74)

حضرت خدیمہ اسدی رضی اللہ عنہ ایک صحا بی تھے جو نیچا تہبند باند ھتے تھے اور لمبے لمبے بال رکھتے تھے، ایک روز سر کار صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا : خُد یمہ اسدی کتنا اچھا آدمی تھا، اگر بال لمبے نہ رکھتا ، اور نیچا تہبند نہ باند ھتا ، ان کو معلو م ہوا تو فوراً قینچی منگوائی ، اس سے بال کترے تہبند اونچا کر لیا۔

( سنن ابی داؤد ، کتاب اللباس ، باب ماجاء فی ا سبال للازار حدیث: 4009 ،ج 4، ص 80)

ایک بار حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ایک مجلس میں آئے ایک شخص نے اٹھ کر ان کے لیے اپنی جگہ خالی کر دی تو انہوں نے اس کی جگہ پر بیٹھنے سے انکار کیا اور کہا کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس سے منع فر مایا ہے۔

شوقِ موافقت:

حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات سے چند گھنٹے پیشتر اپنی صاحبزادی حضرت عائشہ سے دریافت کیا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمکے کفن کے کتنے کپڑے تھے۔ حضور علیہ السلام کی وفات کس دن ہو ئی ؟اس سوال کی وجہ یہ تھی کہ آپ ر ضی اللہ عنہ کی آرزو تھی کہ کفن و یومِ وفات میں حضو ر علیہ السلام کی موافقت ہو۔ حیات میں حضو ر السلام کا اتباع تھا ہی وہ ممات میں بھی آپ علیہ الصلاۃ االسلام کی اتباع چاہتے تھے۔

( صحیح البخاری ، کتاب الجنائز باب موت یوم الاثنین، جلد 1، ص 468)

اللہ اللہ یہ شوقِ اتباع

کیوں نہ ہو صدیق ِ اکبر تھے

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فر ماتے ہیں : کہ ایک درزی نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمکی کھانے کی دعوت کی ،میں بھی حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ گیا جس میں کدو اور خشک کیا ہو ا نمکین گوشت تھا ۔ کھانے کے دوران میں نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمکو دیکھا کہ پیالے کے کناروں سے کدو کی قاشیں تلاش کر رہے ہیں اسی لیے میں اس دن سے کدو پسند کر نے لگا۔

( صحیح البخاری ، کتاب الاطعمہ باب الدباء، الحدیث 5433 جلد 3 ،ص 536)

لفظِ آخر:

عشقِ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اگر پوری طور پر دل میں جا کز یں ہو تو اتباع ِ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ظہور نا گز یں بن جا تا ہے،احکامِ الہی کی تعمیل اور سیرت نبوی کی پیروی عاشق کے رگ و ریشہ میں سما جاتی ہے۔

دل و د ماغ اور جسم و روح پر کتاب و سنت کی حکومت قائم ہو جاتی ہے۔مسلمان کی معاشرت سنور جاتی ہے آخرت نکھر جاتی ہے۔ اور یہی اتباع ِ سنت پر عمل کا جذبہ تھا جسکے طفیل صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو د نیا میں اختیار و اقتدار اور آ خرت میں عزت و وقار ملا اور کٹھن سے کٹھن وقت میں بھی انہیں اتباع ِ رسول سے انحراف گوارہ نہ تھا صحابہ کرام ہر مر حلے میں اپنے محبوب آقا علیہ الصلاۃ والسلام کا نقش ِ پا ڈھو نڈتے اور اسی کو مشعلِ راہ بنا کر جاو پیما رہتے۔ یہاں تک کہ۔

لحد میں عشقِ رخ شہ کا داغ لے کر چلے

اندھیری رات سونی تھی چراغ لے کر چلے

( حدائقِ بخشش)


صحابہ کرام علیہم الرضوان میں سے کسی ایک فرد کو جانے دیجیئے، بلکہ تمام صحابہ کا عموما ًیہ حال تھا کہ وہ دنیاوی موانِع سے بالا تر ہوکر صرف اور صرف اپنے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی یاد کو دل میں بسائے سفرو حضر میں اپنی دنیا کو اُنہیں کی یاد سے آباد رکھتے،ان کا عِشق ہر ارشادِ نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور ہر عملِ نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعمیل سے عبارت تھا۔

عبادات میں تو رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اِتّباع کے بغیر چارہ نہیں، لیکن ان کی اِتّباع ہر اس کام میں مضمر ہوتی جو ان کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمکی طرف کسی نہ کسی طرح منسوب ہوتا۔آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اداؤں کو اپنانا اور ان پر کاربند رہنا،ان کی زندگی کا جزوِ لایَنْفَکْ تھا۔آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جس مقام پر جو کیا، صحابہ کرام علیہم الرضوان کوئی شرعی تقاضا نہ ہونے کے بنا پر اسی مقام پراپنے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ادا کو ادا کرتے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ حجرِ اسود سے یوں مُخاطِب ہوتے ہیں:’’میں جانتا ہوں تو پتھر ہے،نفع دے سکتا ہے نہ نقصان،اگر نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تجھے بوسا نہ دیتےتومیں تمہیں کبھی بوسا نہ دیتا۔ (بخاری شریف،کتاب الحج،باب تقبیل الحجر،صفحہ۲۹۶، حدیث ۱۶۱۰،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ،بیروت)

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ایک بار وضو فرمانے کے بعد مسکرائے اور فرمایا: ’’ایک بار نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمبھی وضو فرمانے کے بعد مسکرائےتھے۔‘‘ (مسند امام احمد،مسند عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ،جلد ۱،صفحہ ۴۴۴، حدیث ۳۸۱،مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ،بیروت)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے چال،ڈھال،شکل و صورت،اندازِ گفتگو اور اٹھنے بیٹھنے کے انداز میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاسے بڑھ کر کسی کو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے مشابہ نہ پایا۔(السنن لابی داؤد، کتاب الادب،باب ماجاء فی القیام، حدیث ۵۲۱۷،صفحہ ۸۱۲، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ،بیروت)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کےبارے میں مشہور تھا کہ جِن جِن مقامات پر حضور سید عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حالتِ سفر و حضر میں نمازیں پڑھیں تھیں،آپ ان مقامات کو تلاش کر کےنمازیں پڑھتے، اور جہاں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی سواری کا رخ پھیراہوتا،وہاں قصداًآپ بھی ایسا ہی کرتے تھے۔حتیٰ کہ جس درخت کے نیچے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمقیام فرماتےآپ رضی اللہ عنہ اس کی دیکھ بھال کرتےاور اس کی جڑوں کو پانی ڈالتے کہ کہیں خشک نہ ہوجائے۔( سیراعلام النبلاء،جلد۳،صفحہ ۲۱۳،مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت،طبع ثانی ۱۹۸۲ء(۲)الاصابۃ فی تمییزالصحابۃ،جلد۴،صفحہ ۱۶۰،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت،الطبعۃ الاولیٰ۱۹۹۵ء)

آپ رضی اللہ عنہ ایک جگہ اپنی اونٹنی کو چکرلگوا رہے تھےلوگوں نے اس کا سبب پوچھا تو فرمایا ’’میں (اس کی حکمت) نہیں جانتا،مگر اس جگہ میں نے تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمکو ایسا کرتے دیکھااس لیے میں بھی ایسا ہی کر رہا ہوں۔ (الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ،القسم الثانی،باب الاول،فی فرض الایمان بہ ووجوب طاعتہ و اتباع سننہ،فصل الثالث،صفحہ ۲۴۴،مطبوعہ شانِ اسلام،پشاور)

حضرت انس رضی اللہ عنہ کابیان ہےکہ میں پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ہمراہ ایک دعوت میں گیاتو صاحبِ خانہ نے جَو کی روٹی اورکدُّو شریف کاسالن پیش کیامیں نے دیکھاکہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم چُن چُن کر کدو تناول فرمارہے تھے لہذا اس دن سے مِیں بھی کدو شوق سے کھانے لگا۔ (الصحیح للبخاری،کتاب الاطعمۃ،باب الدباء،صفحہ ۱۰۱۹،حدیث ۵۴۳۳، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ،بیروت)

اللہ پاک ہم سب کو بھی سنّت پر عمل کرنے کاجذبہ عطا فرمائے۔

آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


محمد کی محبت دینِ حق کی شرطِ اوّل ہے

اسی میں ہو اگر خا می تو سب کُچھ نامکمل ہے

محمد کی محبت ہے سند آزاد ہونے کی

خدا کے دامنِ توحید میں آباد ہونے کی

اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:" بے شک نبی کی زندگی تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے۔"

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" جس نے میری سُنت سے محبت کی، وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔"

صحابہ کرام کی زندگی میں ہمیں ہر ہر قدم پر نبی پاک صاحبِ لو لاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنت پر عمل کرنے کا حد درجہ جذبہ نظر آتا ہے، صحابہ کرام کو ایمان کی کسوٹی فرمایا گیا، جن کا ایمان اُن جیسا ہو وہی ایمان والا ہے اور جو ان کے خلاف ہو وہ کافر ہے۔

حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ جو یارِ غار و مزار ہیں، اُن کی زندگی پوری طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہے، آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر ادا پر لبیک کہتے۔

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ ایک دفعہ ایک جگہ وُضو کر رہے تھے کہ اَچانک مُسکرانے لگے، آپ نے لوگوں سے اِرشاد فرمایا: پتہ ہے میں کیوں مُسکرایا؟ تو پھر خود ہی جواب اِرشاد فرمایا: میں نے ایک مرتبہ سرکارِ نا مدار صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی جگہ وُضو کرتے ہوئے مُسکراتے دیکھا تھا۔

وضو کرکے خنداں ہوئے شاہِ عثُماں

کہا کیوں تبسّم بھلا کر رہا ہوں

جواب ِ سُوالِ مُخالف دیا پھر

کسی کی اَدا کو اَدا کر رہا ہوں

ہم سب کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنت کی پیروی کے لیے صحابہ کرام کی سیرت کی پیروی کرنی ہوگی، فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:" میرے صحابہ ستاروں کی مانِند ہیں، جس کی بھی پیروی کروگے کامیاب ہو جاؤ گے۔"

ہمیں صحابہ و اہلِ بیت سے پیار ہے

ان شاءاللہ اپنا بیڑا پار ہے


نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ اور سنت مبارکہ کی اتباع ہر مسلمان پر لازم و واجب ہے اس کے متعلق حکم رب العزت ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱) ترجمہ کنزالعرفان: اے حبیب! فرما دو کہ اے لوگو! اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبردار بن جاؤ اللہ تم سے محبت فرمائے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (آل عمرآن : 31 )

اس لیے آسمان امت کے چمکتے ستارے، ہدایت کے تارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کو اپنی زندگی کے ہر قدم پر واجب العمل سمجھتے تھے ۔

مختصر حدیث کی تعریف کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں :

"تم جان لو! جمہور محدثین کی اصطلاح میں حدیث کا اطلاق قول، فعل اور تقریر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوتا ہے (مقدمۃ الشیخ، فصل اول، مکتبۃ المدینہ)

سب سے پہلے افضل البشر بعد الانبیاء کا ذکر کرتے ہیں کہ آپ کی سنت کی پیروی کیسی تھی۔

یار غار کی آخری تمنا :

امیرالمومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا سنت پر عمل کا جذبہ اس کی مثال محال ہے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ سے دریافت فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کفن کے کتنے کپڑے تھے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ظاہری وصال کس دن ہوا تھا؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کی انتہائی تمنا تھی کہ زندگی کے ہر قدم پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتا رہا اب مرنے کے بعد بھی میرا کفن اور وفات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل نصیب ہو ۔ (سیرت مصطفیٰ ،ص827)

میٹھے اسلامی بھائیوں! زندگی تو زندگی قربان جائیے کہ مرنے کے بعد بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کا اس قدر اہتمام فرمایا۔مرحبا صد کروڑ مرحبا! یہی تو محبت کے تقاضے ہوتے ہیں

مرادِ حضور صلی اللہ علیہ وسلم :

منقول ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا گھر مسجد نبوی سے ملا ہوا تھا اور ان کے مکان کا پرنالہ بارش میں آنے جانے والے نمازیوں کے اوپر گرا کرتا تھا امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کو اکھاڑ دیا حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ آپ کے پاس آئے اور عرض کیا کہ اللہ کی قسم اس پرنالے کو حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے میری گردن پر سوار ہوکر لگایا تھا ۔ یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا :اے عباس! میں آپ کو حکم دیتا ہوں کہ آپ میری گردن پر سوار ہوکر اس پرنالے کو اسی جگہ پر لگا دیں ۔ (سیرتِ مصطفیٰ 829)

میٹھے اسلامی بھائیوں! حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ جو خود مؤمنین کے امیر تھے مگر سنت محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی خواہش کو قربان کیا ،اپنی گردن کو سواری بنایا اس میں حقوق العباد کی طرف بھی اشارہ ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا حق مکمل طور پر ادا کیا ۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ ہمارے اکابرین ہیں اللہ کریم ان کے طفیل ہمیں بھی سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنے اور سنت کو عام کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم


کسی شخص کو جس سے محبت ہوتی ہے تو وہ اس کی عادات اور اس کی بتائی ہوئی باتوں پر عمل کرنے اور اس کے منع کی گئی باتوں سے بچنے کی کوشش کرتا ہے رب تعالیٰ کے بعد ذات سب سے زیادہ محبت کی مستحق ہے وہ یقینا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور حضور سے محبت کی نشانیوں میں سے آپ کی سنتوں سے محبت اور ان پر عمل کرنا بھی ہے۔

چنانچہ امام قسطلانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں :سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں سے یہ بھی ہے کہ آپ کی سنت سے محبت کی جائے اور آپ کی حدیث کو پڑھا جائے۔

(المواھب اللدنیہ ،ج2،ص499)

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبین کا ذکر کیا جائے تو جن کی طرف سب سے پہلے ذہن جاتا ہے وہ ایسی ہستیاں ہیں جن سے اللہ تبارک و تعالی نے -وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰىؕ- (سورۃ الحدید، آیت : 10)کا وعدہ فرمایا ہے جن کو رب تعالی نے رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ (سورۃ التوبہ، آیت: 100 )کا مژدہ سنایا (اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں) میری مراد صحابہ کرام کی مبارک ذات ہے جن کی سیرت میں اتباع رسول کے بہت سے ایسے واقعات ملتے ہیں کہ جن کے مطالعہ سے عقل انسانی دھنگ رہ جاتی ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھا گیا کہ اپنی اونٹنی کو ایک مکان کے گرد چکر لگوا رہے ہیں ان سے اس کا سبب دریافت کیا گیا تو فرمانے لگے کہ وجہ تو مجھے بھی معلوم نہیں مگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا ہے اس لیے میں بھی ایسا کر رہا ہوں۔

(الشفاء، ج2، ص15)

انھیں کے متعلق مروی ہے کہ اتباع رسول کا اتنا اہتمام فرماتے کہ کبھی کبھی آپ کی عقل ضائع ہونے کا اندیشہ ہو نے لگتا۔(الاصابۃ الرقم ،42،4852،ص 157)

یار غار حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جس کام پر حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا عمل کیا کرتے تھے میں اسے کئے بغیر نہیں چھوڑتا تھا ۔

(نسیم الریاض، ج4، ص414)

چنانچہ آپ نے اپنی وفات سے چند گھنٹے قبل اپنی شہزادی سیدہ حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا سے دریافت فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کفن کے کتنے کپڑے تھے آپ کی وفات کس دن ہوئی تھی یہ سب کچھ پوچھنے کا سبب یہ تھا کہ زندگی میں تو اتباع رسول کرتے ہی رہے کہ آخری لمحات میں اور وصال کے بعد بھی اتباع رسول کرسکیں ۔

(صحیح بخاری ،کتاب الجنائز ،باب موت یوم اثنین، ج1، ص468،حدیث 1387)

حضرت اسلم رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے حجر اسود کو بوسہ دیا اور فرمایا کہ میں تجھے بوسہ نہ دیتا اگر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا۔(صحیح بخاری ،کتاب الحج، ج1، ص537 ،حدیث: 1597)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع ایک درخت کے نیچے قیلولہ( دوپہر کا آرام) فرمانے کے لئے تشریف لے جاتے اور فرماتے کہ میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسے ہی کیا کرتے تھے۔ (الترغیب والترھیب ،ج1،ص55،حدیث: 75)

معزز قارئین کرام! ہمیں بھی ان واقعات سے سبق حاصل کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتوں پر عمل کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔