صحابہ
کرام رضی اللہ عنھمآپ
صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت
پر عمل کرنے کے لئے بہت زیادہ دلدادہ اور شوقین تھے، جو عمل حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ کیا تھا،
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم
اس عمل کو بھی جاری رکھتے تھے۔
قرآن کی روشنی میں:
فَلَا
تُزَكُّوْۤا اَنْفُسَكُمْؕ-هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰى۠(۳۲) ۔ )سورۃ
النجم آیت نمبر 32(
احادیث کی روشنی میں:
حضور
پاک صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا:"میرے صحابہ چمکتے ہوئے ستارے ہیں تم ان
میں سے کسی ایک کا بھی دامن پکڑ لو تو تم لوگ کامیاب ہو جاؤ گے۔" قرہ سے روایت
ہے کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
کی خدمتِ بابرکت میں حاضر ہوا میں نے آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کے دستِ اقدس پر بیعت کی، اس حال میں کہ آپ کی قمیض
مبارک کا ایک بٹن کھلا ہوا تھا، قرہ نے کہا میں معاویہ بن قرہ اور ان کے بیٹے کو دیکھا
وہ گرمی و سردی میں ہمیشہ قمیض کا بٹن کھلا رکھتے تھے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہ میں اتباع ِسنت کا جذبہ تھا، انہوں نے جب دیکھا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قمیض کا بٹن کھلا تھا
تو انہوں نے اپنی پوری زندگی میں اس عمل کو اختیار کیا، چاہے سردی کا موسم ہوتا یا
گرمی کا انہوں نے اس بات کی پرواہ نہیں کی۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا دورِ خلافت تھا اور آپ اپنے
غلام کے ساتھ گزر رہے تھے، تو ایک ایسی جگہ سے گزرے کہ وہاں سے آپ رضی اللہ عنہ سر جھکا کر گزرے تو غلام نے عرض
کی حضور سر کیوں جھکایا ہے؟ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ
یہاں سے گزرا تھا، یہاں پر ایک درخت تھا اس کی ٹہنیاں جھکی ہوئی تھیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب گزرے تو تھوڑا نیچے ہو
کر گزرے تاکہ یہ درخت کی ٹہنی میرے عمامہ کو بوسہ نہ لینا شروع کر دے، تو آپ کے
غلام نے عرض کی حضور! اب تو یہاں درخت بھی نہیں ہے اور نہ ہی ٹہنیاں جن سے آپ بچ
کر گزرے ہیں تو آپ نے فرمایا:" بے شک یہاں درخت نہیں ہے، یہاں ٹہنیاں نہیں ہیں
لیکن میرے حضور صلی اللہ علیہ وسلم
اس طرح گزرے تھے میں نے بھی اسی طرح گزرنا ہے۔ صحابہ کرام نے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کو زندہ رکھا، جس
طرح آپ نے زندگی گزاری اسی طرح انہوں نے زندگی گزاری، پھر وہ لوگ کامیاب ہو گئے،
فلاح پا گئے اور وہ ہی لوگ کامیاب ہیں۔
ہر نبی اور رسول کے جان نثاروں اور حواریوں
نے اپنی محبت وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے نبی کی اطاعت و فرمانبرداری میں کوئی
کسر نہ چھوڑی لیکن تاریخ گواہ ہے کہ رسولِ محترم سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے اپنے والہانہ عشق و محبت سے
سرشار ہو کر جس شاندار انداز میں اپنے آقا و مولیٰ سے محبت کا اظہار کیا اس کی
مثال نہیں ملتی ۔
جس سے محبت
ہوتی ہے اس کی ہر ادا سے محبت ہوتی ہے، اس کی رفتار سے محبت، اس کی گفتار سے محبت
،اس کے کردار سے محبت، غرض یہ کہ اس کی ہر شے سے محبت ہوتی ہے۔
حضرت عبیدہ بن جریج رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ میں نے دیکھا آپ بیل کے دباغت
کیے ہوئے چمڑے کابے بال جوتا پہنتے ہیں تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ایسا ہی جوتا پہنتے تھے جس میں بال
نہ ہو ں اسی لیے میں بھی ایسا جوتا پہننا پسند کرتا ہوں۔
(صحیح بخاری، کتاب
الوضوء، باب غسل الرجلین،حدیث: 166،ج1،ص40)
حضرت
انس رضی
اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ
ایک درزی نے رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی
کھانے کی دعوت کی میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا ، جو کی روٹی اور شوربہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے سامنے لایا گیا جس میں کدواور خشک
کیاہوانمکین گوشت تھا کھانے کے دوران میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کدو کی خاشیں(ٹکڑے ) تلاش کرکے تناول فرما
رہے ہیں اسی لیے اس دن سے میں بھی کدو کو پسند کرنے لگا۔
(صحیح بخاری، کتاب
الاطعمہ، باب الدباء،حدیث: 5433،ج3،ص534)
حضرت امام ابو یوسف( شاگرد امام اعظم) کے سامنے
اس روایت کو ذکر کیا گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کدو بہت پسند تھا اس مجلس میں بیٹھے ایک آدمی نے کہا
لیکن مجھے نہیں پسند تو حضرت امام ابو یوسف رضی اللہ تعالی عنہ نےاپنی تلوار کھینچی اور فرمایا تجدید ایمان
کرو ورنہ تجھے قتل کر دیا جائے گا۔
(الشفاء للقاضی،
باب الثانی ،فصل فی علامۃ محبتہ صلی اللہ علیہ وسلم ،ج2،ص51)
اسی طرح کتب احادیث صحابہ کرام علیہم الرضوان کے سنت پر عمل کے جذبہ سے مالا مال ہیں اور
یہ سب حضور صلی
اللہ علیہ وسلم کی پسند کو پسند
اس لئے کرتے تھے کہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم اگر پورے طور پر دل میں جاگزیں ہو تو اتباع رسول کا
ظہور ناگزیرہوجاتا ہے۔احکام الہی کی تعمیل اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی عاشق کی رگ و ریت میں سما جاتی ہے
اگر امت محمدیہ بھی ا سے اختیار کر لے تو ان کی معاشرت سنور جائے اور آخرت نکھر
جائے اور بے مایہ انسان میں ایسی قوت پیدا ہوجائے جس سے کئی جوہر کھل جائیں۔
صحیح
بخاری میں سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ
سے مروی ہے کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ
بنی عمرو بن عوف میں صلح کرانے کے واسطے
تشریف لے گئے، جب نماز کا وقت ہوا
مؤذن نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ
سے پوچھا: کیا آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں گے؟ تاکہ میں اِقامت کہوں، فرمایا: ہاں!اور انہوں نے امامت کی اس
عرصہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم
تشریف لائے اور صف میں قیام فرمایا، جب نمازیوں نے حضور کو دیکھا تو تصفیق ( بائیں ہاتھ کی پُشت پر دائیں ہاتھ کی انگلیاں اس طرح مارنا شروع کی کہ آواز پیدا ہو) کی، اس غرض سے کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ خبردار ہوجائیں، کیونکہ ان کی عادت تھی کہ نماز میں کسی
طرف توجہ نہ کرتے تھے، جب صدیق اکبر
رضی اللہ عنہ
نے تصفیق کی آواز سُنی تو گوشہ چشم سے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں، لہذا پیچھے ہٹنے کا قصد کیا اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ سے فرمایا کہ اپنی جگہ پر قائم رہو ، صدیق
اکبر رضی اللہ عنہ نے
دونوں ہاتھ اٹھائے، اس نواز ش پرکہ حضور صلی
اللہ علیہ وسلم نے مجھے امامت کا حکم فرمایا، اللہ
پاک کا شکر ادا کیا اور پیچھے ہٹ کر صف میں کھڑے ہو گئے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے، جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: یَا اَبَا بَکْرِمَا مَنَعَکَ اَن َتَثْبُتَ اِ ذّ
اَمَرّتُکَ
ترجمہ:ابوبکر !جب میں خود تمہیں حکم کر چکا تھا تو تمہیں اپنی جگہ پر کھڑے رہنے سے کون سی
چیز مانع تھی؟ عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابو
قحافہ کا بیٹا اس لائق نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے
بڑھ کر نماز پڑھائے، میں کیسے یہ کر
سکتا ہوں۔
حضرت عبداللہ
بن عباس رضی اللہ عنہ
سے روایت ہے فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک
شخص کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی، آپ نے اس کو نکال کر پھینک دیا اور فرمایا: کیا تم میں سے کوئی چاہتا ہے کہ آگ کا انگارہ اپنے ہاتھ
میں ڈالے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لے جانے کے بعد
کسی نے اس شخص سے کہا، تو اپنی انگوٹھی
اُٹھا اور بیچ کر اس سے فائدہ اٹھا، اس نے جواب دیا: نہیں، اللہ پاک کی قسم میں اسے کبھی نہیں
لوں گا، جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پھینک دیا ہے تو میں
اسے کیسے لے سکتا ہوں،وَ
اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ تَرجَمۂ کنز الایمان: اور حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔
(المائدہ:92 )
احادیث مبارکہ :
حضور
صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام
اعمال کی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پیروی کیا کرتے تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم جس جگہ، جس مسجد میں نماز ادا کرتے تھے تو صحابہ
کرام رضی اللہ عنہم بھی وہیں
پر نماز ادا کیا کرتے تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم جس جگہ بیٹھ کر ذکر و دُرود کرتے تھے تو صحابہ
کرام رضی اللہ عنہم
بھی وہیں پر ذکر و درود اور عبادت کرتے تھے، جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم بچوں سے بے حد محبت کرتے
اور انہیں دینِ اسلام کی اچھی باتیں اور کام سکھاتے تھے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی بچوں سے بے حد محبت کرتے اور انہیں دینِ اسلام کی اچھی باتیں اور کام سکھاتے تھے۔
حضرت
عثمان غنی رضی اللہ عنہ ایک بار ایک مقام پر پہنچ کر پانی منگوایا اور وُضو کیا اور اَچانک مُسکرانے لگے، آپ نے لوگوں سے اِرشاد فرمایا: پتہ ہے میں
کیوں مُسکرایا؟ تو پھر خود ہی جواب اِرشاد فرمایا: میں نے ایک مرتبہ سرکارِ نا مدار
صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی
جگہ وُضو فرمایا اور بعدِ فراغت مُسکرائے تھےاور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم
سے فرمایا: جانتے ہو میں کیوں مسکرایا؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم
نے عرض کی، واللہ ورسولہ اعلم
یعنی اللہ اور
رسول بہتر جانتے ہیں، آپ نے فرمایا : جب آدمی وضو کرتا ہے تو ہاتھ دھونے سے ہاتھوں کے ، چہرہ دھونے سے چہرے کے اور سر کا مسح
کرنے سے سر کے اورپاؤں دھونے سے پاؤں کے گناہ جڑھ جاتے ہیں۔
وضو کرکے خنداں ہوئے شاہِ عثُماں
کہا کیوں تبسّم بھلا کر رہا ہوں
جواب ِ سُوالِ مُخالف دیا پھر
کسی کی اَدا کو اَدا کر رہا ہوں
سرکار
کی پسند اپنی پسند:
حضرت
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی
ہے کہ ایک
درزی نے پیارے مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی، میں بھی آپ کے ساتھ شریک ہو گیا، کھانے میں روٹی کے ساتھ کدو ملا گوشت کا سالن پیش کیا گیا، میں نے آپ صلی اللہ
علیہ وسلم
کو کدو شریف تلاش کر کے تناول فرماتے دیکھا، اُس دن کے بعد سے میں کدو شریف کو بہت
پسند کرتا ہوں۔
سُبحان
اللہ!صحابہ
کرام رضی اللہ عنہم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کا کیا جذبہ تھا کہ جس کام کا حکم ارشاد نہیں فرمایا، پھر بھی یہ لوگ آپ کی ہر ادا اپنانے کا شوق رکھتے تھے۔
پتلی پتلی گُلِ قدس کی پتیاں
اُن لبوں کی نزاکت پہ لاکھوں سلام
جس کی تسکیں سے روتے ہوئے ہنس پڑے
اس تبسم کی عادت پہ لاکھوں سلام
اتباع سنت رسول صلی
اللہ علیہ وسلم:
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت مبارکہ اور آپ کی سنتِ مقدسہ کی اتباع ہر مسلمان پر لازم و واجب ہے۔
اللہ رب العزت کا فرمان عالیشان
ہے : قُلْ اِنْ كُنْتُمْ
تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ
ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱)تَرجَمۂ
کنز الایمان:اے محبوب تم فرمادو
کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے
ہو تو میرے فرمان بردار ہوجاؤ اللہ
تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش
دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔(سورہ آل عمران:31)
اسی لیے ہدایت کے چاند تارے، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی
علیہم اجمعین آپ کی ہر سنت
کریمہ کی اتباع اور پیروی کو اپنی زندگی کے ہر قدم پر اپنے لئے لازم ایمان اور
واجب العمل سمجھتے تھے اور سنت مبارکہ کے معاملہ میں کسی بھی عمل میں سنت کے تر ک
کو بالکل ناگوار سمجھتے تھے۔
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی آخری تمنا: امیر المومنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی وفات سے چند گھنٹے قبل حضرت سیدتنا
عائشہ صدیقہ رضی
اللہ تعالی عنہا سے سے دریافت فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کفن کے کتنے کپڑے تھے اور آپ کی وفات کس دن ہوئی اور
یہ سب پوچھنے کی وجہ یہ تھی کہ آپ کی انتہائی تمنا تھی کہ زندگی کے ہر لمحے میں نے
نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل
کیا ہے اور مرنے کے بعد بھی میرا کفن اور وفات کے دن کی مطابقت میں بھی آپ کی سنت
کی اتباع مجھے نصیب ہو جائے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ اور بھنی ہوئی بکری : ایک مرتبہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کا گزرایک ایسی جماعت پر ہوا جن کے سامنے
کھانے کے لئے مسلّم بکری بھنی پڑی تھی ۔ ان لوگوں نے آپ کو کھانے کی دعوت دی تو آپ
نے یہ کہہ کر کھانے سے انکار فرما دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے تشریف لے گئے اور کبھی جو کی روٹی
بھی پیٹ بھر کر نہ کھائی، میں بھلا ان لذیذ اور پر تکلف کھانوں کو کھانا کیسے
گوارا کروں گا۔
حضرت عباس رضی
اللہ تعالیٰ عنہٗ کاپرنالہ:
منقول ہے
حضرت عباس رضی
اللہ تعالی عنہ کا مکان مسجد
نبوی سے ملا ہوا تھا اس مکان کا پرنالہ بارش میں آنے جانے والے نمازیوں کے اوپر
گرا کرتا تھا امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس پرنالے کو اکھاڑ دیا حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ جناب
عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور عرض کیا کہ اللہ کی قسم اس پرنالے کو حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے میری گردن پر سوار ہوکر اپنے مقدس ہاتھوں
سے لگایا تھا تو امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا :اےعباس! مجھے اس بات کا علم نہ
تھا اب میں آپ کو حکم دیتا ہوں کہ آپ میری گردن پر سوار ہوکر اس پرنالے کو اپنے
ہاتھوں سے اسی جگہ لگا دیں چنانچہ ایسا ہی کیا گیا ۔
اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم : ہر امتی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ہے کہ امتی ہر حال میں ہر قدم پر نبی
کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے۔
قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا: کہ جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔
اور ایک دوسری جگہ پر قرآن پاک میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: ترجمہ :اور جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانے تو اس کو ان کا ساتھ ملے گا
جن پر انعام فرمایا یعنی انبیاء، صدیق اور شہید ،یہ کیا ہی اچھے ساتھی ہیں۔(سورۃ
النساء:69)
قرآن
پاک کی یہ مقدس آیات یہ واضح بیان کر رہی ہیں کہ اطاعت رسول کے بغیر اسلام کا
تصورہی نہیں کیا جاسکتا- صحابہ کرام نے اس سے لازم و ملزوم جذبے کو اختیار کیا ۔
کدو سے محبت :حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ ایک درزی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی میں بھی آپ کے ساتھ موجود تھا
انہوں نے روٹی اور شوربہ پیش کیا جس میں خشک گوشت کی بوٹیاں اور کدو کے ٹکڑے پڑے
تھے میں نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کدو کے ٹکڑے تلاش کرکے تناول فرماتے تھے اسی لئے میں اس دن سے ہمیشہ کدو
کو بہت محبوب رکھتا ہوں ۔
منقول ہے
حضرت امام ابو یوسف علیہ الرحمۃ کے
سامنے اس بات کا ذکر کیا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کدو بہت پسند تھا تو اس مجلس میں ایک شخص
نے کہا کہ میں اس کو پسند نہیں کرتا تو
آپ علیہ
الرحمۃ نے تلوار کھینچ لی
اورفرمایا اپنے ایمان کی تجدید کرو ورنہ میں تجھے قتل کر دوں گا۔
اللہ کریم ہمیں بھی
ایسے جذبۂ اطاعت سے مالا مال فرمائے ۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن
صلَّی اللہ تعالٰی
علیہ واٰلہٖ وسلَّم
صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان نے
اتّباع ِ سنّتِ مصطفےٰ سے بہت عظیم مقام پایا۔ ان کی اتباع کا جذبہ ایسا تھا کہ
نبیِّ کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی
ایسی کوئی ادا نہیں چھوڑی جس کو اپنی زندگی میں اپنایا نہ ہو، آسمانِ ہدایت کے ان دَرَخْشَنْدہ
ستاروں کی زندگی سنّتوں پر عمل کی خوشبو سے معطّر ہے۔
خاتم
ُالنّبیّین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اداؤں کو اپنانا، ان کے لئے کاربند رہنا
ان کی زندگی کا”جُزْءِ لَایَنْفَک“ بن چکا تھا، صحابۂ کرام میں سنّت کی پیروی کا جذبہ اس
قدر تھا کہ جس مقام پر جو کام حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
کیا تھا صحابۂ کرام وہی کام اسی مقام پر کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔
ایک
دن امیر ُالمؤمنین حضرت سیّدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ نے
مسجد کے دروازے پر بیٹھ کر بکری کی دستی کا گوشت منگواکر کھایا اور تازہ وضو کئے بغیر
نماز ادا کی پھر فرمایا کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
بھی اسی جگہ یہی کھایا تھا پھر اسی طرح کیا تھا۔
(مسند احمد
،1/137، حدیث:441)
اسی طرح ایک مرتبہ
سیّدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ وضو کرتے ہوئے مسکرانے لگے لوگوں نے وجہ پوچھی
تو فرمانے لگے میں نے ایک مرتبہ سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو
اسی جگہ پر وضو فرمانے کے بعد مسکراتے ہوئے دیکھا تھا ۔سبحٰن اللہ!
وضو کر کے خَنداں ہوئے شاہِ عثماں
جوابِ سوالِ
مخاطب دیا پھر
کسی کی ادا کو
ادا کر رہا ہوں
بہرحال اس اتّباع کی برکت سے صحابۂ کرام نے
سب کچھ حاصل کیا اور ان کا دستورِ عام یہی تھا کہ زندگی کے ہر شعبے میں حضورصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی سنّت سے رہنمائی حاصل کرتے، انہوں نے اپنی
عادات اپنے اخلاق اور اپنے طرزِحیات کو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے
رنگ میں رنگنے کی ہر ممکن کوشش کی۔
امیر المؤمنین حضرت
سیّدناابوبکر صدّیق رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات سے چند گھنٹے پیشتر اپنی صاحبزادی حضرت عائشہ صدّیقہ رضی
اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کے
کفن میں کتنے کپڑے تھے ؟حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی
وفات کس دن ہوئی؟ اس سوال کی وجہ یہ تھی کہ آپ رضی اللہ عنہ کی
آرزو تھی کہ کفن اور یوم ِوفات میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی
موافقت ہو۔
حیات میں حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی اتباع میں تھے ہی ممات میں بھی آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی
اتباع چاہتے تھے۔(بخاری،1/468، حدیث:1387،صحابہ کرام کا عشق رسول ،ص 67)
اے کاش صحابۂ
کرام علیہمُ
الرِّضوان کے قدموں کی دھول کے صدقے ہم بھی سچےّ عاشق ِرسول
بن جائیں۔ کاش ہمارا اٹھنا بیٹھنا ،چلنا پھرنا،کھانا پینا، سونا جاگنا، لینا دینا،جینا
مرنا میٹھے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی سنّت کے مطابق ہوجائے۔
محبت رسول یقیناً ایک مسلمان کے لیے بڑی کامیابی کی دلیل
ہے اور محبت رسول کا ثبوت سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل پیرا ہونے سے ملتا ہے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :"جس نے میری سنت کو زندہ کیا
گویا اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا ۔ (جامع
ترمذی، حصہ 5،ص 46)
یہ حقیقت ہے کہ جس سے جتنی زیادہ محبت ہوتی ہے اس کی اتباع
کا جذبہ بھی اسی قدر ہوتا ہے ۔ میرے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام علیہم الرضوان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بے حد محبت کرتے اور آپ کی ہر ہر ادا کو اپنانے
کا جذبہ رکھتے تھے ۔ ہم صحابہ کرام علیہم الرضوان کی زندگی کا مطالعہ کریں تو محبت رسول اور سنت رسول کی پابندی
سے ان کی زندگی کا ہر ہر گوشہ جگمگاتا نظر آئے گا ۔
اتباع سنت اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ :
حضرت ابوبکر صدیق
رضی اللہ
عنہ جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رفیق خاص ہونے کا شرف حاصل ہے انہوں نے زندگی
کے اکثر شب و روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں گزارے ، آپ پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ہر پہلو روز روشن کی طرح واضح تھا
اس لیے آپ نے اپنی زندگی کے ہر پہلو کو اسوہ حسنہ کے رنگ میں رنگ لیا تھا۔جس طرح نبی
کریم صلی
اللہ علیہ وسلم نے عبادت کی اسی
طرح آپ نے بھی عبادت کی یہاں تک کہ سونے، اٹھنے، بیٹھنے، چلنے پھرنے، کھانے، پینے،
کلام کرنے وغیرہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی فرماتے ۔ (برکات رسول، ص83)
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات سے صرف چند گھنٹے قبل حضرت سیدتنا
عائشہ صدیقہ رضی
اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کا وصال کس دن ہوا اور آپ کے
کفن کے کتنے کپڑے تھے ؟
اس سوال کی وجہ یہ تھی کہ آپ کی انتہائی تمنا تھی کہ زندگی
کے ہر قدم پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی فرماتے رہے اب وصال کے بعد بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع نصیب ہو جائے ۔ قربان جائیے سیدنا صدیق
اکبر رضی
اللہ عنہ پر! کہ زندگی کے ہر قدم
پر نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے
رہے اور مرنے کے بعد بھی محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہو جائے ۔(برکات سنت رسول، ص86)
اتباع سنت اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ : حضرت عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت محبت کرتے اور ہر عمل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی فرماتے کھانے ،پینے، اٹھنے، بیٹھنے،
چلنے، پھرنے غرض کہ ہر چیز میں اسوہ حسنہ کو پیش نظر رکھتے تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی ہمیشہ فقر و فاقہ میں گزاری اسی لیے
حضرت عمر رضی
اللہ عنہ نے بھی روم و ایران کی
شہنشاہی ملنے کے بعد بھی فقر و فاقہ کی زندگی کا ساتھ نہ چھوڑا حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کا بیان ہے کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا حجر اسود کو بوسہ دیتے اور فرماتے تھے
مجھے معلوم ہے تو ایک پتھرہے اگر میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے
ہر گز بوسہ نہ دیتا ۔
پیاری اسلامی بہنوں! عشق رسول تو دیکھیے حجر اسود کو بوسہ
دینا عبادت ہے اس کی فضیلت میں متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں مگر عاشقوں کا مزاج تو دیکھیں
کہ جو محبوب نے کیا وہ کریں گے ۔
(برکات سنت رسول، ص 88)
صحابہ کرام علیہم الرضوان سنتوں کے اس قدر پابند تھے کہ ان کی ہر ہر ادا سے محبت رسول
اور عشقِ مصطفیٰ دکھائی دیتا ہے آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم بھی خود کو سنتوں کا پابند
بنائیں تاکہ ہماری دنیا اور آخرت سنور جائے۔
صحابہ کرام علیہم الرضوان کے صدقے اللہ کریم ہمیں بھی سنتوں پر عمل کا جذبہ عطا فرمائے ۔
اٰمِیْن
بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
صحابہ کرام علیھم الرضوان سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ہر ہر سنت پر عمل کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے
اور ہر معاملے میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمکی اتباع کرتے تھے چاہے ان کا تعلق آپ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنت عادیہ سے ہی کیوں نہ ہو۔
صحابہ کرام علیھم الرضوان کی سنتوں سے محبت اور ان پر عمل کرنے
کا اندازہ ان مندرجہ ذیل واقعات سے لگایا جاسکتا ہے۔
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ
کا سنت پر عمل کا جذبہ:
حضرت سیدتنا
ام درداء رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں
کہ حضرت سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ جب
بھی بات کرتے تو مسکرا دیتے ۔آپ رضی اللہ عنہا
فرماتی ہیں میں نے سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ سے
عرض کی کہ آپ رضی اللہ عنہ اس عادت کو
ترک فرما دیجیئے ورنہ لوگ آپ کو احمق سمجھنے لگیں گے تو سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں نے جب بھی رسول اللّٰہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمکو بات کرتے
دیکھا یا سنا آپ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مسکراتے تھے۔(یعنی میں بھی اس سنت پر عمل کی نیت
سے ایسا کرتا ہوں)۔(مسند احمد،مسند الانصار، باقی حدیث ابی الدرداء رضی اللہ عنہ 171/8, حدیث 21791)
حضرت
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا سنت پر عمل کرنے کا جذبہ:
حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی
اللہ عنہ بہت زیادہ متبع سنت تھے آپ رضی
اللہ عنہ کو جب بھی کوئی سنت معلوم ہوجاتی تو اس کی بجا آوری میں کسی
قسم کی پس و پیش کا مظاہرہ نہ فرماتے۔ چنانچہ
ایک بار کسی
مقام پر آپ رضی اللہ عنہ اونٹنی کے
ساتھ پھیرے لگا رہے تھے یہ دیکھ کر لوگوں کو تعجب ہوا پوچھنے پر ارشاد فرمایا: ایک
بار میں نے مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہاں
اسی طرح کرتے دیکھا تھا لہذا آج میں اس مقام پر اسی ادائے مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ادا کررہا ہوں۔(شرح شفاء، القسم الثانی
الباب الاول، فصل واما ورد عن السلف والائمة، من اتباع سنة ٣٠/٢)
بتاتا
ہوں تم کو میں کیا کر رہا ہوں
میں
پھیرے جو ناقے کو لگوارہا ہوں
مجھے
شادمانی اسی بات کی ہے
میں
سنت کا ان کی مزہ لے رہا ہوں
اللّٰہ پاک
ہمیں بھی صحابہ کرام علیھم الرضوان کے
سنت پر عمل کرنے کے جذبے کے صدقے متبع سنت بنائے آمین ثم آمین یارب العالمین بجاہ النبی الامین صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلّم
صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ
تَعَالٰی عَنْہُم کا سنت پر عمل کا
جذبہ بہت ہی منفرد اور نرالہ ہوا کرتا تھا آئیے ہم صحابہ کرام کے سنت پر عمل کے
جذبے کے چند واقعات ملاحظہ کرتے ہیں :
حضرت عمر
فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ حجرِ اسود کے پاس آئے اور اسے بوسہ دے کر فرمایا
’’خدا کی قسم! میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے،نہ نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان۔
اگر میں نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو تجھے بوسہ دیتے نہ
دیکھا ہوتا تو تجھے میں ہر گز بوسہ نہ دیتا۔
(مسلم، کتاب
الحج، باب استحباب تقبیل الحجر الاسود فی الطواف، ص ۶۶۲ ،الحدیث: ۲۵۱)
حضرت عثمانِ
غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے
ایک بار پانی منگوایا اور وضو کیا، پھر آپ مسکرانے لگے اور ساتھیوں سے فرمایا ’’
کیاتم مجھ سے اس چیز کے بارے میں پوچھو گے نہیں جس نے مجھے مسکرایا؟ انہوں نے عرض
کی: اے امیرُ المؤمنین! رَضِیَ اللہُ
تَعَالٰی عَنْہُ، آپ کس چیز کی وجہ سے مسکرائے تھے؟ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا
’’ایک بارحضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے
ا س جگہ کے قریب ہی وضو فرمایا تھا اور فراغت کے بعد مسکرائے تھے اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے فرمایا تھا ’’کیاتم مجھ سے پوچھو گے نہیں کہ
کس چیز نے مجھے مسکرایا؟ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ
تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی : یارسولَ اللہ
!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، کس چیز نے
آپ کو مسکرایا؟ تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے
ارشاد فرمایا ’’بندہ جب وضو کا پانی منگوائے پھر اپنا چہرہ دھوئے تواللہ تعالیٰ اس کے چہرے کے گناہ مٹا دیتا ہے،پھر
اپنی کہنیاں دھوئے تو کہنیوں کے ،سر کا مسح کرے تو سر کے اور اپنے قدموں کو دھوئے
تو قدموں کے گناہ مٹا دیتا ہے۔ (تو میں نے انہی کی ادا کو اداء کیا ہے )
(مسند
امام احمد، مسند عثمان بن عفان ،الحدیث: ۴۱۵)
حضرت عبداللہ بن
عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما ایک
جگہ اپنی اونٹنی کو چکر لگوا رہے تھے ۔ لوگوں نے ان سے اس کا سبب پوچھا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا’’ میں (اس کی حکمت) نہیں جانتا، مگر
اس جگہ میں نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو
ایسا کرتے دیکھا تھا اس لئے میں بھی ایساکر رہا ہوں۔
(شفا شریف،
الباب الاول: فرض الایمان بہ، فصل واما ما ورد عن السلف فی اتباعہ، ص۱۵ ، الجزء الثانی )
ان واقعات کو
ملاحظہ کرنے کے بعد ہمارے اندر بھی یہ جذبہ ہونا چاہیے کہ ہم پیارے آقا صلی اللہ
علیہ وسلم کی سنت پر عمل کریں اور دوسروں کو بھی ترغیب دلائیں ۔آئیے سنت پر عمل
کرنے والوں کے لیے خوشخبری مالاحظہ فرمائیے۔
حضرت سیّدنا
ابوہُریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا: مَنْ تَمَسَّکَ بِسُنَّتِی عِنْدَ
فَسَادِ اُمَّتِی فَلَہُ اَجرُ مِائَۃِ شَہِیْدٍ ترجمہ : جو
فسادِ امّت کے وقت میری سنّت پر عمل کرے گا اسے سو شہیدوں کا ثواب ملے گا۔
(مشکاۃ
المصابیح،1،ص55، حدیث: 176)
تِری
سنتوں پہ چل کرمِری روح جب نکل کر
چلے
تو گلے لگانامدنی مدینے والے
صحابہ کرام علیہم الرضوان سرکار خیرالانام صلی اللہ علیہ وسلمکی ہر سنت کو دیوانہ وار اپنایا کرتے اور آپ
کی ہر ہر ادا کو ادا کرنے کے لیے بے تاب رہا کرتے تھے اور اتباع سنت کی ترکیب
بناتے ہیں ۔
حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک بار ایک مقام پر پانی منگوایا اور وضو کیا پھر اچانک مسکرانے
لگے پھر! فرمایا میرے مسکرانے کی وجہ جانتے ہو؟ پھر خود ہی ارشاد فرمایا ایک بار
سرکار عالی وقار صلی اللہ علیہ وسلم
نے اسی جگہ پر وضو فرمایا تھا اور فراغت کے بعد مسکرا کر صحابہ کرام سے اچھا
فرمایا تھا جانتے ہو میں کیوں مسکرایا ہوں صحابہ نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں پھر پیارے آقا
صلی اللہ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
بندہ جب وضو کرتا ہے تو ہاتھ دھونے سے ہاتھوں کے ،چہرہ دھونے سے چہرے کے ،سر کا
مسح کرنے سے سر کے اور پاؤں دھونے سے پاؤں کے گناہ جھڑ جاتے ہیں۔
حضرت عبیدہ بن جریج رضی اللہ عنہ نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہسے عرض کیا :کہ میں نے دیکھا آپ بیل کے دباغت
کیے ہوئے چمڑے کابے بال جوتا پہنتے ہیں تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا: کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ایسا ہی جوتا پہنتے تھے جس میں بال
نہ ہو ں اسی لیے میں بھی ایسا جوتا پہننا پسند کرتا ہوں۔
(صحیح بخاری، کتاب
الوضوء. باب غسل الرجلین،حدیث: 166،ج1،ص40)
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک درزی نے رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کی کھانے کی دعوت کی
میں بھی آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا ۔
جو کی روٹی اور شوربہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے سامنے لایا گیا جس میں کدواور خشک کیاہوانمکین گوشت تھا ۔ کھانے کے دوران میں
نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کدو کی خاشیں(ٹکڑے ( تلاش کرکے تناول فرما رہے ہیں اسی
لیے اس دن سے میں بھی کدو کو پسند کرنے لگا۔
(صحیح بخاری، کتاب
الاطعمہ، باب الدباء،حدیث 5433،ج3،ص534)
سبحان اللہ!
ہمارے صحابہ کرام کا سنت پر عمل کا جذبہ شاندار تھا اللہ عزوجل ہمیں بھی پیارے آقا صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی سنتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے
سنتوں کا عامل بنائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن
صلَّی اللہ تعالٰی
علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محبت کا ایک
اصول ہے کہ آدمی اگر اپنی محبت میں کامل اور سچا ہو تو وہ محبت اسے محبوب کی اطاعت
پر مجبور کر دیتی ہے، اور نبی کریم علیہ الصلوة والتسلیم سے
محبت و اطاعت شریعت کو مطلوب بھی ہے، اور یہ ایمان کی تکمیل کا ذریعہ بھی ہے اور اللہ عزوجل سے محبت کا اظہار بھی کیونکہ ارشاد
باری تعالی ہے ۔قُلْ اِنْ
كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ
لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱)اے
حبیب! فرما دو کہ اے لوگو! اگر تم اللہ سے
محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبردار بن جاؤ اللہ تم
سے محبت فرمائے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور
اللہ
بخشنے والا مہربان ہے۔
شرطِ ایمان
مصطفی سے پیار ہے، پیار پیروی ہے اور پیروی دشوار ہے... ایک مقام پر مصطفی جان
رحمت صلی اللہ علیہ و سلم اپنی
اطاعت اور دین سے محبت کی ضرورت و اہمیت بیان کرتے ہوئےارشاد فرماتے ہیں: لایومن احدکم حتی یکون ھواہ تبعا لماجئت بہ ،تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن
کامل نہیں ہوسکتا جب تک اسکی نفسانی خواہشات اس شریعت کے تابع نہ ہوجائیں جسے میں
لایا ہوں ۔ (مشکوة المصابیح باب الاعتصام بالکتاب والسنة )
صحابہ کرام علییھم
الرضوان نبی پاک کے سچے جانثار اور آقا علیہ
الصلوة والسلام کے مکمل تابعدار تھے، انھوں نے نہ صرف اپنے افعال کو حضور کے
افعال کی اتباع میں کیا بلکہ اپنی طبیعتوں کو ہی آقا کریم کے طریقے کے مطابق ڈھال
لیا، اور اپنی خواہشات تک کو مرضی محبوب میں فنا کردیا تھا۔
صحابہ کرام کے ادب رسول کو دیکھا جائے تو وہ
کمال نظر آتا ہے انھوں نے اپنی آوازوں کو رسول
اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی آواز سے پست کر دیا، اپنی نظریں
جھکا کے رکھتے، حضرت عبداللہ ابن
زبیر رضی اللہ عنہ نے جب آقا
کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے
پچھنے لگوائے تو خون مصطفی کو زمین پر نہ گرنے دیا، أم المؤمنین حضرت ام احبیبہ رضی اللہ عنہا کے والد جب تک ایمان نہیں لائے تب تک
انکو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے
بستر مبارک پر نہیں بیٹھنے دیا، صحابہ کرام علیہم
الرضوان حضور صلی اللہ علیہ
و سلم
کے آگے نماز پڑھنے کو بے ادبی سمجھتے تھے، حضور کے قرابت داروں کا خیال رکھتے تھے۔
اور اگر
صحابہ کرام علیہم الرضوان کی تعمیل
حکم مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کو
دیکھا جائے تو دیکھا جاسکتا ہے، صحابہ کرام علیہم
الرضوان کی کوشش ہوتی کہ انکا ایک ایک عمل تمنائے رسول صلی اللہ علیہ و سلم ،حب رسول صلی اللہ علیہ و سلم ،خدمت رسول صلی اللہ علیہ و سلم اور اتباع رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے مطابق ہو، لہذا اس سلسلہ
میں ان بے مثال ہستیوں کی بہت سی مثالیں
موجود ہیں
جیسے حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی
اللہ عنہ مسجد کی طرف آ رہے تھے، آقا کریم صلی
اللہ علیہ و سلم نے خطبہ دیتے ہوئے سامنے کھڑے کسی آدمی کی طرف اشارہ کرتے
ہوئے ارشاد فرمایا : اجلسوہ،
اسکو بٹھادو، حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ
حکم اگرچہ عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے لیے نہیں تھا مگر جونہی انکے کان
میں یہ آواز پڑی مسجد کے باہر ہی صحابہ کے راستے میں بیٹھ گئے، جب حضور صلی اللہ علیہ
و سلم
فارغ ہوئے تو انکے جذبہ اطاعت کو دیکھتے ہوئے دعا دی : ”زادک
اللہ حرصا علی طواعتیہ اللہ وطواعتیہ رسولہ “اللہ
کریم
تمہاری اللہ عزوجل و رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی فرمانبرداری میں مزید
اضافہ فرمائے ۔ (الاصابہ، ابن حجر، 66/4)
شراب کی حرمت
سے پہلے حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ
ان دنوں فضیح نامی شراب کا بہت رواج تھا، پھر شراب کی حرمت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ایک منادی
کو اس بات کا اعلان کرنے کا حکم ہوا کہ شراب حرام ہوگئ ،
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہ سنتے ہی حضرت ابو
طلحہ نے کہا باہر جاکر اس شراب کو بہا دو، چنانچہ میں نے نکل کر شراب بہا دی، پس
اعلان ہونے کے بعد شراب مدینے کی گلیوں میں بہنے لگی،( حب رسول اور صحابہ کرام،
مظا ہر محبت، ص 199)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی
اللہ عنہ کا بیان ہے عید کے دن نبی کریم صلی
اللہ علیہ و سلم عید گاہ کی طرف تشریف لے گئے پھر آپ نے دو رکعت نماز عید پڑھی،
آپ نے نماز عید سے پہلے نہ کوئی نفل نماز پڑھی نہ فوراً بعد ، پھر آپ خواتین کی
طرف تشریف لائے اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ بھی
آپکے ہمراہ تھے آپ نے انھیں وعظ و نصیحت فرمائی، اور پھر انھیں حکم دیا کہ راہ خدا
میں کچھ حسب توفیق صدقہ دیں ۔زبان نبوی صلی
اللہ علیہ و سلم سے سننے کی دیر تھی کہ خواتین اپنے کنگن اور بالیاں حضرت بلال
رضی اللہ عنہ کے کپڑے میں ڈالنے لگیں۔
( بخاری
شریف کتاب الزکوة)
ایک مرتبہ نبی
رحمت شفیع امت صلی اللہ علیہ و سلم نے
اپنے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے
فرمایا کبھی کسی سے سوال نہ کرنا حضرت ثوبان رضی
اللہ عنہ نے فرمان رسول صلی اللہ علیہ
و سلم
کا اسقدر پاس کیا کہ عمر بھر کسی سے دست سوال دراز نہ کیا حتی کہ اگر سواری پر بیٹھے
چابک ہاتھ سے گر جاتا تو خود اتر کر اٹھا لیتے، مگر کسی کو پکڑنے کے لئے نہ کہتے۔(
مسند احمد بن حنبل . 277/5)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی
اللہ عنہ ایک جگہ اپنی اونٹنی گھما رہے تھے، اس پر ان سے پوچھا گیا کہ
بلا ضرورت یہ مشقت کیوں اٹھائی، تو انھوں نے فرمایا میں خود اسکی وجہ نہیں جانتا
سوائے اس کے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و
سلم
کو اس طرح اونٹنی گھماتے دیکھا تھا، لہذا میں نے بھی یہ کام کیا۔( قاضی عیاض شفاء
شریف 15/2)
یقیناً چشم
فلک اور تاریخ انسانیت نے ایسا اتباع سنت کا جذبہ کہیں نہ دیکھا ہوگا، کہ حضور
اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے
نماز میں بیت المقدس سے بیت اللہ کی
طرف رخ پھیرا تو صحابہ کرام علیہم الرضوان نے
بھی اپنا منہ نماز کی حالت میں ہی پھیر دیا، حضور اکرم صلی
اللہ علیہ و سلم نے نماز میں جوتے اتارے تو صحابہ کرام علیہم
الرضوان نے بھی اتار دیے۔(
( ابو داؤد
کتاب الصلوة)
آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے انگوٹھی اتاری تو صحابہ کرام نے بھی اتار دی،
اتباع نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں
کسی صحابی نے بھی کسر نہیں چھوڑی مگر جو جذبہ حضرت عبد
اللہ
بن عمر رضی اللہ عنہ کو ملا قابل
رشک ہے کہ انکے بارے میں معروف تابعی انکے آزاد کردہ غلام حضرت نافع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: لو رأیت ابن عمر یتبع آثار رسول اللہ لقلت ھذا مجنون ،اگر تم حضرت عبد
اللہ
بن عمر رضی اللہ عنہ کے اتباع
سنت کو دیکھ لیتے تو کہہ اٹھتے کہ یہ مجنون ہے۔(حاکم للمستدرک، باب معرفة
اصحابہ،561/3)
اللہ کریم
ہمیں اصحاب رسول کی کامل اتباع کا صدقہ آقا کریم صلی
اللہ علیہ و سلم کی اتباع کی توفیق رفیق مرحمت فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی
علیہ واٰلہٖ وسلَّم
صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت پر عمل کرنے کے بہت زیادہ دلدادہ اور
شوقین تھے جو کام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار کیا صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اس کو بھی جاری رکھتے۔
قرآن
کریم کی روشنی میں: فَلَا تُزَكُّوْۤا اَنْفُسَكُمْؕ-هُوَ اَعْلَمُ
بِمَنِ اتَّقٰى۠ تَرجَمۂ کنز الایمان: آپ اپنی جانوں کو ستھرا نہ بتاؤ وہ خوب جانتا ہے جو پرہیزگار ہیں۔ (سورۃ
النجم:32 )
احادیث کی روشنی میں :نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے
کسی کا دامن پکڑ لو کامیاب ہو جاؤ گے ۔
قرہ سے روایت ہے
کہ میں ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کے دست اقدس پر بیعت کی اس
حالت میں کہ آپ کی قمیض کا ایک بٹن کھلا ہوا تھا، قرہ نے کہا کہ میں نے معاویہ بن
قرہ اور ان کے بیٹے کو دیکھا کہ ان کی قمیض کا بٹن سردی گرمی میں ہمیشہ کھلا ہوا
رہتا تھا۔
صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین میں اس قدر اتباع رسول کا جذبہ تھا کہ جب
انہوں نے دیکھا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قمیض کا بٹن کھلا ہوا ہے تو انہوں نے سردی گرمی کی
پرواہ کیے بغیر ہمیشہ اس عمل کو اختیار کیا۔
عشق رسول اگر پورے طور پر دل میں جاگزیں ہو تو
اتباع رسول کا ہونا ناگزیر بن جاتا ہے احکام الہی کی تعمیل اور سیرت کی پیروی عاشق
رسول کی رگ رگ میں سما جاتی ہے،دل و دماغ اور جسم و روح پر کتاب وسنت کی حکومت
قائم ہو جاتی ہے ،مسلمان کے معاشرت سنور جاتی ہے اور آخرت نکھر جاتی ہے تہذیب و
ثقافت کے جلوے بکھرتے ہیں اور بے مایہ انسان میں وہ قوت رونما ہوتی ہے جس سے جہاں
بینی اورجہاں بانی کے جوہر کھلتے ہیں۔
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
اس عشقِ کامل کے طفیل صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ
علیہم اجمعین کو دنیا میں
اختیار و اقتدار اور آخرت میں عزت و وقار ملا یہ ان کے عشق کا کمال تھا کہ مشکل سے
مشکل گھڑی اور کٹھن سے کٹھن وقت میں بھی اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے انحراف گوارا نہ تھا۔
آیئے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کا اتباع رسول پڑھتے ہیں:
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہاتباع رسول میں اپنی مثال آپ تھے سردی گرمی
کی پرواہ کئے بغیر اپنے اقوال و افعال میں محبوب رب ذوالجلال صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتیں اور ادائیں خوب اپناتے تھے۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہنے مسجد کے دروازے پر بیٹھ کر بکری کی دستی
کا گوشت منگوایا اور کھایا اور بغیر تازہ وضو کیے نماز ادا کی اور فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی جگہ بیٹھ کر یہی کھایا تھا اور
یہی کیا تھا ۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ ایک بار وضو کرنے کے بعد مسکرائے ان سے سبب
پوچھا گیا تو فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ یہاں بیٹھ کر وضو فرمایا اور اس کے بعد
مسکرائے اسی لیے میں نےبھی ایسے کیا۔
ہمارے پیارے رب عزوجل نے اپنے محبوب کی پیروی
کا حکم ارشاد فرمایا اور پیروی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کی برکت سے ہی ہوسکتی ہے چنانچہ ارشاد
باری تعالی ہے: لَقَدْ
كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ترجمہ کنزالایمان :بے شک تمہیں رسول کی پیروی بہتر ہے۔(سورہ
احزاب 21)
مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان
نعیمی رحمۃ
اللہ علیہ اس آیتِ کے متعلق لکھتے ہیں: اس سے معلوم ہوا کامیاب زندگی وہی ہے جو ان کے نقش قدم پر ہو، ہمارا جینا
مرنا سونا جاگنا سب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشے قدم پر ہو، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کوششوں پر عمل پیرا ہو تے ہوے زندگی بسر کرنی چاہیےصحابہ کرام ایسی
مبارک ہستیاں تھیں جن کی ہر ہر ادا سنت مصطفی کی آئینہ دار ہوا کرتی تھی ہر مال
میں سنتوں پر عمل کرتے ہوئے زندگی کے تمام تر معاملات میں حضور کی سنتوں کو اپناتے
تھے ۔ آئیے سنتے ہیں کہ صحابہ کرام کس طرح
سنتوں پر عمل پیرا ہوتے تھے ۔
حضرتِ سیِّدُنا اَنَس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:''ایک خَیّاط (درزی۔ Tailor) نے سرکار نامدار، مدینے کے تاجدارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کو مَدعُو کیا تو میں
بھی ساتھ چلاگیا، اُس نے جَوشریف کی روٹی اورشوربہ پیش کیا جس میں کدُّوشریف
اورخُشک گوشت کی بوٹیاں تھیں۔ میں نے دیکھاکہ سرکارِدوعالم،نورِ مُجسَّم،شاہِ
بنی آدم صلَّی
اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
پیالے کے کِناروں سے کَدّو شریف ڈھونڈکر تَناوُل فرما رہے تھے۔ اس دِن کے بعد میں
ہمیشہ کدّو شریف پسند کرنے لگا۔ (صَحِیْح مسلِم ص۱۱۲۹حدیث ۲۰۴۱
دارابن حزم بیروت )
ماشاءاللہ! بہت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا سنت پر عمل کرنے کا جذبہ کے اپنے محبوب
کی ادا کو اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے سوتے جاگتے ہر ہر وقت سنت پر عمل کی کوشش میں
لگے رہتے۔
حضرت حضرت علی بن
حصیر رضی
اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ
میں نے حضرت رھبہ رضی اللہ عنہ کو خواب میں دیکھا اور پوچھا "ما فعل اللہ بک" فرمایا کہ آپ کے ساتھ کیا معاملہ
فرماحضرت رھبة رحمۃ
اللہ علیہ نے جواب دیا کہ اللہ نے میری مغفرت فرما دی، میں نے پوچھا کس بات
سے ؟فرمایا سنت پر عمل کی برکت سے ۔
سنا آپ نے سنا سنت مصطفی پر عمل کی برکت سے مغفرت بھی ہو جاتی
ہے حقیقی عشقِ رسول بھی نصیب ہوتا ہےاللہ کریم کی نعمتیں چھما چھم برستی ہیں اور رب کی رضا نصیب ہوتی ہے اور
دونوں جہانوں کی کامیابیاں نصیب ہوتی ہیں۔
حضرت
نافع سے روایت ہے حضرت عبداللہ بن
عمر جب نبینا ہو گئے کہا کہ آپ مجھے بازار
لے چلو میں نے ہاتھ پکڑا اور باہر لے کر
آیا تھوڑی دور تک چلے اور پھر فرمایا واپس لے چلو میں نے عرض کی حضور کام تو آپ نے
کچھ بھی نہ کیا؟ فرمایا آئے ہوئے چند لوگوں کے ساتھ سلام و جواب ہوا ہے ۔
فرمایا: بس میں یہی کام کے لئے آیا تھا تاکہ
مسلمان بھائیوں کے ساتھ سلام اور اس کا جواب دینے کی سنت پر عمل ہو صحابہ کرام کا
نبی پاک صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ
عملی تعلق تھا وہ اب وہ ایسا صاف و شفاآئینے میں اپنا چہرہ دیکھتے تھے اس کی روشنی
میں اپنے اعمال و کردار اصلاح کرتے تھے اور سنت کے ذریعے اپنے لوگوں کو جگاتے تھے
اللہ
کریم ہمیں پیارے آقا کی سنتوں سے محبت اور ان ان پر عمل
کا جذبہ عطا فرمائے ۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن
صلَّی اللہ تعالٰی
علیہ واٰلہٖ وسلَّم