صحیح
بخاری میں سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ
سے مروی ہے کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ
بنی عمرو بن عوف میں صلح کرانے کے واسطے
تشریف لے گئے، جب نماز کا وقت ہوا
مؤذن نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ
سے پوچھا: کیا آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں گے؟ تاکہ میں اِقامت کہوں، فرمایا: ہاں!اور انہوں نے امامت کی اس
عرصہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم
تشریف لائے اور صف میں قیام فرمایا، جب نمازیوں نے حضور کو دیکھا تو تصفیق ( بائیں ہاتھ کی پُشت پر دائیں ہاتھ کی انگلیاں اس طرح مارنا شروع کی کہ آواز پیدا ہو) کی، اس غرض سے کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ خبردار ہوجائیں، کیونکہ ان کی عادت تھی کہ نماز میں کسی
طرف توجہ نہ کرتے تھے، جب صدیق اکبر
رضی اللہ عنہ
نے تصفیق کی آواز سُنی تو گوشہ چشم سے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں، لہذا پیچھے ہٹنے کا قصد کیا اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ سے فرمایا کہ اپنی جگہ پر قائم رہو ، صدیق
اکبر رضی اللہ عنہ نے
دونوں ہاتھ اٹھائے، اس نواز ش پرکہ حضور صلی
اللہ علیہ وسلم نے مجھے امامت کا حکم فرمایا، اللہ
پاک کا شکر ادا کیا اور پیچھے ہٹ کر صف میں کھڑے ہو گئے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے، جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: یَا اَبَا بَکْرِمَا مَنَعَکَ اَن َتَثْبُتَ اِ ذّ
اَمَرّتُکَ
ترجمہ:ابوبکر !جب میں خود تمہیں حکم کر چکا تھا تو تمہیں اپنی جگہ پر کھڑے رہنے سے کون سی
چیز مانع تھی؟ عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابو
قحافہ کا بیٹا اس لائق نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے
بڑھ کر نماز پڑھائے، میں کیسے یہ کر
سکتا ہوں۔
حضرت عبداللہ
بن عباس رضی اللہ عنہ
سے روایت ہے فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک
شخص کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی، آپ نے اس کو نکال کر پھینک دیا اور فرمایا: کیا تم میں سے کوئی چاہتا ہے کہ آگ کا انگارہ اپنے ہاتھ
میں ڈالے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لے جانے کے بعد
کسی نے اس شخص سے کہا، تو اپنی انگوٹھی
اُٹھا اور بیچ کر اس سے فائدہ اٹھا، اس نے جواب دیا: نہیں، اللہ پاک کی قسم میں اسے کبھی نہیں
لوں گا، جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پھینک دیا ہے تو میں
اسے کیسے لے سکتا ہوں،وَ
اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ تَرجَمۂ کنز الایمان: اور حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔
(المائدہ:92 )
احادیث مبارکہ :
حضور
صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام
اعمال کی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پیروی کیا کرتے تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم جس جگہ، جس مسجد میں نماز ادا کرتے تھے تو صحابہ
کرام رضی اللہ عنہم بھی وہیں
پر نماز ادا کیا کرتے تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم جس جگہ بیٹھ کر ذکر و دُرود کرتے تھے تو صحابہ
کرام رضی اللہ عنہم
بھی وہیں پر ذکر و درود اور عبادت کرتے تھے، جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم بچوں سے بے حد محبت کرتے
اور انہیں دینِ اسلام کی اچھی باتیں اور کام سکھاتے تھے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی بچوں سے بے حد محبت کرتے اور انہیں دینِ اسلام کی اچھی باتیں اور کام سکھاتے تھے۔
حضرت
عثمان غنی رضی اللہ عنہ ایک بار ایک مقام پر پہنچ کر پانی منگوایا اور وُضو کیا اور اَچانک مُسکرانے لگے، آپ نے لوگوں سے اِرشاد فرمایا: پتہ ہے میں
کیوں مُسکرایا؟ تو پھر خود ہی جواب اِرشاد فرمایا: میں نے ایک مرتبہ سرکارِ نا مدار
صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی
جگہ وُضو فرمایا اور بعدِ فراغت مُسکرائے تھےاور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم
سے فرمایا: جانتے ہو میں کیوں مسکرایا؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم
نے عرض کی، واللہ ورسولہ اعلم
یعنی اللہ اور
رسول بہتر جانتے ہیں، آپ نے فرمایا : جب آدمی وضو کرتا ہے تو ہاتھ دھونے سے ہاتھوں کے ، چہرہ دھونے سے چہرے کے اور سر کا مسح
کرنے سے سر کے اورپاؤں دھونے سے پاؤں کے گناہ جڑھ جاتے ہیں۔
وضو کرکے خنداں ہوئے شاہِ عثُماں
کہا کیوں تبسّم بھلا کر رہا ہوں
جواب ِ سُوالِ مُخالف دیا پھر
کسی کی اَدا کو اَدا کر رہا ہوں
سرکار
کی پسند اپنی پسند:
حضرت
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی
ہے کہ ایک
درزی نے پیارے مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی، میں بھی آپ کے ساتھ شریک ہو گیا، کھانے میں روٹی کے ساتھ کدو ملا گوشت کا سالن پیش کیا گیا، میں نے آپ صلی اللہ
علیہ وسلم
کو کدو شریف تلاش کر کے تناول فرماتے دیکھا، اُس دن کے بعد سے میں کدو شریف کو بہت
پسند کرتا ہوں۔
سُبحان
اللہ!صحابہ
کرام رضی اللہ عنہم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کا کیا جذبہ تھا کہ جس کام کا حکم ارشاد نہیں فرمایا، پھر بھی یہ لوگ آپ کی ہر ادا اپنانے کا شوق رکھتے تھے۔
پتلی پتلی گُلِ قدس کی پتیاں
اُن لبوں کی نزاکت پہ لاکھوں سلام
جس کی تسکیں سے روتے ہوئے ہنس پڑے
اس تبسم کی عادت پہ لاکھوں سلام