
فحش، فاحشۃ، فواحش و فحشاء کے الفاظ عام طور پر بدکاری
اور عمل قوم لوط کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ بےحیائی پھیلنے کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں:
ایک یہ کہ خود فحش پھیلے اور دوسری یہ کہ فحش کا الزام اور بہتان عام ہو جائے۔ دونوں
چیزوں سے مسلم معاشرے پر برے اثرات مترتب ہوتے ہیں اور ساتھ بہتان عائد کرنا مقام انسان
کے خلاف ہے اور کسی مؤمن کے وقار کو مجروح کرنا خود بڑا جرم ہے۔
بےحیائی کے متعلق اللہ کریم نے ارشاد فرمایا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ
اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ
18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا
پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں
جانتے۔
اس آیت کا معنی یہ ہے کہ وہ لوگ جو یہ ارادہ کرتے اور
چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی کی بات پھیلے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک
عذاب ہے۔ دنیا کے عذاب سے مراد حد قائم کرنا ہے، چنانچہ عبد اللہ بن ابی، حضرت حسّان
اور حضرت مسطح رضی اللہ عنہما کو حدلگائی گئی اور آخرت کے عذاب سے مراد یہ ہے کہ اگر
توبہ کئے بغیر مر گئے تو آخرت میں دوزخ ہے۔ مزید فرمایا کہ اللہ تعالیٰ دلوں کے راز
اور باطن کے احوال جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ (مدارک، ص 774)
اشاعت فاحشہ میں ملوث افراد کو نصیحت: اشاعت
سے مراد تشہیر کرنا اور ظاہر کرنا ہے جبکہ فاحشہ سے وہ تمام اقوال اور افعال مراد ہیں
جن کی قباحت بہت زیادہ ہے اور یہاں آیت میں اصل مراد زنا ہے۔ (روح البیان، 6 / 130 ملخصاً) البتہ
یہ یاد رہے کہ اشاعت فاحشہ کے اصل معنیٰ میں بہت وسعت ہے چنانچہ اشاعت فاحشہ میں جو
چیزیں داخل ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں:
(1)کسی پر لگائے گئے بہتان کی اشاعت کرنا۔
(2)کسی کے خفیہ عیب پر مطلع ہونے کے بعد اسے پھیلانا۔
(3)علمائے اہلسنّت سے بتقدیر الٰہی کوئی لغزش فاحش واقع
ہو تو ا س کی اشاعت کرنا۔
(4) حرام کاموں کی ترغیب دینا۔
(5) ایسی کتابیں لکھنا، شائع کرنا اور تقسیم کرنا جن
میں موجود کلام سے لوگ کفر اور گمراہی میں مبتلا ہوں۔
(6) ایسی کتابیں، اخبارات، ناول، رسائل اورڈائجسٹ وغیرہ
لکھنا اور شائع کرنا جن سے شہوانی جذبات متحرک ہوں۔
(7)فحش تصاویر اور وڈیوز بنانا، بیچنا اور انہیں دیکھنے
کے ذرائع مہیا کرنا۔
(8)ایسے اشتہارات اور سائن بورڈ وغیرہ بنانا اور بنوا
کر لگانا، لگوانا جن میں جاذبیت اور کشش پیدا کرنے کے لئے جنسی عریانیّت کا سہارا لیا
گیا ہو۔
(9) حیا سوز مناظر پر مشتمل فلمیں اور ڈرامے بنانا،ان
کی تشہیر کرنا اور انہیں دیکھنے کی ترغیب دینا۔
(10) فیشن شو کے نام پر عورت اور حیا سے عاری لباسوں
کی نمائش کرکے بے حیائی پھیلانا۔
احادیث میں بھی اس بارے میں ممانعت بیان فرمائی گئی
ہیں۔ ذیل میں چند احادیث ملاحظہ ہوں:
فرمان مصطفٰی
ﷺ ہے : حضور جان عالم ﷺ نے فرمایا اس شخص پر جنت حرام ہے جو فحش گوئی (بے حیائی کی
بات) سے کام لیتا ہے۔ (الجامع الصغیر للسیوطی، ص 221، حدیث: 3648)
منقول ہے چار طرح کے جہنمی جو کھولتے پانی اور آگ کے
مابین بھاگتے پھرتے ویل و ثبور مانگتے (ہلاکت) مانگتے ہو گے ان میں سے ایک شخص وہ کے
جس کے منہ سے خون اور پیپ بہتے ہوں گے جہنمی کہیں گے اس بد بخت کو کیا ہوا ہماری تکلیف
میں اضافہ کیے دیتا ہے ؟کہا جائے گا یہ بد بخت خبیث اور بری بات کی طرف متوجہ ہو کر
اس سے لذت اٹھاتا تھا جیسا کہ جماع کی باتوں سے۔ (اتحاف السادۃ للزبيدی، 9/147)

غلطی کا مطلب کسی کام میں کوئی کوتاہی کر دینا کوئی
کام سہی طریقے سے نہ کرنا۔ غلطی ایک دلدل کی مانند ہوتی ہے اگر ہم دلدل کو کیچڑ سمجھیں
گے تو اس میں دھنس جائیں گے لیکن دلدل کو دلدل سمجھنے والا انسان اپنے آپ کو اس سے
نکالنے کی کوشش کرتا ہے نہ کہ وہی پر جما رہتا ہے۔
غلطی پر اڑ جانے والا خود کو تاریک اندھیروں میں ڈال
دیتا ہے۔ ایک کمرہ ابھی تک بند نہیں ہوا اس میں ہلکی ہلکی روشنی رہتی ہے۔ لیکن جب ہم
اس کو بند کر دیتے ہے تو مکمل اندھیرے میں گھر جاتے ہیں۔
غلطی کر کے ہمارے پاس معافی مانگنے کا موقع ہوتا ہے
یہ ہمارے ہاتھ میں ہوتا ہے کہ ہم اس مغفرت دروازے کو انا کے آڑے آ کر بند کر دیتے ہیں
یا پھر معافی مانگ کر اسے دوبارہ کھول لیتے ہیں اور روشنیوں کے امنڈتے سیلاب سے سراب
ہو جاتے ہیں۔
حضرت آدم اور شیطان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ حضرت آدم
غلطی پر نہ اڑے اور معافی مانگ لی جس کی وجہ سے آج پوری نوع انسانی ان کی شکرگزار ہے
اور خاص طور پر امت مسلمه کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہ نبیﷺ کی امت ہے، شیطان اپنی غلطی
پر اڑا رہا معافی نہ مانگی اور آج جہالت کے اندھیروں میں پڑا ہوا ہے۔
اگر غلطی ہو گئی تو اعتراف کرنا آپ کو چھوٹا نہیں بنا
دیتا بلکہ مستقبل میں ایک ابھرتا ہوا ستارہ بنتا ہے۔ ایک ماہر چیف وہ نہیں جس نے کبھی
غلطی نہ کی ہو بلکہ وہ ہے جس نے غلطیاں کی ہو اور پھر ان سے سیکھا ہو۔
انسان گر کر ہی اٹھتا ہے لیکن جو انسان کبھی گرا ہی
نہ ہو وہ نہیں جانتا کہ اب اٹھنا کیسے ہے۔ غلطی پر اڑ جانے سے بعض اوقات ہم اپنے قیمتی
رشتوں کو بھی کھو دیتے ہیں۔ غلطی ہم اپنی انا کی وجہ سے بھی نہیں مانتے۔ جس طرح کامیابیوں
کو ہم اپنا حصہ مانتے ہیں تو ناکامیاں اور غلطیاں بھی تو ہماری ہوتی ہیں، پھر ہم ان
سے منہ کیوں پھیر دیتے ہیں اور انہیں کسی دوسرے پر کیوں ڈال دیتے ہیں۔ غلطی نہ ماننا
کم ظرفی کی علامت ہے۔ ہم اپنی غلطی پر دوسروں پر چیخ چلا رہے ہوتے ہیں بس اپنی غلطی
کو چھپانے کے لیے اس پر غصہ تو کرتے ہیں لیکن دراصل اپنی کم عقلی اور اپنے نفسیاتی
مرض کو ظاہر کر رہے ہوتے ہیں۔ اپنی غلطی مان لیں کیا ہو گا لوگ آپ کے بارے میں یہی
سمجھیں گے کہ آپ کو یہ کام نہیں آتا یا آپ پر طعنے کسیں گے یا کچھ لوگ آپ کی بےعزتی
کر دیں گے۔ لیکن یہ اس سے بہتر ہے کہ آپ اپنے نفس کی تسکین کے لیے خاموش رہیں اور دوسروں
پر الزام کشی کرنا شروع کر دیں۔ ایک مشور اردو کہاوت ہے کہ ”ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا“
حرمین طیبین کے حقوق از بنت ہدایت اللہ عطاریہ،
جامعۃ المدینہ دیال گڑھ فیصل آباد پنجاب

حرمین طیبین سے مراد دو پاک حرم یعنی حرم مکہ اور حرم
مدینہ ہیں۔ ان دونوں مقامات کو تاریخ اسلام میں بنیادی حیثیت حاصل ہے اس کی ایک وجہ
یہ ہے کہ اللہ کے آخری نبیﷺ کا ظہور اسی شہر یعنی مکہ میں ہوا اور آپ نے اپنی ظاہری
زندگی کا زیادہ تر حصہ انہی دو شہروں یعنی مکہ و مدینہ میں گزارا نیز مکہ شریف میں
خانہ کعبہ اور مدینہ پاک میں روضہ رسول ﷺ ہے۔
حدود حرم مکہ: عام بول چال میں
لوگ مسجد حرام کو حرم شریف کہتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ مسجد حرام، حرم پاک میں
ہی داخل ہے مگر حرم پاک مکہ مکرمہ سمیت اس کے ارد گرد میلوں تک پھیلا ہوا ہے۔ (رفیق
الحرمین، ص 89)
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا حرم کی ہے بارش اللہ کے کرم کی ہے
حدود حرم مدینہ: حرم
مدینہ بھی شہر مدینہ میں ہی داخل ہے یہ وہ جگہ ہے جس کو اللہ کے آخری نبی، محمد عربی
ﷺ نے حرم فرمایا: چنانچہ حدیث پاک میں ہے، مدینہ منورہ عیر پہاڑ سے ثور پہاڑ تک حرم
ہے۔ (بخاری، 4/323، حدیث:6755)
فضائل حرمین طیبین: قرآن
و احادیث میں حرمین طیبین کے بے شمار فضائل وارد ہیں ان میں سے دو احادیث پیش خدمت
ہیں:
1) اللہ کے آخری نبی ﷺ نے فتح مکہ کے دن فرمایا: اس
شہر کو اللہ پاک نے اس دن حرمت عطا فرمائی جس دن زمین و آسمان کو پیدا فرمایا،یہ اللہ
پاک کی حرمت کے باعث تا قیامت حرام ہے۔
2) اللہ کے آخری نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:مجھے ایک ایسی
بستی کی طرف (ہجرت کا) حکم ہوا جو تمام بستیوں کو کھا جائے گی (یعنی سب پر غالب آ جائے
گی) لوگ اسے یثرب کہتے ہیں اور وہ مدینہ ہے، (یہ بستی) لوگوں کو اس طرح پاک و صاف کرے
گی جیسے بھٹی لوہے کے میل کو۔ (بخاری، 1/617،حدیث: 1871)
حقوق حرمین طیبین: حرمین
طیبین بہت نازک مقامات ہیں۔ جہاں معمولی سی بے ادبی عمر بھر کے اعمال اکارت کر سکتی
ہے۔جس طرح ان کے فضائل بے شمار ہیں اسی طرح ان کے حقوق و آداب پر بھی علمائے کرام نے
باقاعدہ کتب تصانیف فرمائی ہیں۔ چنانچہ طیبہ کے چار حروف کی نسبت سے حرمین طیبین (حرم
مکہ و مدینہ)کے چار، چار حقوق ملاحظہ کیجیے۔
حرم مکہ کے حقوق:
1) تعظیم کرنا: حضور علیہ الصلوة
والسلام نے ارشاد فرمایا: یہ امت بھلائی پر رہے گی جب تک اس حرمت کا بحق تعظیم احترام
کریں گے جب اسے ضائع کریں گے ہلاک ہوجائیں گے۔ (ابن ماجہ، 3/519، حدیث:3110) لہذا امت
کی بقا و سلامتی کے لیے ضروری ہے حرم مکہ کی تعظیم و حفاظت کرے۔
2) شکار کرنے کی ممانعت: حرم
امن کی جگہ ہے لہذا حرم میں قتل وغارت کرنا حرام ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ اِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَ اَمْنًاؕ-(البقرہ:
125) اور ہم نے اس شہر (مکہ) کو امن کا شہر بنایا۔
امن بنانے سے یہ مراد ہے کہ حرم کعبہ میں قتل و غارت
حرام ہے یا یہ کہ وہاں شکار تک کو امن ہے یہاں تک کہ حرم شریف میں شیر بھیڑیے بھی شکار
کا پیچھا نہیں کرتے بلکہ چھوڑ کر لوٹ جاتے ہیں۔
3) گھاس کاٹنے کی ممانعت: رسول
الله ﷺ نے فتح مکہ کے دن فرمایا کہ اس شہر کو الله نے اس دن ہی حرم بنا دیا جس دن آسمان
و زمین پیدا کیے لہذا یہ قیامت تک الله کے حرم فرمانے سے حرام ہے اور مجھ سے پہلے کسی
کے لیے اس شہر میں جنگ جائز نہ ہوئی اور مجھے بھی ایک گھڑی دن کی حلال ہوئی چنانچہ
اب وہ تاقیامت الله کے حرام کئے سے حرام ہے کہ نہ یہاں کے کانٹے توڑے جائیں اور نہ
یہاں کاشکار بھڑکایا جائے اور نہ یہاں کی گری چیز اٹھائی جائے ہاں جو اس کا اعلان کرے
وہ اٹھائے اور نہ یہاں کی خشک گھاس کاٹی جائے۔ (مراۃ المناجیح، 2/235)
شرح حدیث: یعنی حرم کے خود
رو درخت تو کیا کانٹے توڑنا بھی جائز نہیں،اذخر و کمائت کے سوا وہاں کی سبز گھاس کاٹنا
یا اس پر جانور چرانا بھی ہمارے ہاں ممنوع ہے۔
4)حرمت حرم مکہ کی حفاظت: اللہ
پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ
اللّٰهِ فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗ عِنْدَ رَبِّهٖؕ- (پ17،
الحج:30) ترجمہ کنز الایمان: اور جو اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کرے تو وہ اس کےلیے
اس کے رب کے یہاں بھلا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی حرمت والی چیزوں کے بارے میں مفسرین
کا ایک قول یہ بھی ہے کہ ان سے وہ مقامات مراد ہیں جہاں حج کے مناسک ادا کئے جاتے ہیں
جیسے بیت حرام، مشعر حرام، بلد حرام اور مسجد حرام وغیرہ اور ان کی تعظیم کا مطلب یہ
ہے کہ ان کے حقوق اور ان کی عزت و حرمت کی حفاظت کی جائے۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلیے نیل کے ساحل سے لیکر
تا بخاک کا شغر
حرم مدینہ کے حقوق:
1) یثرب کہنے کی ممانعت: مدینہ
منورہ کو یثرب کہنا جائز نہیں کہ اعلٰحضرت امام اہلسنّت فرماتے ہیں:مدینہ طیّبہ کو
یثرب کہنا ناجائز و ممنوع و گناہ ہے اور کہنے والا گناہگار۔رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:
جو مدینہ کو یثرب کہے اس پر توبہ واجب ہے مدینہ طابہ ہے، مدینہ طابہ ہے۔ (مسند امام
احمد، 6/409، حدیث: 18544)
کیوں طیبہ کو یثرب کہوں ممنوع ہے قطعاً موجود ہیں جب سینکڑوں اسمائے
مدینہ
2) مدینے کی سختی پر صبر: مدینہ
طیبہ منبع فضل و برکات ہے لہذا اگر مدینۃ المنورہ مین کوئی سختی یا آزمائش نیکیوں میں
اضافے اور درجات کی بلندی کے لیے تشریف لے آئے تو اس پر صبر، صبر اور صبر ہی کرنا چاہیے
کہ رسول پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا:میرا جو کوئی امتی مدینے کی تکلیف اور سختی پر صبر کرے
گا میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں گا۔ (مسلم، ص 548، حدیث: 3339)
3) خاک مدینہ کا ادب: خاک
مدینہ میں ہر مرض کی شفا ہے۔خاک مدینہ بلکہ مدینہ منورہ کے ہر ہر مقام، ہر ہر ذرّے
کی تعظیم لازم ہے بصورت دیگر اس کی سزا بہت سخت ہے۔ امام مالک نے خاک مدینہ کو خراب
کہنے والے کیلیے 30 کوڑے لگانے اور قید میں ڈالے جانے کا فتوی دیا۔
بدن پر ہے عطار کے خاک طیبہ پرے ہٹ جہنم ترا
کام کیا ہے
4)آواز دھیمی رکھنا: اللہ
پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ
لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ
اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) (پ 26، الحجرات: 2) ترجمہ کنز
العرفان: اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو اور ان کے حضور
زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کہو جیسے ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بات
کرتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال بربادنہ ہوجائیں اور تمہیں خبرنہ ہو۔اس آیت کے تحت تفسیر
صراط الجنان میں ہے: بارگاہ رسالت ﷺ کا جو ادب و احترام اس آیت میں بیان ہوا، یہ آپ
کی ظاہری حیات مبارکہ کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے بلکہ آپ کی وفات ظاہری سے لے کر تا قیامت
بھی یہی ادب و احترام باقی ہے۔ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
اب بھی حاجیوں کو حکم ہے کہ جب روضۂ پاک پر حاضری نصیب ہو تو سلام بہت آہستہ کریں
اور کچھ دور کھڑے ہوں بلکہ بعض فقہا نے تو حکم دیاہے کہ جب حدیث پاک کا درس ہو رہا
ہو تو وہاں دوسرے لوگ بلند آواز سے نہ بولیں کہ اگرچہ بولنے والا (یعنی حدیث پاک کا
درس دینے والا) اور ہے مگر کلام تو رسول اللہ ﷺ کا ہے۔ (شان حبیب الرحمٰن، ص 225)
ادب گا ہیست زیر آسماں از عرش نازک تر نفس گم کردہ می
آید جنید و با یزید ایں جا
حرمین طیبین کے حقوق از بنت محمد انور، جامعۃ
المدینہ جھمرہ سٹی فیصل آباد

حرم سے مراد خانہ کعبہ کے ارد گرد کئی کلو میٹر پھیلا
ہوا علاقہ ہے جہاں باقاعدہ نشانات وغیرہ لگا کر اسے ممتاز کر دیا گیا ہے۔ جو لوگ حج
و عمرہ کرنے جاتے ہیں انہیں عموماً اس کی پہچان ہو جاتی ہے کیونکہ وہاں جاکر جب لوگوں
کا عمرہ کرنے کا ارادہ ہوتا ہے تو عمرہ کرنے کے لئے حدود حرم سے باہر جاکر احرام باندھ
کر آنا ہوتا ہے۔ (صراط الجنان، 2/17)
حرم مکہ و مدینہ کے بہت سے فضائل ہیں قرآن کریم میں
اللہ پاک نے شہر مکہ کی قسم ارشاد فرمائی فرمایا: لَاۤ
اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(۱) وَ اَنْتَ حِلٌّۢ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(۲) (پ 30، البلد: 1، 2) ترجمہ: اے پیارے
حبیب! مجھے اس شہر کی قسم! جبکہ تم اس شہر میں تشریف فرما ہو۔
یہاں اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کی فضیلت کی وجہ سے اس
کی قسم ارشاد فرمائی اور مکہ مکرمہ کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ اللہ تعالی نے اسے حرم اور
امن والی جگہ بنایا ہے اور مدینہ کی طرف حضور ﷺ نے ہجرت فرمائی۔ مسلمانوں کے دل مدینے
کی طرف مائل ہوتے ہیں کیونکہ اس شہر کو رسول اللہ ﷺ سے نسبت حاصل ہے اور عشاق اس کی
حاضری کیلئے تڑپتے ہیں۔
امیرِ اہل سنت اپنے نعتیہ دیوان حدائق بخشش میں فرماتے
ہیں:
مدینہ اس لئے عطار جان و دل سے ہے پیارا کہ رہتے ہیں میرے
آقا میرے سرور مدینے میں
لہذا ہمیں اس کا ادب بجا لانا چاہیے اوردل و جان سے
محبت بھی ہونی چاہیے کیونکہ محب کومحبوب سے نسبت رکھنے والی چیز سے محبت ہو جاتی ہے۔
آئیےاس مبارک شہر کے حقوق سننے کی سعادت حاصل کرتی ہیں۔
حرم مدینہ کے درخت نہ کاٹنا: رسول
اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں مدینے کے دو کناروں کے درمیان یہاں سے کانٹے کاٹنا حرام کرتا
ہوں۔ (مراۃ المناجیح، 4/245)
بیماری و تکلیف پر صبر: رسول
اللہ ﷺ نے فرمایا: میرا کوئی امتی مدینہ کی سختیوں اورتکلیفوں پر صبر نہ کرے گا مگر
میں قیامت والے دن اس کیلئے شفیع اور گواہ ہوں گا۔ (مراۃ المناجیح، 4 /241)
مسلم شریف کی حدیث جو مہری کے غلام سعید رضی اللہ عنہ
سے مروی ہے کہ وہ حضرت ابو سعید خدری کے پاس حاضر ہوئے اور مدینہ شریف سے کوچ کرنے
کے بارے میں مشورہ کیا نیز یہاں کی مہنگائی اور اپنی اولاد کی کثرت کا شکوہ کیا کہ
مزید یہاں کی مشقت بھری زندگی سے اور بیماری سے اکتا گیا ہوں۔ اس پر حضرت ابو سعید
رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تیر استیا ناس ہو میں اس کی اجازت کیسے دے سکتا ہوں جبکہ میں
نے اپنے آقا و مولی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو بھی یہاں کی سختیوں اور مشقتوں پر
ثابت قدم رہتے ہوئے صبر کرے گا تو قیامت کے دن میں اس کیلئے شفیع اور گواہ ہونگا۔ ایک
اور روایت میں ہے کہ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ نے انہیں فرمایا۔ ایسا نہ کر مدینہ
ہی کو لازم پکڑ۔
اہل مدینہ سے نیک سلوک: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کوئی
شخص مدینہ والوں سے فریب نہ کرے گا مگر وہ ایسے گھل جائے گا جیسے پانی میں نمک گھل
جاتا ہے۔ (مسلم، ص 551، حدیث:3359)
قتل نہ کرنا: خانہ کعبہ کی وجہ سے اللہ تعالی نے پورے
حرم کی حدود کو امن والا بنا دیا یہاں تک کہ اگر کوئی شخص قتل و جرم کر کے حدود حرم
میں داخل ہوجائے تو وہاں نہ اس کو قتل کیا جائے گا اور نہ اس پر حد قائم کی جائے گی
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر میں اپنے والد خطاب کے قاتل کو بھی حرم شریف
میں پاؤں تو اس کو ہاتھ نہ لگاؤں یہاں تک کہ وہاں سے باہر آئے۔ (مدارک، ص 174)
حرم شریف کی گرمی پر صبر: مکہ
معظمہ میں گرمی بہت زیادہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے آزمائش کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے لیکن
وہاں کی گرمی بھی بڑی برکت والی ہے اس پر صبر کرنے کے حوالے سے حضور ﷺ نے فرمایا: جو
شخص دن کے کچھ وقت مکے کی گرمی پر صبرکرے جہنم کی آگ اس سے دور ہو جاتی ہے۔ (اخبار
مکہ، 2/311، حدیث: (1565
نیز اس کے علاوہ بھی حرم مکہ و مدینہ کے بہت سے حقوق
ہیں جیسے وہاں کےکبوتروں کو نہ ڈرانا، تبرکات کی تعظیم و ادب بجالانا، شکار نہ کرنا
وغیرہ۔

حرم شریف نہایت با برکت اور صاحب عظمت شہر ہے جس میں
ہر دم رحمتوں کی چھما چھم بارش بری برستی ہے لطف و کرم کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوتا
مانگنے والا کبھی محروم نہیں ہوتا۔
حقوق:
گناہوں سے بچنا: جس
طرح ہر جگہ گناہوں سے بچنا ضروری ہے۔ اس طرح حرم شریف میں گنا ہوں سے بچنا انتہائی
ضروری ہے جس طرح ملفوظات اعلی حضرت میں ہے: مکہ میں جس طرح ایک نیکی لاکھ نیکیوں کے
برابر ہے اسی طرح ایک گناہ لاکھ گناہ کے برابر ہے بلکہ وہاں پر تو گناہ کے ارادے پر
بھی گرفت ہے۔ (ملفوظات اعلیٰ حضرت، ص 236)
حرم شریف کی گرمی پر صبر: حرم
شریف میں گرمی بہت زیادہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے آزمائش کا سامنا کرنا پڑتا۔ ہے مگر وہاں
کی گرمی بھی بڑی برکت والی ہے اس پر صبر کے حوالے سے ایک حدیث مبارکہ ہے حضور ﷺ نے
فرمایا: جو شخص دن کے کچھ وقت حرم کی گرمی پر صبر کرے جہنم کی آگ اس سے دور ہو جاتی
ہے۔ (اخبار مکہ، 2/311، حدیث: 1565)
حرم شریف میں بیماری پر صبر: حرم
شریف میں جانے سے عموماً ماحول کی تبدیلی کی وجہ سے طبیعت کچھ ناراض سی ہو جاتی ہے۔
حرم شریف میں برکتوں والی بیماری بھی بڑی فضلیت ہے جس طرح اس کے بارے میں ایک حدیث
ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو شخص مکہ میں بیمار ہو جائے جو عمل وہ پہلے کر رہا تھا
بیماری کی وجہ سے نہ کر سکا تو اس کو اتنا ہی اجر ملے گا اگر بیمار مسافر ہو تو اسے
دگنا اجر ملے گا۔ (اخبار مکہ، 2/311)
لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(۱) وَ اَنْتَ حِلٌّۢ
بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(۲)
(پ 30، البلد: 1، 2) ترجمہ: اے پیارے حبیب! مجھے اس شہر کی قسم! جبکہ تم اس شہر
میں تشریف فرما ہو۔صراط الجنان میں اس آیت کے متعلق ہے: اے حبیب! مجھے اس شہر مکہ کی
قسم جب کہ تم اس شہر میں تشریف فرما ہو اے پیارے حبیب حرم شریف کو یہ عظمت آپ کے وہاں
تشریف فرما ہونے کی وجہ سے ملی ہے۔ (صراط الجنان:10/678، 679)
مکہ امن والا شہر ہے: وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا (پ
2، البقرۃ: 126) ترجمہ: اور جب ابراہیم نے عرض کی: اے میرے رب! اس شہر کو امن والا
بنا دے۔

تین فرامین مصطفیٰ ﷺ:
1۔ حاجی اپنے گھر والوں میں سے چار سو کی شفاعت
کرے گا اور گناہوں سے ایسا نکل جائے گا جیسے اس دن کہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا۔ (مسند
بزار، 8/169، حدیث: 3196) حاجی کی مغفرت ہو جاتی ہے اور حاجی جس کے لیے استغفار کرے
اس کے لیے بھی مغفرت ہے۔ (ترغیب و ترہیب، 2/108، حدیث: 23) جو حج و عمرہ کیلئے نکلا
اور راستے میں مر گیا اس کی پیشی نہیں ہوگی، نہ حساب ہوگا اور اس سے کہا جائے گا: تو
بھی جنت میں داخل ہو جا۔ (المعجم الاوسط، 4/111، حدیث:
8830)
جب مکہ مکرمہ میں رہیں تو کیا کریں خوب نفلی طواف کریں
یاد رہے کہ طواف نفل میں طواف کے بعد پہلے ملتزم سے لپٹنا ہے اس کے بعد دو رکعت مقام
ابراہیم پر ادا کرنی ہے۔
کبھی حضور کے نام کا طواف کیجئے تو کبھی غوث الاعظم
رضی اللہ عنہ کے نام کا کبھی اپنے پیر و مرشد کے نام پر کیجیے تو کبھی والدین کے نام
کا۔
گلیوں میں نہ تھوکئے: مکے
مدینے کی گلیوں میں تھوکا نہ کیجئے نہ ہی ناک صاف کریں جانتے نہیں ان گلیوں سے ہمارے
پیارے آقا ﷺ گزرتے ہیں۔ (رفیق الحرمین ، ص 235)
اس کے علاوہ بھی بہت زیادہ فضائل و کمالات ہیں جن میں
ان کے ساتھ ساتھ یہاں غافل نہیں ہونا چاہیے بلکہ محتاط رہنا چاہیے حرم کے بہت سے حقوق
ہیں آئیے کچھ حقوق جانتے ہیں:
مکہ مکرمہ کی بیماریوں پر صبر: مکہ
مکرمہ میں جانے سے عموما ماحول کی تبدیلی کے سبب ہوا ناراض ہو جاتی ہے کہ مکہ مکرمہ
میں برکتوں والی بیماریوں کی بھی بڑی فضیلتیں ہیں مفہوما جو شخص مکہ میں بیمار ہو جائے
جو عمل وہ کر رہا ہے ان کا اجر ملے گا اگر بیمار مسافر ہو تو دگنا ملے گا۔
حرم شریف کی گرمی پر صبر: مکے
میں گرمی بہت زیادہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے آزمائش کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہاں گرمی بھی
بڑی بابرکت ہوتی ہے اس گرمی پر صبر کرنے کے حوالے سے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو شخص
دن میں مکے کی گرمی پر صبر کرے جہنم کی آگ گرمی اس سے دور ہو جاتی ہے۔ (اخبار مکہ،
2/311)

حرم مکہ مکرمہ کے چاروں طرف میلوں تک اس کی حدود ہیں
اور یہ زمین حرمت و تقدس کی وجہ سے حرم کہلاتی ہے۔
حرم مکہ کے حقوق:
حرم مکہ کی حدود اور اس کی تعظیم: مکہ
مکرمہ کے اردگرد کئی کوس تک حرم کا جنگل ہے۔ ہر طرف اس کی حدیں بنی ہوئی ہیں۔ ان حدوں
کے اندر تر گھاس اکھیڑنا،وہاں کے وحشی جانور کو تکلیف دینا حرام ہے۔(بہار شریعت، 1/1085)
حرم مکہ میں ہتھیار اٹھانا: رسول
اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کسی کو یہ حلال نہیں کہ مکہ مکرمہ میں ہتھیار اٹھائے پھرے۔
(مراۃ المناجیح، 4/202)
حرم مکہ کی تعظیم: نبی
کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میری امت کے لوگ (تب تک)ہمیشہ بھلائیوں پر ہوں گے جب تک وہ
مکہ کی تعظیم کا حق ادا کرتے رہیں گے اور جب وہ اس حق کو ضائع کر دیں گے تو ہلاک ہو
جائیں گے۔ (ابن ماجہ، 3/519،حدیث: 3110)
درخت کاٹنا: حرم مکہ میں درخت
کاٹنا ممنوع ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: وہاں کے درخت نہ کاٹے جائیں۔ (مراۃ المناجیح،
4/201)
وَ مَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰهِ
فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗ عِنْدَ رَبِّهٖؕ- (پ17، الحج:30) ترجمہ کنز
الایمان: اور جو اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کرے تو وہ اس کےلیے اس کے رب کے یہاں
بھلا ہے۔
حرمتوں سے مراد وہ مقامات ہیں جہاں حج کے مناسک ادا
کئے جاتے ہیں۔ان کی تعظیم کا مطلب یہ ہے کہ ان کے حقوق اور انکی عزت و حرمت کی حفاظت
کی جائے۔
حرم مکہ کے فضائل: مکہ مکرمہ روئے
زمین پر سب سے افضل شہر ہےاور یہی شہر اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے۔ اسی لیے اللہ
تعالیٰ نے اپنے سب سے افضل رسول حضرت محمد ﷺ کو اس شہر میں پیدا فرمایا اور اسی میں
آپ ﷺ کو مبعوث فرمایا۔
احادیث مبارکہ:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول
اللہ ﷺ نے مکہ مکرمہ کو مخاطب کر کے یوں فرمایا: تو کتنا اچھا شہر ہے مجھے کتنا
محبوب ہے! اور اگر میری قوم تجھے چھوڑنے پر مجبور نہ کرتی تو میں تیرے علاوہ کہیں اور
سکونت اختیار نہ کرتا۔ (ترمذی، 5/487، حدیث: 3952)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بےشک اس شہر کو اللہ تعالیٰ
نے اس دن سے حرمت والا قرار دیا جب سے اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور وہ قیامت
تک اللہ کی حرمت کے ساتھ حرمت والا ہی رہے گامجھ سے پہلے کسی شخص کے لیے اس میں جنگ
کرنا حلال نہیں تھا اور مجھے بھی محض دن کی ایک گھڑی اس میں جنگ کرنےکی اجازت دی گئی۔
اس کے بعد وہ قیامت تک اللہ کی حرمت کے ساتھ حرمت والا ہی رہے گا۔ لہذا اس کا کانٹا
تک نہ کاٹا جائے،اس کا شکار نہ بھگایا جائے،اس میں گری ہوئی چیز کو صرف وہ شخص اٹھائے
جو اس کا لوگوں میں اعلان کرے اور اس کا گھاس بھی نہ کاٹا جائے۔
21 فروری 2025ء کو کراچی میں فیضان آن لائن
اکیڈمی کے مدرسین
کا مدنی مشورہ
.jpg)
شعبہ فیضان آن لائن اکیڈمی کے تحت21 فروری 2025ء
کو کراچی میں مدرسین کا مدنی مشورہ ہوا جس
میں فیضان آن لائن اکیڈمی بوائز نیو برانچ
شفٹ قادری کے مدنی عملہ نے شرکت کی ۔
مدنی مشورے میں فیضان آن لائن اکیڈمی کے رکن
مجلس و صوبائی ذمہ دار محمد تبریز حسین عطاری مدنی ،کراچی ڈویژن 2 کے ذمہ دار محمد
آصف عطاری مدنی اور نیو برانچ کے برانچ ناظم محمد حسن رضا مدنی نے حاضرین کو رمضان مدنی عطیات کے حوالے سے مدنی
پھول پیش کرتے ہوئے دینی کام بڑھانے اور اسکلز میں اضافہ کرنے کے متعلق تربیت
فرمائی جبکہ اسلامی بھائیوں کے سوالات کے جوابات بھی دیئے۔(رپورٹ:محمد وقار یعقوب مدنی برانچ مینیجر فیضان
آن لائن اکیڈمی ،کانٹینٹ شعیب احمد )
حرمین طیبین کے حقوق از بنت محمد ذوالفقار،
جامعۃ المدینہ معراج کے سیالکوٹ

پیاری اسلامی بہنو! اللّہ تعالیٰ کا گھر مکہ پاک ہے
جس کی بہت زیادہ تعظیم و توقیر کی جاتی ہے دور دور سے سفر طے کر کے عاشقان رسول اس
کی زیارت کے لئے آتے ہیں ہر شخص پر اسکی تعظیم و توقیر کرنا لازم ہے حرم مکہ اور مدینہ
شریف کے بھی کچھ حقوق ہیں اور دین اسلام میں ان حقوق کے ادا کرنے کو کہا گیا ہے دین
اسلام میں ان افعال سے بچنے کا بھی درس ملتا ہے جس سے ان کے حقوق پامال ہوتے ہیں۔
مکہ مکرمہ کے بارے میں میرے آقا ﷺ کا ارشاد ہے: یہ امت
ہمیشہ خیر کے ساتھ رہے گی جب تک اس حرمت کی تعظیم کرتی رہے گی اور جب لوگ اس کو ضائع
کر دیں گے ہلاک ہو جائیں گے۔ (بہار شریعت، 1/1085)
اعلیٰ حضرت نے بھی کیا خوب فرمایا ہے:
حرم کی زمیں اور قدم رکھ کے چلنا ارے سر کا موقع ہے
او جانے والے
مدینہ شریف میں نیک اعمال کے بارے میں روایت ہے: مدینہ
شریف میں کیے جانے والا ہر عمل ایک ہزار کے برابر ہے۔ (احیاء العلوم، 1/739)
حرمین طیبین کے چند حقوق درج ذیل ہیں:
1) ہتھیار اٹھانا: پیارے آقا ﷺ نے فرمایا: تم میں سے
کسی کو یہ حلال نہیں کہ وہ مکہ معظمہ میں ہتھیار اٹھائے پھرے۔ (مراۃ المناجیح، 2/236)
2) ادب کرنا:
مکہ معظمہ میں جنگلی کبوتر بکثرت ہیں اور ہر مکان میں رہتے ہیں ان کو ہر گز نہ اڑائیں،
نہ ڈرائیں، نہ ہی ایذا دیں،بعض ادھر ادھر کے لوگ جو مکہ میں بسے کبوتروں کا ادب نہیں
کرتے، ان کی ریس نہ کریں، مگر برا انہیں بھی نہ کہیں کہ جب وہاں کے جانور کا ادب ہے
تو لوگوں کا کس قدر ادب ہو گا۔
3) گھاس نہ
اکھیڑنا: حرم کی حد کے اندر تر گھاس اکھیرنا، خودرو پیڑ کاٹنا، وہاں کے وحشی جانور
کو تکلیف دینا حرام ہے۔ (ابن ماجہ، 3/519، حدیث: 311)
4) مدینہ منورہ
کو یثرب کہنے کی ممانعت: مدینہ شریف کو یثرب کہنا گناہ ہے۔فتاویٰ رضویہ جلد 21 ص 116
پر ہے: مدینہ منورہ کو یثرب کہنا نا جائز و ممنوع و حرام ہے اور کہنے والا گنہگار ہے،
کیونکہ (یثرب) زمانہ جاہلیت کا نام ہے، رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: جو مدینے کو یثرب کہے
اس پر توبہ واجب ہے، مدینہ طابہ ہے اور مدینہ طابہ ہے۔
اللہ پاک نے اس کا نام طابہ رکھا ہے، روئے زمین کا کوئی
ایسا شہر نہیں جس کے نام اتنی کثرت کو پہنچتے ہوں، جتنے مدینہ کے نام ہیں بعض علماء
نے مدینہ کے 100 نام تحریر کیے ہیں۔
5) درخت کاٹنا:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: وہاں کے درخت
نہ کاٹے جائیں اور سوائے تلاش کرنے والے کے وہاں کی گری چیز کوئی نہ اٹھائے۔ (مراۃ
المناجیح، 2/235)

شعبہ فیضان آن لائن اکیڈمی کے تحت20 فروری 2025ء
کو کراچی میں مدرسین کا مدنی مشورہ ہوا جس
میں فیضان آن لائن اکیڈمی بوائز فیضان مدینہ
برانچ شفٹ مدنی کا تمام مدنی عملہ نے شرکت
کی ۔
مدنی مشورے میں کراچی ڈویژن 2 کے ذمہ دار محمد
آصف عطاری مدنی اور فیضان مدینہ برانچ کے برانچ ناظم طارق مہربان مدنی نے رمضان عطیات
کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے مدرسین کے سوالات کے جوابات دیئے۔(رپورٹ:محمد وقار یعقوب مدنی برانچ مینیجر فیضان آن لائن اکیڈمی
،کانٹینٹ شعیب احمد )

اللہ تعالی کا مقدس گھر مکہ پاک ہے جس کی بہت زیادہ
تعظیم و توقیر کی جاتی ہے ہر شخص پر اس کی تعظیم کرنا اور اس کے حقوق ادا کرنا لازم
ہے اسی طرح مکہ مکرمہ سے تقریبا 320 کلومیٹر کے فاصلے پر مدینہ منورہ ہے جہاں مکہ مکرمہ
سے ہجرت فرما کر حضور پاک ﷺ تشریف لائے مدینہ منورہ کے بھی حقوق ہے آئیے ان دونوں حرمین
طیبین کے حقوق سنتی ہیں:
قرآن میں ہے: لَاۤ
اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(۱) وَ اَنْتَ حِلٌّۢ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(۲) (پ 30، البلد: 1، 2) ترجمہ: اے پیارے
حبیب! مجھے اس شہر کی قسم! جبکہ تم اس شہر میں تشریف فرما ہو۔
اس آیت مبارکہ میں شہر مکہ کی قسم کھائی گئی ہے احادیث
مبارکہ کی روشنی میں حرمین طیبین کے حقوق:
درخت نہ کاٹنا: حضرت
ابوہریرہ سے روایت ہے نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: وہاں کے درخت نہ کاٹے جائیں اور سوائے
تلاش کرنے والے کے وہاں کی گری چیز نہ اٹھائے۔ (مراۃ المناجیح، 2 /235)
ادب کرنا: مکہ معظمہ میں
جنگلی کبوتر بکثرت ہیں ہر مکان میں رہتے ہیں خبردار ہرگز ہرگز نہ انہیں اڑائے نہ ڈرائیں
نہ کوئی ا یذا دے بس ادھر ادھر کے لوگ جو مکہ میں بسیں کبوتروں کا ادب نہیں کرتے ان
کی ریس نہ لگائیں کہ وہاں کے جانور کا ادب ہے۔ (بہار شریعت، 1/1086)
حرم کی گرمی پر صبر کرنا: مکہ
مکرمہ میں گرمی بہت زیادہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے آزمائش کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن
وہاں کی گرمی بھی بڑی برکت والی ہے اس پر صبر کرنے کے حوالے سے حضور ﷺ نے فرمایا: جو
شخص دن کے کچھ وقت مکے کی گرمی پر صبر کرے جہنم کی آگ اس سے دور ہو جاتی ہے۔ (اخبار
مکہ، 2/311)
حرمین طیبین میں دجال داخل نہیں ہوگا حضور ﷺ نے ارشاد
فرمایا: مکے اور مدینے میں دجال داخل نہیں ہوگا۔(مسلم، ص 716، حدیث: 1379)
نہ نفل قبول نہ فرض: رسول
ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے اللہ جو اہل مدینہ پر ظلم کرے اور انہیں ڈرائے تو اسےخوف میں
مبتلا کر اور اس پر اللہ پاک اور فرشتوں اور تمام آدمیوں کی لعنت اور اس کا نہ فرض
قبول کیا جائے نہ نفل۔ (المعجم الاوسط، 2/379، حدیث: حدیث: 3589)
اس کے علاوہ بھی حرمین طیبین کے بہت سے حقوق و فضائل
ہیں مثلا وہاں کے لوگوں سے اچھے طریقے سے پیش آنا وہاں کے تبرکات کی بے ادبی نہ کرنا
وغیرہ۔

اللہ پاک نے ہر شے کے حقوق بیان فرمائے جیسے والدین،
رشتہ داروں پڑوسیوں یہاں تک کہ ہمارے پیارے آقا ﷺ کے جو ہم پر حقوق وہ بھی بیان فرمائے
تو اسی طرح الله پاک نے دو مقدس شہروں کے بھی حقوق بیان فرمائے وہ شہر مکہ و مدینہ
ہیں قرآن و احادیث میں ان کی بہت فضیلت بیان فرمائی گئی ہے۔ اللہ پاک نے قرآن پاک میں
البلد نام کی ایک سورت نازل فرمائی اور اس میں حرمت والے شہر مکہ کی قسم یاد فرمائی،
اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا
الْبَلَدِۙ(۱) وَ اَنْتَ حِلٌّۢ
بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(۲)
(پ 30، البلد: 1، 2) ترجمہ: اے پیارے حبیب! مجھے اس شہر کی قسم! جبکہ تم اس شہر
میں تشریف فرما ہو۔
احادیث کی روشنی میں حرمین طیبین کی فضیلت:
دجال داخل نہ ہو پائے گا: دجال
چالیس دن میں پوری دنیا میں سفر کرے گا مگر حرمین طیبین میں داخل نہ ہو سکے گا جیسا
کہ آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: مکہ اور مدینہ میں دجال داخل نہ ہوگا۔(مسلم، ص 716،
حدیث: 1379)
حرم مکہ میں گرمی پر صبر کرنا: حرم
مکہ میں اگر گرمی لگے تو یہ بھی باعث برکت ہے اور اس گرمی پر صبر کرنا حرم مکہ کے حقوق
میں سے ہے جیسا کہ آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے ارشاد فرمایا: جو شخص دن کے کچھ وقت
میں مکہ کی گرمی پر صبر کرے جہنم کی آگ اس سے دور ہو جاتی ہے۔ (اخبار مکہ، 2/311، حدیث:
1565)
اہل مدینہ سے حسن سلوک سے پیش آیا جائے:
حرم
مدینہ کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ وہاں کے رہنے والوں سے پیارومحبت و حسن اخلاق سے
پیش آیا جائے انکو کسی قسم کی تکلیف و ایذاء نہ پہنچائی جائے جو کوئی اہل مدینہ کو
ایذاء دینے کا ارادہ کرے اس کے بارے میں سرکار علیہ السلام نے فرمایا: اللہ اسے ایسا
پگھلا دے گا جیسا نمک پانی میں پگھل جاتا ہے۔ (مسلم، ص 551، حدیث:3359)
قتل نہ کرنا: خانہ کعبہ کی وجہ
سے اللہ پاک نے پورے حرم کی حدود کو امن والا بنادیا یہاں تک کہ اگر کوئی شخص قتل و
جرم کرکے حدود حرم میں داخل ہوجائے تو وہاں نا اسکو قتل کیا جائے گا نہ اس پر حد قائم
کی جائے گی جیسا کہ حضرت عمر نے ارشاد فرمایا: اگر میں اپنے والد خطاب کے قاتل کو حرم
میں پاؤں تو اسکو ہاتھ نہ لگاؤں یہاں تک کہ وہ وہاں سے باہر آئے۔ (مدارک، ص 714)
یثرب نہ کہا جائے: مدینہ
پاک کو یثرب کہنے سے منع فرمایا کہ آقا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: جس نے مدینہ کو
یثرب کہا اسے چاہیے کہ اللہ کی بارگاہ میں استغفار کرے کہ مدینہ طابہ ہے طابہ ہے۔ (بخاری،
1/616، حدیث: 1867)
ایک بزرگ کا نرالہ انداز: حضرت
سیدنا امام مالک رحمہ اللہ نے تعظیم خاک مدینہ کی خاطر مدینہ منورہ میں کبھی بھی قضائے
حاجت نہیں کی،اسکے لیے ہمیشہ حرم مدینہ سے باہر تشریف لے جاتے تھے البتہ حالت مرض میں
مجبور تھے۔ (بستان المحدثین، ص 19)