فیضان مدینہ  فیصل آباد میں نگران پاکستان مشاورت نے مدرسۃ المدینہ بالغان کے ذمہ داران کا مدنی مشورا فرمایا جس میں مدرسۃ المدینہ بالغان، فیصل آباد سٹی ذمہ داران اور ٹاون ذمہ داران سمیت مدینہ ٹاؤن کے مدرسین اسلامی بھائیوں نے شرکت کی ۔

مدنی مشورے میں نگران پاکستان مشاورت حاجی محمد شاہد عطاری نےحاضرین کے درمیان ایک ماہ اعتکاف اور مدرسۃ المدینہ بالغان کے متعلق اہم نکات بیان فرماتے ہوئے سامعین کو رمضان اعتکاف میں زیادہ سے زیادہ عاشقان رسول کو شرکت کروانے کے بارے میں ترغیب دلائی۔(رپورٹ۔ نیوز فالواپ ذمہ دار عبدالخالق عطاری، کانٹینٹ شعیب احمد )


حرم مکہ کی حدود اور اس کی تعظیم: مکہ معظمہ کے ارد گرد کوس تک حرم کا جنگل ہے ہر طرف اس کی حد بنی ہوئی ہے ان حدود کے اندر گاس اکھیڑنا اور اس کے وحشی جانوروں کو تکلیف دینا حرام ہے۔ (بہار شریعت، 2/ 1085)

حرم مکہ میں ہتھیار اٹھانا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کسی کو یہ حلال نہیں کہ مکہ معظمہ میں ہتھیار اٹھائے پھر ے۔ (مراۃ المناجیح، 4/202)

حرم مکہ کی تعظیم کرنا: نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میری امت کے لوگ تب تک ہمیشہ بھلائی پر ہوں گے جب تک وہ مکہ کی تعظیم کا حق ادا کرتے رہیں گے اور جب وہ اس حق کو ضائع کر دیں گے تو ہلاک ہو جائیں گے۔ (ابن ماجہ، 3/519، حدیث: 3110)

حرم مکہ کی عزت و حرمت کی حفاظت: وَ مَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰهِ فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗ عِنْدَ رَبِّهٖؕ- (پ17، الحج:30) ترجمہ کنز الایمان: اور جو اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کرے تو وہ اس کےلیے اس کے رب کے یہاں بھلا ہے۔

اللہ تعالی کی حرمت والی چیزوں کے بارے میں مفسرین کا ایک قول یہ بھی ہے کہ ان سے وہ مقامات مراد ہیں جہاں حج کے مناسک ادا کیے جاتے ہیں جیسے بیت الحرم مشار الحرام بلد حرام مسجد حرام وغیرہ اور ان کی تعظیم کا مطلب یہ ہے کہ ان کے حقوق اور ان کی عزت و حرمت کی حفاظت کی جائے۔ (صراط الجنان6/434)

درخت کاٹنا: حرمین طیبین میں درخت کاٹنا ممنوع ہے چنانچہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: وہاں کے درخت نہ کاٹے جائیں۔ (مراۃ المناجیح، 4/201)

اللہ پاک ہمیں اس مقدس سرزمین کی بار بار حاضری نصیب فرمائے اور اس مبارک مقام کا احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ مکہ مکرمہ نہایت بابرکت اور صاحب عظمت شہر ہے جس میں ہر دم رحمتوں کی چھم چھم بارشیں برستی لطف و کرم کا دروازہ بند نہیں ہوتا مانگنے والا کبھی محروم نہیں لوٹتا یہ وہ شہر ہے جس کی قسم کو اللہ پاک نے قرآن پاک میں یاد فرمایا: لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(۱) وَ اَنْتَ حِلٌّۢ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(۲) (پ 30، البلد: 1، 2) ترجمہ: اے پیارے حبیب! مجھے اس شہر کی قسم! جبکہ تم اس شہر میں تشریف فرما ہو۔

اس کے علاوہ بھی بہت زیادہ فضائل و کمالات ہیں ان کے ساتھ ساتھ یہاں پر غافل نہیں ہونا چاہیے بہت زیادہ محتاط رہنا چاہیے حرم مکہ کے بہت سے حقوق ہیں، آئیں ان میں سے چند ملاحظہ کرتے ہیں:

گناہوں سے بچنا: جس طرح ہر جگہ گناہوں سے بچنا ضروری ہے اسی طرح حرم مکہ میں گناہوں سے بچنا انتہائی ضروری ہے جس طرح کے ملفوظات اعلی حضرت میں ہے: مکہ معظمہ میں جس طرح ایک نیکی لاکھوں نیکیوں کے برابر ہے اس طرح ایک گناہ لاکھ گناہ کے برابر ہے بلکہ وہاں پر تو گناہ کے ارادے پر بھی گرفت ہے۔ (ملفوظات اعلی حضرت، ص 236)

حرمین شریف کی گرمی پر صبر: مکہ معظمہ میں گرمی بہت زیادہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے آزمائش کا سامنا کرنا پڑتا لیکن وہاں کی گرمی بڑی حکمت والی ہے اس پر صبر کرنے کے حوالے سے حضور علیہ السلام نے فرمایا: جو شخص دن کے کچھ وقت مکے کی گرمی پر صبر کر کرے جہنم کی آگ اس سے دور ہو جاتی ہے۔ (اخبار مکہ، 2/311، حدیث: 1565)

طویل قیام کی ممانعت: وہاں طویل قیام کرنا گناہوں کے سبب ہلاکت کا خوف ہے اگر وہاں بدنگاہی غیبت چغلی جھوٹ وعدہ خلافی تلخ کلامی وغیرہ جرائم کا ارتکاب گویا کسی اور مقام پر ایک لاکھ کے برابر ہے گناہوں سے مختاط رہنے والوں کے لیے بھی مکہ معظمہ کی محبت کے کم ہونے کا حدشہ ہے کہ حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ جب حج سے فارغ ہوتے تو لوگوں میں دورا کرتے ہوئے نے فرماتے: اے اہلِ یمن یمن چلے جاؤ اہل عراق عراق چلے جاؤ اہل شام اپنے وطن شام لوٹ جاؤ تاکہ تمہارے ذہنوں میں تمہارے رب کے گھر کی ہیبت خوب قائم رہے۔ (فتاویٰ رضویہ، 10/288)

حرمین طیبین پاکیزہ بابرکت، صاحب عظمت شہر ہیں جہاں ہر گھڑی رحمتوں کی بارش برستی ہے یہ وہ شہر ہیں جس کی قسم کو اللہ پاک نے قران پاک میں یاد فرمایا: لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(۱) وَ اَنْتَ حِلٌّۢ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(۲) (پ 30، البلد: 1، 2) ترجمہ: اے پیارے حبیب! مجھے اس شہر کی قسم! جبکہ تم اس شہر میں تشریف فرما ہو۔

قرآن پاک کی اس آیت مبارکہ سےپتہ چلا کہ جہاں سرکار ﷺ تشریف فرما ہوتے ہیں وہ جگہ پاکیزہ اور حرمت والی ہے کہ اللہ پاک اس کی قسم یاد فرماتا ہے محبوب ﷺ کے موجود ہونے کی وجہ سے اسے اور بھی بابرکت اور حرمت والا بنا دیتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت زیادہ فضائل و کمالات ہیں، حرمین طیبین کے بہت سے حقوق ہیں، آئیے ان میں سے چند کے بارے میں مطالعہ کرتے ہیں:

گناہوں سے بچنا: جس طرح ہر جگہ گناہوں سے بچنا ضروری ہے ایسے ہی حرمین طیبین میں گناہوں سے بچنا بھی بہت ضروری ہے جیسا کہ ملفوظات اعلی حضرت میں ہے: حرمین طیبین میں جس طرح ایک نیکی لاکھ نیکیوں کے برابر ہے اسی طرح ایک گناہ ایک لاکھ گناہ کے برابر ہے بلکہ وہاں پر تو گناہ کے ارادہ پر بھی گرفت ہے۔ (ملفوظات اعلی حضرت، ص 236 تا 237)

حرم مکہ میں ہتھیار اٹھانا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کسی کو یہ حلال نہیں کہ مکہ معظمہ میں ہتھیار اٹھائے پھرے۔ (مراۃ المناجیح،4/202)

حرم مکہ کی تعظیم کرنا: نبیّ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میری امت کے لوگ (تب تک) ہمیشہ بھلائی پر ہوں گے جب تک وہ مکہ کی تعظیم کا حق ادا کرتے رہیں گے اور جب وہ اس حق کو ضائع کر دیں گے تو ہلاک ہو جائیں گے۔ (ابن ماجہ، 3/519، حدیث: 3110)مکہ مکرمہ قیامت تک حرم ہے۔

نبی کریم ﷺ نے فتح مکہ کے دن خطبہ دیا اور فرمایا: اے لوگو! اس شہر کو اللہ نے اسی دن سے حرم بنا دیا ہے جس دن آسماں و زمین پیدا کیے لہذا یہ قیامت تک کے حرم فرمانے سے حرام (یعنی حرمت والا) ہے۔ (ابن ماجہ، 3/519، حدیث: 3109)

خشوع وخضوع سے داخل ہونا: جب مکہ مکرمہ کے قریب پہنچے تو سر جھکائے آنکھیں ندا مت و شرمندگی شرم و گناہ سے جھکائے خشوع وخضوع کے ساتھ داخل ہو اور ہوسکے تو ننگے پاؤں اور لبیک کی صدا و دعا کی کثرت سے۔

حضور جان عالم ﷺ نے فرمایا کہ بے شک حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم قرار دیا تھا اور بے شک میں مدینہ کو حرم قرار دیتا ہوں اس کے دونوں کناروں کے درمیان موجود کسی درخت کو کاٹا نہیں جاسکتا اور اس کے کسی جانور کو شکار نہیں کیا جا سکتا۔ (مسلم، ص 709، حدیث: 1362)

جس طرح مکہ مکرمہ حرم ہے مدینہ پاک بھی حرم ہے اللہ پاک ہم سب کو حرمین طیبین کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اللہ تعالیٰ ہم سب کو حرمین طیبین کی با ادب اور ذوق و شوق سے حاضری کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ

آقا ﷺ مکہ میں پیدا ہوئے۔ دین کا آغاز مکہ سے کیا۔ مکہ میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نماز کے برابر ہے۔ مکہ مکرمہ ہی وہ عظیم شہر ہے کہ جہاں حضرت امام مہدی کا ظہور ہونا ہے۔ حرمین طیبین وہ بابرکت جگہ ہے جہاں ہر وقت رحمتوں کا نزول ہوتا ہے۔ مکے میں جلال ہے کہ بڑے بڑے عبادت گزار بھی کانپ رہے ہوتے ہیں۔ جبھی تو اعلی حضرت فرماتے ہیں:

وہاں متقیوں کا جگر خوف سے پانی پایا یہاں سیاہکاروں کا دامن پہ مچلنا دیکھو

مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ اسلام کے دو مقدس ترین شہر ہیں اور قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں ان کی عظمت اور فضائل کا واضح ذکر کیا گیا ہے۔

مکہ مکرمہ کے فضائل قرآن مجید کی روشنی میں:

مکہ مکرمہ کو امن والا شہر قرار دینا: قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا ذکر ملتا ہے، جس میں انہوں نے مکہ مکرمہ کے لیے دعا کی کہ یہ شہر امن والا ہو جائے: وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا (پ 2، البقرۃ: 126) ترجمہ: اور جب ابراہیم نے عرض کی: اے میرے رب! اس شہر کو امن والا بنا دے۔

خانہ کعبہ کی حرمت: اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ میں واقع خانہ کعبہ کو برکت والا اور ہدایت کا مرکز قرار دیا: اِنَّ  اَوَّلَ  بَیْتٍ  وُّضِعَ  لِلنَّاسِ   لَلَّذِیْ  بِبَكَّةَ  مُبٰرَكًا  وَّ  هُدًى  لِّلْعٰلَمِیْنَۚ(۹۶) (پ 4، آل عمران: 96) ترجمہ: بےشک پہلا گھر جو لوگوں کے لیے بنایا گیا وہ ہے جو مکہ میں ہے، بابرکت ہے اور جہاں تمام جہان والوں کے لیے ہدایت ہے۔

مدینہ منورہ کے فضائل قرآن مجید کی روشنی میں:

مدینہ کی قسم: قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے مدینہ منورہ کی قسم اٹھائی ہے، جو اس شہر کی عظمت کو ظاہر کرتا ہے: لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(۱) وَ اَنْتَ حِلٌّۢ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(۲) (پ 30، البلد: 1، 2) ترجمہ: اے پیارے حبیب! مجھے اس شہر کی قسم! جبکہ تم اس شہر میں تشریف فرما ہو۔

مدینہ منورہ کے فضائل احادیث مبارکہ کی روشنی میں:

مدینہ کو طابہ کہنا: رسول اللہ ﷺ نے مدینہ منورہ کا نام طابہ رکھا، جیسا کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے:جب ہم مدینہ کے قریب پہنچے اور مدینہ دکھائی دیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: یہ طابہ ہے۔

مدینہ کے دروازوں پر فرشتے: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: مدینہ منورہ کے دروازوں پر فرشتے موجود ہیں، جو دجال کو اس میں داخل ہونے سے روکیں گے:مدینہ کے راستوں پر فرشتے ہیں، دجال اور طاعون اس میں داخل نہیں ہو سکتے۔ (مسلم، ص 716، حدیث: 1379)

مدینہ منورہ کی خصوصیات:

مدینہ میں وفات پانے کی فضیلت: نبی کریم ﷺ نے مدینہ منورہ میں وفات پانے کی ترغیب دی ہے:جو شخص مدینہ میں مرنے کی استطاعت رکھتا ہو، اسے چاہیے کہ وہیں وفات پائے، کیونکہ جو مدینہ میں مرے گا، میں اس کی شفاعت کروں گا۔ (ترمذی، 5/483، حدیث: 3943)

مدینہ کی خاک میں شفا: نبی کریم ﷺ نے مدینہ منورہ کی خاک کو شفابخش قرار دیا اور اسے صاف کرنے سے منع فرمایا:مدینہ کی خاک میں شفا ہے۔

مدینہ کی شان میں قصائد:

امام احمد رضا خان رحمہ اللہ نے مدینہ منورہ کی عظمت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:

طیبہ میں مر کے ٹھنڈے چلے جاؤ، آنکھیں بند سیدھی سڑک یہ شہر شفاعت نگر کی ہے

یہ فضائل اور خصائص اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ مکہ اور مدینہ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمتوں اور برکتوں کے حامل شہر ہیں اور ان کا ہر مسلمان کے دل میں خصوصی مقام ہے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں بار بار حرمین طیبین کی زیارت نصیب فرمائے۔ آمین

حرمین طیبین کے بہت سے حقوق ہیں جن کو پورا کرنا مسلمانوں پر لازم ہیں۔ مثلاً وہاں فضولیات و لغویات سے بچنا، آواز کو ددھیمی رکھنا،درود پاک پڑھنا، وہاں ہر چیز کا ادب و احترام کرنا وغیرہ۔

حرم کی زمین اور قدم رکھ کے چلنا ارے سر کا موقع ہے او جانے والے

جس طرح حرمین طیبین میں ایک نیکی کا آخر کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے اسی طرح ایک گناہ کی سزا بھی کئی گنا بڑھا دی جاتی ہے۔ اس لیے اس کے حقوق کی پاسداری ونگہبانی کے لیے بہت محتاط رہنا پڑے گا ورنہ چھوٹی سی غفلت کے سبب بہت بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

اب حدیث پاک کی روشنی میں حرمین طیبین کے حقوق ملاحظہ فرمائیے:

1۔ تکلیف دینے سے بچنا: حرم مدینہ کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ وہاں کے رہنے والوں سے پیار و محبت وحسن اخلاق سے پیش آیا جائے،انکو تکلیف پہچانا تو دور کی بات صرف تکلیف پہنچانے کا ارادہ کرنے والے کے لیے حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ پاک اسے اس طرح پگھلا دے گا جیسے نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔ (مسلم، ص 551، حدیث: 3359)

2۔ کسی بھی مصیبت پہنچنے پر صبر کرنا: مدینہ منورہ جس طرح اتنی برکتوں رحمتوں والا مقدس شہر ہے اس میں انسان قلبی سکون و اطمینان محسوس کرتا ہے وہیں اگر کوئی آزمائش وپریشانی نیکیوں میں اضافہ کرنے کے لیے تشریف لے آئے تو اس پر صبر کرنے والے کے لیے بہت بڑی بشارت ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا: جو کوئی میرا امتی مدینے کی تکلیف اور سختی پر صبر کرے گا میں قیامت کے دن اسکی شفاعت کروں گا۔ (مسلم، ص 548، حدیث: 3339)

3۔ یثرب کہنے کی ممانعت: مدینہ منورہ کو یثرب کہنا جائز نہیں کیونکہ یہ لفظ اس شہر مقدس کے شایان شان نہیں ہے جس طرح کے حضور ﷺ نے فرمایا: جس نے مدینہ کو یثرب کہا اسے چاہیے کہ وہ اللہ کی بارگاہ میں استغفار کرے کیوں کہ مدینہ طابہ ہے طابہ ہے۔ (بخاری، 1/616، حدیث: 1867)

4۔ کسی ضرورت کے بغیر مکہ میں ہتھیار لے کر جانا منع ہے، مکہ میں ہتھیار اٹھا کر چلنا کسی کے لیے جائز نہیں ہے۔(مراٰۃ المناجیح،4/202)

5۔ مکہ میں شکار جائز نہیں۔ بے شک حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم قرار دیا تھا اور بے شک میں مدینہ کو حرم قرار دیتا ہوں اس کے دونوں کناروں کے درمیان موجود کسی درخت کو کاٹا نہیں جاسکتا اور اس کے کسی جانور کو شکار نہیں کیا جا سکتا۔ (بخاری شریف ص 580۔الحدیث 970)

اللہ پاک ہم سب کو حرمین طیبین کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اللہ ہم سب کو حرمین طیبین کی زیارت کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


فیضان مدینہ  فیصل آباد میں نگران پاکستان مشاورت نے آڈیو ویڈیو لنک تربیتی سیشن فرمایا جس میں نگران مجلس پاکستان مشاورت آفس ، نگران مجلس مدرسۃالمدینہ بالغان ، نگران مجلس قافلہ ، رمضان اعتکاف نگران ، و مدرسۃالمدینہ بالغان پڑھانے والے تمام مدرسین ،اور پاکستان بھر کے مدرسۃالمدینہ بالغان کے تمام ذمہ داران اسلامی بھائیوں اور فیصل آباد ڈویژن کے ذمہ داران نے بل مشافہ جب کہ دیگر ذمہ داران نے بذریعہ لنک شرکت کی۔

اس تربیتی سیشن میں نگران پاکستان مشاورت حاجی محمد شاہد عطاری نے اعتکاف میں لگنے والے مدرسۃالمدینہ بالغان سے متعلق مختلف موضوعات پر تربیت فرمائی جبکہ نگران پاکستان مشاورت نے ذمہ داران کی طرف سے ہونے والے سوالات کے جوابات بھی دیئے اور قیمتی مدنی پھولوں سے نوازا۔ آخر میں نگران پاکستان مشاورت نے دعا فرمائی اور اسلامی بھائیوں سے ملاقات بھی کی۔(رپورٹ۔ نیوز فالواپ ذمہ دار عبدالخالق عطاری، کانٹینٹ شعیب احمد )


حرم زمین کے اس قطعہ کو کہتے ہیں جو کعبہ اور مکہ کے گرداگرد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کعبہ کی عظمت کے سبب اس زمین کو بھی معظم و مکرم کیا ہے۔ اس زمین کو حرم اس لئے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس خطہ زمین کی بزرگی کی وجہ سے اس کی حدود میں ایسی بہت سی چیزیں حرام قرار دی ہیں جو اور جگہ حرام نہیں ہیں۔ مثلاً حدودِ حرم میں شکار کرنا، درخت کاٹنا اور جانوروں کو ستانا وغیرہ جائز نہیں۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ حضرت آدم نے جب کعبہ بناتے وقت حجر اسود رکھا تو اس کی وجہ سے چاروں طرف کی زمین روشن ہو گئی چنانچہ اس کی روشنی اس زمین کے چاروں طرف جہاں جہاں تک پہنچی وہیں حرم کی حد مقرر ہے۔

اب حرمین شریفین کے حقوق بیان کیے جاتے ہیں:

(1) حرم مکہ کی حدود اور اس کی تعظیم: مکہ معظمہ کے اردگرد کئی کوس تک حرم کا جنگل ہے، ہر طرف اس کی حدیں بنی ہوئی ہیں، ان حدوں کے اندر تر گھاس اکھیڑنا، وہاں کے وحشی جانور کو تکلیف دینا حرام ہے۔ (بہار شریعت، 2/1085)

(2) حرم مکہ میں ہتھیار اٹھانا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کسی کو یہ حلال نہیں کہ مکۂ معظمہ میں ہتھیار اٹھائے پھرے۔ (مراٰۃ المناجیح،4/202)

(3) حرم مکہ کی تعظیم کرنا: نبیّ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میری امت کے لوگ (تب تک) ہمیشہ بھلائی پر ہوں گے جب تک وہ مکہ کی تعظیم کا حق ادا کرتے رہیں گے اور جب وہ اس حق کو ضائع کر دیں گے تو ہلاک ہو جائیں گے۔ (ابن ماجہ، 3/519، حدیث: 3110)

(4) حرم مکہ کی عزت و حرمت کی حفاظت: وَ مَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰهِ فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗ عِنْدَ رَبِّهٖؕ- (پ17، الحج:30) ترجمہ کنز الایمان: اور جو اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کرے تو وہ اس کےلیے اس کے رب کے یہاں بھلا ہے۔

اللہ تعالیٰ کی حرمت والی چیزوں کے بارے میں مفسرین کا ایک قول یہ بھی ہے کہ ان سے وہ مقامات مراد ہیں جہاں حج کے مناسک ادا کئے جاتے ہیں جیسے بیت حرام، مشعر حرام، بلد حرام اور مسجد حرام وغیرہ اور ان کی تعظیم کا مطلب یہ ہے کہ ان کے حقوق اور ان کی عزت و حرمت کی حفاظت کی جائے۔ (صراط الجنان، 6/434)

(5) درخت کاٹنا: حرم مکہ میں درخت کاٹنا ممنوع ہے۔ چنانچہ نبیّ کریم ﷺ نے فرمایا: وہاں کے درخت نہ کاٹے جائیں۔ (مراٰة المناجیح،4/201)

اللہ پاک ہمیں اس مقدس سر زمین کی بار بار حاضری نصیب فرمائے اور اس مبارک مقام کا ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ


شعبہ معاونت برائے اسلامی بہنیں دعوت اسلامی کے تحت 22فروری2025ء کو نگران مجلس غلام الیاس عطاری نے اوکاڑہ شہر کا وزٹ کیا جہاں ڈسٹرکٹ ذمہ داران اور ڈویژن ذمہ داران شعبہ معاونت کے اسلامی بھائی سے ملاقات کی ۔

ملاقات میں نگران مجلس غلام الیاس عطاری نے حاضرین کو گلی گلی مدرسہ شروع کرنا ،غیر رہائشی کورس شروع کروانے،ماہانہ اجتماع شروع کرنے،دینی کاموں کو مضبوط کرنے اور اعتکاف فالواپ جیسے مختلف امور پر گفتگو کرتے ہوئے شعبہ معاونت میں ہونے والے دینی کاموں کو مضبوط کرنے کا ذہن دیا ۔(پورٹ:محمد علی شعبہ معاونت برائےا سلامی بہنیں صوبہ پنجاب آفس،کانٹینٹ:شعیب احمد)


جس طرح مدینہ منورہ کا مقام بہت بلند ہے اسی طرح حرمین شریفین کے بھی بہت فضائل ہیں۔ اس کے حقوق کی پاسداری و نگہبانی کے لئے بہت محتاط رہنا پڑے گا ورنہ چھوٹی سی غفلت کے سبب بہت بڑے خسارے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

حرم مکہ کی حدود اور اس کی تعظیم: مکہ معظمہ کے اردگرد کئی دور تک حرم کا جنگل ہے، ہر طرف اس کی حدیں بنی ہوئی ہیں، ان حدوں کے اندر تر گھاس اکھیڑنا، وہاں کے وحشی جانور کو تکلیف دینا حرام ہے۔ (بہار شریعت، 2/1085)

حرم مکہ میں ہتھیار اٹھانا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کسی کو یہ حلال نہیں کہ مکۂ معظمہ میں ہتھیار اٹھائے پھرے۔ (مراۃ المناجیح،4/202)

حرم مکہ کی تعظیم کرنا: نبیّ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میری امت کے لوگ (تب تک) ہمیشہ بھلائی پر ہوں گے جب تک وہ مکہ کی تعظیم کا حق ادا کرتے رہیں گے اور جب وہ اس حق کو ضائع کر دیں گے تو ہلاک ہو جائیں گے۔ (ابن ماجہ، 3/519، حدیث: 3110)

حرمِ مکہ کی عزت و حرمت کی حفاظت: وَ مَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰهِ فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗ عِنْدَ رَبِّهٖؕ- (پ17، الحج:30) ترجمہ کنز الایمان: اور جو اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کرے تو وہ اس کےلیے اس کے رب کے یہاں بھلا ہے۔

اللہ تعالیٰ کی حرمت والی چیزوں کے بارے میں مفسرین کا ایک قول یہ بھی ہے کہ ان سے وہ مقامات مراد ہیں جہاں حج کے مناسک ادا کئے جاتے ہیں جیسے بیت حرام، مشعر حرام، بلد حرام اور مسجد حرام وغیرہ اور ان کی تعظیم کا مطلب یہ ہے کہ ان کے حقوق اور ان کی عزت و حرمت کی حفاظت کی جائے۔ (صراط الجنان، 6/434)

درخت کاٹنا: حرم مکہ میں درخت کاٹنا ممنوع ہے۔ نبیّ کریم ﷺ نے فرمایا: وہاں کے درخت نہ کاٹے جائیں۔ (مراة المناجیح،4/201)

اللہ پاک ہمیں اس مقدس سر زمین کی بار بار حاضری نصیب فرمائے اور اس مبارک مقام کا ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


پچھلے دنوں شعبہ  امام مساجد دعوت اسلامی کے تحت امریکہ،یورپ،یوکے،جرمنی،فرانس،اٹلی،آسٹریلیا،نیوزی لینڈ،ساوتھ کوریا،ہانگ کانگ، تھائی لینڈ،سری لنکا،عرب ممالک(عمان،بحرین،عرب شریف،کویت) سمیت افریقہ ریجن کے امام صاحبان و حفاظ کرام کےلئے آن لائن تربیتی سیشن منعقد کیے گیے جس میں دعوت اسلامی کی مرکزی مجلس شوری ٰکے رکن مولانا حاجی محمد عقیل عطاری مدنی صاحب نےحفاظ کرام اور امام صاحبان کی ماہ رمضان کی خصوصی عبادت و سنت تراویح پڑھانے اور سننے کے حوالےسے شرعی رہنمائی کی اور تراویح پڑھانے کی احتیاطوں پر تربیت بھی کی ۔

رکن شوری نے ماہ رمضان کی مقدس ساعتوں میں مسجد کو آباد کرنے،صاف ستھرا رکھنے اور نمازیوں کو علم دین اور بنیادی فرض علوم سکھانے کیلئے نمازوں کے بعد تربیتی سیشن منعقد کرنے اور کورسز کروانے کی ترغیب دلائی۔(رپورٹ: محمد عابد عطاری مدنی،کانٹینٹ:شعیب احمد)


ہم شریعت مطہرہ کے احکامات کےمکلف ہیں ہمارے لیے اسکی حدود میں رہ کرہی زندگی گزارنے میں ہی عافیت ہے حرمین طیبین مقدس حدودیں ہے اسکی عظمت بھی بلند وبالا ہے لہذا ہمیں اسکے حقوق بھی معلوم ہونا ضروری ہیں تاکہ ہم بے ادبی کا شکار نا ہوجائے۔

عام بول چال میں لوگ مسجد حرام کو حرم شریف کہتے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ مسجد حرام شریف حرم محترم ہی میں داخل ہےمگر حرم شریف مکہ مکرمہ سمیت اس کے اردگرد میلوں تک پھیلا ہوا ہے اور ہر طرف اس کی حدیں بنی ہوئی ہیں۔ (رفیق الحرمین، ص 89)

ہمارے نزدیک مدینہ ان معنی میں حرم نہیں کہ اسکے جانوروں کے شکار کرنے اور گھاس صاف کرنے پر دم واجب ہو جن احادیث مبارکہ میں یہ حکم ہے وہ موول ہیں بلکہ اس سے مراد مدینہ کی زینت باقی رکھنے کیلیے ہے کہ درخت نہ کاٹے جائیں مدینہ کے حرم ہونے کا مطلب وہ نہیں جو مکہ کا ہے آئمہ ثلاثہ کے نزدیک حرم ہے۔

قرآن پاک میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰهِ فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗ عِنْدَ رَبِّهٖؕ- (پ17، الحج:30) ترجمہ کنز الایمان: اور جو اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کرے تو وہ اس کےلیے اس کے رب کے یہاں بھلا ہے۔اللہ تعالیٰ کی حرمت والی چیزوں کے بارے میں مفسرین کا ایک قول یہ بھی ہے کہ ان سے وہ مقامات مراد ہیں جہاں حج کے مناسک ادا کئے جاتے ہیں جیسے بیت حرام، مشعر حرام، بلد حرام اور مسجد حرام وغیرہ اور ان کی تعظیم کا مطلب یہ ہے کہ ان کے حقوق اور ان کی عزت و حرمت کی حفاظت کی جائے۔ (صراط الجنان، 6/434)

اعلی حضرت فرماتے ہیں:

حرم کی زمیں اور قدم رکھ کے چلنا ارے سر کا موقع ہے او جانے والےحدائق بخشش

1۔ عیب جوئی نہ کی جائے: مدینہ منورہ کی ہر چیز نفیس و عمدہ واعلیٰ ہے اس میں کسی عیب و نقص کا شبہ تک نہیں، اگر بالفرض طبعی طور پر کوئی چیز پسند نہ آئے تو اس میں عیب جوئی کی بجائے اپنی آنکھوں کا دھوکا وعقل کی کمی سمجھے وگرنہ اس کی بڑی سخت سزا ہے۔ حضرت امام مالک رضی اللہ عنہ نے مدینہ پاک کی مبارک مٹی کو خراب کہنے والے کے لئے تیس کوڑےلگانے اور قید میں ڈالے جانے کا فتویٰ دیا۔ (الشفاء، 2/57)

2۔ گھاس نہ اکھیڑی جائے: حرم کی حد کے اندر تر گھاس اکھیڑنا، خودرو پیڑ کاٹنا، وہاں کے وحشی جانور کو تکلیف دینا حرام ہے۔ (ابن ماجہ، 3/519، حدیث: 311)

3۔ ہتھیار نہ اٹھائے جائیں: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ پیارے پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کسی کو یہ حلال نہیں کہ مکہ معظمہ میں ہتھیار اٹھائے پھرے۔ (مراۃ المناجیح، 2/236)

4۔ حرمین کی آزمائش پر صبر: جو شخص دن کے کچھ وقت مکّے کی گرمی پر صبر کرے جہنّم کی آگ اس سے دور ہو جاتی ہے۔ (اخبار مکۃ، 2/311، حدیث: 156)

امتحاں درپیش ہو راہِ مدینہ میں اگر صبر کر تو صبر کر ہاں صبر کر بس صبر کر

میرا کوئی امتی مدینے کی تکلیف اور سختی پر صبر نہ کرے گا مگر میں قیامت کے دن اس کا شفیع (یعنی شفاعت کرنے والا) ہوں گا۔ (مسلم، ص716، حدیث: 1378)

5۔ راستوں کا ادب: مکے مدینے کی گلیوں میں جہاں کوڑے دان رکھے ہیں انہیں استعمال کیجئے۔ اس کے علاوہ عام راستوں اور گلیوں میں تھوکنے یا کچرا وغیرہ پھینکنے سے بچیں کہ ان گلیوں کو ہمارے پیارے آقا ﷺ سے نسبت ہے۔

مذکورہ بالا حقوق کے علاوہ بھی حرمین طیبین کے حقوق ہیں جیسے یہاں شکار نہ کیا جائے،یہاں کے کھانے وغیرہ کے متعلق عیب نہ نکالا جائے وغیرہ۔

اللہ پاک ہمیں حرمین شریفین کی باادب حاضری سے خیرو عافیت سے جلدی نوازے۔ آمین

ہمارے بزرگان دین کی حرمین شریفین کی حاضریوں کے انداز نرالے ہوتے ہیں اگر آپ انکی محبت کے انداز کا مطالعہ کرنا چاہتی ہیں تو عاشقان رسول ﷺ کی 130 حکایات و روایات مع مکہ مدینے کی زیارتیں کا مطالعہ فرمائیے۔


انسان کو جس سے محبت ہوتی ہے اس سے نسبت رکھنے والی چیزوں سے بھی محبت ہوتی چونکہ مکہ مکرمہ حضور جان جاناں ﷺ کی جائے سکونت تھی وہاں آپ ﷺ نے پرورش پائی اور مکہ مکرمہ ایسا مقدس شہر ہے جس کی حرمت کے متعلق خود آقا ﷺ نے بیان فرمایا اسی طرح مدینہ منورہ بھی آقا ﷺ کی رہائش گاہ ہے جس سے محبت کرنا ان کا ادب و احترام کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے۔

آئیے احادیث مبارکہ سے اس کے ادب و احترام کے بارے میں جانتی ہیں:

مکہ مکرمہ قیامت تک حرم ہے نبی رحمت، شفیع امت، قاسم نعمت ﷺ نے فتح مکہ کے دن خطبہ دیا اور فرمایا: اے لوگو! اس شہر کو اللہ نے اسی دن سے حرم بنا دیا ہے جس دن آسماں و زمین پیدا کیے لہذا یہ قیامت تک اللہ کے حرم فرمانے سے حرام (یعنی حرمت والا) ہے۔ (ابن ماجہ، 3/519، حدیث: 3109)

مفسر شہیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان اس حدیث پاک کے تحت لکھتے ہیں: یعنی اس شہر پاک کا حرم شریف ہونا صرف اسلام میں ہی نہیں ہے بلکہ بڑا پرانا مسئلہ ہے ہر دین میں یہ جگہ محترم تھی طوفان نوح میں جب بیت المعمور آسمان پر اٹھالیا تو لوگ یہاں کی حرمت وغیرہ بھول گئے حضرت خلیل علیہ السلام نے پھر اسکا اعلان فرمایا (حدیث پاک میں) الی یوم القیامۃ فرما کر بتایا کہ یہ حرمت کبھی منسوخ نہ ہوگی۔ (مراۃ المناجیح، 4/200)

مکہ مکرمہ میں رہائش اختیار کرنا: مکہ مکرمہ میں وہی رہے جسے ظن غالب ہو کہ یہاں کا احترام بجا لاسکے گا، خود کو گناہوں سے بچا سکے گا کروڑوں حنفیوں کے پیشوا امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ جنہوں نے صحابہ کرام علیہم الرضوان کا سنہری دور پایا اور تابعیت کے شرف سے مشرف ہوئے اس صلاح و فلاح (نیکی و بھلائی) کے دور میں لوگوں کو وہاں بے احتیاطیوں میں ملوث دیکھا تو حرم کی رہائش مکروہ قرار دی۔

مکہ مکرمہ کا ادب: مکہ مکرمہ کا ادب کرنے کے متعلق اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: حضرت علامہ شیخ عبدری نے بعض اکابر اولیاء کے بارے میں یہ بھی نقل کیا ہے کہ وہ چالیس سال مکے میں رہے مگر حرم مکہ میں پیشاب نہ کرتے اور نہ ہی وہاں لیٹتےتھے پھر فرمایا ایسے لوگوں کے لیے مجاورت (مستقل رہائش) مستحب ہے یا انہیں اجازت دی جاسکتی ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، 10/289)

خشوع و خضوع سے داخل ہونا: جب مکہ مکرمہ کے متصل پہنچے سر جھکائے آنکھیں شرم و گناہ سے نیچی کیے خشوع وخضوع سے داخل ہو اور ہوسکے تو پیادہ ننگے پاؤں اور لبیک و دعا کی کثرت رکھے اور بہتر یہ کہ دن میں نہا کر داخل ہو حیض و نفاس والی کے لیے نہانا مستحب ہے۔ (مسلم، ص 678، حدیث: 3153)

درخت کاٹنا: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: وہاں کے درخت نہ کاٹے جائیں اور سوائے تلاش کرنے والے کے وہاں کی گری چیز کوئی نہ اٹھائے۔ (مراۃ المناجیح، 2/235)

اللہ کریم ہمیں اس مقدس شہر کا ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین