حرم مکہ کی حدود اور اس کی تعظیم: مکہ معظمہ کے ارد گرد کوس تک حرم کا جنگل ہے ہر طرف اس کی حد بنی ہوئی ہے ان حدود کے اندر گاس اکھیڑنا اور اس کے وحشی جانوروں کو تکلیف دینا حرام ہے۔ (بہار شریعت، 2/ 1085)

حرم مکہ میں ہتھیار اٹھانا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کسی کو یہ حلال نہیں کہ مکہ معظمہ میں ہتھیار اٹھائے پھر ے۔ (مراۃ المناجیح، 4/202)

حرم مکہ کی تعظیم کرنا: نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میری امت کے لوگ تب تک ہمیشہ بھلائی پر ہوں گے جب تک وہ مکہ کی تعظیم کا حق ادا کرتے رہیں گے اور جب وہ اس حق کو ضائع کر دیں گے تو ہلاک ہو جائیں گے۔ (ابن ماجہ، 3/519، حدیث: 3110)

حرم مکہ کی عزت و حرمت کی حفاظت: وَ مَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰهِ فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗ عِنْدَ رَبِّهٖؕ- (پ17، الحج:30) ترجمہ کنز الایمان: اور جو اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کرے تو وہ اس کےلیے اس کے رب کے یہاں بھلا ہے۔

اللہ تعالی کی حرمت والی چیزوں کے بارے میں مفسرین کا ایک قول یہ بھی ہے کہ ان سے وہ مقامات مراد ہیں جہاں حج کے مناسک ادا کیے جاتے ہیں جیسے بیت الحرم مشار الحرام بلد حرام مسجد حرام وغیرہ اور ان کی تعظیم کا مطلب یہ ہے کہ ان کے حقوق اور ان کی عزت و حرمت کی حفاظت کی جائے۔ (صراط الجنان6/434)

درخت کاٹنا: حرمین طیبین میں درخت کاٹنا ممنوع ہے چنانچہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: وہاں کے درخت نہ کاٹے جائیں۔ (مراۃ المناجیح، 4/201)

اللہ پاک ہمیں اس مقدس سرزمین کی بار بار حاضری نصیب فرمائے اور اس مبارک مقام کا احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ مکہ مکرمہ نہایت بابرکت اور صاحب عظمت شہر ہے جس میں ہر دم رحمتوں کی چھم چھم بارشیں برستی لطف و کرم کا دروازہ بند نہیں ہوتا مانگنے والا کبھی محروم نہیں لوٹتا یہ وہ شہر ہے جس کی قسم کو اللہ پاک نے قرآن پاک میں یاد فرمایا: لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(۱) وَ اَنْتَ حِلٌّۢ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(۲) (پ 30، البلد: 1، 2) ترجمہ: اے پیارے حبیب! مجھے اس شہر کی قسم! جبکہ تم اس شہر میں تشریف فرما ہو۔

اس کے علاوہ بھی بہت زیادہ فضائل و کمالات ہیں ان کے ساتھ ساتھ یہاں پر غافل نہیں ہونا چاہیے بہت زیادہ محتاط رہنا چاہیے حرم مکہ کے بہت سے حقوق ہیں، آئیں ان میں سے چند ملاحظہ کرتے ہیں:

گناہوں سے بچنا: جس طرح ہر جگہ گناہوں سے بچنا ضروری ہے اسی طرح حرم مکہ میں گناہوں سے بچنا انتہائی ضروری ہے جس طرح کے ملفوظات اعلی حضرت میں ہے: مکہ معظمہ میں جس طرح ایک نیکی لاکھوں نیکیوں کے برابر ہے اس طرح ایک گناہ لاکھ گناہ کے برابر ہے بلکہ وہاں پر تو گناہ کے ارادے پر بھی گرفت ہے۔ (ملفوظات اعلی حضرت، ص 236)

حرمین شریف کی گرمی پر صبر: مکہ معظمہ میں گرمی بہت زیادہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے آزمائش کا سامنا کرنا پڑتا لیکن وہاں کی گرمی بڑی حکمت والی ہے اس پر صبر کرنے کے حوالے سے حضور علیہ السلام نے فرمایا: جو شخص دن کے کچھ وقت مکے کی گرمی پر صبر کر کرے جہنم کی آگ اس سے دور ہو جاتی ہے۔ (اخبار مکہ، 2/311، حدیث: 1565)

طویل قیام کی ممانعت: وہاں طویل قیام کرنا گناہوں کے سبب ہلاکت کا خوف ہے اگر وہاں بدنگاہی غیبت چغلی جھوٹ وعدہ خلافی تلخ کلامی وغیرہ جرائم کا ارتکاب گویا کسی اور مقام پر ایک لاکھ کے برابر ہے گناہوں سے مختاط رہنے والوں کے لیے بھی مکہ معظمہ کی محبت کے کم ہونے کا حدشہ ہے کہ حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ جب حج سے فارغ ہوتے تو لوگوں میں دورا کرتے ہوئے نے فرماتے: اے اہلِ یمن یمن چلے جاؤ اہل عراق عراق چلے جاؤ اہل شام اپنے وطن شام لوٹ جاؤ تاکہ تمہارے ذہنوں میں تمہارے رب کے گھر کی ہیبت خوب قائم رہے۔ (فتاویٰ رضویہ، 10/288)