افواہ کے معنی بےاصل بات مشہور کرنا، جھوٹی خبر مشہور کرنا۔ دین اسلام میں جھوٹ بولنا ایک گناہ ہے تو اسی نسبت سے دین اسلام میں افواہ کو بھی ایک برائی گناہ تصور کیا جاتا ہے افواہ ایک سماجی برائی ہے افواہیں آج کل ہمارے معاشرے میں بڑی عام ہیں، جدید دور میں تو افواہیں مزید بڑھتی جارہی ہیں پہلے کے زمانے میں افواہیں انسانوں کے ذریعے پھلتی تھیں اور اس کے پھیلنے میں بھی وقت لگتا تھا مگر جدید دور میں افواہیں سوشل میڈیا کے ذریعے پھلتی ہیں اور اس کے پھیلنے میں چند منٹ بلکہ چند سیکنڈ لگتے ہیں اور خبر ساری دنیا تک پھیل جاتی ہے یہ غلط خبر یں نہ جانے کتنوں کا سکون برباد کر تی ہیں نہ جانے کتنے لوگوں کی زندگیاں،عزت اور محبت برباد کر تی ہیں۔

افواہ کے متعلق ایک حقیقت پر مبنی واقعہ ملاحظہ فرمائیے۔ چنانچہ ایک مرتبہ عید الاضحی کے موقع پر ایک اسلامی بھائی کے دوستوں نے پرینک کی نیت سے ان کی ایک تصویر پر انّا للّٰہ و انّا الیہ رٰجعون لکھ کر اور دعائے مغفرت کی درخواست کرکے تصویر facebook پر اپلوڈ کر دی اب ہو کچھ یوں کہ عید کا موقع تھا اتفاقاً وہ اسلامی بھائی کسی کام سے دوسرے شہر گئے ہوئے تھے اور گھر والے بھی مصروف تھے کہ اتنے میں اس اسلامی بھائی کے چھوٹے بھائی بڑے گھبرائے اور روتے ہوئے گھر میں داخل ہوئے اور والد صاحب سے کہا کہ بابا باہر بہت سے لوگ جمع ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ بھائی کا انتقال ہو گیا ہے یہ سن کر گھر والوں کے ہوش اڑ گئے اور سب بہت پریشان ہو گئے ان پر تو ایسے جیسے کوئی قیامت ٹوٹ پڑی کہ صبح تو وہ گھر سے ٹھیک نکلے تھے اچانک کیا ہوا!

اس اسلامی بھائی کے والد دینی ماحول سے وابستہ تھے اس لیے انہوں نے گھر والوں کو تسلی دی اور معاملے کی تحقیقات کرنی چاہی جب تحقیقات کی گئی تو حقیقت سامنے آگئی کہ یہ صرف ایک مزاح تھا، اس افواہ سے اس اسلامی بھائی کے گھر والوں کو بڑی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔

آج کل تو اس طرح کے واقعات بہت عام ہیں، کہیں کسی کی موت کی خبر تو کہیں کسی کی شادی کی خبر اس طرح کی بےاصل خبر وں کو ہوا دی جا رہی ہوتی ہے ہر معاملے کی ہر خبر کی تصدیق کرنی چاہیے اور اس طرح کی خبروں سے ہوشیار رہنا چاہیے اور تصدیق کرنی چاہیے کہ سنت مصطفیٰ بھی ہے کہ آپ ﷺ ہر بات کی ہر خبر کی تصدیق کرواتے اگرچہ خبر دینے والا کوئی بھی ہوتا، چنانچہ غزوہ احد کے موقع پر جب کفار مکہ نے خفیہ طور پر جنگ کی تیاری کی تھی اور حملہ کرنے کے لیے روانہ بھی ہوگئے تھے، آپ ﷺ کے چچا حضرت عباس جو اس وقت خفیہ طور پر ایمان لائے تھے اور مکہ میں رہتے تھے انہوں نے حضور کو خط لکھ کر کفار مکہ کے حملے کی خبر دی تو آپ ﷺ نے تحقیقات کروائی تو معلوم ہوا کہ کفار مدینہ کے بہت قریب آچکے ہیں۔

اس واقعے سے ہر مسلمان کو درس حاصل کرنا چاہیے اور تحقیق کے بغیر سنی سنائی بات کو آگے نہیں پہنچا نا چاہیے، سنی سنائی باتوں کو آگے بڑھانے والو ں کے بارے میں حدیث پاک میں ارشاد ہے: آدمی کے برا ہونے کے لیے یہی کافی ہے وہ ہر سنی ہوئی بات (بلاتحقیق) بیان کر دے۔ (مسلم، ص 8، حدیث: 5)

اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں ہر طرح کی افواہوں سے محفوظ رکھے اور ہمیں کسی طرح کی بھی افواہ کا حصہ نہ بننے دے اور ہمارا خاتمہ بالخیر فرمائے۔ آمین