افواہیں معاشرے کی وہ بیمار سوچیں ہیں جو حقیقت کے بغیر صرف سننے، پھیلانے اور بدگمانی پیدا کرنے کے لیے وجود میں آتی ہیں۔ افواہوں پر کان دھرنے سے نہ صرف فرد کی سچائی سے دوری بڑھتی ہے بلکہ پورے معاشرے میں انتشار، بدگمانی، فساد اور بے سکونی پیدا ہوتی ہے۔ دین اسلام ایک ایسا مکمل ضابطۂ حیات ہے جو ہمیں سچائی، تحقیق اور حسن ظن کی تعلیم دیتا ہے، اور بلا تحقیق کسی بات کو قبول کرنے یا پھیلانے سے سختی سے روکتا ہے۔

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ(۶) (پ 26، الحجرات: 6) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلو کہ کہیں کسی قوم کو بے جانے ایذا نہ دے بیٹھو پھر اپنے کئے پر پچھتاتے رہ جاؤ۔

اس آیت میں واضح طور پر تاکید کی گئی ہے کہ ہر سنی سنائی بات پر عمل یا یقین نہ کیا جائے بلکہ تحقیق کی جائے۔ افواہ اکثر فاسق یا غیر معتبر ذرائع سے آتی ہے، اور اگر انسان بغیر تحقیق اس پر کان دھرتا ہے تو وہ خود بھی گناہگار ہوتا ہے اور دوسروں کے حقوق بھی پامال کر دیتا ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات بیان کرتا پھرے۔ (مسلم، ص 8، حدیث: 5)

یہ حدیث افواہوں کے پھیلاؤ کی جڑ پر ضرب لگاتی ہے۔ جب انسان بغیر تحقیق بات کرتا ہے، خاص کر افواہ، تو وہ جھوٹا شمار ہوتا ہے۔

بزرگان دین کا طرز عمل: بزرگان دین ہمیشہ افواہوں سے بچنے کی تعلیم دیتے آئے ہیں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے: اگر کوئی تمہارے پاس کسی کے خلاف بات لائے تو پہلے یہ دیکھو کہ وہ شخص تمہارے سامنے کسی دوسرے کے بارے میں بھی ایسی بات کرتا ہے۔

حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ احیاء العلوم میں لکھتے ہیں کہ بدگمانی، تجسس، غیبت اور افواہوں کو دین میں سخت ناپسند کیا گیا ہے کیونکہ یہ دلوں میں کدورت، نفرت اور فتنہ پیدا کرتی ہیں۔

افواہوں کے نقصانات: شخصیت کشی اور عزتیں پامال ہوتی ہیں، معاشرے میں بے اعتمادی پیدا ہوتی ہے، فرقہ واریت اور فتنہ جنم لیتا ہے، لوگوں کے درمیان تعلقات خراب ہوتے ہیں، فتنہ و فساد اور بدگمانی پروان چڑھتی ہے۔

اسلام ہمیں تحقیق، سچائی اور خیر خواہی کا سبق دیتا ہے۔ ہر سنی سنائی بات پر یقین کر لینا نہ صرف جہالت کی نشانی ہے بلکہ معاشرتی فتنوں کا دروازہ کھولنے کے مترادف ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں ہمیں چاہیے کہ افواہوں پر کان نہ دھریں، نہ ان کو آگے بڑھائیں اور نہ ان کا شکار بنیں۔ یوں ہم ایک پرامن، باخبر اور سچائی پر قائم معاشرہ قائم کر سکتے ہیں۔