حضرت زکریا   علیہ السّلام اللہ پاک کے برگزیدہ نبی، حضرت یحیی (علیہ السّلام) کے والد اور مریم رضی اللہ عنہا کے خالو تھے۔ آپ علیہ السّلام حضرت مریم رضی الله عنہا کی کفالت و پرورش فرمائی ، ان کے پاس بے موسمی پھلوں کی آمد دیکھ کر بارگاہ الہی میں اولاد کی دعا مانگی جو قبول ہوئی اور آپ کو حضرت یحیی (علیہ السّلام) کی صورت میں عظیم فرزند عطا ہوئے۔ یہودیوں نے سازش کر کے آپ علیہ السّلام کو شہید کروادیا۔ یہاں 2 ابواب میں آپ علیہ السّلام کی سیرتِ مبارکہ بیان کی گئی ہے جس کی تفصیل ذیلی سطور میں ملاحظہ ہو۔

باب (1) حضرت زکریا ( علیہ السّلام) کے واقعات کے قراٰنی مقامات: قراٰنِ پاک میں آپ علیہ السلام کا مختصر تذکرہ سورۂ انعام آیت نمبر 85 میں اور تفصیلی ذکرِ خیر درجہ ذیل 3 سورتوں میں کیا گیا ہے: (1)سورۂ آل عمران، آیت 37 تا 44 (2) سورۂ مریم، آیت1 تا 11 (3) سورۂ انبیاء، آیت: 89 ، 90

حضرت زکریا ( علیہ السّلام) کا تعارف نام و نسب : آپ علیہ السلام کا مبارک نام زکریا اور ایک قول کے مطابق نسب نامہ یہ ہے: زکریا بن لدن بن مسلم بن صدوق بن حشبان بن داؤد بن سلیمان بن مسلم بن صدیقہ بن برخیا بن بلعاطۃ بن ناحور بن شلوم بن بہفا شاط بن اینا من بن رحبعام بن حضرت سلیمان علیہ السّلام بن حضرت داؤد علیہ السّلام۔

پیشہ: اپنی محنت سے کما کر کھانا انبیاء کرام علیہم السلام کی پاکیزہ سیرت رہی ہے۔ اس لیے حضرت زکریا علیہ السلام بھی اپنے ہاتھ کی کمائی ہی سے کھاتے تھے ، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: حضرت زکریا علیہ السلام لکڑی سے اشیاء بنانے کا کام کیا کرتے تھے۔

یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم السّلام میں سے کسی نبی علیہ السلام نے اپنی نبوت کو ذریعہ معاش نہیں بنایا بلکہ کائنات کے یہ معزز ترین حضرات مختلف پیشے اختیار کر کے اپنا گزر بسر کیا کرتے تھے۔

تقوی: آپ علیہ السلام انتہائی پر ہیز گار تھے۔ مروی ہے کہ آپ علیہ السلام اجرت پر کسی کی دیوار گارے سے بنا رہے تھے اور اس کے بدلے میں وہ آپ علیہ السلام کو ایک روٹی پیش کرتے کیونکہ آپ علیہ السلام صرف اپنے ہاتھ کی کمائی سے ہی کھانا تناول فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ (کھانے کے دوران ) کچھ لوگ آپ علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو آپ نے کھانے کی دعوت نہ دی یہاں تک کہ خود کھانا کھا کر فارغ ہو گئے۔ یہ دیکھ کر ان لوگوں کو آپ علیہ السلام کے طرز عمل پر تعجب ہوا کہ انتہائی سخی اور زاہد ہونے کے باوجود آپ نے ہمیں اپنے کھانے میں شریک کیوں نہیں کیا اور یہ گمان کیا کہ اگر ہم ہی پہل کرتے ہوئے کھانا مانگ لیتے تو اچھا رہتا۔ آپ علیہ السلام نے (اپنے طرز عمل کی حکمت بیان کرتے ہوئے) ان سے ارشاد فرمایا: میں ایک قوم کے ہاں اجرت پر کام کرتا ہوں اور وہ مجھے ایک روٹی اس لیے دیتے ہیں تاکہ میرے اندر ان کا کام کرنے کی طاقت پیدا ہو ، اب اگر میں تمہیں اپنے حصے کی روٹی میں سے کچھ کھلاتا ہوں تو یقیناً یہ نہ تمہیں کفایت کرتی نہ مجھے، مزید یہ کہ میرے اندر ان کا کام کرنے کی طاقت کم ہو جاتی۔

اس واقعے میں نصیحت ہے کہ جب اجرت پر کسی کا کام کریں تو اس کے تمام تر تقاضوں کو بھی پورا کریں۔

فرزند پر اظہارِ شفقت: آپ علیہ السلام کے فرزند حضرت یحیٰ علیہ السلام پر اللہ پاک کا خوف بہت غالب تھا جس کے سبب وہ بکثرت گریہ وزاری کرتے تھے ، ایک دن آپ علیہ السلام نے ان سے فرمایا: اے پیارے بیٹے ! میں نے تو اللہ پاک سے یہ دعا مانگی تھی کہ وہ تجھے میری آنکھوں کی ٹھنڈک بنادے۔ حضرت یحیٰ علیہ السلام نے عرض کی: اے ابا جان ! حضرت جبریل علیہ السلام نے مجھے بتایا ہے کہ جنت اور دوزخ کے درمیان ایک جنگل ہے ، جسے وہی طے کر سکتا ہے جو (اللہ پاک کے خوف سے ) بہت رونے والا ہو۔ اس پر حضرت زکریا علیہ السلام نے فرمایا: اے میرے فرزند : ٹھیک ہے تم روتے رہو۔

اللہ اکبر! حضرت یحیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے برگزیدہ نبی، ہر طرح کے گناہ سے پاک اور یقینی حتمی، قطعی طور پر بخشش و مغفرت و نجات اور جنت میں اعلیٰ ترین مقامات کا پروانہ حاصل کیے ہوئے ہیں ، اس کے باوجود خوفِ خدا سے گریہ وزاری کا یہ حال ہے تو ہم گناہگاروں کو رب قہار سے کس قدر ڈرنا اور اس کے خوف سے کس قدر رونا چاہئے۔

اوصاف: دیگر انبیائے کرام علیہم السلام کی طرح آپ علیہ السلام بھی نیکیوں میں جلدی کرنے والے، اللہ پاک کو بڑی رغبت اور بڑے ڈر سے پکارنے والے اور اللہ پاک کے حضور دل سے جھکنے والے تھے۔ ارشاد باری ہے: اِنَّهُمْ كَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ یَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَهَبًاؕ-وَ كَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ(۹۰) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ نیکیوں میں جلدی کرتے تھے اور ہمیں بڑی رغبت سے اور بڑے ڈر سے پکارتے تھے اور ہمارے حضور دل سے جھکنے والے تھے۔ (پ17، الانبیآ:90)

انعاماتِ الہی: اللہ پاک نے حضرت زکریا علیہ السلام پر بہت سے انعامات فرمائے ، ان میں سے 6 انعامات یہ ہیں :

(1تا3) اللہ پاک آپ علیہ السلام کو بطورِ خاص ان انبیاء علیہم السلام کے گروہ میں نام کے ساتھ ذکر کیا جنہیں اللہ کریم نے نعمتِ ہدایت سے نوازا، صالحین میں شمار فرمایا اور جنہیں ان کے زمانے میں سب جہان والوں پر فضیلت عطا کی۔ فرمانِ باری ہے : وَ زَكَرِیَّا وَ یَحْیٰى وَ عِیْسٰى وَ اِلْیَاسَؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَۙ(۸۵) وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ یُوْنُسَ وَ لُوْطًاؕ-وَ كُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِیْنَۙ(۸۶) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور زکریا اور یحییٰ اور عیسیٰ اور الیاس کو (ہدایت یافتہ بنایا) یہ سب ہمارے خاص بندوں میں سے ہیں۔ اور اسماعیل اور یَسَع اور یونس اور لوط کو (ہدایت دی)اور ہم نے سب کو تمام جہان والوں پر فضیلت عطا فرمائی۔ (پ 7 ،الانعام:86،85)

(4 تا 6 ) آپ علیہ السّلام نے فرزند کی دعا مانگی تو رب کریم نے اسے قبول فرمایا، آپ علیہ السّلام کے لیے آپ کی زوجہ کا بانجھ پن ختم کر کے اسے اولاد پیدا کرنے کے قابل بنا دیا اور انہیں سعادت مند فرزند حضرت یحیٰ علیہ السلام عطا فرمائے۔ فرمانِ باری ہے: وَ زَكَرِیَّاۤ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗ رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَّ اَنْتَ خَیْرُ الْوٰرِثِیْنَۚۖ(۸۹) فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ٘-وَ وَهَبْنَا لَهٗ یَحْیٰى وَ اَصْلَحْنَا لَهٗ زَوْجَهٗؕ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور زکریا کو (یاد کرو) جب اس نے اپنے رب کو پکارا ، اے میرے رب! مجھے اکیلا نہ چھوڑ اور تو سب سے بہتر وارث ہے۔ تو ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اسے یحییٰ عطا فرمایا اور اس کے لیے اس کی بیوی کو قابل بنا دیا۔(پ17، الانبیآء:90،89)

اس سے معلوم ہوا کہ دین کی خدمت کے لئے بیٹے کی دعا اور فرزند کی تمنا کرنا سنتِ نبی ہے۔ یہ بھی پتا چلا کہ جیسی دعا مانگے ، اسی قسم کے نام سے اللہ پاک کو یاد کرے۔ چونکہ حضرت زکریا علیہ السّلام کے فرزند نے اُن کے کمال کا وارث ہونا تھا، اس لیے آپ علیہ السّلام نے رب کو وارث کی صفت سے یاد فرمایا۔


پہلی صفات : غیب کی خبریں ہونا۔ حضرت زکریا علیہ السّلام کو غیب کی خبروں کی وحی کی جاتی تھی چناچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْهِ اِلَیْكَؕترجَمۂ کنزُالایمان: یہ غیب کی خبریں ہیں کہ ہم خفیہ طور پر تمہیں بتاتے ہیں۔(پ3،آلِ عمرٰن:44) یہ آیت مبارکہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حضرت زکریا علیہ السّلام کو غیب کی خبریں تھیں۔

دوسری صفت : صالحین میں شمار ہونا۔حضرت زکریا علیہ السّلام صالحین میں سے تھے چنانچہ اللہ پاک قراٰن میں خود فرماتا ہے: وَ زَكَرِیَّا وَ یَحْیٰى وَ عِیْسٰى وَ اِلْیَاسَؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَۙ(۸۵) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور زکریا اور یحییٰ اور عیسیٰ اور الیاس کو (ہدایت یافتہ بنایا) یہ سب ہمارے خاص بندوں میں سے ہیں۔ (پ 7 ،الانعام: 85)

تیسری صفت : اللہ کی تسبیح کا درس دینا۔ حضرت زکریا علیہ السّلام لوگوں صبح و شام اللہ کی تسبیح بیان کرنے کا درس دیتے تھے۔ چنانچہ اللہ پاک فرماتا ہے : فَخَرَ جَ عَلٰى قَوْمِهٖ مِنَ الْمِحْرَابِ فَاَوْحٰۤى اِلَیْهِمْ اَنْ سَبِّحُوْا بُكْرَةً وَّ عَشِیًّا(۱۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان:پس وہ اپنی قوم کی طرف مسجد سے باہر نکلے تو انہیں اشارہ سے کہا کہ صبح و شام تسبیح کرتے رہو۔(پ16،مریم:11)

چوتھی صفت : نیک کاموں میں جلدی کرنا اور ڈر سے اور رغبت سے اللہ کو پکارنا۔ حضرت زکریا علیہ السّلام نیک کاموں میں جلدی کرتے اور ڈر اور بڑی رغبت سے اللہ کو پکارتے تھے ۔ چنانچہ اللہ پاک کا فرماتا ہے : اِنَّهُمْ كَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ یَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَهَبًاؕ-وَ كَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ(۹۰) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ نیکیوں میں جلدی کرتے تھے اور ہمیں بڑی رغبت سے اور بڑے ڈر سے پکارتے تھے اور ہمارے حضور دل سے جھکنے والے تھے۔

(پ17، الانبیآ:90)

تفسیر مدارک میں اس آیت کے تحت لکھا ہے یعنی جن انبیائے کرام علیہم السلام کا ذکر ہوا ان کی دعائیں اس وجہ سے قبول ہوئیں کہ وہ نیکیوں میں جلدی کرتے تھے اور اللہ پاک کو بڑی رغبت سے بڑے ڈر سے پکارتے تھے اور اللہ کے حضور دل سے جھکنے والے تھے ۔ (تفسیر مدارک بحوالہ صراط الحنان)


اللہ پاک نے ہدایتِ خلق کے لئے انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام کو بھیجا جن میں سے حضرت زکریا علیہ السّلام بھی ہیں آپ علیہ السّلام اللہ پاک کے برگزیدہ نبی، حضرت یحییٰ علیہ السّلام کے والد اور حضرت مریم رضی اللہ عنہا کے خالو تھے۔

آپ علیہ السّلام کے چند اوصاف ملاحظہ فرمائیں :۔

(1) آپ علیہ السّلام نے حضرت مریم رضی اللہ عنہا کی کفالت و پرورش فرمائی، ان کے پاس بے موسم پھلوں کی آمد دیکھ کر بارگاہ الہی میں اولاد کی دعا مانگی جو قبول ہوئی اور آپ کو حضرت یحییٰ علیہ السّلام کی صورت میں عظیم فرزند عطا ہوئے۔

(2) اپنی محنت سے کما کر کھانا انبیائے کرام علیہم السّلام کی پاکیزہ سیرت رہی ہے۔ اسی لئے حضرت زکریا علیہ السّلام بھی اپنے ہاتھ کی کمائی ہی سے کھاتے تھے، چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: حضرت زکریا علیہ السّلام لکڑی سے اشیاء بنانے کا کام کیا کرتے تھے۔(مسلم، كتاب الفضائل، باب من فضائل زكريا علیہ السلام، ص 994، حديث: 2379)

(3) آپ علیہ السّلام انتہائی پرہیزگار تھے۔ مروی ہے کہ آپ علیہ السّلام اجرت پر کسی کی دیوار گارے سے بنا رہے تھے اور اس کے بدلے میں وہ آپ علیہ السّلام کو ایک روٹی پیش کرتے کیونکہ آپ علیہ السّلام صرف اپنے ہاتھ کی کمائی سے ہی کھانا تناول فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ (کھانے کے دوران) کچھ لوگ آپ علیہ السّلام کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو آپ نے کھانے کی دعوت نہ دی یہاں تک کہ خود کھانا کھا کر فارغ ہو گئے۔ یہ دیکھ کر ان لوگوں کو آپ علیہ السّلام کے طرزِ عمل پر تعجب ہوا کہ انتہائی سخی اور زاہد ہونے کے باوجود آپ نے ہمیں اپنے کھانے میں شریک کیوں نہیں کیا اور یہ گمان کیا کہ اگر ہم ہی پہل کرتے ہوئے کھانا مانگ لیتے تو اچھا رہتا۔ آپ علیہ السّلام نے (اپنے طرز عمل کی حکمت بیان کرتے ہوئے) ان سے ارشاد فرمایا: میں ایک قوم کے ہاں اجرت پر کام کرتا ہوں اور وہ مجھے ایک روٹی اس لیے دیتے ہیں تاکہ میرے اندر ان کا کام کرنے کی طاقت پیدا ہو، اب اگر میں تمہیں اپنے حصے کی روٹی میں سے کچھ کھلاتا ہوں تو یقیناً یہ نہ تمہیں کفایت کرتی نہ مجھے ، مزید یہ کہ میرے اندر ان کا کام کرنے کی طاقت کم ہو جاتی۔ (احياء وعلوم الدين، كتاب النیۃ والاخلاص والصدق، الباب الاول في النیۃ، بيان تفصيل الاعمال المتعلقۃ بالنیۃ، 5/100)

اس واقعے میں نصیحت ہے کہ جب اجرت پر کسی کا کام کریں تو اس کے تمام تر تقاضوں کو بھی پورا کریں۔

(4) آپ علیہ السّلام کے فرزند حضرت یحییٰ علیہ السّلام پر اللہ پاک کا خوف بہت غالب تھا جس کے سبب وہ بکثرت گریہ و زاری کرتے تھے ، ایک دن آپ علیہ السّلام نے ان سے فرمایا: اے پیارے بیٹے! میں نے تو اللہ پاک سے یہ دعا مانگی تھی کہ وہ تجھے میری آنکھوں کی ٹھنڈک بنادے۔ حضرت یحییٰ علیہ السّلام نے عرض کی: اے ابا جان !حضرت جبریل علیہ السّلام نے مجھے بتایا ہے کہ جنت اور دوزخ کے درمیان ایک جنگل ہے، جسے وہی طے کر سکتا ہے جو اللہ پاک کے خوف سے بہت رونے والا ہو۔ اس پر حضرت زکریا علیہ السّلام نے فرمایا: اے میرے فرزند : ٹھیک ہے تم روتے رہو۔ (احياء علوم الدين، كتاب الخوف والرجاء، بيان احوال الانبياء...الخ، 4/226)

اللہ اکبر! حضرت یحییٰ علیہ السّلام اللہ پاک کے برگزیدہ نبی، ہر طرح کے گناہ سے پاک اور یقینی، حتمی قطعی طور پر بخشش و مغفرت و نجات اور جنت میں اعلیٰ ترین مقامات کا پروانہ حاصل کیے ہوئے ہیں، اس کے باوجود خوف خدا سے گریہ وزاری کا یہ حال ہے تو ہم گناہگاروں کو رب قہار سے کس قدر ڈرنا اور اس کے خوف سے کس قدر رونا چاہئے۔

(5) اللہ پاک نے حضرت زکریا علیہ السّلام پر بہت سے انعامات فرمائے ، ان میں سے چند یہ ہیں: اللہ پاک نے آپ علیہ السّلام کو بطورِ خاص ان انبیاء علیہم السّلام کے گروہ میں نام کے ساتھ ذکر کیا جنہیں اللہ کریم نے نعمتِ ہدایت سے نوازا، صالحین میں شمار فرمایا اور جنہیں ان کے زمانے میں سب جہان والوں پر فضیلت عطا فرمائی۔

اللہ پاک ہمیں ان کی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


تعارف: حضرت زكريا علیہ السّلام اللہ پاک کے مقرب نبی اور برگزیدہ بندے ہیں جو حضرت یحییٰ علیہ السّلام کے والد ماجد ہیں آپ نہایت زاہد و عابد اور تقویٰ و پرہیز گاری اختیار کرنے والے تھے اور مستجاب الدعوات تھے ۔ قراٰنِ پاک میں حضرت زکریا علیہ السّلام کا ذکر دو مقامات پر آیا ہے ۔ سوره آل عمران اور سورۃ الانبيآء۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے : هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِیَّا رَبَّهٗۚ-قَالَ رَبِّ هَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْكَ ذُرِّیَّةً طَیِّبَةًۚ-اِنَّكَ سَمِیْعُ الدُّعَآءِ(۳۸) ترجَمۂ کنزُالایمان: یہاں پکارا زکریا اپنے رب کو بولا اے رب میرے مجھے اپنے پاس سے دے ستھری اولاد بے شک تو ہی ہے دعا سننے والا۔(پ3،آلِ عمرٰن:38)

جب حضرت زکریا علیہ السّلام نے حضرت مریم بنت عمران رضی الله عنہا کو اپنے زیر کفالت لیا تو دیکھا کے اُن کے پاس بے موسم کے پھل موجود ہیں ، استفسار پر حضرت مریم نے جواباً کہا کہ یہ من عند اللہ ہیں اور اس ہی کی کرم نوازی ہے۔ یہ تمام ماجرا سننے کے بعد حضرت زکریا نے اسی محراب کے پاس تبرکاً دعا مانگی اس عقیدے کے ساتھ جو رب حضرت مریم کو بے پھل موسم دینے پر قادر ہے وہ رب مجھے میرے بڑھاپے اور میری بیوی کے بانجھ ہونے کے باوجود اولاد دینے پر بھی قادر ہے ۔(ماخوذ تفسیر صراط الجنان)

تفسیر سے معلوم ہونے والی صفات:

(1) حضرت زکریا علیہ السّلام اپنے رب کی رحمت سے پر امید رہنے والے تھے ۔

(2) آپ علیہ السّلام بہت ہی صابر و شاکر انسان تھے ۔

(3)آپ علیہ السّلام اپنے رب کی طرف رغبت رکھنے والے اور دعا گو تھے ۔

(4)آپ علیہ السّلام دور اندیش بھی تھے کیوں کے اپنے وارث کا طلب کرنا تا کہ وہ وارث انکے انتقال کے بعد بھی تبلیغ توحید جاری رکھے اس بات پر دلالت کرتا ہے ۔

اسی کا ذکر سورۃُ الانبیآء میں بھی ہے ۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: وَ زَكَرِیَّاۤ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗ رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَّ اَنْتَ خَیْرُ الْوٰرِثِیْنَۚۖ(۸۹) ترجمۂ کنزالایمان: اور زکریا کو جب اس نے اپنے رب کو پکارا اے میرے رب مجھے اکیلا نہ چھوڑ اور تو سب سے بہتر وارث۔

حضرت زكريا علیہ السّلام نے یہ دعا فرمائی کہ اے اللہ مجھے اکیلا نہ چھوڑ اور میرے لئے کوئی وارث(اولاد) بنادے اور تو سب سے بہتر وارث ہے ۔ یعنی اگر تو اپنی مشیت سے میرا کوئی وارث یعنی اولاد نہ بھی بنائے تب بھی میں تیری رضا پر راضی ہوں کیوں کے تو سب سے بہتر وارث ہے۔ (ماخوذ تفسیر نعیمی )

اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت زکریا علیہ السّلام راضی برضائے رب تھے ۔ سورۃُ الانبیآء میں اللہ کریم نے حضرت سلیمان، لوط، نوح، ابراہیم، اسماعیل، ایوب، ادریس، ذوالکفل اور ذوالنون علیہم السّلام کا ذکر فرمانے کے بعد حضرت زكريا علیہ السّلام کا بھی ذکر فرمایا اور ان تمام انبیآء کے متعلق ارشاد فرمایا : اِنَّهُمْ كَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ یَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَهَبًاؕ-وَ كَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ(۹۰) ترجَمۂ کنزُالایمان: تو ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اُسے یحیی عطا فرمایا اور اس کے لیے اس کی بی بی سنواری بےشک وہ بھلے کاموں میں جلدی کرتے تھے اور ہمیں پکارتے تھے امید اور خوف سے اور ہمارے حضور گڑگڑاتے ہیں۔(پ17، الانبیآ:90)

مذکورہ آیت میں جنابِ زکریا علیہ السّلام کی چند صفات مذکور ہیں۔ (1) وہ نیکی کے کاموں میں جلدی کرنے والے تھے۔(2) امید اور خوف سے اللہ کو پکارنے والے تھے۔ (3) اللہ کے حضور عاجزی کرنے والے تھے۔

اللہ پاک ہمیں حضرت زکریا علیہ السّلام کی ان با برکت صفات کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے ان پر بے شمار رحمتیں نازل فرمائے اور انکے صدقے میں ہماری بے حساب مغفرت فرمائے۔ اٰمین بجاه خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


انبیائے کرام علیہم السّلام اللہ پاک کے خاص چنے ہوئے بندے ہیں جنہیں اللہ پاک نے اپنی مخلوق کی ہدایت و رہنمائی کے لئے اس دنیا میں بھیجا۔ یہ ہستیاں انتہائی اعلی اور عمدہ اوصاف کی مالک تھیں۔ ان پاک  نفوس قدسیہ میں سے ایک ہستی حضرت زکریا علیہ السّلام کی ہے جن کے اوصاف اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں بیان فرمائے۔ جن میں سے چند درج ذیل ہیں :۔

(1) حضرت زکریا علیہ السّلام نے اولاد کے لئے دعا مانگی تو وہ بھی پاکیزہ اولاد کی دعا مانگی۔ اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِیَّا رَبَّهٗۚ-قَالَ رَبِّ هَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْكَ ذُرِّیَّةً طَیِّبَةًۚ-اِنَّكَ سَمِیْعُ الدُّعَآءِ(۳۸) ترجمۂ کنزالعرفان: وہیں زکریا نے اپنے رب سے دعا مانگی ،عرض کی :اے میرے رب! مجھے اپنی بارگاہ سے پاکیزہ اولاد عطا فرما، بیشک تو ہی دعا سننے والا ہے۔ (پ3، اٰلِ عمرٰن:38)

(2) اللہ پاک نے حضرت مریم رضی اللہ عنہا کی پرورش کے لئے آپ کا انتخاب فرمایا کیونکہ حضرت زکریا علیہ السّلام کے گھر حضرت مریم علیہا السّلام کی خالہ تھیں۔ اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے : فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُوْلٍ حَسَنٍ وَّ اَنْۢبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًاۙ-وَّ كَفَّلَهَا زَكَرِیَّاؕ ترجمۂ کنزالایمان: تو اسے اس کے رب نے اچھی طرح قبول کیا اور اسے اچھا پروان چڑھایا اور اسے زکریا کی نگہبانی میں دیا ۔ (پ3، آلِ عمران:37)

(3) حضرت زکریا علیہ السّلام کا ایک وصف یہ بیان ہوا کہ اللہ پاک نے آپ کی دعا قبول فرمائی اور انہیں سعادت مند فرزند حضرت یحییٰ علیہ السّلام عطا فرمایا اور حضرت زکریا علیہ السّلام کے لئے آپ کی زوجہ کو اتنی زیادہ عمر میں بھی اولاد کے قابل بنا دیا ۔( مدارک، الانبیآء، تحت الآیۃ: 90، ص725)

قراٰنِ پاک میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ ترجمہ کنزالایمان: تو ہم نے اس کی دعا قبول کی۔(پ17، الانبیآ:90)

(4) آپ علیہ السّلام کا ایک وصف یہ ہے کہ آپ نے ایک تو نیک صالح بیٹے کی دعا مانگی اور دوسرا یہ کہ وہ دعا کرنا دین کے لیے تھا، نہ کہ کسی دُنْیَوی غرض کے لئے تھا۔

قراٰن کریم میں ہے: وَ اجْعَلْهُ رَبِّ رَضِیًّا(۶) ترجمہ کنزالایمان: اے میرے رب اسے پسندیدہ کر۔ (پ16،مریم:6)

(5) آپ علیہ السّلام کو جب بیٹے کی خوشخبری دی گئی تو اس کا نام یحییٰ بھی اللہ پاک نے خود عطا فرمایا۔ اور اس وقت اس نام کا کوئی دوسرا موجود نہ تھا ۔ یہ بھی آپ علیہ السّلام کا ایک وصف ہے کہ آپ کو بیٹا عطا کیا گیا اس وقت اس نام کا کوئی دوسرا نہ تھا۔ اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: یٰزَكَرِیَّاۤ اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلٰمِ-ﹰاسْمُهٗ یَحْیٰىۙ-لَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ سَمِیًّا(۷) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے زکریا! ہم تجھے ایک لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں جس کا نام یحییٰ ہے ،اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی دوسرا نہ بنایا۔ (پ 16، مریم: 7)

(6)حضرت زکریا علیہ السّلام کا ایک وصف یہ ہے کہ آپ کو جو بیٹا عطا کیا گیا اس کے اوصاف بھی قراٰنِ پاک میں بیان فرمائے گئے۔ جیسا کہ قراٰنِ پاک میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: فَنَادَتْهُ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ هُوَ قَآىٕمٌ یُّصَلِّیْ فِی الْمِحْرَابِۙ-اَنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكَ بِیَحْیٰى مُصَدِّقًۢا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ سَیِّدًا وَّ حَصُوْرًا وَّ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(۳۹) ترجمۂ کنزالایمان: تو فرشتوں نے اسے آواز دی اور وہ اپنی نماز کی جگہ کھڑا نماز پڑھ رہا تھا بیشک اللہ آپ کو مژدہ دیتا ہے یحییٰ کا جو اللہ کی طرف کے ایک کلمہ کی تصدیق کرے گا اور سردار اور ہمیشہ کے لیے عورتوں سے بچنے والا اور نبی ہمارے خاصوں میں سے۔(پ3،آلِ عمرٰن:39)

اللہ پاک ہمیں حضرت زکریا علیہ السّلام کا فیضان نصیب فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


حضرت  زکریا علیہ السّلام اللہ پاک کے عظیم نبی تھے، آپ علیہ السّلام حضرت یحییٰ علیہ السّلام کے والد تھے اور اللہ پاک کی ولیہ، حضرت مریم رضی اللہ عنہا کے خالو تھے۔ حضرت زکریا علیہ السّلام حضرت سلیمان علیہ السّلام کی اولاد میں سے تھے۔

حضرت زکریا علیہ السّلام کی صفات کابیان قراٰنِ پاک کے پارہ 17، سورہ الانبیاء کی ایت نمبر 90میں اس طرح ہوا ہے۔

(1)نیکیوں میں جلدی کرنے والے:اللہ پاک نے حضرت زکریا علیہ السّلام کی اس صفت کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ٘-وَ وَهَبْنَا لَهٗ یَحْیٰى وَ اَصْلَحْنَا لَهٗ زَوْجَهٗؕ-اِنَّهُمْ كَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اسے یحییٰ عطا فرمایا اور اس کے لیے اس کی بیوی کو قابل بنا دیا۔ بیشک وہ نیکیوں میں جلدی کرتے تھے ۔(پ17، الانبیآ:90)

اس آیت میں اللہ پاک نے حضرت زکریا علیہ السّلام کا نیکیوں میں جلدی کرنا بیان کیا گیا ہے۔ مسلم شریف کی حدیث پاک میں نیکیوں میں جلدی کرنے کے بارے حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: (نیک)اعمال میں جلدی کرو، ان فتنوں سے پہلے جو اندھیری رات کے حصوں کی طرح ہوں گے۔ آدمی صبح مؤمن ہوگا، شام کو کافر ہو جائے گا اور شام کو مؤمن ہوگا تو صبح کافر ہو جائے گا ۔ (مسلم، کتاب الایمان)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ حضرت زکریا علیہ السّلام کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے ہمیں بھی نیکیوں میں جلدی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین

(2)امید اور خوف کے درمیان رہتے: اللہ پاک نے آپ علیہ السّلام کی اس خوبی کو قراٰنِ پاک میں اس طرح بیان کیا ہے: وَ یَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَهَبًاؕ-وَ كَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ(۹۰) اور ہمیں بڑی رغبت سے اور بڑے ڈر سے پکارتے تھے اور ہمارے حضور دل سے جھکنے والے تھے۔(پ17، الانبیآ:90)

اس آیت میں اللہ پاک نے حضرت زکریا علیہ السّلام کا ایک اور وصف بیان کیا ہے کہ حضرت زکریا علیہ السّلام اللہ پاک کی رحمت سے امید بھی رکھتے تھے اور اللہ پاک کا خوف بھی رکھتے تھے۔ بخاری کی حدیث پاک میں حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اللہ پاک کی رحمت اور اللہ پاک کے خوف کے بارے میں ارشاد فرمایا: جس روز اللہ پاک نے رحمت کو پیدا فرمایا تو اس کے سو حصے کئے اور 99حصے اپنے پاس رکھ کر ایک حصہ مخلوق کے لئے بھیج دیا ۔ اگر کافر بھی یہ جان لے کہ اللہ پاک کے پاس کتنی رحمت ہے تو وہ بھی جنت سے مایوس نہ ہو اور اگر مومن یہ جان جائے کہ اس کے پاس کتنا عذاب ہے تو جہنم سے وہ بھی بے خوف نہ ہو۔(بخاری، کتاب الرقاق، باب الرجاء مع الخوف، 4/239،حدیث: 6469)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ حضرت زکریا علیہ السّلام کے اس وصف پر بھی ہمیں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمایا۔ اٰمین

(3)اللہ کی بارگاہ میں دل سے جھکنے والے: اللہ پاک نے حضرت زکریا علیہ السّلام کے اس وصف کا بیان سورۃُ الانبیاء میں اس طرح ارشاد فرمایا: وَ كَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ(۹۰) اور ہمارے حضور دل سے جھکنے والے تھے۔(پ17، الانبیآء:90)

اللہ پاک ہمیں حضرت زکریا علیہ السّلام کی ان اوصاف پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


الله پاک نے انبیائے کرام علیہم السّلام کو دنیا میں اپنے ایک ہونے و دیگر ضروری احکام سے آگاہ کرنے اور ہدایت کا راستہ دکھانے کے لئے بھیجا تاکہ انبیائے کرام الله پاک کی طرف سے نازل شدہ کتاب یا احکام و وحی کے ذریعے لوگوں کو درست و حق راہ کی رہنمائی کریں، بہر کیف انبیائے کرام علیہم السّلام کے حوالے سے یہ عقائد رکھنا ہم پر لازم ہے کہ وہ گناہ سے پاک و معصوم ہوتے ہیں، غیب و پوشیدہ چیزوں کا علم رکھتے ہیں ،الله پاک کی عطا سے بہت سارے اختیارات رکھتے ہیں وغیرہ، یاد رہے الله پاک نے بعض انبیائے کرام کو بعض پر فضیلت عطا فرمائی (جیسے کہ ہمارے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو) جیسا کہ الله پاک ارشاد فرماتا ہے: تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍۘ- ترجَمۂ کنزُالایمان: یہ رسو ل ہیں کہ ہم نے ان میں ایک کو دوسرے پر افضل کیا ۔( پ3، البقرۃ : 253 )

یہاں حضرت زکریا علیہ السلام کے کچھ اوصاف ذکر کئے جا رہے ہیں:

اوصاف :

(1) نیکیوں میں جلدی کرنا : حضرت زکریا علیہ السّلام کے اوصاف میں سے یہ ہے کہ آپ نیکیوں میں جلدی کرنے والے ، اللہ پاک کو بڑی رغبت اور بڑے ڈر سے پکارنے والے اور اللہ پاک کے حضور دل سے جھکنے والے تھے۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے: اِنَّهُمْ كَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ یَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَهَبًاؕ-وَ كَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ(۹۰) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ نیکیوں میں جلدی کرتے تھے اور ہمیں بڑی رغبت سے اور بڑے ڈر سے پکارتے تھے اور ہمارے حضور دل سے جھکنے والے تھے۔ (پ17، الانبیآ:90)

(2)خاص انبیائے کرام میں شامل کرنا :آپ کے اوصاف میں سے یہ بھی ہے کہ اللہ پاک نے آپ کو بطورِ خاص ان انبیائے کرام کے گروہ میں نام کے ساتھ ذکر کیا جنہیں اللہ کریم نے نعمت ہدایت سے نوازا، صالحین میں شمار فرمایا اور جنہیں ان کے زمانے میں سب جہان والوں سے فضیلت عطا کی ۔جیسا کہ ارشاد باری ہے: وَ زَكَرِیَّا وَ یَحْیٰى وَ عِیْسٰى وَ اِلْیَاسَؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَۙ(۸۵) وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ یُوْنُسَ وَ لُوْطًاؕ-وَ كُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِیْنَۙ(۸۶) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور زکریا اور یحییٰ اور عیسیٰ اور الیاس کو (ہدایت یافتہ بنایا) یہ سب ہمارے خاص بندوں میں سے ہیں۔ اور اسماعیل اور یَسَع اور یونس اور لوط کو (ہدایت دی)اور ہم نے سب کو تمام جہان والوں پر فضیلت عطا فرمائی۔ (پ 7 ،الانعام:86،85)

(3)دعا کا قبول ہونا :آپ علیہ السّلام کے اوصاف میں سے یہ بھی ہے کہ جب آپ نے اپنے رب سے بیٹے کی دعا مانگی تو اللہ پاک نے اسے قبول فرمایا اور آپ علیہ السّلام کی زوجہ کا بانجھ پن ختم کرکے انہیں اولاد پیدا کرنے کے قابل بنادیا اور آپ علیہ السّلام کو سعادت مند اولاد حضرت یحییٰ علیہ السّلام عطا فرمایا۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے: وَ زَكَرِیَّاۤ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗ رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَّ اَنْتَ خَیْرُ الْوٰرِثِیْنَۚۖ(۸۹) فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ٘-وَ وَهَبْنَا لَهٗ یَحْیٰى وَ اَصْلَحْنَا لَهٗ زَوْجَهٗؕ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور زکریا کو (یاد کرو) جب اس نے اپنے رب کو پکارا ، اے میرے رب! مجھے اکیلا نہ چھوڑ اور تو سب سے بہتر وارث ہے۔ تو ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اسے یحییٰ عطا فرمایا اور اس کے لیے اس کی بیوی کو قابل بنا دیا۔(پ17، الانبیآ:90،89)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں انبیائے کرام علیہم السّلام کی سیرت اپنانے اور اسے دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین


اللہ پاک امر کن کا مالک ہے، لیکن قانونِ الٰہی اور سنت الٰہی یہ ہے کہ جب بھی کسی قوم کو اللہ پاک نے ہدایت دینے کا ارادہ فرمایا تو نبی علیہ السّلام کو اس قوم میں مبعوث فرمایا، جس نے نبی علیہ السّلام کی پیروی کی وہ مفلحون (کامیاب لوگوں) میں داخل ہو گیا اور جس نے ان کی مخالفت کی، ان کے ساتھ استھزاء(مزاق) کیا، تو وہ خائب و خاسر ہوا اللہ کے غضب میں داخل ہوا،  اس سلسلے کو اللہ پاک نے امام الانبیاء، خاتم الانبیاء، محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر تمام فرما دیا اب کوئی نیا نبی نہیں آئے گا۔

انبیائے کرام کے ذکر سے روح کو تازگی، قلب کو فرحت، اور عمل کا جزبہ ملتا ہے۔ انبیائے کرام وہ مبارک ہستیاں ہیں کہ جن کی زندگی کا ہر ہر پہلو نوع انسانی کے لیے مشعل راہ ہے، انہی ہستیوں میں سے ایک اللہ پاک کے برگزیدہ نبی حضرت زکریا علیہ السّلام کے مختلف اوصاف کے بارے میں جانتے ہیں۔

نام و نسب: آپ کا نام زکریا، کنیت ابو یحییٰ ہے، اور آپ کا سلسلہ نسب حضرت سیدنا داؤد علیہ الصلاۃ و السّلام سے جا ملتا ہے۔ (البدایہ والنہایہ،1/ 500)

اوصاف:اللہ پاک نے قراٰن مجید، برھان رشید میں آپ کے مختلف اوصاف حمیدہ کو ذکر فرمایا ہے ،آپ انتہائی پرہیزگار، اللہ کو بہت رغبت و ڈر سے پکارنے والے، نیکیوں میں جلدی کرنے والے، اپنے ہاتھ سے کما کر کھانے والے، اللہ کے حضور دل سے جھکنے والے ، حضرت مریم رضی اللہ عنہا کے کفیل اور حضرت یحییٰ علیہ السّلام کے والد تھے۔

اللہ رب العزت فرماتا ہے: اِنَّهُمْ كَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ یَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَهَبًاؕ-وَ كَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ(۹۰) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ نیکیوں میں جلدی کرتے تھے اور ہمیں بڑی رغبت سے اور بڑے ڈر سے پکارتے تھے اور ہمارے حضور دل سے جھکنے والے تھے۔ (پ17، الانبیآ:90)

اس کی تفسیر میں علامہ خازن فرماتے ہیں: نیکیوں میں جلدی کرنا ان عظیم امور میں سے ہے، جس کی وجہ سے بندے کی تعریف و توصیف کی جائے، کیوں کہ یہ وصف اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ بندہ اللہ کی اطاعت کرنے میں بڑا حریص ہے۔ (تفسیر خازن سورۃ الانبیاء تحت الایۃ)

حضرت مریم کی کفالت: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْهِ اِلَیْكَؕ-وَ مَا كُنْتَ لَدَیْهِمْ اِذْ یُلْقُوْنَ اَقْلَامَهُمْ اَیُّهُمْ یَكْفُلُ مَرْیَمَ۪-وَ مَا كُنْتَ لَدَیْهِمْ اِذْ یَخْتَصِمُوْنَ(۴۴) ترجمۂ کنزالعرفان: یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم خفیہ طور پر تمہیں بتاتے ہیں اور تم ان کے پاس موجود نہ تھے جب وہ اپنی قلموں سے قرعہ ڈالتے تھے کہ ان میں کون مریم کی پرورش کرے گا اور تم ان کے پاس نہ تھے جب وہ جھگڑ رہے تھے۔(پ3،آل عمرٰن:44)

اس کی تفسیر میں امام فخرالدین رازی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: سب نے اپنی اپنی قلم پانی میں ڈالی تو حضرت زکریا علیہ السّلام کا قلم الٹی طرف بہنا شروع ہو گیا اس طرح حضرت مریم رضی اللہُ عنہا آپ علیہ السّلام کی کفالت میں آگئیں۔(تفسیر کبیر، اٰل عمران، تحت الآیۃ: 44 ، 3 / 219)

آپ نے حضرت مریم رضی اللہ عنہا کے لیے بیت المقدس میں ایک کمرہ خاص کر دیا تھا جس میں آپ کے علاوہ کوئی نہیں آتا جاتا تھا۔ جب آپ آتے تو حضرت مریم رضی اللہ عنہا کے پاس بے موسم پھل دیکھتے!! آپ نے حضرت مریم سے ایک روز پوچھ لیا: یٰمَرْیَمُ اَنّٰى لَكِ هٰذَاؕ یعنی اے مریم! یہ تمہارے پاس کہاں سے آتا ہے؟ تو حضرت مریم نے عرض کی: هُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِؕ (پ 3 ، آل عمران : 37)

اللہ کی جناب میں فرزند کی دعا کرنا: آپ نے جب حضرت مریم رضی اللہ عنہا پر اللہ پاک کی یہ نوازشات دیکھیں، تو انتہائی عاجزی کے ساتھ ربِ رزاق کی بارگاہ میں عرض کی: هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِیَّا رَبَّهٗۚ-قَالَ رَبِّ هَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْكَ ذُرِّیَّةً طَیِّبَةًۚ-اِنَّكَ سَمِیْعُ الدُّعَآءِ(۳۸) ترجمۂ کنزالعرفان: وہیں زکریا نے اپنے رب سے دعا مانگی ،عرض کی :اے میرے رب! مجھے اپنی بارگاہ سے پاکیزہ اولاد عطا فرما، بیشک تو ہی دعا سننے والا ہے۔ (پ3، آلِ عمران:38)

اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں: نمبر ایک جب بھی اللہ کی بارگاہ میں اولاد کی دعا کریں تو صرف اولاد کی نہیں، پاکیزہ، نیک اولاد کی دعا کی جائے۔

نمبر دو اللہ کی بارگاہ میں جب بھی دعا کی جائے تو اس یقین کے ساتھ کی جائے کہ وہ رب کریم میری دعا کو ضرور قبول فرمائے گا زکریا علیہ السّلام کا یہ قول اس بات پر دلالت کر رہا ہے۔ "بیشک تو ہی دعا سننے والا ہے"۔

حضرت یحییٰ علیہ السّلام کی بشارت: آپ کی دعا اللہ پاک نے قبول فرمائی اور آپ کو نا صرف فرزند عطا فرمایا بلکہ انہیں اپنا برگزیدہ نبی بھی بنایا، ارشاد فرماتا ہے: یٰزَكَرِیَّاۤ اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلٰمِ-ﹰاسْمُهٗ یَحْیٰىۙ-لَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ سَمِیًّا(۷) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے زکریا! ہم تجھے ایک لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں جس کا نام یحیٰ ہے ،اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی دوسرا نہ بنایا۔ (پ 16، مریم: 7)

حضرت زکریا علیہ السّلام کے اوصافِ حمیدہ میں ایک وصف بڑا نمایاں ہے؛ اللہ پاک کی بارگاہ میں انتہائی عاجزی و انکساری کے ساتھ دعا کرنا۔ عرض کرتے ہیں وَّ لَمْ اَكُنْۢ بِدُعَآىٕكَ رَبِّ شَقِیًّا(۴) یعنی، اے میرے رب! میں تجھے پکار کر کبھی محروم نہیں رہا۔

یقیناً جب بندہ اپنے رب کی بارگاہ میں اس یقین و عاجزی کے ساتھ دعا کرتا ہے، "کہ مولا! میں کمزور ہوں مگر تو قادر ہے رزاق ہے تیرے لیے تو بس اتنا کہنا ہے "ہوجا" تو میری تمام مشکلیں پریشانیاں پل بھر میں حل ہو جائیں گی" تو ضرور کرم ہوگا۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہماری تمام حاجات پر اپنے پارے نبی زکریا علیہ السّلام کے صدقے میں رحمت کی نظر فرمائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ پاک نے اپنے تمام نبیوں اور رسولوں کو بہت سی صفات سے نوازا ہے، جیسا کہ پچھلی مرتبہ قراٰن مجید کی روشنی حضرت نوح علیہ السّلام کی صفات بیان ہوئیں تو اس مرتبہ حضرت زکریا علیہ السّلام کی وہ صفات جن کا ذکر قراٰنِ کریم میں ہے، انہیں بیان کیا جائے گا۔ اللہ پاک حضرت زکریا علیہ السّلام کی صفات کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے : فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ٘-وَ وَهَبْنَا لَهٗ یَحْیٰى وَ اَصْلَحْنَا لَهٗ زَوْجَهٗؕ-اِنَّهُمْ كَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ یَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَهَبًاؕ-وَ كَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ(۹۰) ترجَمۂ کنزُالایمان: تو ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اُسے یحیی عطا فرمایا اور اس کے لیے اس کی بی بی سنواری بےشک وہ بھلے کاموں میں جلدی کرتے تھے اور ہمیں پکارتے تھے امید اور خوف سے اور ہمارے حضور گڑگڑاتے ہیں۔(پ17، الانبیآء:90)اس آیتِ مبارکہ میں اللہ پاک نے حضرت زکریا علیہ السّلام پر اپنا انعام عطا کرنے کا ذکر فرمایا ہے کہ اس سے پچھلی آیت میں حضرت زکریا علیہ السّلام نے اللہ پاک سے اولاد کی دعا کی تو اللہ پاک نے حضرت زکریا علیہ السّلام اور انکی زوجہ کو بڑی عمر میں اولاد پیدا کرنے کے قابل بنایا اور حضرت زکریا علیہ السّلام کو حضرت یحییٰ علیہ السّلام عطا فرمائے۔ اور ساتھ ہی حضرت زکریا علیہ السّلام کی ان تین صفات کا ذکر فرمایا ہے کہ جن صفات کی بدولت اللہ پاک انبیائے کرام علیہم السّلام کی دعاؤں کو قبول فرماتا ہے۔ وہ تین صفات یہ ہیں کہ : آپ علیہ السّلام نیکی کے کاموں میں جلدی فرمانے والے ہیں، امید اور خوف دونوں کے ساتھ رب کریم کی بارگاہ میں مناجات پیش کرنے والے ہیں، اور اللہ پاک کے سامنے عاجزی و انکساری اختیار کرنے والے ہیں۔

آپ علیہ السّلام نیکیوں میں جلدی فرمانے والے ایسے ہیں کہ جب حضرت مریم رضی اللہ عنہا کی کفالت کا ذمہ اٹھانے کا وقت آیا تو آپ علیہ السّلام نے فوراً اس کام کو کرنے کی تمنا کا اظہار فرمایا اور قرعہ اندازی کے بعد آپ علیہ السّلام کو یہ شرف حاصل ہوا اور اسی طرح جب آپ علیہ السّلام کو حضرت مریم رضی اللہ عنہا کے حجرے میں معلوم ہوا کہ اللہ پاک بے موسم پھلوں سے حضرت مریم رضی اللہ عنہا کو نواز رہا ہے، تو ادھر ہی بغیر تاخیر کے اپنی اولاد کے لیے دعا مانگی۔ آپ علیہ السّلام امید و خوف کے ساتھ دعا فرمانے والے تھے کہ امید ایسی کہ آپ علیہ السّلام کی عمر 120 اور زوجہ کی عمر 98 سال تھی پھر بھی اپنے خالق و مالک سے اولاد کی دعا مانگی اور خوف ایسا کہ خود قراٰن شاہد ہے۔

یہ صفات ایسی ہیں کہ علمائے کرام نے بھی دعا جلد قبول ہونے کے اسباب میں ذکر فرمائی ہیں کہ جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کی دعا جلد قبول ہو تو وہ یہ صفات اختیار کرے، ان شاء اللہ ہر جائز مراد پر اللہ پاک جلد رحمت کی نظر فرمائے گا۔

اللہ پاک ہم سب کو انبیائے کرام علیہم السّلام کی سیرت پر عمل پیرا ہونے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ اٰمین


اللہ پاک نے انسانوں کی ہدایت کے لئے  وقتاً فوقتاً انبیائے کرام علیہم السّلام کو مبعوث فرمایا اور ان انبیائے کرام علیہم السّلام کو بے شمار نعمتوں سے نوازا اور ان کو اعلی اوصافِ حمیدہ سے سرفراز فرمایا۔ انہی انبیائے کرام علیہم السّلام کی جماعت میں سے ایک اعلی اوصاف کے حامل سیدنا زکریا علیہ السّلام کی ذات بابرکت ہے۔

آپ کے اعلی کردار کا ذکر، آپ کے اعلی اوصاف کا تذکرہ قراٰنِ مقدس میں اللہ پاک نے جگہ بہ جگہ ذکر فرمایا۔ جیسے سورہ آل عمران آیت نمبر37 تا44 اور سورہ مریم 1 تا11 میں۔ آپ کے اوصاف و کمالات کو ذکر کرنے سے پہلے آپ کے متعلق چند باتیں جو میرے ذہن میں گردش کر رہے ہیں وہ عرض کرتا ہوں۔ آپ علیہ السّلام اللہ پاک کے برگزیدہ نبی حضرت یحییٰ علیہ السّلام کے والد محترم ہے آپ علیہ السّلام حضرت مریم رضی اللہ عنہا کے خالو ہے آپ نے حضرت مریم رضی اللہ عنہا کی پرورش کی۔ ان کے پاس بے موسمی پھل دیکھ کر آپ نے اس مقام پر دعا فرمائی۔

دعا کچھ یوں رنگ لائی کہ رب کریم نے آپ کو فرزند کی صورت میں عظیم نعمت یحییٰ علیہ السّلام سے نوازا۔ فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ٘-وَ وَهَبْنَا لَهٗ یَحْیٰى وَ اَصْلَحْنَا لَهٗ زَوْجَهٗؕ-اِنَّهُمْ كَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ یَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَهَبًاؕ-وَ كَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ(۹۰) ترجَمۂ کنزُالایمان: تو ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اُسے یحیی عطا فرمایا اور اس کے لیے اس کی بی بی سنواری بےشک وہ بھلے کاموں میں جلدی کرتے تھے اور ہمیں پکارتے تھے امید اور خوف سے اور ہمارے حضور گڑگڑاتے ہیں۔(پ17، الانبیآ:90) اس آیت سے آپ کے خوف خدا کا علم ہوتا ہے، آپ علیہ السّلام نیکیوں میں جلدی کرنے والے، اپنے رب کو رغبت کے ساتھ پکارنے والے، اور اپنے رب سے بہت زیادہ ڈرنے والے تھے۔

آپ علیہ السّلام نہایت ہی خود دار تھے، آپ اپنی کمائی سے ہی اپنا گزارا کیا کرتے، آپ علیہ السّلام ایک قوم کے پاس دیوار کا گارا بناتے، بدلے میں آپ کو ایک رو ٹی دے دیا کرتے۔ ایک مرتبہ آپ علیہ السّلام کی بارگاہ میں کچھ لوگ بطورِ مہمان آئے تھے آپ نے ان کو اپنے کھانے میں سے مشرف نا فرمایا اور ان سے فرمایا میں ایک قوم کے پاس کام کرتا ہو بدلے میں وہ مجھے دے دیتے ہیں۔ اگر اس کو میں آپ کو دو تو میں کمزور ہو جاؤں گا اور کام میں دشواری کا سامنا کرنے پڑے گا۔


اللہ پاک نے انبیائے کرام علیہمُ السّلام کو اس دنیا میں اپنی وحدانیت بیان کرنے اور لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجا۔ قراٰنِ پاک میں اللہ پاک نے انبیائے کرام علیہمُ السّلام کے معجزات، واقعات اور صفات کو بیان کیا ہے۔ اللہ پاک کے برگزیدہ اور چنے ہوئے بندوں کی عظمت و شان کو بیان کرنا اللہ پاک کا طریقہ ہے اسی پر عمل کرنے کی نیت سے حضرت زکریا علیہ السّلام کی قراٰنِ پاک سے 5 صفات ذکرکی جا رہی ہیں آپ بھی پڑھئے اور علم و عمل میں اضافہ کیجئے:

(1)قرب ِ الٰہی پانے والے:جن آیات میں آپ علیہ السّلام کا ذکر نام کے ساتھ آیا ہے،ان میں سے ایک وہ بھی ہے جس میں دیگر انبیا کے ساتھ ساتھ آپ کو بھی قربِ الٰہی کا مژدہ سنایا گیا۔ ارشادِ باری ہے: ترجَمۂ کنزُالایمان:اور زکریا اوریحییٰ اور عیسٰی اور الیاس کو یہ سب ہمارے قرب کے لائق ہیں۔ (پ7،الانعام:85)

(2)حضرت مریم کی کفالت کرنے والے: کئی افراد حضرت مریم کی پرورش کے امیدوار تھے۔جب بحث و مباحثہ کا معاملہ بڑھا تو فیصلہ قرعہ اندازی تک پہنچ گیا طے یہ پایا کہ جن قلموں سے تورات لکھتے ہیں ہر کوئی اپنا وہ قلم پانی میں رکھے ،جس کا قلم پانی کے بہاؤ کی الٹی طرف بہنا شروع کر دے وہ کفالت کرے گا۔جب ایسا کیا گیا تو حضرت زکریا علیہ السّلام کا قلم الٹی طرف بہنا شروع ہو گیا۔ اس طرح حضرت مریم آپ کی کفالت میں آئیں۔ اس واقعے کی طرف قراٰن کریم نے یوں اشارہ کیا: ﴿ اِذْ یُلْقُوْنَ اَقْلَامَهُمْ اَیُّهُمْ یَكْفُلُ مَرْیَمَ۪-ترجَمۂ کنزُ الایمان: جب وہ اپنی قلموں سے قرعہ ڈالتے تھے کہ مریم کس کی پرورش میں رہیں۔(پ3،اٰل عمرٰن: 44)

(3)دعاؤں کی کثرت کرنے والے:آپ کی دعاؤں کا ذکر قراٰن ِکریم میں یوں ہوا ہے :ترجَمۂ کنزُالایمان: جب اس نے اپنے رب کو پکارا اے میرے رب مجھے اکیلا نہ چھوڑ۔ (پ17، الانبیآء :89) ایک مقام پریوں ذکر ہوتا ہے: جب اُس نے اپنے رب کو آہستہ پکارا۔(پ16،مریم:3) اس کے علاوہ دیگر چند مقامات پر بھی آپ کی دعاؤں کا تذکرہ موجود ہے ۔

(4)مُستجابُ الدَّعوات آپ علیہ السّلام کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ آپ کی دعا قبول ہوتی تھی۔ جب آپ نے فرزند کی دعا مانگی تو اللہ پاک نے دعا قبول فرمائی آپ کے لئے آپ کی زوجہ کا بانجھ پن ختم کرکے انہیں اولاد پیدا کرنے کے قابل بنا دیا اور آپ کو سعادت مند بیٹا حضرت یحییٰ علیہ السّلام عطا فرمایا۔ جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے: ﴿فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ٘-وَ وَهَبْنَا لَهٗ یَحْیٰى وَاَصْلَحْنَا لَهٗ زَوْجَهٗؕ-ترجمۂ کنز العرفان:تو ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اسے یحییٰ عطا فرمایا اور اس کے لیے اس کی بیوی کو قابل بنا دیا۔(پ 17، الانبیآء: 90)

(5)اللہ پر توکل کرنے والے:حضرت زکریا علیہ السّلام رب کی بارگاہ میں عرض کی:ترجَمۂ کنزُالایمان: اور تو سب سے بہتر وارث۔ (پ17،الانبیآء:89)خزائن العرفان میں ہے : مدعا یہ ہے کہ اگر تو مجھے وارث نہ دے تو بھی کچھ غم نہیں کیونکہ تو بہتر وارث ہے ۔ (خزائن العرفان،ص592)

اللہ پاک ہمیں انبیائے کرام کی مبارک صفات کے صدقے نیکیاں کرنے اور گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین