اللہ پاک امر کن کا مالک ہے، لیکن قانونِ الٰہی اور سنت الٰہی یہ ہے کہ جب بھی کسی قوم کو اللہ پاک نے ہدایت دینے کا ارادہ فرمایا تو نبی علیہ السّلام کو اس قوم میں مبعوث فرمایا، جس نے نبی علیہ السّلام کی پیروی کی وہ مفلحون (کامیاب لوگوں) میں داخل ہو گیا اور جس نے ان کی مخالفت کی، ان کے ساتھ استھزاء(مزاق) کیا، تو وہ خائب و خاسر ہوا اللہ کے غضب میں داخل ہوا،  اس سلسلے کو اللہ پاک نے امام الانبیاء، خاتم الانبیاء، محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر تمام فرما دیا اب کوئی نیا نبی نہیں آئے گا۔

انبیائے کرام کے ذکر سے روح کو تازگی، قلب کو فرحت، اور عمل کا جزبہ ملتا ہے۔ انبیائے کرام وہ مبارک ہستیاں ہیں کہ جن کی زندگی کا ہر ہر پہلو نوع انسانی کے لیے مشعل راہ ہے، انہی ہستیوں میں سے ایک اللہ پاک کے برگزیدہ نبی حضرت زکریا علیہ السّلام کے مختلف اوصاف کے بارے میں جانتے ہیں۔

نام و نسب: آپ کا نام زکریا، کنیت ابو یحییٰ ہے، اور آپ کا سلسلہ نسب حضرت سیدنا داؤد علیہ الصلاۃ و السّلام سے جا ملتا ہے۔ (البدایہ والنہایہ،1/ 500)

اوصاف:اللہ پاک نے قراٰن مجید، برھان رشید میں آپ کے مختلف اوصاف حمیدہ کو ذکر فرمایا ہے ،آپ انتہائی پرہیزگار، اللہ کو بہت رغبت و ڈر سے پکارنے والے، نیکیوں میں جلدی کرنے والے، اپنے ہاتھ سے کما کر کھانے والے، اللہ کے حضور دل سے جھکنے والے ، حضرت مریم رضی اللہ عنہا کے کفیل اور حضرت یحییٰ علیہ السّلام کے والد تھے۔

اللہ رب العزت فرماتا ہے: اِنَّهُمْ كَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ یَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَهَبًاؕ-وَ كَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ(۹۰) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ نیکیوں میں جلدی کرتے تھے اور ہمیں بڑی رغبت سے اور بڑے ڈر سے پکارتے تھے اور ہمارے حضور دل سے جھکنے والے تھے۔ (پ17، الانبیآ:90)

اس کی تفسیر میں علامہ خازن فرماتے ہیں: نیکیوں میں جلدی کرنا ان عظیم امور میں سے ہے، جس کی وجہ سے بندے کی تعریف و توصیف کی جائے، کیوں کہ یہ وصف اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ بندہ اللہ کی اطاعت کرنے میں بڑا حریص ہے۔ (تفسیر خازن سورۃ الانبیاء تحت الایۃ)

حضرت مریم کی کفالت: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْهِ اِلَیْكَؕ-وَ مَا كُنْتَ لَدَیْهِمْ اِذْ یُلْقُوْنَ اَقْلَامَهُمْ اَیُّهُمْ یَكْفُلُ مَرْیَمَ۪-وَ مَا كُنْتَ لَدَیْهِمْ اِذْ یَخْتَصِمُوْنَ(۴۴) ترجمۂ کنزالعرفان: یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم خفیہ طور پر تمہیں بتاتے ہیں اور تم ان کے پاس موجود نہ تھے جب وہ اپنی قلموں سے قرعہ ڈالتے تھے کہ ان میں کون مریم کی پرورش کرے گا اور تم ان کے پاس نہ تھے جب وہ جھگڑ رہے تھے۔(پ3،آل عمرٰن:44)

اس کی تفسیر میں امام فخرالدین رازی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: سب نے اپنی اپنی قلم پانی میں ڈالی تو حضرت زکریا علیہ السّلام کا قلم الٹی طرف بہنا شروع ہو گیا اس طرح حضرت مریم رضی اللہُ عنہا آپ علیہ السّلام کی کفالت میں آگئیں۔(تفسیر کبیر، اٰل عمران، تحت الآیۃ: 44 ، 3 / 219)

آپ نے حضرت مریم رضی اللہ عنہا کے لیے بیت المقدس میں ایک کمرہ خاص کر دیا تھا جس میں آپ کے علاوہ کوئی نہیں آتا جاتا تھا۔ جب آپ آتے تو حضرت مریم رضی اللہ عنہا کے پاس بے موسم پھل دیکھتے!! آپ نے حضرت مریم سے ایک روز پوچھ لیا: یٰمَرْیَمُ اَنّٰى لَكِ هٰذَاؕ یعنی اے مریم! یہ تمہارے پاس کہاں سے آتا ہے؟ تو حضرت مریم نے عرض کی: هُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِؕ (پ 3 ، آل عمران : 37)

اللہ کی جناب میں فرزند کی دعا کرنا: آپ نے جب حضرت مریم رضی اللہ عنہا پر اللہ پاک کی یہ نوازشات دیکھیں، تو انتہائی عاجزی کے ساتھ ربِ رزاق کی بارگاہ میں عرض کی: هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِیَّا رَبَّهٗۚ-قَالَ رَبِّ هَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْكَ ذُرِّیَّةً طَیِّبَةًۚ-اِنَّكَ سَمِیْعُ الدُّعَآءِ(۳۸) ترجمۂ کنزالعرفان: وہیں زکریا نے اپنے رب سے دعا مانگی ،عرض کی :اے میرے رب! مجھے اپنی بارگاہ سے پاکیزہ اولاد عطا فرما، بیشک تو ہی دعا سننے والا ہے۔ (پ3، آلِ عمران:38)

اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں: نمبر ایک جب بھی اللہ کی بارگاہ میں اولاد کی دعا کریں تو صرف اولاد کی نہیں، پاکیزہ، نیک اولاد کی دعا کی جائے۔

نمبر دو اللہ کی بارگاہ میں جب بھی دعا کی جائے تو اس یقین کے ساتھ کی جائے کہ وہ رب کریم میری دعا کو ضرور قبول فرمائے گا زکریا علیہ السّلام کا یہ قول اس بات پر دلالت کر رہا ہے۔ "بیشک تو ہی دعا سننے والا ہے"۔

حضرت یحییٰ علیہ السّلام کی بشارت: آپ کی دعا اللہ پاک نے قبول فرمائی اور آپ کو نا صرف فرزند عطا فرمایا بلکہ انہیں اپنا برگزیدہ نبی بھی بنایا، ارشاد فرماتا ہے: یٰزَكَرِیَّاۤ اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلٰمِ-ﹰاسْمُهٗ یَحْیٰىۙ-لَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ سَمِیًّا(۷) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے زکریا! ہم تجھے ایک لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں جس کا نام یحیٰ ہے ،اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی دوسرا نہ بنایا۔ (پ 16، مریم: 7)

حضرت زکریا علیہ السّلام کے اوصافِ حمیدہ میں ایک وصف بڑا نمایاں ہے؛ اللہ پاک کی بارگاہ میں انتہائی عاجزی و انکساری کے ساتھ دعا کرنا۔ عرض کرتے ہیں وَّ لَمْ اَكُنْۢ بِدُعَآىٕكَ رَبِّ شَقِیًّا(۴) یعنی، اے میرے رب! میں تجھے پکار کر کبھی محروم نہیں رہا۔

یقیناً جب بندہ اپنے رب کی بارگاہ میں اس یقین و عاجزی کے ساتھ دعا کرتا ہے، "کہ مولا! میں کمزور ہوں مگر تو قادر ہے رزاق ہے تیرے لیے تو بس اتنا کہنا ہے "ہوجا" تو میری تمام مشکلیں پریشانیاں پل بھر میں حل ہو جائیں گی" تو ضرور کرم ہوگا۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہماری تمام حاجات پر اپنے پارے نبی زکریا علیہ السّلام کے صدقے میں رحمت کی نظر فرمائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم