
حضور نبی اکرم ﷺ اللہ پاک کے سب سے بڑھ کر محبوب رسول ہونے کے باوجود اتنے بڑے عبادت گزار تھے کہ تمام پچھلے انبیائے کرام علیہم السلام کی مقدس زندگیوں میں
اس کی مثال ملنی دشوار ہے بلکہ سچ تو یہ
ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام کے بارے میں صحیح طور سے یہ بھی نہیں معلوم ہو سکتا کہ ان کی عبادت
کا طریقہ کیا تھا اور وہ کس وقت کون سی
عبادت کرتے تھے!لیکن حضور پر نور ﷺ کے عبادات کو آپ کے صحابہ علیہم
الرضوان نے ملاحظہ فرمایا اور گھر میں جو عبادات کرتے تھے اسے ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن نے اپنی یاداشت میں
محفوظ کیا اور ساری امت کو بتا دیا ۔
آقا ﷺ کی عبادات میں سے ایک عبادت روزہ بھی ہے۔روزے 10 شعبان 2 ھ میں فرض ہوئے۔آپ روزے فرض ہونے
سے پہلے بھی روزہ دار رہا کرتے۔رمضان شریف کے روزوں کے علاوہ شعبان میں بھی روزہ دار ہی رہتے تھے۔سال کے باقی مہینوں
میں بھی یہی کیفیت رہتی تھی کہ اگر روزہ رکھنا شروع فرما دیتے تو معلوم ہوتا تھا
کہ اب کبھی روزہ نہیں چھوڑیں گے،پھر چھوڑ دیتے تو معلوم ہوتا تھا کہ کبھی روزہ نہیں رکھیں
گے۔خاص کر ہر مہینے میں ایامِ بیض(چاند کی14،13اور15تاریخ)کے روزے،دو شنبہ و جمعرات
کے روزے،عاشورا کے روزے،عشرۂ ذی الحجہ کے روزے،شوال کے چھ روزے معمولاً رکھا کرتے تھے۔کبھی کبھی آپ صومِ وصال بھی رکھتے تھے،(یعنی کئی کئی دن رات کا ایک روزہ)،لیکن اپنی امت کو ایسا
روزہ رکھنے سے منع فرماتے تھے۔بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی: یارسول اللہ ﷺ!
آپ تو صومِ وصال رکھتے ہیں!ارشاد فرمایا:تم
میں مجھ جیسا کون ہے؟ میں اپنے رب کے دربار میں رات بسر کرتا ہوں اوروہ مجھ کو کھلاتا اور پلاتا ہے۔(بخاری،1/645،حدیث:1961)
رسول اللہ ﷺ نےنفلی روزوں کے بارے میں فرمایا:جس نے ایک نفل روزہ رکھا اس کے لیے جنت
میں ایک درخت لگا دیا جائے گا جس کا پھل
انار سے چھوٹا اور سیب سے بڑا ہوگا، وہ شہد سے میٹھا اور خوش ذائقہ ہوگا، اللہ
پاک بروزِ قیامت روزہ دار کو اس درخت کا
پھل کھلائے گا۔(معجم کبیر ،18/366، حدیث:935(
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت
فرماتی ہیں:نبیوں کے سر تاج، صاحبِ معراج ﷺ پیر اور جمعرات کے روزے کا خاص خیال
رکھتے تھے۔(ترمذی ،2/186، حدیث: 745)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولِ پاک ﷺ فرماتے ہیں:پیر اور
جمعرات کو اعمال پیش ہوتے ہیں تو میں پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل اس وقت پیش ہو کہ
میں روزہ دار ہوں۔
(ترمذى،2 / 187 ،حديث:
748)
حضور
ﷺ نے فرمایا:جس نے رضائے الٰہی کیلئے ایک دن کا نفل
روزہ رکھا تو اللہ پاک اس کے اور دوزخ کے درمیان ایک تیز رفتار سوار کی پچاس سالہ
مسافت (یعنی فاصلے ) تک دور فرما دے گا۔
(کنز
العمال،8/255، حدیث:24149)
فرمایا:اگر کسی نے ایک دن نفل روزہ رکھا اور زمین
بھر سونا اسے دیا جائے جب بھی اس کا ثواب پورا نہ ہوگا، اس کا ثواب تو قیامت ہی کے
دن ملے گا۔(مسند ابی یعلی ،5/253، حدیث: 6104)
حضور ﷺ کی روزوں سے محبت از بنت اشرف
چشتی،فیضان خدیجۃ الکبری کنگ سہالی، گجرات

ہمارے پیارے آقا ﷺ روزوں سے بہت محبت فرماتے تھے،اس
لیے آپ خود بھی روزے رکھتے اور دوسروں کو اس کی ترغیب بھی دلاتے تھے،چنانچہ ام المومنین
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اللہ
پاک کے حبیب ﷺ چار چیزوں کو نہیں چھوڑتے تھے:(1)عاشورا(2)عشرۂ
ذی الحجہ اور(3)ہر مہینے میں تین روزے(4)فجر سے پہلے
دو رکعتیں(دو سنتیں)۔ (نسائی، ص 395 ،حدیث:
2413)
اسی طرح ایک اور حدیث میں حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ طبیبوں
کے طبیب،اللہ پاک کے حبیب ﷺ ایامِ بیض میں بغیر روزہ کے نہ ہوتے نہ سفر میں نہ حضر
میں۔
(نسائی،ص386،حدیث:2342 )
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آقائے
دوجہاں،رحمتِ عالمیان ﷺ روزوں سے بہت محبت فرماتے تھے۔ مزید ملاحظہ کیجئے کہ آقائے
مدینہ ﷺ اپنا یومِ ولادت بھی روزہ رکھ کر مناتے تھے جیسا کہ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مدینے کے تاجدار،رسولوں کے
سالار،نبیوں کے سردار ﷺ سے پیر کے روزے کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا :اسی
میں میری ولادت ہوئی اور اسی دن مجھ پر وحی نازل ہوئی۔
(
مسلم،ص591،حدیث: 1162)
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت
ہے کہ میرے سر تاج،صاحبِ معراج ﷺ پیر اور جمعرات کے روزے کا خاص خیال رکھتے تھے۔(ترمذی،
2/187،حدیث:745)
آقا ﷺ کی روزوں سے محبت اس بات سےبھی معلوم ہوتی ہے کہ آپ یہ پسند کیا کرتے
کہ اعمال پیش ہوتے وقت بھی روزہ دار ہوں کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺفرماتے ہیں:پیر اور
جمعرات کو اعمال پیش ہوتے ہیں تو میں پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل اس وقت پیش ہو کہ
میں روزہ دار ہوں۔(ترمذى،2 / 187 ،حديث: 748)
آپ اسی محبت کی وجہ سے نہ صرف خود روزے رکھتے بلکہ
دوسروں کو اس کی ترغیب بھی دلاتے۔چنانچہ حدیثِ پاک میں ہے:جس نے رمضان،شوال،بدھ
اور جمعرات کا روزہ رکھا وہ داخلِ جنت ہو گا۔
(نسائی، 2/147،حدیث:2778)
مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کو
روزوں سے محبت تھی اور یہ آپ کی محبوب ترین عبادت تھی۔لہٰذا ہمیں بھی اپنے آقا ﷺ کی
محبوب ترین عبادت سے محبت رکھنی چائیے اور روزے رکھنے چاہئیں۔
حضور ﷺ کی روزوں سے محبت از بنت محمد
ریاض،فیضان خدیجۃ الکبری کنگ سہالی ،گجرات

حضور نبی رحمت ﷺ کا قلبِ اطہر ایسے پاکیزہ امور سے
محبت رکھتا تھا جو اللہ پاک کی رضا و خوشنودی کو لازم ٹہرائیں۔نبی کریم ﷺ کو جہاں
دیگر اعمالِ صالحہ سے محبت تھی وہیں آقا کریم ﷺ روزہ رکھنے کو نہایت پسند فرماتے۔چنانچہ رمضان المبارک کی آمد پر حضور ﷺ
کی خوشی دیدنی ہوتی۔
1۔آمد رمضان پر آقا کریم ﷺ
کا عمل:حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما
فرماتے ہیں:جب ماہِ رمضان آتا تو رسول اللہ ﷺ ہر قیدی کو چھوڑ دیتے تھے اور ہر
منگتے کو عطا کرتے تھے۔
(شعب الایمان، 3/311،حدیث:3629
)
مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:یوں تو سرکار(ﷺ)
ہمیشہ ہی سائل کو دیتے تھے ،کریم ہیں ، سخی ہیں ، داتا ہیں مگر رمضان المبارک میں
آپ کی سخاوت کا سمندر موجیں مارتا تھا۔
(مراۃ المناجیح،3/142)
حضورِ اکرم ﷺ نہ صرف فرض روزوں کے لیے اہتمام
فرماتے بلکہ نفل روزے بھی کثرت سے رکھتے چنانچہ اس ضمن میں چند احادیثِ مبارکہ
ملاحظہ فرمائیے:
1:حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے
عرض کی:یارسول اللہ ﷺ!میں دیکھتا ہوں کہ جس طرح آپ شعبان میں روزے رکھتے ہیں اس
طرح کسی مہینے میں نہیں رکھتے ؟فرمایا:رجب اور رمضان کے بیچ میں یہ مہینا ہے ،لوگ
اس سے غافل ہیں ،اس میں لوگوں کے اعمال رب کی طرف اٹھائے جاتے ہیں اور مجھے یہ
محبوب ہے کہ میرا عمل اس حال میں اٹھایا جائے کہ میں روزہ دار ہوں۔
(نسائی،ص387،حدیث: 2354)
2:حضرت
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اعمال پیر و جمعرات
کو پیش کئے جاتے ہیں لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ میرے عمل اس حال میں پیش ہوں کہ میں
روزے والا ہوں۔
(ترمذى،2 / 187 ،حديث:
748)
خیال رہے کہ سال بھر کے اعمال کی تفصیلی پیشی شعبان
میں ہوتی ہے کیونکہ وہ اللہ پاک کے ہاں سال کا آخری مہینا ہے اور پہلا مہینا رمضان
ہےغرضیکہ فرشی سال اور ہے جس کی ابتدا محرم سے اور انتہا بقر عید پر ہے عرشی سال کچھ اور ہے۔ (مراۃ
المناجیح،/190)
3:حضور ﷺ ایامِ بیض کے روزے نہ چھوڑتے:حضرت
ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ ایامِ بیض کے روزے نہ چھوڑتے
نہ گھر میں نہ سفر میں۔(نسائی،ص386،حدیث:2342 )
یہاں مرقات نے فرمایا:ایام ِبیض کے متعلق علماء کے
نو قول ہیں جن میں سے زیادہ قوی قول یہ ہے کہ وہ چاند کی تیرھویں،چودھویں،پندرھویں
راتیں ہیں۔( مراۃ المناجیح،3/195)
حضور ﷺ کو عاشورا کے روزے سے بے حد محبت تھی جس کی
دلیل یہ روایت ہے کہ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول
اللہ ﷺ کو نہ دیکھا کہ آپ کسی دن کے روزوں کو دوسرے دنوں پر بزرگی دے کر تلاش کرتے ہوں سوائے
عاشورا کے دن کےاور رمضان کے روزوں کے۔
(بخاری،1/657،حدیث:2006)
آقا کریم ﷺ کو روزہ رکھنا اس قدر عزیز تھا کہ شدید
گرمی میں بھی اس کو نہ چھوڑتے جیساکہ روایت ہے کہ
نبی کریم ﷺ کو مقامِ عرج میں بحالتِ روزہ سر مبارک
پر پیاس یا گرمی کی وجہ سے پانی ڈالتے دیکھا گیا۔
(ابو داود،2/450،حدیث:2365)
مندرجہ بالا روایات سے معلوم ہوا کہ آقا کریم ﷺ کو
روزہ رکھنا کس قدر پسند تھا۔اللہ کریم ہمیں بھی حضور ﷺ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے
فرائض و نوافل کی کامل و مقبول ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے۔

روزہ بہت قدیم عبادت ہے۔حضرت
آدم علیہ السلام سے لے کر تمام شریعتوں میں روزے فرض ہوتے چلے آ رہے ہیں۔روزے کا
مقصد تقویٰ و پرہیزگاری کا حصول ہے جس کی ترغیب ہمیں حضور ﷺ کے عمل مبارک سے بھی
ملتی ہے۔حضور ﷺ فرض روزوں کے علاوہ نفل روزے بھی بکثرت رکھا کرتے تھے۔
حدیثِ مبارکہ:حضرت عائشہ رضی
اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی پاک ﷺ کبھی اتنے روزے رکھتے تھے کہ ہمارا خیال ہوتا
کہ اب کبھی روزے نہ چھوڑیں گے اور پھر کبھی آپ اتنے روزے چھوڑ دیتے کہ ہمارا خیال ہوتا کہ آپ روزے کبھی بھی نہ رکھیں گے۔(نسائی،ص387،حدیث:2354)مدینہ
طیبہ تشریف لانے کے بعد آپ نے سوائے ماہِ رمضان
کے کبھی بھی مکمل اور مسلسل ایک مہینے کے روزے نہیں رکھے اور نہ کسی ماہ میں آپ کو
شعبان سے زیادہ روزے رکھتے ہوئے دیکھا۔(بخاری،1/
648،حدیث: 1969)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:رسول اللہ ﷺ ایک مہینے میں ہفتہ،اتوار اور پیر کا
روزہ رکھتے اور دوسرے مہینے میں منگل، بدھ اور جمعرات کا۔ (ترمذی،2/186،
حدیث:746)
آقا ﷺ نے کسی کو بھی محروم نہ فرمایا یہاں تک کہ
ہفتے کے سارے دنوں میں اپنے روزے تقسیم کر دیئے
تھے تاکہ کوئی دن حضور ﷺ کے روزے کی برکت سے محروم نہ رہے۔ایک مہینے میں تین دن
اور اگلے مہینے میں اگلے تین دن کے روزے رکھتے اور جمعے کے روزے کی تو عادت کریمہ
تھی ہم لوگ دنوں سے برکت پاتے ہیں اور نبی کریم ﷺ کی عبادات سے دن برکت پاتے تھے۔(مراۃ المناجیح، 3/190)
پیر اور جمعرات کے دن کا روزہ:پیارے
آقا ﷺ پیر اور جمعرات کے روزے کا خاص اہتمام فرمایا کرتے تھے اور ان کے متعلق آپ
نے ارشاد فرمایا:پیر اور جمعرات کو اعمال(بارگاہِ الٰہی)میں پیش کیے جاتے ہیں،لہٰذا
میں چاہتا ہوں کہ میرا عمل روزے کی حالت میں پیش ہو۔(ترمذی،2/186، حدیث: 745)
ولادت شریف کے دن روزہ:آقا
کریم ﷺ اپنی ولادت شریف کا دن روزہ رکھ کر منایا کرتے تھے۔چنانچہ
ایک مرتبہ جب آپ سے پیر شریف کے دن روزہ رکھنے کے
بارے میں سوال کیا گیا تو ارشاد فرمایا:یہ وہ دن ہے جس میں میری ولادت ہوئی اور اسی
دن میں مبعوث ہوا یا مجھ پر قرآن نازل فرمایا گیا۔
(مسلم،ص 455، حدیث: 2747)
اس کے علاوہ آپ ہرمہینے میں تین دن ایامِ بیض کے
روزے،دو شنبہ و جمعرات کے روزے،عاشورا کے روزے،عشرۂ ذی الحجہ کے روزے، شوال کے چھ
روزے معمولاً رکھا کرتے تھے۔دس محرم شریف کا روزہ خود بھی رکھا اور اس کے رکھنے کا
حکم بھی ارشاد فرمایا۔(سیرتِ مصطفی ، ص597،596)
روزہ داروں کے واسطے وَاللہ مغفرت کی نوید ہوتی ہے
اللہ پاک ہمیں بھی پیارے حبیب ﷺ کے صدقے فرض روزوں
کے ساتھ ساتھ نوافل کی پابندی کرنےکی بھی توفیق نصیب فرمائے۔آمین
حضور ﷺ کی روزوں سے محبت از بنت محمد
ندیم،فیضان عائشہ صدیقہ نندپور، سیالکوٹ

آقا کریم ﷺ شعبان کے اکثر روزے رکھا کرتے تھے۔چنانچہ حدیثِ پاک میں ہے کہ رسول اللہﷺ شعبان سے زیادہ
کسی مہینے میں روزے نہ رکھا کرے بلکہ پورے شعبان ہی کے روزے رکھ لیا کرتے تھے اور
فرمایا کرتے:اپنی استطاعت کے مطابق عمل کرو کہ اللہ پاک اُس وقت تک اپنا فضل نہیں
روکتا جب تک تم اکتا نہ جاؤ۔(بخاری،1/ 648،حدیث:1970)
شارحِ بخاری حضرت علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمۃ
اللہِ علیہ فرماتے ہیں:مراد یہ ہے کہ شعبان میں اکثر دنوں میں روزہ رکھتے تھے اسے
تعلیباً (یعنی غلبے اور زیادت کے لحاظ سے )کُل(یعنی سارے مہینے کے روزے رکھنے)سے
تعبیر کر دیا جیسے کہتے ہیں:فلاں نے پوری رات عبادت کی،جب کہ اُس نے رات میں کھانا
بھی کھایا ہو اور ضروریات سے فراغت بھی کی ہو،تغلیباً اکثر کو کل کہہ دیا۔مزید
فرماتے ہیں:حدیث سے معلوم ہوا کہ شعبان میں جسے قوت ہو وہ زیادہ سے زیادہ روزہ
رکھے۔البتہ جو کمزور ہو وہ روزہ نہ رکھے کیونکہ اس سے رمضان کے روزوں پر اثر پڑے
گا۔یہی محمل(یعنی مراد مقصد) ہے ان احادیث(مثلاً ترمذی،2/ 183،حدیث:738 وغیرہ) کا
جن کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ نصف شعبان کے بعد روزہ نہ رکھو۔
(ترمذی،2/183،حدیث:738)( نزہۃ القاری،3/380،377)
( آقا کا مہینا، ص6)
آپ نے پڑھا کہ ہمارے پیارے آقا،مدینے والے مصطفےٰ ﷺ
اس ماہِ مبارک کو کس قدر پسند فرماتے، حالانکہ اس مہینے میں روزے فرض نہیں مگر پھر
بھی آپ کثرت سے روزہ رکھا کرتے۔اب ذرا غور
کیجئے کہ پیارے آقا، دو جہاں کے داتا ﷺ سند المعصومین ہو کر بھی اس ماہِ مبارک کے
اکثر دن روزے کی حالت میں گزاریں تو ہم گناہگاروں کو اس ماہ میں روزے رکھنے کی کتنی
ضرورت ہے!ہمیں چاہیے کہ ہم رمضان کے
روزوں کے علاوہ نفل روزے رکھنے کی بھی عادت بنائیں کہ
اس میں ہمارے لئے بے شمار دینی فوائد کے
ساتھ ساتھ کثیر دنیوی فوائد بھی ہیں۔
دینی فوائد میں ایمان کی حفاظت،گناہوں سے بچت،جہنم سے نجات اور جنت کا حصول وغیرہ شامل ہیں۔ جہاں
تک دنیوی فوائد کا تعلق ہےتو روزے میں دن اور رات کے اوقات میں کھانے پینے میں صرف
ہونے والے وقت اور اخراجات،پیٹ کی اصطلاح اور معدے کو آرام ملنے کے ساتھ ساتھ دیگر
کئی بیماریوں سے حفاظت کا سامان ہےاور تمام فوائد کی اصل یہ ہے کہ اس سے اللہ پاک
راضی ہو جاتا ہے۔ہمیں بھی چند دن کی تکلیف سہہ کر بے شمار دینی اور دنیوی فوائد کے
حصول کی کوشش کرنی چاہیے۔مزید یہ کہ نفل روزے رکھنے کا اجر تو اتنا ہے کہ ہم روزے
رکھتی ہی چلے جائیں۔
آقا کریم،سرورِ کائنات،رسول اللہﷺ کا فرمان ہے:جس
نے ثواب کی نیت سے یا ثواب کی امید رکھتے ہوئے ایک نفل روزہ رکھا اللہ پاک اُس سے
دوزخ سے چالیس 40 سال کا فاصلہ دور فرمادے گا۔
(کنز العمال ، 8 / 255 ،حدیث:(24148
اللہ پاک کے حبیب ﷺ کا ایک اور فرمانِ رغبت نشان ہے:اگر
کسی نے ایک دن نفل روزہ رکھا تو زمین بھر
سونا اسے دیا جائے جب بھی اس کا ثواب پورا نہ ہو گا۔اس کا ثواب تو قیامت کے دن ہی ملے گا۔
(مسند ابی یعلی،5/353،حدیث:6104)(فیضانِ
سنت،ص1331)
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے عرض کی:یا
رسول اللہﷺ!مجھے کوئی عمل بتائیے۔ ارشاد فرمایا:روزے رکھا کرو کیونکہ اس جیسا کوئی
عمل نہیں۔میں نے پھر عرض کی:مجھے کوئی عمل بتائیے۔ فرمایا:روزے رکھا کرو کیونکہ اس
جیسا کوئی عمل نہیں۔میں نے پھر عرض کی:مجھے کوئی عمل بتائیے۔فرمایا: روزے رکھا کرو
کیونکہ اس کی کوئی مثل نہیں۔
(نسائی،ص370،حدیث:2220)(فیضانِ سنت،ص1338)

رمضان شریف میں روزے رکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے لیکن
اس ماہ کے علاوہ روزے رکھنا بھی ثواب کا کام ہے۔روزے
ہمارے لیے بخشش کا سامان کریں گے۔پیارے آقا ﷺ فرض روزوں کے علاوہ بہت سے نفل روزے
بھی رکھتے تھے۔
روح اور باطن کو ہر قسم کی آلائشوں سے صاف کرنے کے
لیے روزے سے بہتر اور کوئی عمل نہیں۔اللہ پاک نے بھی روزے کی فرضیت کا مقصد تقویٰ
قرار دیا ہے جیسا کہ ارشاد باری ہے:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ
عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ
تَتَّقُوْنَۙ(۱۸۳) (پ2،البقرۃ:183) ترجمہ:اے
ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے
تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔(پ2،البقرۃ:183)
حضور ﷺ کا روزہ رکھنا:یہی
سبب تھا کہ حضور ﷺ کو اس عبادت سے اتنا شغف تھا کہ آپ اکثر روزے سے رہتے تھے اور صیامِ
وصال یعنی پے در پے بغیر افطار کیے روزے رکھتے بلکہ ہر مہینے میں تین روزے ضرور
رکھتے۔رمضان المبارک شروع ہوتا تو آپ کی خوشی کی انتہا نہ رہتی۔آپ اس ماہِ مقدس کی
تیاری شعبان سے ہی شروع فرما دیتے تھے اور
شعبان میں دوسرے مہینوں کی بنسبت کثرت سے روزے رکھتے تھے۔
حضور ﷺکی حیاتِ طیبہ سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے حالتِ
حضر میں کبھی روزہ قضا نہیں فرمایا تاہم سفر کے دوران آپ کا معمول تھا کہ کبھی
روزہ رکھ لیتے اور کبھی قضا فرما لیتے۔یہ امت کو تعلیم دینے کے لیے تھا کہ آپ کی
سراپا رحمت ذات کو ہرگز گوارا نہ تھا کہ اپنی امت کو مشقت میں ڈالیں۔
حضور ﷺکی روزوں سے محبت احادیثِ مبارکہ
کی روشنی میں:
حضرت عبد اللہ بن شقیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ
رضی اللہ عنہا سے حضور ﷺ کے روزے رکھنے کے
متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا:کبھی
آپ اس طرح متواتر روزے رکھتے کہ ہم کہتے کہ اب آپ روزے ہی رکھیں گے اور جب روزے نہ
رکھتے تو ہم لوگ کہتے کہ اب روزہ نہیں رکھیں گے۔(نسائی،ص387،حدیث:2354)فرماتی ہیں:مدینہ منورہ تشریف آوری کے
بعد سے رمضان المبارک کے علاوہ آپ نے کسی پورے مہینے کے روزے رکھے۔
(مسلم ،ص863،حدیث:2724)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:حضور
ﷺ ہر مہینے کی ابتدا میں تین دن روزہ رکھتے تھے اور جمعہ کے دن بہت کم افطار
فرماتے تھے۔(ترمذی ،2/185،حدیث:742)
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:حضورﷺ کسی ایک مہینے میں ہفتہ،اتوار
اور پیر کو روزہ رکھ لیتے اور دوسرے ماہ منگل،بدھ اور جمعرات کے دن روزہ رکھتے
تھے۔
(ترمذی،2/186،
حدیث:746)
حضرت انس رضی اللہ
عنہ
سے روایت ہے:حضور نبی اکرم
ﷺنے مہینے کے آخر میں وصال کا روزہ رکھ لیا تو لوگوں نے بھی شوق سے صومِ وصال رکھ
لیے۔ آپ نے ارشاد فرمایا: اگر یہ مہینا ختم نہ ہوتا تو میں صومِ وصال کو اتنا طویل
فرماتا کہ ضدی لوگ اپنی ضد چھوڑ دیتے۔بے شک میں تمہاری طرح نہیں ہوں میں تو اس حال
میں رہتا ہوں کہ مجھے میرا رب کھلاتا اور پلاتا ہے۔
(بخاری،1/645، حدیث: 1961)(بخاری،4 /488، حدیث:7242)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا:پیر اور جمعرات کے دن اعمال بارگاہِ
خداوندی میں پیش کیے جاتے ہیں۔میں پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل پیش کیا جائے اورمیں
روزہ سے ہوں۔(ترمذی،2/187،حدیث: 747)
حضور ﷺ کی روزوں سے محبت از بنت رمضان
احمد،فیضان عائشہ صدیقہ نندپور سیالکوٹ

روزہ داروں کے لئے بخشش کی بشارت:
1-قرآنِ پاک میں
روزوں کے بارے میں ارشادِ باری ہے:وَ الصَّآىٕمِیْنَ وَ الصّٰٓىٕمٰتِ وَ الْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَهُمْ وَ الْحٰفِظٰتِ
وَ الذّٰكِرِیْنَ اللّٰهَ كَثِیْرًا وَّ الذّٰكِرٰتِۙ-اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ
مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا(۳۵)(پ22،الاحزاب:35)ترجمہ:اور روزے والے اورروزے والیاں اور اپنی
پارسائی نگاہ رکھنے والے اور نگاہ رکھنے والیاں اور اللہ کو بہت یاد کرنے والے اور
یاد کرنے والیاں ان سب کے لیے اللہ نے بخشش اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے۔
2-یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ
مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ(۱۸۳) (پ2،البقرۃ:183)ترجمہ:اے ایمان والو تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے اگلوں پر فرض
ہوئے تھے کہ کہیں تمہیں پرہیزگاری ملے۔
تفسیرصراط الجنان:اس آیت میں روزوں کی فرضیت کا بیان ہے۔شریعت میں روزہ یہ ہے کہ صبحِ صادق سے
لے کر غروبِ آفتاب تک روزے کی نیت سے کھانے پینے اور ہم بستری سے بچا جائے۔
(تفسیر خازن،1 / 119)
روزہ بہت قدیم عبادت ہے:آیت میں فرمایا گیا کہ جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض تھے۔اس سے معلوم ہوتا ہے
کہ روزہ بہت قدیم عبادت ہے۔حضرت آدم علیہ السلام سے لے کرتمام شریعتوں میں روزے
فرض ہوتے چلے آئے ہیں اگرچہ گزشتہ امتوں کے روزوں کے دن اور احکام ہم سے مختلف
ہوتے تھے۔یاد رہے کہ رمضان کے روزے10 شعبان 2ہجری میں فرض ہوئے تھے۔(در مختار،3/ 383)
روزے کا مقصد:آیت کے آخر میں بتایا گیا کہ روزے کا مقصد تقویٰ و پرہیزگاری کا حصول ہے۔روزے
میں چونکہ نفس پر سختی کی جاتی ہے اور کھانے پینے کی حلال چیزوں سے بھی روک دیا
جاتا ہے تو اس سے اپنی خواہشات پر قابو پانے کی مشق ہوتی ہے جس سے ضبط ِنفس اور
حرام سے بچنے پر قوت حاصل ہوتی ہے اور یہی ضبط ِ نفس اور خواہشات پر قابو وہ بنیادی
چیز ہے جس کے ذریعے آدمی گناہوں سے رکتا ہے۔قرآنِ پاک میں ہے:وَ اَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَ نَهَى النَّفْسَ عَنِ
الْهَوٰىۙ(۴۰) فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِیَ الْمَاْوٰىؕ(۴۱)
(پ30،النزعت:40،41)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور وہ جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے
سے ڈرا اور نفس کو خواہش سے روکا۔تو بیشک جنت ہی ٹھکانا ہے۔
حضورﷺ روزوں سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:آئیے!احادیثِ
مبارکہ ملاحظہ فرما ئیے:
1-حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے عرض کی:یارسول
اللہ ﷺ!مجھے کوئی عمل بتائیے۔ ارشاد فرمایا:روزے رکھا کرو کیونکہ اس جیسا کوئی عمل
نہیں۔میں نے پھر عرض کی:مجھے کوئی عمل بتائیے۔ فرمایا:روزے رکھا کرو کیونکہ اس جیسا
کوئی عمل نہیں۔میں نے پھر عرض کی:مجھے کوئی عمل بتائیے۔فرمایا: روزے رکھا کرو کیونکہ
اس کا کوئی مثل نہیں۔(نسائی،ص370،
حدیث:2220)
2- روزے کو آپ ﷺ بہت محبوب رکھتے تھےاور آپ کی عادت ِمبارکہ
میں یہ چیز بکثرت شامل تھی، اسی وجہ سے ہر مہینے کے اعتبار سے کچھ نہ کچھ روزوں کی
فضیلتوں کو بیان کیا گیا۔پیر شریف کے روزے کی فضیلت کو الگ بیان کیا گیا۔چنانچہ
پوچھا گیا:یا رسول اللہ ﷺ!آپ پیر کو روزہ رکھتے ہیں!تو اللہ پاک کے رسول ﷺ نے
ارشاد فرمایا:اسی دن میں پیدا ہوا ہوں اور اسی دن مجھ پر وحی نازل ہوئی ہے۔
(مسلم،ص 591 ،حدیث: 198)( صبحِ بہارا ں، ص21)
3- حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:رسول اللہ ﷺ نے
ارشاد فرمایا:اعمال پیر اور جمعرات کو پیش کئے جاتے ہیں، لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ میرے
اعمال اس حال میں پیش ہوں کہ میں روزہ والا ہوں۔
(ترمذی،2/187،حدیث: 747)
4- حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:رسول اللہ ﷺ ایک مہینے
میں ہفتہ، اتوار اور پیر کا روزہ رکھتے تھے اور دوسرے مہینے منگل، بدھ اور جمعرات
کا۔(ترمذی،2/186، حدیث:746)یعنی میرے پیارے نبی کریم ﷺ ہفتے کے سارے دنوں میں اپنے
روزے تقسیم کر دیتے تھے تاکہ کوئی دن حضور پاک ﷺ کے روزے کی برکت سے محروم نہ رہے،
گویا آپ ﷺ مہینے میں تین دن اور دوسرے مہینے میں اگلے تین دن روزے رکھتے تھے،نبی
پاک ﷺ کی عبادات سے دن برکت پاتے تھے، جیسے ہم چاند سے روشنی پاتے ہیں اور چاند
سورج سے۔(مراۃ المناجیح، 3/190)
5- اُمّ المُومنین حضرت عائشہ صِدّیقہ رضی اللہ عنہا سے روا یت ہے کہ حضور ﷺ پُورے شعبان کے روزے رکھا کرتے تھے۔فرماتی ہیں:میں
نے عرض کی: یارَسُولَ اللہ ﷺ! کیا سب مہینو ں میں آپ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ شعبان
کے روزے رکھنا ہے؟توشفیعِ روز ِشمار ﷺ نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک اِس سال مرنے والی ہر جان کو لکھ دیتا ہے اور
مجھے یہ پسند ہے کہ میرا وقتِ رُخصت آئے اور میں روزہ دارہوں۔
( مسندِابی یعلی
،4/277،حدیث:4890)
جنت کا انوکھا درخت:حضرت قیس بن زید جُہَنّی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،اللہ پاک کےپیارے محبوب ﷺ
کا فرمانِ جنت نشان ہے:جس نے ایک نفل روزہ رکھا اللہ پاک اس کےلیے جنت میں ایک
درخت لگائےگا جس کا پھل انار سے چھوٹا اور سیب سے بڑا ہوگا، وہ شہد جیسا میٹھا اور
خوش ذائقہ ہوگا،اللہ پاک بروزِ قیامت روزہ دار کو اس درخت کا پھل کھائے گا۔
(معجم کبیر،18/366،حدیث:935)(مدنی
پنج سورہ، ص294)
جہنم سے دوری:حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:رسولِ کریم ﷺ کا فرمانِ عافیت
نشان ہے:جو اللہ پاک کی راہ میں ایک دن کا روزہ رکھے تو اللہ پاک اسے جہنم سے
ستر(70)سال کی راہ دور رکھے گا۔(بخاری،2/265،حدیث:2840)یہاں روزے سے مراد نفل روزہ ہے۔اس لیے صاحبِ مشکوۃ یہ حدیث نفل روزے کے باب میں
لائے ہیں یعنی بندہِ مومن اگر نفل روزہ رکھے اور اللہ پاک رحیم و غفور اس کو اپنے
کرم سے قبول کرے تو دوزخ میں جانا تو کیا وہ دوزخ کے قریب بھی نہ ہوگا اور وہاں کی
ہوا بھی نہ پائے گا۔(مراۃ المناجیح،3/187)

اسلام میں اکثر اعمال کسی نہ کسی روح پرور واقعے کی یاد تازہ کرنے کیلئے مقرر کئے گئے ہیں مثلاً صفا و مروہ
کے درمیان حاجیوں کی سعی حضرت ہاجرہ رضی
اللہ عنہا کی یادگار ہے۔آپ اپنے لختِ جگر حضرت اسماعیل ذبیح اللہ علیہ السلام کے لئے پانی تلاش کرنے کے لئے ان دونوں
پہاڑوں کے درمیان سات بار چلی اور دوڑی تھیں۔اللہ
پاک کو حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا کی یہ
ادا پسند آگئی،لہٰذا اسی ادائے ہاجرہ کو اللہ پاک نے باقی رکھتے ہوئے حاجیوں اور
عمرہ کرنے والوں کے لئے صفاومروہ کی سعی واجب فرمادی۔اسی طرح ماہِ رمضان المبارک میں
کچھ دن حضور ﷺ نے غارِحرا میں گزارے تھے ،اس دوران آپ دن کو کھانے سے پرہیز کرتے
اور رات کو ذکراللہ میں مشغول رہتے تھے تو اللہ پاک نے اُن دنوں کی یاد تازہ کرنے
کیلئے روزے فرض کئے تاکہ اس کے محبوب ﷺ کی سنت قائم رہے۔( فیضان رمضان، ص 73)
اللہ پاک قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے :یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا
كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ(۱۸۳)اَیَّامًا
مَّعْدُوْدٰتٍؕ-فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ
مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَؕ-وَ عَلَى الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَهٗ فِدْیَةٌ طَعَامُ
مِسْكِیْنٍؕ-فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗؕ-وَ اَنْ تَصُوْمُوْا
خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۱۸۴) (پ 2،البقرۃ:183تا 184)
ترجمہ کنز الایمان:اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے جیسے
اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ کہیں تمہیں پرہیز گاری ملے گنتی کے دن ہیں تو تم میں جو
کوئی بیمار یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں اور جنہیں اس کی طاقت نہ ہو
وہ بدلے میں ایک مسکین کا کھانا پھر جو اپنی طرف سے نیکی زیادہ کرے تو وہ اس کے
لئے بہتر ہے اور روزہ رکھنا تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے اگر تم جانو۔
آپ ﷺ رمضان المبارک کے روزوں کے ساتھ ساتھ نفل روزے بھی
رکھا کرتے تھے۔
سرکارِ مدینہ ﷺ کا فرمانِ عظمت نشان ہے:رمضان کے بعد سب سے
افضل شعبان کے روزے ہیں تعظیمِ رمضان کے لئے۔( شعب الایمان،4/377، حديث:3819)
بخاری شریف میں ہے:حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:رسولِ
اکرم ﷺ شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے نہ رکھتے بلکہ پورے شعبان ہی کے روزے
رکھ لیتے اور فرمایا کرتے:اپنی استطاعت کے مطابق عمل کرو کہ اللہ پاک اس وقت تک
اپنا فضل نہیں روکتا جب تک تم اُکتا نہ جاؤ۔
( بخاری،1 /648،
حديث:1970)
شارحِ بخاری حضرت علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمۃ
اللہ علیہ اس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں: مراد یہ کہ شعبان میں اکثر دنوں میں
روزہ رکھتے تھے اسے تغلیباً( غلبے اور زیادت کے لحاظ سے ) کُل( سارے مہینے کے روزے
رکھنے) سے تعبیر کر دیا ہے جیسے کہتے ہیں:فلاں
نے پوری رات عبادت کی جب کہ اس نے رات میں کھانا بھی کھایا ہو اور ضروریات سے
فراغت بھی کی ہو یہاں تغلیباً اکثر کو کُل کہہ دیا۔
( نزہۃ القاری، 3
/ 380،377)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:حضور ﷺ پورے
شعبان کے روزے رکھا کرتے تھے۔ فرماتی ہیں:میں نے عرض کی:یا رسول اللہ ﷺ!کیا سب مہینوں
میں آپ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ شعبان کے روزے رکھنا ہے؟تو آپ نے ارشاد فرمایا:اللہ
پاک اس سال مرنے والی ہر جان کو لکھ دیتا ہے اور مجھے پسند ہے کہ جب میرا وقت رخصت
آئے اور میں روزہ دار ہُوں۔(مسند ابی یعلی،4 / 277 ،حدیث: 4890)
حضرت عبد اللہ بن ابی قیس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں
نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو فرماتے ہوئے سنا کہ حضورﷺ کا پسندیدہ مہینا
شعبان تھا کہ اس میں روزے رکھا کرتے، پھر
اسے رمضان المبارک سے ملا دیتے۔( ابوداود،2 / 476 ،حدیث: 2431)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور ﷺ چار
چیزیں نہ چھوڑتے تھے:عاشورا کا روزہ،عشرہ ذی الحجہ کے روزے، ہر مہینے میں تین دن
کے روزے اور فجر( کے فرض)سے پہلے دو رکعتیں۔
( نسائی، ص 395،
حديث:2413)
حضرت ابو ہریرہ
رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ فرماتے ہیں:پیر اور جمعرات کو اعمال پیش
ہوتے ہیں تو میں پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل اس وقت پیش ہو کہ میں روزہ دار ہوں۔
(ترمذى،2 / 187 ،حديث:
748)
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ سے پیر شریف
کے روزے کا سبب دریافت کیا گیا تو فرمایا:اسی میں میری ولادت ہوئی، اسی میں مجھ پر
وجہ نازل ہوئی۔(مسلم،ص591 ،حديث:198- 1162)
حضرت عبد اللہ ابنِ
عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ پاک کے پیارے نبی،حضرت محمد ﷺ کا فرمانِ
بشارت نشان ہے:جو بدھ اور جمعرات کے روزے رکھے اس کے لئے جہنم سے آزادی لکھ دی جاتی
ہے۔( مسند ابی یعلی، 5 / 114،حديث: 5610)
اللہ پاک کے محبوب ﷺ پیر شریف اور جمعرات کو روزے رکھا کرتے
تھے ،اس کے بارے میں عرض کی گئی تو فرمایا:ان دونوں دنوں میں اللہ پاک ہر مسلمان کی
مغفرت فرماتا ہے مگر وہ دو شخص جنہوں نے
آپس میں جدائی کرلی ہے ان کی نسبت فرشتوں سے فرماتا ہے:انہیں چھوڑ دو یہاں تک کی
صُلح کر لیں۔

روزہ ایک عظیم الشان عبادت ہے۔شریعت میں روزہ یہ ہے کہ صبحِ
صادق سے لے کر غروبِ آفتاب تک روزے کی نیت سے کھانے پینے اور ہم بستری سے بچا
جائے۔(تفسیر خازن،1 / 119)
ہمارے پیارے آقا ﷺ کو روزوں کے ساتھ بہت محبت تھی جس کا
اندازہ ان احادیثِ مبارکہ سے لگایا جاسکتا ہے۔چنانچہ
آقا ﷺ
عبادت پر کمر بستہ ہوجاتے:ہمارے پیارے آقا ﷺ
رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی عبادتِ الٰہی میں بہت زیادہ مگن ہو جایا کرتے تھے۔چنانچہ
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب ماہِ رمضان آتا تو میرے
سرتاج حضور ﷺ اللہ پاک کی عبادت کے لیے کمر بستہ ہوجاتے اور سارا مہینا اپنے بستر
منور پر تشریف نہ لاتے۔(تفسیر در منثور،1 /339)
آقاﷺ
رمضان میں خوب دعائیں مانگتے تھے:حضرت عائشہ رضی
اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب ماہِ رمضان آتا تو حضور ﷺ کا رنگ مبارک متغیر ہوجاتا،
آپ نماز کی کثرت فرماتے ،خوب گڑگڑا کر دعائیں مانگتے اور اللہ پاک کا خوف آپ پر
طاری رہتا۔(شعب الایمان،3 / 310 ،حدیث: 3620)
ماہِ رمضان میں ہمیں بھی اللہ پاک کی خوب خوب عبادت کرنی چاہیے اور ہر وہ کام
کرنا چاہیے جس میں اللہ پاک اور اس کے نبی ﷺ کی رضا ہو۔اگر اس پاکیزہ ماہ میں بھی
کوئی اپنی بخشش نہ کروا سکا تو پھر کب کروائے گا؟
ہمارے پیارے آقا ﷺ
رمضان المبارک کے ساتھ ساتھ نفلی روزوں کا بھی اہتمام فرمایا کرتے تھے۔
پیر اور
جمعرات کا روزہ:حضرت ابو ہریرہ رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے
فرمایا کہ اعمال پیر و جمعرات کو پیش کئے جاتے ہیں۔لہٰذا میں چاہتاہوں کہ میرے عمل
اس حال میں پیش ہوں کہ میں روزہ والا ہوں۔(ترمذی،2/187،حدیث: 747)
روزوں کی
تقسیم :حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے،فرماتی ہیں کہ رسولﷲ ﷺ
ایک مہینے میں ہفتہ،اتوار اور پیر کا روزہ رکھتے تھے اور دوسرے مہینے میں منگل،بدھ
اور جمعرات کا۔
(ترمذی،2/186، حدیث:746)
یعنی آپ نے ہفتے کے سارے دنوں میں اپنے روزے تقسیم کردیئے
تھے تاکہ کوئی دن حضور انور ﷺ کے روزے کی برکت سے محروم نہ رہے۔چنانچہ ایک مہینے میں
تین دن اور دوسرے مہینے میں اگلے تین دن روزے رکھتے تھے جبکہ جمعہ کے روزے کی تو
عادتِ کریمہ تھی ہی جیساکہ ابھی حدیثِ پاک میں گزرا۔ہم لوگ دنوں سے برکت حاصل کرتے
ہیں اور نبی کریم ﷺ کی عبادات سے دن برکت پاتے تھے جیسے ہم چاند سے روشنی پاتے ہیں
اور چاند سورج سے۔(مراۃ المناجیح، 3/190)
رمضان شریف کے روزوں کے علاوہ شعبان میں بھی قریب قریب مہینا بھر آپ روزہ دار ہی رہتے
تھے۔ سال کے باقی مہینوں میں بھی یہی کیفیت رہتی تھی کہ اگر روزہ رکھنا شروع
فرما دیتے تو معلوم ہوتا تھا کہ اب کبھی روزہ نہیں چھوڑیں گے ،پھر چھوڑ دیتے تو معلوم ہوتا تھا کہ اب کبھی روزہ نہیں رکھیں گے۔خاص کر ہر مہینے میں تین دن ایامِ بیض کے روزے،دو شنبہ و جمعرات کے
روزے، عاشورا کے روزے،عشرۂ ذی الحجہ کے روزے،شوال کے چھ روزے معمولاً رکھا کرتے
تھے۔کبھی کبھی آپ صَومِ وصال بھی رکھتے تھے، یعنی کئی کئی دن رات کا ایک روزہ، مگر
اپنی امت کو ایسا روزہ رکھنے سے منع فرماتے تھے، بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی:یا
رسولَ اللہ (ﷺ)!آپ تو صومِ وصال رکھتے ہیں!ارشاد فرمایا:تم میں مجھ جیسا کون ہے؟میں اپنے رب کے دربار میں رات بسر کرتا ہوں اور وہ مجھ کو کھلاتا اور
پلاتا ہے۔
(سیرت مصطفی،ص596
،597)

اللہ پاک اپنے کلام قرآنِ مجید کے پارہ 22 سورۃ
الاحزاب کی آیت 35 میں ارشاد فرماتا ہے:
وَ الصَّآىٕمِیْنَ وَ الصّٰٓىٕمٰتِ وَ
الْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَهُمْ وَ الْحٰفِظٰتِ وَ الذّٰكِرِیْنَ اللّٰهَ كَثِیْرًا
وَّ الذّٰكِرٰتِۙ- اَعَدَّ اللّٰهُ
لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا(۳۵)(پ22،الاحزاب:35)ترجمہ:اور روزے والے اورروزے والیاں اور اپنی
پارسائی نگاہ رکھنے والے اور نگاہ رکھنے والیاں اور اللہ کو بہت یاد کرنے والے اور
یاد کرنے والیاں ان سب کے لیے اللہ نے بخشش اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے۔
وَ الصَّآىٕمِیْنَ وَ الصّٰٓىٕمٰتِ(اور
روزے والے اور روزے والیاں)کی تفسیر میں حضرت علامہ ابو البرکات عبدُ اللہ بن احمد نسفی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:اس
میں فرض و نفل دونوں قسم کے روزے داخل ہیں۔
(تفسیر نسفی، 2 / 345) ( فیضان رمضان،ص326)
اللہ پاک کے محبوب ﷺ کا فرمانِ عالی شان ہے:روزہ
عبادت کا دروازہ ہے۔(جامع صغیر،ص146، حديث: 2415)
ہمارے پیارے آقا کریم ﷺ اللہ پاک کی بہت زیادہ عبادت فرمایا کرتے تھے۔آپ ﷺ دیگر
عبادات کے ساتھ ساتھ فرض روزوں کے علاوہ نفل روزوں کا بھی بہت اہتمام فرمایا کرتے۔
شعبان میں کثرت سے روزے رکھتے تھے،خاص
طور پر شوال کے 6 روزے،ہر مہینے ایامِ بیض
کے روزے، عاشورا کے روزے،عشرۂ ذو الحجہ کے روزے یہ معمولاً رکھا کرتے تھے۔(سیرتِ مصطفی ، ص597،596)
آئیے!حضور ﷺ کے روزوں سے متعلق چند احادیث ملاحظہ کیجئے کہ آقا ﷺ روزوں سے کتنی محبت فرمایا کرتے تھے۔چنانچہ
دس محرم یعنی عاشورا کے دن روزہ رکھنا
سنت ہے:حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ
میں نے سلطانِ دوجہاں ﷺ کو کسی دن کے روزے کو اور دن پر فضیلت دے کر رغبت فرماتے
نہ دیکھا مگر یہ کہ عاشورا کا دن اور یہ کہ رمضان کا مہینا۔ (بخاری ،1 / 657 ،حدیث:
2006)
حضرت
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:رسولِ کریم ﷺنے عاشورا کو روزہ خود
رکھا اور ا س کے رکھنے کا حکم فرمایا۔(مسلم،ص573،حدیث:133(
صرف دس محرم کا روزہ نہ رکھا جائے بلکہ اس کے ساتھ
آگے یا پیچھے ایک روزہ ملایا جائے جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے
مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:عاشورا کے دن کا روزہ رکھو اور اس میں یہودیوں
کی مخالفت کرو،عاشورا کے دن سے پہلے یا بعد میں ایک دن کا روزہ رکھو۔
(مسند امام احمد، 1 / 518، حدیث:2154)
ہمارے پیارے آقا کریم ﷺ کا شعبان میں مبارک عمل:حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے
ہیں: میں نے عرض کی:یا رسول اللہ ﷺ! میں دیکھتا ہوں کہ جس طرح آپ شعبان میں(نفل) روزے رکھتے ہیں اس طرح کسی بھی مہینے میں نہیں رکھتے!فرمایا:رجب
اور رمضان کے بیچ میں یہ مہینا ہے، لوگ اس
سے غافل ہیں،اس میں لوگوں کے اعمال اللہ پاک کی طرف اٹھائے جاتے ہیں اور مجھے یہ
محبوب ہے کہ میرا عمل اس حال میں اٹھایا جائے کہ میں روزہ دار ہوں۔(نسائی، ص 387 ،حدیث:
3354)
سبحان اللہ! ہمارے کریم آقا ﷺ معصوموں کے
سردار ہونے کے باوجود یہ پسند فرماتے کہ میرا عمل جب اللہ پاک کی
بارگاہ میں اٹھایا جائے تو میں روزہ دار
ہوں۔اس سے ظاہر ہوا کہ آپ نے اللہ پاک کی بارگاہ میں روزہ دار ہونا پسند فرمایا،
اس سے آپ کی روزوں سے محبت کا اظہار ہوتا ہے۔
رمضان المبارک کے روزوں کے بعد شوال کے
چھ روزے:حضور
اکرم ﷺ بھی شوال المکرم کے 6 روزے رکھا
کرتے اور آپ نے اس کے کئی فضائل بھی بیان
فرمائے ہیں ۔چنانچہ آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا:
جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر ان کے بعد چھ شوال میں روزے رکھے، تو ایسا ہے جیسے
دہر(عمر بھر) کا روزہ رکھا۔(مسلم،ص 592 ،حدیث: 1164)
بہتر ہے کہ یہ روزے متفرق رکھے جائیں البتہ اکٹھے
بھی رکھے جاسکتے ہیں۔
ایامِ بیض کے روزے:ام
المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت
ہے، اللہ پاک کے پیارے حبیب ﷺ چار چیزیں نہیں چھوڑتے تھے:عاشورا کا روزہ،عشرۂ ذی الحجہ
کے روزے،ہر مہینے میں 3 دن کے روزے اور فجر(کے فرائض) سے پہلے 2 رکعتیں( یعنی 2
سنتیں)۔(نسائی، ص 395 ،حدیث: 2413)
ایامِ بیض میں روزہ رکھنے کی آقا کریم ﷺ کی ایسی پیاری
عادتِ مبارکہ تھی کہ سفر میں ہوتے یا حضر(قیام) میں ایامِ بیض میں بغیر روزہ کے نہ
ہوتے ( بہتر یہ ہے کہ یہ روزے چاند کی 13، 14، 15 تاریخ کو رکھے جائیں)

روزے کا تعارف:روزے کو عربی
زبان میں صوم کہتے ہیں۔صوم کا لغوی معنی امساک یعنی رکنے کے ہیں۔شرعی اصطلاح میں صبحِ صادق سے لے غروبِ آفتاب تک کھانے،پینے اور
عملِ مباشرت سے رک جانے کا نام روزہ ہے۔
آقا جان ﷺ کی روزوں سے محبت:آقا ﷺ کی مبارک زندگی کے معمولات سے
معلوم ہوتا ہے کہ پیارے آقا ﷺ کو روزوں سے بے حد محبت تھی کہ آپ (ماہِ رمضان)کے فرض
روزوں کے علاوہ دیگر دنوں میں بھی روزہ
دار ہوتے۔آقاﷺ سید المعصومین ہوکر بھی اکثر دن روزے کی حالت میں گزارتے،
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں روزوں کی فضیلت بیان فرماتے۔
فرمانِ مصطفےٰ ﷺ:جس
نے ثواب کی امید رکھتے ہوئے ایک نفل روزہ رکھا،اللہ پاک اسے دوزخ سے چالیس سال(کی
مسافت کے برابر) دور فرما دے گا۔(جمع
الجوامع،7 /190 ،حدیث:22251)
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے عرض کی:یا
رسول اللہ ﷺ!مجھے کوئی عمل بتائیے۔ ارشاد فرمایا:روزے رکھا کرو کیونکہ اس جیسا کوئی
عمل نہیں؟میں نے پھر عرض کی:مجھے کوئی عمل بتائیے۔ فرمایا:روزے رکھا کرو کیونکہ اس
جیسا کوئی عمل نہیں۔میں نے پھر عرض کی:مجھے کوئی عمل بتائیے۔ فرمایا: روزے رکھا
کرو کیونکہ اس کا کوئی مثل نہیں۔(نسائی،ص370،
حدیث:2220)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں
نے فرمایا:جب رجب المرجب کا مہینا شروع ہوتا تو حضورﷺ یہ دعا فرمایا کرتے تھے:اے اللہ
پاک!ہمارے لئے
رجب اور شعبان بابرکت بنا دے اور ہمیں رمضان نصیب فرما۔ (معجم اوسط ، 3 / 85 ،حدیث:3939)(لوامع الانوار،ص260)
رسولِ اکرم ﷺ کا شعبان کے بارے میں فرمانِ مکرم ہے:شعبان میرا مہینا ہے اور رمضان اللہ
پاک کا مہینا ہے۔(جامع صغیر ، ص301، حدیث:4889)
حضرت عائشہ اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما فرماتیں
ہیں کہ حضورﷺ رمضان کے علاوہ صرف شعبان میں ہی پورے ماہ کے روزے رکھا کرتے تھے، اس
لیے کہ یہ رمضان کے ساتھ متصل ہے۔
(معجم کبیر،23/256 ،حدیث:529-527)
اکثر اوقات حضورﷺ شعبان کے روزوں کو رمضان المبارک
کے ساتھ ملا دیا کرتے تھے یعنی پورے ماہِ شعبان کے روزے رکھا کرتے تھے۔اس سے ثابت
ہوتاہے کہ ماہِ شعبان کے روزے رکھنا پیارے آقا ﷺ کو بہت محبوب ہیں۔
ماہِ شعبان آقاﷺ کا پسندیدہ مہینا ہے:ماہِ رجب میں
روزوں کا اہتمام فرماکر پیارے آقاﷺ رجب میں ہی رمضان کی تیاریاں شروع فرما دیا
کرتے تھے، چونکہ رمضان المبارک میں روزے رکھنا فرض ہیں۔پیارے آقاﷺ کو تو روزوں سے
پہلے ہی بہت محبت تھی کہ آپ نفلی روزے رکھا کرتے تھے تو رمضان سے محبت کیونکر کم
ہوتی، بلکہ آپ ﷺ کو تو سارا سال رمضان کا انتظار رہتا تھا۔
جمعرات اور پیر شریف کا روزہ:جمعرات اور پیر شریف کو روزہ
رکھنا پیارے آقاجانﷺکی سنتِ مبارکہ ہے۔آقا ﷺ جمعرات اور پیر شریف کو روزہ رکھتے
تھے۔جب پیر شریف کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں سوال کیاگیاتو ارشاد فرمایا:یہ وہ
دن ہے جس میں میری ولادت ہوئی اور اسی دن میں مبعوث ہوا، یا مجھ پر قرآن نازل فرمایا
گیاگیا۔(مسلم، ص455 حدیث: 2747)
آقاﷺ ہر مہینےکے شروع میں تین دن روزے رکھا کرتے
تھے۔چنانچہ فرمانِ
مصطفےٰ ﷺ ہے:ہر مہینے تین دن روزے رکھنا پوری زندگی روزے رکھنے کی طرح ہے ۔(بخاری
،1/649،
رقم:1975)