اسلام میں اکثر اعمال کسی نہ کسی روح پرور واقعے کی یاد  تازہ کرنے کیلئے مقرر کئے گئے ہیں مثلاً صفا و مروہ کے درمیان حاجیوں کی سعی حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا کی یادگار ہے۔آپ اپنے لختِ جگر حضرت اسماعیل ذبیح اللہ علیہ السلام کے لئے پانی تلاش کرنے کے لئے ان دونوں پہاڑوں کے درمیان سات بار چلی اور دوڑی تھیں۔اللہ پاک کو حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا کی یہ ادا پسند آگئی،لہٰذا اسی ادائے ہاجرہ کو اللہ پاک نے باقی رکھتے ہوئے حاجیوں اور عمرہ کرنے والوں کے لئے صفاومروہ کی سعی واجب فرمادی۔اسی طرح ماہِ رمضان المبارک میں کچھ دن حضور ﷺ نے غارِحرا میں گزارے تھے ،اس دوران آپ دن کو کھانے سے پرہیز کرتے اور رات کو ذکراللہ میں مشغول رہتے تھے تو اللہ پاک نے اُن دنوں کی یاد تازہ کرنے کیلئے روزے فرض کئے تاکہ اس کے محبوب ﷺ کی سنت قائم رہے۔( فیضان رمضان، ص 73)

اللہ پاک قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے :یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ(۱۸۳)اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍؕ-فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَؕ-وَ عَلَى الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَهٗ فِدْیَةٌ طَعَامُ مِسْكِیْنٍؕ-فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗؕ-وَ اَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۱۸۴) (پ 2،البقرۃ:183تا 184)

ترجمہ کنز الایمان:اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ کہیں تمہیں پرہیز گاری ملے گنتی کے دن ہیں تو تم میں جو کوئی بیمار یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں اور جنہیں اس کی طاقت نہ ہو وہ بدلے میں ایک مسکین کا کھانا پھر جو اپنی طرف سے نیکی زیادہ کرے تو وہ اس کے لئے بہتر ہے اور روزہ رکھنا تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے اگر تم جانو۔

آپ ﷺ رمضان المبارک کے روزوں کے ساتھ ساتھ نفل روزے بھی رکھا کرتے تھے۔

سرکارِ مدینہ ﷺ کا فرمانِ عظمت نشان ہے:رمضان کے بعد سب سے افضل شعبان کے روزے ہیں تعظیمِ رمضان کے لئے۔( شعب الایمان،4/377، حديث:3819)

بخاری شریف میں ہے:حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:رسولِ اکرم ﷺ شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے نہ رکھتے بلکہ پورے شعبان ہی کے روزے رکھ لیتے اور فرمایا کرتے:اپنی استطاعت کے مطابق عمل کرو کہ اللہ پاک اس وقت تک اپنا فضل نہیں روکتا جب تک تم اُکتا نہ جاؤ۔

( بخاری،1 /648، حديث:1970)

شارحِ بخاری حضرت علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں: مراد یہ کہ شعبان میں اکثر دنوں میں روزہ رکھتے تھے اسے تغلیباً( غلبے اور زیادت کے لحاظ سے ) کُل( سارے مہینے کے روزے رکھنے) سے تعبیر کر دیا ہے جیسے کہتے ہیں:فلاں نے پوری رات عبادت کی جب کہ اس نے رات میں کھانا بھی کھایا ہو اور ضروریات سے فراغت بھی کی ہو یہاں تغلیباً اکثر کو کُل کہہ دیا۔

( نزہۃ القاری، 3 / 380،377)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:حضور ﷺ پورے شعبان کے روزے رکھا کرتے تھے۔ فرماتی ہیں:میں نے عرض کی:یا رسول اللہ ﷺ!کیا سب مہینوں میں آپ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ شعبان کے روزے رکھنا ہے؟تو آپ نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک اس سال مرنے والی ہر جان کو لکھ دیتا ہے اور مجھے پسند ہے کہ جب میرا وقت رخصت آئے اور میں روزہ دار ہُوں۔(مسند ابی یعلی،4 / 277 ،حدیث: 4890)

حضرت عبد اللہ بن ابی قیس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو فرماتے ہوئے سنا کہ حضورﷺ کا پسندیدہ مہینا شعبان تھا کہ اس میں روزے رکھا کرتے، پھر اسے رمضان المبارک سے ملا دیتے۔( ابوداود،2 / 476 ،حدیث: 2431)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور ﷺ چار چیزیں نہ چھوڑتے تھے:عاشورا کا روزہ،عشرہ ذی الحجہ کے روزے، ہر مہینے میں تین دن کے روزے اور فجر( کے فرض)سے پہلے دو رکعتیں۔

( نسائی، ص 395، حديث:2413)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ فرماتے ہیں:پیر اور جمعرات کو اعمال پیش ہوتے ہیں تو میں پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل اس وقت پیش ہو کہ میں روزہ دار ہوں۔

(ترمذى،2 / 187 ،حديث: 748)

حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ سے پیر شریف کے روزے کا سبب دریافت کیا گیا تو فرمایا:اسی میں میری ولادت ہوئی، اسی میں مجھ پر وجہ نازل ہوئی۔(مسلم،ص591 ،حديث:198- 1162)

حضرت عبد اللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ پاک کے پیارے نبی،حضرت محمد ﷺ کا فرمانِ بشارت نشان ہے:جو بدھ اور جمعرات کے روزے رکھے اس کے لئے جہنم سے آزادی لکھ دی جاتی ہے۔( مسند ابی یعلی، 5 / 114،حديث: 5610)

اللہ پاک کے محبوب ﷺ پیر شریف اور جمعرات کو روزے رکھا کرتے تھے ،اس کے بارے میں عرض کی گئی تو فرمایا:ان دونوں دنوں میں اللہ پاک ہر مسلمان کی مغفرت فرماتا ہے مگر وہ دو شخص جنہوں نے آپس میں جدائی کرلی ہے ان کی نسبت فرشتوں سے فرماتا ہے:انہیں چھوڑ دو یہاں تک کی صُلح کر لیں۔

( ابن ماجہ،2 / 344،حديث: 1740)