قرآنِ پاک میں جس طرح عقائد و اعمال،احکام،بشارتیں اور وعیدات بیان ہوئیں، اسی طرح کفار کی طرف سے پہنچنے والی اذیتوں پر اللہ پاک نے اپنے حبیب ﷺکی تسلی کے لیے سا بقہ انبیائے کرام علیہم السلام کے واقعات بیان فرمائے، ان واقعات میں تمام مسلمانوں کے لیے عبرت اور نصیحت ہے اور ان واقعات کو بیان کر کے کفار ِ مکہ کو بتا یا گیا ہے کہ سابقہ امتیں اپنے انبیا اور رسولوں کو جھٹلانے کی وجہ سے تباہ و برباد کر دی گئیں تو کفار ِمکہ کو بھی ڈرنا چاہئے کہ ان کی طرح انہیں بھی ہلاک نہ کر دیا جائے۔ ان میں سے کچھ انبیا ئے کرام اور ان کی قوموں کے واقعات کا خلاصہ درج ذیل ہے۔

(1) حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی قوم:حضرت نوح علیہ السلام دنیا میں چوتھے نبی اور کفار کی جانب بھیجے جانے والے پہلے رسول ہیں۔آپ کو آدمِ ثانی بھی کہا جاتا ہے۔حضرت ادریس علیہ السلام کے آسمانوں پر اٹھائے جانے کے بعد بت پرستی کی وبا عام ہوگئی۔کفر و ضلالت میں گھرے ان لوگوں کی ہدایت کے لیے حضرت نوح علیہ السلام کو رسول بنا کر بھیجا گیا۔ قرآنِ پاک میں ارشاد ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖۤ اَنْ اَنْذِرْ قَوْمَكَ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱) (پ 29،نوح: 1) ترجمہ کنز العرفان:بیشک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا کہ اس وقت سے پہلے اپنی قوم کو ڈرا کہ ان پر دردناک عذاب آئے۔

اللہ پاک نے حضرت نوح علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ اپنی قوم کو پہلے سے ہی ڈرا دیں کہ اگر وہ ایمان نہ لائے تو ان پر دنیا و آخرت کا دردناک عذاب آئے گا تاکہ ان کے اصلاً کوئی عذر باقی نہ رہے۔( صراط الجنان، 10/362) حضرت نوح علیہ السلام کی قوم نے سرکشی کامظاہرہ کرتے ہوئے آپ کو جھوٹا قرار دیا اور بت پرستی پر قائم رہی۔آپ علیہ السلام نے 950 سال تبلیغ کی لیکن صرف 80 افراد ایمان لائے۔(سیرت الانبیاء،ص184) پھر حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کے کفار کے خلاف دعاکی تو اللہ پاک نے آپ کو کشتی بنانے کا حکم دیا۔ آپ علیہ السلام نے دو سال میں کشتی تیار کی۔جب آپ علیہ السلام کشتی میں سوار ہوئے تو آسمان سے لگاتار چالیس دن تک بارش برسی اور زمین سے بھی پانی نکلنے لگا۔ جب قومِ نوح غرق ہوگئی تو زمین پانی نگل گئی۔آپ علیہ السلام کی کشتی چھ مہینے زمین پر گھومتی رہی پھر جودی پہاڑ پر ٹھہری۔

(2) حضرت ہود علیہ السلام اور قوم عاد:قومِ عاد کی ہدایت و رہنمائی کے لیے اللہ پاک نے حضرت ہود علیہ السلام کو ان کی طرف رسول بنا کر بھیجا۔قرآنِ پاک میں ارشاد ہے: وَ اِلٰى عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًاؕ-(پ8، الاعراف:65) ترجمہ کنز العرفان:اور قوم عاد کی طرف ان کے ہم قوم ہود کوبھیجا۔

آپ علیہ السلام نے اپنی قوم کو اللہ پر ایمان لانے کا فرمایا اورعذابِ الٰہی سے ڈرایا۔ صراط الجنان میں ہے:حضرت ہود علیہ السلام نے ان سے فرمایا:اے میری قوم!تم اللہ پاک کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔(صراط الجنان،3/352)

حضرت ہود علیہ السلام کی دعوت حق سن کر قوم کے سرداروں نے کہا:تم سرا سر حماقت کا شکار لگتے ہو۔ ( سیرت الابنیا،ص209) یہ قوم بہت طاقتور تھی۔جب انہیں عذابِ الٰہی سے ڈرایا گیا تو انہوں نے کہا کہ اگر عذاب آیا تو ہم اپنی طاقت سے ہٹا سکتے ہیں اور کہا:اگر تم سچے ہو تو ہم پر وہ عذاب لے آؤ پھر ان پر تند و تیز آندھی کی صورت میں عذاب آیا، یہ آندھی سات راتیں اور آٹھ دن تک لگا تار چلتی رہی یہاں تک کہ یہ قوم نشانِ عبرت بن گئی۔

(3) حضرت صالح علیہ السلام اور قوم ثمود: کفرو شرک میں ڈوبی ہوئی قوم،قوم ثمود کی اصلاح کے لیے اللہ پاک نے حضرت صالح علیہ السلام کو رسول بناکر بھیجا۔ وَ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًاۘ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ- الاعراف:73) ترجمہ کنز العرفان:اور قوم ثمود کی طرف ان کے ہم قوم صالح کو بھیجا۔ صالح نے فرمایا:اے میری قوم!اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔

سیرت الانبیاء کتاب میں ہے:آپ علیہ السلام نے قوم ثمود کو اللہ پاک کی نعمتیں یاد دلا کر بھی سمجھایا کہ اپنے اوپر خدا کی نعمتوں کی فراوانی دیکھو اور اپنا عمل دیکھو لہٰذا اطاعت کا راستہ اختیار کرو۔(سیرت الانبیاء،ص 236) ان کے مطالبے پر حضرت صالح علیہ السلام نے پہاڑ سے اونٹنی پیدا کرنے کا معجزہ بھی دکھایا لیکن وہ لوگ ایمان نہ لائے اور اونٹنی کو قتل کر دیا۔حضرت صالح علیہ السلام نے ان کو عذابِ الٰہی سے بھی ڈرایا عذابِ الٰہی کی بات سن کر قوم نے کہا:اے صالح!اگر تم واقعی رسول ہو تو وہ عذاب لے آؤ جس سے ہمیں ڈراتے ہو۔(سیرت الانبیاء،ص 238) پھر ایک گروہ نے حضرت صالح کو شہید کرنے کی کوشش کی وہ عذابِ الٰہی میں گرفتار ہوئے اور وہ قوم شدید زلزلے سے ہلاک کر دی گئی۔

(4) حضرت لوط علیہ السلام اور ان کی قوم:اللہ پاک نے حضرت لوط علیہ السلام کو رسالت عطا فر ما کر اہل سدوم اور موجود دیگر بستیوں کی طرف بھیجا تاکہ ان کو دینِ حق کی طرف بلائیں۔جہاں یہ لوگ بد ترین گناہوں میں مبتلا تھے وہاں لواطت جیسے برے فعل میں مبتلا تھے۔یہ لوگ مسافروں کے ساتھ بد فعلی کرتے اور ان کا مال لوٹ لیتے تھے۔حضرت لوط علیہ السلام نے ان کو اس برے فعل سے منع کیا۔ اَتَاْتُوْنَ الذُّكْرَانَ مِنَ الْعٰلَمِیْنَۙ (۱۶۵) ( 19، الشعراء: 165) ترجمہ کنز العرفان: کیا تم لوگوں میں سے مردوں سے بدفعلی کرتے ہو۔

بد فعلی قوم لوط کی ایجاد ہے اس لیے اس کو لواطت کہتے ہیں۔ یہ حرام قطعی اور اس کا منکر کافر ہے۔حضرت لوط علیہ السلام کی نصیحت سن کر اس قوم نے سر کشی کرتے ہوئے عذاب کا مطالبہ کیا تو آپ علیہ السلام کی دعا کے بعد ان پر عذابِ الٰہی آیا اور وہ صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔

(5) حضرت شعیب علیہ السلام اور اہلِ مدین:حضرت شعیب علیہ السلام مدین شہر میں رہتے تھے۔آپ کی قوم بت پرست اور تجارت میں ناپ تول میں کمی کرتی تھی، ان کی ہدایت کے لیے آپ علیہ السلام کو مبعوث فرمایا گیا۔آپ علیہ السلام نے انہیں توحید کی دعوت دی اور ناپ تول میں کمی کرنے سے منع کیا۔آپ علیہ السلام کی نصیحت سے متاثر ہو کر کچھ لوگ ایمان لے آئے اور کچھ لوگ منکر ہو گئے۔ وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-(پ8،الاعراف:85) ترجمہ کنز العرفان:اور مدین کی طرف ان کے ہم قوم شعیب کو بھیجا، انہوں نے فرمایا:اے میری قوم!اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔

جب یہ لوگ ایمان نہ لائے اور سرکشی کی تو حضرت شعیب علیہ السلام کی دعا سے ان کو زور دار چیخ اور زلز لے سے تباہ کر دیا گیا۔


الله پاک کے وہ بندے جو اللہ پاک کی بارگاہ میں سب سے زیادہ مقبول اور محبوب ہیں” یعنی انبیائے کرام علیہم السلام “ ان کی مبارک ذاتوں کو لیں تو ان کی زندگیوں کا سب سے بنیادی مقصد ہی یہ تھا کہ اللہ پاک کے احکام اور نیکی کی دعوت لوگوں تک پہنچائیں۔ پھر جن لوگوں نے اپنے نبی علیہم السلام کی پیروی کی اور ان کا حکم بجالائے انہوں نے دنیا و آخرت میں کا میابی حاصل کر لی مگر وہ لوگ جنہوں نے سرکشی اور نافرمانی کی وہ عذابِ الٰہی میں مبتلا ہوئے۔

الله پاک نے قرآنِ پاک میں بہت سے انبیائےکرام کا ذکر خیر بلکہ ان کی قوموں کا بھی ذکر کیا ہے۔ چند کا ذکر کیا جاتا ہے۔

(1) ان میں سے ایک نبی حضرت ہود علیہ السلام ہیں۔ یہ نبی قوم عاد کی طرف بھیجے گئے۔قوم عاد مقام احقاف میں رہتی تھی جو عمان و حضر موت کے درمیان ایک بڑا ریگستان ہے۔ان کے مورث اعلیٰ کا نام عاد بن عوص بن ارم بن سام بن نوح ہے۔ پوری قوم کے لوگ ان کواعلیٰ عاد کے نام سے پکارنے لگے۔ یہ لوگ بت پرست اور بہت بد اعمال وبد کر دار تھے۔ اللہ پاک نے اپنے پیغمبر حضرت ہود علیہ السلام کو ان لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجا مگر اس قوم نے اپنے تکبر اور سر کشی کی وجہ سے حضرت ہود علیہ السلام کو جھٹلایا اور اپنے کفر پر اڑے رہے۔ حضرت ہود علیہ السلام بار باران سرکشوں کو عذابِ الٰہی سے ڈراتے رہے مگر اس شریر قوم نے نہایت ہی بے باکی اور گستاخی کے ساتھ اپنے نبی سے یہ کہہ دیا کہ قَالُوْۤا اَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللّٰهَ وَحْدَهٗ وَ نَذَرَ مَا كَانَ یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَاۚ-فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ(۷۰) (پ 8، الاعراف:70) ترجمہ کنز الایمان: بولے کیا تم ہمارے پاس اس لئےآئے ہو کہ ہم ایک الله کو پوجیں اور جو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے انہیں چھوڑ دیں تو لاؤ جس کا ہمیں وعدہ دے رہے ہو اگر سچے ہو۔ (عجائب القرآن مع غرائب القرآن، ص85)

آخر عذابِ الٰہی کی جھلکیاں شروع ہوگئیں۔ تین سال تک بارش نہیں ہوئی اور ہر طرف قحط سالی کا دور دورہ ہو گیا۔ وَ اَمَّا عَادٌ فَاُهْلِكُوْا بِرِیْحٍ صَرْصَرٍ عَاتِیَةٍۙ(۶) (پ 29، الحاقۃ:6) ترجمہ کنز الایمان: اور رہے عاد وہ ہلاک کئےگئے نہایت سخت گر جتی آندھی سے۔

قرآنِ کریم کے اس دردناک واقعہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ قوم عاد جو بڑی طاقتور قوم تھی،مگر کفر اور بد اعمالیوں وبدکاریوں کی منحوسیت نے ان لوگوں کو قہر الٰہی کے عذاب میں اس طرح گرفتار کر دیا کہ ان آندھی کے جھونکوں اور جھٹکوں نے ان کی پوری آبادی کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔

(2) دوسری قوم ثمود ہے۔ حضرت صالح علیہ السلام قوم ثمود کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے۔آپ نے جب قوم ثمود کو خدا کا فرمان سنا کر ایمان کی دعوت دی تو اس سر کش قوم نے آپ سے معجزہ طلب کیا کہ آپ اس پہاڑ کی چٹان سے ایک گا بھن اونٹنی نکالیے جو خوب فربہ اور ہر قسم کے عیوب ونقائص سے پاک ہو، چنانچہ آپ نے چٹان کی طرف اشارہ کیا تو وہ فوراً پھٹ گئی اور اس میں سے ایک نہایت ہی خوبصورت و تندرست اور خوب بلند قامت اونٹنی نکل پڑی اور اس نے بچہ بھی جنا اور یہ اپنے بچے کے ساتھ میدانوں میں چرتی پھرتی رہی۔ چنانچہ اس قوم میں قداربن سالف آدمی تھا۔ ساری قوم کے حکم سے اس اونٹنی کو قتل کرنے کیلئے تیار ہو گیا۔ حضرت صالح علیہ السلام منع کرتے رہے لیکن اس نے پہلے تو اونٹی کے چاروں پاؤں کو کاٹ ڈالا،پھر اس کوذبح کردیااور انتہائی سرکشی کے ساتھ حضرت صالح علیہ السلام سے بے ادبا نہ گفتگو کرنے لگا۔ فَعَقَرُوا النَّاقَةَ وَ عَتَوْا عَنْ اَمْرِ رَبِّهِمْ وَ قَالُوْا یٰصٰلِحُ ائْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ(۷۷) فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِهِمْ جٰثِمِیْنَ(۷۸) فَتَوَلّٰى عَنْهُمْ وَ قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَكُمْ وَ لٰكِنْ لَّا تُحِبُّوْنَ النّٰصِحِیْنَ(۷۹) (پ8،الاعراف:77-79) ترجمہ کنز الایمان:پس ناقہ کی کوچیں کاٹ دیں اور اپنے رب کے حکم سے سرکشی کی اور بولے اے صالح ہم پر لے آؤ جس کا تم وعدہ دے رہے ہو اگر تم رسول ہو توانہیں زلزلہ نےآلیا تو صبح کو اپنے گھروں میں اوندھے رہ گئے تو صالح نے ان سے منہ پھیرا اور کہا اے میری قوم بیشک میں نے تمہیں اپنے رب کی رسالت پہنچادی اور تمہارا بھلا چاہا مگر تم خیر خواہوں کے غرضی ہی نہیں۔ ( صراط الجنان)

3-تیسری قوم لوط علیہ السلام کی قوم ہے یہ قوم شہرسدوم میں رہتی تھی۔ شہر سدوم کی بستیاں بہت آباد اور نہایت سر سبز و شاداب تھیں۔شہر کی خوشحالی کی وجہ سے اکثر لوگ مہمان بن کر آیا کرتے تھے۔اس ماحول میں ابلیس لعین ایک بوڑھے کی صورت میں نمودار ہوا اور ان سے کہنے لگا کہ تم لوگ مہمانوں کی آمد سے نجات چاہتے ہو تو اس کی تو تدبیریہ ہے کہ تم لوگ زبردستی اس کے ساتھ بد فعلی کرو اس طرح اس قوم میں بد فعلی شروع ہوگئی اور پھر رفتہ رفتہ اس برے کام کے یہ لوگ اس قدر عادی بن گئے کہ عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی شہوت پوری کر نے لگے۔(تفسیرروح البیان،3 /197) چنانچہ حضرت لوط علیہ السلام نے ان لوگوں کو فعل بد سے منع کرتے ہوئے اس طرح و عظ فر مایا: اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ(۸۰) (پ8،الاعراف: 80) ترجمہ کنزالایمان:کیا وہ بے حیائی کرتے ہو جو تم سے پہلے جہان میں کسی نے نہ کی۔یہ وعظ سن کر اس قوم نے نہایت بے باکی سے ان کی گستاخی کی اور کہا: اَخْرِجُوْهُمْ مِّنْ قَرْیَتِكُمْۚ-اِنَّهُمْ اُنَاسٌ یَّتَطَهَّرُوْنَ(۸۲) (پ8،الاعراف: 82) ترجمہ کنز الایمان: ان کو اپنی بستی سے نکال دو۔ یہ لوگ تو پاکیزگی چاہتے ہیں۔

جب قوم لوط کی سرکشی اور بد فعلی قابل ہدایت نہ رہی تو اللہ کا عذاب آگیا۔ فَاَنْجَیْنٰهُ وَ اَهْلَهٗۤ اِلَّا امْرَاَتَهٗ ﳲ كَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِیْنَ(۸۳) وَ اَمْطَرْنَا عَلَیْهِمْ مَّطَرًاؕ-فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِیْنَ۠(۸۴) (پ8،الاعراف: 83-84) ترجمہ کنز الایمان: تو ہم نے اسے اور اس کے گھر والوں کو نجات دی مگر اس کی عورت وہ رہ جانے والوں میں ہوئی اور ہم نے ان پر ایک مینہ برسایا تو دیکھو کیسا انجام ہوا مجرموں کا۔

جو پتھر اس قوم پر بر سائے گئے وہ کنکروں کے ٹکڑے تھے اور ہر پتھر پر اس شخص کا نام لکھا ہوا تھا جو اس سے

ہلاک ہوا۔ (تفسیرصاوی،2 /76)

4- چوتھی قوم فرعونی قوم ہے جن کو ایمان کی دعوت دینے کیلئے اللہ پاک نے حضرت موسی علیہ السلام کو مبعوث فرمایا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نےاپنی قوم کو ایمان کی دعو ت دی اور کثیر معجزات بھی دکھائے مگر صرف چند لوگوں نے ہی ایمان قبول کیا اور جو ایمان نہ لائے وہ اپنے کفر اور سر کشی میں حد سے بڑھ گئے تو تب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے ان پہ پانچ عذاب مسلسل آئے۔اس کے بارے میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ الطُّوْفَانَ وَ الْجَرَادَ وَ الْقُمَّلَ وَ الضَّفَادِعَ وَ الدَّمَ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ- فَاسْتَكْبَرُوْا وَ كَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ(۱۳۳) (پ 9، الاعراف: 133) ترجمہ کنزالایمان:تو بھیجا ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈی اور گھن اور مینڈک اور خون جدا جدا نشانیاں تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم قوم تھی۔

5-پانچویں حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔ اللہ پاک نے انہیں قوم بنی اسرائیل کی طرف بھیجا۔ انہوں نے بنی اسرائیل کی طرف اپنی نبوت اور معجزات کا اعلان کرتے ہوئے فر مایا: وَ رَسُوْلًا اِلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ ﳔ اَنِّیْ قَدْ جِئْتُكُمْ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ ﳐ اَنِّیْۤ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّیْنِ كَهَیْــٴَـةِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْهِ فَیَكُوْنُ طَیْرًۢا بِاِذْنِ اللّٰهِۚ-وَ اُبْرِئُ الْاَكْمَهَ وَ الْاَبْرَصَ وَ اُحْیِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّٰهِۚ-وَ اُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَ مَا تَدَّخِرُوْنَۙ-فِیْ بُیُوْتِكُمْؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَۚ(۴۹) (پ3،اٰل عمران: 49) ترجمہ کنزالایمان: اور رسول ہوگا بنی اسرائیل کی طرف یہ فرماتا ہوا کہ میں تمہارے پاس ایک نشانی لایا ہوں تمہارے رب کی طرف سے کہ میں تمہارے لیے مٹی سے پرند کی سی مورت بناتا ہوں پھر اس میں پھونک پھونک مارتا ہوں تو وہ فوراً پرند ہوجاتی ہے اللہ کے حکم سے اور میں شفا دیتا ہوں مادر زاد اندھے اور سپید داغ والے کو اور میں مُردے جلاتا ہوں اللہ کے حکم سے اور تمہیں بتاتا ہوں جو تم کھاتے اور جو اپنے گھروں میں جمع کررکھتے ہو بے شک ان باتوں میں تمہارے لیے بڑی نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جب یہودیوں کے سامنے اپنی نبوت کا اعلان فرمایا تو چونکہ یہودی تورات میں پڑھ چکے تھے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان کے دین کو منسوخ کریں گے اس لئے یہودی آپ کے دشمن ہو گئے اور آپ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنانے لگے اور ایک شخص جس کا نام ططیانوس تھا آپ کے مکان میں آپ کو قتل کر دینے کیلئے بھیجاگیا۔اتنے میں الله پاک نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کو اپنی طرف اٹھالیا اورططیانسوس کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شکل کا بنادیااور پھر اس کا انجام یہ ہواکہ یہودیوں نے ططیانوس کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام سمجھ کہ قتل کر دیا۔ اس کے بعد جب ان کو معلوم ہوا کہ چہرہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کاہے اور بدن ططیانوس کا تو اس پر جنگ و جدال کی نوبت آگئی اور خود یہودیوں نے ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کر دیا اور بہت سے یہودی قتل ہوگئے۔ وَ مَكَرُوْا وَ مَكَرَ اللّٰهُؕ-وَ اللّٰهُ خَیْرُ الْمٰكِرِیْنَ۠(۵۴) (پ5،اٰل عمران: 54) ترجمہ کنز الایمان: اور کافروں نے مکر کیا اور الله نے ان کے ہلاک کی خفیہ تدبیر فرمائی اور اللہ سب سے بہتر چھپی تدبیر والا ہے۔

ان سب واقعات سے ہمیں معلوم ہوا کہ اللہ پاک کے انبیائے کرام علیہم السلام کے ساتھ سر کشی کرنا خود کی ہی ہلاکت و بر بادی ہے۔ اللہ پاک ہمیں انبیائے کرام کی شان میں گستاخی کرنے سے محفوظ فرمائے۔آمین


اللہ کریم نے مختلف ادوار میں مختلف انبیائے کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا۔انبیائے کرام کو بھیجنے کا ایک بنیادی مقصد غیب کی خبر دینا ہے۔اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:ترجمہ:اور اے لوگو!اللہ تمہیں غیب پر مطلع نہیں کرتا البتہ اپنے رسولوں کو منتخب فرمالیتا ہے جنہیں پسند فرماتا ہے۔(سیرت الانبیاء،ص 722)

حضرت الیاس علیہ السلام:آپ علیہ السلام کا نام الیاس ہے۔قرآنِ کریم میں آپ کا نام ال یاسین بھی مذکورہے۔یہ بھی الیاس کی ایک لغت ہے جیسے سینا اور سینین دونوں طور سینا ہی کے نام ہیں ایسے ہی الیاس اور ال یاسین ایک ہی ذات کے نام ہیں۔آپ علیہ السلام پر الله پاک نے بہت انعامات فرمائے۔ فرمانِ باری ہے: ترجمہ: اور بے شک الیاس رسولوں میں سے ہے۔آپ علیہ السلام حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں اور بنی اسرائیل کی طرف رسول بن کر تشریف لائے تو انہیں تبلیغ و نصیحت فرمائی۔ اللہ پاک نے ظالم باد شاہ کےشر سے بچاتے ہوئے انہیں لوگوں کی نظروں سے اوجھل فرمادیا اور آپ علیہ السلام ابھی تک زندہ ہیں اور قربِ قیامت وفات پائیں گے۔ اللہ کریم نے حضرت الیاس علیہ السلام کو بعلبک کی طرف رسول بنا کر بھیجاتوآپ علیہ السلام نے انہیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:ترجمہ:کیا تم ڈرتے نہیں؟کیا تم بعل(بت) کی پوجا کرتے ہو اور بہترین خالق کو چھوڑتے ہو؟اللہ جو تمہارا رب اور تمہارے اگلے باپ دادا کا رب ہے۔ (سیرت الانبیاء،ص749)

حضرت شعیب علیہ السلام: آپ علیہ السلام کاا سم گرامی شعیا بن امصیا ہے۔ آپ علیہ السلام حضرت زکریا اور حضرت یحیٰ سے پہلے مبعوث ہوئے اور آپ علیہ السلام نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور نبی پاک ﷺ کی تشریف آوری کی بشارت دی۔آپ کے زمانۂ نبوت میں حزقیا نامی بادشاہ بنی اسرائیل پر حکومت کرتا تھا جو آپ کا بہت فرمانبردار تھا۔اس کے انتقال کے بعد بنی اسرائیل میں عملی اعتبار سے فساد برپا ہوا اور یہ لوگ نئے نئے خلاف شرع امور ایجاد کرکے ان پر عمل میں مصروف ہوگئے۔اللہ پاک نے وحی کے ذریعے حضرت شعیا علیہ السلام کو حکم فرمایا کہ انہیں وعظ و نصیحت فرمائیے،چنانچہ آپ نے بنی اسرائیل کو کھڑے ہوکر وعظ فرمایا اور انہیں بتایا کہ اللہ پاک سے متعلق کیا عقیدہ رکھنا چاہئے۔آپ ان کو وعظ فرماچکے تو لوگ آپ کے دشمن ہوگئے اور قتل کرنے کے درپے ہوگئے۔آپ وہاں سے نکلے اور ایک درخت کے قریب گئے۔درخت پھٹ گیا اور آپ اس میں داخل ہوگئے۔شیطان نے آپ کو دیکھا تو آپ کے کپڑے کا ایک کونہ ظاہر کردیا،جب لوگوں نے آپ کو دیکھا تو آری سے چیر ڈالا،اس طرح آپ کا جسم مبارک دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ (سیرت الانبیاء،ص159)

حضرت نوح علیہ السلام: حضرت نوح علیہ السلام دنیا میں چوتھے نبی اور کفار کی طرف بھیجے جانے والے پہلے رسول ہیں۔آپ کو آدم ثانی بھی کہا جاتا ہے۔آپ نے کئی سو سال تک اپنی قوم کو خفیہ،علانیہ ہر طرح سے تبلیغ فرمائی۔عرصۂ دراز تک قوم کو نصیحت کرنے کے باوجود صرف 80 افراد نے ایمان قبول کیا۔جب قوم کے ایمان لانے اور راہ پر آنے کی کوئی امید باقی نہ رہی تو آپ نے ان کے خلاف دعا کی جو قبول ہوئی۔اللہ نے اہلِ ایمان کو کشتی میں سوار کرکے نجات بخشی اور کافروں کو طوفان کا عذاب بھیج کر ہلاک کر دیا۔قرآنِ کریم میں ارشاد فرمایا:ترجمہ:اور بے شک ہم نے نوح اور ابراہیم کو بھیجا اور ان کی اولاد میں نبوت اور کتاب رکھی۔ایک اور آیت میں فرمایا گیا:تمام جہاں والوں میں نوح پر سلام ہو۔(سیرت انبیا،ص489)

حضرت ذوالکفل علیہ السلام:آپ علیہ السلام اللہ کریم کے برگزیدہ پیغمبر ہیں جو کسی قوم کی ہدایت کے لئے مبعوث کیے گئے۔آپ حضرت ایوب علیہ السلام کے فرزند ہیں۔بعض مفسرین نے تحریر فرمایا کہ ذو الکفل در حقیقت حضرت حزقیل علیہ السلام کا لقب ہے۔آپ صبر کرنے والے اللہ پاک کے قرب خاص کے لائق بندوں اور بہترین لوگوں میں سے تھے۔قرآنِ کریم میں فرمایا:ترجمہ:اور اسماعیل اور یسع اورذوالکفل کو یاد کرو اورسب بہترین لوگ ہیں۔(سیرت الانبیاء،ص727)

حضرت یسع علیہ السلام: آپ علیہ السلام حضرت ابراہیم کی اولاد میں سے ہیں۔ایک قول کے مطابق آپ اخطوب بن عجوز کے فرزند ہیں۔آپ حضرت الیاس کے بعد مبعوث ہوئے اور ایک عرصے تک حکمِ الٰہی کے مطابق لوگوں کو تبلیغ و نصیحت فرمائی نیز کفار کو دینِ حق کی طرف بلانے کا فریضہ سرانجام دیا۔اللہ کریم نے آپ کو نبوت کے ساتھ بادشاہت بھی عطا فرمائی۔قرآنِ کریم میں اللہ کریم نے آپ کو بہترین لوگوں میں شمار فرمایا۔چنانچہ ارشاد ربانی ہے:اور اسماعیل اور یسع اور ذو الکفل کویاد کرو سب بہترین لوگ ہیں۔

حضرت محمدﷺ: آپ ﷺساری کائنات کی طرف نبی و رسول بناکر مبعوث فرمائے گئے۔آپ وہ عظیم ہستی ہیں جن کی سیرت اور اوصاف کا بیان چند لائنوں میں ممکن نہیں۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

زندگیاں ختم ہوئیں اور قلم ٹوٹ گئے پر تیرے اوصاف کا ایک باب بھی پورا نہ ہوا

آپ ﷺ واقعہ فیل سے 55 دن بعد 12 ربیع الاول، اپریل571ء کو مکہ مکرمہ کی مقدس سرزمین میں پیدا ہوئے۔جب آپ ﷺ کی ولادت ہوئی اس وقت آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب طوافِ کعبہ میں مشغول تھے۔خوشخبری سن کر آپ خوشی خوشی حرمِ کعبہ سے اپنے گھر آئے اور والہانہ جوش محبت میں اپنے پوتے کو سینے سے لگایا،پھر کعبہ میں لے جاکر خیر و برکت کی دعا مانگی اور محمد نام رکھا۔(سیرت الانبیاء،ص843) 


اللہ پاک نے مخلوق کی ہدایت اور راہنمائی کے لئے جن پاک بندوں کو اپنے احکام پہنچانے کے لئے بھیجا ان کو نبی کہتے ہیں اور انبیا ئےکرام علیہم السلام ہی وہ بشر (انسان) ہیں جن کے پاس اللہ پاک کی طرف سے وحی آتی ہے۔انبیا ئے کرام علیہم السلام عام مخلوق سے افضل ہیں۔ان کی تعظیم و توقیر یعنی عزت واحترام فرض ہے اور ان کی ادنیٰ توہین یعنی گستاخی یا تکذیب یعنی جهٹلا نا کفر ہے۔

قرآن میں اورانبیائے کرام علیہم السلام کا ذکر:قرآنِ مجید میں حضرت آدم علیہ السلام سے پیارے آقا ﷺ تک اللہ پاک نے بہت نبی بھیجے جن کا ذکر رب کریم نے قرآنِ پاک میں فرمایا ان کے اسما یہ ہیں:

حضرت آدم علیہ السلام،حضرت نوح علیہ السلام،حضرت ابراہیم علیہ السلام،حضرت یوسف علیہ السلام، حضرت اسمعیل علیہ السلام،حضرت اسحاق علیہ السلام،حضرت یعقوب علیہ السلام، حضرت موسی ٰعلیہ السلام، حضرت ہارون علیہ السلام، حضرت شعیب علیہ السلام، حضرت لوط علیہ السلام، حضرت ہود علیہ السلام، حضرت یحیٰ علیہ السلام،حضرت عیسیٰ علیہ السلام،حضرت یسع علیہ السلام،حضرت الیاس علیہ السلام،حضرت یونس علیہ السلام،حضرت ادریس علیہ السلام،حضرت ذوالکفل،حضرت عزیر علیہ السلام،حضرت صالح علیہ السلام اور سب سے آخری نبی حضرت محمد عربی ﷺ۔

رب کریم نے اپنے خاص پیغمبروں کو لوگوں کی اصلاح کے لیے مبعوث فرمایا۔جن میں سے چند کا ذکر ذیل میں کیا جا تا ہے۔

1-قوم عاد حضرت ہود علیہ السلام کی قوم: فَاَمَّا عَادٌ فَاسْتَكْبَرُوْا فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَ قَالُوْا مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّةًؕ-اَوَ لَمْ یَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ الَّذِیْ خَلَقَهُمْ هُوَ اَشَدُّ مِنْهُمْ قُوَّةًؕ-وَ كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَجْحَدُوْنَ(۱۵) فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِیْحًا صَرْصَرًا فِیْۤ اَیَّامٍ نَّحِسَاتٍ لِّنُذِیْقَهُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاؕ-وَ لَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَخْزٰى وَ هُمْ لَا یُنْصَرُوْنَ(۱۶) (پ 24، حمٓ السجدۃ:15) ترجمہ کنز الایمان:تو وہ جو عاد تھے انہوں نے زمین میں ناحق تکبر کیا، اور بولے ہم سے زیادہ کس کا زور اور کیا انہوں نے نہ جانا کہ اللہ جس نے انہیں بنایا ہے ان سے زیادہ قوی ہے اور ہماری آیتوں کا انکار کرتے تھے تو ہم نے ان پر ایک آندھی بھیجی سخت گرج کی۔ ان کی شامت کے دنوں میں کہ ہم انہیں رسوائی کا عذاب چکھائیں دنیا کی زندگی میں اور بے شک آخرت کے عذاب میں سب سے بڑی رسوائی ہے اور ان کی مدد نہ ہوگی۔

مختصر واقعہ یہ ہے کہ قوم عاد احقاف میں رہتی تھی جو عمان و حضرموت کے درمیان علاقہ یمن میں ایک ریگستان ہے۔انہوں نے زمین کو فسق سے بھردیا تھا اور دنیا کی قوموں کو اپنی سفاکیوں سے اپنے زور قوت کے زعم میں پامال کر ڈالا تھا۔یہ لوگ بت برست تھے۔اللہ پاک نے ان میں حضرت ہود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا۔آپ نے انہیں توحید کا حکم دیا، شرک و بت پرستی سے روکا۔اس پر وہ لوگ آپ کے منکر ہوئے، آپ کی تکذیب کی اور کہنے لگے کہ ہم سے زور آور کون ہے؟چند آدمی آپ پر ایمان لائے لیکن وہ بہت تھوڑے تھے چنانچہ اسی سرکشی پر رب کریم نے ان پر سخت آندھی کا عذاب بھیجا اور انہیں ہلاک کر دیا۔ حضرت ہود مومنین کو لے کر قوم سے جدا ہوگئے۔ ( تفسیر نعیمی)

2-حضرت نوح علیہ السلام کی قوم: لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ(۵۹) (پ 8، الاعراف:59) ترجمہ کنز الایمان: بے شک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تو اس نے کہا اے میری قوم!اللہ کو پو جو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں بے شک مجھے تم پر بڑے دن کے عذاب کا ڈر ہے۔

مختصر واقعہ:حضرت نوح علیہ السلام 40 سال کی عمر میں معبوث ہوئے اور نو سو پچاس سال اپنی قوم کو نیکی کی دعوت دیتے رہے۔حضرت نوح علیہ السلام کی قوم نے بھی دیگر انبیائے کرام کی طرح آپ کو جھٹلایا۔ ان میں تھوڑے آپ پر ایمان لائے اور نجات پائی۔

حضرت نوح علیہ السلام کو رب کریم نے ان کی قوم کی سرکشی کے سبب کشتی بنانے کا حکم دیا۔جب کشتی تیار ہوگئی تو آپ مومنین کو لے کر اس پر سوار ہو گئے اور رب کریم نے آپ کی قوم کو جنہوں نے آپ کو جھٹلایا ان پرطوفان بھیج کر انہیں غرق کردیا۔ منقول ہے کہ یہ کشتی آپ نے دو سال میں تیا ر کی۔( تفسیر نعیمی)

3-قوم لوط علیہ السلام: وَ لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اِنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ٘-مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ(۲۸) اَىٕنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ وَ تَقْطَعُوْنَ السَّبِیْلَ ﳔ وَ تَاْتُوْنَ فِیْ نَادِیْكُمُ الْمُنْكَرَؕ-فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوا ائْتِنَا بِعَذَابِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ(۲۹) (پ 20، العنکبوت:28-29) ترجمہ کنز الایمان:اور لوط کو نجات دی جب اس نے اپنی قوم سے فرمایا تم بے شک بے حیائی کا کام کرتے ہو کہ تم سے پہلے دنیا بھر میں کسی نے نہ کیا، کیا تم مردوں سے بد فعلی کرتے ہو اور راہ مارتے ہو اور اپنی مجلس میں بری بات کرتے ہو تو اس کی قوم کا کچھ جواب نہ ہوا مگر یہ کہ بولے ہم پر اللہ کا عذاب لاؤ اگر تم سچے ہو۔

لوط علیہ السلام کی قوم کی طرف جب آپ کو مبعوث کیا گیا تو آپ کی قوم بے حیائی، راہ گیروں کو قتل کرنا ان کے مال کو لوٹ لینا اور یہ بھی کہا گیا کہ وہ لوگ مسافروں کے ساتھ بدفعلی کرتے تھے حتی کہ لوگوں نے ان کی طرف گزرنا موقوف کردیا۔

لواطت کے مر تکب ہوئے یعنی مرد مرد سے، عورت عورت سے بد فعلی کرتے جو عقلاً ممنوع عرفاً قبیح وممنوع ہے جیسے گالی دینا،فحش بکنا، سیٹی بجانا، ایک دوسرے کو کنکر یاں مارنا،شراب پینا،تمسخر کرنا،گندی باتیں کرنا اوراس طرح کے قبیح افعال کی قوم لوط عادی تھی۔

حضرت لوط علیہ السلام نے اس پر ان کو ملامت کی تو انہوں نے استہزا کیا۔جب آپ کو قوم کے راہ راست پر آنے کی کچھ امید نہ رہی تو آپ نے بارگاہِ الٰہی میں نزول عذاب کی دعا فرمائی۔آپ کی دعا قبول ہوئی اور اللہ پاک نے ان پر چھوٹے چھوٹے سنگریزوں کو بر ساکر انہیں ہلاک کر دیا۔

4-اصحاب الایکہ واصحاب المدین حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم: وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَاؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَۚ(۸۵) (پ 8، الاعراف:85) ترجمہ کنز الایمان: اور مدین کی طرف ان کی بر ادری سے شعیب کو بھیجا کہا، اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آئی تو ناپ اور تول پوری کرو اور لوگوں کی چیزیں گھٹا کرنہ دو اور زمین میں انتظام کے فساد نہ پھیلاؤ یہ تمہارا بھلا ہے اگر ایمان لاؤ۔

حضرت شعیب علیہ السلام کو رب کریم نے ایکہ اور مدین والوں کی طرف بھیجا۔ابتداءً توحید و عبادت کی ہدایت فرمائی کہ تمام امور میں سب سے اہم ہے،اس کے جن عادات قبیحہ میں وہ مبتلا تھے ان سے منع فرمایا۔

علما نے فرمایا کہ بعض انبیا کو حرب(جہاد و قتال) کی اجازت تھی جیسے حضرت موسیٰ ٰ،حضرت داود،حضرت سلیمان علیہم السلام وغیرہم۔بعض وہ تھے جنہیں حرب کا حکم نہ تھا۔ حضرت شعیب انہی میں سے تھے۔ آپ تمام دن وعظ فرماتے اور شب تمام نماز میں گزارتے۔

دیگر قوموں کی طرح آپ کی قوم نے بھی آپ کو جھٹلایا یعنی عاداتِ قبیحہ،فساد اور ناپ تول میں کمی سے باز نہ آئے۔چنانچہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے ہیبت ناک آواز میں کہا:موتوا جمیعا یعنی سب مر جاؤ۔ اس آواز کی دہشت سے ان کے دم نکل گئےاور سب مرگئے۔ اہلِ مدین زلزلہ اور ہولناک آواز سے اصحابِ ایکہ ہلاک ہوئے۔

حضرت ابنِ عبا س رضی اللہ عنہما نے فرمایا:کبھی دوا متیں ایک ہی عذاب میں مبتلا نہیں کی گئیں سوائے حضرت شعیب وصالح علیہما السلام کی امتوں کے۔ لیکن قوم صالح کو ان کے نیچے سے ہولناک آواز نے ہلاک کیا اور قوم شعیب کو اوپر سے۔

قومِ موسیٰ علیہ والسلام: ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ مُّوْسٰى بِاٰیٰتِنَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡىٕهٖ فَظَلَمُوْا بِهَاۚ-فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِیْنَ(۱۰۳) (پ 9، الاعراف:103) ترجمہ کنز الایمان: پھر ان کے بعد ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اوراس کے درباریوں کی طرف بھیجا تو انہوں نے ان نشانیوں پر زیادتی کی تو دیکھو کیسا انجام ہوا مفسدوں(فساد کرنے والوں) کا۔

رب کریم نے ہرنبی کو کسی نہ کسی معجزے کے ساتھ خاص فرمایا اسی طرح حضرت موسیٰ کو اپنی نشانیوں یعنی معجزات واضحات مثلِ یدِ بیضا وعصا کے مبعوث فرمایا۔ آپ اپنا عصا زمین پر ڈالتے تو وہ ایک عظیم الشان اژ دہا بن جاتا جسے فرعون نے جادو کا نام دیا اور اپنی سرکشی میں مشغول رہا۔ فرعون خود کو زمین کا سردار و مالک کہتا تھا۔ چنانچہ اس کی سرکشی پرآپ نے رب کریم سے دعا کی اس کی اور اس کے ماننے والوں کی ہلاکت کی، لہٰذا ان پر پے درپے عذاب بھیجے گئے جیسے کثرتِ بارش،ٹڈی،پِسُو(یا جوئیں) ، مینڈک، پانی کا خون میں بدل جانا۔ ہر عذاب ایک ہفتے تک رہتا۔پھر حضرت موسیٰ کی دعا سے ٹل جاتا،بالآخر ان کی سرکشی قائم رہتی اور ایمان نہ لاتے بالآخر دریائے نیل میں غرق کر دیا گیا۔


الله پاک نے اپنے بندوں کو دنیا میں اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے مگر جب کسی بھی قوم نے اللہ پاک اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کو پس پشت ڈالا اور بے راہ روی کا شکار ہوئے، تب تب اللہ نے اس قوم کو نافرمانی سے نکالنے کے لیے اپنے برگزیدہ نبیوں کو مبعوث فرمایا (بھیجا) تا کہ وہ اس قوم کو راہ راست پر لا کر الله اور اس کے رسول کے احکایات کی بجا آوری میں لگائیں۔

یوں توحضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آخری نبی،محمد مصطفٰے تک بہت سے انبیا تشریف لائے البتہ ان میں سے 27 کا ذکر صراحت کے ساتھ قرآن میں موجود ہے۔ان میں سے 5 کا ذکر قرآنی آیات کے ذریعے کیا جاتا ہے کہ کس نبی کو کس قوم کی طرف بھیجا گیا۔

1) حضرت صالح:غفلت و جہالت، کفر و شرک اور بت پرستی کے بیابان میں بھٹکنے والی قوم ثمود کی راہنمائی کے لئے اللہ نے حضرت صالح علیہ السلام کو رسول بنا کر بھیجا۔ پارہ 8سورہ اعراف آیت 73 میں اس کا ثبوت ہے: وَ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًاۘ- ترجمہ:اور قوم ثمود کی طرف ان کے ہم قوم صالح کو بھیجا۔ (سیرت الانبیاء،ص234)

2) حضرت لوط: جس قوم کی طرف بھیجے گئے وہ بد ترین گنا ہوں میں غرق تھی۔لوگوں سے زبردستی بد فعلی کرنا اس قوم کا سب سے قابلِ نفرت عمل تھا۔ اس کا ذکر اللہ نے قرآن میں پ 19 سورۃ الشعراء آیت 160 تا 162 میں ارشاد فرمایا: كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوْطِ-ﹰالْمُرْسَلِیْنَۚۖ(۱۶۰) اِذْ قَالَ لَهُمْ اَخُوْهُمْ لُوْطٌ اَلَا تَتَّقُوْنَۚ(۱۶۱) اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌۙ(۱۶۲) ترجمہ کنز الایمان: لوط کی قوم نے رسولوں کو جھٹلایا جب کہ ان سے ان کے ہم قوم لوط نے فرمایا: کیا تم ڈرتے نہیں؟ بےشک میں تمہارے لیے اللہ کا امانت دار رسول ہوں۔(سیرت الانبیاء، ص 379)

3) حضرت شعیب:حضرت شعیب علیہ السلام وہ ہیں جنہیں دو قوموں کی طرف مبعوث فرمایا گیا:(1) اہل مدین (2) اصحاب الایکہ۔اس کاذکر قرآن میں پ8 سورہ اعراف آیت نمبر85 میں ارشاد ہوا: وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ ترجمہ کنز الایمان: اور مدین کی طرف ان کی بر ادری سے شعیب کو بھیجا کہا، اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آئی۔ (سیرت الانبیاء،ص506)

4) حضرت عیسیٰ: آپ کو اللہ نے بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجا۔ ایک موقع پر آپ نے بنی اسرائیل کو یوں نصیحت کی: قَدْ جِئْتُكُمْ بِالْحِكْمَةِ وَ لِاُبَیِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِیْ تَخْتَلِفُوْنَ فِیْهِۚ-فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ(۶۳) (پ25، الزخرف: 63) ترجمہ کنز الایمان: میں تمہارے پاس حکمت لے کر آیا اور اس لیے میں تم سے بیان کردوں بعض وہ باتیں جن میں تم اختلاف رکھتے ہو تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔ (سیرت الانبیاء،ص817)

5) حضرت نوح:حضرت نوح علیہ السلام دنیا میں چوتھے نبی اور کفار کی طرف بھیجے جانے والے رسول ہیں۔ پ 29 سوره نوح آیت1میں ارشاد ہوا: اِنَّاۤ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖۤ اَنْ اَنْذِرْ قَوْمَكَ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱) ترجمہ کنز العرفان:بیشک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا کہ اس وقت سے پہلے اپنی قوم کو ڈرا کہ ان پر دردناک عذاب آئے۔ (سیرت الانبیاء،ص165)

جس قوم نے اپنے نبی کو جھٹلایا اسے عذابِ الٰہی میں مبتلا کیا گیا۔ اللہ سے دعا ہے ہمیں اپنے نبی، محمد مصطفٰے ﷺ کی پیروی کرنے والی، ان کے احکامات پر چلنے والی بنائے۔ آمین بجاہ النبی الامینﷺ


انبیاء علیہم السلام کائنات کی وہ عظیم ترین ہستیاں اور انسانوں میں ہیروں،موتیوں کی طرح جگمگاتی شخصیات ہیں جنہیں خدا نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے بھیجا۔ الله پاک نے انبیائے کرام کو مختلف قوموں کی طرف ہدایت یافتہ اور رہنما بنا کر بھیجا۔اللہ پاک کے تمام انبیائے کرام کو کوئی نہ کوئی معجزہ عطا فر مایا لیکن اللہ پاک نے اپنے آخری نبی، مکی مدنی ﷺ کو سر اپا معجز ہ بنا کر بھیجا۔تمام انبیائےکرام علیہم السلام کی اپنی اپنی شان ہے۔

قرآن کی روشنی میں انبیائے کرام کی فضیلت: جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ وَ بِالزُّبُرِ وَ بِالْكِتٰبِ الْمُنِیْرِ(۲۵) 22،الفاطر:25) ترجمہ: اُن کے پاس ان کے رسول روشن دلیلیں اورصحیفے اور روشن کر دینے والی کتابیں لے کر آئے۔

اس آیت مبارکہ سے خوب واضح طور پر ثابت ہو رہا ہے کہ انبیائے کرام کو اللہ پاک نے کتاب دے کر انسانوں کی طرف انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے بھیجا ہے۔ ہمیں انبیائے کرام کی زندگی کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہم انبیائے کرام علیہم السلام کی زندگی کے مطابق عمل کر کے جنت میں داخل ہو سکتے ہیں۔ ان شاء اللہ

انبیا و مرسلین کی تعداد:انبیا و مرسلین علیہم السلام کی تعداد سے متعلق روایات مختلف ہیں،اس لئے ان کی صحیح تعداد اللہ پاک ہی بہتر جانتا ہے۔ہمارے لیے حکم یہ ہے کہ ہم ان کی کوئی تعداد معین نہ کریں کیونکہ معین تعداد پر ایمان لانے میں کسی نبی کی نبوت کا انکار ہو نے یاکسی غیر نبی کو نبی مان لینے کا احتمال موجود ہے اور یہ دونوں باتیں بذات خود کفر ہیں۔

اسمائے انبیا:یوں تو حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آخری نبی حضرت محمد ﷺ تک بہت نبی آئے ان میں سے 27 کا ذکر صراحت کے ساتھ قرآنِ مجید میں موجود ہے:

(1) حضرت آدم علیہ السلام (2) حضرت نوح علیہ السلام (3) حضرت ابراہیم علیہ السلام (4) حضرت اسماعیل علیہ السلام (5) حضرت اسحاق علیہ السلام (6) حضرت یعقوب علیہ السلام (7) حضرت یوسف علیہ السلام (8) حضرت موسیٰ علیہ السلام (9) حضرت ہارون علیہ السلام (10) حضرت خضر علیہ السلام (11) حضرت شعیب علیہ السلام (12) حضرت لوط علیہ السلام (13) حضرت ہود علیہ السلام (14) حضرت داؤد علیہ السلام (15) حضرت سلیمان علیہ السلام (16) حضرت ایوب علیہ السلام (17) حضرت زکریا علیہ السلام (18) حضرت یحیی علیہ السلام (19) حضرت عیسیٰ علیہ السلام (20) حضرت الیاس علیہ السلام (21) حضرت یسع علیہ السلام (22) حضرت یونس علیہ السلام (23) حضرت ادریس علیہ السلام (24) حضرت ذوالکفل علیہ السلام (25) حضرت صالح علیہ السلام (26) حضرت عزیر علیہ السلام (27) خاتم الانبیا،محمد رسول الله (ﷺ) ۔

1) حضرت یوشع: آپ علیہ السلام کانا م یوشع اورنسب نامہ یہ ہے: یوشع بن نون بن افرائیم بن یوسف علیہ السلام بن حضرت یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم علیہم السلام۔

حضرت یوشع علیہ السلام حضرت موسی علیہ السلام کے اصحاب میں حضرت ہارون علیہ السلام کے بعد سب سے عظیم المرتبہ ساتھی تھے۔ آپ علیہ السلام حضرت موسی علیہ السلام پر ایمان لائے اور ان کی تصدیق کی۔حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات کے سفر میں آپ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھے اور ان کے وصال ظاہری تک ساتھ ہی ر ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد آپ علیہ السلام کو نبوت عطا ہوئی اور آپ نے جبارین کے خلاف جہاد فرمایا اور فتح حاصل کی۔ 127 سال کی عمر میں آپ علیہ السلام وفات پاگئے۔ (سیرت الانبیاء،ص655)

2) حضرت شمویل:آپ علیہ السلام کا مبارک نام”شمویل“ یا”اشمویل“ اور نسب نامہ یہ ہے: اشمویل بن بالی بن علقمہ بن یر خام بن الیہو بن نہو بن صوف بن علقمہ بن ماحث بن عموصا بن عزریا۔

آپ علیہ السلام انبیائے بنی اسرائیل میں سے ہیں۔بعثت کے بعد آپ نے بنی اسرائیل کی ہدایت کا فریضہ سر انجام دیا۔حکمِ الٰہی سے طالوت کو بنی اسرائیل کا بادشاہ مقرر کیا اور بنی اسرائیل کو تباہ و برباد کرنے والے جالوت کے خلاف جہاد میں شرکت فرمائی۔آپ بنی اسرائیل کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے جب بنی اسرائیل میں کوئی نبی نہ تھا۔(سیرت الانبیاء،ص660)

3) حضرت سلیمان: حضرت سلیمان علیہ السلام حضرت داؤد علیہ السلام کے فرزند ہیں۔یہ اپنے والد ماجد کے جانشین ہوئے اور اللہ پاک نے انہیں بھی علم و نبوت سے نوازا اور عظیم الشان سلطنت کا حاکم بنایا۔ آپ تختِ سلطنت پر چالیس برس جلوہ گر رہے۔ جن و انسان، شیاطین، پر ندوں وغیرہ سب پر آپ کی حکومت تھی اور سب کی زبانوں کا آپ کو علم عطا کیا گیا تھا۔ (سیرت الانبیاء،ص692)

4) حضرت الیاس: آپ علیہ السلام کا مبارک نام الیاس ہے۔آپ حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔آپ بنی اسرائیل کی طرف رسول بن کر تشریف لائے اور انہیں تبلیغ و نصیحت فرمائی۔الله پاک نے ظالم بادشاہ کے شر سے بچاتے ہوئے انہیں لوگوں کی نظروں سے اوجھل فرما دیا اور آپ علیہ السلام ابھی تک زندہ ہیں اور قرب قیامت وفات پائیں گے۔ قرآن پاک میں آپ علیہ السلام کا نام ال یاسین بھی مذکور ہے۔ (سیرت الانبیاء،ص 722)

5) حضرت یسع:آپ علیہ السلام بنی اسرائیل کے انبیا میں سے ہیں۔ آپ کو حضرت الیاس علیہ السلام نے بنی اسرائیل پر اپنا خلیفہ مقرر کیا اور بعد میں آپ کو شرفِ نبوت سے سرفراز فرمایا گیا۔آپ کا مبارک نام یسع ہے اور آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔ (سیرت الانبیاء،ص 727) 


انبیا علیہم السلام کا ئنات کی عظیم ترین ہستیاں ہیں۔انبیا ئےکرام کو روشن نشانیوں اور معجزات کے ساتھ بھیجا گیا۔انبیائے کرام کو لوگوں کی ہدایت کے لیے کئی صحیفے اور کتابیں دی گئیں۔ تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی انسانوں کو دعوت و تبلیغ کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو ایک اللہ پر ایمان لانے کا حکم دیا جائے، کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرایا جائے، اس کے احکامات کو تسلیم کیا جائے اورگنا ہ و نا فرمانی سے بچا جائے،مگر ان کی قوموں کے لوگ اُن کےلائے ہو ئے دین کو قبول کرنے کی بجائے یہ کہہ دیا کرتے تھے کہ ہم اپنے باپ دادا کے نقش قدم پر چلیں گے۔وہ اپنے نبیوں کی نافرمانی کرتے تھے۔ ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے بہت سی قومیں ہلاک ہوئیں۔ الله پاک نے قرآنِ مجید، فرقانِ حمید میں انبیائے کرام کی بعثت کے مقاصد بیان کئے ہیں۔ ارشادِ باری ہے: وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِؕ-(پ5، النساء:64) ترجمہ کنز الایمان: اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لیے کہ الله کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔

اس کی صراط الجنان میں یہ ہے کہ یہاں رسولوں کی تشریف آوری کا مقصد بیان کیا گیا ہے کہ اللہ پاک رسولوں کو بھیجتا ہی اس لیے ہے کہ اللہ پاک کے حکم سے ان کی اطاعت کی جائے۔ ایک اور جگہ اللہ پاک انبیائے کرام کی بعثت کا مقصدواضح فرماتا ہے۔ وَ مَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّا مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَۚ-فَمَنْ اٰمَنَ وَ اَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ(۴۸) (پ7،الانعام: 48) ترجمہ کنز الایمان:اور ہم نہیں بھیجتے رسولوں کو مگر خوشی اور ڈر سناتے تو جو ایمان لائے اور سنورے ان کو نہ کچھ اندیشہ نہ کچھ غم۔

الله پاک نے خود انبیائے کرام کی بعثت کے مقاصد قرآنِ پاک میں متعدد جگہ بیان فرمائے ہیں۔ بہت سے انبیائے کرام علیہم السلام کا ذکر صراحت کے ساتھ قرآنِ مجید میں موجود ہے۔چند انبیائے کرام کے نام درج ذیل ہیں۔

اسمائے انبیا:(1) حضرت آدم علیہ السلام(2) حضرت نوح علیہ السلام(3) حضرت ابراہیم علیہ السلام(4) حضرت اسماعیل علیہ السلام(5) حضرت اسحاق علیہ السلام(6) حضرت یعقوب(7) حضرت یوسف علیہ السلام(8) حضرت موسیٰ علیہ السلام (9) حضرت ہارون علیہ السلام(10) حضرت خضر علیہ السلام(11) حضرت شعیب علیہ السلام(12) حضرت لوط علیہ السلام(13) حضرت ہود علیہ السلام(14) حضرت داود علیہ السلام(15) حضرت سلیمان علیہ السلام (16) حضرت ایوب علیہ السلام(17) حضرت زکریا علیہ السلام (18) حضرت یحیٰ علیہ السلام(19) حضرت عیسیٰ علیہ السلام(20) حضرت الیاس علیہ السلام(21) حضرت یسع علیہ السلام(22) حضرت یونس علیہ السلام(23) حضرت ادریس علیہ السلام(24) حضرت ذو الکفل علیہ السلام(25) حضرت صالح علیہ السلام(26) حضرت عزیر علیہ السلام(27) خاتم الانبیا،محمد رسول الله ﷺ

ان میں سے 5 کا تذکرہ پیشِ خدمت ہے جس میں ان کا اور ان کی قوم کا ذکر کیا جائے گا۔

1- حضرت یونس:آپ علیہ السلام کا نام یونس بن متٰی ہے۔ آپ حضرت ہود علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔آپ بستی نینوی کے نبی تھے جو موصل کے علاقے دجلہ کے کنارے پر واقع تھی۔ (سیرت الانبیا) قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے: وَ اِنَّ یُوْنُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَؕ(۱۳۹) 23، الصافات:139) ترجمہ:اور بیشک یونس ضرور رسولوں میں سے ہیں۔

حضرت یونس علیہ السلام کو قوم نینویٰ کے ایک لاکھ اور اس سے کچھ زیادہ آدمیوں کی طرف نبی بنا کر بھیجا۔ جو لوگ ایمان لے آئے تھے الله پاک نے ان پر اپنا فضل کیا۔ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے: وَ اَرْسَلْنٰهُ اِلٰى مِائَةِ اَلْفٍ اَوْ یَزِیْدُوْنَۚ(۱۴۷) فَاٰمَنُوْا فَمَتَّعْنٰهُمْ اِلٰى حِیْنٍؕ(۱۴۸) (پ23،الصافات:147-148) ترجمہ:اور ہم نے اسے ایک لاکھ بلکہ زیادہ آدمیوں کی طرف بھیجا تو وہ ایمان لے آئے تو ہم نے انہیں ایک وقت تک بھیجا۔

2 -حضرت موسیٰ: الله پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱) ( پ16، مریم:51) ترجمہ: اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو، بے شک وہ چنا ہوا بندہ تھا، وہ نبی رسول تھا۔

آپ علیہ السلام قوم بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہوئے۔ آپ علیہ السلام نے فرعون کو دعوتِ توحید دی اور پیغام ِرسالت پہنچایا۔ فرعون نے اسے قبول نہ کیا اور جو لوگ فرعون کے ساتھ تھے وہ بھی غرق ہو گئے۔

3-حضرت اسماعیل:آپ کا نام مبارک اسماعیل تھا۔اللہ پاک نے آپ علیہ السلام کو قبیلہ جر ہم اور سر زمین میں رہنے والی قوم عمالیق کی طرف مبعوث فرمایا، جنہیں آپ علیہ السلام نے تبلیغ و نصیحت فرمائی تو کچھ لوگ ایمان لے آئے اور کچھ کافر ہی رہے۔(الروض الانف)

قرآن کریم میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کا تذکرہ متعد د سورتوں میں ہے چنانچہ اللہ پاک پارہ 16 سورۂ مریم آیت نمبر 54 میں ارشاد فرماتا ہے: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّاۚ(۵۴) ترجمہ:اور کتاب میں اسماعیل کو یاد کرو۔ بیشک وہ وعدے کا سچا تھا اور غیب کی خبریں دینے والا رسول تھا۔

4 - حضرت ابراہیم علیہ السلام:آپ علیہ السلام کا مشہور نام ابراہیم ہے آپ علیہ السلام کی قوم ستاروں اور بتوں کی پجاری تھی۔ چچا آزر بھی بتوں کا پجاری بلکہ بیوپاری تھا۔ دوسری طرف بادشاہ وقت نمرود بھی خدائی کا دعویٰ کرتا اور لوگوں سے اپنی عبادت کرواتا تھا۔آپ علیہ السلام نے چچا اور قوم کو تبلیغ و نصیحت فرمائی۔ (سیرت الانبیا)

آپ علیہ السلام بہت اعلیٰ و عمدہ اوصاف کے مالک تھے۔ارشادِ باری ہے:ترجمہ:اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بیشک وہ بہت ہی سچے نبی تھے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے گھر والوں اور اپنی قوم کو اپنے ہی ہاتھ سے بنائے ہوئے بتوں کی پوجا کرنےسے روکا،ان کو چاند،سور ج،ستارے وغیرہ کی پوجا کرنے سے روکا اور ایک اللہ کی عبادت کرنے کا حکم دیا مگر ان کی قوم ان سے جھگڑ نے لگی۔ قرآن کریم میں ہے: وَ حَآجَّهٗ قَوْمُهٗؕ-قَالَ اَتُحَآجُّوْٓنِّیْ فِی اللّٰهِ وَ قَدْ هَدٰىنِؕ-( الانعام: 80) ترجمہ:اور ان کی قوم ان سے جھگڑنے لگی (ابراہیم نے) فرمایا:کیا تم الله کے بارے میں مجھ سے جھگڑتے ہو حالانکہ وہ تو مجھے ہدایت عطا فر چکا۔

5 -حضرت محمد ﷺ:ہمارے مکی مدنی آقا ﷺ اللہ پاک کے آخری نبی ہیں۔ہمارے آقا ﷺ کسی ایک قوم یاایک قبیلے کی طرف نہیں بلکہ ہمارے آقاﷺتمام مخلوق کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے۔ان کا ذکر قرآن پاک کے ہر ہر سپارے میں موجود ہے جن پر قرآن نازل ہوا اور یہ ممکن ہی نہیں کہ ان کا ذ کر نہ ہو۔

ایک پنجابی شاعر لکھتے ہیں:

دساں کی میں مصطفٰے دی کڈی اونچی شان اے آپ دی تعریف وچ سارا ای قرآن اے

پڑھ کے تو ویکھ جیہڑا مرضی سپارہ قسم خدا دی مینوں سب نالوں پیارا

آپ کی تعلیمات صرف اس وقت کے لیے نہ تھی جو آپ کی ظاہری حیات میں قومیں یا قبیلے تھے بلکہ آپ کی تعلیمات آپ کے قول و فعل آج بھی مسلمانوں کی راہنمائی کے لیے بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ہماری زندگی کے تمام شعبوں میں راہنمائی کے لیے نبی کریم ﷺ کی احادیث مبارکہ کا بہت بڑا ذخیرہ ہے۔

قرآنِ کریم میں پچھلی قوموں کے حالات و واقعات اس لئے بیان کئے گئے تاکہ عقل مند لوگ ان واقعات سے عبرت حاصل کریں، غوروفکر کریں،انبیائے کرام اور ان کی امتوں کے احوال بیان کیےتاکہ نبی کریم ﷺ کو ہمت، حوصلہ اور استقامت حاصل ہو، تا کہ قوم کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفیں برداشت کرنا آسان ہو جائے۔ انبیائے کرام کی سیرت کے مطالعہ کے لیے”سیرت الانبیا “ کتاب کا مطالعہ بہت مفید ہوگا۔ اس کے علاوہ قصص الا نبیا کتاب بھی بہت فائدہ مند ثابت ہوگی۔


اللہ پاک نے مخلوق کی ہدایت و رہنمائی کے لیے جن پاک بندوں کو پیدا کیا انہیں انبیا کہتے ہیں۔انبیائے کرام ہی وہ بشر ہیں جن کے پاس الله پاک کی طرف سے وحی آتی تھی۔انبیائے کرام خدا کے خاص و معصوم بندے ہوتے ہیں جن کی نگرانی و تربیت اللہ پاک خود فرماتا ہے۔یہ صغیرہ کبیرہ گنا ہوں سے پاک ہوتے ہیں۔ انہیں عقلِ کامل عطا کی گئی ہے۔ کسی فلسفی، حکیم اور سائنسدان کی عقل ان کی عقل کے لاکھویں حصے تک بھی نہیں پہنچ سکتی۔ عقل کی ایسی بلندی کیوں نہ ہو! کہ یہ الله کے لاڈلے اور محبوب بندے ہوتے ہیں۔ خدا کی راہ کا راستہ انبیائے کرام کے ذریعے سے ہی ملتا ہے۔ قرآنِ پاک میں ارشاد ہوتا ہے: وَ مَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّكَلِّمَهُ اللّٰهُ اِلَّا وَحْیًا اَوْ مِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍ اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوْحِیَ بِاِذْنِهٖ مَا یَشَآءُؕ-اِنَّهٗ عَلِیٌّ حَكِیْمٌ(۵۱) (پ25،الشوریٰ: 51) ترجمہ:اور کسی کیلئے ممکن نہیں کہ اللہ اس سے کلام فرمائے مگر وحی کے طور پر یا پردے کے پچھلے ہو یا (یہ کہ) اللہ کوئی فرشتہ بھیجے تو وہ فرشتہ اس کے حکم سے وحی پہنچائے۔ جو اللہ چاہے بیشک وہ بلندی والا حکمت والا ہے۔

قرآنِ کریم میں انبیائے کرام کے کثیر معجزات کا ذکر ہے جیسے حضرت صالح کی اونٹنی جو پہاڑ سے نکلی، حضرت موسیٰ کے عصا کا سانپ بن جانا، آقا ﷺ کے معجزات بے شمار مثلاً انگلیوں سے پانی کے چشمے جاری ہونا وغیرہ۔

اعلیٰ حضرت کیا خوب فرماتے ہیں:

اُنگلیاں پائیں وہ پیاری پیاری جن سے دریائے کرم ہیں جاری

جوش پر آتی ہے جب غم خواری تشنے سیراب ہوا کرتے ہیں

حضرت ادریس:آپ کا نام خنوخ یا اخنوخ اور لقب ادریس ہے۔اللہ پاک نے آپ پر تیس صحیفے نازل فرمائے، ان صحیفوں کا کثرت سے درس دینے کی وجہ سے آپ کا لقب ادریس(بہت درس دینے والا) ہوا۔ سب سے پہلے آپ نے ہی قلم سے لکھا۔قرآنِ کریم میں آپ علیہ السلام کے 114 اوصاف ہیں۔ آپ بہت ہی سچے نبی تھے۔ قرآنِ پاک میں آتا ہے:کتاب میں ادریس کو یادکر وہ بہت سچانبی ہے۔ (شرح نووی،3/123)

حضرت نوح:آپ علیہ السلام کا اسمِ گرامی یشکر یا عبدالغفار اور لقب نوح تھا۔ یہ لقب اس لیے ہوا کہ آپ علیہ السلام اللہ کے خوف کی بنا پر کثرت سے گریہ وزاری کیا کرتے تھے نیز آپ کو آدمِ ثانی بھی کہتے ہیں۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فرماتے ہیں:پسماندگاہ طوفان سے کسی کی نسل نہ بڑھی، صرف نوح کی نسل تمام دنیا میں ہے۔ الله پاک فرماتا ہے: وَ جَعَلْنَا ذُرِّیَّتَهٗ هُمُ الْبٰقِیْنَ٘ۖ(۷۷) (پ23، الصافات:77) ترجمہ: ہم نے اسی کی اولاد باقی رکھی۔

حضرت نوح کی قوم:الله پاک نے جب حضرت نوح علیہ السلام کو نبی بنا کر بھیجا اس وقت آپ کی عمر مبارک تقریباً چالیس سال تھی۔ اللہ پاک نے حضرت نوح علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ اپنی قوم کو عذابِ الٰہی سے ڈرائیں کہ وہ لوگ ایمان لے آئیں ورنہ ان پر دنیا میں خوفناک عذاب آئے گا اور آخرت میں بھی درد ناک عذاب کا شکار ہوں گے۔ (سیرت الانبیاء،ص 165)

بیشک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا کہ اس وقت سے پہلے اپنی قوم کو ڈراؤکہ ان پر درد ناک عذاب آئے۔(تفسیرروح المعانی،15/22)

حضرت نوح نے حکم الٰہی کی تعمیل میں قوم سے فرمایا:اے میری قوم! میں تمہیں الله پاک کے عذاب سے بہت واضح انداز میں خبردار کرنے اور ڈر سنانے والا ہوں اور تمہیں کہتا ہوں کہ اللہ پاک کی وحدانیت کا اقرار کرو۔ شرک نہ کر و۔ خدا کے غضب سے بچنے کیلئے اس کی نافرمانی سے دور رہو۔لیکن حضرت نوح کی تبلیغ کے جواب میں قوم نے سر کشی کا مظاہرہ کیا، آپ علیہ السلام کو جھوٹا قرار دیاحتی کہ دھمکی بھی دی کہ اگر وہ ان کو دین کی دعوت دینے سے منع نہ ہوئے توپتھر مارمار کر قتل کر دیں گےنیز انہوں نے آپ کو بہت برا بھلا کہا لیکن آپ علیہ السلام اولو العزم یعنی انتہائی باہمت رسول تھے۔ فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ26، الاحقاف: 35) ترجمہ:تو( اے حبیب!) تم صبر کرو جیسے ہمت والے رسولوں نے صبر کیا۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام:آپ کا مشہور نام ابراہیم ہے جس کے معنی ہیں”مہربان باپ“آپ بہت مہربان تھے۔آپ علیہ السلام نے اللہ پاک کی طرف سے ملنے والے حکم کو پوری طرح ادا کیا۔ارشاد باری ہے: وَ اِبْرٰهِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰۤىۙ(۳۷) (پ27، النجم: 37) ترجمہ:اور ابراہیم کہ جس نے(احکام کو) پوری طرح ادا کیا۔

حضرت ابراہیم کی قوم کے لوگ اپنے گمراہ باپ دادا کی پیروی میں بتوں اور ستاروں کی پوجا کرتے تھے۔ آپ کے چچا آزر جو بت پرستی کے ساتھ ساتھ بت سازی بھی کرتے تھے،جب آپ نے تبلیغ و نصیحت کا سلسلہ شروع فرمایا تو سب سے پہلے اپنے گھر سے ابتدا کی۔ اَتَتَّخِذُ اَصْنَامًا اٰلِهَةًۚ-اِنِّیْۤ اَرٰىكَ وَ قَوْمَكَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(۷۴) (پ 7،الانعام:74) ترجمہ: کیا تم بتوں کو(اپنا) معبود بناتے ہو۔بیشک میں تمہیں اور تمہاری قوم کو گمراہی میں دیکھ رہا ہوں۔


قرآنِ پاک میں بہت سے مقامات پر آیات کی روشنی میں حضرت محمد ﷺ سے پہلے آنے والے انبیائے کرام علیہم السلام اور ان کی قوموں کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا کہ کسی قوم پر کب اور کس طرح عذاب نازل ہوا۔

فَلَوْ لَا كَانَتْ قَرْیَةٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَهَاۤ اِیْمَانُهَاۤ اِلَّا قَوْمَ یُوْنُسَؕ-لَمَّاۤ اٰمَنُوْا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ مَتَّعْنٰهُمْ اِلٰى حِیْنٍ(۹۸) ( 11، یونس: 98) ترجمہ: تو کیوں ایسا نہ ہوا کہ کوئی قوم ایمان لے آتی تاکہ اس کا ایمان اسے نفع دیتا لیکن یونس کی قوم جب ایمان لائی تو ہم نے ان سے دنیا کی زندگی میں رسوائی کا عذاب ہٹا دیا اور ایک وقت تک انہیں فائدہ اٹھانےدیا۔

صراط الجنان فی تفسیر القرآن:قرآنِ پاک میں ذکر کیا گیاکہ فرعون کی توبہ اس لیے قبول نہ ہوئی کیونکہ فرعون نے عذا ب نازل ہونے کے بعد توبہ کی، اس وجہ سے اس کی توبہ قبول نہ ہوئی اور حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کی توبہ اس لیے قبول ہوئی کہ انہوں نے عذاب نازل ہونے سے پہلے توبہ کرلی تھی اور ان سے عذاب ہٹا لیا گیا۔

لَقَدْ كَانَ لِسَبَاٍ فِیْ مَسْكَنِهِمْ اٰیَةٌۚ-جَنَّتٰنِ عَنْ یَّمِیْنٍ وَّ شِمَالٍ۬ؕ-كُلُوْا مِنْ رِّزْقِ رَبِّكُمْ وَ اشْكُرُوْا لَهٗؕ-بَلْدَةٌ طَیِّبَةٌ وَّ رَبٌّ غَفُوْرٌ(۱۵) ( 22، السبا: 15) ترجمہ:ترجمہ:بے شک قوم سبا کیلئے ان کی آبادی میں نشانی تھی دو باغ تھے ایک دائیں طرف اور دوسرا بائیں طرف اپنے رب کا رزق کھاؤ اور اس کا شکر ادا کرو پاکیزہ شہر ہے اور بخشنے والا رب۔

صراط الجنان فی تفسیر القرآن:اس آیت میں ایک ایسی قوم کا ذکر کیا گیا جنہیں اللہ پاک نے کثیر نعمتوں سے نوازا لیکن وہ لوگ اللہ پاک کی فرمانبرداری کرنےکے بجائے اُس کی نافرمانی کرنے لگے تو اللہ پاک نے انہیں سیلاب کے ذریعے ہلاک کر دیا۔

وَ ظَلَّلْنَا عَلَیْكُمُ الْغَمَامَ وَ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمُ الْمَنَّ وَ السَّلْوٰىؕ-كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْؕ-وَ مَا ظَلَمُوْنَا وَ لٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ(۵۷) ( 1، البقرة: 57) ترجمہ: اور ہم نے تمہارے اوپر بادل کو سایہ بنا دیا اور تمہارےاوپر من و سلویٰ اتارا (کہ) ہماری دی ہوئی پا کیزہ چیزیں کھاؤ اور انہوں نے ہمارا کچھ نہ بگاڑ ا بلکہ اپنی جانوں پر ہی ظلم کرتے رہے۔

قوم ِعاد:حضرت ہود علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے اور اللہ نے قومِ عاد کی طرف نبی بنا کر بھیجا اور آپ قومِ عاد میں رہنے واے تھے، اللہ پاک کے حکم سے آپ نے اس کو اسلام کی دعوت دی، اس قوم کے سرداروں نے آپ کو بے وقوف اور جھوٹا کہا۔ آپ نے فرمایا:میں بے وقوف اور جھوٹا نہیں بلکہ اللہ پاک کا نبی ہوں، اس کے پیغام تم تک پہنچاتا ہوں اور تمہارا خیر خواہ ہوں۔پھر حضرت ہود علیہ السلام نے فرمایا: اے میری قوم !تم اللہ کی نعتیں یاد کرو اس نے تمہیں عظیم قد کاٹھ اور طاقت دی تمہیں باغات جانور اور چشمے عطا کیے،پھر آپ نے انہیں اللہ کے عذاب سے ڈرایا انہوں نے کہا کہ تمہارا نصیحت کرنا اور نہ کرنا برابر ہے ہم پر کوئی عذاب نہیں آئے گا اور آپ علیہ السلام کی دعوت قبول نہ کی۔ پھر اللہ پاک نے اس قوم کی نافرمانی کرنے کے سبب ان پر آندھی طوفان نازل کیا جس سے حضرت ہود علیہ السلام اور جو لوگ ان پر ایمان لائے تھے ان کے علاوہ سب غرق ہوگئے۔

نوٹ:ان سب واقعات سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ عذاب کے آثار نازل ہونے پر توبہ کرلی جائے تو عذاب ٹل جاتا ہے۔بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے اور ہمیں یہ بھی معلوم ہواکہ اللہ پاک کی نافرمانی کرنے سے نعمتیں چھن جایا کرتی ہیں اور جو اللہ پاک کا حکم بجالاتے ہیں تو اللہ پاک انہیں مزید نعمتوں سے نوازتا ہے اور بنی اسرائیل کے واقعے سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ اگر بنی اسرائیل کھانا جمع کر کے اللہ پاک کی نافرمانی نہ کرتے تو کھانا کبھی خراب نہ ہوتا۔ 


1- قوم سبا: لَقَدْ كَانَ لِسَبَاٍ فِیْ مَسْكَنِهِمْ اٰیَةٌۚ-جَنَّتٰنِ عَنْ یَّمِیْنٍ وَّ شِمَالٍ۬ؕ-كُلُوْا مِنْ رِّزْقِ رَبِّكُمْ وَ اشْكُرُوْا لَهٗؕ-بَلْدَةٌ طَیِّبَةٌ وَّ رَبٌّ غَفُوْرٌ(۱۵) (پ 22، السبا: 15) ترجمہ: بےشک قومِ سبا کے لیے ان کی آبادی میں نشانی تھی، دو باغ تھے ایک دائیں طرف اور دوسرا بائیں طرف۔ اپنے رب کا رزق کھاؤ اور اس کا شکراداکرو۔ پاکیزہ شہر ہے اوربخشنے والا رب۔

آیت مبارکہ: 16:تو انہوں نے منہ پھیرا تو ہم نے ان پرزور کا سیلاب بھیجا اور ان کے باغوں کے عوض دو باغ انہیں بدل دیئے جو کڑ وے پھل والے اور جھاؤ والے اور کچھ تھوڑی سی بیریوں والے تھے۔

تفسیر:سبا عرب کا ایک قبیلہ تھا۔ اس کی آب و ہوا اور زمین انتہائی صاف تھی۔اللہ پاک نے ہر طرح کی خوشحالی دی ہوئی تھی۔ لیکن قومِ سبا شکر کے بجائے نا شکری کرنے لگی۔ اللہ پاک نے اس قوم کے لیے 13 انبیائے کرام بھیجے لیکن انہوں نے انبیاکو جھٹلایا۔اس قوم کے سردار کا نام حمار تھا یہ بہت متکبر تھا۔ جب اس کے بیٹےکا انتقال ہوا تو اس نے آسمان کی طرف تھوکا(معاذ اللہ) اور اللہ سے اعلان بغاوت کردیا۔ انبیا سے کہا کہ الله سے کہو کہ وہ ہم سے نعمتیں چھین لے کیونکہ وہ سمجھتا تھا یہ سب کچھ ہمارا ہے۔ جب اس کی نافرمانی بڑھ گئی تو اللہ پاک نے ان پر سیلاب کا عذاب بھیجا۔

(2) قوم لوط:تفسیر: ملک شام کا ایک صوبہ حمص تھا اور اس کا ایک شہر سدوم تھا۔ شہر کی خوشحالی کی وجہ سے کئی لوگ مہمان بن کر ان آبادیوں میں آئے اور لوگوں کو مہمان نوازی کا بوجھ اٹھانا پڑا جس سے تنگ آکر شیطان کی باتوں میں آگئے۔ شیطان نے اپنا خطرناک وار کیا کہ اگر تم اپنے مہمانوں سے نجات چاہتے ہو تو جب کوئی تمہارے ہاں مہمان آئے تو اس کے ساتھ ز بر دستی بد فعلی کرو۔انہوں نے ایسا ہی کیا۔ حضرت لوط علیہ السلام نے ان سے کہا:ایسا مت کرو! یہ بہت سخت گناہ ہے۔ لیکن انہوں نے حضرت لوط علیہ السلام کی باتوں کا انکار کر دیا۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام اپنے ساتھ چند فرشتوں کو لے کر آسمان سے اترے اور حضرت لوط سے فرمایا: آپ مومنین اور اپنے خاندان والوں کو لے کر اس بستی سے چلے جائیں۔ حضرت جبرائیل اس شہر کی پانچوں بستیوں کو اٹھا کر آسمان کی طرف مڑے اور اوپر جا کر الٹ دیا۔ پھران لوگوں پر پتھروں کی بارش برسادی جس سے قوم کے تمام افرادہلاک ہو گئے۔

(3) قوم عاد:ترجمہ کنز الایمان: اور قوم عاد کی طرف ان کے ہم قوم ہود کو بھیجا۔ ہودنے فرمایا:اے میری قوم!اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ تو کیا تم ڈرتے نہیں۔( تعلیماتِ قرآن، حصہ:3) تفسیر:قوم عاد مقام احقاف میں رہتی تھی جو بہت بڑاریگستان تها۔ اس قوم کے لوگ بت پرست تھے۔ اللہ پاک نے حضرت ہود علیہ السلام کو اس قوم کی راہنمائی کیلئے بھیجا۔اس قوم نے تکبر اور سرکشی کی وجہ سے حضرت ہود کو جھٹلایا۔ اس کے بعدعذابِ الٰہی ہوا،تین سال تک بارش نہ ہوئی،ہرطرف قحط سالی کا دور تها۔پھرانہی کی دعا پرایک کالابادل بھیجاجس سے یک دم کالی آندھی آئی جو اس قدر زور دار تھی کہ ان کے اونٹوں،باغوں اور مکانوں کی تباہی عیاں ہوگئی۔اس قوم کا کوئی فرد سلامت نہ بچا۔ حضرت ہود علیہ السلام اپنے ساتھ چند مومنین جوایمان لائے انہیں لے کر مکہ مکرمہ چلے گئے۔

(4) قوم ثمود: فَقَالَ لَهُمْ رَسُوْلُ اللّٰهِ نَاقَةَ اللّٰهِ وَ سُقْیٰهَاؕ(۱۳) (پ 30، الشمس: 13) ترجمہ: تو اللہ کے رسول نے ان سے فرمایا: الله کی اونٹنی اور اس کے پینے کی باری سے بچو۔

تفسیر: قوم ثمود نے بھی پیغمبر ِ وقت حضرت صالح علیہ السلام کو جھٹلایا وہ کہنے لگے:ایک انسان جوہماری طرح کا ہے ہم اس کی پیروی کیوں کریں! پھر اللہ پاک نے انہیں انہی کے مطالبہ پر معجزہ دکھایا کہ پہاڑ سے ایک اونٹنی پیدا کی لیکن پھر بھی انہوں نے انکار کر دیا۔ اونٹنی بہت بڑی تھی، وہ گھاٹ کا سارا پانی پی جاتی تھی۔تو طے یہ ہوا کہ ایک دن اونٹنی پانی پیے گی اور ایک دن لوگ۔اب انہیں فکر ہونے لگی کہیں ختم نہ ہوجائے!تو انہوں نے اس اونٹنی کی رگیں کاٹ دیں اور اسے قتل کر دیا۔ توان پر اللہ کا عذاب آگیا، ان پر ایک زوردار چنگھاڑ بھیجی گئی اور وہ ایسے ہوگئے جیسے روندھی ہوئی کوئی خاردار باڑھ ہو۔

(5) بنی اسرائیل:اور متنبہ کر دیاتھا ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب میں کہ تم ضرور فساد مچاؤ گے زمین میں دو مرتبہ اور ضرور سرکشی کرو گے۔اگر تم نے بھلائی کی توبھلائی کی اپنی جانوں پر۔اگر تم نے برائی کی تو وہ ان کے لیے۔پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے بندے بھیجے تاکہ بگاڑیں تمہارے چہروں کو۔(15، بنی اسرائیل)

تفسیر:بنی اسرائیل کے پاس جو دریا تھا جس سے وہ شکار کرتے تھے،ہفتے والے دن وہاں بہت زیادہ مچھلیاں آتی تھیں۔ اللہ پاک نے منع کیا کہ ہفتے والے دن شکار نہ کرنا۔یہ اللہ کی طرف سے آزمائش تھی۔ وہ لوگ ہفتے والے دن گڑھے ک ہود تے اور پانی جمع ہونے دیتے اور پھلیاں پکڑتے اور اتوار والے دن شکار کرتے یعنی بہا نہ کر لیتے تھے۔

اب جب نافرمانی کرنے لگے تو ان میں تین گروہ بن گئے:(1) ایک وہ جونا فرمانی کرتا(2) دوسرا وہ جو کہتا تھا کہ یہ جو کرتے ہیں انہیں کرنے دو(3) تیسر ا گر وہ وہ تھا جو انہیں ہدایت دیتا تھا،پر عذاب الٰہی ان لوگوں پر نازل ہوا جو انہیں منع نہیں کرتے تھے اور جونا فرمانی کرتے تھے انہیں بندر بنا دیا گیا، صرف وہ لوگ عذاب سے محفوظ رہے جو انہیں منع کرتے تھے۔

سبق:اس سے ہمیں یہ سبق حاصل ہوا کہ اللہ پاک کی نافرمانی سے بچنا چاہیے۔ہر حال میں الله کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ احکامِ الٰہی پر عمل کرنا چاہیے۔


حضرت ہود علیہ السلام کا تعلق قوم عاد کے قبیلے سے ہے۔آپ حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔اللہ پاک نے آپ کو قومِ عاد کی طرف نبی بناکر بھیجا۔

آیتِ مبارکہ: وَ اِلٰى عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-اَفَلَا تَتَّقُوْنَ(۶۵) (پ 8، الاعراف: 65) ترجمہ کنز العرفان: اور قوم عاد کی طرف ان کے ہم قوم ہود کو بھیجا ( ہود نے) فرمایا:اے میری قوم!اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں،کیا تم ڈرتے نہیں ؟

تفسیر: آیت میں ”اَخَا بھائی“ سے مراد حقیقی بھائی نہیں بلکہ”ہم قوم مراد ہے۔

نوٹ:اس سےمعلوم ہوتا ہے کہ ہمیں اللہ پاک کی ہی عبادت کرنی چاہیے۔ اس کے سوائی کسی کی عبادت نہ کی جائے۔اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔تو کیا تم اللہ پاک کے عذاب سے ڈرتے نہیں؟ ہمیں الله پاک سے ہمیشہ ڈرنا چاہیے۔(تعلیماتِ قرآن، ص170، حصہ:3)

حضرت یونس علیہ السلام:حضرت یونس علیہ السلام کا اسمِ گرامی یونس بن متی ہے۔آپ حضرت ہود علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے۔آپ کو موصل کے شہر نینویٰ کی طرف رسول بناکر بھیجا گیا۔حضرت یونس علیہ السلام کی قوم وہ واحد قوم ہے جس پر عذاب کے آثار ہونے کے بعد بھی عذاب ٹل گیا۔

آیت مبارکہ: فَلَوْ لَا كَانَتْ قَرْیَةٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَهَاۤ اِیْمَانُهَاۤ اِلَّا قَوْمَ یُوْنُسَؕ-لَمَّاۤ اٰمَنُوْا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ مَتَّعْنٰهُمْ اِلٰى حِیْنٍ(۹۸) (پ11،یونس:98) ترجمہ:تو کیوں ایسا نہ ہوا کہ کوئی قوم ایمان لے آتی تاکہ اس کا ایمان اسے نفع دیتا لیکن یونس کی قوم جب ایمان لائی تو ہم نے ان سے دنیا کی زندگی میں رسوائی کا عذاب بنا دیا اور ایک وقت تک انہیں فائدہ اٹھانے دیا۔

تفسیر:فرعون نے بھی آخری وقت میں تو بہ کی تھی اور حضرت یونس علیہ السلام کی قوم نے بھی لیکن فرعون کی توبہ قبول نہ ہوئی اور حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کی توبہ قبول ہوگئی۔فرعون نے عذاب کا مشاہدہ کرنے کے بعد توبہ کی جبکہ حضرت یونس علیہ السلام کی قوم نے عذاب کی نشانیاں دیکھ کر اسی وقت توبہ کرلی۔ اس کا مطلب یہ نکلا کہ نزول عذاب کے بعد توبہ قبول نہیں البتہ نزول عذاب سے پہلے صرف علامات ِ عذاب کے ظہور کے وقت توبہ قبول ہو سکتی ہے۔

نوٹ:اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بھی ہم سے کوئی گناہ ہوجائے تواس وقت اس گناہ سے معافی مانگ کر آئندہ نہ کرنے کا عہد کرنا چاہئے،ایسے لوگوں کو اللہ معاف فرمانے والا ہے۔(تعلیماتِ قرآن،حصہ:131، ص15)

قوم سبا:یمن کے شہر صنعاء سے کچھ فاصلے پر عرب کا ایک قبیلہ”سبا“آباد تھا۔اللہ پاک نے قومِ سبا کی ہدایت کے لیے یکے بعد دیگرے 13 انبیائے کرام بھیجے۔

آیت مبارکہ: ذٰلِكَ جَزَیْنٰهُمْ بِمَا كَفَرُوْاؕ-وَ هَلْ نُجٰزِیْۤ اِلَّا الْكَفُوْرَ(۱۷) (پ22،السبا: 17) ترجمہ: ہم نے انہیں ان کی ناشکری کی وجہ سے یہ بدلہ دیا اوراسی کو سزا دیتے ہیں جو ناشکرا ہو۔

تفسیر:سبا والوں کے حالات و انجام سے معلوم ہواکہ نعمتوں کی نا شکری ان کے زوال و مصائب اور آلام میں مبتلا ہونے کا سبب بن جاتی ہے، لہٰذا اس سے بچنا چاہیے۔

نوٹ:اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ پاک کی ناشکری سے بچنا چاہیے اور اللہ پاک کی ہر نعمت کا شکر ادا کرنا چاہیے۔(تعلیمات قرآن،ص148، حصہ:3)

حضرت یعقوب علیہ السلام اللہ پاک کے پیغمبر ہیں۔آپ حضرت یوسف کے والد حضرت اسحاق کے بیٹے اور حضرت ابراہیم کے پوتے ہیں۔آپ کا لقب اسرائیل ہے۔آپ کی اولاد کو بنی اسرائیل کہتے ہیں۔حضرت یعقوب علیہ السلام نے 147 سال کی عمر میں وفات پائی۔

آیت مبارکہ: قَالَ اِنَّمَاۤ اَشْكُوْا بَثِّیْ وَ حُزْنِیْۤ اِلَى اللّٰهِ وَ اَعْلَمُ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۸۶) (پ13، یوسف:86) ترجمہ:یعقوب نے کہا:میں تو اپنی ہر پریشانی اور غم کیفریاد اللہ ہی سے کرتا ہوں اور میں اللہ کی طرف سے وہ بات جانتا ہے جو تم نہیں جائے۔

تفسیر:حضرت یعقوب علیہ السلام کے اس فرمان سے معلوم ہوا کہ غم اورپریشانیوں میں اللہ سے فریادکرنا صبر کے خلاف نہیں۔ہاں! بے صبری کے کلمات منہ سے نکالنا،لوگوں سے شکوے کرنا بے صبری ہے۔یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ علیہ السلام جانتے تھے کہ حضرت یوسف زندہ ہیں اور ان سے ملنے کی توقع ہے۔

نوٹ:اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مشکلات میں صبرسے کام لینا چا ہیے نہ کہ بے صبری کر کے اپنے ثواب کو ضائع کر دیا جائے اور اللہ پاک صبر کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔


یوں تو سبھی انبیا ومر سلین ہمت والے ہیں اور سبھی نے راہِ حق میں آنے والی تکالیف پر صبر و تحمل کا شاندار مظاہرہ کیا ہے البتہ اس مقدس جماعت میں سے5 رسول ایسے ہیں جن کا راہِ خدا میں صبر اور مجاہدہ دیگر انبیا علیہم السلام سے زیادہ ہے،اسی لیے انہیں بطور خاص اولو العزم رسول کہا جاتا ہے اور جب بھی او لو العزم رسول کہا جائے تو ان سے ہی پانچوں رسول مراد ہوتے ہیں اور وہ یہ ہیں:(1) حضرت محمد ﷺ(2) حضرت ابراہیم علیہ السلام(3) حضرت موسیٰ علیہ السلام(4) حضرت عیسیٰ علیہ السلام(5) حضرت نوح علیہ السلام

سورہ احزاب میں ہے: وَ اِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِیّٖنَ مِیْثَاقَهُمْ وَ مِنْكَ وَ مِنْ نُّوْحٍ وَّ اِبْرٰهِیْمَ وَ مُوْسٰى وَ عِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَ۪-وَ اَخَذْنَا مِنْهُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظًاۙ(۷) (پ 21، الاحزاب: 7) اور اے محبوب!یاد کرو جب ہم نے نبیوں سے عہد لیا اور تم سے اور نوح اور ابراہیم اور عیسیٰ اور موسٰی سے(عہد لیا) اور ہم نے ان سب سےبڑا مضبوط عہد لیا۔

حضرت محمدﷺ:پیارے آقا ﷺ کو تمام انسانیت کو ہدایت اور راہ راست پر لانے کے لیے بھیجا گیا۔ پیارے آقا ﷺ نے کفار کو اسلام کی دعوت دی۔ زیادہ تر لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے لیکن بعض بد نصیب کا فروں نے انکار کر دیا۔ هُوَ الْاَوَّلُ وَ الْاٰخِرُ وَ الظَّاهِرُ وَ الْبَاطِنُۚ-وَ هُوَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ(۳) (الحدید:3) ترجمہ: وہی اول ہے وہی آخر ہے وہی ظاہر ہے وہی چھپا اوروہ ہر چیز جانتا ہے۔

حضور ہی سب سے اول ہیں۔ ہر چیز میں آپ کواولیت دی گئی۔بروز قیامت حضورکو اول سجدہ کا حکم ملے گا۔ دنوں میں سب سے افضل دن جمعہ کا آپ کود یا گیا۔وہی آخر ہیں۔ ان کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔سب سے آخری آسمانی کتاب بھی آپ کودی گئی۔وہی ظاہر ہیں۔ہر چیز ان پر عیاں ہے۔چاند کھیلا کرتا تھا۔ کفار آپ کی نبوت کی گواہیاں دیتے تھے۔وہی باطن ہیں۔جس طرح سورج کے نور کو چھپایا گیا کہ کوئی بھی اس کی طرف آنکھ بھر کرنہیں دیکھ سکتی۔ اسی طرح حضور کی نو رانیت پردہ بن گئی۔حضورﷺہر چیز کو جاننے والے ہیں۔اولین و آخرین کے سارے علوم حضور میں جمع ہیں۔حضور ہی ہیں جن کی آنکھ نے خالق عالم کو معراج میں دیکھا ہے۔مخلوق کس طرح اس سے چھپ سکتی ہے!

حضرت ابراہیم علیہ السلام:آپ علیہ السلام کی قوم بتوں اور ستاروں کی پوجاکرتی تھی۔ چچاآزر بھی بتوں کا پجاری تھا۔دوسری طرف امام بادشاہ وقت نمرود بھی خدائی کا دعویٰ کرتا تھا۔آپ نے اپنی قوم کو نصیحت کی اور اسلام کی دعوت دی اور ان کو سمجھایا۔ وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِبْرٰهِیْمَ۬ؕ-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا(۴۱) (پ16،مریم:41) ترجمہ:اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بے شک وہ بہت ہی سچے نبی تھے۔

آپ علیہ السلام کےسچے ہونے کے وصف کو بطورِ خاص بیان کرنے میں یہ بھی حکمت ہو سکتی ہے کہ ان لوگوں کی تفہیم ہو جائے جنہیں چند واقعات کی بنا پر شبہ ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا کلام ان مواقع پر حقیقت کے مطابق نہیں تھا۔آپ علیہ السلام بے شمار خوبیوں کے مالک تھے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام:آپ علیہ السلام کی ولادت کا سن کر فرعون نے ہزاروں بچے ذبح کر دیے لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکا۔ آپ علیہ السلام کو بنی اسرائیل کی طرف بھیجا گیا۔آپ علیہ السلام نے فرعون کو دعوت تبلیغ دی لیکن اس نے انکار کر دیا۔ اِنَّكَ لَغَوِیٌّ مُّبِیْنٌ(۱۸) (پ20،القصص:18) ترجمہ: بے شک تو ضرور کھلا گمراہ ہے۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام: آپ علیہ السلام بن باپ کے پیدا ہوئے تھے۔آپ بنی اسرائیل کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے۔ یہودیوں نے آپ کے قتل کی سازش کی تو اللہ پاک نے آپ کو بچا کر آسمان پر زندہ اٹھا لیا اور اب قرب قیامت میں دوبارہ زمین پر تشریف لائیں گے۔

یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ هَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّكَ اَنْ یُّنَزِّلَ عَلَیْنَا مَآىٕدَةً مِّنَ السَّمَآءِؕ-(پ7،المائده:112) ترجمہ:اے عیسیٰ بن مریم !کیا آپ کا رب ایسا کرے گا کہ ہم پر آسمان سے ایک دستر خوان اتار دے؟ اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ کیا اللہ پاک اس بارے میں آپ کی دعا قبول فرمائے گا؟ یہ مراد نہیں تھی کہ آپ کا رب ایسا کر سکتا ہے یانہیں؟ کیونکہ یہ حضرات اللہ پاک پر ایمان رکھتے تھے۔

آپ علیہ السلام نے فرمایا: اتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۱۱۲) (پ7،المائدہ:112) ترجمہ:اللہ سے ڈرو اگر ایمان رکھتے ہو۔ یعنی اگر ایمان رکھتے ہو تواللہ پاک سے ڈرو اور تقویٰ اختیار کرو تا کہ یہ مراد حاصل ہو جائے۔

حضرت نوح علیہ السلام:حضرت نوح علیہ السلام دنیا میں چوتھے نبی اور کفار کی طرف بھیجے جانے والے پہلے رسول ہیں۔آپ نے اسلام کی تبلیغ کی لیکن آپ کی قوم نے انکار کر دیا تو آپ نےان کے خلاف دعا کی جو قبول ہو گئی۔ وَ جَعَلْنَا ذُرِّیَّتَهٗ هُمُ الْبٰقِیْنَ٘ۖ(۷۷) (پ23، الصافات:77) ترجمہ: ہم نے اسی کی اولاد باقی رکھی۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مر وی ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے کشتی سے اترنے کے بعد آپ علیہ السلام کی اولاد اوران کی بیویوں کے علاوہ جتنے مرد و عورت تھے سبھی آگے کوئی نسل چلائے بغیر فوت ہوگئے۔ آپ علیہ السلام کی اولا دسے نسلیں چلیں۔