انبیائے
کرام اور ان کی قومیں قرآن کی روشنی میں از بنتِ محمد اکرم، مدینہ کلاں لالہ موسیٰ
قرآنِ پاک میں بہت سے مقامات پر آیات کی روشنی میں حضرت
محمد ﷺ سے پہلے آنے والے انبیائے کرام علیہم السلام اور ان کی قوموں کے بارے میں
ذکر کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا کہ کسی قوم پر کب اور کس طرح عذاب نازل ہوا۔
فَلَوْ لَا كَانَتْ قَرْیَةٌ اٰمَنَتْ
فَنَفَعَهَاۤ اِیْمَانُهَاۤ اِلَّا قَوْمَ یُوْنُسَؕ-لَمَّاۤ اٰمَنُوْا كَشَفْنَا
عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ مَتَّعْنٰهُمْ اِلٰى
حِیْنٍ(۹۸) ( 11، یونس: 98)
ترجمہ: تو کیوں ایسا نہ ہوا کہ
کوئی قوم ایمان لے آتی تاکہ اس کا ایمان اسے نفع دیتا لیکن یونس کی قوم جب ایمان
لائی تو ہم نے ان سے دنیا کی زندگی میں رسوائی کا عذاب ہٹا دیا اور ایک وقت تک انہیں
فائدہ اٹھانےدیا۔
صراط الجنان فی تفسیر القرآن:قرآنِ پاک میں ذکر کیا گیاکہ فرعون کی
توبہ اس لیے قبول نہ ہوئی کیونکہ فرعون نے عذا ب نازل ہونے کے بعد توبہ کی، اس وجہ
سے اس کی توبہ قبول نہ ہوئی اور حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کی توبہ اس لیے قبول
ہوئی کہ انہوں نے عذاب نازل ہونے سے پہلے توبہ کرلی تھی اور ان سے عذاب ہٹا لیا گیا۔
لَقَدْ كَانَ لِسَبَاٍ فِیْ مَسْكَنِهِمْ
اٰیَةٌۚ-جَنَّتٰنِ عَنْ یَّمِیْنٍ وَّ شِمَالٍ۬ؕ-كُلُوْا مِنْ رِّزْقِ رَبِّكُمْ
وَ اشْكُرُوْا لَهٗؕ-بَلْدَةٌ طَیِّبَةٌ وَّ رَبٌّ غَفُوْرٌ(۱۵) ( 22،
السبا: 15) ترجمہ:ترجمہ:بے شک قوم سبا کیلئے ان کی آبادی میں نشانی تھی
دو باغ تھے ایک دائیں طرف اور دوسرا بائیں طرف
اپنے رب کا رزق کھاؤ اور اس کا شکر ادا کرو پاکیزہ شہر ہے اور بخشنے والا رب۔
صراط
الجنان فی تفسیر القرآن:اس آیت میں ایک ایسی
قوم کا ذکر کیا گیا جنہیں اللہ پاک نے کثیر نعمتوں سے نوازا لیکن وہ لوگ اللہ پاک کی
فرمانبرداری کرنےکے بجائے اُس کی نافرمانی کرنے لگے تو اللہ پاک نے انہیں سیلاب کے
ذریعے ہلاک کر دیا۔
وَ ظَلَّلْنَا عَلَیْكُمُ الْغَمَامَ وَ
اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمُ الْمَنَّ وَ السَّلْوٰىؕ-كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا
رَزَقْنٰكُمْؕ-وَ مَا ظَلَمُوْنَا وَ لٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ
یَظْلِمُوْنَ(۵۷) (
1، البقرة: 57) ترجمہ: اور ہم نے
تمہارے اوپر بادل کو سایہ بنا دیا اور تمہارےاوپر من و سلویٰ اتارا (کہ) ہماری دی
ہوئی پا کیزہ چیزیں کھاؤ اور انہوں نے ہمارا کچھ نہ بگاڑ ا بلکہ اپنی جانوں پر ہی ظلم
کرتے رہے۔
قوم
ِعاد:حضرت ہود علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام کی
اولاد میں سے تھے اور اللہ نے قومِ عاد کی طرف نبی بنا کر بھیجا اور آپ قومِ عاد میں
رہنے واے تھے، اللہ پاک کے حکم سے آپ نے اس کو اسلام کی دعوت دی، اس قوم کے
سرداروں نے آپ کو بے وقوف اور جھوٹا کہا۔ آپ نے فرمایا:میں بے وقوف اور جھوٹا نہیں
بلکہ اللہ پاک کا نبی ہوں، اس کے پیغام تم تک پہنچاتا ہوں اور تمہارا خیر خواہ
ہوں۔پھر حضرت ہود علیہ السلام نے فرمایا: اے میری قوم !تم اللہ کی نعتیں یاد کرو
اس نے تمہیں عظیم قد کاٹھ اور طاقت دی تمہیں باغات جانور اور چشمے عطا کیے،پھر آپ
نے انہیں اللہ کے عذاب سے ڈرایا انہوں نے کہا کہ تمہارا نصیحت کرنا اور نہ کرنا
برابر ہے ہم پر کوئی عذاب نہیں آئے گا اور آپ علیہ السلام کی دعوت قبول نہ کی۔ پھر
اللہ پاک نے اس قوم کی نافرمانی کرنے کے سبب ان پر آندھی طوفان نازل کیا جس سے
حضرت ہود علیہ السلام اور جو لوگ ان پر ایمان لائے تھے ان کے علاوہ سب غرق ہوگئے۔
نوٹ:ان سب واقعات سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ عذاب کے
آثار نازل ہونے پر توبہ کرلی جائے تو عذاب ٹل جاتا ہے۔بے شک اللہ بخشنے والا
مہربان ہے اور ہمیں یہ بھی معلوم ہواکہ اللہ پاک کی نافرمانی کرنے سے نعمتیں چھن
جایا کرتی ہیں اور جو اللہ پاک کا حکم بجالاتے ہیں تو اللہ پاک انہیں مزید نعمتوں
سے نوازتا ہے اور بنی اسرائیل کے واقعے سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ اگر بنی اسرائیل
کھانا جمع کر کے اللہ پاک کی نافرمانی نہ کرتے تو کھانا کبھی خراب نہ ہوتا۔