سلامتی کے تین اصول ہیں. تقلیل کلام، تقلیل طعام، تقلیل
منام یعنی کم بولنا، کم کھانا اور کم سونا. بزرگوں نے فرمایا کہ اِن تین عادتوں کو
لازم پکڑو کیونکہ زیادہ بولنا، زیادہ کھانا، زیادہ سونا یہ عادتیں بہت ہی خراب ہیں
اور ان عادتوں کی وجہ سے انسان دین و دنیا میں ضرور نقصان اُٹھاتا ہے. ( جنتی زیور،
صفحہ: ١٢٥، مطبوعہ: مکتبۃ المدینہ)
تقلیل کلام:
زبان اگرچہ
بظاہر گوشت کی چھوٹی سی بوٹی ہے مگر تمام اعضاء میں سب سے زیادہ سر کشی و ہٹ دھرمی اور فساد و دشمنی
اسی میں ہے اور اس کے خطرے سے نجات صرف کم بولنے میں ہے. یہ اس لیے کہ زبان کا
بولنا انسانی اعضاء میں اثر کرتا ہے، اچھا بولنے پر عزت ملتی ہے اور بُرا بولنے پر
رُسوائی ہوتی ہے. اکثر لوگوں کی بُری عادتوں میں سے ایک بہت بُری عادت بہت زیادہ
بولنا اور فُضُول بکواس ہے جس کے متعلق بروزِ قیامت پوچھا جائے گا چُنانچہ منقول ہے
کہ ہر ہنسی مِزاح یا لَغو بات ( فُضُول بات) پر بندے کو ( میدانِ قیامت میں) پانچ
مقامات پر جِھڑَکنے اور وضاحت طلب کرنے کی خاطِر روکا جائے گا: (1) تُو نے بات کیوں
کی تھی؟ کیا اِس میں تیرا کوئی فائدہ تھا؟ (2) تُو نے جو بات کی تھی کیا اِس سے
تجھے کوئی نَفْع حاصل ہوا؟ (3) اگر تُو وہ بات نہ کرتا تو کیا تجھے کوئی نُقصان
اُٹھانا پڑتا؟ (4) تُو خاموش کیوں نہ رہا تاکہ انجام سے محفوظ رہتا؟ (5) تُو نے
اُس کی جگہ سُبْحٰنَ
اللّٰهِ وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ کہہ
کر اَجر و ثواب کیوں حاصل نہ کیا؟ ( قوت القلوب، جلد: ١، فصل: ٢٧، صفحہ: ٤٦٨،
مطبوعہ: مکتبۃ المدین
بس خلاصئہِ کلام یہ ہے:
فَلُزُوْمُ
السُّكُوْتِ خَيْرٌ مِنَ النُّطْقِ
وَ اِنْ
كُنْتَ فِيْ الكَلَامِ فَصِيْحًا
"پس خاموش رہنا بولنے سے بہتر ہے اگرچہ تُو بولنے
کا ماہِر ہے." ( منھاج العابدین، صفحہ: ١٤٣، مطبوعہ: مکتبۃ المدینہ)
اللّٰه زبان کا ہو عطا قفلِ مدینہ
میں کاش! زبان پر لو لگا قفلِ مدینہ
تقلیل طعام:
یہ حقیقت ہے کہ
ڈٹ کر کھانے سے اعضاء ڈھیلے پڑ جاتے ہیں اور بدن سُست ہو جاتا ہے جس کے سبب عبادت
کی لذّت نصیب نہیں ہوتی جیسا کہ حُجَّۃ الاِسلام حضرت سيدُنا اِمام محمد غزالی علیہ
رحمۃاللّٰهِ
الوالی فرماتے ہیں: " پیٹ بھر
کر کھانے سے عبادت کی حَلاوت و مِٹھاس ختم ہو جاتی ہے" ۔
امیرالمومنین حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللّٰه تعالٰی عنہ نے فرمایا: " میں جب سے ایمان لایا ہوں پیٹ
بھر کر نہیں کھایا تا کہ اپنے رب کی عبادت کی مٹھاس پاسکوں." ( منھاج العابدین،
صفحہ: ١٨٣، مطبوعہ: مکتبۃ المدینہ)
چند مِنٹ کی
لذّتوں کی خاطر دنیا و آخرت میں فائدہ پہنچانے والی عبادت کی مٹھاس کی پرواہ نہ
کرنا عقلمندی نہیں! شِکَم سیری یا لذیذ اشیاء کھانے کو جِی(دل) لَلْچَائے تو کم
کھانے کی فضیلتوں اور فوائد کو پیشِ نظر رکھا جائے چُنانچہ حُسنِ اخلاق کے پَیکر،
نبیوں کے تاجوَر، محبوبِ ربِّ اکبر عزّوجل صلّی اللّٰه تعالٰی علیہ و آلہ و سلم و کا فرمان عالیشان ہے: " بے شک اللّٰه عزوجل فِرشتوں کے سامنے اُس شخص پر فَخَر فرماتا ہے جو
دنیا میں کم کھاتا ہے. اللّٰه عزوجل فرماتا
ہے: میرے بندے کی طرف دیکھو! میں نے دنیا میں اسے کھانے پینے کے معاملے میں آزمائش
میں ڈالا تو اِس نے میرے لیے اِنہیں چھوڑ دیا. اے میرے فِرشتو! گواہ ہو جاؤ جو
بندہ (میری خاطر) ایک لُقمہ بھی چھوڑ دے گا، میں اُس کے بدلے اُسے جنّت کے دَرَجات
عطا فرماؤں گا. ( لُبابُ الاِحیاء[ اِحياءُالعُلُوم کا خلاصہ]، صفحہ: ٢٢٤، مطبوعہ:
مکتبۃ المدینہ)
مجھ کو بُھوک و پیاس سہنے کی خدا
توفیق دے
گُم تیری یادوں میں رہنے کی سدا
توفیق دے.
تقلیل منام:
سلامتی کے جو تین اُصُول بیان ہوئے اُن میں سے تیسرا اور اہم ترین اُصُول کم سونا
ہے اس کے بغیر سلامتی حاصل کرنے کے بارے میں سوچنا فُضُول ہے. صحت مند زندگی
گزارنے کے لیے اچھی اور مُناسب مقدار میں نیند بھی بہت ضروری ہے کیونکہ اِس کے
باعث انسان تازہ دم ہو جاتا ہے اور یہ بدن کو آرام و سُکُون پہنچانے کا بہترین ذریعہ
ہے لیکن اِس کا یہ ہر گِز مطلب نہیں کہ بندے کا جب بھی اور جتنا بھی دل چاہے سوتا
رہے. بعض لوگ تو سونے کے بہت زیادہ شوقین ہوتے ہیں کہ اُن کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ
زیادہ سونے کے نقصانات کتنے ہیں. آئیے اُن نقصانات میں سے چند ملاحظہ کرتے ہیں۔
(1) نیند کی کثرت سے غفلت پیدا ہوتی ہے. (2) بلغم کی کثرت
ہوتی ہے اور بلغم کی کثرت سے نِسیان[ بھولنے کی بیماری] پیدا ہوتی ہے. (3) معدہ
کمزور ہوتا ہے. (4) منہ بدبودار ہوتا ہے. (5) جسم کمزور ہوتا ہے. (6) نظر کمزور
ہوتی ہے. (7) زیادہ سونے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ زیادہ سونے والا شخص شیطان
کو لوگوں میں سے سب سے زیادہ پسند ہے. ( اللّٰه
والوں کی باتیں، جلد:٤،صفحہ :٨٣، مطبوعہ: مکتبۃ المدینہ)
یاد رکھئیے بِلا وجہ زیادہ سونا ایک ایسی بُری
عادت ہے جو زندگی کی بربادی کے ساتھ ساتھ اللّٰه
کی ناراضگی کا بھی سبب ہے( قوت القلوب،
جلد: ١،فصل: ٢٧، صفحہ: ٤٧٣، مطبوعہ: مکتبۃ المدینہ)
زیادہ سونے کی بیماری
فکر آخرت سے غافل کر دیتی ہے آئیے اس ضمن میں ایک دلچسپ حکایت ملاحظہ فرمائیے.
چنانچہ کسی نے ایک حکیم سے کہا کہ" میرے سامنے کسی ایسی شے کے اوصاف بیان کیجئے
جس کے استعمال سے میں دن کے وقت بھی سوتا رہوں؟" تو (حکیم) نے کہا: "اے
فُلاں! تو کتنا کم عقل ہے! تیری عمر کا آدھا حصہ تو پہلے ہی(رات کو غفلت میں) سوتے
ہوئے گزر رہا ہے جبکہ نیند تو موت کا نام ہے اور اب تو اپنی عمر کے( چار حصوں میں
سے) تین چوتھائی (تین حصوں) کو مزید نیند کی نظر کرنا چاہتا ہے اور صرف ایک ایک
چوتھائی (چار میں سے ایک) حصے کی زندگی؟ تو اس بندے نے پوچھا: وہ کیسے؟ اس حکیم نے
بتایا: مثلاً تیری عمر چالیس سال ہو تو آدھی عمر بیس سال ہوگی اور تو ہے کہ اسے بھی
مزید دس سال بنانا چاہتا ہے. ( قوت القلوب، جلد: ١، فصل: ٢٧، صفحہ: ٤٧٤، مطبوعہ:
اللّٰه
عزوجل ہمیں سلامتی کے ان اصولوں پر
عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الآمین صلی اللّٰه تعالٰی علیہ وسلم.
ان اصولوں کے مطابق زندگى گزرے گى تو بہت سے فوائد حاصل ہوں گے۔
تقلىل کلام:
جب ہم کم بولىں گے تو بہت سى آفات سے محفوظ رہىں گےنجات کس مىں ہے؟ پىارے آقا علیہ السلام نے فرماىا جو چپ رہا اس نے نجات پائى، (ترمذى ، کتابہ فقہ القىاس ۴/۴۲۵۔ حدىث
۲۵۵۹)
ہونٹ بند رہنے مىں ہى سلامتى ہے، امام
جلال الدىن عبدالرحمن فرماتے ہىں اىک شاعر نے کہا جب تک تم اپنے ہونٹوں کو بند ھ رکھو
گے سلامت رہو گے اور اگر انہىں کھولنا ہو تو اچھى بات کرو، اتنا زىادہ مت بولو جس
پر تمہىں بُرا بھلا کہا جائے۔
اىک شاعر نے کىا خوب کہا :
رات کى تارىکى مىں جب تم فارغ اور پرسکون ہو تو دو رکعت نفل کو غنىمت جانو،
اور جب تم فضول گفتگو کرنا چاہو تو اس کى جگہ کوئى تسبىح کرلىا کرو، بے شک بعض جگہ
خاموش رہنا بولنے سے بہتر ہوتا ہے اگرچہ تم بہت اچھا بولتے ہو۔(منہاج العابدىن
صفحہ ۲۱۱)
انسان کے بولنے سے پہلے لفظ اس کے غلام ہوتے ہىں اور جب انسا الفاظ بول
دے تو وہ الفاظ کا غلام بن جاتا ہے اس لىے ہمىں سوچ سمجھ کر
گفتگو کرنى چاہىے۔
تقلىل منام :
اگر ہم کم سوئىں گے تو ہمارا وقت بھى ضائع نہیں ہوگا اور جو زىادہ سوتا ہے اس
کى عمر کم ہوتى ہے۔ حضرت عائشہ صدىقہ رضى اللہ
تعالىٰ عنہا نے فرماىا حضور علیہ السلام رات کے ابتدائى حصہ مىں آرام فرماتے اور شب کے آخرى حصہ مىں عبادت کرتے
تھے۔(شرح شمائل ترمذى ص۲۰۵)
ہمىں بھى پىارے آقا علیہ السلام کى کم سونے کى سنت کو اپنانا
چاہىے۔
تقلىل طعام :
اگر ہم کھائىں گے تو مختلف امراض سے محفوظ ہوجائىں گے کىونکہ جو زىادہ کھاتا
ہے وہ اپنا معدہ تباہ کرلىتا ہے۔
صحتىاب کون ؟
پىارے آقا علیہ الصلوة والسلام نے فرماىا روزہ رکھو صحتىاب ہوجاؤ
گے۔(فىضان رمضان ص ۱۰۶)
روزہ کم کھانے اور بھوکا رہنے کا نام ہے۔
بھوک کے فوائد :
بھوک سے مراد بالکل کھانا بند کردىنا نہىں بلکہ کم کھانا ہے۔
ہالىنڈ کا پادرى اىلف گال کا کہنا ہے
مىں نے شوگر دل اور معدے کے مرىضوں کو مسلسل ۳۰ دن روزے رکھوائے نتىجتا ً، شوگر
والوں کى شوگر کنٹرول ہوگئى دل کے مرىضوں کى گھبراہٹ اور سانس کا پھولنا کم ہو ا اور معدے کے مرىضوں کو سب سے
زىادہ فائدہ ہوا اىک ماہر نفسىات سگمنڈ فرائىنڈ ک کا بىان ہے :روزے سے جسمانى کھچاؤ ذہنى ڈپرىشن
اور نفسىاتى امراض کا خاتمہ ہوتاہے۔(فىضانِ رمضان ص۹۴۴)
حضرت سہىل علیہ الرحمۃ نے فرماىا پىٹ کو خالى رکھنا بھلائى ہے۔(منہاج
العابدىن ص ۲۱۳)
اللہ پاک ہمارى بىمارىوں سے حفاطت فرمائے اور پىارے آقا علیہ السلام کا دىدار عطا فرمائے۔
امین بجاہ
النبى الامى صلى اللہ تعالىٰ علیہ وسلم
انسان کو زندگی گزارنے کیلیے کچھ حاجتیں پیش آتی ہیں کہ
انہیں پورا نہ کرے تو مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ ان میں یہ تین اہم ہیں۔ 1۔ بھوک
2۔ نیند 3۔ دوسروں سے تعلق۔ ان کو پورا کرنے کیلیے کھانا کھانا پڑتا ہے، سونا پڑتا
ہے اور بات چیت کرنی پڑتی ہے۔ لیکن صرف حاجت کو پورا کرنے کیلیے۔ مگر بہت سے لوگ پیٹ
بھر جانے کے باوجود اتنا کھا لیتے ہیں گویا گلے تک بھر دیتے ہیں۔ رات تو آرام کیلیے
ٹھیک تھی دن میں بستر چھوڑنے کا نام نہیں لیتے۔ دوسرے سے جتنی بات کرنی تھی کرلی
پھر بھی فضول باتیں کرکے اس کی جان کھا جاتے ہیں۔ تو ایسے لوگ پھر پریشانیوں کا
سامنا کرتے ہیں۔ اگر کھانا بالکل ہی ختم کردیں، تو کمزوری ہو سکتی ہے اور بھوک کی
وجہ سے موت بھی آسکتی ہے۔ نیند بالکل بھی نہ لیں تو طبیعت خراب ہو سکتی ہے اور بہت
ہی سخت صورت میں موت بھی آ سکتی ہے۔ دوسروں سے بات چیت ختم کردیں تب بھی مسائل کا
سامنا ہوگا۔ الغرض نہ تو ضرورت سے زیادہ کرسکتے ہیں اور نہ ہی ضرورت سے کم، بلکہ
درمیان میں رہنا چاہیے۔ اور یہی بات ہمیں دینِ اسلام سکھاتا ہے، چاہے دینی معاملے
ہوں یا دنیوی ہر جگہ اعتدال اپنانے کی تعلیم دی گئی ہے۔
اس لیے بزرگان دین کے بتائے ہوئے تین اصول پر عمل کرنا
چاہیے۔ 1۔ تقلیلِ طعام، یعنی بھوک سے کم کھائیں۔ 2۔ تقلیلِ کلام، یعنی جتنی ضرورت
ہو اتنی گفتگو کریں 3۔ تقلیلِ منام، جتنا آرام کرنے کی حاجت ہے اتنا سوئیں۔ان
باتوں پر عمل کرنا بہت فائدے مند ہے۔ دینی لحاظ سے بھی اور دنیوی لحاظ سے بھی۔
دین کیلیے فائدہ یوں ہے کہ اگر کوئی شخص بھوک سے کم
کھائے تو عبادت میں دل لگے گا۔ غریبوں کا دل میں احساس ہوگا اور انکی مدد کرنے میں
ترغیب ملے گی۔ اپنی زبان کو فضول کاموں میں استعمال نہیں کریں گے تو ذکر و درود میں
استعمال ہوگی۔ اور جتنا کم بولیں گے گناہوں بھری باتوں سے بچیں گے۔ نیند کم کرنے میں
عبادت کرنے اور علم حاصل کرنے کیلیے وقت زیادہ ملے گا۔
دنیا میں جو فوائد حاصل ہوسکتے ہیں وہ یہ ہیں۔ بھوک سے
کم کھانا بہت ساری بیماریوں کا دروازہ بند کردیتا ہے۔ جسم میں بھاری پن نہیں ہوتا۔
بد ہضمی بھی نہیں ہوتی اسکے علاوہ بہت سارے فوائد ہیں جن کو ذکر کرنا مشکل ہے۔ پھر
کم بولنے سے دوسروں کے دل میں رعب بیٹھ جاتا ہے۔ عالم ہو تو اسکا وقار اور دبدبہ
بڑھتا ہے جبکہ جاہل کیلیے پردہ ہوجاتا ہے۔ بڑی بڑی لڑائیاں جو غلط بات کہنے سے ہو
سکتی ہیں رک جائے گی۔ کم بولنے میں غلطی سے جو دوسروں کی دل آزاری ہوجاتی ہے وہ بھی
نہیں ہوگی۔ یوں لوگ اچھے سے پیش آئیں گے اور آپ خوش رہیں گے اور وہ بھی۔ یوں ہر
کوئی خوش خوش نظر آئے گا۔ نیند کو کم کرنے میں یہ فائدہ ہوگا کہ دوسروں کو دینے کے
لیے یا اپنے ہی ضروری کام کرنے کیلیے وقت مل جائے گا، جو ملتا نہیں ہے۔ ایک عربی
مقولہ ہے کہ جو بلندی چاہتا ہے وہ نیند کم کردے۔ تو کامیابی ترقی اور بلند ی حاصل کرنے میں نیند کم کرنے کا بڑا ہاتھ ہے۔
کھانے کو کم کرنے اور گفتگو کو کم کرنے کے فوائد اتنے ہیں
کہ ان پر کتابوں کی کتابیں لکھ دی گئی ہیں اور لکھی جارہی ہیں۔ تو ان بے شمار
فوائد کو حاصل کرنے کے لیے بزرگان دین کے بتائے ہوئے ان تین اصول پر عمل کرنا چاہیے۔
آج کا دور جو پر فتن کہلاتا ہے، اس میں تو اور بھی زیادہ ضرورت ہے کیونکہ فتنہ یعنی
آزمائش اور مصیبت ہمارے گناہوں اور بد عملوں کی وجہ سے بہت بڑھ گئی ہیں۔ تو اگر ان
سے بچنا ہے تو یہ تین باتیں اپنانی پڑیں گی۔
وہ قلىل جس کى انتہا قابل تعرىف ہو اس کثىر سے بہتر ہے ، جس کا انجام بُرا ہو،
زندگى مىں جو بھى کام ہوچاہے، دینی ہو ىا
دنىاوى، ہر چىز اپنى اوسط ىعنى( normal )حالت مىں ہى اچھى لگتى ہے، لىکن
بعض کام اىسے بھى ہىں جن مىں کمى کرنے کا حدىثوں مىں بھى تذکرہ ہے تىن چىزىں، ىہاں
بىان کى جاتى ہىں، بس جو شخص ان تىن کاموں مىں تقلىل کرے تو وہ سلامتى پائے گا۔ ان شا اللہ عزوجل ۔
تقلىل کلام:
تقلىل کلام سے مراد کم بولنا، اس
بارے مىں کچھ فرامىن بىان کىے جاتے ہىں۔
حضرت سىدنا عمر و بن عاص رضى اللہ تعالىٰ عنہ فرماتے ہىں :بات کرنا دوا کى طرح
ہے، جسے تو تھوڑى لے گا تو نفع دے گى اور گر بہت زىادہ لے گا تو تجھے مار ڈالے
گى۔(دىن و دنىا کى انوکھى باتىں، ص ۱۷۴)
اىسى خاموشى جس سے سلامتى ملے اس گفتگو سے بہتر ہے
جس سے شرمندگى اٹھانى پڑے۔(اىضا ص ۸۷)
فرمان مصطفى صلى اللہ تعالى علىہ وسلم ہے: تم پر نىکى کى بات کے علاوہ خاموشى لازم ہے کىونکہ ىہ شىطان کو تم سے
دور کردے گى ا ور دىنى معاملات مىں تمہارى مدد گار ہوگى۔(اىضا ص 173)
فرامین مصطفى صلى
اللہ تعالىٰ علىہ وسلم ہے:
جو شخص اللہ تعالىٰ اور آخرت پر اىمان رکھتا ہے وہ ا چھى بات کرے ىا خاموش رہے۔(اىضا ص ۱۷۰)
جو زىادہ بولتا ہے لوگ اس سے اکتا جاتے ہىں، اور
جو زىادہ سوال کرتا ہے وہ محروم رہتا ہے۔ (اىضا ص ۸۶)
جو خاموش رہتا ہے وہ سلامتى پاتا
ہے۔(اىضا ص ۹۱)
آدمى کا کلام اس کى فضىلت اور عقل
کا ترجمان ہوتا ہے لہذا اسے اچھى اور تھوڑى بات تک ہى محدود رکھو۔(اىضا ص ۸۵)
ہمىں چاہىے کہ ان فرامىن پر عمل کرتے ہوئے ضرورى
گفتگو کرىں۔علاوہ فضول و بے محل گفتگو سے اپنے آپ کو بچا کر رکھىں۔
تقلىل طعام :
تقلىل طعام سے مُراد کم کھانا ، اس
بارے مىں کچھ فرامىن بىان کىے جاتے ہىں:
حضور پُر نور صلى اللہ تعالىٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرماىا جو کم کھائے گااس
کا پىٹ صحىح اور دل صاف ہوجائے گا۔ اور جو زىادہ کھائے گا، اس کا پىٹ بىمار اور دل
سخت ہوجائے گا۔(اىضاص ۴۲۶)
مکى مدنى سلطان ، رحمتِ عالمىان صلى اللہ تعالىٰ علیہ
وسلم نے ارشاد فرماىا :زىادہ کھانے اور
پىنے سے دلوں کو مردہ نہ کرو کىونکہ دل کھىتى کى طرح ہے جب اسے زىادہ پانى ملے تو
وہ خراب ہوجاتى ہے۔ (اىضاً)
اىک اور رواىت مىں ہے کہ اللہ عزوجل نے پىٹ کى پاکدامنى سے افضل کسى
کو کوئى زىنت عطا نہىں کى ۔(اىضا ص ۴۲۶)
حضرت سىدنا على المرتضى کرم اللہ وجہہ
الکرىم فرماتے ہىں پىٹ بھر کر کھانا ذہانت و ہوشىارى کو ختم کرتا ہے۔(اىضا ص ۴۲۶)
معلوم ہوا کہ پىٹ بھر کھانا دل کے مردہ ہونے اور
غفلت کا باعث ہے۔ نىز پىٹ بھر کر کھانے سے عبادت مىں دل بھى نہىں لگتا۔ لہذا ہمىں
چاہىے کہ اپنے کھانے کے تىن حصے کرلىں۔ اىک حصہ کھانا،ا ىک حصہ پانى اور اىک حصہ
ہوا، اس طرح کھانے سے انشا اللہ عزوجل ہمارامعدہ درست رہے گا، اور عبادت مىں بھى دل لگے گا۔
تقلىل منام:
تقلىل منام ، ىعنى کم سونا، اس
بارے مىں کچھ فرامىن ىہاں بىان کىے جاتے
ہىں:
اىک بار تاجدار رسالت صلى اللہ
تعالىٰ علیہ وسلم نے کسى صحابى رضى اللہ
تعالىٰ عنہ سے ارشاد فرماىا۔ لا تکثر النوم فان کثرت النوم تدع صاحبہ فقیرا
یوم القیامۃ ۔ یعنی
رات کو زیادہ نہ سویا کرو کیونکہ شب بھر
سنے والا ( نفلی عبادت نہ کرنے کے باعث )
روزِ قیامت ( نیکیوں کے سلسلے میں ) فقیر
ہوگا ۔ (بىٹے کونصىحت ص ۲۲)
حضرت سىدنا لقمان رحمۃ اللہ تعالىٰ علیہ نے اپنے بىٹے سے ارشاد فرماىا :
اے نورِ نظر کہىں مرغ تجھ سے زىادہ عقلمند ثابت نہ ہو کہ وہ توصبح سوىرے اٹھ کر اذان دے اور تو (غفلت مىں) پڑا سوتا رہ
جائے۔(بىٹے کونصىحت ، ص ۲۴)
حضرت سىدنا عمر بن عبدالعزىز (رحمۃاللہ تعالىٰ علیہ ) اشعار پڑھا کرتے تھے:
نھارک یا مغرور سہووعفلۃ ولیلک نوم والردىٰ ى لک الامر
وتقثلىل
فىما سوف تکرہ غبہ کذالک فى الدنىا تعىیش البھائم
ترجمہ : ا ے دھوکے مىں مبتلا ہونے والے ! تىرا دن
خطاؤں اور غفلتوں مىں گزررہا ہے، اور رات سوتے ہوئے، تىرى بربادى ىقىنى ہے، جس مىں
تو مشغول ہے عنقرىب اس کے انجام پر پچھتائے گا ، چو پائے دنىا مىں اىسى ہى زندگى جىتے ہىں۔(اللہ والوں کى باتىں ص ۴۱۹)
امام بہاؤ الدىن محمد بن احمد رحمۃ اللہ تعالىٰ علیہ فرماتے ہىں :جو سوتا رہتا ہے وہ مراد کو نہىں پاتا۔ (دىن
و دنىا کى انوکھى باتىں ص ۸۷)
سات سے آٹھ گھنٹے سونا ہمارى صحت
کے لىے ضرورى ہے ورنہ کم سونے کى صورت مىں دىگر بىمار ىاں بھى ہوسکتى
ہىں، لىکن اس سے زىادہ سونا سستى و غفلت کا باعث ہے۔
اللہ پاک ہمىں سلامتى کے ان تىن اصولوں
پر عمل کرنے کى توفىق عطا فرمائے، آمىن
کم
بولنے سے اىمان، کم کھانے سے معدہ اور کم سونے سے عقل سلامت رہتى ہے۔
تقلىلِ کلام: ىعنى صرف اچھى بات کہنا وہ بھى ضرورتا ًآ پ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرماىا ۔ جو اللہ اور
آخرت کے دن پر اىمان رکھتا ہے وہ اچھى بات کہے ىا خاموش رہے۔([1]) کم بولنے سے
انسان کى عقل کامل ہوتى ہے جو جتنا عقل مند ہوتا ہے وہ اتنا کم بولتا ہے کم بولنا
عبادت کى چابى ہے کم بولنے سے اىمان کى حلاوت نصىب ہوتى ہے، فضول گفتگو سے بچت ہوتی
ہے، عزت اور دىن سلامت رہتے ہىں، دوسروں کى بات اچھے سے سمجھ سکتے ہىں، عزت و وقار
اور علم مىں اضافہ ہوتا ہے، زبان کے فتنوں اور
جہنم کے عذاب سے حفاظت ہوتى ہے کىونکہ اکثر لوگ زبان کى بے احتىاطى کى وجہ
سے جہنم مىں داخل ہوں گے، سىد المبلغىن صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان
ہے:لوگوں کو ان کى زبان کى کھىتى کى وجہ
سے چہروں کے بل جہنم مىں ڈالا جائے گا۔([2]) اس لئے پہلے تولو پھر بولو ، کىونکہ
کمان کے تىر کى طرح منہ سے نکلے ہوئے الفاظ بھى واپس نہىں آسکتے۔
تقلىلِ طعام:ىعنى بھوک سے
کم کھانا، کم کھانے سے انسان صحت مند رہتا ہے، بىمارىوں سے حفاظت رہتى ہے،
غرىبوں کى بھوک کا احسا س ہوتا ہے ، اللہ کى راہ مىں خرچ کرنے کا جذبہ نصىب ہوتا ہے دل نرم ہوتا ہے، نىند
مىں کمى آتى ہے سىنہ نور سے معمور کردىا جاتا ہے، نفس کى مخالفت پر قوت ملتى ہے،
عبادت پر قوّت ملتى ہے عبادت کى توبنىاد ہى کم کھانا ہے، اللہ کا
قرب نصىب ہوتا ہے، سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کا فرمان ہے: اللہپاک کو تم مىں سب سے زىادہ وہ بندہ پسند ہے جو کم کھانے والا
ہے۔([3]) زندہ رہنے کیلئے کھائىں، کھانے کے لئے زندہ نہ رہىں،
زىادہ کھانے کا نقصان بىان کرتے ہوئے حضرت سفىان ثورى
رحمۃ اللہ علىہ نے فرماىا: دل
کى سختى کے دو
اسباب
ہىں:(1)پىٹ بھر کر کھانا۔(2)زىادہ بولنا([4])
تقلىلِ منام: کم سونے سے وقت مىں برکت ہوتى ہے، سُستى دور ہوتى ہے، طبىعت
خوشگوار ہوتى ہے، عقل اور حافظہ مىں اضافہ ہوتا ہے، دماغى امراض سے حفاظت رہتى ہے،
صحت نصىب ہوتى ہے، عبادت کا شوق بڑھتا ہے، عبادت کى لذّت نصىب ہوتى ہے۔ حضرت
سىدنا ابراہىم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہىں: مجھے کوہِ لبنان کے
اولىائے کرام نے نصىحت فرمائى کہ(1)جو پىٹ بھر کر کھائے گا اسے عبادت کى لذّت نصىب نہىں ہوگى (2)جو زىادہ سوئے گا اس کى عمر مىں برکت
نہىں ہوگى (3)زىادہ سونے سے انسان کند ذہن ہوتا ہے اور عقل زائل ہوتى ہے کىونکہ جو سوتا ہے وہ کھوتا ہے۔([5])
کم
بولنا، کم کھانا، کم سونا اللہ کے
دوستوں کى نشانى ہے، زىادہ بولنا زىادہ
کھانا زىادہ سونا، شىطان کے دوستوں کى
نشانى ہے۔
زىادہ
بولنا، زىادہ کھانا، زىادہ سونا کسى بھى طرح فائدہ مند نہىں ہے، زىادتى کسى بھى
چىز کى ہونقصان کرتى ہے، لہٰذا اس سے پرہىز کرىں سىد المعصومىن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرماىا: آدمى کے حسنِ اسلام مىں سے ہے کہ وہ بے فائدہ چىزوں کو چھوڑ دے۔([6])
مىں
کم بولوں، کم سوؤں، کم کھاؤں ىارب |
تىرى بندگى کا مزہ پاؤں ىارب |
بنتِ محمد نواز
جامعۃ المدىنہ طىبہ کالونى،(شادباغ لاہور )
([1])مسلم، ص44،حدىث:77(2)ابنِ ماجہ، ص422، حدىث:3973(3)جامع الصغىر، ص20، حدىث:221(4)ییٹ
کا قفلِ مدینہ، ص678(5)منہاج
العابدىن، ص107(6)سنن ابن ماجہ، ص 422، حدىث: 3976
تقلىل کلام:
حضرت سلمان فارسى رضى اللہ عنہ نے فرماىا:
اللہ عزوجل کى نافرمانى مىں زىادہ کلام کرنے والا بروز قىامت سب سے بڑا گناہ گار ہوگا۔(
اللہو الوں کى باتىں جلد۱)
اس سے معلوم ہوا کہ زىادہ کلام کرنا کتنا نقصان کا سبب ہے، انسان کو چاہىے کہ
وہ صر ف ضرورت کے تحت ہی کلام کرے ورنہ وہ
خاموش رہے۔
حدىث پاک:
حضرت جابر بن سمرہ رضى اللہ تعالىٰ عنہ فرماتے ہىں کہ رسول اللہ صلى اللہ تعالىٰ علیہ وسلم دراز خاموشی والے تھے۔(مراة المناجىح جلد ۸)
اس سے معلوم ہوا کہ ہمارے آقا صلى اللہ
تعالىٰ علیہ وسلم بھى کم کلام فرماتے تھے اور کم
بولنے سے کئى فائدے ملتے ہىں۔ اىک رعب پىدا ہوتا ہے، دوسرا سامنے والے کى بات اچھى
طرح سمجھ آجاتى ہے۔
تقلىلِ طعام:
حدىث پاک: نورِ مجسم رسول اکرم صلى اللہ
تعالىٰ علیہ وسلم نے فرماىا: جو لوگ دنىا مىں پىٹ
بھر کر کھاتے ہىں وہ قىامت مىں زىادہ بھوکے ہوں گے۔(حلىۃ الاولىا ء جلد۱)
اس سے معلوم ہوا کہ ہمىں کم کھانا کھانا چاہىے کىونکہ پىٹ بھر کر کھانے سے سستى اور کاہلى پىدا ہوجاتى ہے نمازوں اور دىگر عبادات مىں بھى کمزور
آتى ہے۔
عمل مىں سستى کا اىک سبب :
حضرت ابودردا رضى اللہ عنہ فرماتے ہىں کہ جو کھانے سے پہلے کى نعمت کے علاوہ اللہ تعالىٰ کى نعمتوں کو نہىں پہچانتا اس کا عمل تھوڑا ہوجاتا ہے اور اسے تکالىف کا
سامنا رہتا ہے۔(حلىۃ الاولىا جلد ۱)
تقلىل منام:
سونا بھى اللہ تعالىٰ کى نعمت ہے سونے سے دماغ فرىش ہوتا ہے ،مگر چونکہ ىہ رمضان المبارک کا مہىنہ
ہے تو اس مىں کم سے کم سوئیں اور زىادہ سے
زىادہ عبادت کرىں، انسان کو عام طور پر بھى کم سونا چاہىے کىونکہ زىادہ سونے سے
بہت سى بىمارىاں پىدا ہوتى ہىں۔
مثلا سردرد، سستى اور سب سے بڑا آپ کا دماغ کمزور ہوجاتا ہے ،ہوسکے تو اپنا جدول
بنائىں اور اس مىں کم سے کم سونا اور زىادہ عبادت کا معمول بنائىں، اللہ عزوجل ہمىں رمضان المبارک کى برکتىں سمىٹنے کى توفىق عطا فرمائے۔
امین ثم امىن یارب العالمین
دنیا و آخرت میں سلامتی ایک بڑی
نعمت ہے ، کہ اس نعمت میں بہت سی نعمتیں ہیں۔ جیسے دنیا
میں مصیبتوں ، پریشانیوں اور گناہوں سے حفاظت ، ایمان کی سلامتی ، قبر و حشر میں
کامیابی وغیرہ۔ اس نعمت کا ہر مسلمان طالب ہے ، لیکن اس کو پانے کے لئے اسلام نے
جو اصول بتائے ہیں ان کو اپنانے والے کم ہیں۔ حالانکہ یہ سلامتی کو پانے کا بہتریں
ذریعہ ہیں۔
یہاں
سلامتی کے تین بڑے اصول بیان کئے جاتے ہیں:
١ ۔تقلیل
کلام
٢ ۔تقلیل
طعام
٣ ۔تقلیل
منام
یہ ایسے اصول
ہیں کہ اسلام میں تو پسندیدہ ہیں ہی ، غیر مسلموں نے بھی ان کو پسند کیا ہے۔
تقلیل
کلام:
کم بولنا سلامتی کا بہترین اصول ہے ، پیارے آقا صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا: جو سلامت رہنا چاہتا ہے اس پر
خاموشی لازم ہے۔( مسند ابی یعلی ، مسند انس بن مالک ، ٢٧١/٣ ، حدیث: ٣٥٩٥ ، رسالہ
ایک چپ سو سکھ صفحہ ١ )
کم
بولنے کے بے شمار فوائد ہیں:
کم بولنے میں
عزت و وقار ، دین و اخلاق ، اعمال صالحہ اور وقت کی حفاظت ہے ، یہ حافظے کی مظبوطی
اور حکمت و دانائی ملنے کا سبب ہے ، دنیاوی ، اخروی آفات، گناہ اور فتنہ و فساد سے
بھی حفاظت ہے ، نیز دل کی سختی ، دین میں سستی اور رزق میں تنگی سے بھی حفاظت ہے۔
( تنبیہ الغافلین ص 64 65 66 ، خاموش شہزادہ ملتقطا۔ )
ایک
بزرگ فرماتے ہیں :
خاموشی عبادت ہے بغیر محنت کے ،ہیبت ہے بغیر سلطنت کے ،قلعہ ہے بغیر دیوار کے ،
فتحیابی ہے
بغیر ہتھیار کے ،آرام کراما کاتبین کا ،قلعہ ہے مؤمن کا ،شیوہ ہے عاجزوں کا ،دبدبہ ہے حاکموں کا
،مخزن ہے حکمتوں کا ،جواب ہے جاہلوں کا
،(شاہراہ زندگی میں کامیابی کا سفر صفحہ 75 )
تقلیل
طعام:
کم کھانا بھی
سلامتی کا بہت اچھا اصول ہے۔ اس میں بے
شمار فوائد ہیں اور بہت سے امراض سے حفاظت ہے۔ بروز قیامت کوئی عمل ،ضرورت سے
زیادہ کھانے کو ترک کرنے سے افضل نہ ہوگا کہ یہ سنت ہے۔( احیاء العلوم ج 3 ص 91) (
پیٹ کا قفل مدینہ ص 39)
کم کھانے میں
دل کی سختی اور اعضاء میں فتنہ سے حفاظت ہے ، علم و فہم کو برقرار رکھنے ، عبادت
پر استقامت ملنے میں معاون ہے ، دنیا میں بوجھ ، موت کے وقت بو ، اور آخرت میں
پریشانی سے حفاظت ہے ، آنکھ ، زبان ، گلے ، سینے ، پیٹ ، پھیپڑے ، جگر ، اور پتے
کے امراض ، دماغی ، نفسیاتی امراض ، شوگر ، BP
، ڈپریشن ، فالج ، لقوہ وغیرہ امراض سے بھی حفاظت ہے۔ (گھریلو علاج ص 77 ، پیٹ کا
قفل مدینہ ، تنبیہ الغافلین ص 889 ملتقطا۔
)
لہذا ہمیں
چاہئے کہ حدیث کے مطابق بھوک کے تین حصے کرلیں۔ غزا ، پانی ، اور ایک حصہ ہوا کا۔ إن شاءالله بے شمار فوائد حاصل ہوں گے اور %80
امراض سے حفاظت ہو گی۔
تقلیل
منام:
کم سونا بھی
سلامتی کا اہم ترین اصول ہے۔ لیکن مراد یہ ہے کہ ضرورت سے زیادہ نہ سوئے۔ کیونکہ
نیند کی مخصوص مقدار جو درکار ہے اس سے کم سونا بھی نقصان دہ ہے۔ تحقیق کے مطابق
15 سے 40 سال والوں کے لئے 7 سے 8 گھنٹے جبکہ 40 سے زائد عمر والوں کے لئے 6 گھنٹے
کی نیند ضروری ہے۔ ( ماہنامہ فیضان مدینہ شمارہ 2 ، فروری2017 ، ص 18 )
جبکہ اس
مقدار سے زیادہ سونا نقصان دہ ہے۔ روایت ہے کہ بارگاہ رسالت صلی
اللہ علیہ وسلم میں عرض کی گئی: کیا جنتیوں کو نیند آئے گی؟ ارشاد فرمایا: نیند موت کی بہن ہے اور
جنتیوں کو موت نہیں آئے گی۔(مشکوة المصابیح ، 336/2 ، حدیث 5654 )
اس حدیث میں
نیند کی کثرت کی مذمت کی طرف اشارہ ہے ، کیونکہ اس میں دنیاوی ، اخروی نقصانات بہت
ہیں۔ (ماہنامہ فیضان مدینہ شمارہ 2 ، فروری 2017 ، ص 18 19 )
جبکہ
کم سونے کے بے شمار فوائد ہیں:
غفلت دور
ہوتی ہے ، بلغم کی کثرت ، معدہ کی کمزوری اور منہ میں بدبو سے حفاظت ہوتی ہے ، نظر
، جسم اور حافظے کی کمزوری سے بچت ، اور عمر میں برکت ہوتی ہے۔ ( ماہنامہ فیضان
مدینہ شمارہ 2 ، فروری 2017 ، ص 19،پیٹ کا قفل مدینہ ص 25 ، حافظہ کیسے مظبوط ہو ،
ص 176 ملتقطا )۔
اللہ پاک
ہمیں ان تینوں اصولوں پر عمل کرنے کی سعادت نصیب فرمائے ۔ آمین
آج ہر شخص امن و سکون اور سلامتى والى زندگى چاہتا
ہے لىکن انہىں اس کے حاصل کرنے کے طرىقے معلوم ہى نہىں ہوتے ، سلامتى حاصل کرنے کے
بہت سے طرىقے ہىں اس مىں سے تىن اصول ىہ ہىں۔ ۱۔ تقلىل طعام۔ (۲) تقلىل کلام۔(۳)
تقلىل منام
اب مىں آپ کو اس کے
فوائدے کے بارے مىں بتاتا ہوں۔
۱۔ تقلىل طعام:
تقلىل طعام کے معنى
ہىں کم کھانا ،اس سے مراد ضرورت سے زىادہ نہ کھانا اور دعوت سلامى کى اصطلاح مىں
پىٹ کا قفلِ مدىنہ کہتے ہىں، امىر اہلسنت نے اس موضوع پر کتاب ’’ پىٹ کا قفلِ
مدىنہ‘‘ لکھی جو ہمىں فىضانِ سنت سے جلد نمبر۱ مىں مل سکتی ہے، اور دىکھا گىا ہے
جو زىادہ کھاتا ہے وہ موٹاپے ، شوگر ، کولسٹرول اور دل کى خطرناک امراض مىں مبتلا
ہوجاتا ہے اور جو اس اصول پر عمل کرتا ہے وہ ان امراض سے محفوظ ہوتا ہے۔ زىادہ
کھانے سے عبادت صحىح طرىقے سے ادا نہىں کىاجاسکتى اور بوجھل پن پىدا ہوتا اور کم کھانے سے ان تمام باتوں سے بچا جا سکتا ہے مختصر تقلیل ِطعام کے اصول پر عمل کرکے ہمیں دنىا
اور آخرت کى بھلائىاں مل سکتى ہىں۔
۲۔ تقلىل کلام:
تقلىل کلام کے معنى
ہىں کم گفتگو کرنا، امىر اہلسنت نے ہمىں مدنى انعام دىا ہے کہ مہىنے مىں اىک مرتبہ خاموش شہزادہ پڑھ ىا سن لىں ہمىں اس
اصول پر عمل کرنے کا ذہن بنانا چاہیے ، کاروبارى لوگ اور مبلغىن کے لىے ىہ اصول
بہت ضرورى ہے کہ اگر انہوں نے ذراہ برابر غلط گفتگو کى تو ان سے دور ہوں گے جس
سے کاروبار اور دىن کى خدمت مىں بہت نقصان ہوتا ہے۔
۳۔ تقلىل منام:
تقلىل منام کے معنى
ہىں کم سونا، لىکن اتنا کم سونا بھى نہىں کہ کام کرنے کے قابل ہى نہ رہ سکىں ،
ىہاں پر کم سونے سے مراد جىسا کہ آج کل بہت سے لوگ پورى رات اور پورا دن
سوتے رہتے ہىں جس سے وہ کام نہىں کرتے اور گھر والے بھى پر ىشان ہوتے ہىں جب کہ کم
سونے والے اپنے بہت سے کام کرتے ہىں ، جىسے گھر کا، آفس کا، عبادت اور دىن کے لىے بھى بہت سے کام کرلىتے ہىں۔