سلامتی کے تین اصول ہیں. تقلیل کلام، تقلیل طعام، تقلیل
منام یعنی کم بولنا، کم کھانا اور کم سونا. بزرگوں نے فرمایا کہ اِن تین عادتوں کو
لازم پکڑو کیونکہ زیادہ بولنا، زیادہ کھانا، زیادہ سونا یہ عادتیں بہت ہی خراب ہیں
اور ان عادتوں کی وجہ سے انسان دین و دنیا میں ضرور نقصان اُٹھاتا ہے. ( جنتی زیور،
صفحہ: ١٢٥، مطبوعہ: مکتبۃ المدینہ)
تقلیل کلام:
زبان اگرچہ
بظاہر گوشت کی چھوٹی سی بوٹی ہے مگر تمام اعضاء میں سب سے زیادہ سر کشی و ہٹ دھرمی اور فساد و دشمنی
اسی میں ہے اور اس کے خطرے سے نجات صرف کم بولنے میں ہے. یہ اس لیے کہ زبان کا
بولنا انسانی اعضاء میں اثر کرتا ہے، اچھا بولنے پر عزت ملتی ہے اور بُرا بولنے پر
رُسوائی ہوتی ہے. اکثر لوگوں کی بُری عادتوں میں سے ایک بہت بُری عادت بہت زیادہ
بولنا اور فُضُول بکواس ہے جس کے متعلق بروزِ قیامت پوچھا جائے گا چُنانچہ منقول ہے
کہ ہر ہنسی مِزاح یا لَغو بات ( فُضُول بات) پر بندے کو ( میدانِ قیامت میں) پانچ
مقامات پر جِھڑَکنے اور وضاحت طلب کرنے کی خاطِر روکا جائے گا: (1) تُو نے بات کیوں
کی تھی؟ کیا اِس میں تیرا کوئی فائدہ تھا؟ (2) تُو نے جو بات کی تھی کیا اِس سے
تجھے کوئی نَفْع حاصل ہوا؟ (3) اگر تُو وہ بات نہ کرتا تو کیا تجھے کوئی نُقصان
اُٹھانا پڑتا؟ (4) تُو خاموش کیوں نہ رہا تاکہ انجام سے محفوظ رہتا؟ (5) تُو نے
اُس کی جگہ سُبْحٰنَ
اللّٰهِ وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ کہہ
کر اَجر و ثواب کیوں حاصل نہ کیا؟ ( قوت القلوب، جلد: ١، فصل: ٢٧، صفحہ: ٤٦٨،
مطبوعہ: مکتبۃ المدین
بس خلاصئہِ کلام یہ ہے:
فَلُزُوْمُ
السُّكُوْتِ خَيْرٌ مِنَ النُّطْقِ
وَ اِنْ
كُنْتَ فِيْ الكَلَامِ فَصِيْحًا
"پس خاموش رہنا بولنے سے بہتر ہے اگرچہ تُو بولنے
کا ماہِر ہے." ( منھاج العابدین، صفحہ: ١٤٣، مطبوعہ: مکتبۃ المدینہ)
اللّٰه زبان کا ہو عطا قفلِ مدینہ
میں کاش! زبان پر لو لگا قفلِ مدینہ
تقلیل طعام:
یہ حقیقت ہے کہ
ڈٹ کر کھانے سے اعضاء ڈھیلے پڑ جاتے ہیں اور بدن سُست ہو جاتا ہے جس کے سبب عبادت
کی لذّت نصیب نہیں ہوتی جیسا کہ حُجَّۃ الاِسلام حضرت سيدُنا اِمام محمد غزالی علیہ
رحمۃاللّٰهِ
الوالی فرماتے ہیں: " پیٹ بھر
کر کھانے سے عبادت کی حَلاوت و مِٹھاس ختم ہو جاتی ہے" ۔
امیرالمومنین حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللّٰه تعالٰی عنہ نے فرمایا: " میں جب سے ایمان لایا ہوں پیٹ
بھر کر نہیں کھایا تا کہ اپنے رب کی عبادت کی مٹھاس پاسکوں." ( منھاج العابدین،
صفحہ: ١٨٣، مطبوعہ: مکتبۃ المدینہ)
چند مِنٹ کی
لذّتوں کی خاطر دنیا و آخرت میں فائدہ پہنچانے والی عبادت کی مٹھاس کی پرواہ نہ
کرنا عقلمندی نہیں! شِکَم سیری یا لذیذ اشیاء کھانے کو جِی(دل) لَلْچَائے تو کم
کھانے کی فضیلتوں اور فوائد کو پیشِ نظر رکھا جائے چُنانچہ حُسنِ اخلاق کے پَیکر،
نبیوں کے تاجوَر، محبوبِ ربِّ اکبر عزّوجل صلّی اللّٰه تعالٰی علیہ و آلہ و سلم و کا فرمان عالیشان ہے: " بے شک اللّٰه عزوجل فِرشتوں کے سامنے اُس شخص پر فَخَر فرماتا ہے جو
دنیا میں کم کھاتا ہے. اللّٰه عزوجل فرماتا
ہے: میرے بندے کی طرف دیکھو! میں نے دنیا میں اسے کھانے پینے کے معاملے میں آزمائش
میں ڈالا تو اِس نے میرے لیے اِنہیں چھوڑ دیا. اے میرے فِرشتو! گواہ ہو جاؤ جو
بندہ (میری خاطر) ایک لُقمہ بھی چھوڑ دے گا، میں اُس کے بدلے اُسے جنّت کے دَرَجات
عطا فرماؤں گا. ( لُبابُ الاِحیاء[ اِحياءُالعُلُوم کا خلاصہ]، صفحہ: ٢٢٤، مطبوعہ:
مکتبۃ المدینہ)
مجھ کو بُھوک و پیاس سہنے کی خدا
توفیق دے
گُم تیری یادوں میں رہنے کی سدا
توفیق دے.
تقلیل منام:
سلامتی کے جو تین اُصُول بیان ہوئے اُن میں سے تیسرا اور اہم ترین اُصُول کم سونا
ہے اس کے بغیر سلامتی حاصل کرنے کے بارے میں سوچنا فُضُول ہے. صحت مند زندگی
گزارنے کے لیے اچھی اور مُناسب مقدار میں نیند بھی بہت ضروری ہے کیونکہ اِس کے
باعث انسان تازہ دم ہو جاتا ہے اور یہ بدن کو آرام و سُکُون پہنچانے کا بہترین ذریعہ
ہے لیکن اِس کا یہ ہر گِز مطلب نہیں کہ بندے کا جب بھی اور جتنا بھی دل چاہے سوتا
رہے. بعض لوگ تو سونے کے بہت زیادہ شوقین ہوتے ہیں کہ اُن کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ
زیادہ سونے کے نقصانات کتنے ہیں. آئیے اُن نقصانات میں سے چند ملاحظہ کرتے ہیں۔
(1) نیند کی کثرت سے غفلت پیدا ہوتی ہے. (2) بلغم کی کثرت
ہوتی ہے اور بلغم کی کثرت سے نِسیان[ بھولنے کی بیماری] پیدا ہوتی ہے. (3) معدہ
کمزور ہوتا ہے. (4) منہ بدبودار ہوتا ہے. (5) جسم کمزور ہوتا ہے. (6) نظر کمزور
ہوتی ہے. (7) زیادہ سونے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ زیادہ سونے والا شخص شیطان
کو لوگوں میں سے سب سے زیادہ پسند ہے. ( اللّٰه
والوں کی باتیں، جلد:٤،صفحہ :٨٣، مطبوعہ: مکتبۃ المدینہ)
یاد رکھئیے بِلا وجہ زیادہ سونا ایک ایسی بُری
عادت ہے جو زندگی کی بربادی کے ساتھ ساتھ اللّٰه
کی ناراضگی کا بھی سبب ہے( قوت القلوب،
جلد: ١،فصل: ٢٧، صفحہ: ٤٧٣، مطبوعہ: مکتبۃ المدینہ)
زیادہ سونے کی بیماری
فکر آخرت سے غافل کر دیتی ہے آئیے اس ضمن میں ایک دلچسپ حکایت ملاحظہ فرمائیے.
چنانچہ کسی نے ایک حکیم سے کہا کہ" میرے سامنے کسی ایسی شے کے اوصاف بیان کیجئے
جس کے استعمال سے میں دن کے وقت بھی سوتا رہوں؟" تو (حکیم) نے کہا: "اے
فُلاں! تو کتنا کم عقل ہے! تیری عمر کا آدھا حصہ تو پہلے ہی(رات کو غفلت میں) سوتے
ہوئے گزر رہا ہے جبکہ نیند تو موت کا نام ہے اور اب تو اپنی عمر کے( چار حصوں میں
سے) تین چوتھائی (تین حصوں) کو مزید نیند کی نظر کرنا چاہتا ہے اور صرف ایک ایک
چوتھائی (چار میں سے ایک) حصے کی زندگی؟ تو اس بندے نے پوچھا: وہ کیسے؟ اس حکیم نے
بتایا: مثلاً تیری عمر چالیس سال ہو تو آدھی عمر بیس سال ہوگی اور تو ہے کہ اسے بھی
مزید دس سال بنانا چاہتا ہے. ( قوت القلوب، جلد: ١، فصل: ٢٧، صفحہ: ٤٧٤، مطبوعہ:
اللّٰه
عزوجل ہمیں سلامتی کے ان اصولوں پر
عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الآمین صلی اللّٰه تعالٰی علیہ وسلم.