حضور ﷺ کی
اپنی نواسیوں سے محبت از بنتِ از بنتِ محمد انور،جھمرہ سٹی فیصل آباد

حضور نبی رحمت ﷺ کے دریائے رحمت سے بڑوں کے ساتھ ساتھ بچوں
نے بھی بہت فیض لیا۔آپ بچوں پر بہت شفقت فرماتے،انہیں اپنے پاس بلاتے،گود میں
اٹھاتے،سر پر ہاتھ پھیرتے،دعائيں دیتے،دینی، دنیوی اور اخلاقی تربیت فرماتے،سواری
پر ساتھ سوار فرماتے اور والدین کو بھی بچوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے ، اچھی تربیت
کرنے اور ان کی آخرت سنوارنے کی تعلیمات دیتے۔
بچے اللہ پاک کی نعمت ہوتے ہیں۔ان سے پیار اور الفت بھرا
برتاؤ (Behave) ہی کرنا چاہیے۔بچے
اپنے ہوں یا دوسروں کے بچے بچے ہی ہوتے ہیں۔ ان سے ہمیشہ ، مہربانی سے پیش آنا
چاہیے۔جو بچوں سے شفقت سے پیش آتے ہیں اللہ پاک انہیں جنت میں گھر سے نوازے گا۔ چنانچہ
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں،رَسُولُ
الله ﷺ نے ار شاد فرمایا:بے شک جنت میں ایک گھر ہے جسے دارُ الفرح کہا جاتا ہے۔اس میں وہی لوگ داخل ہوں گے جو
بچوں کو خوش کرتے ہیں۔
(جامع صغیر،ص 140 ،حدیث:2321)
بچوں کی حضورِ اکرم ﷺ کی نگاہ میں کیا حیثیت ہے اس کا
اندازہ اس مبارک فرمان سے لگا يئے کہ مسلمانوں کے بچے جنت کی چڑیاں ہیں
۔ ( مسلم،ص 1086 ،حدیث:6701)
حضرت انس رضی اللہ
عنہ فرماتے ہیں: نبی کریم ﷺ سب سے زیادہ بچوں پر مہربان تھے۔(مسلم،ص 974،حدیث:6026)
آئیے!حضور ﷺ کی اپنی نواسیوں سے محبت کے بارے میں سنتی ہیں۔چنانچہ
حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی بیٹی کا نام امامہ تھا۔حضور ﷺ کو اپنی سب سے بڑی نواسی حضرت امامہ
رضی اللہ عنہا سے بڑی محبت تھی۔ چنانچہ
سرکار ﷺ کی اپنی نواسی سے شفقت:حضرت ابو قتادہ رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ پیارے آقا ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے
تو آپ(اپنی نواسی)امامہ بنتِ ابو العاص رضی اللہ عنہا کو اپنے کندھے پر اٹھائے ہوئے
تھے۔پھر آپ نماز پڑھانے لگے تو رکوع میں جاتے وقت انہیں اتار دیتے اور جب کھڑے
ہوتے تو انہیں اٹھا لیتے۔( بخاری، 4/100، حدیث:5996)
حکیمُ الاُمّت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیثِ
پاک کے تحت فرماتے ہیں:یہ عمل حضور ﷺ کی خصوصیت میں سے ہے، ہمارے لیے مفسدِ نماز
ہے کیونکہ نماز میں بچی کو اتار نا چڑھانا اور روکنا عملِ کثیر سے خالی نہیں۔ ( مراۃ
المناجیح،2 /133)
حضرت امامہ رضی اللہ عنہا سے حضور ﷺ کو بڑی محبت تھی۔آپ ان کو اپنے دوش مبارک پر بٹھا کر مسجد
نبوی میں تشریف لے جاتے تھے۔
روایت ہے کہ ایک مرتبہ حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے آپ کی خدمت
میں بطور ہدیہ ایک حلہ بھیجا جس کے ساتھ سونے کی ایک انگوٹھی بھی تھی جس کا نگینہ
حبشی تھا۔حضور ﷺ نے یہ انگوٹھی حضرت امامہ رضی اللہ عنہا کو عطا فرمائی۔(سیرتِ مصطفیٰ،
ص 693)
سونے کا
خوبصورت ہار:اسی طرح ایک مرتبہ کسی نے حضور اکرم ﷺ کو ایک بہت ہی
خوبصورت سونے کا ہار تحفے میں پیش کیا،جس کی خوبصورتی دیکھ کر تمام ازواجِ
مطہرات رضی اللہ عنہن حیران رہ گئیں۔حضور ﷺ
نے اپنی پاکیزہ بیویوں سے فرمایا کہ میں یہ ہار اس کو دوں گا جو میرے گھر والوں میں مجھے سب سے زیادہ پیاری ہے۔تمام
اَزواجِ مُطَہرات رضی اللہ عنہن نے یہ خیال کر لیا کہ یقیناً یہ ہار اب حضرت بی بی
عائشہ رضی اللہ عنہا کو عطا فرمائیں گے مگر حضور ﷺ نے حضرت بی بی امامہ رضی اللہ عنہا
کو قریب بلایا اور اپنی پیاری نواسی کے گلے میں اپنے مبارک ہاتھ سے یہ ہار ڈال دیا۔(شرح
زرقانی علی المواہب،4 / 321 -مسند امام احمد ،9 / 399 ، حدیث : 24758)
یہ فطری بات ہے کہ انسان جس کے ساتھ جیسا رویہ اختیار کرتا
ہے اس کے ساتھ بھی ویسا ہی انداز اختیار کیا جاتا ہے۔جو بچوں سے پیار کرتا ہے تو
بچے بھی اس سے پیار کرتے ہیں ۔لہٰذا بچوں پر شفقت کیجیے دنیا و آخرت میں خوب برکتیں
حاصل ہوں گی۔اللہ پاک ہمیں پیارے آقا ﷺ کی
سنتوں پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
حضور ﷺ کی
اپنی نواسیوں سے محبت از بنتِ از بنتِ مشتاق احمد ،سناواں کوٹ ادو

حضور نبی رحمتﷺ کے دریائے رحمت سے بڑوں کے ساتھ ساتھ بچوں
نے بھی بہت فیض لیا۔ آپ بچوں پر بہت شفقت فرماتے،انہیں اپنے پاس بلاتے،گود میں
اٹھاتے،سر پر ہاتھ پھیرتے،دعائیں دیتے، دینی، دنیوی اور اخلاقی تربیت فرماتے،سواری
پر ساتھ سوار فرماتے اور والدین کو بھی بچوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے ،اچھی تربیت
کرنےاور ان کی آخرت سنوارنے کی تعلیمات دیتے۔
بچوں کی حضورِ اکرمﷺ کی نگاہ میں کیا حیثیت ہے؟اس کا اندازہ
اس فرمانِ مبارک سے لگائیے کہ مسلمانوں کے بچے جنت کی چڑیاں ہیں۔(مسلم،ص1086،حدیث:6701)
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:نبی کریم ﷺ سب سے زیادہ
بچوں پر مہربان تھے۔
(مسلم،ص974،حدیث:6026)
دیگر بچوں کے ساتھ تو رحمۃ اللعالمینﷺ محبت و شفقت فرماتے ہی
تھے ساتھ میں اپنی پیاری پیاری نواسیوں سے بھی بے حد محبت کا اظہار فرماتے تھے۔آئیے!جانتی ہیں کہ حضورﷺ کی کتنی نواسیاں تھیں۔
حضور پاکﷺ کی 4 نواسیاں تھیں ۔حضورﷺ کی سب سے بڑی شہزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی
اولاد میں ایک لڑکی حضرت امامہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں۔ (زرقانی،3/197)
ننھی بچی کو قیمتی ہار پہنا دیا:حضورﷺ اپنی ننھی نواسی حضرت امامہ رضی اللہ عنہا سے
بے حد پیارے فرماتے اور آپ نے ہی ان کی پرورش فرمائی۔ایک مرتبہ بارگاہِ رسالت میں ہدیہ پیش کیا گیا جس میں ایک
قیمتی ہار بھی تھا،آپ ﷺ نے فرمایا: یہ میں اسے دوں گا جو مجھے بہت پیارا ہے۔پھر آپ
نے حضرت امامہ رضی اللہ عنہا کے گلے میں پہنا دیا۔(مسند امام احمد،41/232،حدیث:24704)
اپنی نواسیوں میں سے حضرت امامہ رضی اللہ عنہا سے
حضورﷺ کو بڑی محبت تھی۔آپ ان کو اپنے دوش مبارک پر بٹھا کر مسجدِ نبوی لے جاتے
تھے۔
روایت ہے کہ ایک مرتبہ حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے حضورﷺ کی خدمت میں بطورِ ہدیہ ایک حلہ بھیجا جس کے ساتھ
سونے کی ایک انگوٹھی بھی تھی جس کا نگینہ حبشی تھا۔حضورﷺ نے یہ
انگوٹھی حضرت امامہ رضی اللہ عنہا کو عطا فرمائی۔(شرح زرقانی،3/197)
حضورﷺ کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی شہزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ
عنہا کی اولادِ کریمہ میں تین صاحبزادیاں حضرت
زینب، حضرت ام کلثوم اور حضرت رقیہ رضی اللہ عنہن حضورﷺ کی نواسیاں تھیں۔
حضورﷺ کی نواسی رقیہ رضی اللہ عنہا تو بچپن میں ہی وفات پا
گئی تھیں۔سیدہ زینب رضی اللہ
عنہا حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ اور
سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں آئیں اور ان کی اولاد
باقی نہ رہی۔اگرچہ سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا
حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ سے ایک فرزند پیدا ہوا اور ان کا نام زید
تھا۔(مدارج النبوة مترجم،2/622)
یاد رکھیے!بچوں کے ساتھ بڑا بن کر رہنا کمال نہیں ہے بلکہ
بچوں کے ساتھ بچہ بن کے رہنا اور ان میں گھل مِل جانا ہی کمال ہےجو کہ حضورﷺ کی
ذاتِ مبارکہ میں ایک عملی نمونہ ہے!
حضور ﷺ کی
اپنی نواسیوں سے محبت از بنتِ از بنتِ مدثر، فیضان فاطمۃ الزہراء ،صدر راولپنڈی

نبی کریم ﷺ کی مبارک زندگی کے بارے میں قرآنِ کریم فرماتا
ہے:لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ(پ21،الاحزاب:21) ترجمۂ کنز الایمان:بے شک تمہیں رسول اللہ
کی پیروی بہتر ہے۔ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب شانِ حبیب الرحمن میں اس آیت
پر بہت پیارا کلام فرمایا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ سرکارِ ابدِ قرار ﷺ کی مبارک
ذات ہردرجے اور ہر مرتبے کے انسان کے لئے نمونہ ہے۔ مزید لکھتے ہیں:اگر کسی کی
زندگی اہل و عیال کی زندگی ہے تو وہ یہ خیال کرے کہ میری تو ایک یا دو یا زیادہ سے
زیادہ چار بیویاں ہیں اور کچھ اولاد مگر محبوب ﷺ کی 9 بیویاں ہیں،اولاد اور اولاد
کی اولاد،غلام باندیاں،متوسلین اور مہمانوں کا ہجوم ہے،پھر کس طرح ان سے برتاؤ
فرمایا اور اس کے ساتھ ساتھ کس طرح رب کی یاد فرمائی۔ (شانِ حبیب الرحمن، ص160-158 ملخصاً)
سب کو ان کے مقام و مرتبے کے اعتبار سے شفقتوں سے
نوازاخصوصا بیٹیوں کے فضائل بیان فرما کر عرب کے معاشرے کو وحشت و بربریت سے نکالا
اور عملی طور پر بھی اس کا مظاہرہ فرمایا۔اپنی شہزادیوں بلکہ نواسیوں کو بھی پیار
و محبت عطاسے نوازا۔سیرتِ نبی کی کتب میں نبی کریم ﷺ کی چار نواسیوں کا ذکر ملتا
ہے: سیدہ امامہ،سیدہ زینب،سیدہ امِّ کلثوم اور سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہن۔سیدہ امامہ
رضی اللہ عنہا نبی کریم ﷺ کی بڑی شہزادی حضرت بی بی زینب رضی اللہ عنہا کی بیٹی ہیں
جبکہ بقیہ تینوں خاتونِ جنت بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولادِ پاک ہیں۔آئیے!آخری
نبی ﷺ کے گلشنِ نبوت کی مہکتی کلیوں کے ساتھ محبت و شفقت بھرے انداز کی کچھ جھلکیاں
ملاحظہ کیجئے۔چنانچہ
تحفہ عطا فرمایا:ایک مرتبہ نجاشی بادشاہ نے سرورِ کائنات ﷺ کی خدمتِ بابرکت میں کچھ زیورات کی
سوغات بھیجی اس میں ایک بیش قیمت حبشی نگینے
والی انگوٹھی بھی تھی۔ اللہ پاک کے پیارے نبی،مکی مدنی ﷺ نے اُس انگوٹھی کو چھڑی یا
مبارک انگلی سے مس کیا یعنی چھوا اور اپنی بڑی شہزادی زینب رضی اللہ عنہا کی پیاری بیٹی یعنی اپنی نواسی حضرت امامہ
رضی اللہ عنہا کو بلایا اور فرمایا:اے
چھوٹی بچی!اسے تم پہن لو۔
(ابو داود،4/125، حدیث:2225)
اسی طرح ایک مرتبہ ایک بہت ہی خوبصورت سونے کا ہار کسی نے
حضور اقدس ﷺ کو نذر کیا جس کی خوبصورتی کو دیکھ کر تمام ازواجِ مطہرات رضی
اللہ عنہن حیران رہ گئیں۔آپ نے اپنی مقدس
بیویوں سے فرمایا کہ میں یہ ہار اس کو دوں گا جو میرے گھر والوں میں مجھے سب سے زیادہ
محبوب ہے۔تمام ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن
نے یہ خیال کر لیا کہ یقیناً یہ ہار حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کو عطا فرمائیں گے مگر حضور ﷺ نے حضرت
امامہ رضی اللہ عنہا کو قریب بلایا اور
اپنی پیاری نواسی کے گلے میں اپنے دستِ مبارک سے یہ ہار ڈال دیا۔ (شرح زرقانی،3/197)
کندھوں پر
سوار فرمالیا:حضرت ابو قتادہ رضی
اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : اللہ پاک کے
محبوب ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے تو آپ اپنی
نواسی امامہ بنتِ ابوالعاص رضی اللہ عنہا
کو اپنے مبارک کندھے پر اٹھائے ہوئے تھے۔پھر آپ نماز پڑھانے لگے تو رکوع میں جاتے
وقت انہیں اتار دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو انہیں اٹھا لیتے۔( بخاری،2/100،حدیث:5996)
سبحان اللہ! کیا پیار ومحبت بھرا انداز ہے۔ یہ نبی کریم ﷺ کی
حیاتِ طیبہ کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ وصالِ ظاہری شریف کے بعد بھی واقعۂ
کربلا میں اس کی جھلک نظر آتی ہے۔

آقاکریم ﷺ بطور نانا جان اپنی شہزادیوں کے بچوں سے بہت محبت فرماتے تھے۔نواسے
تو اپنے نانا جان ﷺ کے لختِ جگر تھے ہی لیکن نواسیاں بھی اپنے نانا جان ﷺ کی محبت
و شفقتیں لینے میں پیچھے نہ تھیں۔
اللہ پاک کے آخری نبی ﷺ کی چار نواسیاں تھیں:حضرت امامہ،حضرت بی بی رقیہ،حضرت
زینب،حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہن۔سب کی سب اپنے نانا جانﷺ کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھیں۔آئیے!پیارے
نانا جان ﷺکی اپنی نواسیوں سے محبت بھرے اندازِ مبارک کی جھلکیاں ملاحظہ کیجئے۔چنانچہ
نواسی اپنے نانا جان ﷺکے مبارک کندھے پر:شہزادیِ رسول
حضرت بی بی زینب رضی اللہ عنہا کی بیٹی کا نام اُ مامہ تھا،حضورﷺکو اپنی سب سے بڑی
نواسی حضرت بی بی اُمامہ رضی اللہ عنہا سے
بڑی محبت تھی۔ آپ ان کو اپنے دوش(یعنی مبارک کندھوں Shoulders)پر بٹھا کر مسجد ِنبوی میں تشریف لے جاتے تھے۔حضرت ابوقتا دہ رضی
اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:اللہ پاک کے محبوب ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے تو آپ(اپنی نواسی)
اُمامہ بنتِ ابوالعاص رضی اللہ عنہا کو اپنے مبارَک کندھے پر اٹھائے ہوئے تھے ۔
پھر آپ نماز پڑھانے لگے تو رکوع میں جاتےوقت انہیں اُتار دیتے اور جب
کھڑے ہوتے تو انہیں اُٹھا لیتے۔
(بخاری،4/100،حدیث:5996)
سونے کا خوبصورت ہار:اسی طرح ایک مرتبہ کسی نے حضور اَکرَم ﷺ کو سونے کا ایک بہت
ہی خوبصورت ہار تحفے میں پیش کیاجس کی
خوبصورتی دیکھ کر تمام اَزواجِ مُطَہَّرات
رضی اللہ عنہنَّ حیران رہ گئیں۔حضور ﷺ نے اپنی پاکیزہ بیویوں سے فرمایا کہ میں یہ ہار اس کو دوں گا جو میرے گھر
والوں میں مجھے سب سے زیادہ پیاری ہے۔تمام اَزواجِ مُطَہَّرات رضی اللہ
عنہنَّ نےیہ خیال کرلیا کہ یقینا ًیہ ہار
اب حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کو عطا فرمائیں گے مگر حضور ﷺ نے حضرت بی بی اُ مامہ رضی اللہ عنہا کو قریب بُلایا
اور اپنی پیاری نواسی کے گلے میں اپنے مبارک ہاتھ سے یہ ہار ڈال دیا۔(زرقانی علی المواہب، 4/321-مسند امام احمد،
9/399، حدیث : 24758)
لاڈلی شہزادی کی لاڈلی بیٹیاں:آقا کریم ﷺ کی
لاڈلی شہزادی خاتونِ جنت فاطمۃ الزاہرا رضی اللہ عنہا کی تین صاحبزادیاں تھیں۔حضرت
زینب ام المصائب رضی اللہ عنہا سب
سے بڑی شہزادی تھیں جنہوں نے واقعۂ کربلا کے بعد بہت مصائب برداشت کیے تھے ۔دوسری
صاحبزادی حضرت بی بی رقیہ رضی اللہ عنہا تھیں اور سب سے چھوٹی شہزادی حضرت ام
کلثوم رضی اللہ عنہا تھیں۔آقا کریم ﷺ کو
اپنی ان تینوں نواسیوں سے بے حد محبت و الفت تھی۔(شانِ خاتونِ جنت،ص253،252)
نواسی کو انگوٹھی عطا فرمائی:اُمُّ الْمومنین حضرت عائشہ
صِدّیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:نَجّاشی بادشاہ نے سرورِ کائنات ﷺ کی خدمتِ
بابرکت میں کچھ زیورات کی سوغات بھیجی جن میں ایک حبشی نگینے والی انگوٹھی بھی تھی
۔ اللہ پاک کے پیارے نبی، مکّی مَدَنی ﷺ
نے اُس انگوٹھی کو چھڑی یا مبارَک اُنگلی سے مَس کیا (یعنی چُھوا )اور اپنی بڑی
شہزادی زینب رضی اللہ عنہا کی پیاری بیٹی یعنی اپنی نواسی اُمامہ رضی اللہ
عنہا کو بلایااور فرمایا: اے چھوٹی بچَّی ! اسے تم پہن لو ۔(ابوداود،4/125، حدیث:4235 )
یہ سب واقعات ان لوگوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں جو اپنی گھر کی بچیوں،نواسیوں،پوتیوں
سے محبت نہیں کرتے اور ان کے ساتھ شفقت بھرا رویہ اختیار نہیں کرتے ۔ہم سب کو چاہیے
کہ خاتم النبیین ﷺ کی سیرتِ مبارکہ پر عمل کرتے ہوئے اپنی بیٹیوں،نواسیوں اور پوتیوں
کو شفقتوں اور محبتوں کے مہکتے گلشن میں پروان چڑھائیں۔

اے عاشقانِ صحابہ و اہل ِبیت!اللہ پاک کے پیارے پیارے آخری
نبی، مکی مدنی،محمدِعربیﷺ کے کئی نواسے اور نواسیاں تھیں مگر سب سے زیادہ مشہور
حسنین کریمین رضی اللہ عنہما ہیں۔
حضرت سفیان بن عینیہ رحمۃ اللہ علیہ کے اس ارشادنیک لوگوں
کے ذکر کے وقت رحمت نازل ہوتی ہے(حلیۃ الاولیاء،7/225،رقم:10450)کو سامنے رکھتے
ہوئے ربِّ کریم کی رحمتوں کے حصول اور اپنی معلومات میں اضافے کیلئے پیارے آقاﷺکی
نواسیوں کا تذکرہ سنتی ہیں۔
سب سے بڑی نواسی:حضرت بی بی زینب رضی اللہ عنہا کی بیٹی کا نام اُ مامہ تھا،حضور ﷺ کو اپنی سب
سے بڑی نواسی حضرت بی بی اُمامہ رضی اللہ عنہا سے بڑی محبت تھی۔آپ ان کو اپنے دوش (یعنی مبارک کندھوں)پر بٹھا کر مسجد
ِنبوی میں تشریف لے جاتے تھے۔روایت میں ہے کہ حضور ﷺ کی خدمتِ سَراپا عَظَمت میں ایک
مرتبہ حَبْشَہ شریف کے بادشاہ نَجاشی رحمۃ ُاللہ علیہ نے بطورِ ہَدیَّہ حُلّہ بھیجا جس کے ساتھ سونے کی ایک انگوٹھی بھی تھی،اُس کا
نگینہ حَبشی تھا۔ اللہ پاک کے پیارے پیارے آخِری نبی ﷺ نے یہ انگوٹھی حضرت بی بی اُمامہ رضی اللہ
عنہا کوعنایت فرمائی۔ (سیرتِ مصطفیٰ ، ص 693)
اسی طرح ایک مرتبہ کسی نے حضور اَکرَم ﷺ کو ایک بہت ہی خوبصورت سونے کا ہار تحفے میں پیش کیاجس کی خوبصورتی دیکھ کر تمام اَزواجِ مُطَہَّرات رضی اللہ عنہنَّ حیران رہ گئیں۔ حضور ﷺ نے اپنی پاکیزہ بیویوں سے فرمایا کہ میں یہ
ہار اس کو دوں گا جو میرے گھر والوں میں مجھے سب سے زیادہ پیاری ہے۔تمام اَزواجِ
مُطَہَّرات رضی اللہ عنہنَّ نےیہ خیال کرلیا کہ یقینا ًیہ ہار اب حضرت ِبی
بی عائشہ رضی اللہ عنہا کو عطا فرمائیں
گےمگر حضور ﷺ نے حضرت بی بی اُمامہ رضی اللہ عنہا کو قریب بُلایا اور اپنی پیاری
نواسی کے گلے میں اپنے مبارک ہاتھ سے یہ ہار ڈال دیا۔(زرقانی علی
المواہب،4/321۔مسند امام احمد،9/399،حدیث: 24758)
حضرت بی بی فاطمۃُ
الزہرا رضی اللہ عنہا کی بڑی شہزادی حضرت سیِّدَہ بی بی زینب رضی اللہ عنہا کی کنیت اُمُّ الحسن تھی اور واقعہ ٔکربلا کے بعد ان کی کنیت اُمُّ المصائب مشہور ہو گئی تھی۔ (شانِ خاتونِ جنت، ص 261)
انہوں نے بہت مصیبتیں
برداشت کیں، بہت صبر کیا اور مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا،یہ ایسی صابرہ تھیں کہ ان کے اپنے چھوٹے چھوٹے شہزادے محمد اور عَون رضی اللہ عنہما نے بھی کربلا کے میدان میں تلوار پکڑی اور یزیدیوں کے مقابلے میں نکل گئے، آخرِ کار جامِ
شَہادت نوش کرلیا۔ (اسد الغابہ، 7/146)
حضرت خاتونِ جنت ،شہزادیِ کونین بی بی فاطمہ زہرا
رضی اللہ عنہا کی سب سے چھوٹی صاحبزادی حضرت بی بی اُمِّ کلثوم رضی اللہ عنہا اپنی بڑی بہن حضرت بی بی زینب رضی
اللہ عنہا کے مُشابِہ تھیں۔مسلمانوں کے
دوسرے خلیفہ حضرت عُمَر فاروق اعظم رضی اللہ
عنہ نے حضرت بی بی اُمِّ کلثوم رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا۔ آپ نے مولا علی،شیرِ
خدا رضی اللہ عنہ کو نکاح کا پیغام بھیجا اور کہا:اے علی!آپ اپنی شہزادی کا نکاح
مجھ سے کر دیجئےکیونکہ میں نےرسولُ اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ کل بروز ِقیامت
ہر نَسَب اورہر رشتہ ختم ہو جائے گا سوائے میرے نسب اور میرے رشتے کے۔(الاستیعاب،4/509-تاریخ ابن عساکر، 19/482-اصابہ،8/464،رقم:12237)

پیارے آقا ﷺ کی نواسیوں کی کل تعداد چار ہے جن کے اسمائے
گرامی یہ ہیں:حضرت امامہ بنتِ ابو العاص،حضرت رقیہ بنتِ علی، حضرت امِّ کلثوم بنتِ
علی اور حضرت زینب بنتِ علی رضی اللہ عنہن۔
حضرت امامہ رضی اللہ عنہا حضور ﷺ کی صاحبزادی حضرت زینب رضی
اللہ عنہا کی شہزادی ہیں جبکہ باقی شہزادیاں بی بی فاطمہ خاتونِ جنت رضی اللہ عنہا
کی اولاد ہیں۔آپ کو ان سب سے بے انتہا محبت تھی۔
حضرت امامہ رضی اللہ عنہا سے حضور ﷺ کو بڑی محبت تھی اور آپ
ان کو اپنے دوش مبارک پر بٹھا کر مسجدِ نبوی میں تشریف لے جاتے تھے ۔
روایت
ہے کہ ایک مرتبہ حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے حضور ﷺ کی خدمت میں بطور ہدیہ ایک حلہ بھیجا
جس کے ساتھ سونے کی ایک انگوٹھی بھی تھی جس کا نگینہ حبشی تھا،حضور ﷺ نے یہ انگوٹھی
حضرت امامہ رضی اللہ عنہا کو عطا فرمائی ۔ (سیرتِ مصطفیٰ ، ص 693)
اسی طرح
ایک مرتبہ بہت ہی خوبصورت سونے کا ہار کسی نے حضور اقدس ﷺ کو نذر کیا جس کی
خوبصورتی کو دیکھ کر تمام ازواجِ مطہرات حیران رہ گئیں،آپ نے اپنی مقدس بیویوں سے
فرمایا کہ میں یہ ہار اس کو دوں گا جو میرے گھر والوں میں مجھے سب سے ذیادہ محبوب
ہے۔تمام ازواجِ مطہرات نے یہ خیال کرلیا کہ یقیناً یہ ہار حضرت بی بی عائشہ صدیقہ رضی
اللہ عنہا کو عطا فرمائیں گے مگر حضور ﷺ نے حضرت امامہ رضی اللہ عنہا کو قریب بلایا
اور اپنی پیاری نواسی کے گلے میں اپنے دستِ مبارک سے یہ ہار ڈال دیا۔
(شرح زرقانی،3 /197)
حضرت ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ مسجد میں بیٹھے
ہوئے تھے کہ اسی دوران رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اس حال میں کہ آپ حضرت
امامہ بنتِ ابو العاص رضی اللہ عنہا کو کندھے پر اٹھائے ہوئے تھے۔سیدہ امامہ رضی
اللہ عنہا کی والدہ رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہاہیں۔سیدہ
امامہ رضی اللہ عنہا ابھی چھوٹی بچی تھیں،وہ آپ کے کندھے پر تھیں، جب آپ رکوع کرتے
تو انہیں اٹھا لیتے،اسی طرح کرتے ہوئے آپ نے اپنی نماز ادا کی۔
(بخاری،4/100،حدیث:5996)
بی بی فاطمہ خاتونِ
جنت رضی اللہ عنہا کی تین صاحبزادیوں میں بی بی رقیہ رضی اللہ عنہا تو بچپن میں ہی
وفات پا گئیں تھی،حضرت ام کلثوم بنتِ علی رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عمر فاروق رضی
اللہ عنہ سے ہوا جن کے شکم سے ایک صاحبزادے حضرت زید بن
عمر رضی اللہ عنہما اور ایک صاحبزادی حضرت رقیہ بنتِ عمر رضی اللہ عنہما کی پیدائش
ہوئی اور بی بی فاطمہ خاتونِ جنت رضی اللہ عنہا کی تیسری صاحبزادی حضرت زینب بنتِ
علی رضی اللہ عنہا ان کی شادی حضرت
عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے ہوئی۔
(مدارج النبوت،2 /460
)
اس سے ثابت ہوا کہ حضور ﷺ اپنی پیاری نواسیوں سے بے پناہ
محبت کرتے تھے۔