
حوصلہ
رکھو انتہائی مختصر لیکن انتہائی مضبوط جملہ۔کوئی عزیز وفات پا گیا گیا تو حوصلہ
رکھو،کوئی مشکل پڑی تو حوصلہ رکھو،درد شدت اختیار کر جائے تو حوصلہ رکھو۔مگر یہ
حوصلہ رکھو جملہ انسان جب خود سے کہتا ہے تو اتنا کارآمد نہیں ہوتاجتنا دوسرے
انسان کے کہنے سے اس میں خوبصورتی اور مضبوطی آجاتی ہے۔ اسے حوصلہ مندی کہتے ہیں۔ انسان
اس دنیا میں ہر وقت لمحہ بہ لمحہ آزمائش سے گزرتا رہتا ہے کبھی روزگار کا مسئلہ، کبھی
ماں باپ اور بیوی بچوں کو چھوڑ کر پردیس میں زندگی گزار رہا ہو تو زندگی دن میں
ایک مشین کی طرح ہوتی ہے۔جذبات و احساسات سے عاری مگر رات کو جب گھر میں آتا ہے تو
بیٹی بابا بابا کرتی گلے سے نہیں لپٹتی اس وقت انسان کا نفس اسے کہتا ہے حوصلہ
رکھو۔
اللہ
تعالیٰ نے اسی ہمدردی دکھ درد کو بانٹنے کے لیے ہی تو انسان کو بنایا ہے۔ ورنہ
فرشتے جو ہم نافرمانوں سے زیادہ اللہ کی عبادت کرتے ہیں بعض رات بھر دن بھر سجدے
میں، بعض رکوع میں اور بعض اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں۔ اس کے حکم کے بغیر ایک
کام بھی نہیں کرتے کیا وہ اللہ کے لیے کم تھے۔ نہیں اللہ کے لیے کم تو نہیں تھے تو پھر کیوں
انسان کو اس دنیا میں بھیجا۔کیوں اسے اشرف المخلوقات کہا گیا۔ہمدردی۔ جواب ہے
انسانیت۔
اللہ
نے ہمیں فطری طور پر بااحساس بنایا ہے۔ انسان ایک درخت کی مانند ہوتا ہے جسے پروان
چڑھنے کے لیے سردی گرمی طوفان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ اس نے
کیا جھیلا اور اس نے مزید کیا جھیلنا ہے۔بس سامنے مضبوط درخت نظر آتا ہے جو گرمیوں
میں چھاؤں ہر طرح کے پھل اور پرندوں کو گھر بنانے کے لیے جگہ فراہم کرتا ہے۔ مگر
خزاں درخت کی زندگی میں ایک خزاں ضرور آتی ہے۔ جو درخت کے سارے خوبصورت پتوں کو
توڑتی، اس کی خوبصورتی کو کم کرتی،اسے مایوس کر دیتی ہے۔پھر بہار آتی ہے جو اس
درخت میں ایک نئی جان پیدا کر دیتی ہے۔ لیکن اس سے پہلے آنے والے بادل،چلنےوالی
ہوائیں،درخت کو ایک امید دلاتے ہیں کہ جلد ہی تمہارے اوپر پہلے سے بھی زیادہ
خوبصورت پھل لگیں گے۔ انسان کے لیے اس دکھ
میں وہ چھوٹی سی امید،وہ چھوٹا سا دلاسا کیا ہے۔دوسرے انسان کی طرف سے ملنے والا
دلاسہ،حوصلہ ہمت۔

ہمارے
معاشرے میں پائی جانے والی کمزوریوں میں سے ایک کمزوری حوصلہ شکنی بھی ہے۔ دور
حاضر میں ہر کوئی دوسرے پر تنقید کرتا نظر آتا ہے۔ اگر کوئی اس معاشرے میں آگے
بڑھنے کی کوشش کرتا ہے تو اس پر تنقید کے انبار لگا دیئے جاتے ہیں۔ پہلے ہی حوصلہ
شکنی کر دی جاتی ہے جس سے ایک محنت کش انسان ہمت بھی ہار سکتا ہے۔ اگر ہم کسی کی
حوصلہ افزائی نہیں کر سکتے تو حوصلہ شکنی بھی نہیں کرنی چاہیے۔ کسی کی زندگی
سنوارنے کیلئے بہت محنت کرنا پڑتی ہے اور مشکلوں سے گزرنا پڑتا ہے جبکہ بگاڑنا بہت
آسان ہے صرف اس کی ہمت توڑنے کی دیر ہوتی ہے۔ اسی کو حوصلہ شکنی کہتے ہیں۔
حوصلہ شکنی کے نقصانات: حوصلہ شکنی سے منفی سوچ پیدا ہوتی ہے
جس کی وجہ سے معاشرتی و نفسیاتی یا نقصانات پیدا
ہوتے ہیں۔ لوگ آپ سے نفرت کرنے لگتے ہیں اگر آپ ان کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ وہ آپ کے
قریب آنے سے کتراتے ہیں، حوصلہ شکنی کی وجہ سے لوگ نا امید ہو جاتے ہیں۔ ان کے
حوصلے پست ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنے کام مکمل نہیں کر پاتے۔ لوگوں میں خود اعتمادی کی
کمی پیدا ہو جاتی ہے۔ لوگ اپنی صلاحتیوں پر اعتبار کرنا ہی چھوڑ جاتے ہیں۔ زندگی میں
آگے بڑھنا چھوڑ دیتے ہیں۔
اب
سوال یہ ہے کہ حوصلہ شکنی سے کیسے بچا جائے۔ قارئین! انسان کو زندگی میں حوصلہ
افزائی اور حوصلہ شکنی کرنے والے دونوں طرح کے لوگ ملتے ہیں۔ اب یہ ہمارے اختیار
میں ہے کہ ہم کسی کو سنتے ہیں اور حوصلہ شکنی ہونے پر تھک ہار کر گر جاتے ہیں یا
مزید جذبے کے ساتھ اپنے مقصد کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں۔
حوصلہ
شکنی کے منفی اثرات سے بچنے کیلئے چند ٹیس پیش خدمت ہیں:
اپنی
سوچ کو مثبت بنا لیں کوئی کتنی ہی حوصلہ شکنی کرے اس کی نہ سنیں بلکہ مزید محنت
اور کوشش کیجیے ایسے لوگوں کی محبت سے دور رہا جائے، جوہر وقت تنقید کرتے رہتے
ہیں۔ ناکامی اور حوصلہ شکنی سے مایوس نہ ہوں۔ اپنے دل سے ناکامی کا خوف اور حوصلہ
شکنی کا ڈر نکال دیں۔ مشکلات کا سامنا کرنا سیکھئے۔ مشکلوں سے گھبرائیے نہیں۔ اچھی
صلاحتیوں کو استعمال میں لائیے اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں۔
یہ
بات یاد رہے کہ کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جن کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ مثلاً کوئی
برائی کی طرف جا رہا ہو تو اس کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے تاکہ وہ ان برائیوں سے دور
رہے۔ حوصلہ شکنی سے بچنے کا مطلب یہ نہیں کہ کسی کی غلطی کی نشاندہی نہ کی جائے کسی
کو سمجھایا نہ جائے بلکہ اس معاملے میں حکمت عملی سے کام لینا چاہیے۔ نرم لہجہ
اختیار کرنا چاہیے پہلے اس شخص کے کام کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے پھر مناسب الفاظ
میں غلطی کی نشاندہی کر دی جائے۔
یاد
رکھیے! آپ واحد شخص نہیں جس کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ اس کے واقعات سے تاریخ بھری
پڑی ہے۔ اس طرح کے کئی واقعات آپ کے جاننے والوں کے ساتھ پیش آئے ہوں گے اس لیے
اپنا دل بڑا رکھیے اور ذہن بنالیجیے کہ حوصلہ شکنی کرنے والے نے اپنا کام کیا۔ اس
کے بعد آپ کو چاہیے کہ اپنا سفر کامیابی کی طرف تیز کر دیں۔

انسانی
زندگی میں چیلنجز اور مشکلات آنا ایک فطری امر ہے مگر ان مشکلات میں ہمت کے ساتھ
اپنی منزل کی طرف گامزن رہنا بہت ضروری ہے۔ اگر انسان اپنے ارادوں میں کمزوری کے
باعث خود کے لیے کامیابی کو مشکل تصور کرے گا تو یقیناً کامیابی اس کے لیے ناممکن
ہو جائے گی۔ اسلام نے ہمیشہ اپنے حوصلے بلند رکھنے اور محنت کے ساتھ منزل کی راہ
طے کرنے کا درس دیا ہے۔ حوصلہ شکنی ایک نفسیاتی امر ہے جس میں انسان اپنی قوت عزم
اور امید کو کھو دیتا ہے۔
حوصلہ شکنی کے چند اسباب:
1 ارادوں میں کمزوری: اگر انسان کے ارادے کمزور ہوں گے تو وہ
کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ ارادوں میں کمزوری حوصلہ شکنی کا سبب بنتی ہے۔
2 احساس کمتری اور صلاحیتوں سے ناواقفیت: انسان جب اپنے
اندر کسی کمی کا تصور کر لیتا ہے اور اپنی صلاحیتوں سے بے خبر ہو جاتا ہے تو وہ
ناکامی کو اپنی صفت سمجھ کر حوصلہ ہار دیتا ہے۔
3 جلد بازی اور آسانی کی تلاش: انسان جلد
نتائج چاہتا ہے یا بغیر محنت کے بڑے مقصد کا حصول چاہتا ہے۔ جب نتائج جلد نہ ملیں
تو وہ مایوس ہو جاتا ہے۔
4 مشکلات کا سامنا: لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کامیاب زندگی
مشکلات سے خالی ہونی چاہیے جبکہ مشکلات زندگی کا حصہ ہیں۔ ان مشکلات کو مقدر سمجھ
کر لوگ حوصلہ چھوڑ دیتے ہیں۔
حوصلہ شکنی کا حل:
1 اللہ عزوجل پر توکل: اسلام ہمیں توکل کا درس دیتا ہے کہ ہم
اسباب اختیار کریں اور نتیجہ اللہ کے سپرد کر دیں۔
2 صبر: اسلام میں صبر کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ کہا جاتا ہے
کہ جس نے صبر کیا، اس نے کامیابی حاصل کر لی۔
3 مسلسل محنت: مسلسل محنت اور سنجیدگی انسان کو
کامیابی تک لے جاتی ہے۔ جس نے محنت کی، اس نے پا لیا۔
4 آسانی کا یقین: انسان کو یہ یقین ہونا چاہیے کہ ہر
مشکل کے بعد آسانی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔

حوصلہ
شکنی، حوصلہ افزائی کی ضد ہے حوصلہ شکنی کا معنی ہے: ہمت توڑنے والا مایوس کن،
بزدل بنانے والا۔
ہمارے
معاشرے میں بہت سی اچھائیاں اور کمزوریاں پائی جاتی ہیں جن میں سے ایک حوصلہ شکنی
یعنی Discouragement
بھی ہے ہماری تھپکی کسی کو پہاڑ چڑھنے کا حوصلہ بھی دے سکتی ہے جبکہ ہماری حوصلہ
شکنی کے چند الفاظ کسی کو چڑھتے پہاڑ سے کھائی میں گرانے کا سبب بھی بن سکتے ہیں
کسی کی زندگی کو سنوارنا اسے آگے بڑھنے کا حوصلہ دینا کسی کی زندگی میں موٹیویشنل
سپیکر (motivational
speaker)بننے کے لیے بہت محنت کرنا پڑتی ہے جبکہ زندگی
کو بگاڑنا بہت آسان ہوتا ہے صرف اس کی ہمت توڑنے کی دیر ہوتی ہے جو آج کے معاشرے
میں ہر اپنا پرایا انسان بہت آسانی کے ساتھ کر رہا ہوتا ہے اسی کو حوصلہ شکنی کہتے
ہیں۔
ہمیں
غور کرنا چاہیے کہ آج تک ہماری وجہ سے کتنے لوگوں کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے ہمارے
الفاظ، ہمارا انداز کتنے لوگوں کی ہمت توڑنے انہیں اگے بڑھنے سے روکنے اور پیچھے
دھکیلنے کا سبب بنے ہیں یہی نہیں بلکہ اس کے بہت سے دینی اور دنیاوی نقصانات ہیں
ہماری حوصلہ شکنی ہمیں خود کو اور سامنے والے کی ذات دونوں کو بہت سے گناہوں میں
مبتلا کرنے کا سبب بن سکتی ہے اس کے نتیجے میں بہت سی بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں
آئیے چند نقصانات کو ملاحظہ کر لیتے ہیں۔
حوصلہ شکنی کے نقصانات: حوصلہ شکنی کے ذریعے دل آزاریاں ہوتی
ہیں، جس کی حوصلہ شکنی کی جائے وہ مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے، حوصلہ شکنی ڈپریشن
اور ذہنی انتشار کا سبب بنتی ہے، حوصلہ شکن رویوں سے منفی سوچ پروان چڑھتی ہے جس
کی وجہ سے بہت سے معاشرتی نقصانات ہوتے ہیں، حوصلہ شکنی انسان کو احساس کمتری میں
مبتلا کر دیتی ہے۔
حوصلہ افزائی نہ سہی تو حوصلہ شکنی بھی نہ کیجیے۔
دنیا میں دونوں قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں حوصلہ افزائی کرنے والے اور حوصلہ شکنی
کرنے والے بھی، ہمیں چاہیے کہ اپنی ذات پر غور کر لیں کہ ہمارا شمار کن میں ہوتا
ہے؟ اگر حوصلہ افزائی نہیں کر سکتے تو حوصلہ شکنی بھی نہیں کیجیے ہر ایک کو ہی
چاہیے کہ حوصلہ شکنی کرنے سے بچے بالخصوص والدین اور اساتذہ کرام انہیں بہت زیادہ
احتیاط کرنی چاہیے کہ یہ وہ شخصیات ہیں جن کی باتیں گہرا اثر رکھتی ہیں جہاں ان کی
حوصلہ افزائی انسان کو کامیابیوں کی بلندیوں پر پہنچاتی ہے وہیں ان کے حوصلہ شکن
رویے ان کا ایک جملہ تم نہیں کر سکتے ہو، تم سے نہیں ہوگا، تمہارے بس کی بات نہیں۔
انسان کو ناکامی کے دلدل میں ڈال دیتے ہیں۔اگر استاد کسی شاگرد کو یہ کہہ دے کہ تم
نہیں پڑھ سکتے تو وہ واقعی نہیں پڑے گا کیونکہ وہ پڑھنے کی کوشش ہی نہیں کرے گا
اور وہ جذبات جو شاید ابھی بیدار ہونے والے تھے وہ اپنی موت آپ مر جائیں گے عموماً
دیکھا گیا ہے کہ والدین اپنی اولاد کو بکثرت اس طرح کے جملے کہتے دکھائی دیتے ہیں
انہیں اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ ان کے یہ جملے اولاد کے دل پر کتنا گہرا اثر
دیتے ہیں والدین اور اساتذہ کو چاہیے کہ ہمیشہ ہی اپنی اولاد، اپنے شاگردوں کو you
can do it ( تم کرسکتے ہو ) کہیں انہیں
ہمیشہ I
can do it کہنا سکھائیے انہیں پر اعتماد بنائیں یاد
رکھیے استاد اور والدین وہ شخصیات ہیں کہ جن کی حوصلہ افزائی ان کا دیا ہوا ساتھ
اور بلند حوصلہ دوسرے تمام لوگوں کے حوصلہ شکن رویوں کا مقابلہ کر سکتا ہے۔
حوصلہ
شکنی کرنا ضروری بھی ہوتی ہے اگر کوئی برا کام کرے یا گناہ کی طرف مائل ہونے لگے
تو اس کی حوصلہ شکنی ضرور کریں اور تھوڑا سختی کے ساتھ سمجھائیں تاکہ وہ آئندہ اس
کام سے باز رہے کیونکہ کسی بھی برے کام یا گناہ کی طرح اٹھتے قدم پر مذمت کرنا،اسے
عار دلانا، حوصلہ شکنی کرنا ان اٹھتے قدم کی روک تھام کے لیے نہایت ہی ضروری ہے
یوں ہیں حوصلہ شکنی سے بچنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ کسی کو کچھ سمجھایا ہی نہ
جائے، اچھے برے،صحیح غلط کی تمیز ہی نہ کرائی جائے کہ آئندہ وہ اس برائی سے بچ سکے
بلکہ ضرور ایسا کیا جائے اس کا بہترین انداز یہ ہے کہ پہلے اس کام کی سچی خوبیاں
شمار کروا کر حوصلہ افزائی کی جائے پھر مناسب الفاظ میں خامیوں کی نشاندہی کر دی
جائے جیسا کہ ہمارے مرشدی امیر اہل سنت دامت برکاتہم العالیہ کا حسین انداز ہے۔
حوصلہ شکنی کی مثالیں: حوصلہ شکنی محض دشمنی کی بنیاد پر نہیں
ہوتی بلکہ کسی سے ہمدردی جتاتے ہوئے بھی اس کی حوصلہ شکنی ہو جاتی ہے لیکن ہمیں اس
کا شعور اور احساس نہیں ہوتا حوصلہ شکنی کس کس طرح ہو جاتی ہے؟ یہ جاننے کے لیے
یہاں چند مثالیں درج ذیل ہیں:
کسی کی اچھائی پر حوصلہ افزائی نہ کرنا بلکہ
کوئی کتنا ہی عمدہ کوشش کرے اس کے ہر کام میں کیڑے نکالنا، پھر خود کو ماہر نقاد
قرار دینا۔
مختلف تبصرے کرنا comments
دے دینا:تم نہیں پڑھ سکتے، تجھ سے نہیں ہوگا، تم نکمے ہو نکمے ہی رہو گے، تمہارے
دماغ میں بھوسا بھرا ہوا ہے وغیرہ وغیرہ۔
کسی
کی پہلی غلطی پر مکمل ناکام قرار دے دینا، ایسوں کو سوچنا چاہیے کہ انسان بچپن میں
پہلا قدم اٹھاتے ہی دوڑنے کے قابل نہیں ہو جاتا بلکہ گرتا ہے پھر اٹھتا ہے اور ایک
وقت آتا ہے کہ دوڑنا شروع کر دیتا ہے۔
دوسروں
کے سامنے اپنے بچے کی صرف خامیاں ہی بیان کرنا۔
کسی کا دوسروں سے بلا ضرورت تتقابل (comparison
) کرکے حوصلہ شکنی کرنا۔
ایک
ہی طرح کی کارکردگی دکھانے والے دو افراد میں سے صرف ایک کی تعریف و تحسین کرنا۔
کسی
کی ناکامی پر اپنی کامیابی کی داستانیں سنا سنا کر طعنے دینا۔
کسی
کو نیا تجربہ کرنے سے پہلے ہی اس سے ڈرا دینا وغیرہ وغیرہ۔
انسان
کو بذات خود بھی چاہیے کہ خود کو حوصلہ شکنی سے بچائے ہمیشہ منفی لوگوں سے فاصلہ
رکھیں یہ آپ کے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتے ہیں آپ جب بھی
ان سے کسی نئی آئیڈیا پر مشاورت کریں گے یہ کبھی بھی آپ کی حوصلہ افزائی نہیں کریں
گے وسائل کی کمی، ناکامی، آپ کی صلاحیتوں پر سوالیہ نشان لگا کر آپ کو مایوس کر
دیں گے اور بعض لوگ وہ بھی ہیں جو خود پر ہونے والی ہر تنقید کو حوصلہ شکنی سمجھتے
ہیں، ایسا نہیں ہے کیونکہ تعمیری تنقید حوصلہ شکنی نہیں ہوتی ہے ایسی تنقید سے خود
کو بہتر بنانے میں مدد لیجئے۔
یاد
رکھیے! حوصلہ شکن رویے اور تنقید وہ پتھر کی چٹانیں ہیں کہ جس کو قدم کے نیچے
رکھیں گے تو بلند ہوتے جائیں گے اور اگر سر پر سوار کریں گے تو ٹوٹ جائیں گے تمام
مسلمانوں کے لیے ہمارے پیارے نبی ﷺ کی ذات بہترین اور بے مثال نمونہ ہے، ہمارے
پیارے آقا مکی مدنی مصطفی ﷺ کی کفار کی طرف سے کیسی کیسی حوصلہ شکنی کی گئی؟ (معاذ
اللہ) مجنون کہہ کر پکارا گیا آپ پر ظلم و ستم کی انتہا کی گئی لیکن آپ نے اس ہمت
اور صبر سے حالات کا مقابلہ کیا کہ عقلیں حیران رہ جاتی ہیں،یوں ہیں صحابہ کرام
رضی اللہ عنہم کو اسلام آوری پر کتنے ہی حوصلہ شکن رویوں کا سامنا کرنا پڑا،
بزرگان دین کے حالات و واقعات پڑھیے تو آپ کو سینکڑوں مثالیں مل جائیں گی کہ وہ
حوصلہ شکنی کو خاطر میں نہیں لائے اور اپنے مقصد کو پانے میں کامیاب رہے انہی میں
سے ایک بہترین مثال موجودہ دور میں امیر اہل سنت دامت برکاتہم العالیہ کی ذات
بابرکت ہے کہ کس طرح کیسی کیسی حوصلہ شکن رویوں کا سامنا کرنے کے بعد آج وہ اس
مقام پر ہیں۔
حوصلہ
شکنی از بنت محمد عدنان عطاری، جامعۃ المدینہ حبیبیہ دھوراجی کراچی

معاشرے
کی برائیوں میں سے ایک برائی حوصلہ شکنی ہے حوصلہ شکنی سے مراد ہے ہمت توڑنا۔ بظاہر
یہ ایک چھوٹا سا لفظ ہے لیکن بعض اوقات اس کی بنا پر اتنے بڑے بڑے نقصانات ہوتے
ہیں کہ جن کی تلافی بظاہر ناممکن سی ہو جاتی ہے۔ کچھ لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ
وہ لوگوں کی انکے اچھے کاموں پر بھی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے حوصلہ شکنی کرتے
ہیں جس کی بنا پر کام کرنے والا ہمت توڑ دیتا ہے۔
حوصلہ
شکنی صرف الفاظوں کے ذریعے ہی نہیں بلکہ کبھی ہمارے اشاروں کے ذریعے کبھی رویے کے
ذریعے کبھی انداز کے ذریعے کبھی نگاہوں کے ذریعے بھی ہوتی ہے۔
حوصلہ
شکنی انہی لوگوں کی ہوتی ہے جو کام کرتے ہیں جو لوگ خود تو کام نہیں کرتے لیکن کام
کرنے والوں کی تنقید کرتے ہیں،فضول کی ٹانگ اڑاتے ہیں، ان پر غلط تبصرے کرتے ہیں،
انکے دل توڑتے ہیں، اگر کام پورا ٹھیک کیا ہو صرف چھوٹی سی غلطی ہو گئی ہو اسی
غلطی کو پکڑ لیتے ہیں اور بقیہ پورے کام کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر
کوئی شخص کسی ہنر کو سیکھ رہا ہو سیکھنے کے دوران اس سے کوئی غلطی ہو جائے تو اگر
ہنر سکھانے والا اسے یہ کہہ دے کہ تم تو یہ کام کر ہی نہیں سکتے۔
ذرا
غور کریں ہوسکتا ہے ہنر سکھانے والے نے یہ جملہ ایسے ہی بلا سوچے سمجھے بول دیا لیکن
یہ جملہ اس ہنر سیکھنے والے کے لیے کتنا زہریلا ثابت ہوسکتا ہے اس کا اندازہ شاید
اس بولنے والے شخص کو نہیں ہوتا۔
کیا
پتا اس جملے کی بناء پر وہ زندگی بھر کے لیے یہ ذہن بنالے کہ میں تو کرہی نہیں سکتا
اور بھیک مانگنے کا پیشہ اختیار کرلے تو؟
قارئین
ایک بات بہت گہری ہے اسے دل و دماغ میں بٹھالیں الفاظ کی سمت دوسروں کی طرف کرنے
سے پہلے پل بھر کو یہ ضرور سوچ لینا چاہیے کہ یہ لفظ اگر آپ کی سمت ہوتے تو کیا
معنی رکھتے ہم سب کو بولتے ہوئے اتنی احتیاط کرنی چاہیے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ
ہماری زبان سے نکلا ہوا کوئی جملہ سامنے والے کی زندگی برباد کر دے ہماری وجہ سے
کہیں وہ تباہ نہ ہو جائے گناہ میں نہ پڑ جائے۔ یہ چاہیے کہ دوسروں کی حوصلہ شکنی
کرنے کے بجائے ان کی حوصلہ افزائی کریں ان کی ہمت بڑھائیں لوگوں کی ہمتیں توڑیں
نہیں،بلکہ انہیں سہارا دیں، کیا معلوم آپ کی ایک تھپکی کسی کی زندگی سنوار دے، کسی
کی کامیابی کا ذریعہ بن جائے، کسی کو گناہ سے بچالے۔
سوچیں
اگر آپکی وجہ سے کسی کی زندگی سکون والی ہو تو کیا آپ بے سکون ہوں گے؟ نہیں نہیں آپ
پرسکون ہونگے آپکی زندگی میں بھی خوشیاں آئیں گی۔
قارئین
لوگ تو ہر طرح کے ہوتے ہیں کچھ آپکی حوصلہ افزائی کریں گے کچھ حوصلہ شکنی۔ یاد
رکھیے اگر آپ کوئی کام کرنا چاہتے ہیں اور کام شریعت و سنت کے مطابق ہے تو اس کام
کی تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ آپ لوگوں کے رویوں کی فکر نہ کریں اگر وہ حوصلہ شکنی
کریں تو اس سے اپنے دل کو توڑنے کے بجائے، کام سے نہ رکیے بلکہ اور محنت و لگن سے
کام کیجئے۔ اگر لوگوں کی حوصلہ شکنیوں کا اثر لینا شروع کیا تو آپ ناکام ہونگے۔
یاد
رکھیے گرنا ناکامی نہیں ہے گر کر نہ اٹھنا یہ ناکامی ہے۔ اگر آپ گر جائیں تو آپ ہمت
نہ توڑیں اٹھیں پھر چلیں آگے بڑھیں پھر گریں پھر اٹھیں آگے بڑھیں۔ گر کر اٹھنا بہت
کمال ہے۔
الحاصل
ہمیں چاہیے کہ نہ ہم کسی کی حوصلہ شکنی کریں نہ لوگوں کی حوصلہ شکنیوں کو اپنے
اوپر اثر انداز ہونے دیں۔
اللہ
تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں، لوگوں سے توقعات کے سہارے نہ جئیں۔

حوصلہ
شکنی کا مطلب ہے ہمت توڑنا، بزدل کرنا، مایوس کرنا وغیرہ اس میں کوئی شک نہیں کہ
حوصلہ شکنی ہمارے معاشرے کی ایک بڑی کمزوری ہے۔
حوصلہ شکنی کی صورتیں: کسی کی صلاحیتوں کا اعتراف نہ کرنا،
کسی کی پہلی غلطی پر ہی اسے ناکام قراردے دینا، اچھی کارکردگی پر حوصلہ افزائی نہ
کرنا، کسی کا دوسرے سے بلاضرورت تقابل کر کے حوصلہ شکنی کرنا، کسی کی اچھی
کارکردگی توجہ سے نہ سننا اور اچھے تاثرات نہ دینا وغیرہ کئی ایسے طریقے ہیں جو
ہمارے معاشرے میں پائے جاتے ہیں۔
حوصلہ شکنی کے نقصانات: کسی کی حوصلہ شکنی کرنے سے احساس
کمتری، مایوسی، نا امیدی، ڈپریشن اور ناکامی وغیرہ جیسے امور پروان چڑھتے ہیں، اس
سے اردگرد کا ماحول خراب ہوتا ہے، جسکی حوصلہ شکنی کی جاتی ہیں وہ کسی سے مسائل
شیئر نہیں کرپاتا اور آگے بڑھنے سے گھبراتا ہے۔
حوصلہ
شکنی کے نقصانات سے بچنے کے لیے ان طریقوں کو اپنانا مفید ہے:
1)اپنے
دل سے ناکامی اور حوصلہ شکنی کا ڈر نکال دیجیے۔
2)
اپنے دل کو بڑا رکھیے تاکہ آپ آگے بڑھنے سے نہ رکیں۔
3)
خود کو مضبوط کیجیے کہ آپ کی کوئی حوصلہ شکنی کرنے سے پہلے سوچے ساتھ رب تعالیٰ سے
کامیابی کی دعا بھی کرتے رہیے۔
4)
مایوس نہ ہوں بلکہ آگے بڑھنے کی کوشش کریں ان شاء اللہ الکریم کامیابی آپ کے قدم
چومے گی۔
5) یہ
سوچیں کہ حوصلہ شکنی صرف میری نہیں ہوئی۔
اس
طرح کے کئی واقعات کتابوں میں موجود ہیں، مثلاً پیارے آقا ﷺ کی کفار کی طرف سے
کیسی کیسی حوصلہ شکنی کی گئی کہ آپ پر پتھر برسائے گئے، آپکو اللہ کی راہ میں خوب
ستایا گیا تاکہ آپ دین کے کام سے پیچھے ہٹ جائیں لیکن
پیارے آقا ﷺ نے بڑی ہمت اور حوصلے سے حالات کا مقابلہ فرمایا اور دین کا کام جاری
رکھا جنہیں سن کر عقلین حیران رہ جاتی ہیں۔ اسکے علاوہ صحابہ کرام علیہم الرضوان
کو دین اسلام کی راہ میں حوصلہ شکن رویوں کا سامنا کرنا پڑا جیسے کسی کے باپ نے اس
پر ظلم کیا، تو کسی کو تپتی ریت پر لٹا کر سینے پر وزن رکھ دیا گیا، کسی کو کھانا
پانی نہیں دیا گیا الغرض کئی ایسے واقعات ہیں لیکن اسکے باوجود صحابہ کرام نے دین
اسلام نہ چھوڑا اور کامیاب ہوگئے۔
صبر و
ہمت سے کام لینے والے کو کئی احادیث مبارکہ میں خوشخبری بھی دی گئی جیسا کہ حضرت
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: مسلمان کو جو
تکلیف، رنج، ملال اور اذیت و غم پہنچے، یہاں تک کہ اسکے پیر میں کوئی کانٹا ہی
چبھے تو اللہ تعالیٰ اس کے سبب ان کے گناہ مٹادیتا ہے۔ (بخاری، 4/3، حدیث: 5641)
اسی
طرح ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ پاک جسکے ساتھ
بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے تکالیف میں مبتلا کرتا ہے۔ (بخاری، 4/3، حدیث:
5645)
حوصلہ
شکنی نہ کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ اسکو سمجھایا ہی نہ جائے بلکہ
اچھے انداز میں پہلے اسے اسکی خوبیاں بتائی جائیں پھر احسن انداز میں اسے اسکی
خامیاں بتاکر سمجھایا جائے جیسا کہ
بزرگان دین کا طریقہ رہا ہے۔
جب
بھی کوئی شخص ناکامی کی طرف بڑھنے لگے یا غلط کام کرے تو اسکی حوصلہ شکنی کرنے کے
بجائے اسے
سمجھائے اسکی
غلطیوں کو چھپائے،
کہا
گیا ہے کہ کریم کی عادت یہ ہے کہ جب وہ قدرت پاتا ہے تو معاف کردیتا ہے اور جب کوئی
غلطی دیکھتا ہے تو اسے چھپاتا ہے۔ (دین و دنیا کی انوکھی باتیں، 1/442)
کسی
کے اچھے کام میں حوصلہ افزائی کرنے سے اس میں مزید آگے بڑھنے کی لگن پیدا ہوتی ہے
جبکہ اسکے برعکس یعنی حوصلہ شکنی کرنے سے انسان رک جاتا ہے اور آگے بڑھنے سے بھی
کتراتا ہے اور اگر وہ کسی غلط کام کرنے کی طرف بڑھے تو اسے نرمی کے ساتھ سمجھائے کہ
سختی کرنے سے کام خراب ہوجاتا ہے۔
ہے فلاح و کامرانی نرمی و آسانی میں ہر بنا کام بگڑ جاتا ہے نادانی
میں
ناکام
شخص کو سمجھانے سے وہ سمجھ جائے یہ ضروری
نہیں کیونکہ ہر ایک کا مزاج الگ ہوتا ہے لہذا اس سے ایسا کلام کیا جائے کہ
سانپ بھی مرجائے اور
لاٹھی بھی نہ ٹوٹے منقول ہے کہ بولنے والے کا نشاط سننے والے کی توجہ کے مطابق
ہوتا ہے اور بولنے والے پر یہ لازم ہے کہ وہ سننے والے کی عقل کے مطابق کلام کرے۔
(دین و دنیا کی انوکھی باتیں، 1/281)
حوصلہ افزائی کے فوائد: کسی کی حوصلہ افزائی کرنے سے اس میں
مزید جذبہ بیدار ہوتا ہے، انسان بالآخر کامیاب ہوجاتا ہے، حوصلہ افزائی کرنے سے
انسان احساس کمتری، مایوسی وغیرہ میں مبتلا ہونے سے بچ جاتا ہے۔

حوصلہ
شکنی اس کا معنی ہے حوصلہ توڑنا کسی کے حوصلے کو توڑنا اچھی بات نہیں۔ اگر آپ کسی
کی حوصلہ افزائی نہیں کر سکتے تو ان کے حوصلے کو بھی نہ توڑے حوصلہ دینا ہمت دلانا
اچھی بات ہے دوسرے کا حوصلہ بنئے نہ کہ ان کے حوصلے کو توڑ دیں یاکمزور کر دیں۔
حضرت عیسیٰ
علیہ السلام ایک جگہ تشریف فرما تھے، قریب ہی ایک بوڑھا آدمی پہلے سے زمین کھود
رہا تھا۔ آپ نے بارگاہ الہی میں عرض کی: یعنی اے اللہ اس کی امید ختم کر دے!
اس
بوڑھے نے بیلچہ رکھا اور لیٹ گیا تھوڑی دیر گزری تو آپ نے پھر عرض کی: اے اللہ! اس
کی امید لوٹا دے! وہ بوڑھا شخص اٹھا اور کام میں مصروف ہو گیا آپ علیہ السلام نے
اس سے پوچھا تو کہنے لگا:میں کام کر رہا تھا کہ دل میں خیال آیا کہ تم بوڑھے ہو
چکے ہو کب تک کام کرو گے؟ اس لئے میں نے بیلچہ ایک جانب رکھا اور پھر میرے دل میں
آئی: جب تک تم زندہ ہو گزر بسر بھی تو کرنا ہے لہذا میں نے کھڑے ہو کر بیلچہ سنبھال
لیا۔ (احیاء العلوم، 5/198)
ہماری
زندگی میں امید کی حوصلے کی وہی اہمیت ہے جو جسم میں خون کی ہے۔ اگر انسان کا
حوصلہ ٹوٹ جائے تو لوگ اپنے کاروبار تعلیم اور دیگر کام کاج چھوڑ چھاڑ کر بیٹھ
جائیں جس کے نتیجے میں نظام زندگی تباہ ہو کر رہ جائے گا۔ شاید اسی لیے کہتے ہے:
امید اور حوصلے پر دنیا قائم ہے۔
جب
کوئی امید حوصلہ دلا کر پورا نہ کرے؟
اس
بات میں کوئی شک نہیں کہ امید انسان کو جینے کا حوصلہ دیتی ہے، آزمائشوں اور
مصیبتوں کو برداشت کرنے کی طاقت دیتی ہے، زندگی کو کامیابی کی شاہراہ پر گامزن رکھتی
ہے، لیکن بعض اوقات یہی امید انسان کو پریشان بھی کر دیتی ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے
کہ جب کوئی شخص تعاون کی بھر پور پیش کش کر کے آپ کی امید حوصلے کے چراغ، روشن کر
دے مثلا وہ آپ سے کہے: جب بھی کسی چیز کی ضرورت ہو بس مجھے اشارہ کر دینا میں
تمہیں لے دونگا۔ تمہارے بچے کا آپریشن ہے پیسوں کی طرف سے نہ گھر انا اسپتال کا
سارا بل میں ادا کروں گا تمہاری بیٹی کی شادی ہے تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں
جہیز کا سارا فلاں فلاں سامان میں لے کر دوں گا۔ اس طرح کی آفرز کے جواب میں ہم
اپنی ساری امیدیں اس شخص سے وابستہ کر لیتے ہیں پھر جب ان امیدوں کے عملی طور پر
پورے کرنے کا وقت آتا ہے تو وہ حیلے بہانے کر کے راہ فرار اختیار کر لیتے ہیں۔ پھر
وہ ہمیں گھر پر نہیں ملتا یا ہمارا فون ریسیو نہیں کرتا تو ہم ٹینشن میں آجاتے ہیں۔
اس
بارے میں ایک سبق آموز واقعہ بیان کرتی ہوں، چنانچہ ایک مسجد کے امام صاحب نے
بتایا کہ ان کے بھائی تلاش روزگار کے لیے پنجاب سے کراچی آئے، کئی جگہ رابطہ کیا
مگر بات نہیں بنی اس سے پہلے کہ مزید جگہوں پر کام کی تلاش کے لیے جاتے ان کے ایک
واقف کار کا راولپنڈی سے فون آیا جنہوں نے بڑا زور دے کر کہا کہ تمہارے لیے یہاں
کام ریڈی ہے بس تم پہنچ جاؤ۔ انہوں نے کئی بار کنفرم کیا کہ واقعی کام ہے؟ جواب
یہی ملتا کہ پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں بس تم پہنچو وہ کراچی سے راولپنڈی روانہ
ہو گئے کم و بیش 22 گھنٹے کے بعد راولپنڈی پہنچے اور وہاں جا کر اس شخص کو فون کیا
کافی دیر بعد رابطہ ہوا تو اس نے یوٹرن لے لیا کہ ابھی یہ پرابلم ہے وہ پر ابلم ہے
تھوڑا ٹائم لگے گا یہ اس کی باتوں میں آئے تو 9، 8 دن راولپنڈی فارغ بیٹھے رہے
دوسری طرف وہ آج کل، آج کل کرتا رہا، بالآخر جب ان کو کوئی امید نظر نہ
آئی تو وہ واپس لوٹ آئے۔ (ماہنامہ فیضان مدینہ جون 2021، ص 26)
جیسا
کہ امام صاحب کے بھائی کے دوست نے خود ہی امید دلائی حوصلہ افزائی کی کہ کام کی
وجہ سے پریشان نہ ہو پھر ان کی امید کو حوصلے کو توڑ دیا۔ ایسا نہیں کرنا چاہیے کہ
کسی کے حوصلے کو توڑ دیں۔

ہماری
معاشرتی زندگی میں خوبیوں کے ساتھ ساتھ کمزوریاں بھی موجود ہوتی ہیں جن میں سے ایک
کمزوری حوصلہ شکنی بھی ہے۔
حوصلہ شکنی کے نقصانات:
1۔
حوصلہ افزائی سے مثبت سوچ پروان چڑھتی ہے جبکہ حوصلہ شکن رویوں سے منفی سوچ پیدا ہوتی
ہے جس کی وجہ سے معاشرتی و نفسانی نقصانات ہوتے ہیں مثلاً ناامیدی، احساس کمتری،
ڈپریشن اور ناکامی کا خوف پھیلتا ہے۔
2۔ حوصلہ
شکنی ایک ایسا منفی رویہ ہے جو کسی فرد یا معاشرے کی ترقی اور کامیابی کی راہ میں
رکاوٹ بنتا ہے یہ ایک ایسی کیفیت ہے جو کیسی انسان کے عزائم اور ارادوں کو کمزور
کردیتی ہے اور اسے اپنی صلاحیتوں پر شک ہونے لگتا ہے خاص کر حوصلہ شکنی کسی ایسے
موقع پر ہو جب انسان کسی مشکل یا چیلنج کا سامنا کررہا ہوتو دوسروں کی منفی باتیں
اور برے رویے اس انسان کے اندر مایوسی پیدا کردیتے ہیں۔
حوصلہ شکنی کے اسباب: حوصلہ شکنی کے کئی اسباب ہوسکتے ہیں جن
میں سے بعض اسباب آپ کے پیش خدمت کرنے کی کوشش کی گئی ہے:
1۔ ناقدرانہ رویہ:جب لوگ کسی کی محنت کو سراہنے کی بجائے
اس میں خامیاں تلاش کرنے لگتے ہیں تو یہ اس کی حوصلہ شکنی کا سبب بنتا ہے۔
2۔ خوداعتمادی کی کمی:اگر کسی کو اپنی صلاحیتوں پر اعتماد نہ
ہوتو وہ خود ہی اپنی حوصلہ شکنی کا شکار ہو سکتا ہے۔
3۔ مایوس کن الفاظ: جب والدین، اساتذہ اور دوست وغیرہ کسی
شخص سے کہتے ہیں کہ تم یہ کام نہیں کرسکتے یا تم ناکام ہوجاؤگے تو یہ الفاظ اس شخص
کی ہمت اور عزم کو توڑسکتے ہیں۔
حوصلہ شکنی کے اثرات: حوصلہ شکنی کے کئی اثرات بھی ہوسکتے
ہیں:
1۔ صلاحیتوں کا ضائع ہونا:حوصلہ شکنی انسان کو اپنی
صلاحیتوں کو اچھی طرح استعمال کرنے سے روک سکتی ہے۔
2۔معاشرتی ترقی میں رکاوٹ: اگرکوئی معاشرہ اجتماعی طور پر
حوصلہ شکنی کے رویے کو اختیار کرے تو یہ اس کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔
3۔ رشتوں میں بگاڑ: منفی رویوں اور حوصلہ شکنی کے برے
الفاظ سے رشتوں میں بگاڑ پیدا ہوسکتاہے۔
پیارے
آقا ﷺ کبھی کسی کی حوصلہ شکنی نہیں فرماتے تھے: حضورﷺ کو جب کسی کی بات پہنچتی جو
ناگوار گزرتی تو اس کا پردہ رکھتے ہوئے اس کی اصلاح کا یہ حسین اندازہوتاکہ ارشاد
فرماتے:یعنی لوگوں کو کیا ہوگیا جو ایسی بات کہتےہیں۔ (ابو داود، 4/ 328، حدیث: 4788)
فرمان
مصطفی ﷺ: مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے نہ وہ اس پر ظلم کرے اور نہ اسے بےیار و مددگار
چھوڑے اور نہ اس کی تحقیر کرے۔ (مسلم، ص 1064، حدیث: 6541)
یہ
احادیث مبارکہ ہمیں سکھاتی ہیں کہ ہمیں دوسروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہیے اور کبھی
بھی کسی کو مایوسی اور حوصلہ شکنی کا شکار نہیں ہونے دینا چاہیے۔
حوصلہ شکنی کے حل:
1۔حوصلہ
شکنی سے بچنے کے لیے ہمیں مثبت رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
2۔ دوسروں
کو کامیابی حاصل کرنے کاحوصلہ دیں ان کی محنت کو سراہیں اور خصوصاً بچوں کو
کامیابی حاصل کرنے پرتحائف وغیرہ دیں۔
3۔ ہر
کام کو ایک چیلنج کے طور پر دیکھیں اور خود پر اعتماد رکھیں کہ آپ کرسکتے ہیں
اوراگر ناکامی ہو بھی جائے تو اس سے سیکھنے کی کوشش کریں۔
4۔ اچھی
صحبت اختیارکرنا۔ ایسے لوگوں کے ساتھ وقت گزاریں جوآپ کوکامیابی حاصل کرنے کی
تحریک دیں۔
5۔ دعااورتوکل:کوشش
کرنےکےساتھ ساتھ اللہ عزوجل سےدعاکرتےرہیں اور دعا کے ذریعے اپنے دل کو مضبوط کریں۔
حوصلہ
شکنی ایک ایسا عمل ہے جو نہ صرف انفرادی بلکہ معاشرتی نقصانات کاسبب بن سکتی ہے۔لہذا
ہمیں چاہیےکہ مثبت رویے اپنائیں دوسروں کو کامیابی کی طرف بڑھنے میں مدد فراہم کریں۔
اللہ پاک نے ہر انسان کومختلف صلاحیتوں سے نوازا ہے لہذا اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال
کریں۔ اسلام آسان ہے اور آسانی کو پسند کرتا ہے لہذا ہمیں دوسروں کے لیے آسانیاں
پیدا کرنی چاہئیں۔
اللہ
ہمیں دوسروں کی حوصلہ شکنی کرنے سے بچنے اور حوصلہ افزائی کرنے کی توفیق عطا
فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبین ﷺ

حوصلہ شکنی کے نقصانات: حوصلہ افزائی سے مثبت سوچ پروان چڑھتی
ہے جبکہ حوصلہ شکنی رویوں میں منفی سوچ پیدا کرتی ہے۔جس کی وجہ سے معاشرتی و
نفسیاتی نقصانات ہوتے ہیں مثلاً ناامیدی احساس کمتری ڈپریشن ذہنی انتشار اور
ناکامی کا خوف پھیلتا ہے گھر دفتر ادارے اور کلاس روم کا ماحول خراب ہوتا ہے جس کی
آپ حوصلہ شکنی کرتے ہیں وہ آئندہ آپ کے قریب انے سے کتراتا ہے اور آپ سے اپنے
مسائل شیئر کرنا چھوڑ دیتا ہے۔
میں
آپ کے سامنے چند سورتیں اور مثالیں رکھتی ہوں کہ کس کس طرح سے حوصلہ شکنی ہو سکتی
ہے:
1۔
اچھی کارکردگی پر حوصلہ افزائی نہ کرنا۔
2۔ کوئی
کیسے ہی عمدہ کوشش کرے اس کے ہر کام میں کیڑے نکالنا پھر خود کو ماہر نقاد قرار
دینا۔
3۔ ایک
فیلڈ میں غلطی کرنے پر ہر فیلڈ کے لیے مس فٹ قرار دے دینا۔
4۔ مختلف
تبصرے کرنا تو نہیں پڑھ سکتی تجھ سے نہیں ہوگا۔تیرے بس کی بات نہیں۔
5۔ کسی
کی پہلی غلطی پر مکمل ناکام قرار دینا۔ ایسوں کو سوچنا چاہیے کہ انسان بچپن میں
پہلا قدم اٹھاتے ہی دوڑنے کے قابل نہیں ہوتا بلکہ گرتا ہے پھر اٹھتا ہے اور ایک
وقت آتا ہے کہ وہ دوڑنا شروع کر دیتا ہے۔
6۔ کسی
کی معذرت قبول نہ کرنا بلکہ بہانہ قرار دے دینا۔
7۔ دوسروں
کے سامنے اپنے بچے کی صرف خامیاں ہی بیان کرنا۔
اس
طرح کے بہت سے انداز اور رویے ہیں جو خود ہماری ذات میں یا ہمارے ارد گرد پائے
جاتے ہیں۔
ہمیں غور
کرنا چاہیے کہ آج تک ہماری وجہ سے کتنے لوگوں کی حوصلہ شکنی ہو چکی ہے بلکہ بعضوں
کی دل ادارے بھی ہوتی ہوگی۔
امیر
اہل سنت دامت برکاتہم العالیہ نے استاتذہ کو نصیحت فرمائی ہے کہ کسی طالب علم کو
یہ نہ کہیں کہ تم نہیں پڑھ سکتے پھر وہ واقعی ہی نہیں پڑھ سکتے کیونکہ وہ سوچے گا
کہ جب مجھے پڑھانے والے استاد نے یہ کہہ دیا تو میں کبھی نہیں پڑھ سکتا۔
انسان
کو زندگی میں حوصلہ افزائی کرنے والے اور حوصلہ شکنی کرنے والے دونوں قسم کے لوگ
سے واسطہ پڑتا ہے البتہ یہ ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم حوصلہ شکنی کے جواب میں کیا
کرتے ہیں تھک ہار کر گر جاتے ہیں یا پھر مزید جذبے کے ساتھ کامیابی کی تلاش میں
نکل کھڑے ہوتے ہیں اگر ہم بھی اپنی سوچ مثبت بنا لیں اور کوئی کتنی ہی حوصلہ شکنی
کرے اس کی سنی ان سنی کر دے اور کامیابی کے لیے مزید محنت اور کوشش کریں تو اللہ
کی رحمت سے ایک دن آئے گا کہ حوصلہ شکنی کرنے والے ہماری کامیابی دیکھ کر حیران رہ
جائیں گے۔
حوصلہ
شکنی کے منفی اثرات اور نقصانات سے بچنے کے لیے:
1۔
جہاں سے حوصلہ افزائی کی امید ہو وہاں سے حوصلہ شکنی ہو جائے تو خود کو سنبھالنا
بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ اپنا مزاج دریا کی طرح بنا لیجئے جو رکتا نہیں ہے بلکہ
پتھروں اور چٹانوں کے درمیان سے راستہ بنا کر چلتا رہتا ہے۔
2۔ حوصلہ
شکنی میں بعض دفعہ قصور اپنا بھی ہوتا ہے کہ بعض اوقات کوئی شخص ناکامیوں کے
باوجود ہماری حوصلہ افزائی کر رہا ہوتا ہے کامیابی کے لیے گائیڈ لائن دے رہا ہوتا
ہے لیکن ہم ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں ایسا شخص تنگ آ کر جب
تنقید کرتا ہے تو ہم رونا شروع کر دیتے ہیں کہ جی ہماری حوصلہ شکنی ہو رہی ہے ایک
لمحے کے لیے سوچیں اس حوصلہ شکنی کا قصوروار کون ہے وہ یا آپ؟
3۔ ضروری
نہیں کہ ہماری حوصلہ شکنی دوسرے ہی کریں کبھی کبھی ہم خود بھی اپنی حوصلہ شکنی
کرتے ہیں وہ اس طرح کہ ہم دوسروں سے اپنی منزل تقابل کرتے ہیں اپنی فیلڈ کی خوبیوں
پر نظر کرنے کے بجائے دوسروں کے شعبے سے متاثر ہو جاتے ہیں غیر حقیقی توقعات
باندھتے ہیں غلط فیصلے کثرت سے کرتے ہیں اجتماعی کام کے لیے درست افراد نہیں چنتے
پھر جب نتیجہ مایوس کن نکلتا ہے تو دل ہار کر بیٹھ جاتے ہیں اس سے بھی بچے۔
ہمارے
مکی مدنی آقا ﷺ کی کفار کی طرف سے کیسی کیسی حوصلہ شکنی کی گئی!(معاذاللہ) مجنون
کہہ کر پکارا گیا۔ یہی نہیں بلکہ بعض رشتہ دار مخالفت پر اتر آئے جن میں ابو لہب
جو آپ کا چچا تھا پیش پیش تھا تین سال تک آپ کا اور خاندان والوں کا سوشل بائیکاٹ
کیا گیا اس دوران آپ شعب ابی طالب نام کے علاقے میں محصور رہے سجدے کی حالت میں
اونٹنی کی بچہ دانی مبارک کمر پر رکھ دی گئی طائف کے سفر میں نادانوں نے پتھر
برسائے مشرکین مکہ کے ناروا سلوک کی وجہ سے آپ کو اپنا شہر میلاد مکہ مکرمہ چھوڑ
کر مدینہ منورہ جانا پڑا آپ کو اتنا ستایا گیا کہ فرمایا اللہ کی راہ میں میں سب
سے زیادہ ستایا گیا ہوں۔ (ترمذی، 4/213، حدیث:2480)
لیکن
آپ نے اس ہمت اور صبر سے حالات کا مقابلہ کیا کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔
جدید ایجادات
میں ہوائی جہاز کو دیکھ لیجئے کہ تیز ترین ٹیکنالوجی کی بدولت اس کے ذریعے سفر کتنی
جلدی اور آسانی سے طے ہو جاتا ہے اس میں کیسی کیسی سہولتیں میسر ہوتی ہیں آپ کا
کیا خیال ہے کہ جب اس کا بنیادی آئیڈیا سوچنے والے لوگوں نے اپنا خیال شیئر کیا ہو
تو لوگوں نے ان کی حوصلہ افزائی کی ہو گی یہ نہیں کہ ان کی حوصلہ شکنی کی کہ دماغ
تو ٹھیک ہے کہ ہماری بنائی ہوئی چیزیں اب ہوا میں اڑیں گی وہ بھی لوہے کی۔۔
ہمیں
بھی چاہیے کہ ہم لوگوں کی حوصلہ افزائی کریں نہ کہ حوصلہ شکنی۔۔

ہماری
سوشل لائف میں خوبیوں کے ساتھ ساتھ بہت سی کمزوریاں بھی موجود ہیں، جن میں سے ایک حوصلہ
شکنی بھی ہے۔ یاد رکھئے! ہماری تھپکی کسی کو پہاڑ پر چڑھنے کا حوصلہ بھی دے سکتی
ہے جبکہ ایک دل شکنی کسی کو کھائی میں گرا سکتی ہے۔ کسی کی زندگی سنوارنے کیلئے
بہت محنت کرنا پڑتی ہے اور مشکلوں سے گزرنا پڑتا ہے جبکہ بگاڑنا بہت آسان ہے صرف
اس کی ہمت توڑنے کی دیر ہوتی ہے، اسی کو حوصلہ شکنی کہتے ہیں۔
حوصلہ
شکنی کیسے ہوتی ہے؟ میں آپ کے سامنے چند صورتیں اور مثالیں رکھتی ہوں کہ کس کس طرح
سے حوصلہ شکنی ہوسکتی ہے، چنانچہ
(1)اچھی
کارکردگی پر حوصلہ افزائی نہ کرنا (2)کوئی کیسی ہی عمدہ کوشش کرے اس کے ہر کام میں
کیڑے نکالنا، پھر خود کو ماہر نقاد قرار دینا (3)مختلف تبصرے (Comments)
کرنا:تو نہیں پڑھ سکتا، تجھ سے نہیں ہوگا، تیرے بس کی بات نہیں، تم نکمے ہو، نااہل
ہو، تمہارے دماغ میں بھس بھرا ہوا ہے وغیرہ (4)کسی کی پہلی غلطی پر مکمل ناکام
قرار دے دینا، ایسوں کو سوچنا چاہئے کہ انسان بچپن میں پہلا قدم اٹھاتے ہی دوڑنے
کے قابل نہیں ہوجاتا بلکہ گرتا ہے پھر اٹھتا ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ وہ دوڑنا
شروع کردیتا ہے (5)کسی کی معذرت (Excuse) قبول نہ کرنا بلکہ بہانہ قرار دے دینا
(6)دوسروں کے سامنے اپنے بچّے کی صرف خامیاں ہی بیان کرنا وغیرہ۔
ضروری
نہیں کہ ہماری حوصلہ شکنی دوسرے ہی کریں کبھی کبھی ہم خود بھی اپنی حوصلہ شکنی
کرتے ہیں وہ اس طرح کہ ہم دوسروں سے اپنامنفی تقابل کرتے ہیں، اپنی فیلڈ کی خوبیوں
پر نظر کرنے کے بجائے دوسروں کے شعبے سے متأثر ہوجاتے ہیں، غیرحقیقی توقعات
باندھتے ہیں، غلط فیصلے کثرت سے کرتے ہیں، اجتماعی کام کے لئے درست افراد نہیں
چنتے، پھر جب نتیجہ مایوس کن نکلتا ہے تو دل ہار کر بیٹھ جاتے ہیں، اس سے بھی
بچئے۔
حوصلہ شکنی کی نحوست: کسی ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ میں
ایک ایسے شخص کو جانتا ہوں جو نہایت شاندار کام سرانجام دے سکتا تھا لیکن وہ زندگی
بھر کوئی نمایا ں کام محض اس وجہ سے نہ کرسکا کہ جب وہ بچہ تھا تو بار بار اس کی
حوصلہ شکنی کی جاتی اور اسے بے وقوف ہو، احمق ہو، کی آوازوں سے واسطہ پڑتا رہتا
تھا۔ اس کا بیان ہے کہ جب کوئی اہم کام اسے ملتا تواس کی کمزوری کی تصویر اس کے
ذہن کے پردے پر کھنچ جاتی اور یوں وہ محسوس کرتا کہ وہ اس کی اہلیت و قابلیت نہیں
رکھتا۔اس طرح حوصلہ شکنی کی نحوست کے سبب وہ اپنی زندگی میں کوئی نمایاں کام نہ
کرسکا۔
حوصلہ شکنی کے نقصانات: حوصلہ افزائی سے مثبت سوچ پروان چڑھتی
ہے جبکہ حوصلہ شکن رویوں سے منفی سوچ پیدا ہوتی ہے جس کی وجہ سے معاشرتی و نفسیاتی
نقصانات ہوتے ہیں، مثلاً ناامیدی، احساس کمتری، ڈپریشن، ذہنی انتشار، پست ہمتی،
ناکامی کا خوف پھیلتا ہے۔ گھر دفتر، ادارے اور کلاس روم کا ماحول خراب ہوتا ہے۔ جس
کی آپ حوصلہ شکنی کرتے ہیں وہ آئندہ آپ کے قریب آنے سے کتراتا ہے اور آپ سے اپنے
مسائل شیئر کرنا چھوڑ دیتا ہے۔
حضرت
علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اہانت اور تحقیر کیلئے زبان
یا اشارات یا کسی اور طریقے سے مسلمان کا مذاق اڑانا حرام و گناہ ہے کیونکہ اس سے
ایک مسلمان کی تحقیر اور اس کی ایذاء رسانی ہوتی ہے اور کسی مسلمان کی تحقیر کرنا
اوردکھ دینا سخت حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ (جہنم کے خطرات، ص 173)
حضرت
فضیل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: کتے اور سور کو بھی ناحق ایذا دینا حلال نہیں تو
مؤمنین و مؤمنات کو ایذا دینا کس قدر بدترین جرم ہے۔ (مدارک، ص 950)
حوصلہ
شکنی سے بچنے کا مطلب یہ نہیں کہ کسی کو سمجھایا ہی نہ جائے یا اس کی غلطی کی
نشاندہی نہ کی جائے کہ وہ آئندہ اس سے بچ سکے، اس کا طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ پہلے
اس کے کام کی سچی خوبیاں شمار کروا کر حوصلہ افزائی کردی جائے پھر مناسب الفاظ میں
خامیوں اور غلطیوں کی نشاندہی کردی جائے۔
آقا ﷺ
کو جب کسی کی بات پہنچتی جوناگوار گزرتی تو اس کا پردہ رکھتے ہوئے اس کی اصلاح کا
یہ حسین انداز ہوتاکہ ارشاد فرماتے:یعنی لوگوں کو کیا ہو گیاجو ایسی بات کہتے ہیں۔
(ابو داود، 4/ 328، حدیث: 4788)

آج کل
عمومی طور پر ہمارے معاشرے میں حوصلہ شکنی کی فضا بنی ہوئی ہے ایک دوجے کی حوصلہ
شکنی کی جا رہی ہے کسی کے اچھے کام کرنے پر حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی کسی سے
تھوڑی سی غلطی کیا ہو جائے خوب ڈانٹ دیا جاتا ہے اور سب کے سامنے رسوا کر دیا جاتا
ہے حوصلہ شکنی سے صلاحیتوں کو باور نہیں کرایا جا سکتا۔بلکہ حوصلہ افزائی سے
انسانوں کی صلاحیتیں اجاگر ہوتی ہیں دنیاوی اور دینی کام کرنے میں ان کا جذبہ
بڑھتا ہے جبکہ حوصلہ شکنی سے صلاحتیں دب جاتی ہیں برباد ہو جاتی ہیں ضائع ہو جاتی
ہیں حوصلہ افزائی کا ایک پیارا انداز کے بچوں کو اچھے اچھے القابات سے پکارا کریں۔
اکثر
دیکھنے میں آتا ہے کہ وہ بچہ جس کو گھر سکول یا دونوں جگہوں سے حوصلہ افزائی ملتی
ہے وہ بہتر تعلیمی کارکردگی دکھاتے ہیں اور دوسری طرف وہ بچے جن کو کم حوصلہ
افزائی ملتی ہے وہ پیچھے رہ جاتے ہیں اگر ہم تھوڑا کچھ لکھے پڑھے لوگ خود اپنی
تعلیمی سفر کے بارے میں سوچیں گے تو یہ بات ضرور ذہن میں آئے گی کئی سفر کو جاری
رکھنے اور تعلیم کے ساتھ دلچسپی برقرار رکھنے میں خاندان یا معاشرے کے کسی فرد یا
افراد کی طرف سے حوصلہ افزائی کا عمل دخل ضرور یاد آئے گا ہمیں ان لوگوں کا شکر
گزار ہونا چاہیے۔
ہمارے
ہاں حوصلہ افزائی ایسے طالب علموں کی ہوتی ہے جن کی تعلیمی کارکردگی اچھی ہو جبکہ
ایسے تالب علم جن کی تعلیمی حالت قدر کمزور ہو حوصلہ افزائی کے حقدار نہیں پاتے
کیونکہ ان کے لیے اس کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی حالانکہ حوصلہ افزائی کے ذریعے آگے
لانے کی زیادہ ضرورت دوسری صورت میں ہوتی ہے نیز اکثر گھروں میں ایسے بچوں کے لیے
ماحول خوش گوار نہیں ہوتا مثلا ہم اکثر یہ الفاظ والدین سے سنتے ہیں کہ فلاں بچہ
کمزور ہے فلاں بچہ نالائق ہے وہ کچھ نہیں کر سکتا وغیرہ ایسے الفاظ بچوں کی ذہنی
نشوونما کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیم سے بھی دوری کی طرف لے جاتے ہیں یہ نہیں
سمجھتے کہ ہر بچے کی اپنی خوبیاں اور خامیاں ہوتی ہیں اور بار بار کمزور پہلوں کو
سامنے لاتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح سے بچے میں مثبت تبدیلی لائیں گے اور وہ
نہیں سمجھتے کہ اس سے بچے کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے اور وہ پڑھائی سے دور ہو جاتا
ہے۔
حوصلہ شکنی کے نقصانات: حوصلہ افزائی سے مثبت سوچ پروان چڑھتی
ہے جبکہ حوصلہ افزائی سے مثبت سوچ پروان چڑھتی ہے جبکہ حوصلہ شکنی سے رویوں میں
منفی سوچ پیدا ہوتی ہے جس کی وجہ سے معاشرتی نفسیاتی نقصانات ہوتے ہیں مثلا نا
امیدی احساس کمتری ڈپریشن ذہنی انتشار ناکامی کا خوف پڑتا ہے گھر دفتر ادارے اور
کلاس روم کا ماحول خراب ہوتا ہے جس کی آپ حوصلہ شکنی کرتے ہیں وہ آئندہ آپ کے قریب
آنے سے کتراتا ہے اور آپ سے اپنے مسائل شیئر کرنا چھوڑ دیتا ہے۔
حوصلہ
شکنی سے بچنے کا مطلب یہ نہیں کہ کسی کو سمجھایا ہی نہ جائے یا کسی کی غلطی کی
نشاندہی نہ کی جائے کہ وہ آئندہ اس سے بچ سکے اس کا طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ پہلے
اس کے کام پہ سچی خوبیاں شمار کروا کر حوصلہ افزائی کر دی جائے پھر مناسب الفاظ
میں خامیاں اور غلطیوں کی نشاندہی کی جائے پیارے آقا ﷺ کو جب کسی کی بات ناگوار
گزرتی تو اس کا پردہ رکھتے ہوئے اس کی اصلاح کا یہ حسین انداز ہوتا کہ ارشاد
فرماتے یعنی لوگوں کو کیا ہو گیا جو ایسی بات کہتے ہیں۔(ابو داود، 4/ 328، حدیث: 4788)

حوصلہ
شکنی ایک ایسا منفی رویہ ہے جو کسی فرد یا معاشرے کو ترقی اور کامیابی سے محروم کر
دیتا ہے۔ یہ ایک ایسی کیفیت ہے جو کسی انسان کے عزائم اور ارادوں کو کمزور کر دیتی
ہے، اور اسے اپنی صلاحیتوں پر شک کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ حوصلہ شکنی اکثر ایسے
مواقع پر ظاہر ہوتی ہے جب انسان کسی مشکل یا چیلنج کا سامنا کر رہا ہو اور دوسروں
کی منفی باتیں یا رویے اس کے اندر مایوسی پیدا کر دیں۔
حوصلہ شکنی کے اسباب: حوصلہ شکنی کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں۔
ان میں شامل ہیں:
1 ناقدانہ رویہ: جب لوگ کسی کی محنت کو سراہنے کے بجائے
اس میں خامیاں تلاش کرتے ہیں تو یہ حوصلہ شکنی کا سبب بنتا ہے۔
2 مایوس کن الفاظ: جب والدین، اساتذہ، یا دوست کسی شخص کو
تم یہ نہیں کر سکتے یا تم ناکام ہو جاؤ گے جیسے الفاظ کہتے ہیں، تو یہ الفاظ کسی
کے عزم کو توڑ سکتے ہیں۔
3 معاشرتی دباؤ: کچھ اوقات انسان معاشرتی توقعات کو
پورا نہ کر پانے کی وجہ سے حوصلہ شکنی محسوس کرتا ہے۔
4 خود اعتمادی کی کمی: اگر کسی کو اپنی صلاحیتوں پر اعتماد نہ
ہو تو وہ خود ہی اپنی حوصلہ شکنی کا شکار ہو سکتا ہے۔
حوصلہ شکنی کے اثرات: حوصلہ شکنی کے کئی منفی اثرات ہو سکتے
ہیں:
1 مایوسی اور اداسی: حوصلہ شکنی انسان کو مایوس کر کے ذہنی
دباؤ کا شکار بنا سکتی ہے۔
2 صلاحیتوں کا زیاں: یہ انسان کو اپنی مکمل صلاحیتیں
استعمال کرنے سے روک سکتی ہے۔
3 رشتوں میں دراڑ: منفی رویے اور الفاظ رشتوں کو متاثر کر
سکتے ہیں۔
4 معاشرتی ترقی میں رکاوٹ: اگر ایک معاشرہ مجموعی طور پر
حوصلہ شکنی کے رویے اپنائے، تو یہ اس کی ترقی کے راستے میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔
حوصلہ شکنی کے حل: حوصلہ شکنی کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں
مثبت رویے اپنانے کی ضرورت ہے:
1 حوصلہ افزائی کریں: دوسروں کو کامیابی کے لیے حوصلہ دیں
اور ان کی محنت کو سراہیں۔
2 مثبت سوچ پیدا کریں: ہر کام کو ایک چیلنج کے طور پر دیکھیں
اور اس سے سیکھنے کی کوشش کریں۔
3 اچھی صحبت اختیار کریں: ایسے لوگوں کے ساتھ وقت گزاریں
جو آپ کو بہتر بننے کی تحریک دیں۔
4 دعا اور توکل: اللہ پر بھروسہ رکھیں اور دعا کے ذریعے
دل کو مضبوط کریں۔