حوصلہ شکنی اس کا معنی ہے حوصلہ توڑنا کسی کے حوصلے کو توڑنا اچھی بات نہیں۔ اگر آپ کسی کی حوصلہ افزائی نہیں کر سکتے تو ان کے حوصلے کو بھی نہ توڑے حوصلہ دینا ہمت دلانا اچھی بات ہے دوسرے کا حوصلہ بنئے نہ کہ ان کے حوصلے کو توڑ دیں یاکمزور کر دیں۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک جگہ تشریف فرما تھے، قریب ہی ایک بوڑھا آدمی پہلے سے زمین کھود رہا تھا۔ آپ نے بارگاہ الہی میں عرض کی: یعنی اے اللہ اس کی امید ختم کر دے!

اس بوڑھے نے بیلچہ رکھا اور لیٹ گیا تھوڑی دیر گزری تو آپ نے پھر عرض کی: اے اللہ! اس کی امید لوٹا دے! وہ بوڑھا شخص اٹھا اور کام میں مصروف ہو گیا آپ علیہ السلام نے اس سے پوچھا تو کہنے لگا:میں کام کر رہا تھا کہ دل میں خیال آیا کہ تم بوڑھے ہو چکے ہو کب تک کام کرو گے؟ اس لئے میں نے بیلچہ ایک جانب رکھا اور پھر میرے دل میں آئی: جب تک تم زندہ ہو گزر بسر بھی تو کرنا ہے لہذا میں نے کھڑے ہو کر بیلچہ سنبھال لیا۔ (احیاء العلوم، 5/198)

ہماری زندگی میں امید کی حوصلے کی وہی اہمیت ہے جو جسم میں خون کی ہے۔ اگر انسان کا حوصلہ ٹوٹ جائے تو لوگ اپنے کاروبار تعلیم اور دیگر کام کاج چھوڑ چھاڑ کر بیٹھ جائیں جس کے نتیجے میں نظام زندگی تباہ ہو کر رہ جائے گا۔ شاید اسی لیے کہتے ہے: امید اور حوصلے پر دنیا قائم ہے۔

جب کوئی امید حوصلہ دلا کر پورا نہ کرے؟

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ امید انسان کو جینے کا حوصلہ دیتی ہے، آزمائشوں اور مصیبتوں کو برداشت کرنے کی طاقت دیتی ہے، زندگی کو کامیابی کی شاہراہ پر گامزن رکھتی ہے، لیکن بعض اوقات یہی امید انسان کو پریشان بھی کر دیتی ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے کہ جب کوئی شخص تعاون کی بھر پور پیش کش کر کے آپ کی امید حوصلے کے چراغ، روشن کر دے مثلا وہ آپ سے کہے: جب بھی کسی چیز کی ضرورت ہو بس مجھے اشارہ کر دینا میں تمہیں لے دونگا۔ تمہارے بچے کا آپریشن ہے پیسوں کی طرف سے نہ گھر انا اسپتال کا سارا بل میں ادا کروں گا تمہاری بیٹی کی شادی ہے تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں جہیز کا سارا فلاں فلاں سامان میں لے کر دوں گا۔ اس طرح کی آفرز کے جواب میں ہم اپنی ساری امیدیں اس شخص سے وابستہ کر لیتے ہیں پھر جب ان امیدوں کے عملی طور پر پورے کرنے کا وقت آتا ہے تو وہ حیلے بہانے کر کے راہ فرار اختیار کر لیتے ہیں۔ پھر وہ ہمیں گھر پر نہیں ملتا یا ہمارا فون ریسیو نہیں کرتا تو ہم ٹینشن میں آجاتے ہیں۔

اس بارے میں ایک سبق آموز واقعہ بیان کرتی ہوں، چنانچہ ایک مسجد کے امام صاحب نے بتایا کہ ان کے بھائی تلاش روزگار کے لیے پنجاب سے کراچی آئے، کئی جگہ رابطہ کیا مگر بات نہیں بنی اس سے پہلے کہ مزید جگہوں پر کام کی تلاش کے لیے جاتے ان کے ایک واقف کار کا راولپنڈی سے فون آیا جنہوں نے بڑا زور دے کر کہا کہ تمہارے لیے یہاں کام ریڈی ہے بس تم پہنچ جاؤ۔ انہوں نے کئی بار کنفرم کیا کہ واقعی کام ہے؟ جواب یہی ملتا کہ پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں بس تم پہنچو وہ کراچی سے راولپنڈی روانہ ہو گئے کم و بیش 22 گھنٹے کے بعد راولپنڈی پہنچے اور وہاں جا کر اس شخص کو فون کیا کافی دیر بعد رابطہ ہوا تو اس نے یوٹرن لے لیا کہ ابھی یہ پرابلم ہے وہ پر ابلم ہے تھوڑا ٹائم لگے گا یہ اس کی باتوں میں آئے تو 9، 8 دن راولپنڈی فارغ بیٹھے رہے دوسری طرف وہ آج کل، آج کل کرتا رہا، بالآخر جب ان کو کوئی امید نظر نہ آئی تو وہ واپس لوٹ آئے۔ (ماہنامہ فیضان مدینہ جون 2021، ص 26)

جیسا کہ امام صاحب کے بھائی کے دوست نے خود ہی امید دلائی حوصلہ افزائی کی کہ کام کی وجہ سے پریشان نہ ہو پھر ان کی امید کو حوصلے کو توڑ دیا۔ ایسا نہیں کرنا چاہیے کہ کسی کے حوصلے کو توڑ دیں۔

بعض اوقات کسی کی حالت یا ضرورت دیکھ کر ذہن بن جاتا ہے کہ میں اس کی ضرور مدد کروں گا ایسی صورت میں اس پر اپنے ارادے کا اظہار اسی وقت کرنا بہتر ہے جب آپ مدد کرنے کے قابل ہوں تاکہ عین وقت پر آپ کو ندامت نہ اٹھائی پڑے اور نہ ہی دوسرے کا حوصلہ ٹوٹے آپ کسی کو امید نہ دلائیں بلکہ بغیر کسی وعدے مطالبے اور جھوٹی امیدوں کے دوسروں کی حوصلہ افزائی فرمائیں۔