سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر حضور خاتم النبیین صلی الله علیہ وسلم تک جتنے انبیاءعلیہم السلام تشریف لائے اللہ پاک نے انبیائےکرام کی بعثت کے مقاصد کو اپنے کلام مقدس میں جگہ جگہ بیان فرمایا:1۔ لوگوں کو اللہ پاک کی عبادت اور اسکی وحدانیت کی طرف بلانا اور غیراللہ کی عبادت سے روکنا ہےاللہ پاک نے اس مقصد کو یوں بیان فرمایا: ترجمۂ کنزالعرفان:اور بیشک ہر امت میں ہم نے ایک رسول بھیجا کہ(اے لوگو!)اللہ کی عبادت کرواورشیطان سے بچو۔ (پ14 ، النحل:36)

انبیائے کرام مخلوق کے دلوں کو شرک جیسی غلاظتوں سے ستھرا کرنے والے ہیں: اس مقصد کو قرآنِ پاک میں یوں بیان فرمایا: ترجمۂ کنزالعرفان:وہ ان کے سامنے اللہ کی آیتیں تلاوت فرماتا ہے اورانہیں پاک کرتا ہے۔(پ4،اٰلِ عمرٰن:164)

لوگوں سے عذرکو ختم کرنا ہے اور حجت قائم کرنا ہے:قرآن پاک میں ہے:ترجمۂ کنزالعرفان:(ہم نے)رسول خوشخبری دیتے اورڈرسناتے(بھیجے) تاکہ رسولوں (کو بھیجنے)کے بعد اللہ کے یہاں لوگوں کے لئے کوئی عذر(باقی )نہ رہے۔(پ6،النساء:165)تفسیرصراط الجنان میں ہے:اس میں حکمت یہ ہے کہ انبیائے کرام کی تشریف آوری کے بعد لوگوں کو یہ کہنے کا موقع نہ مل سکے کہ اگرہمارے پاس رسول آتے تو ہم ضروران کاحکم مانتےاوراللہ پاک کے فرمانبردارہوتے۔(صراط الجنان ،ج2،ص359)

اللہ پاک نے قرآن کریم میں ارشادفرمایا:ترجمۂ کنزالعرفان:اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لئے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔(پ5 ،النساء:64)تفسیرصراط الجنان میں ہے: یہاں رسولوں کی تشریف آوری کا مقصد بیان کیا گیا ہے کہ اللہ پاک رسولوں کو بھیجتا ہی اس لئے ہے کہ اللہ کے حکم سے ان کی اطاعت کی جائے۔(صراط االجنان ،ج2،تحت الآیہ، ص 233)

جہالت کے اندھیروں کو ختم کرنا:جیسے قرآن پاک میں ہے:ترجمۂ کنزالعرفان:اورانہیں کتاب اورحکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ یہ لوگ اس سے پہلے یقیناًکھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔(پ28،الجمعۃ:2)

انبیاء علیہم السلام کی تشریف آوری کا ایک مقصد نیک اعمال پر ثواب کی بشارت اور برے اعمال پر عذاب سے ڈرانا:قرآن حکیم میں ہے : ترجمۂ کنزالعرفان:(ہم نے)رسول خوشخبری دیتے اورڈر سناتے(بھیجے)۔(پ6،النساء:165)

اللہ پاک نے لوگوں کی ہدایت کےلئے انبیائے کرام علیہم السلام کو بھیجا:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ترجمۂ کنزالعرفان:وہی(اللہ)ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا۔(پ10،التوبہ:33)

لوگوں کے درمیان اختلاف کو ختم کرکے ان کا فیصلہ فرمانے کے لئے اللہ پاک نے انبیاء کی بعثت فرمائی :جیسا کہ ہم اس آیت پاک میں مشاہدہ کرسکتے ہیں:ترجمہ کنزالعرفان:ان کے ساتھ سچی کتاب اتاری تاکہ وہ لوگوں کے درمیان ان کے اختلافات میں فیصلہ کردے ۔ (پ2 ،ا لبقرۃ : 213)

مرسلین کرام مخلوقِ خدا پرگواہ ہو جائیں کہ اللہ پاک نے کفار مکہ کو دنیا کے ہولناک عذاب سے ڈراتے ہوئے ارشاد فرمایا: ترجمۂ کنزالعرفان:بیشک ہم نے تمہاری طرف ایک رسول بھیجے جوتم پر گواہ ہیں۔(پ29،المزمل:15)

10۔انبیاءاللہ کی طرف سے مخلوق پررحمت ہیں: اس مقصد کو اللہ پاک نے اپنے کلام میں فصاحت و بلاغت کے ساتھ کچھ یوں بیان فرمایا:ترجمۂ کنزالعرفان:اورہم نے تمہیں تمام جہانوں کیلئےرحمت بنا کرہی بھیجا۔(پ17،الانبیاء:107)

اعلی حضرت فرماتے ہیں:

ڈرتھا کہ عصیاں کی سزا اب ہوگی یا روزجزا

دی ان کی رحمت نے صدا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں

)حدائق بخشش ،صفحہ:110)


بعث ىعنى بھىجنا۔ ظہور ِنبوت کو بعثت کہا جاتا ہے۔انبىا نبى کى جمع ہے۔ نبى اس بشر(ىعنى انسان) کو کہتے ہىں جس کى طرف اللہ پاک نے مخلوق کى ہداىت ور اہ نمائى کے لىے وحى بھىجى ہو اور ان مىں سے جو نئى شرىعت ىعنى اسلامى قانون اور خدائى احکام لے کر آئے اسے رسول کہتے ہىں۔انبىا علیہم السلام سب بشر تھے اور مرد تھے نہ کوئى جن نبى ہوا نہ کوئى عورت ۔اللہ پاک سورۂ ىوسف کى آىت نمبر109 مىں ارشاد فرماتا ہے:وما ارسلنا من قبلک الا رجالا ترجمہ:اور ہم نے تم سے پہلے جتنے رسول بھىجے سب مررہى تھے ۔ابوالبشر حضرت آدم علیہم السلام سے لے کر سردارِ انبىائے کرام،حضور سرورِ کائنات صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کى تشرىف آورى تک اس زمىن مىں جتنے بھى انبىائے کرام اور رسول علیہم السلام مبعوث ہوئے ان سب کى تشرىف آورى کا اصل مقصد اللہ پاک کى واحدنىت اوربڑائی کو بىان کرکے ان کو معرفت ىعنى پہنچانِ الہٰى کا درس دىنا تھا۔اللہ پاک کى پہچان انبىائے کرام علیہم السلام کے بىان کرنے سے حاصل ہوتى ہے صرف عقل سے ہى اس منزل تک پہنچنا مىسر ىعنى آسان نہىں ہوتا۔ اللہ پاک نے اپنى بارگاہ کی مقدس ہستىوں کو مخلوق کى طرف بھىجنے کى حکمتىں اور مقاصد قرآنِ پاک مىں بىان فرمائے ہىں۔ان مىں سے 10 درج ذىل ہىں:1۔ نبى ہونے کے لىے اس پر وحى ہونا ضرورى ہے۔وحى وہ خاص قسم کا کلام ہے جو کسى نبى پر اللہ پاک کى طرف سے نازل ہوا ہو خواہ فرشتہ کى معرفت سے ہو ىا بلاواسطہ نىز وحىِ نبوت انبىائے کرام علیہم السلام کے لىے خاص ہے۔ ارشادِ بارى ہے: وما کان لبشر ان یکلمہ اللہ الا وحیا اومن وراء حجاب او یرسل رسولا فیوحى باذنہ مایشآء انہ على حکیم0ترجمہ: اور کسى آدمى کے لىے ممکن نہىں کہ اللہ اس سے کلام فرمائے ، مگر وحى کے طور پر ىا ىوں کہ وہ( آدمى عظمت کے) پردے کے پىچھے ہو ىا ( ىہ کہ ) اللہ کوئى فرشتہ بھىجے تو وہ فرشتہ اس کے حکم سے وہى پہنچائے جو اللہ چاہے بے شک وہ بلندى والا حکمت والا ہے۔(الشورى ، آىت 51)2: انسانىت کو راہِ ہداىت عطا کرنے کے لىے رب کریم نے سلسلۂ انبىا قائم فرماىا ۔اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے۔:ولقد بعثنا فى کل امۃ رسولا ان اعبدو اللہ واجتنبو الطاغوت فمنھم من ھدی اللہ ومنھم من حقت علیہ الضللۃ فسیروا فی الارض فانظروا کیف کان عاقبۃ المکذبین0 ترجمہ: اور بے شک ہر امت مىں ہم نے اىک رسول بھىجا کہ ( اے لوگو) اللہ کى عبادت کرواور شىطان سے بچو تو ان مىں کسى کو اللہ نے ہداىت دے دى اور کسى پر گمراہى ثابت ہوگئى تو تم زمىن مىں چل پھر کر دىکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیسا انجام ہوا۔(النمل 36 آىت)3۔اللہ پاک کے حکم سےانبىا علیہم السلام کى اطاعت کى جائے: اللہ پاک فرماتا ہے:وما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن اللہترجمہ :اور ہم نے کوئى رسول نہ بھیجا مگر اس لئے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔(النساء:64) 4:یہ ایمان و اطاعت پر لوگوں کو جنت کی بشارت اور کفر ونافرمانی پر جہنم کی وعید سنادیں۔اللہ پاک فرماتا ہے: ومانرسل المرسلین الا مبشرین ومنذرین فمن امن و اصلح فلا خوف علیھم ولا ھم یحزنون0ترجمہ:اور ہم رسولوں کو اسى حال مىں بھىجتے ہىں کہ وہ خوشخبرى دىنے والے ڈر سنانے والے ہوتے ہىں تو جواىمان لائىں اور اپنى اصلاح کرلىں تو ان پر نہ کچھ خوف ہے اور نہ وہ غمگىن ہوں گے۔ (الانعام آىت 48)5۔ بارگاہِ الہى مىں لوگوں کے لىے کوئى عذر باقى نہ رہے۔اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:رسلاً مبشرین ومنذرین لئلایکون للناس على اللہ حجة بعد الرسول وکان اللہ عزیزا حکیما0 ترجمہ:(ہم نے) رسول خوشخبرى دىتے اور ڈر سناتے(بھىجے) تاکہ رسولوں ( کو بھىجنے) کے بعد اللہ کے ىہاں لوگوں کے لىے کوئى عذر( باقى) نہ رہے اور اللہ زبردست ہے حکمت والا ہے۔(النسا ء: 165)6: دىنِ اسلام کو دلائل اور قوت دونوں اعتبار سے دىگر تمام ادىان پر غالب کردىا جائے ۔اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:ھو الذى ارسل رسولہ بالھدىٰ ودین الحق لیظھرہ على الدین کلہ ولوکرہ المشرکون0 ترجمہ: وہى ہے جس نے اپنا رسول ہداىت اور سچے دىن کے ساتھ بھىجا تاکہ اسے تمام دىنوں پر غالب کردے اگرچہ مشرک ناپسند کرىں۔(التوبہ آىت 33)7۔ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اپنى امت کو قرآن اور شرعى احکام پہنچادىں:اللہ پاک نے ارشاد فرماىا:کذلک ارسلنک فى امة قد خلت من قبلھا امم لتتلواعلیہم الذى اوحینا الیک وھم یکفرون بالرحمن ترجمہ : اسى طرح ہم نے تمہىں اسى امت مىں بھىجا جس سے پہلے کئى امتىں گزرگئىں تاکہ تم انہىں پڑھ کر سناؤ جو ہم نے تمہارى طرف وحى بھىجى ہے، حالانکہ وہ رحمن سے منکر ہورہے ہىں۔(الرعد آىت30)8۔نبى کى تعظىم فرضِ عىن بلکہ اصلِ تمامِ فرائض ہے۔اللہ پاک ارشاد فرماىا ہے:انا ارسلنک شاھدًا ومبشراونذیر0لتؤمنوا باللہ رسولہ وتعزروہ وتوقروہ وتسبحوہ بکرۃ و اصیلا0ترجمہ : تاکہ ( اے لوگو) تم اللہ اور اس کے رسول پر اىمان لاؤ اور رسول کى تعظىم و توقىر کرو اور صبح و شام اللہ کى پاکى بىان کرو۔آخر مىں اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمىں انبىائے کرام علیہم السلام کے نقشے قدم پر چلنے کى توفىق عطا فرمائے۔اللھم امىن


1۔ خداوند عالم انبیا کر ام علیہم السلام کی بعثت کے متعلق سورۂ حدید کی پچیسویں آیت میں فرمایا ہے:ترجمہ:بیشک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا ہے تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں۔2۔ اللہ پاک سورة النحل کی آیت نمبر 36 میں فرماتا ہے:ترجمہ: ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ ( لوگو) صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو۔34۔ اللہ پاک سورۂ الکہف 1/56 میں فرماتا ہے :ترجمہ : ہم تو اپنے رسولوں کو صر ف اس لیے بھیجتے ہیں کہ وہ خوشخبریاں سنائیں اور ڈرادیں۔(4) ا للہ پاک نے آ پ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بارے میں فرمایا:سورۂ جمعہ 2:ترجمہ: وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں ان میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے، یقینا اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔قر آنِ کریم میں ار شاد ہوتا ہے:5: ترجمہ: یقینا تمہارے لیے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ ( موجود) ہے پھر اس شخص کے لیے جو اللہ پاک کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ پاک کی یاد کر تا ہے۔ ( الاحزاب 21)6۔ حضر ت نوح علیہ السلام کے بارے میں قرآن کہتا ہے:ترجمہ: ہم نےنوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو انہوں نے فرمایا: اے میری قوم !تم اللہ کی عبادت کرواس کے سوا کوئی تمہارا معبود ہونے کے قابل نہیں، مجھ کو تمہارے لیے ایک بڑے دن کے عذاب کا ااندیشہ ہے۔( اعراف 7، آیت 59)7۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں قرآن کہتا ہے:ترجمہ: پھر ان کے بعد ہم نے موسیٰ کو اپنے دلائل دےکر فرعون اور اس کے امراکے پاس بھیجا، مگر ان لوگوں نے ان کا بالکل حق ادا نہ کیا سو دیکھئے ان مفسدوں کا کیا انجام ہوگا۔( اعراف 7، آیت 103(8۔ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بعثت کے بارے میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے۔ترجمہ : یقیناً ہم نے تمہاری طرف حق کے سا تھ اسی کتاب نازل فرمائی تا کہ تم لوگوں میں اس چیز کے مطابق فیصلہ کرو جس سے اللہ نے تم کو شناسا کیا ہے اور خیانت کرنے والوں کے حمایتی نہ بنو۔(سورة النسا آیت 105)9۔ حضرت ہود علیہ السلام کے بارے میں قرآن کہتا ہے: ترجمہ: اور ہم نے قومِ عاد کی طرف ان کے بھائی ہود کو بھیجا، انہوں نے فرمایا: اے میری قوم ! تم اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا کوئی تمہار امعبود نہیں، سو کیا تم نہیں ڈرتے۔10۔ اللہ پاک قرآنِ پاک میں بھی ارشاد فرماتا ہے۔ترجمہ:ہم نے انہیں رسول بنایا ہے خوشخبری سنانے والے اور آگاہ کرنے والے تاکہ لوگوں کی کوئی حجت اور الزام رسولوں کے بھیجنے کے بعد اللہ پاک پر رہ نہ جائے، اللہ پاک بڑا غالب اور بڑا باحکمت ہے۔(سورة النسا 165)


اللہ پاک نے مخلوق کی راہ نمائی کے لیے ان کی طرف انبیا و رسولوں علیہم السلام کو بھیجا اور ان پر کتابیں نازل فرمائیں۔ تمام لوگوں پر ان کو فضیلت بخشی اور ان میں سے بعض کو بعض فضیلت عطا فرمائی ۔کچھ انبیا علیہم السلام کا ذکر قرآنِ پاک میں فرمایا کچھ کا نہیں فرمایا۔نبیوں میں سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری نبی، پیارے آقا،محمد مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ہیں۔اللہ پاک کی انبیائے کرام علیہم السلام کو معبوث فرمانے کی کئی حکمتیں قرآنِ پاک میں بیان ہوئیں ہیں۔ان میں سے 10 کا ذکر کرتی ہوں۔1:امتوں میں پیدا ہونے والے اختلاف کا فیصلہ کرنے کے لیے:ترجمۂ کنزالایمان: تمام لوگ ایک دین پر تھے تو اللہ نے انبیا بھیجے خوشخبری دیتے ہوئے اور ڈر سناتے ہوئے اور ان کے ساتھ سچی کتاب اتاری تاکہ وہ لوگوں کے درمیان ان کے اختلافات میں فیصلہ کردے۔ (پ2،البقرۃ:213)تفسیر : حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت نوح علیہ السلام تک لوگ مومن رہے پھر ان میں اختلاف نمودار ہوا۔ بعض مومن بعض کافر ہوئے پھر رب نے پیغمبر بھیجے۔(تفسیر نور العرفان)لوگوں کی عقلیں اور نظریات مختلف ہیں تو اللہ پاک نے انبیا علیہم السلام کو بھیجا تاکہ ان کے درمیان اختلاف کا فیصلہ کر دے۔2: اللہ پاک کی عبادت کا حکم دینے کے لیے:ترجمۂ کنزالایمان: اور بے شک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تو اس نے کہا اے میری قوم اللہ کو پوجو اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں تو کیا تم ڈر نہیں۔(سورۃ مومنون، آیت نمبر 23،پارہ 18)تفسیر: اس وقت تمام انسان آپ کی قوم تھے کیونکہ انسان بہت تھوڑے تھے۔ لہٰذا آدم علیہ السلام اس وقت کے تمام انسانوں کے نبی تھے۔(تفسیر نور العرفان ،ص808)3: اللہ پاک کے احکام بندوں تک پہنچانے کے لیے:اللہ پاک نے مخلوق کو اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا اور ان کیلئے امر و نہی پر مشتمل شریعت قائم کی،انبیا علیہم السلام کو اپنے اور اپنے بندوں کے درمیان واسطہ بنایا تاکہ یہ حضرات لوگوں تک احکام پہنچا دیں۔اب اگر انبیا علیہم السلام نہ ہوتے تو مخلوق گمراہ ہو جاتی اور وہ یہ نہ جان پاتے کہ عبادت کس طرح سے کرنی ہےاور کیا کام کرنے ہیں اور کن کاموں کو ترک کرنا ہے؟ ترجمۂ کنز الایمان:اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے ( انعام : 48)اس وجہ سے اللہ پاک نے مخلوق پر رسولوں کی اطاعت کو واجب کر دیا۔ (النور المبین صفحہ نمبر 53)اس آیت میں اللہ پاک نے واضح فرمایا کہ انبیا علیہم السلام کو لوگوں کو احکامِ الٰہی بجا لانے پر خوشخبری سنانے والا بھیجا اور جو پیروی نہ کریں ان کو ڈر سنا کر درست طریقہ عبادت کی طرف لانے والا بنا کر بھیجا اور تمام لوگوں پر اللہ پاک نے ان رسولوں کی اطاعت کرنا واجب کر دیا۔4:مخلوق پر حجت پوری ہو جائے:اللہ پاک نے انبیائے کرام علیہم السلام کو بھیجا تاکہ لوگوں پر حجت پوری ہوجائے اور ان کے عذر ختم ہو جائیں ۔اللہ پاک نے فرمایا:ترجمہ: اور ہم کسی کو عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک کوئی رسول نہ بھیج دیں۔(الاسراء:15) اور فرماتاہے:ترجمۂ کنز الایمان:رسول خوشخبری دیتے اور ڈر سناتے کہ رسولوں کے بعد اللہ کے یہاں لوگوں کو کوئی عذر نہ رہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔(النور المبین صفحہ 54)5:امت کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دینے کے لیے:ترجمۂ کنزالعرفان:جیسا کہ ہم نے تمہارے درمیان تم میں سے ایک رسول بھیجا جو تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں پاک کرتا اور کتاب اور پختہ علم سکھاتا ہے اور تمہیں وہ تعلیم فرماتا ہے جو تمہیں معلوم نہیں تھا۔تفسیر:آیت میں فرمایا:”اور تمہیں وہ تعلیم فرماتا ہے “سے مراد ہےقرآن اور احکام الہٰیہ جو ہم نہیں جانتے تھے وہ آپ ہمیں سکھاتے ہیں۔(تفسیر صراط الجنان، ص 274)6:تاکہ دین غالب آجائے:ترجمۂ کنزالایمان: اور سچے دین کے ساتھ بھیجا کہ اسے سب دینوں پر غالب کرے۔ (سورۃ التوبہ،آیت نمبر 32)اللہ پاک نے انبیائے کرام علیہم السلام کو معبوث فرمایا تاکہ اللہ پاک کا دین باطل ادیان پر غالب آجائے اور حق اور باطل میں فرق ہو جائے۔7:لوگوں کے لیے رحمت:ترجمۂ کنز الایمان:اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لیے۔( الانبیاء،آیت نمبر 107) حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا رحمت ہونا عام ہے ایمان والو کے لیے بھی اور اس کے لیے بھی جو ایمان نہ لایا،مومن کے لیے بھی اور کافر کے لیے بھی۔(تفسیرِ خزائن العرفان،ص 616) اس آیت اور تفسیر سے یہ بات ظاہر ہے کہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم چاہے انس ہو یا جن،مومن ہو یا کافر سب کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں۔8:لوگوں کے لیے عدل کرنے کیلئے:ترجمۂ کنزالایمان:بے شک ہم نے اپنے رسولوں کو روشن دلیلوں کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور عدل کی ترازو اتاری کہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔( الحدید،آیت نمبر 25)اس آیت کی تفسیر میں مفتی صاحب نے فرمایا: اللہ پاک نے اپنے رسولوں کو ان کی امتوں کی طرف روشن دلیلوں کے ساتھ اور عدل کے ساتھ معبوث فرمایا۔( تفسیر صراط الجنان ،ص 751،ج 9)9:حاضر وناظر بنا کر بھیجا: اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) بے شک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا۔حاضر وناظر کے شرعی معنی ہیں: قدسی قوت والاجو ایک ہی جگہ رہ کر تمام عالم کو اپنے ہاتھ کی ہتھیلی کی طرح دیکھنے اور دور نزدیک کی آوازیں سنے۔سورۂ احزاب آیت نمبر 6 میں اللہ پاک نے فرمایا :نبی ِکریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم مسلمانوں کے ان کی جانوں سے زیادہ قریب ہیں۔ ( الاحزاب:58،پارہ8)10:خوشخبری اور ڈر سنانے کے لئے:ترجمۂ کنزالایمان:اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر خوشی اور ڈر سناتا۔( بنی اسرائیل،آیت نمبر 105)اللہ پاک نے اپنے انبیائے کرام علیہم السلام کو بھیجا تاکہ ایمان والو کو خوش خبری سنائے اور کافروں کے لیے ڈر سنانے والا۔


بِعْثَتْ کے لُغَوی معنیٰ بھیجنے کے ہیں جبکہ اَنبیا نبی کی جمع ہے۔ نبی اُس بَشَر(اِنسان) کو کہتے ہیں جس کی طرف اللہ پاک نے مخلوق کی ہِدایت اور رَاہ نُمائی کے لیے وَحی بھیجی ہواور اُن میں سے جو نئی شریعت یعنی اِسلامی قانون اور خُدائی اَحکام لے کر آئے، اُسے رَسُول کہتے ہیں۔(سیرتُ الانبیا،صفحہ نمبر :29،مطبوعہ :مکتبۃ المدینہ)جیسا کہ مندَرَجہ بالا تعریف سے اَنبیا علیہم السلام کی بعثت کا ایک مقصد بَخُوبی سمجھاجاسکتا ہے، یعنی مخلوق کی ہدایت و رَاہ نُمائی۔ البتہ قرآنِ پاک کی کئی آیات نے بھی اِن کی بِعثت کے مقاصد کو بیان فرمایا ہے۔ جِن میں سے چند یہ ہیں :(1)تَرجَمہ:اور ہم نے تُم سے پہلے جتنے رَسُول بھیجے سب مَرد ہی تھے، جِنہیں ہم وحی کرتے۔ (پارہ:13،سُورۃ یُوسُف،آیت نمبر:109)اِس آیت میں رَبّ کریم نے انبیا علیہم السلام کی بِعثت کے مقصد کو واضح طور پر بیان فرمایا ہے(وحی کرنا)۔ نبی ہونے کے لیے اُس پر وحی ہونا ضروری ہے۔ وحی کا لُغَوی معنیٰ ہے :پیغام بھیجنا، دِل میں بات ڈالنا، خُفیہ بات کرنا۔ شریعت کی اِصطلاح میں وحی وہ خاص قِسم کا کلام ہے جو کسی نبی پر اللہ پاک کے طرف سے نازِل ہوا۔ نیز وحیِ نُبُوَّت انبیا علیہم السلام کے لیے خاص ہے، جو اِسے کسی غیرِ نبی کے لیے مانے، وہ کافِر ہے۔ (سیرتُ الانبیاء، صفحہ نمبر :29،مطبوعہ :مکتبۃ المدینہ)(2)تَرجَمہ:اور ہم نے ہر رَسُول اس کی قوم ہی کی زَبان میں بھیجاکہ وہ اِنھیں صاف بتائے۔ (پارہ 13،سورۃ اِبراہیم، آیت نمبر:4)اِس آیت میں انبیائے کرام علیہم السلام کی بعثت کے مقاصد کو کو صَراحۃً بیان کیا گیا ہے۔ نبی کُفْر سے نِکال کر روشنیِ ایمان میں مخلوق کو داخِل کرتے ہیں۔ کفر، ضلالت ،بدعَمَلی، ہر خَرابی سے نکالنا، پیغمبر ہی کا کام ہے،اِن کی مدد کے بِغیر کُچھ نہیں ہو سکتا۔ (تفسیر نُورُالعِرفان،صفحہ نمبر :407،مطبوعہ :پیر بھائی کمپنی لاہور)(3)انبیا و مُرسَلین علیہم السلام کی تشریف آوری کا ایک بُنیادی مَقصَد غیب کی خَبَر دینا ہے، جیسے اُخرَوی حِساب کِتاب، جَنَّت و دوزخ، ثواب عَذاب، حَشر نَشر اور فرِشتے وغیرہ سب غیب ہی کی خبریں ہیں جو خُدا کی عطا کَردہ ہیں۔ ارشادِ باری ہے:تَرجَمہ:اور(اے عام لوگو!) اللہ تمہیں غیب پر مطلع نہیں کرتا البتہ اللہ اپنے رسولوں کو مُنتَخَب فرما لیتا ہے جنہیں پسند فرماتا ہے۔(پارہ 4،سُورۃ آلِ عِمران، آیت نمبر:179)جبکہ اللہ پاک کا اپنا عِلم ذاتی ہے، جِس کی کوئی حَدّ نہیں اور یہ ہمیشہ سے ہے۔(سیرتُ الانبیا،صفحہ نمبر :43،مطبوعہ :مکتبۃ المدینہ)(4)اللہ پاک کا ارشاد ہے:تَرجَمہ:یُوں کہو کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور اُس پر جو ہماری طرف اُترا اور جو اُتارا گیا اِبراہیم و اِسماعیل و اِسحٰق و یعقُوب اور اِن کی اولاد پر اور جو عطا کیے گئے مُوسٰی و عیسٰی اور جو عطا کیے گئے باقی انبیا اپنے رَبّ کے پاس سے، ہم اِن میں کسی پر ایمان میں فَرق نہیں کرتے اور ہم اللہ کے حُضُور گردن رکھے ہیں۔ (پارہ:1،سورۃ البَقَرۃ، آیت نمبر:136) اِس آیتِ مبارکہ سے انبیا علیہم السلام کی بعثت کے چند مَقَاصِد واضح ہوئے:*سارے نبیوں پر ایمان لایا جائے، اِن کی تعداد مُقَرَّر نہ کی جائے، کیونکہ انبیائے کرام علیہم السلام کی تعداد کسی قطعی دَلیل سے ثابِت نہیں۔*سب نبیوں پر ایمان لانا فرض ہے، ایک کا اِنکار بھی کُفر ہے۔*اپنی طرف سے نبیوں کے مَراتب میں فَرق نہ کیا جائے، اللہ پاک نے جو فَرق رکھا ہے، اُسے مانا جائے۔(تفسیر نُورُالعِرفان ،صفحہ نمبر :31،مطبوعہ :پیر بھائی کمپنی لاہور)(5)تَرجَمہ:اُن کے پاس اُن کے رَسُول آئے روشن دلیلیں اور صحیفے اور چمکتی کِتاب لے کر۔(پارہ :22،سُورۃ الفاطِر،آیت نمبر:25)یہاں روشن دَلیلوں سے مُراد نُبُوَّت پر دَلالت کرنے والے معجزات ہیں۔ (تفسیر خزائن العرفان ،صفحہ نمبر :787،مطبوعہ :پاک کَمپنی لاہور)یعنی وہ معجزات جن سے اِن کی نُبُوَّت ثابِت ہو۔(تفسیر نُورُالعِرفان،صفحہ نمبر :697،مطبوعہ:پیر بھائی کمپنی لاہور) اِس آیت میں بھی انبیا علیہم السلام کی بِعثَت کے مَقاصِد بیان ہوئے(روشن دَلائل، صَحیفوں اور چمکتی کِتاب کا لانا)(6)تَرجَمہ:اور ہم نے کوئی رَسُول نہ بھیجا مگر اِس لیے کہ اللہ کے حُکم سے اس کی اِطاعَت کی جائے۔ (پارہ:5،سُورَۃُالنِّساء،آیت نمبر:64)یعنی اگرچہ ہم بھی دُنیا میں آئےاور نبی بھی مگر دونوں آمَدوں کی منشاء میں فرق ہے۔ ہم نبی و رَسُول کی اِطاعَت و فرمانبرداری کے لیے اور وہ ہم پر حُکُومت کرنے کے لیے آئے۔نیز اِس سے یہ بھی مَعلُوم ہوا! نبی کے ہر قول کی اِطاعَت اور ہر فِعل کی اِتِّباع چاہیے۔(تفسیر نُورُالعِرفان،صفحہ نمبر :138،مَطبوعہ:پیر بھائی کَمپنی لاہور)(7)تَرجَمہ:اور زَمین جَگمگا اُٹھے گی اپنے رَبّ کے نُور سے اور رَکھی جائے گی کِتاب اور لائے جائیں گے انبیا۔(پارہ :24،سُورۃُالزُّمَر،آیت نمبر:69)اِس آیتِ مبارکہ میں انبیائے کرام علیہم السلام کی بِعثَت کے ایک شاندار مَقصَد کو بَیان کیا گیا ہے جو اِن کا بروزِ قِیامت مُدعَی کی حَیثیت سے تشریف لانا ہے۔(تَفسیر نُورُالعِرفان،صفحہ نمبر:743،مَطبُوعہ :پیر بھائی کمپنی لاہور)(8)انبیا علیہم السلام کی بِعثَت کے مَقاصِد میں سے ایک مَقصَد یہ بھی ہے کہ دینِ اِسلام کو دَلائل اور قُوت دونوں اِعتِبار سے دیگر تمام اَدیان پر غالِب کر دیا جائے۔ ارشادِ باری ہے:تَرجَمہ:وہی ہے جِس نے اَپنا رَسُول ہِدایَت اور سَچے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اِسے تمام دینوں پر غالِب کردے اگرچہ مُشرِک ناپسند کریں۔(سیرتُ الانبیا،صَفحہ نمبر:51،مَطبُوعہ :مکتبۃ المدینہ)ارشاد ربّ کریم ہے:تَرجَمہ:عَدل والی کِتاب اللہ کے سَخت عَذاب سے ڈَرائے اور ایمان والوں کو جو نیک کام کریں بشارَت دے کہ اُن کے لیے اچھا ثَواب ہے۔(پارہ:15،سُورَۃَالکَھَف،آیت نمبر:2)یہاں عَدل والی کِتاب سے قرآنِ پاک مُراد ہے۔(تَفسیر نُورُالعِرفان ،صفحہ نمبر :467،مطبوعہ :پیر بھائی کَمپنی لاہور)یہاں خاص مصطفٰےجانِ رَحمَت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بِعثَت کے مَقَاصِد بَیان ہوئے کیونکہ قرآنِ پاک آپ ہی پر نازل ہوا۔(9)آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کُفّار یا غافِلوں کو دُنیاوی یا اُخرَوی عَذابوں سے ڈَرائیں۔(10)نیک مُؤمنین کو خُوشخَبری دیں۔(تَفسیر نُورُالعِرفان ،صَفحہ نمبر:467،مَطبُوعہ :پیر بھائی کمپنی لاہور)


اللہ کریم نے مختلف اوقات میں مختلف قوموں کی طرف پے درپے انبیائے کرام و مرسلین علیم السلام کو روشن نشانیوں اورمعجزات کے ساتھ بھیجا،لوگوں کی ہدایت و نصیحت کے لیے ان پیغمبروں پر کئی صحیفے اور کتابیں نازل ہوئیں۔اللہ پاک نے پیغمبروں اور رسولوں کو دنیا میں بھیجا ہے کہ وہ اللہ پاک کے احکام اس کی مخلوق تک پہنچائیں اور بندے ان پر عمل کرکے ہدایت و نجات کی راہ پائیں۔(شرح عقائدنسفیہ،ص81)عظیم ترین ہستیاں:انبیائے کرام علیہم السلام کائنات کی عظیم ترین ہستیاں اور انسانوں میں ہیرے موتیوں کی طرح جگمگاتی شخصیات ہیں جنہیں اللہ پاک نے وحی کے نور سے روشنی بخشی ، حکمتوں کے سرچشمے ان کے دل میں جاری فرمائے، اور سیرت و کردار کی وہ بلندیاں عطا فرمائیں جن کی تابانی سے مخلوق کی آنکھیں خیرہ ہوجاتی ہیں۔انبیائے کرام(مقدس ترین ہستیوں) کو مخلوق کی طرف بھیجنے کی حکمتیں اور مقاصد:اللہ پاک نے اپنی بارگاہ کی مقدس ہستیوں کو مخلوق کی طرف بھیجنے کی حکمت اور مقاصد قرآنِ مجید میں بیان فرمائے ہیں،چنانچہ اللہ پاک کے حکم سے ان کی اطاعت کی جائے:ارشاد باری ہے:وما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن اللہ ترجمۂ کنزالایمان:اور ہم رسولوں کو اسی حال میں بھیجتے ہیں کہ وہ خوشخبری دینے والے اور ڈرسنانے والے ہوتے ہیں تو جو ایمان لائیں اوراپنی اصلاح کرلیں تو ان پر نہ کچھ خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔7،الانعام:48) تفسیر صراط الجنا ن میں ہے:ہم اپنے رسولوں کو اس لیے نہیں بھیجتے کہ کفار ان سے اپنی من مرضی کے معجزات طلب کرتے پھریں بلکہ اسی لیے بھیجتے ہیں کہ وہ اپنی قوم کو اطاعت پر ثواب کی بشارت اور نافرمانی کرنے پر عذاب کی وعید سنائیں۔(صراط الجنان،ص 109-110) (3)بارگاہِ الہٰی میں لوگوں کے لیے کوئی عذر باقی نہ رہے ، ارشاد فرمایا:رسلا مبشرین و منذرین لئلایکون للناس علی اللہ حجة بعد الرسول وکان اللہُ عزیز احکیما0ترجمۂ کنزالعرفان:( ہم نے)رسول خوشخبری دیتے اور ڈر سناتے(بھیجے) تاکہ رسولوں( کو بھیجنے)کے بعد یہاں لوگوں کے لیے عذر(باقی)نہ رہے اور اللہ زبردست حکمت والا ہے۔(پ6،النساء:125)تفسیر الجنان میں ہے:رسولوں علیہم الصلوة والسلام کی تشریف آوری کا مقصد نیک اعمال پر ثواب کی بشارت اور بُرے اعمال سے ڈرانا ہے۔(صراط الجنان،ص 359)4۔دینِ اسلام کو دلائل اور قدرت دونوں اعتبار سے دیگر تمام ادیان پر غالب کردیا جائے۔ارشاد باری ہے:ھو الذی ارسل رسولہ بالہدی و دین الحق لیظھرہ علی الذین کلہ ولوکرہ المشرکون0 ترجمۂ کنزالعرفان:وہی ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کردے اگرچہ مشرک ناپسند کریں۔10، التوبہ:33)5:اللہ پاک رسولوں کی بعثت سے پہلے مخلوق پر عذاب نہیں فرماتا،چنانچہ ارشاد فرمایا:وما کنا معذبین حتی نبعث رسولاترجمۂ کنزالعرفان: اور ہم کسی کو عذاب دینے والے نہیں جب تک رسول نہ بھیج دیں۔(بنی اسرائیل: 15)6:حضور اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اپنی امت کو قرآن اور شرعی احکام پہنچادیں:ارشاد فرمایا:کذلک ارسلنک فی امة قد خلت من قبلھا امم لتتلواعلیہم علیہم الذی اوحینا الیک وھم یکفرون بالرحمن ترجمۂ کنزالعرفان: اسی طرح ہم نے تمہیں اس امت میں بھیجا جس سے پہلے کئی امتیں گزر گئیں تاکہ تم انہیں پڑھ کر سناؤ جو ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی ہے،حالانکہ وہ رحمن کے منکر ہورہےہیں۔7:لقد کان فی قصصہم عبرة لاولی الالبابترجمۂ کنزالعرفان: بے شک ان رسولوں کی خبروں میں عقل مندوں کے لیے عبرت ہے۔13، یوسف:111)8:وکلا نقص علیک من انباء الرسول مانثبت بہ فؤادک ترجمۂ کنزالعرفان: اور رسولوں کی خبروں میں سے ہم سب تمہیں سناتے ہیں جس سے تمہارے دل کو قوت دیں۔12،ہود:120)9:واذ کر فی الکتب اسمعیل انہ کان صادق الوعدو کان رسولا نبیا0ترجمۂ کنزالعرفان: اور کتاب میں اسماعیل کو یاد کردبے شک وہ وعدے کا سچا تھا اور غیب کی خبریں دینے والا رسول تھا۔16، مریم: 54) 10:لقدمن اللہ علی المؤمنین اذ بعث فیہم رسولا من انفسہم یتلوا علیہم ایتہ ویزکیھم ویعلمھم الکتب والحکمة وان کانوا من قبل لفی ضلل مبین0 ترجمۂ کنزالعرفان:بے شک اللہ نے ایمان والوں پر بڑا احسان فرمایا جب ان میں سے ایک رسول مبعوث فرمایا جو انہی میں سے ہے وہ ان کے سامنے اللہ کی آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ یہ لوگ اس سے پہلے یقیناً کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔4،ال عمران: 164)اللہ کر یم ہمیں تمام انبیائے کرام علیہم السلام کا ہمیشہ ادب ر کھنے اور تمام انبیائے کرام علیہم السلام کے سردا ر صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی شریعت پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


ابوالبشر  حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر سردارِ انبیائے کر ام حضور سرور کائنات صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی تشریف آوری تک اس کائناتِ ارضی میں جتنے بھی انبیا و رسول علیہ السلام مبعوث ہوئے ، ان سب کی تشریف آوری کا اصل مقصد انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے آزاد کراکر اللہ وحدہ کی وحدانیت اور کبریائی سے آشنا کرکے ان جبینوں کو خالق و مالک حقیقی کے در پر جھکانا تھا ہمیں قرآن ِحکیم اور دیگر صحائفِ آسمانی کی وساطت سے جتنے انبیا علیہم السلام کی پاکیزہ زندگی کے حالات معلوم ہوئے،اس کا ہر لمحہ اقوام و ملل کو تصورِ توحیدِ الہی سے آشنائی میں بسر ہوا۔انسانوں کی ہدایت کے لیے انبیا علیہم السلام کا بعثت:ابتدا میں تمام انسان راہِ راست پر تھےاور اللہ پاک نے انہیں زندگی گزارنے کا جو طریقہ بتایا تھا اس پر وہ عمل پیرا تھے لیکن آہستہ آہستہ ان میں انحراف آنے لگا،نفسانی خواہشات نے سر اٹھایا اور وہ سیدھی راہ سے ادھر اُدھر بھٹکنے لگے۔اس بات کو قرآنِ کریم نے یوں ارشاد فرمایا ہے:وماکان الناس الا امة وحدة فاختلفواترجمۂ کنزالایمان:اور لوگ ایک ہی امت تھے پھر مختلف ہوئے۔( یونس، پ11،آیت19)اس آیتِ مبارکہ میں تمام لوگوں کے ایک دینِ اسلام پر ہونے کی دلیل واضح ہے، جیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے میں قابیل کے ہابیل کو قتل کرنے کے وقت تک حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی ذریت ایک ہی دین پر تھی ،اس کے بعد اختلاف ہوا۔مذہبی اختلاف کی ابتدا کب ہوئی : مذہبی اختلاف کی ابتدا سے متعلق مفسرین نے کئی اقوال ذکر کیے ہیں:(1)حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے تک لوگ ایک دین پر رہے پھر ان میں اختلاف واقع ہوا۔ (2)حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی سے اترنے کے وقت لوگ ایک دینِ اسلام پر تھے۔(3) حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے سب لوگ ایک دین پر تھے یہاں تک کہ عمر بن لحی نے دین میں تبدیلی کی ، اس قول کے مطابق الناس سے مراد خاص عرب ہوں گے۔(صراط الجنان فی تفسیر القرآن جلد چہارم)آیاتِ بعثتِ انبیا:(1) واذا اتینا موسی الکتب والفرقان لعلکم تہتدون0ترجمۂ کنزالایمان:اور جب ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی اور حق اور باطل میں فرق کرنا تاکہ تم ہدایت پاجاؤ۔( بقرۃ، پ 1، آیت 53)(2)واتینا عیسی ابن مریم البینت وایدناہ بروح القدسترجمۂ کنزالایمان: اور ہم نے عیسی بن مریم کو کھلی نشانیاں عطا فرمائیں اور پاک روح کے ذریعے ان کی مدد کی ۔( البقرہ پ1، آیت 87)(3) انا ارسلنک بالحق بشیراو ونذیراترجمۂ کنزالایمان:اے حبیب بیشک ہم نے تمہیں حق کے ساتھ خوشخبری دینے والا اور ڈر کی خبریں دینے والا بنا کر بھیجا۔( البقرہ پ1، آیت 119)(4)ربنا وابعث فیہم رسولا منہم یتلوا علیہم ایتک ویعلمہم الکتب والحکمة ویزکیھم ترجمۂ کنزالایمان:اے ہمارے رب ! اور ان کے درمیان انہیں میں سے ایک رسول بھیج جو ان پر تیری آیتوں کی تلاوت فرمائے اور انہیں تیری کتاب اور حکمت سکھائے اور انہیں خوب پاکیزہ فرمادے۔( البقرہ پ1، آیت 129)(5)رسلا مبشرین ومنذرین لئلا یکون للناس علی اللہ حجة بعدالرسولترجمۂ کنزالایمان:(ہم نے ) رسول خوشخبری دیتے اور ڈر سنانے والا بھیجا تاکہ رسول ( کو بھیجنے) کے بعد اللہ کے یہاں لوگوں کے لیے کوئی عذر نہ رہے۔( النساء پ 6، آیت 165)(8)وماارسلنک الا رحمةً العلمین ترجمۂ کنزالایمان: اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہانوں کے لیے۔(سورة الانبیاء پ 16، آیت 107)(9)وما نرسل المرسلین الا مبشرین ومنذرینترجمۂ کنزالایمان:اور ہم رسولوں کو اسی حال میں بھیجتے ہیں کہ وہ خوشخبری دینے والے اور ڈر سنانے والے ہوتے ہیں۔( الانعام پ 7،آیت 40)(10) قد جاءت رسل ربنا بالحقترجمۂ کنزالایمان:بیشک ہمارے رب کے رسول حق کے ساتھ تشریف لائے۔(سورة الاعراف پ 8 آیت53)(11) لقد ارسلنا نوحا الی قومہ فقال یقوم اعبدوا اللہ مالکم من الہ غیرہترجمۂ کنزالایمان:بیشک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تو اس نے کہا: اے میری قوم !اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں۔(سورة الاعراف پ 8، آیت59)اب آخر میں بہت ہی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ آج امتِ اسلامیہ کی اکثریت انبیا علیہم السلام کی بعثت کے اہم مقاصد کو بھول چکی ہے جس کا سب سے بڑا خسارہ آج ہم اپنی نگاہوں سے بدعات و خرافات کو دیکھے ہیں۔اللہ پاک ہم سب کو کتاب و سنت کی صحیح سمجھ عطا فرمائے۔امین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


انبىائے کرام علیہم السلام کائنات کى نہاىت معزز و محترم ہستىاں اور انسانوں مىں ستاروں کى طرح حمکتى دمکتى شخصىات ہىں۔ان کى پاک سىرتوں اور خدائى پىغام پہنچانے مىں اٹھائى گئى مشتقوں مىں تمام انسانىت کے لىے عظمت، شوکت، ہمت و استقامت کا عظىم درس موجود ہے۔اللہ پاک نے ان مقدس ہستىوں کو مخلوق کى طرف بھىجنے کى حکمتىں اور مقاصد قرآنِ پاک مىں بىان فرمائے ہىں۔ ان مىں سے دس درجِ ذىل ہىں:1:اللہ پاک کے حکم سے ان کى اطاعت کى جائے:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ترجمۂ کنزالعرفان: اور ہم نے کوئى رسول نہ بھىجا مگر اس لىے کہ اللہ کے حکم سے اس کى اطاعت کى جائے۔(پ 5، النساء: 64)2۔یہ اىمان و اطاعت پر لوگوں کو جنت کى خوشخبرى اور کفر و نافرمانى پر جہنم کى وعىد سنادىں: ارشاد فرماىا:ترجمۂ کنزالاىمان: اور ہم رسولوں کو اسى حال مىں بھىجتے ہىں کہ و ہ خوشخبرى دىنے والے اور ڈر سنانے والے ہوتے ہىں تو جو اىمان لائىں اور اپنى اصلاح کرلىں تو ان پر نہ کچھ خوف ہے اور نہ وہ غمگىن ہوں گے۔(پ7، الانعام 48)3: بارگاہِ الہٰى مىں لوگوں کے لىے کوئى عذر باقى نہ رہے: ارشاد فرماىا:ترجمۂ کنزالعرفان: (ہم نے) رسول خوشخبرى دىتے اور ڈر سناتے( بھىجے) تاکہ رسولوں( کو بھىجنے) کے بعد اللہ کے ىہاں لوگوں کے لىے کوئى عذر ( باقى) نہ رہے اور اللہ زبردست ہے، حکمت والا ہے۔ ( پ 6،النسا، 165)(4) دىنِ اسلام کو دلائل و شواہد اور قوت و طاقت دونوں اعتبار سے دىگر تمام ادىان پر غالب کردىا جائے:اللہ پاک کا فرمان ہے:ترجمۂ کنز العرفان: وہى ہے جس نے اپنے رسول ہداىت اور سچے دىن کے ساتھ بھىجا تاکہ اسے تمام دىنوں پر غالب کردے اگرچہ مشرک ناپسند کرىں۔ (پ 6 ، التوبۃ: 33)(5)۔حضور اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اپنى امت کو قرآن اور شرعى احکام پہنچادىں:ارشاد فرماىا: ترجمۂ کنزالعرفان: اسى طرح ہم نے تمہىں اس امت مىں بھىجا جس سے پہلے کئی امتىں گزر گئىں تاکہ تم انہىں پڑھ کر سناؤ جو ہم نے تمہارى طرف وحى بھىجى ہے، حالانکہ وہ رحمن کے منکر ہورہے ہىں۔(پ 13، الرعد: 30)5: اللہ پاک کے آخرى نبى صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم بارگاہِ الہٰى مىں لوگوں کى مغفرت کا ذرىعہ بن جائىں: ارشادِ بارى ہے:ترجمۂ کنزالعرفان:اور اگر جب وہ اپنى جانوں پر ظلم کر بىٹھے تھے تو اے حبىب! تمہارى بارگاہ مىں حاضر ہوجاتے، پھر اللہ سے معافى مانگتے اور رسول (بھى) ان کى مغفرت کى دعا فرماتے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پاتے۔ (پ 5، النسا 64)(7) اللہ پاک کى واحدانىت کو ثابت کرىں: اللہ کریم کا ارشادِ عالى ہے:ترجمۂ کنزالعرفان:اور ہم نے تم سے پہلے کوئى رسول نہ بھىجا مگر ىہ کہ ہم اس کى طرف وحى فرماتے رہے کہ مىرے سوا کوئى معبود نہىں تو مىرى ہى عبادت کرو۔( پ 17، الانبىا 25)8۔ لوگوں کو اللہ پاک کى عبادت کرنے پر اُبھارىں اور شىطان کى پىروى کرنے سے بچائىں:چنانچہ اللہ پاک کا ارشادِ پاک ہے:ترجمہ: بىشک ہر امت مىں ہم نے اىک رسول بھىجا کہ ( اے لوگو) اللہ کى عبادت کرو اور شىطان سے بچو۔(پ 16،النحل: 36)9: انسانوں مىں انصاف کو قائم کرىں، جىسا کہ ارشادِ خداوندى ہے: بىشک ہم نے اپنے رسولوں کو روشن دلىلوں کے ساتھ بھىجا اور ان کے ساتھ کتاب اور عدل کی ترازو اتارى تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔(پ 27، حدىث: 25)10۔خلقت مىں اختلافات کا خاتمہ کرىں:ترجمہ:تو اللہ نے انبىا بھىجے خوشخبرى دىتے ہوئے اور ڈر سناتے ہوئے اور ان کے ساتھ سچی کتاب اتارى تاکہ وہ لوگوں کے درمىان ان کے اختلافات مىں فىصلہ کردے۔(پ 2، البقرہ 213)اللہ پاک ہمىں سىرت الانبىاء پڑھ کر اس مىں سے مدنى پھول چننے کى اور آخرى نبى صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کى سىرت کے مطابق زندگى گزارنے کى توفىق عطا فرمائے۔آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


ربِّ کریم نے مخلوق کو پیدا فرمایا اور ان کی طرف اپنے برگزیدہ بندوں کو مبعوث فرمایا۔ رب کریم کے ہر کام میں کثیر حکمتیں اور مقاصد ہوتے ہیں۔خدائے رحمن کا کوئی کام بے مقصد نہیں۔انبیائے کرام علیہم السلام بھیجنے میں رب کریم کی کثیر حکمتیں و مقاصد ہیں۔جن میں سے دس مقاصد قرآنِ کریم کی روشنی میں پڑھ کر اپنے علم میں اضافہ کیجئے۔پہلا مقصد:دینِ اسلام شروع سے ہی ایک حق دین تھا،لوگ اس دین سے جداد ین اختیار کرکے اختلاف کرتے تواللہ پاک انبیا علیہم السلام کے ذریعے اسی حق دین کے طرف بلاتا او ریہ انبیا ایمان والوں کو جنت کی بشارت دیتے اور کفار کو دوزخ کی وعید سناتے اور دیگر باطل ادیان کی تردید کرتے تھے۔ پس اللہ پاک نے ان کی طرف انبیائے کرام علیہم السلام کو بھیجا تاکہ لوگوں میں موجود اختلاف کو ختم کریں اور رب کریم سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 213 میں ارشاد فرماتا ہے: کان الناس امة واحدة فبعث اللہ النبین مبشرین و منذرین وانزل معھم الکتب بالحق لیحکم بین الناس فیما اختلفوا فیہ۔ترجمۂ کنز العرفان:تمام لوگ ایک دین پر تھے تو اللہ نے انبیا بھیجے خوشخبری دیتے ہوئےاور ڈر سناتے ہوئے ان کے ساتھ سچی کتاب اتاری تاکہ وہ لوگوں کے درمیان ان کے اختلافات میں فیصلہ کردے۔دوسرا مقصد:اللہ پاک نے مخلوق کواپنی عبادت کے لیے بھیجا اور ان کے لیے ایک شریعت مقرر فرمائی اور انبیائے کرام علیہم السلام کو اپنے اور بندوں کے درمیان واسطہ بنایا تاکہ وہ اس کا پیغام بندوں تک پہنچائیں اگر اللہ انبیا کو مبعوث نہ فرمانا تو مخلوق گمراہ ہوجاتی، چنانچہ مالکِ کائنات فرماتا ہے:وما نرسل المرسلین الا مبشرین ومنذرین ترجمۂ کنزالعرفان:اور ہم رسولوں کو اسی حال میں بھیجتے ہیں کہ وہ خوشخبری دینے والے اور ڈر سنانے والے ہوتے ہیں۔( الانعام: 48)تیسرا مقصد:انبیائے کرام علیہم السلام کو مبعوث کرنے کی ایک حکمت یہ بھی تھی کہ حجت قائم ہوجائے اور لوگوں کے عذر ختم ہوجائیں تاکہ کوئی شخص روز قیامت یہ نہ کہےکہ ہمیں تو یہ حکم معلوم نہ تھا وغیرہ،چنانچہ اللہ پاک سورة الاسر اء آیت نمبر 15 میں ارشاد فرماتا ہے:وما کنا معذبین حتی نبعث رسولا ترجمۂ کنزالعرفان: اور ہم کسی کو عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک کوئی رسول نہ بھیج دیں۔چوتھا مقصد:اللہ پاک نے انبیائے کرام علیہم السلام کو اس لیے مبعوث فرمایا تاکہ لوگ ان کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کریں اور زندگی گزارنے کے انداز کو سیکھ سکیں ، چنانچہ سورۂ احزاب،آیت نمبر 21 میں فرمانِ باری ہے:لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ بے شک تمہارے لیے رسول اللہ کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔مزید سورۂ ممتحنہ آیت نمبر 13 میں فرماتا ہے:لقد کان لکم فیھم اسوۃ حسنۃ ترجمۂ کنزالعرفان:بے شک تمہارے کے ان میں اچھی پیروی تھی۔پانچواں مقصد:انبیا علیہم السلام کو معبوث کرنے کا ایک مقصد گمراہ لوگوں کو راہِ راست پر لانا ہے ،جیسا کہ پارہ5 سورۃ الانعام ، آیت نمبر 70میں خالقِ کائنات فرماتا ہے:اولٓئک الذین ھدی اللہ فبھداھم اقتدہترجمۂ کنزالایمان:یہ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت کی تو ان کی راہ چلو۔چھٹا مقصد:لوگ غیب کے علم سے ناواقف تھے۔وہ غیب کو نہیں جانتے تھے جیسا کہ رب کریم ،اس کی ذات و صفات ، فرشتے ، جنات، جنت، دوزخ وغیرہ یہ سب غیب یعنی پوشیدہ ہیں اور ہمیں ان کی خبر انبیا و رسول علیہم السلام کے ذریعے ہوسکتی ہے چنانچہ سورة الجن آیت نمبر 26۔27 میں رب کعبہ کا فرمان ہے:علم الغیب فلا یظھر علی غیبہ احدا الا من ارتضی من رسول فانہ یسلک من بین یدیہ ومن خلفہ رصدا0ترجمۂ کنزالایمان:غیب کا جاننے والا تو اپنے غیب پر کسی کو مسلط نہیں فرماتا سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے کہ ان کے پیچھےپہرہ مقر رکردیتا ہے۔ساتواں مقصد:لوگوں کی تعلیم اور ان کا تزکیہ بعض انبیائے کرام علیہم السلام کی بعثت کا ایک اہم مقصد ہے چنانچہ پارہ28 سورۃ الجمعہ کی آیت نمبر 2 میں ارشادِ باری ہے:ھوالذی بعث فی الامین رسولا منھم یتلوا علیہم آیتہ و یزکیھم ویعلمھم الکتب و الحکمة وان کانوا من قبل لفی ضلال مبین0 ترجمہ ٔکنزالعرفان : وہی ہے جس نے اَن پڑھوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اللہ کی آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور انہیں پاک کر تا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کا علم عطا فرماتا ہے اور بے شک وہ اس سے پہلےکھلی گمراہی میں تھے۔ آٹھواں مقصد:انبیا علیہم السلام کی بعثت کا ایک مقصد یہ تھا کہ وہ لوگوں کو اس بات کی خبر دیں کہ وہ صرف ایک اللہ پاک کی عبادت کریں اور دیگر معبودوں سے بچیں،چنانچہ ارشاد فرمایا:ولقد بعثنا فی کل امة رسولا ان اعبداللہ واجتنبوا الطاغوت سورۂ نمل آیت 36ترجمۂ کنزالعرفان:اور بے شک ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ ( اے لوگو!) اللہ کی عبادت کرو اور شیطان سے بچو۔نواں مقصد:لوگوں میں عدل و انصاف قائم کر نے اور عدل و انصاف قائم کرنے کاحکم دینے کے لیے انبیا علیہم السلام کو مبعوث کیا۔رب کریم سورۃ الحدید آیت نمبر 29میں فرماتا ہے:ولقد ارسلنا رسلنا بالبینت وانزلنا معھم الکتب والمیزان لیقوم الناس بالقسطبے شک ہم نےاپنے رسولوں کو روشن دلیلوں کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور عدل کا ترازو اتارا تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔دسواں مقصد:انبیا علیہم السلام کی بعثت کا ایک مقصد یہ تھا کہ وہ لوگوں کو اللہ پاک کی معرفت کروائیں کہ وہ واحد ہے،چنانچہ پارہ 15 سورة الکہف آیت 110 میں ارشادِ باری ہے:قل ا نما انابشرمثلکم یوحیٰ الی انما الھکم الہ واحدترجمۂ کنزالایمان: تم فرماؤ ظاہر صورت بشری میں تو میں تم جیسا ہوں مجھے وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے۔ان مقدس آیاتِ کریمہ سے ہر بات واضح ہوئی کہ انبیائے کرام علیہم السلام اللہ پاک کے سچے اور برگزیدہ و نیک بندے ہیں اور ان کو مبعوث کرنے اور لوگوں کی طرف بھیجنے کا مقصد بھی واضح ہوا۔


اللہ کریم نے حضرت آدم علیہ السلام سے حضور خاتم النبیین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم تک بہت سے انبیائے کرام علیہم السلام مبعوث فرمائے ہیں۔ان بزرگ ہستیوں کی بعثت کے جو مقاصد قرآنِ پاک میں بیان فرمائے گئے،ان میں سے 10درج ذیل ہیں:(1)اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کی جائے: جیسا کہ فرمانِ باری ہے:وَمَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْۤ اِلَیْهِ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ0 (پ 17، الانبیا: 25)ترجمۂ کنز العرفان: اور ہم نے تم سے پہلے کوئی رسول نہ بھیجا مگر یہ کہ ہم اس کی طرف وحی فرماتے رہے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں تو میری ہی عبادت کرو۔اس آیتِ مبارکہ کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے: تمام انبیا اور رُسُل عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو مبعوث فرمانے کی بنیادی حکمت اللہ پاک کی وحدانیت کو ثابت کرنا اور اخلاص کے ساتھ اللہ پاک کی عبادت کرنا ہے۔(2) شیطان کی پیروی کرنے سے بچا جائے: ارشادِ باری ہے:وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ۚ۔(پارہ 14 ،النحل: 36)ترجمۂ کنز العرفان: اور بیشک ہر امت میں ہم نے ایک رسول بھیجا کہ (اے لوگو!) اللہ کی عبادت کرو اور شیطان سے بچو۔یعنی جس طرح ہم نے تم میں محمد مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو بھیجا اسی طرح ہر امت میں ہم نے ایک رسول بھیجا اور ہر رسول کو حکم دیا کہ وہ اپنی قوم سے فرمائیں کہ اے لوگو! اللہ پاک کی عبادت کرو اور شیطان کی پیروی کرنے سے بچو۔(تفسیر صراط الجنان، النحل ،تحت الآیۃ: 36)(3)اللہ پاک کے حکم سے ان کی اطاعت کی جائے:ارشاد فرمایا:وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِ ؕ۔ (پارہ 5 النساء: 64)ترجمۂ کنز العرفان: اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لئے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔(سیرت الانبیاء، ص 50)اس آیتِ مبارکہ کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے: رسول کی اطاعت اس لئے ضروری ہے کہ اللہ پاک کی اطاعت کا طریقہ ہی رسول کی اطاعت کرنا ہے۔اس سے ہٹ کر اطاعت ِ الہٰی کا کوئی دوسرا طریقہ نہیں لہٰذا جو رسول کی اطاعت کا انکار کرے گا وہ کافر ہوگا اگرچہ ساری زندگی سر پر قرآن اٹھا کر پھرتا رہے۔(4،5)یہ انبیائے کرام علیہم السلام ایمان و اطاعت پر لوگوں کو جنت کی بشارت اورکفر و نافرمانی پر جہنم کی وعید سنائیں:جیساکہ فرمایا:وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّا مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ ۚفَمَنْ اٰمَنَ وَ اَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ0(پارہ 7 ،الانعام: 48)ترجمۂ کنز العرفان: اور ہم رسولوں کواسی حال میں بھیجتے ہیں کہ وہ خوشخبری دینے والے اور ڈر سنانے والے ہوتے ہیں تو جو ایمان لائیں اور اپنی اصلاح کرلیں تو ان پرنہ کچھ خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔(سیرت الانبیاء، ص 50)(6)دینِ اسلام کی پیروی کی جائے: ارشاد فرمایا:شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰى بِهٖ نُوْحًا وَّ الَّذِیْۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ وَ مَا وَصَّیْنَا بِهٖۤ اِبْرٰهِیْمَ وَ مُوْسٰى وَ عِیْسٰۤى اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْهِ ؕ۔(پارہ 25 ،الشوری:13)ترجمۂ کنز العرفان: اس نے تمہارے لیے دین کا وہی راستہ مقرر فرمایا ہے جس کی اس نے نوح کو تاکید فرمائی اور جس کی ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی اور جس کی ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو تاکید فرمائی کہ دین کو قائم رکھواور اس میں پھوٹ نہ ڈالو۔معنی یہ ہے کہ جتنے انبیائےکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تشریف لائے سب کے لئے ہم نے دین کا ایک ہی راستہ مقرر کیا کہ دینِ اسلام کو قائم رکھواور اس میں پھوٹ نہ ڈالو۔(تفسیر صراط الجنان،الشوری، تحت الآیۃ: 13 ملتقطا)(7)دینِ اسلام کو دلائل اور قوت دونوں اعتبار سے دیگر تمام ادیان پر غالب کردیا جائے:چنانچہ ارشاد فرمایا:هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ ۙوَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ0 (پارہ 10 ،التوبۃ: 33)ترجمۂ کنز العرفان: وہی ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کر دے اگرچہ مشرک ناپسند کریں۔(سیرت الانبیاء،ص 51)(8)بارگاہِ الہٰی میں لوگوں کیلئے کوئی عذر باقی نہ رہے:ارشاد فرمایا:رُسُلًا مُّبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ لِئَلَّا یَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَى اللّٰهِ حُجَّةٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِ ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَزِیْزًا حَكِیْمًا0(پارہ 6 ،النساء: 165)ترجمۂ کنز العرفان: (ہم نے ) رسول خوشخبری دیتے اور ڈر سناتے (بھیجے) تاکہ رسولوں (کو بھیجنے) کے بعد اللہ کے یہاں لوگوں کے لئے کوئی عذر (باقی )نہ رہے اور اللہ زبردست ہے،حکمت والا ہے۔(سیرت الانبیاء، ص 50)(9)انبیائے کرام علیہم السلام اپنی قوموں کو احکامِ الہٰی واضح کرکے بیان کردیں:قرآنِ کریم میں ہے:وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهٖ لِیُبَیِّنَ لَهُمْ ؕ (پارہ 13 ، ابراہیم: 4)ترجمۂ کنز العرفان:اور ہم نے ہر رسول اس کی قوم کی زبان کے ساتھ ہی بھیجا تاکہ وہ انہیں واضح کرکے بتادے۔(10)حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اپنی امت کو قرآن اور شرعی احکام پہنچادیں:جیساکہ فرمایا:كَذٰلِكَ اَرْسَلْنٰكَ فِیْۤ اُمَّةٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهَاۤ اُمَمٌ لِّتَتْلُوَاۡ عَلَیْهِمُ الَّذِیْۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ وَ هُمْ یَكْفُرُوْنَ بِالرَّحْمٰنِ ؕ (پارہ 13 ،الرعد: 30)ترجمۂ کنز العرفان: اسی طرح ہم نے تمہیں اس امت میں بھیجا جس سے پہلے کئی امتیں گزر گئیں تاکہ تم انہیں پڑھ کر سناؤ جو ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی ہے حالانکہ وہ رحمٰن کے منکر ہورہے ہیں۔(سیرت الانبیاء ،ص 51)


انبیائے کرامعلیہم السلام کائنات کی عظیم ترین ہستیاں اور انسانوں میں ہیروں موتیوں کی طرح جگمگاتی شخصیات ہیں جنہیں خدانے وحی کے نور سے روشنی بخشی جو ہر دور میں لوگوں کو شرک سے روکتے، ایمان لانے پر جنت کی بشارت دیتے اور کفر و انکار پر عذاب کی وعید سناتے ۔اللہ پاک نے اپنی بارگاہ کی مقدس ہستیوں کو مخلوق کی طرف بھیجنے کی حکمتیں اور مقاصد قر آنِ مجید میں بیان فرمائے ہیں۔ان میں سے دس درجِ ذیل ہیں:1:اللہ پاک کے حکم سے ان کی اطاعت کی جائے:ارشادِ باری ہے:وما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن اللہ ترجمۂ کنزالعرفان:اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجامگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔(پ 5،النسآء:64)2:یہ ایمان و اطاعت پر لوگوں کو جنت کی بشارت اور کفرو نافرمانی پرجہنم کی وعید سنادیں:ارشاد فرمایا:ومانرسل المرسلین الا مبشرین و منذرین فمن امن و اصلح فلا خوف علیہم ولا ھم یحزنون0ترجمۂ کنزالعرفان: اور ہم رسولوں کو اسی حال میں بھیجتے ہیں کہ وہ خوشخبری دینے والے اور ڈر سنانے والے ہوتے ہیں تو جوایمان لائیں اور اپنی اصلاح کرلیں تو ان پر نہ کچھ خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔(پ 7، الانعام:48)3: بارگاہِ الہٰی میں لوگوں کے لیے کوئی عذر باقی نہ رہے:ارشاد فرمایا:رسلاً مبشرین ومنذرین لئلایکون للناس علی اللہ حجة بعد الرسل وکان اللہ عزیزا حکیما ترجمۂ کنزالعرفان:(ہم نے) رسول خوشخبری دیتے اور ڈر سناتے(بھیجے) تاکہ رسولوں(کوبھیجنے) کے بعد اللہ کے یہاں لوگوں کے لئے کوئی عذر(باقی) نہ رہے اور اللہ زبردست ہے حکمت والا ہے۔(پ6، الاحزاب: 165) 4:یہ اللہ پاک کا پیغام لوگوں تک پہنچادیں اور اس کے سوا کسی سے نہ ڈریں:ارشاد فرمایا:الذین یبلغون برسلت اللہ و یخشونہ ولا یخشون احدا لا اللہ وکفی باللہ حسیبا0(پ22،الاحزاب:39) ترجمۂ کنزالعرفان:وہ جو اللہ کے پیغامات پہنچاتے ہیں اور اس سے ڈرتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی کا خوف نہیں کرتے اور اللہ کافی ہے حساب لینے والا ہے۔5۔ دینِ اسلام کو دلائل اور قوت دونوں اعتبار سے دیگر تمام ا دیان پر غالب کردیا جائے:ارشاد فرمایا:ھو الذی ارسل رسولہ بالھدیٰ ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ ولوکرہ المشرکون0ترجمۂ کنزالعرفان: وہی ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کردے اگرچہ مشرک ناپسند کریں۔(پ 10، التوبہ 33) 6:لوگوں کو اندھیرے سے اُجالے کی طرف چلادیں:ارشاد فرمایا:ھو الذی ینزل علی عبدہ ایت بینت لیخرجکم من الظلمت الی النور وان اللہ بکم لرؤوف رحیم ترجمۂ کنزالعرفان: وہی ہے جو اپنے بندہ پر روشن آیتیں اتارتا ہے تاکہ تمہیں اندھیروں سے نور کی طرف لے جائے اور بے شک اللہ تم پر ضرور مہربان رحمت والا ہے۔(پ 27، الحدید: 9)7:حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اپنی امت کا تزکیۂ نفس فرمانے کے ساتھ ساتھ ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم فرمائیں:ارشاد فرمایا:ھو الذی بعث فی الامین رسولا منھم یتلوا علیہم ایتہ ویزکیھم ویعلمھم الکتب والحکمة وان کانوا من قبل لفی ضلل مبین0 ترجمۂ کنزالعرفان:وہی ہے جس نے اَن پڑوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اللہ کی آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت کا علم عطا فرماتا ہے اور بے شک وہ اس سے پہلے ضرور کھلی گمراہی میں تھے۔(پ28،الجمعۃ: 2) 8: اللہ پاک نے اپنے رسولوں کو روشن دلیلوں کے ساتھ بھیجا تاکہ ان نشانیوں کے ذریعے یہ لوگوں میں انصاف قائم کریں:فرماتا ہے:لقد ارسلنارسلنا بالبینت و انزلنا معھم الکتب والمیزان لیقوم الناس بالقسط ترجمۂ کنزالعرفان: بے شک ہم نے اپنے رسولوں کو روشن دلیلوں کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور عدل کی ترازو اتاری تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔( پ 27، الحدیث: 25)9:یہ پیغامِ الٰہی لوگوں تک پہنچادیں اور روزِ قیامت اپنی اپنی امتوں پرگواہ ہوں گے:فرماتا ہے:و یوم نبعث فی کل امة شھیدا علیہم من انفسھم وجئنابک شہیدا علی ھؤلا ترجمۂ کنزالعرفان:اور جس دن ہم ہر امت میں انہیں میں سے ان پر ایک گواہ اٹھائیں گے اور اے حبیب! تمہیں ان سب پرگواہ بنا کرلائیں گے۔(پ14،النحل:89)10:حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اپنی امت کو قرآن اور شرعی احکام پہنچادیں:ارشاد فرمایا: کذلک ارسلنک فی امة قد خلت من قبلھا امم لتتلوا علیہم الذی اوحینا الیک وھم یکفرون بالرحمن قل ھو ربی لا الہ الا ھو علیہ توکلت والیہ متاب ترجمۂ کنزالعرفان:اسی طرح ہم نے تمہیں اس امت میں بھیجا جس سے پہلے کئی امتیں گزر گئیں تاکہ تم انہیں پڑھ کر سناؤ جو ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی ہے حالانکہ وہ رحمن کے منکر ہورہے ہیں تم فرماؤ:وہ میرا ر ب ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور اسی کی طرف میرا رجوع ہے۔(پ 13، الرعد: 30)


قرآن ِکرىم  مىں انبىا علیہم السلام کى بعثت اور اس سے متعلق مسائل کے بارے مىں بہت آىتیں موجودہىں۔ظاہر ہے ان تمام آىتوں پر تحقىقى بحث ممکن نہیں ، لہٰذا ان آىات مىں کى گئى اہم بحثوں کا انتخاب کىا گیا ہے، اور حسبِ ضرورت ان مباحث سے متعلق آىات کى وضاحت کی جائے گی۔ آئىے! بعثتِ انبیا کے اہداف ومقاصد قرآنى آىتوں کی روشنى میں پڑھتے ہیں۔دراصل قرآنِ کرىم مىں نبوت کا مسئلہ انسان کى خلقت کے ساتھ ہی بحث میں آیا ہے۔کیونکہ ا س کی زندگی کی بنیادمذہبی راہ نمائی پر ختم ہوتی ہے۔اس دنیا میں انسان کی خلقت کے مقصد کو دیکھتے ہوئے اس بات کو قبول کرنا واضح ہے۔جب ہمیں یہ معلوم ہوگیا کہ انسان کو عالم مادہ میں اس لئے بھیجا گیا کہ اس کی پسند کا ایک راستہ اس کے سامنے ہو تو ظاہر ہے خدا کی جانب سے بھی اس کے سامنے ایک ایسا راستہ ہونا چاہئے جس کے دو پہلو ہوں،ایک پہلو کمال کا ہو اور دوسرا پہلو نقص کا،ایک کی انتہا کامیابی اور نجات پر ہو اور دوسرے کا اختتام ناکامی و بدبختی پر تاکہ اپنے آزادانہ انتخاب کے ذریعے انسان ان میں سے کسی ایک راستے کو چن لے۔قرآنِ کرىم کى بعض آىات سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت آدم علیہم السلام جس وقت زمىن پر تشرىف لاتے اسى وقت پر وحى ہوئى کہ جب خدا کى جانب سے تمہارى راہ نمائى ہو تو اس کو قبول کرنا، اگر قبول کىا اور اس پر عمل کىا تو نجات پاؤگے اور اگر مخالفت کى تو حد سے بڑھنے والے ہوجاؤ گے، چنانچہ سورۃ البقرۃ آیت نمبر38 مىں ارشاد ہوتا ہے: ترجمۂ کنزالاىمان، کہا ہم نے اترو اس سے تم سب پس اگر تمہارے پاس مىرى طرف سے کوئى ہداىت آئے تو جس نے مىرى پىروى کى پس ان پر کوئى ڈر نہىں اور نہ ہى وہ غمگىن ہوں گے۔تفسىر ِنعىمى میں ہے:ىہاں اھبطوا سے مراد اولادِ آدم ہے کىونکہ آىت مىں آگے احکام کا ذکر ہے۔ آىتِ مبارکہ سے ىہ مفہوم واضح ہوا کہ انسان کے سامنے دو صورتىں ہىں، یا توپىروى کرکے نجات پا جائے ىا مخالفت کرکے بعدبخت ہوجا ئے۔ىعنى زمىن پر حضرت آدم علیہم السلام کى آمد کے آغاز سے بھى ىہ بات روشن کردى گئى تھى کہ آپ کے سامنے دوراستے ہوں گے اور خدا پاک کى طرف سے ہى راہ نمائى کى جائے گى ۔اسى طرح سورة الاعراف ،آىت نمبر 35 میں ہے: ترجمۂ کنزالاىمان : اے اولاد آدم! اگر آئے تمہارے پاس تم مىں کے رسول مىرى آىتىں پڑھتے توپرہىز گارى کرے اورسنوارے تو اس پر نہ کچھ خوف ہوگا نہ کچھ غم۔لہٰذا وحىِ نبوت کے ذرىعے ہداىت کا مسئلہ اىک اىسى چىز ہے جو خلقت مىں مضمر ہے اور شامل ہے، اس کے بغىر روئے زمىن پر انسان کى رہائش ممکن نہىں کىونکہ اىسا ہونا حکمتِ الہٰى کے خلاف ہے اس چىز کے پىشِ نظر خدانے ہر قوم اور ہر آبادى کے لىے اىک پىغمبر بھىجا۔سورة الفاطر آیت نمبر 24 مىں ارشاد ہے:ترجمۂ کنزالایمان: اے محبوب بے شک ہم نے تمہىں حق کے ساتھ بھىجا ، خوشخبرى سناتا اور ڈر سناتا۔انبىا علیہم السلام کى تعداد کے بارے مىں مختلف آرا ہىں ۔بہرحال انبىا علیہم السلام کى ایک بڑى تعداد ہے۔فتاوی رضویہ میں چھبیس لکھا ہے: فرداًفرداً خواہ بتصریح اسماء یہ صرف چھبیس کے لئے ہے:آدم، ادریس، نوح، ہود، صالح، ابراہیم، اسحق، اسمٰعیل، لوط ، یوسف، ایوب، شعیب، موسٰی ، ہارون، الیاس، الیسع، ذوالکفل، داؤد،سلیمان، عزیر، یونس،زکریا، یحٰیی، عیسیٰ، محمد صلی اﷲ علیہ وعلیہم وبارک وسلم۔بہت سے انبىا علیہم السلام معروف نہىں مگر عقىدہ اور اىمان یہ ہونا چاہىے کہ اللہ پاک کے تمام ا نبىا علیہم السلام جتنے بھى دنىا مىں مبعوث فرمائے گئے، ان پر ہمارا اىمان ہے۔ مندرجہ بالا آىتوں سے ىہ بات بھى واضح ہوگئى کہ انبىا علیہم السلام کى بعثت کا مقصد کىا تھا، اور چونکہ ىہ بات بھى واضح ہوگئى کہ انسان کو خود ہى آزادانہ طور پر سعادت ىا شقاوت کا راستہ اختیار کرنا ہے اس لىے انسان کے لىے دونوں راستوں کى شناخت ضرورى ہے۔انسان کى عقل و حواس صحىح ىا غلط کى شناخت کے لىے کافى نہىں ہے، لہٰذا ہماری ضرورت کے پىشِ نظر انبىا علیہم السلام کو مبعوث فرماىا گىا کہ ان کے ذرىعے اللہ پاک انسانوں کو دونوں راستوں مىں فرق سکھادے اور چونکہ اللہ پاک نے انسانوں کو اس لىے خلق فرماىا کہ وہ ذمہ دارى قبول کرے، ىعنى صحىح اور غلط راہ خود منتخب کرے تاکہ اپنے اعمال کے نتیجے تک پہنچ سکے تاکہ وہ جو راستہ بھی اختیار کرے پوری سمجھ بوجھ سے اختیار کرے دوسرے الفاظ میں یوں کہاجاسکتا ہے کہ انبیا علیہم السلام کے آنے کا مقصد یہ بھی تھا کہ لوگوں پر حجت تمام ہوجائے،چنانچہ سورۃ النساء آیت نمبر165 میں ہے:ترجمۂ کنز الایمان:رسول خوشخبری دیتے اور ڈر سناتے کہ رسولوں کے اللہ کے یہاں لوگوں کو عذر نہ رہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔اس آیتِ مبارکہ سے واضح ہوا کہ تمام حجت حکمتِ الٰہی کا لازمہ ہے یعنی رسولوں کو بھیجنے کا مقصدیہ بھی تھا کہ انسان کے پاس کوئی عذر نہ رہے کہ ہم تک کوئی راہ نما نہ آیا اس سے ملتی جلتی ایک اور آیت ہے البتہ یہ آیت جس کا ذکر کیا جارہا ہے بعض میں مخاطب یہ مخصوص قوم ہے یا کہیں اہلِ کتاب سے خطاب ہے یا مشرکین مکہ مخاطب ہیں لیکن مضمون سب کا ایک ہی ہے،چنانچہ ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:ترجمہ:کبھی کہو کہ کتاب تو ہم سے پہلے دو گروہوں پر اتری تھی اور ہمیں ان کے پڑھنے پڑھانے کی کچھ خبر نہ تھی یا کہو کہ اگر ہم پر کتاب اترتی تو ہم ان سے زیادہ ٹھیک راہ پر ہوتے تو تمہارے پاس تمہارے رب کی روشن دلیل اور ہدایت اور رحمت آئی۔ (الانعام:156،157)اسی طرح کی اور آیات بھی قرآنِ کریم میں موجود ہیں جن میں یہ بات واضح ہے کہ اللہ پاک کی طرف سے انسانوں کی ہدایت اور راہ نمائی کے لئے پیغمبر ہر قوم اور ہر زمانے میں آتے رہے ۔تو اب حضرت انسان کے پاس یہ عذر باقی نہ رہا کہ ان کے پاس کوئی ہدایت والا نہ آیا اور قرآن کریم میں ایک مقام پر ارشاد ہے:ترجمہ:اور انہوں نے اللہ کی قسم کھائی اپنے حلف میں پوری کوشش سے کہ اگر ان کے پاس کوئی نشانی آئی تو ضرور اس پر ایمان لائیں گے۔(الانعام:109)انبیا علیہم السلام کی بعثت کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ جن لوگوں نے بڑی بڑی قسمیں کھائی تھیں اللہ کی طرف سے آتی ہوئی ہدایت پر ایمان لانے کی اس مقصد کے تحت انبیا کو بھیجا گیا کہ ان کی جھوٹی قسموں کی حقیقت ظاہر کریں۔ترجمہ:اور نہ بھیجا ہم نے کسی بستی میں کوئی بنی مگر یہ کہ اس کے لوگوں کو سختی اور تکلیف میں پکڑا وہ کسی طرح زاری کریں۔ (الاعراف:96)اللہ پاک نے کسی بھی قوم یا بستی میں نبی کو اس لئے بھیجا کہ اس کے لوگ برائیوں اور بداعمالیوں میں مبتلا ہوتے تو اللہ پاک ان پر کسی نبی کو مبعوث فرماتا کہ وہ لوگ اس نبی پر ایمان لاکر نجات پاجائیں۔انبیا علیہم السلام کی بعثت کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ اللہ پاک کسی قوم یا بستی پر ان کی گمراہی و سرکشی کے باوجود اس وقت تک عذاب نہیں بھیجتا جب تک ان میں ہدایت کے لئے کوئی نبی نہیں بھیجتا۔اس بات کی مصداق یہ آیتِ مبارکہ بھی ہوسکتی ہے:ترجمہ:اور اگر اللہ لوگوں پر برائی ایسی جلدی بھیجتا جیسی وہ بھلائی کی جلدی کرتے ہیں تو ان کا وعدہ پورا ہوچکا ہوتا۔(یونس:11)پھر سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ہر قوم اور بستی پر الگ الگ انبیا علیہم السلام کیوں مبعوث نہ فرمائے گئے؟جواب یہ ہے کہ ہر قوم کے الگ ادوار واطوار تھے،ان کے حالات بھی الگ ہوتے تھے تو جس قوم میں جیسی برائی پائی جاتی اس کی ہدایت کے لئے کسی نبی کو بھیجا جاتا،پھر اگر وہ لوگ ایمان لے آتے تو نجات پاتے اور اگر انکار کرتے تو اللہ پاک کا عذاب ان پر نازل ہوتا جیسا کہ قرآنِ کریم میں ہے:ترجمہ:اور بے شک ہم نے تم سے پہلے سنگتیں ہلاک کردیں جب وہ حد سے بڑھےاور ان کے پاس ان کے رسول روشن دلیلیں لے کر آئے اور وہ ایسے تے ہی نہیں کہ ایمان لائے ہم یونہی بدلہ دیتے ہیں مجرموں کو۔(یونس:13) جب ایک قوم اپنی سرکشی کے باعث ہوجاتی تو دوسری قوم اس کی جگہ آجاتی ،پھر ان میں ان کے زمانے اورفطرت کے مطابق نبی بھیجے جاتے،اس طرح یکے بعد دیگرے انبیا علیہم السلام کے آنے کا سلسلہ جاری رہا اور اللہ پاک کی اپنے بندوں پر سب سے بڑی رحمت اور فضل رہا کہ اس نے اپنے بندوں کو سرکشی میں بھٹکتا ہوا نہیں چھوڑا بلکہ ہدایت اور راہ نمائی کے لئے اپنے انبیا علیہم السلام کو بھیجا اور غور کیا جائے تو دنیا کا بھی یہ دستور ہے کہ امتحان سے پہلے اس کی تیاری کروائی جاتی ہے اور ظاہر ہے کہ امتحان کی تیاری کوئی ایسا استاد کرواتا ہے جو تربیت یافتہ ہو جو صحیح راہ نمائی کرنے والا ہوکیونکہ استاداپنے شاگردوں کو آگے آنے والے خطرات سے آگاہ کرتا ہے اور یہ باور کرواتا ہے کہ میرے بعد کوئی اور استاد تمہاری راہ نمائی کے لئے آئے گا تو اس کی بھی اسی طرح ماننا جیسے میری مانتے ہو یعنی انبیا علیہم السلام نے اپنے بعد آنے والے نبی کی بشارت دیتے اور ہر نبی نے اپنے دور نبیِ ّخر الزمان صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے آنے کی بشارتیں دیں اس کا ذکر قرآنِ کریم میں اس طرح ہے:ترجمہ:اے نبی اسرائیل میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرتا ہوں اور ان رسول کی بشارت دیتا ہوں جو میرے بعد تشریف لائیں گے ان کا احمد ہے۔(الصف:6)یعنی تمام انبیا علیہم السلام نے اپنے سے پہلے آنے والے کی تصدیق کی اور اپنے بعد آنے والے کی بشارت دی اور انبیا علیہم السلام کی بعثت کا سلسلہ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پر ختم کردیا گیا کہ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بعثت کے بعد وہ دن آئے گا جب ہر انسان کو اللہ پاک کی طرف سے ان پیغمبروں کے ذریعے بھیجی گئی ہدایت کی پیروی کی جزا ملے اور انکار کرنے والوں کو ان کی سرکشی کی سزا ملے۔خلاصۂ مضمون یہ ہے کہ انبیا علیہم السلام کی بعثت اللہ پاک کی طرف سے اپنے بندوں پر فضل اور اس کی سب سے بڑی رحمت ہے کہ ان انبیا علیہم السلام کے ذریعے ہم اصل میں انسانیت کی معراج تک پہنچی ہیں۔