اللہ پاک نے مخلوق کی راہ نمائی کے لیے
ان کی طرف انبیا و رسولوں علیہم السلام کو بھیجا اور ان پر کتابیں نازل فرمائیں۔ تمام لوگوں پر ان کو
فضیلت بخشی اور ان میں سے بعض کو بعض فضیلت عطا فرمائی ۔کچھ انبیا علیہم
السلام کا ذکر قرآنِ پاک میں فرمایا کچھ کا نہیں
فرمایا۔نبیوں میں سب سے پہلے حضرت آدم علیہ
السلام
اور آخری نبی، پیارے آقا،محمد مصطفٰے صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ہیں۔اللہ پاک کی انبیائے کرام علیہم
السلام
کو معبوث فرمانے کی کئی حکمتیں قرآنِ پاک میں بیان ہوئیں ہیں۔ان میں سے 10 کا ذکر
کرتی ہوں۔1:امتوں میں پیدا ہونے والے اختلاف کا فیصلہ کرنے کے لیے:ترجمۂ
کنزالایمان: تمام لوگ ایک دین پر تھے تو اللہ نے انبیا بھیجے خوشخبری دیتے ہوئے اور
ڈر سناتے ہوئے اور ان کے ساتھ سچی کتاب اتاری تاکہ وہ لوگوں کے درمیان ان کے
اختلافات میں فیصلہ کردے۔ (پ2،البقرۃ:213)تفسیر
: حضرت آدم علیہ السلام
سے حضرت نوح علیہ السلام
تک لوگ مومن رہے پھر ان میں اختلاف نمودار ہوا۔ بعض مومن بعض کافر ہوئے
پھر رب نے پیغمبر بھیجے۔(تفسیر نور العرفان)لوگوں
کی عقلیں اور نظریات مختلف ہیں تو اللہ پاک نے انبیا علیہم السلام کو
بھیجا تاکہ ان کے درمیان اختلاف کا فیصلہ کر دے۔2: اللہ پاک کی عبادت کا حکم دینے
کے لیے:ترجمۂ
کنزالایمان: اور بے شک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تو اس نے کہا اے میری
قوم اللہ کو پوجو اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں تو کیا تم ڈر نہیں۔(سورۃ
مومنون، آیت نمبر 23،پارہ 18)تفسیر: اس وقت تمام انسان آپ کی قوم
تھے کیونکہ انسان بہت تھوڑے تھے۔ لہٰذا آدم علیہ
السلام
اس وقت کے تمام انسانوں کے نبی تھے۔(تفسیر نور العرفان ،ص808)3:
اللہ پاک کے احکام بندوں تک پہنچانے کے لیے:اللہ پاک نے مخلوق کو اپنی عبادت کیلئے
پیدا کیا اور ان کیلئے امر و نہی پر مشتمل شریعت قائم کی،انبیا علیہم
السلام کو اپنے اور اپنے بندوں کے درمیان واسطہ
بنایا تاکہ یہ حضرات لوگوں تک احکام پہنچا دیں۔اب اگر انبیا علیہم
السلام نہ ہوتے تو مخلوق گمراہ ہو جاتی اور وہ یہ نہ
جان پاتے کہ عبادت کس طرح سے کرنی ہےاور کیا کام کرنے ہیں اور کن کاموں کو ترک
کرنا ہے؟ ترجمۂ کنز الایمان:اور
ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے (
انعام : 48)اس
وجہ سے اللہ پاک نے مخلوق پر رسولوں کی اطاعت کو واجب کر دیا۔
(النور المبین صفحہ نمبر 53)اس آیت میں اللہ پاک نے واضح فرمایا کہ
انبیا علیہم
السلام کو لوگوں کو احکامِ الٰہی بجا لانے پر خوشخبری
سنانے والا بھیجا اور جو پیروی نہ کریں ان کو ڈر سنا کر درست طریقہ عبادت کی طرف
لانے والا بنا کر بھیجا اور تمام لوگوں پر اللہ پاک نے ان رسولوں کی اطاعت کرنا
واجب کر دیا۔4:مخلوق پر حجت پوری ہو جائے:اللہ پاک نے انبیائے
کرام علیہم
السلام کو بھیجا تاکہ لوگوں پر حجت پوری ہوجائے
اور ان کے عذر ختم ہو جائیں ۔اللہ پاک نے فرمایا:ترجمہ: اور ہم
کسی کو عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک کوئی رسول نہ بھیج دیں۔(الاسراء:15)
اور فرماتاہے:ترجمۂ
کنز الایمان:رسول خوشخبری دیتے اور ڈر سناتے کہ رسولوں کے بعد اللہ کے یہاں لوگوں
کو کوئی عذر نہ رہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔(النور المبین
صفحہ 54)5:امت
کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دینے کے لیے:ترجمۂ کنزالعرفان:جیسا کہ ہم
نے تمہارے درمیان تم میں سے ایک رسول بھیجا جو تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے
اور تمہیں پاک کرتا اور کتاب اور پختہ علم سکھاتا ہے اور تمہیں وہ تعلیم فرماتا ہے
جو تمہیں معلوم نہیں تھا۔تفسیر:آیت میں فرمایا:”اور تمہیں وہ
تعلیم فرماتا ہے “سے مراد ہےقرآن اور احکام الہٰیہ جو ہم نہیں جانتے تھے وہ آپ
ہمیں سکھاتے ہیں۔(تفسیر صراط الجنان، ص 274)6:تاکہ
دین غالب آجائے:ترجمۂ
کنزالایمان: اور
سچے دین کے ساتھ بھیجا کہ اسے سب دینوں پر غالب کرے۔ (سورۃ
التوبہ،آیت نمبر 32)اللہ پاک نے انبیائے کرام علیہم
السلام
کو معبوث فرمایا تاکہ اللہ پاک کا دین باطل ادیان پر غالب آجائے
اور حق اور باطل میں فرق ہو جائے۔7:لوگوں کے
لیے رحمت:ترجمۂ
کنز الایمان:اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لیے۔(
الانبیاء،آیت نمبر 107) حضرت ابنِ عباس رضی
اللہ عنہما
نے فرمایا:حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا رحمت ہونا عام ہے ایمان والو کے لیے بھی اور
اس کے لیے بھی جو ایمان نہ لایا،مومن کے لیے بھی اور کافر کے لیے بھی۔(تفسیرِ
خزائن العرفان،ص 616) اس آیت اور تفسیر سے یہ بات ظاہر ہے کہ
حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم چاہے انس ہو یا جن،مومن ہو یا کافر سب کے لیے
رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں۔8:لوگوں کے لیے عدل کرنے کیلئے:ترجمۂ
کنزالایمان:بے شک ہم نے اپنے رسولوں کو روشن دلیلوں کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ
کتاب اور عدل کی ترازو اتاری کہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔( الحدید،آیت
نمبر 25)اس
آیت کی تفسیر میں مفتی صاحب نے فرمایا: اللہ پاک نے اپنے رسولوں کو ان کی امتوں کی
طرف روشن دلیلوں کے ساتھ اور عدل کے ساتھ معبوث فرمایا۔( تفسیر صراط
الجنان ،ص 751،ج 9)9:حاضر وناظر بنا کر بھیجا:
اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) بے شک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور
خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا۔حاضر وناظر کے شرعی معنی ہیں: قدسی قوت
والاجو ایک ہی جگہ رہ کر تمام عالم کو اپنے ہاتھ کی ہتھیلی کی طرح دیکھنے اور دور
نزدیک کی آوازیں سنے۔سورۂ احزاب آیت نمبر 6 میں اللہ پاک نے فرمایا :نبی ِکریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم مسلمانوں کے ان کی جانوں سے زیادہ قریب ہیں۔ (
الاحزاب:58،پارہ8)10:خوشخبری اور ڈر سنانے کے لئے:ترجمۂ
کنزالایمان:اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر خوشی اور ڈر سناتا۔(
بنی اسرائیل،آیت نمبر 105)اللہ پاک نے اپنے انبیائے کرام علیہم
السلام کو بھیجا تاکہ ایمان والو کو خوش خبری سنائے
اور کافروں کے لیے ڈر سنانے والا۔