حضرت ادریس علیہ السلام کا اصل نام اخنوخ ہے، آپ کے والد کا نام شیث بن آدم علیہما السلام ہے، آپ علیہ السلام پر تیس صحیفے نازل ہوئے، ان صحیفوں کا بہت زیادہ درس دینے کی وجہ سے آپ کو ادریس (یعنی بہت درس دینے والا) کہتے ہیں۔ آپ علیہ السلام سے بہت سارے نئے کام ایجاد ہوئے، مثلاً قلم سے لکھنا، کپڑے سینا اور سلے ہوئے کپڑے پہننا آپ ہی کی ایجادات ہیں۔ قرآن پاک میں آپ علیہ السلام کی صفات کا ذکر بھی ملتا ہے، آئیے! ہم بھی آپ کی صفات میں چند پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔

صدیق (سچ بولنے والے): قرآن پاک میں آپ کی ذکر کردہ صفات میں سے ایک صدیق بھی ہے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّاۗۙ(56) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو بےشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا۔(پ16، مریم:56)

اللہ عزوجل کے احسان مند: قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ ان پر اپنا احسان ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:

اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ مِنْ ذُرِّیَّةِ اٰدَمَۗ ترجَمۂ کنزُالایمان: یہ ہیں جن پراللہ نے احسان کیا غیب کی خبریں بتا نے والوں میں سے آدم کی اولاد سے۔(پ16 مریم: 58)

صبر کرنے والے: الله عزوجل ارشاد فرماتا ہے: وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(85) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اسمٰعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔(پ17، الانبیآء:85)

حضرت ادریس علیہ السلام استقامت کے ساتھ کتابِ الٰہی کا درس دیتے، عبادتِ الٰہی میں مصروف رہتے اور اس راہ میں آنے والی مشقتوں پر صبر کرتے تھے اس لئے آپ علیہ السلام کو بھی بطور خاص صابرین میں شمار کیا گیا ہے۔

صالح: اللہ تعالیٰ آپ کی صفت صالح کا بیان کرتے ہوئے اپنی مقدس کتاب قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(86) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا بےشک وہ ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں ہیں۔ (پ17، الانبیآء:86)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ کریم ہمیں حضرت ادریس کے صدقے نیکی کی دعوت کی دھو میں مچانے کی توفیق عطا فرمائے اور بے حساب مغفرت فرما کر جنت میں داخلہ عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

اللہ پاک نے اس کائنات کی تخلیق فرمائی پھر انبیاء علیہم السلام کو اس کائنات میں ہادی خلق اور دعوت الی اللہ کا فریضہ انجام دینے کے لئے مبعوث فرمایا اور انبیاء کرام علیہم السلام کو اعلىٰ صفات، عمدہ اخلاق اور بہترین اوصاف سے نوازا۔ انہی مقدس شخصیات میں سے ایک حضرت ادریس علیہ السلام بھی ہیں آپ علیہ السلام کا نام اخنوخ، آپ کے والد کا نام شیث علیہ السلام ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کے بعد آپ پہلے رسول ہیں، اللہ پاک نے آپ پر تیس صحیفے نازل فرمائے اللہ پاک کی طرف سے نازل ہونے والے صحیفوں کا کثرت سے درس دینے کی وجہ سے آپ کا نام ادر یس ہوا۔(روح البیان، مریم، تحت الآیۃ: 56، 5/341 ملتقطاً) آئیے! قرآن پاک سے حضرت ادريس علیہ السلام کی 5 صفات پڑھتے ہیں:

(1)غیب کی خبریں بتانے والے:آپ علیہ السلام اللہ پاک کی عطا سے نبی تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرمایا:وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّاۗۙ(56)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو بےشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا۔(پ16، مریم:56)

(2)اللہ پاک کے خاص مقرب والے:آپ علیہ السلام اللہ پاک کے نیک برگزیدہ اور مقرب بندے تھے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(86)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا بےشک وہ ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں ہیں۔ (پ17، الانبیآء: 86)

(3)صدیق(بہت زیادہ سچے):آپ علیہ السلام کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ اللہ پاک نے آپ علیہ السلام کو صداقت و صدیقیت کے مقام پر فائز فرمایا جو کہ اللہ پاک کےقرب کا خاص مقام ہے۔ جیسا کہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّاۗۙ(56) ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک وہ (یعنی حضرت ادریس) صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا۔(پ16، مریم:56)

(4)صبر کرنے والے: آپ علیہ السلام عبادات کی مشقتوں اور دنیاوی آفات و بلیات کو برداشت کرنے پر کامل صبر والے تھے جیسا کہ اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(85) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اسمٰعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔(پ17، الانبیآء:85)

( 5)زندہ اٹھا لیا جانا: آپ علیہ السلام کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ آپ کو زندہ آسمانوں پر اٹھا لیا گیا، جیسا کہ اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَّ رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِیًّا(57) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے اسے بلند مکان پر اٹھالیا۔ (پ16، مریم:57)

اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہمیں انبیاء کرام علیہم السلام کی سیرت کا ذوق و شوق سے مطالعہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

انبیائے کرام علیہمُ السّلام وہ انسان ہیں جن کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آتی ہےاور اُنہیں اللہ تعالیٰ مخلوق کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے بھیجتا ہے، ان میں سے جونئی شریعت لائے انہیں رسول کہتے ہیں۔اللہ پاک نے جن انبیاء کرام علیہم السلام کو اس دنیا میں بھیجا ان میں سے ایک حضرت ادریس علیہ السلام بھی ہیں۔ قرآن کریم میں جن انبیاء کرام علیہم السلام کے اوصاف کا ذکر آیا ہے ان میں حضرت ادریس علیہ السلام بھی شامل ہیں۔ آیئے! آپ علیہ السلام کے قرآنی اوصاف کا مطالعہ کرتے ہیں:

آپ علیہ السلام کا مختصر تعارف:

آپ علیہ السلام کا اصل نام خنوخ یا اخنوخ اور لقب ادریس ہے، اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام پر تیں صحیفے نازل فرمائے اور ان صحیفوں کا کثرت سے درس دینے کی وجہ سے آپ علیہ السّلام کا لقب ادریس (یعنی بہت درس دینے والا) ہوا۔ آپ علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام کے والد کے دادا ہیں اور حضرت آدم و شیث علیہما السلام کی نبوت کے بعد آپ ہی منصب نبوت پر فائز ہوئے۔

آپ علیہ السلام کے قرآنی اوصاف:

(1، 2)بہت سچے اور نبی: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّاۗۙ(56) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو بےشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا۔(پ16، مریم:56)

تمام انبیاء کرام علیہم السلام سچے اور صدیق ہیں لیکن یہاں حضرت ادریس علیہ السلام کی صداقت و صدیقیت کو بطور خاص بیان کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ میں یہ وصف بہت نمایاں تھا اور سچائی یقینا اللہ تعالیٰ کو پسند اور اس کے پسندیدہ بندوں کا قابلِ تعریف وصف ہے۔

(3)صبر کرنے والے: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(85) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اسمٰعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔(پ17، الانبیآء:85)

حضرت ادریس علیہ السلام استقامت کے ساتھ کتاب الٰہی کا درس دیتے، عبادت الٰہی میں مصروف رہتے اور اس راہ میں آنے والی مشقتوں پر صبر کرتے تھے، اس لیے آپ علیہ السلام کو بھی بطور خاص صابرین میں شمار فرمایا گیا۔

(4)قرب الٰہی پانے والا: آپ علیہ السلام قرب الٰہی کے لائق بندوں میں سے تھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(86) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا بےشک وہ ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں ہیں۔(پ17، الانبیآء:86)

اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہمیں انبیاء کرام علیہم السلام کی سیرت پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

اللہ پاک نے اپنے نبیوں کی خوبیوں اور خصوصیات کا ذکر قرآن پاک میں فرما کر ان حضرات کی عظمت کوخوب واضح کردیا کہ یہ عام لوگوں کی طرح نہیں ہیں بلکہ ان کو اللہ پاک کی بارگاہ میں بہت مرتبہ اور مقام حاصل ہے۔

بلند مکان پر اٹھانا: اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: وَّرَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِیًّا(57) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے اسے بلند مکان پر اٹھالیا۔(پ16، مریم:57)

تفسیر صراط الجنان میں ہے: حضرت ادریس علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کو بلندمکان پر اٹھالینے کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے آپ علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کے مرتبے کی بلندی مراد ہے اور ایک قول یہ ہے کہ آپ علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کوآسمان پر اٹھالیا گیا ہے اور زیادہ صحیح یہی قول ہے کہ آپ علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کو آسمان پر اٹھالیا گیا ہے۔(خازن، مریم، تحت الآیۃ:57، 3/238)

صبر کرنے والے تھے: قرآن کریم میں اللہ پاک نے دیگر انبیائے کرام کے ساتھ حضرت ادریس علیہ السلام کے صبر کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(85) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اسمٰعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔(پ17، الانبیآء:85)

رحمت میں داخل اور خاص بندے: قرآن کریم میں اللہ پاک نے دیگر انبیائے کرام کے ساتھ حضرت ادریس علیہ السلام کے رحمت میں داخل ہونے اور قرب خاص میں ہونے کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(86) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا بےشک وہ ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں ہیں۔ (پ17، الانبیآء:86)

اللہ پاک حضرت ادریس علیہ السلام کے صدقے ہمیں اپنا مخلص بندہ بنائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

پیارے اسلامی بھائیو! حضرت ادریس علیہِ السّلام کو اللہ عزوجل نے بہت سی شان و کمالات سے نوازا ہے حضرت ادریس علیہ السلام اللہ عزوجل کے نبی تھے، آپ علیہ السلام نے ہی زمین پر سب سے پہلے درس و تدریس لوگوں کو سکھانا شروع کیا اسی وجہ سے آپ علیہ السلام کا لقب ادریس ہوا، کپڑوں کو سینے اور سلے ہوئے کپڑے پہننے کی ابتدا بھی آپ ہی سے ہوئی اور بھی آپ علیہ السلام کی بہت سی خصوصیات ہیں۔ اللہ عزوجل نے قرآن پاک میں بھی آپ کی صفات ذکر فرمائیں ہیں۔

(1) بلند مکان پر اٹھانا: اللہ عزوجل نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا: وَّ رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِیًّا(57) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے اسے بلند مکان پر اٹھالیا۔(پ16، مریم:57)

بلند مکان پر اٹھالینے کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے آپ علیہ السلام کے مرتبے کی بلندی مراد ہےاور ایک قول یہ ہے کہ آپ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا گیا ہے اور زیادہ صحیح یہی دوسرا قول ہے۔ (سیرت الانبیاء، ص 154 )

(2)سچے نبی: اللہ عزوجل نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّاۗۙ(56) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو بےشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا۔(پ16، مریم:56)

اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آپ ہماری اس کتاب میں ادریس کو یاد کرو بے شک وہ بہت ہی سچے نبی تھے۔( تفسیر صراط الجنان، پ16، مریم: 56)

(3)کامل صبر: الله عزوجل نے قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(85) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اسمٰعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔(پ17، الانبیآء:85)

الله عزوجل نے ارشاد فرمایا: اے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آپ حضرت اسماعیل، حضرت ادریس اور حضرت ذوالکفل علیہم السلام کو یاد کریں وہ سب عبادات میں مشقتوں اور آفات و بلیات کو برداشت کرنے پر کامل صبر کرنے والے تھے۔( تفسیر صراط الجنان، پ17، الانبیاء: 85)

(4) قرب الٰہی: حضرت ادریس علیہ السلام صبر کرنے والے اورقرب الٰہی کے لائق خاص بندوں میں سے تھے جیسا کہ ارشاد فرمایا: وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(86) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا بےشک وہ ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں ہیں۔(پ17، الانبیآء: 86-سیرت الا نبیاء)

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

اللہ پاک نے قرآن کریم میں جن انبیائے کرام کا ذکر فرمایا ان میں ایک ہستی حضرت ادریس علیہ السلام بھی ہیں آئیے! آپ علیہ السلام کے قرآنِ کریم میں بیان کئے گئے اوصاف کا مطالعہ کرتے ہیں۔

(1)صبر کرنے والے: قرآن پاک میں دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ ساتھ حضرت ادریس علیہ السلام کے صبر کا بھی ذکر ہے کہ آپ علیہ السلام صبر کرنے والے تھے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(85) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اسمٰعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔(پ17، الانبیآء:85)

(2) ہمیشہ سچ بولنے والے: آپ علیہ السلام کی ایک صفت یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ آپ ہمیشہ سچ بولتے تھے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّاۗۙ(56) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو بےشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا۔(پ16، مریم:56)

(3)الله عزوجل کی رحمت پانے والے: اللہ پاک نے جن انبیاء کرام کو اپنی رحمت میں داخل فرمایا ان میں آپ علیہ السلام بھی شامل ہیں، جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(86) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا۔ (پ17، الانبیآء:86)

(4)قرب الٰہی پانے والے: دیگر انبیاء کے ساتھ ساتھ آپ کو بھی قرب الٰہی کا مثردہ سنایا گیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک وہ ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں ہیں۔(پ17، الانبیآء:86)

(5) الله عزوجل کا احسان پانے والے : دیگر انبیاء کے ساتھ ساتھ آپ پر بھی اللہ عزوجل کا احسان ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ترجَمۂ کنزُالایمان: یہ ہیں جن پراللہ نے احسان کیا غیب کی خبریں بتا نے والوں میں سے آدم کی اولاد سے۔(پ16 مریم:58)

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

حضرت ادریس علیہ السلام اللہ عزوجل کے برگزیدہ بندے و نبی ہیں۔ آپ علیہِ السّلام حضرت آدم اور حضرت شیث علیہما السلام کے بعد لوگوں کی راہنمائی کے لیے بھیجے گئے۔ آپ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آباء و اجداد میں سے ہیں۔ آپ کا نامِ نامی اسمِ گرامی خنوخ یا اخنوخ ہے اور مبارک لقب ادریس ہے۔ آپ علیہ السلام کو وعدۂ الٰہی کے مطابق ابھی تک موت نہیں آئی اور اس وقت آپ آسمانوں میں زندہ تشریف فرما ہیں۔ (سیرت الانبیاء، صفحہ 148)

حضرت ادریس علیہ السلام کی قرآنی صفات:قرآن مجید فرقان حمید میں حضرت سیدنا ادریس علیہ السلام کا تذکرہ مبارک دو سورتوں میں موجود ہے۔ سورۂ مریم اور سورۂ انبیاء۔ انہیں میں سے ذکر کردہ آپ کی قرآنی صفاتِ مبارکہ کے بارے میں جانتے ہیں:

(1، 2) صدیق(سچے)، نبی: حضرت ادریس علیہ السلام صدیق یعنی بہت ہی سچے نبی تھے کہ آپ کی صداقت کو خود خالقِ کائنات نے قرآن مجید میں یوں ذکر فرمایا ہے: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّاۗۙ(56) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو بےشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا۔(پ16، مریم:56)

تمام انبیاء کرام علیہم السلام ہی صدیق ہیں لیکن قرآن مجید میں خصوصیت کے ساتھ سیدنا ادریس علیہ السلام کو صدیق فرمایا گیا اس سے معلوم ہوتا ہےکہ آپ میں اس وصف کا ظہور نمایاں تھا۔

(3)صبر کرنے والے نبی: آپ کی صداقت کے ساتھ ساتھ آپ علیہ السلام کے صبر مبارک کا ذکر بھی قرآن مجید میں آیا ہے۔چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(85) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اسمٰعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔(پ17، الانبیآء:85)

(4) کامل ترین صالح نبی: وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(86) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا بےشک وہ ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں ہیں۔ (پ17، الانبیآء: 86)

اللہ عزوجل ہمیں سیرتِ انبیاء کرام علیہم السلام کا مطالعہ کرنے اور اللہ عزوجل کے آخری نبی کی سیرتِ مبارکہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ۔

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

حضرت ادریس علیہ السلام جو حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آباء و اجداد میں سے ہیں۔ آپ کا اصل نام خنوخ یا اخنوخ ہے، باکثرت درس دینے کی وجہ سے آپ کا لقب مبارک ادریس ہے۔ (سیرت الانبیاء، صفحہ نمبر 148)

آپ کو اللہ تعالیٰ نے بہت سے اوصافِ حمیدہ سے نوازا۔ جن کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے۔ آئیے قرآن مجید کی روشنی میں حضرت ادریس علیہ السلام کی قرآنی صفات کے بارے میں جانتے ہیں۔

(1، 2) بہت ہی سچے نبی: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّاۗۙ(56) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو بےشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا۔(پ16، مریم:56)

(3) صبر کرنے والے: وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(85) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اسمٰعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔(پ17، الانبیآء:85)

(4) قربِ خاص والے نبی: وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(86) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا بےشک وہ ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں ہیں۔(پ17، الانبیآء: 86)

آپ کے اوصاف حمیدہ جو قرآن کریم میں واضح ذکر کئے گئے وہ یہ ہیں: (1)بہت ہی سچا (2)غیب کی خبریں دینے والے نبی(3)صبر کرنے والے اور (1)قربِ الٰہی کے لائق بندوں میں سے ہیں۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں انبیاء کرام کی سیرت پڑھ کر اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

حضرت ادریس علیہ السّلام اللہ تعالیٰ کے تیسرے نبی تھے، جو حضرت آدم علیہ السّلام اور حضرت شیث علیہ السّلام کے بعد نبوّت کے جلیل القدر منصب پر فائز ہوئے۔ آپ کا اصل نام’’اخنوخ‘‘ تھا، جب کہ قرآنِ کریم اور احادیثِ مبارکہ میں آپ کو ’’ادریس‘‘ کے نام سے پکارا گیا ہے۔

قرآنِ پاک میں ذکر: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے: ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو بےشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا۔ اور ہم نے اسے بلند مکان پر اٹھالیا۔(پ16، مریم:56، 57) ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اسمٰعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔(پ17، الانبیآء:85)

قرآنِ کریم کی معروف و مستند تفسیر’’معارف القرآن‘‘ کے مطابق’’ حضرت ادریس علیہ السّلام، حضرت نوح علیہ السّلام سے ایک ہزار سال پہلے پیدا ہوئے۔(روح المعانی، بحوالہ مستدرک حاکم) اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوّت کے مرتبے پر سرفراز فرمایا اور آپ پر تیس صحیفے نازل فرمائے۔ حضرت ادریس علیہ السّلام وہ پہلے انسان ہیں جنہیں علمِ نجوم اور حساب بطورِ معجزہ عطا کیے گئے۔ سب سے پہلے آپ نے ہی قلم سے لکھنا اور کپڑا سینا ایجاد کیا۔ آپ سے پہلے لوگ عموماً جانوروں کی کھال، لباس کے طور پر استعمال کیا کرتے تھے۔ سب سے پہلے ناپ تول کے طریقے بھی آپ ہی نے متعارف کروائے اور ہتھیار بھی آپ کی ایجاد ہے۔علمائے تفسیر فرماتے ہیں کہ’’پہلا شخص جس نے تبلیغِ دین کے لیے وعظ و خطاب کا سلسلہ شروع کیا، وہ حضرت ادریس تھے۔‘‘


اللہ پاک نے انسان کو اتنی عقل دی ہے کہ اگر وہ دنیا میں غوروفکر کرے تو وہ اس کی ذات پاک کے وجود کو جان لے مگر اللہ نے اتمام حجت کے لیے انبیاء کو بھیجا جو لوگوں کو اس کی ذات کی پہچان کرائیں تاکہ قیامت میں کوئی منکر یہ نہ کہہ سکے کہ ہمارے پاس ڈر سنانے والا کوئی رسول نہیں آیا تھا جو ہمیں ایک خدا کی عبادت کا حکم دیتا اور اس کے عذاب سے ڈراتا، انبیاء اور رسولوں کا یہ سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا اور حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ختم ہو گیا۔ اللہ پاک نے ان انبیاء میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی اور ہر نبی کو ایسے اوصاف دیے جن کے سبب وہ اپنی قوم میں سب سے ممتاز ہوئے۔ آج ہم ان انبیاء میں سے اس نبی کا ذکر خیر قلم بند کریں گے جنہوں نے سب سے پہلے قلم سے لکھا، (جامع صغیر حدیث نمبر 2846صفحہ169حرف الھمزہ دارالکتب علمیہ بیروت لبنان) اور حضرت آدم علیہ السلام کے پوتے ہیں(تفسیر مدارک سورۃ انبیاء تحت الآیۃ 85)یعنی حضرت ادریس علیہ السلام۔ آپ کا اصل نام اخنوخ ہے(مدارک، مریم، تحت الآیۃ:56، ص677)ادریس آپ کا لقب ہے۔ قرآن پاک میں آپ کے جن اوصاف کو ذکر کیا گیا ہے وہ درج ذیل ہیں:

صدیق: اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّاۗۙ(56) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو بےشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا۔(پ16، مریم:56)

صبر کرنے والا: فرمان باری تعالیٰ ہے: وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(85) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اسمٰعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔(پ17، الانبیآء:85)

حضرت ادریس علیہ السلام عبادات کی مشقتوں اور آزمائشوں کو برداشت کرنے اور اپنے اوپر نازل ہونے والے صحیفوں کے درس پر صبر کرنے والے تھے۔(تفسیر روح البیان جلد 5 صفحہ515سورۃ الانبیاء تحت الآیۃ 85)

قرب خاص کے لائق : رب تعالیٰ کا فرمان ہے: وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(86) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا بےشک وہ ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں ہیں۔ (پ17، الانبیآء: 86) یہاں قرب خاص سے مراد نبوت ہے۔(تفسیر جلالین سورۃ انبیاء تحت الآیۃ 85)

اللہ پاک ہمیں بھی حضرت ادریس علیہ السلام کی طرح تبلیغ دین پر گامزن رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس راہ میں آنے والی مشکلات کو برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

حضرت ادریس علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کا اصل نام خنوخ یا اخنوخ ہے اور لقب ادریس ہے، اللہ تعالیٰ نے آپ پر 30 صحیفے نازل فرمائے اور ان صحیفوں کا کثرت سے درس دینے کی وجہ سے آپ علیہ السّلام کا لقب ادریس (یعنی درس دینے والا) ہوا۔ آپ علیہ السّلام حضرت نوح علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کے والد کے دادا ہیں۔ حضرت آدم علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کے بعد آپ ہی پہلے رسول ہیں۔ حضرت آدم و حضرت شیث علیہما السلام کی نبوت کے بعد آپ ہی منصب نبوت پر فائز ہوئے یعنی آپ علیہ السّلام تیسرے نبی اور دوسرے رسول ہیں۔ سب سے پہلے جس شخص نے قلم سے لکھا وہ آپ ہی ہیں۔ کپڑوں کو سینے اور سلے ہوئے کپڑے پہننے کی ابتدا بھی آپ ہی سے ہوئی، آپ سے پہلے لوگ کھالیں پہنتے تھے۔ سب سے پہلے ہتھیار بنانے والے، ترازو اور پیمانے قائم کرنے والے اور علمِ نُجوم اور علمِ حساب میں نظر فرمانے والے بھی آپ ہی ہیں اور یہ سب کام آپ ہی سے شروع ہوئے۔(خازن، مریم، تحت الآیۃ:57، 3/238-مدارک، مریم، تحت الآیۃ:56، ص677- روح البیان، مریم، تحت الآیۃ:56، 5/341 ملتقطاً)

حضرت ادریس علیہ السلام کی قرآنی صفات: حضرت ادریس علیہ السلام کا تذکرہ قرآن کریم کی دو سورتوں میں موجود ہے: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّاۗۙ(56) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو بےشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا۔(پ16، مریم:56) وَّ رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِیًّا(57) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے اسے بلند مکان پر اٹھالیا۔(پ16، مریم:57)

اس میں آپ علیہ السلام کے دو اوصاف صدیق اور نبی اور ساتھ آپ علیہ السلام کو آسمان کی طرف اٹھانے کے واقعہ کی طرف اشارہ ہے ۔ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(85) وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(86) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اسمٰعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا بےشک وہ ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں ہیں۔(پ17، الانبیآء:85، 86)

اس میں حضرت اسماعیل اور حضرت ذوالکفل علیہما السلام کے ساتھ آپ علیہ السلام کو صبر کرنے والا اور قرب الٰہی کے لائق بندوں میں شمار کیا گیا ہے۔

قرآنی اوصاف: (1)آپ علیہ السلام صدیق تھے(2)آپ علیہ السلام نبی تھے(3)آپ علیہ السلام کو آسمان کی طرف اٹھایا گیا (4)آپ علیہ السلام صبر کرنے والے تھے(5)آپ علیہ السلام قرب الٰہی والے تھے۔

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

اللہ کریم کے نام سے شروع جو تمام صفات کمالیہ کا جامع ہے اور درود ہواللہ پاک کے پیغمبروں پر جن کو مختلف اوصاف سے مشرف فرمایا ان بندگان خدا میں سے ایک ہستی جناب حضرت ادریس علیہ السلام بھی ہیں جن کی صفات کو اللہ کریم نے قرآن مجید میں ذکر فرمایا۔ آپ کی صفات کا ذکر کرنے سے پہلے مختصر سا تعارف ملاحظہ کرتے ہیں۔

تعارف حضرت ادریس علیہ السلام:

آپ علیہ السلام کا اصل نام خنوخ یا اخنوخ ہے، آپ علیہ السلام حضرت آدم اور حضرت شیث علیہما السلام کے بعد تشریف لائے، آپ علیہ السلام کی ذات پر نازل ہونے والے صحیفوں کی تعداد 30 ہے،ان صحیفوں کا کثرت سے درس دینے کی وجہ سے ہی آپ کو ادریس کا لقب دیا گیا۔ سب سے پہلے قلم سے جس ہستی نے لکھا وہ آپ علیہ السلام ہی ہیں۔ آپ علیہ السلام کو وعدۂ الٰہی کے مطابق ابھی موت نہیں آئی، آپ علیہ السلام آسمانوں میں زندہ ہیں اور جب اللہ تعالیٰ چاہے گا تو آپ ضرور وصال فرمائیں گے۔

قرآن کریم میں آپ علیہ السلام کے چار اوصاف بیان کئے گئے ہیں:

(1، 2)وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّاۗۙ(56) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو بےشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا۔(پ16، مریم:56)

تمام انبیاء کرام علیہم السلام سچے اور صدیق ہیں لیکن یہاں حضرت ادریس علیہ السلام کی صداقت و صدیقیت کو بطور خاص ذکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ میں اس وصف کا ظہور نمایاں تھا اور سچائی یقیناً اللہ کریم کو پسند ہے اور اس کے پسندیدہ بندوں کا قابل تعریف وصف ہے۔(سیرت الانبیاء، ص 152)

(3، 4)آپ علیہ السلام صبر کرنے والے اور قرب الٰہی کے لائق بندوں میں سے تھے، جیسا کہ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(85) وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(86) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اسمٰعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا بےشک وہ ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں ہیں۔(پ17، الانبیآء:85، 86)

حضرت ادریس علیہ السلام استقامت کے ساتھ کتاب الٰہی کا درس دیتے، عبادت الٰہی میں مصروف رہتے اور اسں راہ میں آنے والی مشقتوں پر صبر کرتے تھے، اس لیے آپ علیہ السلام کو بھی بطور خاص صابرین میں شمار فرمایا گیا۔

انعامات الٰہی عزوجل: اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام پر جو انعامات فرمائے ان میں سے دو کا تذکرہ قرآن پاک میں بھی موجود ہے۔

(1)آپ علیہ السلام کو اپنی خاص رحمت میں داخل فرمایا، ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان:اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا۔(پ17، الانبیآء: 86)

(2) آپ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھالیا، فرمانِ باری تعالیٰ ہے: وَّ رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِیًّا(57) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے اسے بلند مکان پر اٹھالیا۔(پ16، مریم:57)

رفعت ادریس علیہ السلام: بلند مکان پر اٹھالینے کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے آپ علیہ السلام کے مرتبے کی بلندی مراد ہےاور ایک قول یہ ہے کہ آپ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا گیا ہے اور زیادہ صحیح یہی دوسرا قول ہے۔ بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ بعد موت آپ آسمان پر تشریف لے گئے۔ (سیرت الانبیاء، ص 154 )

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے انبیاء کرام علیہم السلام کی سیرت اپنانے اور ان پاکیزہ ہستیوں کی صفات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔