حضرت ادریس علیہ السلام کا اصل نام اخنوخ ہے، آپ کے والد کا نام شیث بن آدم علیہما السلام ہے، آپ علیہ السلام پر تیس صحیفے نازل ہوئے، ان صحیفوں کا بہت زیادہ درس دینے کی وجہ سے آپ کو ادریس (یعنی بہت درس دینے والا) کہتے ہیں۔ آپ علیہ السلام سے بہت سارے نئے کام ایجاد ہوئے، مثلاً قلم سے لکھنا، کپڑے سینا اور سلے ہوئے کپڑے پہننا آپ ہی کی ایجادات ہیں۔ قرآن پاک میں آپ علیہ السلام کی صفات کا ذکر بھی ملتا ہے، آئیے! ہم بھی آپ کی صفات میں چند پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔

صدیق (سچ بولنے والے): قرآن پاک میں آپ کی ذکر کردہ صفات میں سے ایک صدیق بھی ہے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّاۗۙ(56) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو بےشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا۔(پ16، مریم:56)

اللہ عزوجل کے احسان مند: قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ ان پر اپنا احسان ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:

اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ مِنْ ذُرِّیَّةِ اٰدَمَۗ ترجَمۂ کنزُالایمان: یہ ہیں جن پراللہ نے احسان کیا غیب کی خبریں بتا نے والوں میں سے آدم کی اولاد سے۔(پ16 مریم: 58)

صبر کرنے والے: الله عزوجل ارشاد فرماتا ہے: وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(85) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اسمٰعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔(پ17، الانبیآء:85)

حضرت ادریس علیہ السلام استقامت کے ساتھ کتابِ الٰہی کا درس دیتے، عبادتِ الٰہی میں مصروف رہتے اور اس راہ میں آنے والی مشقتوں پر صبر کرتے تھے اس لئے آپ علیہ السلام کو بھی بطور خاص صابرین میں شمار کیا گیا ہے۔

صالح: اللہ تعالیٰ آپ کی صفت صالح کا بیان کرتے ہوئے اپنی مقدس کتاب قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(86) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا بےشک وہ ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں ہیں۔ (پ17، الانبیآء:86)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ کریم ہمیں حضرت ادریس کے صدقے نیکی کی دعوت کی دھو میں مچانے کی توفیق عطا فرمائے اور بے حساب مغفرت فرما کر جنت میں داخلہ عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔