بخل کی تعریف: بخل کے لغوی معنیٰ کنجوسی کے ہیں اور جہاں شرعاً یا عرف وعادت کے
اعتبار سے خرچ کرنا واجب ہو، وہاں خرچ نہ
کرنا بخل ہے ۔(ظاہری گناہوں کی معلومات، ص 113) بخل مہلک(یعنی ہلاک کرنے والا) مرض
ہے۔
آیتِ مبارکہ کا ترجمہ:اور جو بخل کرتے ہیں اس چیز میں جو اللہ نے انہیں
اپنے فضل سے دی، ہرگز اسے اپنے لئےاچھا نہ
سمجھیں بلکہ وہ ان کے لئے برا ہے، عنقریب وہ جس میں بخل کیا تھا قیامت کے دن ان کے
گلے کا طوق ہو گا ۔(پ 4، آل عمران: 180)
5 فرامینِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ
وسلم:
1۔ اللہ پاک نے اس بات پر قسم فرمائی ہے، جنت میں کوئی بخیل داخل نہ
ہوگا۔(کنزالعمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، الجزء 181/2،3 ، حدیث: 7372)
2۔بخل نہ کرو، ورنہ تم پر تنگی کردی جائے گی۔(بخاری، کتاب الزکوۃ،
باب التحریض علی الصدقۃ۔۔الخ، ص400، حدیث: 1433)
3۔ لالچ سے بچتے رہو، کیونکہ تم سے پہلی قومیں لالچ کی وجہ سے ہلاک
ہوئیں، لالچ نے انہیں بخل پر آمادہ کیا تو وہ بخل کرنے لگے اور جب قطع رحمی کا خیال
آیا تو انہوں نے قطع رحمی کی اور جب گناہ کا حکم دیا تو وہ گناہ میں پڑ گئے۔(باطنی
بیماریوں کی معلومات، ص 129، 130)
4۔اللہ نے بخل کو اپنے غضب سے پیدا کیا اور اس کی جڑ کو زقوم(جہنم کے
ایک درخت) کی جڑ میں راسخ کیا اور اس کی بعض شاخیں زمین میں جھکا دیں تو جو شخص بخل
کی کسی ٹہنی کو پکڑ لیتا ہے، اللہ پاک اسے جہنم میں داخل کر لیتا ہے، سن لو! بیشک
بخل ناشکری ہے اور ناشکری جہنم میں ہے۔(ظاہری گناہوں کی معلومات، ص 114)
5۔ جنت میں نہ تو دھوکہ باز داخل ہوگا، نہ بخیل اور نہ صدقہ کرکے
احسان جتانے والا۔(ترمذی شریف)
اسباب:مال کی محبت، لمبی امید، تنگدستی کا خوف، نفس کی خواہشات کا غلبہ،
بچوں کے روشن مستقبل کی فکر۔
بخل سے چھٹکارا پانے کے لئے:قبر و آخرت کو یاد
کیجئے کہ میرا یہ مال قبر میں میرے کسی کام نہ آئے گا، ان شاءاللہ دل سے مال و
دولت کی محبت دور ہوگی اور قبر و آخرت کی تیاری کرنے کا ذہن بنے گا، یہ بات بھی
ذہن میں بٹھا لیجئے کہ راہِ خدا میں مال خرچ کرنے سے کمی نہیں آتی، بلکہ اضافہ ہی
ہوتا ہے، تنگدستی بخل کی وجہ سے ہوتی ہے، اس سلسلے میں امیر اہلسنت کا رسالہ گناھوں
کا علاج پڑھنا مفید ہے۔
اللہ پر بھروسہ رکھنے میں اپنے یقین کو مزید پختہ کریں کہ جس ربّ نے
میرا مستقبل بہتر بنایا ہے، وہی ربّ میرے بچوں کے مستقبل کو بھی بہتر بنانے پر
قادر ہے۔
نوٹ:بخل کے بارے میں تفصیلی معلومات کے لئے احیاء العلوم جلد سوم،
صفحہ 698تا 819 کا مطالعہ کیجئے۔
بخل کے لغوی معنیٰ :کنجوسی کے ہیں اور جہاں
خرچ کرنا شرعاً، عادتاً اور مروتاً لازم
ہو، وہاں خرچ نہ کرنا بخل کہلاتا ہے یا جس جگہ مال و اسباب خرچ کرنا ضروری ہو،
وہاں خرچ نہ کرنا یہ بھی بخل کہلاتا ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 18)
5 فرامینِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم:
1۔ لالچ سے بچتے رہو، کیونکہ تم سے پہلی قومیں لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئیں،
لالچ نے انہیں بخل پر آمادہ کیا تو وہ بخل کرنے لگے اور جب قطع رحمی کا خیال آیا
تو انہوں نے قطع رحمی کی اور جب گناہ کا حکم دیا تو وہ گناہ میں پڑ گئے۔
2۔ اس امت کے اوّلین لوگوں کی بھلائی، دنیا سے بے رغبتی اور یقین کی
برکت سے ہے اور اس امت کے آخری لوگوں کی ہلاکت کنجوسی اور لمبی امیدوں کے باعث ہو
گی۔(دین و دنیا کی انوکھی باتیں، صفحہ نمبر 142)
3۔ بخل سے بچو، کیونکہ اسی نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کیا، ان کو ایک
دوسرے کا خون بہانے اور حرام چیزوں کو حلال ٹھہرانے پر برانگیختہ کیا۔(لباب الاحیاء،
صفحہ 266)
4۔ اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی ہے کہ بخیل کو جنت میں نہیں بھیجے گا۔(مکاشفۃ
القلوب، صفحہ 179)
5۔ دو عادتیں مؤمن میں جمع نہیں ہوسکتیں، بخل اور بدخلقی۔(مکاشفۃ
القلوب، صفحہ 179)
ابلیس لعین بخل کو پسند کرتا ہے:حضرت
یحییٰ علیہ السلام نے پوچھا:تجھے کون سا آدمی پسند، کونسا ناپسند ہے؟ اس نے کہا:مجھے
مؤمن بخیل پسند ہے، مگر گنہگار سخی پسند نہیں، آپ نے پوچھا وہ کیوں؟ ابلیس نے
کہا:اس لئے کہ بخیل کو تو اس کا بخل ہی لے ڈوبے گا، مگر فاسق سخی کے متعلق مجھے یہ
خطرہ ہے کہ کہیں اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو اس کی سخاوت کے باعث معاف نہ فرما
دے، پھر ابلیس جاتے ہوئے کہتا گیا کہ اگر آپ یحیٰ پیغمبر نہ ہوتے تو راز کی یہ باتیں کبھی نہ بتاتا۔(مکاشفۃ القلوب، صفحہ 181)
ایک ضرب المثل ہےکہ بخیل کے مال کے آنے والے وارث کو خوشخبری دے دو،
امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کا قول ہےمیں بخیل کا فیصلہ نہیں کر سکتا، کیونکہ
وہ اپنے بخل کی وجہ سے اپنے حق سے زیادہ لینے کی کوششیں کرتا ہے اور ایسا آدمی
امانت دار نہیں ہوتا۔(مکاشفۃالقلوب، صفحہ 181)
ایک شاعر کا قول ہے:
1۔میں نے لوگوں کو اہلِ سخا کا دوست پایا ہے، مگر دو عالم میں بخیل
کا کسی کو دوست نہیں دیکھا۔
2۔میں نے دیکھا ہے کہ بخیل بخیلوں کا ذلیل و خوار کرتا ہے، لہذا میں
نے بخل سے کنارہ کشی کرلی۔ بخیل کی مذمت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ دوسرے کے
لئے مال جمع کرتا ہے، خرچ کرنے سے تکلیف محسوس کرتا ہے اور اس کی فراوانی سے لطف
اندوز نہیں ہوتا۔
میرے اسلامی بھائیو اور اسلامی بہنو!بخل ایک نہایت قبیح اور مذموم
فعل ہے، نیز بخل بسا اوقات دیگر کئی گناہوں کا بھی سبب بن جاتا ہے، اس لئے ہر مسلمان
کو اس سے بچنا لازم ہے۔
اللہ تعالیٰ قران حکیم میں بخل کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ بِمَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ
فَضْلِهٖ هُوَ خَيْرًا لَّهُمْ١ؕ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ١ؕ سَيُطَوَّقُوْنَ مَا
بَخِلُوْا بِهٖ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ١ؕ وَ لِلّٰهِ مِيْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ(180)(پ 4 ، آل عمران: 180) ترجمہ
کنزالایمان:اور جو بخل کرتے ہیں اس چیز میں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی، ہرگز
اسے لئےاچھا نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کے لئے
برا ہے، عنقریب وہ جس میں بخل کیا تھا قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہو گا اور
اللہ ہی وارث ہے آسمانوں اور زمین کا اور اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔
بخل کی تعریف:بخل کے لغوی معنیٰ کنجوسی کے ہیں اور جہاں خرچ کرنا شرعاً، عادتاً اور مروتاً لازم ہو، وہاں خرچ نہ کرنا
بخل کہلاتا ہے ،بخل کرنے والے کو بخیل کہتے ہیں۔
5 فرامینِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم:
1۔ لالچ سے بچتے رہو، کیونکہ تم سے پہلی قومیں لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئیں،
لالچ نے انہیں بخل پر آمادہ کیا تو وہ بخل کرنے لگے اور جب قطع رحمی کا خیال آیا
تو انہوں نے قطع رحمی کی اور جب گناہ کا حکم دیا تو وہ گناہ میں پڑ گئے۔(ابوداؤد،
ج2، ص185، ح1698)
2۔ سخاوت جنت میں ایک درخت ہے، جو شخص سخی ہوا، اس نے اس درخت کی شاخ
پکڑ لی، جو شاخ اسے نہ چھوڑے گی، حتی کہ سخی شخص کو جنت میں داخل کروائے گی اور
بخل آگ میں ایک درخت ہے، جو بخیل ہوا اس نے اس درخت کی شاخ پکڑ لی، وہ شاخ اسے نہ
چھوڑے گی، حتی کے بخیل یعنی کنجوس کو آگ میں داخل کر دے گی۔(کنزالعمال)
3۔ کیا تم سمجھتے ہو کہ بخیل کا گناہ معاف کر دیا جائے گا؟ اور ظالم
کا گناہ معاف نہ ہوگا؟ اللہ اپنی عزت و جلال کی قسم فرماتا ہے کہ میں کسی بخیل کو
جنت میں جانے نہ دوں گا۔(احیاء العلوم) اس حدیث پاک سے وہ حضرات اپنے اعمال کی
اصلاح کریں، جو مالی عبادت میں کوتاہی کرتے ہیں۔
4۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، میں نے ایک بکری ذبح کی،
نبی کریم، رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا:اس میں سے کتنا باقی
ہے؟ میں نے عرض کی:کہ پوری صدقہ کر دی ہے، فقط بکری کا ایک کندھا باقی ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا:اے عائشہ!کندھے کے علاوہ سب باقی ہے۔(جامع ترمذی) یعنی جو صدقہ کر
دیا، وہ آخرت کے لئے محفوظ ہو گیا، وہی باقی ہے اور جو حصہ راہِ الہی میں خرچ نہ ہوا، وہ دنیا میں ہی ختم ہو گیا۔
5۔ ہر صبح جب خدا کے بندے بیدار ہوتے ہیں تو اللہ کے حکم سے دو فرشتے
نازل ہوتے ہیں، ان میں سے ایک فرشتہ کہتا ہے کہ اے اللہ عزوجل !خرچ کرنے والے کو
اس کا بدلہ عطا فرما اور دوسرا فرشتہ کہتا ہے کہ یا اللہ عزوجل! بخیل یعنی کنجوس
کا مال تباہ و برباد کر دے۔( بخاری، مسلم)
درس: بخیل
یعنی کنجوسی نہایت مذموم عمل کا باعث ہے، بخل بخیل کو بہت بڑے گناہ میں مبتلا کر دیتی
ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں بخیل جیسی مذمت و مذموم و ناجائز باطنی بیماری کے ساتھ ساتھ
باقی اور تمام باطنی بیماریوں سے محفوظ فرمائے۔آمین
بخل مہلک مرض ہے اور سببِ ہلاکت ہے۔بخل کے لغوی معنیٰ کنجوسی کے ہیں اور جہاں خرچ کرنا شرعاً، عادتاً اور مروتاً لازم ہو، وہاں خرچ نہ کرنا
بخل ہے، واجب کا ادا نہ کرنا بھی بخل ہے۔مثلاً کسی شخص پر زکوۃ واجب ہے، زکوۃ کا نہ
ادا کرنا بھی بخل ہے، فطرہ واجب ہونے کے باوجود ادا نہ کرنا بھی بخل ہے۔
آیت مبارکہ: وَ
لَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ بِمَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ
هُوَ خَيْرًا لَّهُمْ١ؕ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ١ؕ سَيُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا
بِهٖ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ١ؕ وَ لِلّٰهِ مِيْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ
خَبِيْرٌؒ۱۸۰
حکم: بخل ایک نہایت قبیح اور مذموم فعل ہے۔
5 فرامینِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم:
1۔لالچ سے بچتے رہو، کیونکہ تم سے پہلی قومیں لالچ کی وجہ سے ہلاک
ہوئیں، لالچ نے انہیں بخل پر آمادہ کیا تو وہ بخل کرنے لگے اور جب قطع رحمی کا خیال
آیا تو انہوں نے قطع رحمی کی اور جب گناہ کا حکم دیا تو وہ گناہ میں پڑ گئے۔(ابو
داؤد، کتاب الزکوۃ، باب فرالشخ، جلد 2، صفحہ 185، حدیث1698)
2۔ کھاؤ اور پیو اور پہنو اور صدقہ کرو، نہ فضول خرچی کرو اور نہ
کنجوسی کرو۔(رواہ احمد و ابوداؤد)
3۔بخل نہ کرو، ورنہ تم پر تنگی کردی جائے گی۔(مدینہ الادب، ص 10)
4۔اللہ پاک نے بخل کو اپنے غضب سے پیدا کیا اور اس کی جڑ کو زقوم سے
اس کی جڑ میں راسخ کیا اور اس کی بعض شاخیں زمین میں جھکا دیں تو جو شخص بخل کی کسی
ٹہنی کو پکڑ لیتا ہے، اللہ پاک اسے جہنم میں داخل کر لیتا ہے، سن لو! بیشک بخل
ناشکری ہے اور ناشکری جہنم میں ہے۔
5۔بخل جہنم میں ایک درخت ہے، پس جو بخیل ہوا، اس نے اس کی ٹہنی پکڑ لی،
وہ اسے نہ چھوڑے گی، یہاں تک کہ جہنم میں داخل کر دے اور سخاوت جنت میں درخت ہے،
پس جو سخی ہوا، وہ اسے نہ چھوڑے گی، یہاں تک کہ جنت میں داخل کر دے۔(فیضان زکوۃ)
بخل میں مبتلا ہونے کے اسباب:مال کی محبت، لمبی
امیدیں، تنگدستی کا خوف، نفسانی خواہشات وغیرہ۔
علاج: بخل کی مذمت پر غور کریں، راہِ خدا میں خرچ کرنے کی عادت بنائیں، بخل
کے بارے میں اس سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کریں، انشاء اللہ کریم آسانی ہوگی، بخل
زنجیروں سے بنا ہوا لباس ہے، جو اسے اختیار کرتا ہے وہ اس میں جکڑ جاتا ہے اور نکل
نہیں پاتا۔
ربّ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں قناعت پر صبر کے ساتھ ثابت قدمی عطا فرمائے اور بخل سے بچائے۔آمین
بخل ایک بہت بری عادت ہے، جو دلوں میں نفاق پیدا کرتی ہے اور اس سے خیانت،
بے رحمی، بدسلوکی، خود غرضی اور حرص جیسی دیگر برائیاں پیدا ہوتی ہیں، لہذا اس سے
بچنا اَزحد ضروری ہے۔
بخل کی تعریف: جہاں شرعاًیا عرف و عادت کے اعتبار سے خرچ کرنا واجب ہو، وہاں پر خرچ
نہ کرنا بخل ہے، زکوۃ، صدقہ، فطرہ وغیرہ میں خرچ کرنا شرعاً واجب ہے اور دوست
احباب، عزیز رشتہ داروں پر خرچ کرنا عرف و عادت کے اعتبار سے واجب ہے۔(صراط الجنان
فی تفسیر القران، جلد 2، صفحہ 104)
بخل کی مذمت: قرآن مجید اور کثیر احادیث
میں بخل کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے، چنانچہ
اللہ عزوجل قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ بِمَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ
فَضْلِهٖ هُوَ خَيْرًا لَّهُمْ١ؕ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ١ؕ سَيُطَوَّقُوْنَ مَا
بَخِلُوْا بِهٖ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ١ؕ وَ لِلّٰهِ مِيْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ
خَبِيْرٌ(180)(پ 4 ، آل عمران: 180) ترجمہ کنزالایمان:اور جو بخل کرتے ہیں اس چیز
میں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی، ہرگز اسے لئےاچھا نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کے لئے برا ہے، عنقریب وہ جس میں بخل کیا تھا
قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہو گا اور اللہ ہی وارث ہے آسمانوں اور زمین کا اور
اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔
صدر الافاضل حضرت علامہ مولانا سیّد محمد نعیم الدین مرادآبادی علیہ
رحمۃ اللہ الھادی خزائن العرفان میں اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں:بخل کے معنیٰ
میں اکثر علماء اس طرف گئے ہیں کہ واجب کا
ادا نہ کرنا بہت بخل ہے، اس لئے بخل پر شدید
وعیدیں آئی ہیں، چنانچہ اس آیت میں بھی ایک وعید آ رہی ہے، ترمذی کی حدیث میں ہے:بخل
اور بدخلقی یہ دو خصلتیں ایماندار میں جمع نہیں ہوتیں۔
اکثر مفسرین نے فرمایا کہ یہاں بخل سے زکوۃ نہ دینا مراد ہے، مزید
فرماتے ہیں:بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ جس کو اللہ نے مال دیا اور اس نے زکوۃ
ادا نہ کی، روزِ قیامت وہ مال سانپ بن کر
اس کو طوق کی طرح لپٹے گا اور یہ کہہ کر ڈستا جائے گا کہ میں تیرا مال ہوں، میں تیرا
خزانہ ہوں۔(باطنی بیماریوں کی معلومات، صفحہ 129)
5 فرامینِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم:
1۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور اقدس صلی اللہ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا:انسان کی دو عادتیں بری ہیں، بخیلی جو رُلانے والی ہو، بزدلی
جو ذلیل کرنے والی ہو۔(صراط الجنان فی تفسیر القرآن، جلد 2، ابو داؤد، کتاب الجہاد،
باب فی الجراۃ والجبن 3/18، حدیث256)
2۔حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا:مالدار بخل کرنے کی وجہ سے بلاحساب جہنم میں داخل ہوں گے۔
(صراط الجنان فی تفسیر القرآن، جلد 2، ص105،فردوس الاخبار، باب السین 444/1، الحدیث
3309)
3۔نبی اکرم، نور مجسم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ معظم ہے:اس امت
کے پہلے لوگ یقین اور زہد کے ذریعہ نجات پائیں گے، جبکہ آخری لوگ بخل اور خواہشات
کے سبب ہلاکت میں مبتلا ہوں گے۔(فردوس الاخبار للدیلمی، باب النون، جلد 2 صفحہ 374، حدیث7106، جہنم میں لے جانے والے
اعمال، صفحہ 556)
4۔خاتم المرسلین، رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ عالیشان
ہے:بخل سے بچتے رہو، کیونکہ بخل نے جب ایک قوم کو اکسایا تو انہوں نے اپنی زکوۃ
روک لی اور جب مزید اکسایا تو انہوں نے رشتہ داریاں توڑ ڈالیں اور جب مزید اکسایا
تو وہ خون ریزی کرنے لگے۔(المرجع السابق، جلد 3، صفحہ 182، حدیث 7401، جہنم میں لے
جانے والے اعمال:557)
5۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور انور صلی اللہ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا:بخل جہنم میں ایک درخت ہے، جو بخیل ہے اس نے اس کی ٹہنی پکڑ
لی ہے، وہ ٹہنی اسے جہنم میں داخل کئے بغیر نہ چھوڑے گی۔(شعب الایمان، الرابع
والسبعون من شعب الایمان:43517، ح10877، صراط الجنان فی تفسیر القران،ص105)
حدیث پاک کی شرح: بخیل جب بھی خرچ کرنے کا ارادہ کرتا ہے، اس کا حرص، لالچ اور مال میں
کمی کا خوف اسے روک دیتا ہے، لہذا اس رکاوٹ کے باوجود اور مال میں اضافے کی تمنا
سے صرف اس کی تنگی ہی میں اضافہ ہوتا ہے اور اس کو کوئی ایسی چیز نہیں چھپائی جاتی،
جسے چھپانے کی وہ خواہش کرتا ہے۔(جہنم میں لے جانے والے اعمال، 556)
بخل کا علاج یوں ممکن ہے کہ بخل کے اسباب پر غور کرے،
انہیں دور کرنے کی کوشش کرے، بلکہ بہت بڑا سبب مال کی محبت ہے، مال سے محبت، نفسانی
خواہشات اور لمبی عمر تک زندہ رہنے کی امید کی وجہ سے ہوتی ہے، اسے قناعت اور صبر
کے ذریعے اور بکثرت موت کی یاد اور دنیا سے جانے والوں کے حالات پر غور کرکے دور
کرے، یوں ہی بخل کی مذمت اور سخاوت کی فضیلت، حبِ مال کی آفات پر مشتمل احادیث و
روایات و حکایات کا مطالعہ کر کے غوروفکر کرنا بھی اس مہلک مرض سے نجات حاصل کرنے
میں ممد و معاون ثابت ہوگا۔(صراط الجنان فی تفسیر القران، ج2،ص105)
اللہ ربّ العزت ہمیں تعلیماتِ
اسلامی کو سیکھنے، سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اللہ تعالیٰ ہمیں
بخل سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی راہ میں مال و دولت خرچ کرنے کی توفیق
عطا فرمائے۔
آمین بجاہ النبی الکریم
اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(پ 28، حشر: 9) ترجمہ کنز الایمان: اور جو اپنی نفس کے لالچ سے بچایا
گیا تو وہی کامیاب ہیں۔
بخیل کون؟ بخیل وہ ہے جو اپنا مال خود کھائے،
دوسروں کا حق نہ دے۔
آئیے بخل کی مذمت کے متعلق فرامینِ مصطفی ملاحظہ کیجئے:
1۔ سخی اللہ پاک سے قریب ہے، جنت سے قریب ہے، لوگوں سے قریب ہے اور
دوزخ سے دور ہے اور بخیل اللہ سے دور ہے، جنت سے دور ہے، لوگوں سے دور ہے اور جہنم
سے قریب ہے اور جاھل سخی خدا کے نزدیک عبادت گزار بخیل سے کہیں بہتر ہے۔(ترمذی،
جلد 3، ص 387)
2۔ ایسا کوئی دن نہیں، جس میں بندے سویرا کریں اور دوفرشتے نہ اتریں، جن میں سے ایک تو
کہتا ہے، الہی! سخی کو زیادہ اچھا عوض دے
اور دوسرا کہتا ہے، الہی! بخیل کو بربادی دے۔(مراۃ المناجیح، جلد 3، صفحہ 82)
3۔ بخل سے بچو، کیونکہ اسی نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کیا، ان کو ایک
دوسرے کا خون بہانے اور حرام چیزوں کو حلال ٹھہرانے پر برانگیختہ کیا۔(مسلم،
ص1129، ح6576)
4۔ مکار اور بخیل جنت میں داخل نہ ہوں گے اور نہ وہ شخص جو خیرات دے
کر احسان جتائے۔(ترمذی، ج3، ص387)
5۔ اولاد بخل، بزدلی اور جہالت میں مبتلا کرنے والی ہے۔(سنن ابن
ماجہ، صفحہ 2696)
بخل ایک نہایت قبیح اور مذموم فعل ہے، بخل بسا اوقات دیگر کئی گناہوں
کا بھی سبب بن جاتا ہے، اس لئے ہر مسلمان کو اس سے بچنا لازمی ہے۔
بخل کے چند اسباب: بخل کا پہلا سبب تنگدستی
کا خوف، بخل کا دوسرا سبب مال سے محبت، بخل کا تیسرا سبب بچوں کے روشن مستقبل کی
خواہش اور بھی بہت بخل کے اسباب ہیں، ہمیں چاہئے کہ ہم ان اسباب کے علاج کی طرف
جائیں، تاکہ بخل جیسے مہلک مرض سے بچنے میں کامیاب ہوسکیں۔
آئیے بخل سے چھٹکارے کا طریقہ بھی ملاحظہ کر لیتے ہیں کہ اس بات پر
غور کریں کہ لوگ بخیلوں کی مذمت کرتے ہیں اور ان سے نفرت کرتے ہیں اور سخاوت کرنے
والوں کی تعریف کرتے اور ان میں رغبت رکھتے ہیں۔ اللہ پاک ہم سب کو بخل جیسی بیماری
سے محفوظ فرمائے اور بخل کے سبب کا علاج کرنے میں ہم کامیاب ہو جائیں۔آمین
تمہیدی گفتگو:بخل بہت بُری اور بڑی باطنی
بیماری ہے، بخل کی تعریف یہ ہے کہ جہاں شرعاً، عرف و عادت کے اعتبار سے خرچ کرنا
واجب ہو، وہاں خرچ نہ کرنا بخل ہے، زکوۃ، صدقہ فطر وغیرہ میں خرچ کرنا شرعاً واجب
ہے اور دوست احباب، عزیز رشتہ داروں پر خرچ کرنا عرف و عادت کے اعتبار سے واجب ہے۔
ایک بار حضرت یحییٰ علیہ السلام نے ابلیس کو اس کی اصلی شکل میں دیکھا
تو اس سے فرمایا:اے ابلیس! مجھے بتا کہ تیرے نزدیک لوگوں میں سب سے پسندیدہ کون
ہے؟ اس نے عرض کی:لوگوں میں مجھے سب سے زیادہ محبوب وہ مسلمان ہے، جو بخیل ہو اور سب
سے زیادہ ناپسندیدہ وہ گناہگار ہے، جو سخی ہے، ارشاد فرمایا:ایسا کیوں؟اس نے عرض کی:بخیل
کا بخل میرے لئے لئے کافی ہے، جبکہ گنہگار سخی کے بارے میں مجھے خوف ہے کہ اللہ
تعالیٰ کہیں اس پر نظر ِکرم فرما کر اس کی سخاوت قبول نہ فرما لے۔
بخل کی مذمت: قرآن مجید اور دیگر احادیث
مبارکہ میں بخل کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَاۙ۳۶ ا۟لَّذِيْنَ
يَبْخَلُوْنَ وَ يَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَ يَكْتُمُوْنَ مَاۤ اٰتٰىهُمُ
اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ١ؕ ترجمہ کنز الایمان:بے شک
اللہ کو خوش نہیں آتا کوئی اترانے والا، برائی مارنے والا، جوآپ بخل کریں اور اسے بخل
کے لئے کہیں اور اللہ نے جو انہیں اپنے فضل سے دیا ہے، اسے چھپائیں۔
شانِ نزول: یہ آیت یہود کے حق میں
نازل ہوئی تو سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت بیان کرنے میں بخل کرتے اور
چھپاتے۔
مسئلہ:اس سے معلوم ہوا کہ علم کو چھپانا مذموم ہے ۔
بخیل شخص دراصل اپنا ہی نقصان کرتا ہے، کیونکہ راہِ خدا عزوجل میں
خرچ کیا ہوا مال بلاشبہ دنیا میں برکت اور آخرت میں اجر و ثواب کی صورت میں نفع بخش
ہوتا ہے، جبکہ بخیل ان دونوں سے محروم
رہتا ہے۔
احادیث مبارکہ:
1۔ ایسا کوئی دن نہیں، جس میں بندے سویرا کریں اور دوفرشتے نہ اتریں، جن میں سے ایک تو
کہتا ہے، الہی! سخی کو زیادہ اچھا عوض دے
اور دوسرا کہتا ہے، الہی! بخیل کو بربادی دے۔( شعب الایمان، باب الزکاۃ، رد
المسائل، جلد 3، صفحہ 233، حدیث3412) اس حدیث کی شرح میں مفتی احمد یار خان نعیمی
رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:یعنی سخی کے لئے دعا اور کنجوس کے لئے بددعا روزانہ
فرشتوں کے منہ سے نکلتی ہے، جو یقیناً قبول ہے۔
2۔ رسولِ بےمثال صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں ایک عورت کی تعریف
کی گئی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی کہ وہ بہت روزے رکھنے والی اور رات کو
قیام کرنے والی ہے، لیکن اس میں بخل کی عادت بھی ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا:پھر اس میں کوئی بھلائی نہیں ہے۔
حضرت بشر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:بخیل کو دیکھنا دل کو سخت کرتا ہے
اور بخیل سے ملنا مؤمنوں کے دلوں پر شاق ہوتا ہے۔
3۔ ظلم سے بچو، کیونکہ ظلم قیامت کے دن اندھیریوں میں ہوگا اور کنجوسی
سے بچو، کیونکہ کنجوسی نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاکت کا شکار کیا اور اس نے انہیں
رغبت دی اور انہوں نے خونریزی کی اور حرام کو حلال جانا۔(صحیح مسلم، کتاب البر
والصلۃ واادب، باب تحریم الظلم، صفحہ 1000، حدیث 2578)حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی
رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:ظلم کے لغوی معنیٰ ہیں،کسی چیز کو بے موقع استعمال کرنا اور کسی کا
حق مارنا، قرابت داروں یا قرض خواہوں کو حق نہ دینا، ان پر ظلم کرنا، کسی کو
ستانا، ایذا دینا، اس پرظلم، یہ حدیث سب کو شامل ہے۔
4۔ مؤمن میں دو خصلتیں کبھی جمع نہیں ہوتیں، کنجوسی، بدخلقی۔ اس حدیث
کی شرح میں مفتی صاحب فرماتے ہیں:ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی کامل مؤمن بھی ہو اور ہمیشہ
کا بخیل اور بدخلق بھی، اگر اتفاقاً کبھی اس سے بخل یا بدخلقی صادر ہوجائے تو وہ
فوراً پشیمان ہو جاتا ہے۔
5۔ مالدار بخل کرنے کی وجہ سے بلا حساب جہنم میں داخل ہوں گے۔
بخل سے بچنے کا درس: بخل کا بڑا سبب مال کی
محبت ہے، مال سے محبت، نفسانی خواہش اور لمبی عمر تک زندہ رہنے کی امید کی وجہ سے
ہوتی ہے، اسے قناعت اور صبر کے ذریعے موت کی یاد اور دنیا سے جانے والوں کے حالات
پر غور کرکے دور کرے، یوں ہی بخل کی مذمت اور سخاوت کی فضیلت، حبِ مال کی آفات پر
مشتمل احادیث و روایات اور احکامات کا مطالعہ کرکے بھی اس مہلک مرض سے نجات حاصل
کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوگا۔
بخل باطنی بیماریوں میں سے ایک
بیماری ہے، یہ نہایت ہی بری صفت ہے۔
بخل کی تعریف: بخل کے لغوی معنیٰ کنجوسی کے ہیں اور جہاں خرچ کرنا شرعاً، عادتاً اور مروتاً لازم ہو، وہاں خرچ نہ کرنا
بخل کہلاتا ہے یا جس جگہ مال و اسباب خرچ کرنا ضروری ہو، وہاں خرچ نہ کرنا یہ بھی
بخل ہے۔
بخیل کی مذمت کے متعلق فرامینِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم:
1۔بخیل جہنم کے قریب ہے: حدیث پاک میں ہے کہ رسول
اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:مالدار بخل کی کرنے کی وجہ سے بلا حساب
جہنم میں داخل ہوں گے۔(فردوس الاخبار، باب السنن ،ح 3309)
2۔تمام عیوب کی برائیوں کا مجموعہ: حدیث بروایت امام علی علیہ
السلام:بخل تمام عیوب کی برائیوں کا مجموعہ ہے اور یہ لگام ہے، جو ہر برائی کی طرف
کھینچ کر لے جاتی ہے۔(مستدرک الوسائل7،29) اس حدیث پاک سے واضح ہوا کہ بخل ایک ایسی
صفت قبیح ہے کہ جو تمام برائیوں کی طرف کھینچ کر لے جاتی ہے۔
3۔ایمان سے محرومی: رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ
وسلم نے فرمایا:حرص و بخل اور ایمان کبھی ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتے۔(سنن نسائی) افسوس!
آج کل ہمیں اپنے ایمان کی حفاظت ہی نہیں کرنی آتی، بعض لوگ توایسے دیکھنے کو ملتے
ہیں، جو محض اپنی واہ واہ کے لئے مہنگی مہنگی چیزیں خریدتے، لیکن اللہ کی راہ میں
خرچ کرتے ہوئے کنجوسی کرتے ہیں۔
4۔جنت میں داخل نہ ہوگا: بخل کرنے والا جنت میں نہ
جا سکے، رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:دھوکہ باز، بخیل اور احسان
جتلانے والا آدمی جنت میں نہ جا سکے گا۔(جامع ترمذی، معارف الحدیث)
5۔بخیل جہنم کے قریب: نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:بخیل اللہ عزوجل سے دور ہے،
جنت سے اور آدمیوں سے دور ہے، جبکہ جہنم سے قریب ہے۔(ترمذی، کتاب البر والصلۃ، حدیث1968)
دعا اور بددعا: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:ہر روز صبح سویرے
دو فرشتے زمین پر اترتے ہیں، ان میں سے ایک اللہ سے یہ دعا کرتا ہےکہ یا اللہ جو تیری راہ میں خرچ کرے، اسے مزید عطا
فرما اور دوسرا کہتا ہے، یا اللہ جو اپنے مال کو روک کر رکھے(یعنی تیری راہ میں خرچ
نہ کرے) اس کے مال کو تباہ و برباد کر دے۔(صحیح بخاری،1442)
مال کی محبت سے بچیں، مال کی محبت کے نقصانات کو پڑھئے، تاکہ بخل جیسی
بُری صفت سے چھٹکارا حاصل ہو، اس کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت سی باطنی بیماریاں جنم
لے سکتی ہیں، اللہ پاک ہمیں بخل جیسی باطنی بیماری سے بچائے۔آمین
بخل ایک نہایت قبیح اور مذموم فعل ہے، یہ ایک ایسی صفت ہے، جو انسان کو برائیوں پر ابھارتی ہے اور معاشرے
میں بگاڑ کا باعث بنتا ہے، بخیل کو اللہ کی مخلوق اور اللہ کی راہ میں کئے جانے
والے کاموں سے بالکل رغبت نہیں ہوتی، اس کی محبت کا محور صرف اس کی اپنی دولت ہوتی
ہے۔
بخل کی تعریف:بخل کے لغوی معنیٰ کنجوسی کے ہیں اور جہاں خرچ کرنا شرعاً، عادتاًیا
مروتاً لازم ہو،ہاں خرچ نہ کرنا بخل کہلاتا ہے یا جس جگہ مال و اسباب میں خرچ کرنا
ضروری ہو، وہاں خرچ نہ کرنا یہ بھی بخل ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات، صفحہ 128)
اللہ عزوجل قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:وَ لَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ بِمَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ
فَضْلِهٖ هُوَ خَيْرًا لَّهُمْ١ؕ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ١ؕ سَيُطَوَّقُوْنَ مَا
بَخِلُوْا بِهٖ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ١ؕ وَ لِلّٰهِ مِيْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ
خَبِيْرٌ(180)(پ 4 ، آل عمران: 180) ترجمہ کنزالایمان:اور جو بخل کرتے ہیں اس چیز
میں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی، ہرگز اسے لئےاچھا نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کے لئے برا ہے، عنقریب وہ جس میں بخل کیا تھا
قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہو گا اور اللہ ہی وارث ہے آسمانوں اور زمین کا اور
اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔
خزائن العرفان میں اس آیت مبارکہ کے تحت ہے:بخل کے معنیٰ میں اکثر علماء اس طرف گئے ہیں کہ واجب کا ادا
نہ کرنا بخل ہے، اسی لئے بخل پر شدید وعیدیں آئی ہیں، چنانچہ اس آیت میں بھی ایک
وعید آرہی ہے، ترمذی کی حدیث میں ہے بخل اور بدخلقی یہ دو خصلتیں ایماندار میں جمع نہیں ہوتیں۔
آئیے بخل کی مذمت پر پانچ احادیث مبارکہ ملاحظہ کیجئے:
1۔ لالچ سے بچتے رہو، کیونکہ تم سے پہلی قومیں لالچ کی وجہ سے ہلاک
ہوئیں، لالچ نے انہیں بخل پر آمادہ کیا تو وہ بخل کرنے لگے اور جب قطع رحمی کا خیال
دلایا تو انہوں نے قطع رحمی کی اور جب گناہ کا حکم دیا تو وہ گناہ میں پڑ گئے۔(ابو
داؤد، کتاب الزکاۃ، باب فی الشح، جلد 2، صفحہ 185)
2۔ ایسا کوئی دن نہیں، جس میں بندے سویرا کریں اور دو فرشتے نہ اتریں،
جن میں سے ایک تو کہتا ہے، الہی! سخی کو زیادہ اچھا عوض دے اور دوسرا کہتا ہے، الہی!
بخیل کو بربادی دے۔(مشکوۃ المصابیح، جلد 1، صفحہ 165، حدیث 1764) مفتی احمد یار
خان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:سخی کے لئے دعا اور کنجوس کے لئے بد دعا روزانہ فرشتوں
کے منہ سے نکلتی ہے، جو یقیناً قبول ہے۔
3۔ جنت میں نہ تو فریبی آدمی جائے، نہ بخیل اور نہ احسان جتانے والا۔(مشکوۃ
المصابیح، جلد 1، صفحہ 166، حدیث 1777) مفتی احمد یار خان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:کہ
جو ان عیبوں پر مرجائے، وہ جنتی نہیں کیوں کہ وہ منافق ہے، مؤمن میں اولاً تو یہ عیب
ہوتے نہیں اور اگر ہوں تو ربّ تعالیٰ اسے مرنے سے پہلے توبہ نصیب کر دیتا ہے۔
4۔ اس اُمت کے پہلے لوگ یقین اور زہد کے ذریعہ نجات پائیں گے، جبکہ
آخری لوگ بخل اور خواہشات کے سبب ہلاکت میں مبتلا ہوں گے۔(فردوس الاخبار، حدیث7106)
5۔ سخی اللہ سے قریب ہے، جنت سے قریب ہے، لوگوں سے قریب ہے، آگ سے
دور ہے اور کنجوسی اللہ سے دور ہے، جنت سے دور ہے، لوگوں سے دور ہے، آگ کے قریب ہے
اور یقیناً جاھل سخی کنجوس عابد سے افضل ہے۔(مراۃالمناجیح، جلد 3، صفحہ 87)
بخل ایک ہلاکت میں ڈالنے والی بیماری ہے، اس لئے ہر مسلمان کو اس سے بچنا
لازم ہے، بخل درحقیقت مال کی محبت ہے اور مال کی محبت قلب کو دنیا کی طرف متوجہ کر
دیتی ہے، جس سے اللہ کی محبت ضعیف و کمزور ہو جاتی ہے، اللہ کریم سے عافیت کا سوال
کرتے رہنا چاہئے اور بخل سے بچنے کے اسباب کرتےرہنا چاہئے۔
اللہ کریم ہمیں تمام باطنی امراض سے نجات عطا فرمائے۔آمین یا ربّ
العالمین
بخل کی تعریف: بخل کی تعریف یہ ہے جہاں
شرعاً،عرف وعادت کے اعتبار سے خرچ کرنا
واجب ہو، وہاں خرچ نہ کرنا بخل ہے، زکوۃ، صدقہ فطر وغیرہ میں خرچ کرنا شرعاً واجب
ہے اور دوست احباب، عزیز رشتہ داروں پر
خرچ کرنا عرف و عادت کے اعتبار سے واجب ہے۔( احیاء العلوم، کتاب ذم البخل وذم حب
المال وبیان حد السخاء والبخل وحقیقتھما 3/320، ملخصاً)
بخل کی مذمت: قرآن پاک اور کثیر احادیث میں بخل کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے،
ارشادِ باری تعالی:
ترجمہ کنزالایمان:ہاں ہاں یہ جو تم لوگ ہو تم بلائے جاتے ہو، تاکہ تم
اللہ کی راہ میں خرچ کرو تو تم میں کوئی بخل کرتا ہے، اورجو بخل کرے وہ اپنی ہی
جان سے بخل کرتا ہے اور اللہ بے نیاز ہے اور تم سب محتاج ہو اور اگر تم منہ پھیرو
گے تو وہ تمہارے سوا اور لوگ بدل دے گا پھر وہ تم جیسے نہ ہوں گے۔(سورہ محمد:38)
احادیث مبارکہ:
1۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا:آدمی کے دو عادتیں بری ہیں، ایک بخیلی جو رُلانے والی ہے،
دوسرا بزدلی جو ذلیل کرنے والی ہے۔(ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب فی الجراہ
والجبن،3/18، ح2511)
2۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا:مالدار بخل کرنے کی وجہ سے بلا حساب جہنم میں داخل ہوں گے۔(فردوس
الاخبار، باب السین، ح3309)
3۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:کوئی بخیل
جنت میں نہیں جائے گا۔(معجم الاوسط، باب العین ومن اسمہ علی 3/125، ح2511)
4۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا:بخیل اللہ سے دور ہے، جنت سے اور آدمیوں سے دور ہے، جبکہ
جہنم سے قریب ہے۔ (ترمذی وکتاب البر والصلۃ وباب ما جاء فی السحاء 3/387، ح1968)
5۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور پر نور صلی اللہ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا:بخل جہنم میں ایک درخت ہے، جو بخیل ہے اس نے اس کی ٹہنی پکڑ
لی ہے اور وہ ٹہنی اسے جہنم میں داخل کئے بغیر نہ چھوڑے گی۔(شعب الایمان الرابع والسبعون
من شعب الایمان 7/435، ح10877)
ضرورت کی چیزوں کو ان کے مقام پر استعمال اور خرچ نہ کرنے کا نام بخل
یعنی کنجوسی ہے، مثلاً قدرت اور طاقت کے باوجود زکوۃ، فطرہ، حج اور قربانی وغیرہ جیسی
مالی عبادات کی ادائیگی میں سستی کرنا یا خود اپنی ذات پر ضرورت کے وقت خرچ نہ
کرنا اور علاج معالجے، تعلیم و تربیت وغیرہ پر پیسہ نہ لگانا وغیرہ کنجوسی ہے۔
1۔ بخل سے بچو، کہ بخل نے اگلوں کو ہلاک کیا، اسی بخل نے انہیں خون
بہانے اور حرام کو حلال ٹھہرانے پر آمادہ کیا۔(مسلم، کتاب البر والصلۃ واآداب، باب
تحریم الظلم، ص1394، الحدیث2578)
2۔ لا یدخل الجنۃ بخیل ولا خب ولا سیئ الملکۃ۔یعنی
بخیل، دھوکے باز اور بد اخلاق جنت میں نہیں جائیں گے۔(المسند الامام احمد بن حنبل،
مسند ابی بکر صدیق1/20، ح13)
3۔ ہر روز دو فرشتے نازل ہوتے ہیں، ان میں سے ایک راہِ خدا عزوجل میں
خرچ کرنے والے کے لئے دعا، جبکہ دوسرا بخیل کے لئے بد دعا کرتا ہے، چنانچہ حدیث
مبارک میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا:ایسا کوئی دن نہیں، جس میں بندے کے سویرا کریں اور دو فرشتے نہ
اُتریں، جن میں سے ایک تو کہتا ہے، الہی! سخی کو زیادہ اچھا عوض دے اور دوسرا کہتا
ہے، الہی! بخیل کو بربادی دے۔( صحیح البخاری، کتاب الزکوۃ، الحدیث 2389) اس حدیث کی شرح میں مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں:یعنی سخی کے لئے دعا اور کنجوس کے لئے بد دعا روزانہ فرشتوں
کے منہ سے نکلتی ہے، جو یقیناً قبول ہے۔(مراۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح، جلد 3،
ص69۔70)
4۔گلے کا پھندا: مال خرچ کرنے والے اور بخیل
کی مثال دو آدمیوں کی طرح ہے، جنہوں نے پورے سینے پر زرہ پہن رکھی ہے، مال خرچ
کرنے والا جس قدر مال خرچ کرتا ہے، اسی قدر زرہ کشادہ ہوتی چلی جاتی ہے، حتیٰ کہ
وہ اس کی انگلی کے پوروں کو بھی چھپا لیتی
ہے اور بخیل مال خرچ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کی زرہ بلند ہوتی اور ہر گرہ اپنی
جگہ تنگ ہوتی چلی جاتی ہے، یہاں تک کہ اس کے گلے کو بھی جکڑ ہے، وہ اسے ڈھیلا کرنا
چاہتا ہے، لیکن وہ ڈھیلی نہیں ہوتی۔(مسلم، کتاب الزکوۃ، باب مثل المنفق والبخیل،
س510، ح1021)
5۔سخی اللہ پاک، جنت اور
لوگوں سے قریب اور جہنم سے دور ہوتا ہے، جبکہ بخیل اس کے برعکس، چنانچہ حدیث مبارکہ
میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، فرماتے ہیں حضور پاک صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا: سخی اللہ کے قریب ہے، جنت کے قریب ہے، لوگوں کے قریب ہے، آگ سے
دور ہے اور کنجوس اللہ سے دور ہے، جنت سے دور ہے، لوگوں سے دور ہے، آگ کے قریب ہے
اور یقیناً جاہل سخی کنجوس عابد سے افضل ہے۔(سنن الترمذی، کتاب البر والصلۃ ، باب
ما جاء فی السخاء ، ج3، ص92، الحدیث1961)
میرا ہر عمل بس تیرے واسطے ہو
کر اخلاص ایسا عطا یاالہی
اللہ کریم ہمیں بخل سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی
الامین صلی اللہ علیہ وسلم
بخل کی تعریف: بخل کے لغوی معنیٰ کنجوسی کے ہیں اور جہاں خرچ کرنا شرعاً، عادتاً اور مروتاً لازم ہو، وہاں خرچ نہ کرنا
بخل کہلاتا ہے۔(حرص،صفحہ نمبر 42، ملتقظاً)
بخل کی مذمت قرآن پاک کی روشنی میں: اللہ
پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: اور جو بخل کرتے ہیں اس چیز میں جو اللہ نے انہیں
اپنے فضل سے دی، ہرگز اسے اپنے لئے اچھا نہ سمجھیں، بلکہ وہ ان کے لئے برا ہے،
عنقریب وہ جس میں بخل کیا تھا کہ قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہوگا اور اللہ ہی
وارث ہے آسمانوں اور زمین کا اور اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔(پ 4، آل عمران:180)
بخل ایک نہایت قبیح اور مذموم فعل ہے، بخیل شخص اللہ اور اس کے رسول
صلی اللہ علیہ وسلم کو نا پسند ہے، بخل کی مذمت اور بخیل شخص کے بارے میں وعیدات احادیث
مبارکہ کی روشنی میں پیشِ خدمت ہیں۔
1۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللّٰہ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:آدمی کی دو عادتیں بری ہیں،بخیلی جو رولانے والی ہے،
بزدلی جو ذلیل کرنے والی ہے۔(ابو داؤد، کتاب جہاد، باب فی الجراۃ الجبن 18/3 ،ح
2511)
2۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللّٰہ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:مالدار بخل کی کرنے کی وجہ سے بلا حساب جہنم میں داخل
ہوں گے۔(فردوس الاخبار، باب السنن، ج 1،ص444،ح 3309)
3۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللّٰہ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بخیل اللہ سے دور ہے، جنت سے اور آدمیوں سے دور، جبکہ جہنم کے قریب ہے۔(جامع ترمذی، ح 1968)
4۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور پر نور صلی اللہ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا:بخل جہنم میں ایک درخت ہے، جو بخیل ہے اس نے اس کی ٹہنی پکڑ
لی ہے اور وہ ٹہنی اسے جہنم میں داخل کئے بغیر نہ چھوڑے گی۔(شعب الایمان الرابع
والسبعون من شعب الایمان 7/435، ح10877)
5۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:کوئی بخیل
جنت میں نہیں جائے گا۔(معجم الاوسط، باب العین، ومن اسمہ علی 3/125، ح4069)
بخل واقعی میں بہت ہی بری
خصلت ہے، بخیل شخص ہمیشہ تنگدستی کے خوف کا شکار رہتا ہے، اسے مال سے محبت ہوتی
ہے، جو کہ اس کو اللہ کی یاد سے غافل کر دیتی ہے، بخیل شخص آخرت کے معاملے میں
غفلت کا شکار رہتا ہے۔
بخل کا علاج: بخل کا علاج ممکن ہے اور
وہ یوں کہ بخل کے اسباب پر غور و فکر کرکے انہیں دور کرے، بخل کا بہت بڑا سبب مال
کی محبت ہے، مال سے محبت، نفسانی خواہش اور لمبی عمر تک زندہ رہنے کی امید کی وجہ
سے ہوتی ہے، لہذا اسے قناعت اور صبر کے ذریعے بکثرت موت کو یاد کرکے، اس بیماری سے
چھٹکارا حاصل کرنا چاہئے۔
اللہ پاک ہمیں بخل سے بچنے اور خوب دل کھول کر اس کی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین