بخل ایک نہایت قبیح اور مذموم فعل ہے، یہ ایک ایسی صفت ہے، جو انسان کو برائیوں پر ابھارتی ہے اور معاشرے
میں بگاڑ کا باعث بنتا ہے، بخیل کو اللہ کی مخلوق اور اللہ کی راہ میں کئے جانے
والے کاموں سے بالکل رغبت نہیں ہوتی، اس کی محبت کا محور صرف اس کی اپنی دولت ہوتی
ہے۔
بخل کی تعریف:بخل کے لغوی معنیٰ کنجوسی کے ہیں اور جہاں خرچ کرنا شرعاً، عادتاًیا
مروتاً لازم ہو،ہاں خرچ نہ کرنا بخل کہلاتا ہے یا جس جگہ مال و اسباب میں خرچ کرنا
ضروری ہو، وہاں خرچ نہ کرنا یہ بھی بخل ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات، صفحہ 128)
اللہ عزوجل قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:وَ لَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ بِمَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ
فَضْلِهٖ هُوَ خَيْرًا لَّهُمْ١ؕ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ١ؕ سَيُطَوَّقُوْنَ مَا
بَخِلُوْا بِهٖ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ١ؕ وَ لِلّٰهِ مِيْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ
خَبِيْرٌ(180)(پ 4 ، آل عمران: 180) ترجمہ کنزالایمان:اور جو بخل کرتے ہیں اس چیز
میں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی، ہرگز اسے لئےاچھا نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کے لئے برا ہے، عنقریب وہ جس میں بخل کیا تھا
قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہو گا اور اللہ ہی وارث ہے آسمانوں اور زمین کا اور
اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔
خزائن العرفان میں اس آیت مبارکہ کے تحت ہے:بخل کے معنیٰ میں اکثر علماء اس طرف گئے ہیں کہ واجب کا ادا
نہ کرنا بخل ہے، اسی لئے بخل پر شدید وعیدیں آئی ہیں، چنانچہ اس آیت میں بھی ایک
وعید آرہی ہے، ترمذی کی حدیث میں ہے بخل اور بدخلقی یہ دو خصلتیں ایماندار میں جمع نہیں ہوتیں۔
آئیے بخل کی مذمت پر پانچ احادیث مبارکہ ملاحظہ کیجئے:
1۔ لالچ سے بچتے رہو، کیونکہ تم سے پہلی قومیں لالچ کی وجہ سے ہلاک
ہوئیں، لالچ نے انہیں بخل پر آمادہ کیا تو وہ بخل کرنے لگے اور جب قطع رحمی کا خیال
دلایا تو انہوں نے قطع رحمی کی اور جب گناہ کا حکم دیا تو وہ گناہ میں پڑ گئے۔(ابو
داؤد، کتاب الزکاۃ، باب فی الشح، جلد 2، صفحہ 185)
2۔ ایسا کوئی دن نہیں، جس میں بندے سویرا کریں اور دو فرشتے نہ اتریں،
جن میں سے ایک تو کہتا ہے، الہی! سخی کو زیادہ اچھا عوض دے اور دوسرا کہتا ہے، الہی!
بخیل کو بربادی دے۔(مشکوۃ المصابیح، جلد 1، صفحہ 165، حدیث 1764) مفتی احمد یار
خان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:سخی کے لئے دعا اور کنجوس کے لئے بد دعا روزانہ فرشتوں
کے منہ سے نکلتی ہے، جو یقیناً قبول ہے۔
3۔ جنت میں نہ تو فریبی آدمی جائے، نہ بخیل اور نہ احسان جتانے والا۔(مشکوۃ
المصابیح، جلد 1، صفحہ 166، حدیث 1777) مفتی احمد یار خان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:کہ
جو ان عیبوں پر مرجائے، وہ جنتی نہیں کیوں کہ وہ منافق ہے، مؤمن میں اولاً تو یہ عیب
ہوتے نہیں اور اگر ہوں تو ربّ تعالیٰ اسے مرنے سے پہلے توبہ نصیب کر دیتا ہے۔
4۔ اس اُمت کے پہلے لوگ یقین اور زہد کے ذریعہ نجات پائیں گے، جبکہ
آخری لوگ بخل اور خواہشات کے سبب ہلاکت میں مبتلا ہوں گے۔(فردوس الاخبار، حدیث7106)
5۔ سخی اللہ سے قریب ہے، جنت سے قریب ہے، لوگوں سے قریب ہے، آگ سے
دور ہے اور کنجوسی اللہ سے دور ہے، جنت سے دور ہے، لوگوں سے دور ہے، آگ کے قریب ہے
اور یقیناً جاھل سخی کنجوس عابد سے افضل ہے۔(مراۃالمناجیح، جلد 3، صفحہ 87)
بخل ایک ہلاکت میں ڈالنے والی بیماری ہے، اس لئے ہر مسلمان کو اس سے بچنا
لازم ہے، بخل درحقیقت مال کی محبت ہے اور مال کی محبت قلب کو دنیا کی طرف متوجہ کر
دیتی ہے، جس سے اللہ کی محبت ضعیف و کمزور ہو جاتی ہے، اللہ کریم سے عافیت کا سوال
کرتے رہنا چاہئے اور بخل سے بچنے کے اسباب کرتےرہنا چاہئے۔
اللہ کریم ہمیں تمام باطنی امراض سے نجات عطا فرمائے۔آمین یا ربّ
العالمین