دین اسلام وہ واحد دین ہے جس میں زندوں کے جملہ حقوق بیان کرنے کے ساتھ ساتھ مرنے والے کے حقوق بھی بڑی تفصیل و اہمیت سے بیان کیے گئے ہیں اس سے ایک انسان کی عزت واحترام کا پہلو اجاگر ہوتا ہے یہ حقوق انسانی وقار، اخلاقیات، اور روحانی ترقی کے لیے ضروری ہیں اور ان کو ادا کرنے سے بیشمار دینی و دنیاوی فوائد حاصل ہوتے ہیں آئیے ان میں سے چند حقوق کا مطالعہ کرتے ہیں ۔

(1)پردہ پوشی: میت کے حقوق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کے عیوب کو چھپایا جائے جس طرح کہ حضور پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے میت کو غسل دیا اور اس کی پردہ پوشی کی تو اللہ عزوجل 40 مرتبہ اس کے گناہ کو بخشے گا ۔ (مستدرک حاکم،کتاب الجنائز،باب فضیلت تغسیل المیت وتکفینہ وحفر قبرہ677/1، حدیث:1347)

(2)جنازہ میں جلدی : حضور پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جنازہ جلدی لے جاؤ اگر وہ نیک ہے تو تم اسے بھلائی کی طرف بڑھا رہے ہو اور اگر اس کے علاوہ ہے تو تم برائی کو اپنے گردنوں سے اتار رہے ہو ۔ (بخاری،کتاب الجنائز،باب السر عہ بالجنازۃ،444/1،حدیث: 1315بتغییرقلیل)

(3)قرض کی ادائیگی : آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا: مومن کی روح قرض کی وجہ سے معلق رہتی ہے یہاں تک کہ اس کی طرف سے قرض ادا کر دیا جائے ۔ (ترمذی،کتاب الجنائز،باب ما جاءعن النبی صلی اللہ علیہ وسلم۔۔الخ،341/2، حدیث:1080)

(4)ایصال ثواب:حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم! ہم اپنے مُردوں کے لیے دعا کرتے ہیں ان کی طرف سے صدقہ کرتے ہیں اور حج کرتے ہیں تو کیا انہیں اس کا ثواب پہنچتا ہے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا :بے شک ثواب ان تک پہنچتا ہے اور وہ اس ثواب سے اس طرح خوش ہوتے ہیں جس طرح تم میں سے کوئی شخص تحفہ ملنے پر خوش ہوتا ہے ۔ (عمده القارى، كتاب الجنائز،باب موت الفجاة البغدتہ،305/6, تحت الحديث: 1388)

(5)کفن: حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے میت کو کفن پہنایا اللہ تعالی اسے جنت کے سندس و استبرق (باریک اور موٹے ریشم )کا لباس پہنائےگا۔ (المستدرك علی الصحیحین للحاکم، کتاب الجنائز: 505/1، رقم الحدیث:1307، ط: دارالکتب العلمیہ بیروت)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو !موجودہ دور میں دیگر معاشرتی برائیوں کی طرح ایک برائی مرنے والے کے حقوق کا تحفظ نہ کرنا بھی ہےبلاوجہ تجہیزو تکفین میں تاخیر کرنا، حقوق العباد کی تلافی نہ کروانے کے ساتھ ساتھ حقوق اللہ کافدیہ ادا کرنے کا بالکل وہم وگمان نہیں ہوتا ۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں میت کے جملہ حقوق کی ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے۔

(1) میت کی آنکھیں بند کرنا : اگر میت کی آنکھیں کھلی رہ جائیں تو وہاں موجود افراد کوچاہیے کہ اس کی آنکھیں بند کردیں اور دیگر اَعضاء بھی سیدھے کر دیں ۔ آنکھیں بند کرنے والے کو چاہیے کہ وہ میت کی مغفرت ،قبر میں روشنی اور وُسعت کی دعاکرے ۔ ( فیضان ریاض الصالحین جلد:6 ص 567)

(2) جنازے میں شرکت کرنا : نماز جنازہ میں کثیر لوگوں کی شرکت شرعًا بہت محبوب ہے کہ اس سے میت کے گناہ معاف ہوتے ہیں اور درجات بلند ہوتے ہیں.( فیضانِ ریاض الصالحین جلد 6 ص 604) حدیث پاک میں ہے ۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ: مَا مِنْ رَجُلٍ مُسْلِمٍ يَمُوْتُ فَيَقُوْمُ عَلَى جَنَازَتِهِ اَرْبَعُوْنَ رَجُلًا لَا يُشْرِكُوْنَ بِاللهِ شَيْئًا اِلَّا شَفَّعَهُمُ اللهُ فِيْهِ حضرت سَیِّدُنا عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ میں نے رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس مرنے والے مسلمان کے جنازے میں چالیس ایسے افراد شریک ہوں جو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتے ہوں تو اللّٰہ تعالیٰ اس مرنے والے کے حق میں ان لوگوں کی شفاعت قبول فرماتا ہے۔ ( مسلم ، کتاب الجنائز ، ص 368 ، حدیث: 2199)

(3) تدفین کے بعد قبر پر رکنا : عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ:اِذَادَفَنْتُمُوْنِی فَاَقِيْمُوْا حَوْلَ قَبْرِيْ قَدْرَ مَا تُنْحَرُ جَزُوْرٌوَ يُقَسَّمُ لَحْمُهَا حَتّٰى اَسْتَاْنِسَ بِكُمْ وَاَعْلَمَ مَاذَا اُرَاجِعُ بِهِ رُسُلَ ربِّي ْ حضرتِ سَیِّدُناعَمرو بن عاص رَضِیَ اللّٰہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا:”جب تم لوگ مجھے دَفْن کردو تو میری قبر کے پاس اتنی دیر ٹھہرے رہنا جتنی دیر ایک اونٹ کو نحر کرنے اور اُس کا گوشت تقسیم کرنے میں لگتی ہے تاکہ میں تم لوگوں سے اُنسیت حاصل کرسکوں اور یہ جان سکوں کہ میں نے اپنے رب کے بھیجے ہوئے فرشتوں کو کیا جواب دینا ہے ۔ ( مسلم ، کتاب الایمان ، ص 74 حدیث : 122)

(4) میت کا قرض ادا کرنا : کوئی مسلمان مقروض فوت ہوجائے تو عزیزوں کو چا ہیے کہ فوراً اُس کا قرضہ ادا کردیں تاکہ مرحوم کے لئے قبرو حشر کے معاملات میں آسانی ہو۔ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں موت سے قبل اپنا قرض اداکرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ (فیضان ریاض الصالحین جلد:6 ص 632)

(5) تدفین میں جلدی کرنا : میت کو حَتَّی الامکان جلدی دفن کر دینا چاہیے کہ بلا ضرورت تاخیر کرنا سخت نا جائز ہے کہ اس میں میت کے پھولنے پھٹنے اور اسکی بے حرمتی کا اندیشہ ہے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سنتوں پرعمل کرتے ہوئے تجہیزوتکفین اور تدفین میں جلدی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین( فیضانِ ریاض الصالحین جلد 6 ص 633)

(6) میت کی طرف سے صدقہ کرنا: حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ہم نے نبی کریم صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے عرض کی: یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم !ہم اپنے مُردوں کے لیے دعا کرتے ہیں، اُن کی طرف سے صَدَقہ کرتے ہیں اور حج کرتے ہیں تو کیا اُنہیں اِس کا ثواب پہنچتا ہے؟ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ”بے شک ثواب اُن تک پہنچتا ہے اور وہ اس ثواب سے اِس طرح خوش ہوتے ہیں جس طرح تم میں سے کوئی شخص تحفہ ملنے پر خوش ہوتا ۔ ( عمدۃالقاری ، کتاب الجنائز 305/6 تحت الحدیث 1388)

اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

اسلامی تعلیمات میں میت کے حقوق کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ مرنے کے بعد بھی انسان کے کچھ حقوق ہوتے ہیں جنہیں ادا کرنا زندہ لوگوں پر لازم ہے۔ ان حقوق کی ادائیگی اسلامی معاشرت میں میت کی عزت و تکریم کو برقرار رکھتی ہے اور آخرت کی یاد دلاتی ہے۔

(1) غسل دینا: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اغْسِلُوهُ بماءٍ وسِدْرٍ (صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1253)ترجمہ:اسے پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو۔

یہ حدیث میت کو غسل دینے کے عمل کی اہمیت کو واضح کرتی ہے۔

(2) کفن دینا: حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إِذَا كَفَّنَ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ، فَلْيُحْسِنْ (صحیح مسلم، حدیث نمبر: 943)ترجمہ:جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو کفن دے تو بہتر کفن دے۔

اس حدیث سے میت کے کفن کو اچھی حالت دینے کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔

(3) نماز پڑھنا: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ شَهِدَ الجِنَازَةَ حَتَّى يُصَلّیَ عَلَيْهَا، فَلَهُ قِيرَاطٌ (صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1325) ترجمہ:جو شخص جنازہ میں شرکت کرے اور نماز جنازہ پڑھے، اسے ایک قیراط کا اجر ملتا ہے۔

یہ حدیث جنازہ کی نماز کے ثواب کو بیان کرتی ہے۔

(4) دفن کرنا: حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: احْفِرُوا وَأَعْمِقُوا وَأَحْسِنُوا (سنن الكبری، حدیث: 2148) ترجمہ: گڑھا کھودو، اسے گہرا کرو اور اچھے طریقے سے دفن کرو۔

یہ حدیث دفن کے آداب کی رہنمائی فراہم کرتی ہے۔

(5) دعا کرنا: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسْتَغْفِرُوا لأَخِيكُمْ وَسَلُوا لَهُ التَّثْبِيتَ (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر: 3221)ترجمہ: اپنے بھائی کے لیے مغفرت طلب کرو اور اس کے لیے ثابت قدمی کی دعا کرو۔

یہ حدیث میت کے لیے دعا کرنے کی اہمیت کو بیان کرتی ہے۔

اسلام میں میت کے حقوق کو انتہائی عزت و احترام کے ساتھ بیان کیا گیا ہے تاکہ مرنے والے کے لیے آخری سفر کو پرسکون اور محترم بنایا جائے۔ ان احکام کی پابندی سے معاشرے میں میت کے لیے احترام اور زندہ لوگوں کے لیے عبرت کا پیغام دیا گیا ہے۔ 

اسلام نے مرنے والے کے حقوق بھی متعین کیے ہیں۔یہ مسلمان کی عظمت اور بزرگی کی وجہ سے ہے،اسلام میں نہ صرف ایک زندہ مسلمان کی عظمت ہے بلکہ جب اس کی روح بدن سے پرواز کرجاتی ہے،اس کے بعد بھی اسلام نے اس کی عظمت اور بزرگی کو تسلیم کیا ہے۔ چنانچہ اسلام نے ضروری قرار دیا کہ مرنے کے بعد میت کو اچھے طریقے سے غسل دیا جائے،اس کی تطہیر وتنظیف کی جائے،اس کو خوشبو وغیرہ لگائی جائے۔ اس کے غسل وکفن کا اچھے طریقے سے اہتمام کیا جائے جس میں اس کی ستر پوشی کا پورا پورا خیال کیا جائے۔ اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے اور اس کے لیے دعا مغفرت کی جائے۔پھر اس کو نہایت وقار اور اعزاز واکرام کے ساتھ قبر میں دفن کیا جائے۔یہ سب حقوق ایک مسلمان کے اس دنیا سے جانے کے بعد کے ہیں۔ چنانچہ ایک مسلمان کے مرنے کے بعد اس کے دوست احباب اور رشتہ داروں اور وارثوں پر کچھ حقوق لازم ہیں۔ سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ موت کیا ہے؟موت ایک ایسی صفت ہے جو صفت حیات کے تغیر پر بدن کو عارض ہوتی ہے۔

(1) کلمہ طیبہ کی تلقین: آدمی جب نزع کی حالت میں ہوتو اسے کلمہ طیبہ یعنی لا الٰه الا اللہ کی تلقین کرنا چاہیے تاکہ اس کا خاتمہ ایمان پر ہو۔چنانچہ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مرنے والوں کو لا الٰہ الا اللہ کی تلقین کیاکرو۔ (مسلم،رقم:916، 2/631، ترمذی:3/306، ابوداؤد:3/190، رقم:3117،نسائی:4/5)

حافظ ابن ابی الدنیا نے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تم مرنے والے کے پاس جاؤ تو اسے لا الٰه الا اللہ کی تلقین کرو،کیونکہ جس بندے کا خاتمہ اس پر ہوگیا اس کے لیے یہ جنت کا زاد راہ ہوگا۔

(2) میت کا قرض ادا کرنا: یہ بھی سنت ہے کہ مرنے والے کا قرض جتنی جلدی ہوسکے ادا کیا جائے۔ چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مومن کی روح اپنے قرض کی وجہ سے معلق رہتی ہے جب تک کہ اس کو ادا نہ کیا جائے۔ (رواہ الترمذی، رقم:1/502)

یہ اس صورت میں ہے جب مرنے والا مال چھوڑ کر مرا ہوتو اس کی تجہیز و تکفین کے بعد اس کے ترکہ سے سب سے پہلے اس کا قرض ادا کیا جائے۔اگر کوئی شخص کسی سے قرض لیتا ہے، اور قرض ادا کرنے کی نیت ہے اور کوشش بھی کرتا ہے کہ قرض جلد از جلد ادا کردیا جائے،پھر اگر وہ قرض ادا کرنے سے قبل مرگیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : میں اس کا ولی اور ذمہ دار ہوں۔ (مسند احمد:6/74، مسند ابی یعلی، رقم:4819، زوائد المسند، رقم:986، مجمع الزوائد:4/168)

(3) غسل المیت: میت کو غسل دینا فرض کفایہ ہے،اور جو شخص میت کو غسل دیتا ہے اس کے لیے حدیث میں اجر عظیم بتایا گیا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص کسی مومن کو غسل دیتا ہے اور اس کے عیوب کو چھپاتا ہے،حق تعالیٰ شانہ اس کی چالیس مرتبہ مغفرت فرماتا ہے اور جو اس کو کفن دیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو سندس اور استبرق یعنی دیباج وکمخواب کا لباس پہنائے گا۔ (رواہ الحاکم:1/354، 362، تلخیص احکام الجنائز، ص31)

(4) میت کو کفن دینا: میت کو کفن دینا فرض کفایہ ہے۔مَردوں کے لیے مسنون تین کپڑےہیں۔ازار، قمیض اور لفافہ، اور عورت کے لیے مسنون چار کپڑے ہیں:قمیض، ازار، لفافہ اور سینہ بند۔ (بخاری:1/428، مسلم:2/649) میت کو کفن اچھا دینا چاہیے،اور وہ سفید رنگ کا ہو،لیکن کفن زیادہ قیمتی نہ ہو،مگر صاف ستھرا اور بدن کو ڈھانپنے والا ہو۔

چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو کفن دے تو اپنی استطاعت کے مطابق اچھا کفن دے۔ (مسلم، 2/651، رقم:943، ابو داؤد:3/198،رقم:3150،ترمذی،رقم:995،ابن ماجہ:1/469، مسنداحمد:1/146 ومسند الفردوس بخوہ: 1/134، رقم:316)

(5) میت پر نماز جنازہ: میت پر نماز جنازہ فرض کفایہ ہےاور اس میں میت اور نماز جنازہ پڑھنے والے دونوں کے لیے اجر عظیم ہے،کیونکہ اللہ تعالیٰ نماز جنازہ پڑھنے والے کی میت کے بارے میں شفاعت قبول فرماتا ہے،اور نماز جنازہ پڑھنے والے کو اجر عظیم عطا فرماتا ہے ۔ چنانچہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب کوئی مومن انتقال کرجاتا ہے اور مومنوں کی تین صفیں اس کی نماز جنازہ پڑھتی ہیں تو اللہ تعالیٰ مرنے والے کی مغفرت فرما دیتا ہے۔

چنانچہ راوی حدیث سیدنا مالک بن ہبیرہ رضی اللہ عنہ اگر کسی کی نماز جنازہ پڑھتے اور لوگ کم ہوتے تو وہ ان کو(چھوٹی چھوٹی)تین صفوں میں کھڑا کردیتے۔ (رواہ ابو داؤد، رقم:3166، ترمذی،رقم:1028،حاکم:1/362)

اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ اللہ تعالٰی ہمیں اچھی موت عطا فرمائے۔اور جو اس دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں ان کو جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائے۔حضور نبی کریم صلی تعالی علیہ وسلم کا پڑوسی بنائے۔یہ دعائیں ہم سب کے حق میں بھی قبول فرمائے۔

اور ہمیں میت کے جملہ حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ( آمین ثم آمین یا رب العالمین )

جس طرح زندگی میں لوگوں کے ایک دوسرے پر حقوق ہوتے ہیں جیسے کہ اولاد پر ان کے والدین کے حقوق، والدین کے ‏اولاد پر حقوق، اسی طرح مرنے کے بعد بھی مُردوں کے حقوق زندوں پر ہوتے ہیں جیسا کہ ان کے جنازے کو کندھا دینا، ان کا نمازِ ‏جنازہ ادا کرنا، ان کے لئے مغفرت کی دعا کرنا اور ان کیلئے صدقۂ جاریہ والے کام کرنا وغیرہ۔ میت کے چند مزید حقوق تفصیل کے ‏ساتھ ذکر کئے جا رہے ہیں ملاحظہ کیجئے:‏

‏(1)اچھی بات کہنا: رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جب تم بیمار یا مَیِّت کے پاس آؤ تو اچھی بات بولو(یعنی دُعا کرو) اس لئے ‏کہ فرشتے تمہاری دُعاؤں پرآمین کہتے ہیں۔(فیضان ریاض الصالحین، 6/568)‏

‏(2)میت کے لئے دعا کرنا: نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جب تم میت پر نماز پڑھو تو اس کے لئے خلوص کے ساتھ دعا ‏کرو۔(فیضان ریاض الصالحین، 6/613)‏

‏(3)میت کو کندھا دینا: حضور نبی رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو جنازے کے ساتھ گیا اور اسے تین بارکندھا دیا اس نے ‏میت کا حق ادا کردیا جو اس پر تھا۔(مشکاۃ المصابیح، 1/319، حدیث:1670)‏

‏(4)میت کے غسل و کفن اور دفن میں جلدی کرنا: غسل و کفن اور دفن میں جلدی چاہئے کہ حدیث میں اس کی بہت تاکید آئی ‏ہے۔(دیکھئے: الجوھرۃ النیرۃ، ص 131)‏

‏(5)میت کا نمازِ جنازہ پڑھنا: ہر مسلمان کی نمازِ جنازہ پڑھی جائے اگرچہ وہ کیسا ہی گناہگار و مرتکبِ کبائر ہو۔(بہار شریعت، 1/827)‏

‏(6)میت پر نوحہ نہ کرنا: آخری نبی حضرت محمدِ مصطفٰے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نوحہ کرنے والی اور سننے والی پر لعنت فرمائی۔ ‏(مشکاۃ المصابیح، 1/328، حدیث:1732)‏

‏(7)بال نہ کاٹنا:میت کی داڑھی یا سر کے بال میں کنگھا کرنا یا ناخن تراشنا یا کسی جگہ کے بال مونڈنا یا کترنا یا اُکھاڑنا، ناجائز و مکروہِ ‏تحریمی ہے بلکہ حکم یہ ہے کہ جس حالت پر ہے اُسی حالت میں دفن کر دیں، ہاں اگر ناخن ٹوٹا ہو تو لے سکتے ہیں اور اگر ناخن یا بال ‏تراش لئے تو کفن میں رکھ دیں۔(تجہیز و تکفین کا طریقہ، ص91)‏

‏(8)پردہ پوشی: میت کے حقوق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کے عیوب کو چھپایا جائے جس طرح کے حضور نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے میت کو غسل دیا اور اس کی پردہ پوشی کی تو اللہ پاک 40 مرتبہ اس کے گناہ کو بخشے گا۔‏(مستدرک للحاکم،1/677، حدیث: 1347)‏

‏(9)ایصالِ ثواب: مردہ قبر میں ڈوبتے ہوئے انسان کی طرح ہوتا ہے اور کسی کی دعا کا انتظار کرتا ہے، جب کسی کی دعا پہنچتی ہے ‏تو اسے بہت خوشی ہوتی ہے بلکہ یہ اس کے لئے دُنیا وَمَا فِیْہَا سے بہتر ہوتی ہے، حدیث میں ہے: جب کوئی شخص میت کو ایصالِ ثواب ‏کرتا ہے تو جبرئیلِ امین اسے نُورانی طباق (بڑی تھالی) میں رکھ کر قبر کے کَنارے کھڑے ہوجاتے ہیں اور کہتے ہیں: اے قبر والے! یہ ‏تحفہ تیرے گھر والوں نے بھیجا ہے قَبول کر۔ یہ سُن کر وہ خوش ہوتا ہے اور اس کے پڑوسی اپنی محرومی پر غمگین ہوتے ہیں۔ ‏(معجم اوسط، 5/37، حدیث: 6504)‏

‏ اللہ پاک ہمیں میت کے حقوق و آداب کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏