محمد ایاز جمال درجہ ثانیہ
جامعۃُ المدینہ شاہ عالم مارکیٹ لاہور ، پاکستان)
اسلام نے مرنے
والے کے حقوق بھی متعین کیے ہیں۔یہ مسلمان کی عظمت اور بزرگی کی وجہ سے ہے،اسلام
میں نہ صرف ایک زندہ مسلمان کی عظمت ہے بلکہ جب اس کی روح بدن سے پرواز کرجاتی
ہے،اس کے بعد بھی اسلام نے اس کی عظمت اور بزرگی کو تسلیم کیا ہے۔ چنانچہ اسلام نے
ضروری قرار دیا کہ مرنے کے بعد میت کو اچھے طریقے سے غسل دیا جائے،اس کی تطہیر
وتنظیف کی جائے،اس کو خوشبو وغیرہ لگائی جائے۔ اس کے غسل وکفن کا اچھے طریقے سے
اہتمام کیا جائے جس میں اس کی ستر پوشی کا پورا پورا خیال کیا جائے۔ اس پر نماز
جنازہ پڑھی جائے اور اس کے لیے دعا مغفرت کی جائے۔پھر اس کو نہایت وقار اور اعزاز
واکرام کے ساتھ قبر میں دفن کیا جائے۔یہ سب حقوق ایک مسلمان کے اس دنیا سے جانے کے
بعد کے ہیں۔ چنانچہ ایک مسلمان کے مرنے کے بعد اس کے دوست احباب اور رشتہ داروں
اور وارثوں پر کچھ حقوق لازم ہیں۔ سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ موت کیا ہے؟موت ایک ایسی صفت
ہے جو صفت حیات کے تغیر پر بدن کو عارض ہوتی ہے۔
(1)
کلمہ طیبہ کی تلقین: آدمی جب نزع
کی حالت میں ہوتو اسے کلمہ طیبہ یعنی لا الٰه الا اللہ کی تلقین کرنا چاہیے تاکہ اس کا خاتمہ ایمان پر ہو۔چنانچہ سیدنا ابو سعید
خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
مرنے والوں کو لا
الٰہ الا اللہ کی تلقین کیاکرو۔ (مسلم،رقم:916،
2/631، ترمذی:3/306، ابوداؤد:3/190، رقم:3117،نسائی:4/5)
حافظ ابن ابی الدنیا نے سیدنا عثمان بن عفان رضی
اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تم
مرنے والے کے پاس جاؤ تو اسے لا الٰه الا اللہ کی تلقین کرو،کیونکہ جس بندے کا
خاتمہ اس پر ہوگیا اس کے لیے یہ جنت کا زاد راہ ہوگا۔
(2)
میت کا قرض ادا کرنا: یہ بھی سنت
ہے کہ مرنے والے کا قرض جتنی جلدی ہوسکے ادا کیا جائے۔ چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مومن کی
روح اپنے قرض کی وجہ سے معلق رہتی ہے جب تک کہ اس کو ادا نہ کیا جائے۔ (رواہ
الترمذی، رقم:1/502)
یہ اس صورت
میں ہے جب مرنے والا مال چھوڑ کر مرا ہوتو اس کی تجہیز و تکفین کے بعد اس کے ترکہ سے سب سے پہلے اس کا قرض ادا کیا جائے۔اگر
کوئی شخص کسی سے قرض لیتا ہے، اور قرض ادا کرنے کی نیت ہے اور کوشش بھی کرتا ہے کہ
قرض جلد از جلد ادا کردیا جائے،پھر اگر وہ قرض ادا کرنے سے قبل مرگیا تو حضور صلی
اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : میں اس کا ولی اور ذمہ دار ہوں۔ (مسند احمد:6/74،
مسند ابی یعلی، رقم:4819، زوائد المسند، رقم:986، مجمع الزوائد:4/168)
(3)
غسل المیت: میت کو غسل دینا فرض
کفایہ ہے،اور جو شخص میت کو غسل دیتا ہے اس کے لیے حدیث میں اجر عظیم بتایا گیا
ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص کسی مومن کو غسل
دیتا ہے اور اس کے عیوب کو چھپاتا ہے،حق تعالیٰ شانہ اس کی چالیس مرتبہ مغفرت
فرماتا ہے اور جو اس کو کفن دیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو سندس اور استبرق یعنی دیباج
وکمخواب کا لباس پہنائے گا۔ (رواہ الحاکم:1/354، 362، تلخیص احکام الجنائز، ص31)
(4)
میت کو کفن دینا: میت کو کفن دینا
فرض کفایہ ہے۔مَردوں کے لیے مسنون تین کپڑےہیں۔ازار، قمیض اور لفافہ، اور عورت کے
لیے مسنون چار کپڑے ہیں:قمیض، ازار، لفافہ اور سینہ بند۔ (بخاری:1/428،
مسلم:2/649) میت کو کفن اچھا دینا چاہیے،اور وہ سفید رنگ کا ہو،لیکن کفن زیادہ
قیمتی نہ ہو،مگر صاف ستھرا اور بدن کو ڈھانپنے والا ہو۔
چنانچہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو کفن دے
تو اپنی استطاعت کے مطابق اچھا کفن دے۔ (مسلم، 2/651، رقم:943، ابو
داؤد:3/198،رقم:3150،ترمذی،رقم:995،ابن ماجہ:1/469، مسنداحمد:1/146 ومسند الفردوس
بخوہ: 1/134، رقم:316)
(5)
میت پر نماز جنازہ: میت پر نماز
جنازہ فرض کفایہ ہےاور اس میں میت اور نماز جنازہ پڑھنے والے دونوں کے لیے اجر
عظیم ہے،کیونکہ اللہ تعالیٰ نماز جنازہ پڑھنے والے کی میت کے بارے میں شفاعت قبول
فرماتا ہے،اور نماز جنازہ پڑھنے والے کو اجر عظیم عطا فرماتا ہے ۔ چنانچہ سرکار
دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب کوئی مومن انتقال کرجاتا ہے اور
مومنوں کی تین صفیں اس کی نماز جنازہ پڑھتی ہیں تو اللہ تعالیٰ مرنے والے کی مغفرت
فرما دیتا ہے۔
چنانچہ راوی حدیث سیدنا مالک بن ہبیرہ رضی اللہ
عنہ اگر کسی کی نماز جنازہ پڑھتے اور لوگ کم ہوتے تو وہ ان کو(چھوٹی چھوٹی)تین
صفوں میں کھڑا کردیتے۔ (رواہ ابو داؤد، رقم:3166، ترمذی،رقم:1028،حاکم:1/362)
اللہ تعالٰی
سے دعا ہے کہ اللہ تعالٰی ہمیں اچھی موت عطا فرمائے۔اور جو اس دنیا سے رخصت ہو گئے
ہیں ان کو جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائے۔حضور نبی کریم صلی تعالی علیہ
وسلم کا پڑوسی بنائے۔یہ دعائیں ہم سب کے حق میں بھی قبول فرمائے۔